Friday, September 4, 2009

ایک اور فرزند کراچی

اب جبکہ انیس سو بیانوے کے کراچی آپریشن کا چرچا اٹھا ہوا ہےاور اس سے متاثر ہونے والے تو اتنا نہیں جتنا اس سے نہ متاثر ہونے والے اس پر اپنے گراں خیالات کا اظہار کر رہے ہیں تو اپنی پرانی کتابوں میں سے گذرتے ہوئے میری نظر اس کتاب پر پڑی ، اسکا عنوان ہے کراچی۔ یہ ایک شاعر کا مجموعہ ء شاعری ہے جنکا نام ہے ذی شان ساحل۔ جسے شائع کیا ہے ادارہ 'آج کی کتابیں' نے۔اسکے تقسیم کار کراچی میں ویلکم بک پورٹ، مکتبہ ء دانیال، اور ٹامس اینڈ ٹامس  جبکہ لاہور میں گورا پبلشرز، دستاویز مطبوعات اور کلاسیک تھے۔ تاریخ اشاعت ہے ستمبر ۱۹۹۵۔
اسکا انتساب معروف صحافی اور ادیب جناب ضمیر نیازی کے نام ہے۔ اور انکے انتساب کے ساتھ ڈان میں چھپنے والی ایک خبر کا تراشہ ہے۔ جسکے مطابق انہوں نے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ کراچی سے شائع ہونے والے  بیک وقت چھ اخبارات کے بین کے خلاف احتجاجاً یہ ایوارڈ نہیں لیں گے۔ خبر کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت جب کراچی جل رہا ہے اور اسکے شہریوں کو بندوق سے ختم کیا جا رہا ہے۔ صدر، وزیر اعظم ، انکی اسمبلی اور انکی انتظامیہ کے افسران اور ہماری افواج کے افسران اعلی ڈنر پارٹیز میں محفل موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔یہ سب عوام کے خرچے پہ کیا جا رہا ہے اور کراچی کے عوام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ یہ لوگ انکی رہنمائ کرتے ہیں۔
یہ خبر ہے تین جولائ انیس سو پچانوے کی جو کہ ڈان میں شائع ہوئ۔
یہ ایک نظم ہے جو اس کتاب سے لی گئ ہے۔ اسکا عنوان ہے کراچی۔  اس کتاب میں بہت خوبصورت  نثری نظمیں ہیں اور ہر نظم سے میرا شہر سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
کراچی
ایک جنگل ہے
جہاں تاریکی، شور
اور خوف کے ہزاروں درخت
آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں
اتنی اونچی آواز میں کہ
کراچی کے اندر یا باہر رہنے والوں 
کسی کی چیخ بھی
سنائی دیتی نہیں
اصل میں اب کراچی
کوئ شہر نہیں
بلکہ خطرے کی حالت میں 
حلق سے نکلنے والی چیخ ہے
جو چاروں طرف گونج کر رہ گئ ہے
کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں 
کہ یہ چیخ مدد کے لئے بلانے والے
کسی تنہا شخص کی بھی ہوسکتی ہے
مدد کے لئے نہ آنے والوں نے 
کراچی کو
ایک غیر انسانی ہجوم سمجھ لیا ہے
یا اندھوں کی ایسی بھیڑ
جس کو بھوک لگنے پر
صرف کھیر کھلائ جا سکتی ہے
آواز نکالنے پر صرف تقریر سنائ جا سکتی ہے
اور ایکدوسرے کا ہاتھ تھام کر 
یا تھامے بغیر
حرکت کرنے پر فائرنگ کی جا سکتی ہے
مگر کراچی میں اب فائرنگ محض ہوا تک محدود نہیں رہی ہے
 گولیاں اور انکی آوازیں
شہریوں کے خوابوں تک پہنچ رہی ہیں
 مگر کراچی خوابوں کا شہر نہیں
خوابوں کے لئیے صرف ایک انتظار گاہ ہے
اپنی آسانی کے لئیے
ہم اسے بندر گاہ
یا ایک عارضی تجربہ گاہ کے طور  بھی
استعمال کرتے ہیں
اس تجربہ گاہ میں ہم
انسانی جسموں پر کوئ تجربہ نہیں کرتے
جیسا کہ سب جانتے ہیں
اس مقصد کے لئے خرگوش کام آتے ہیں
یا سفید چوہے
جن کی افزائش نسل
خطرے کی حد کو چھو لینے پر
چوہے مار دوائیں
اور بلیاں
دارالحکومت سے آتی ہیں

ریفرنس؛
ضمیرنیازی

14 comments:

  1. لگی رہیں بی بی! لگی رہیں۔

    کراچی میں صرف ایک انیس سو بیانوے کا آپریشن ہی نہیں ہوا۔ کہ اگر اس میں بے گناہ مارے گئے ہیں تو اسکی عدالتی تحقیات ہونی چاہئیے۔ آخر لوگ بھی عقل رکھتے ہیں۔ آپ اتنی باعلم اور باخبر ہوتے ہوئے بھی صرف آیک آپریشن پہ ہی ضد کر رہی ہیں۔ جبکہ بارہ مئی کی قتل و غارت آپکی نظر میں " لڑکوں" کی " چھیڑچھاڑ" تھی۔ ایسے میں آپ نے بھی اسی جانبداری کا ثبوت دیا ہے ۔ جس کا الزام آپ دوسروں کودیتی ہیں۔

    میں ایسی دس نظمیں جو اس سے بڑھ کر دردناک ہونگی ان لوگوں کی سنوا سکتا ہوں جن کے پیاروں کو "قائد کا جو غدار ہے ۔ وہ موت کا حقدار ہے" کے مرثیے کے ساتھ قائد کے بالکوں نے بوری میں بند کر کے کراچی کے چوراہوں میں پھینک دیا۔ بارہ مئی کی قتل و غارت کی فوٹیج اور تصاویر تو آپ نے بھی دیکھ رکھی ہونگی۔ ان مرنے والوں کے بیوہ بچوں اور بوڑھے والدین کے نوحے نظم بالا سے بدرجہا دردناک ہیں۔

    جعفر نے اپنے بلاگ "حالِ دل " پہ "بارے کچھ سوئی اٹکنے کا" شاید سچ ہی کہا تھا ۔

    کاش آپ سب تعصبات سے بالا ہو کر تمام ناحق اموات پہ لکھتے ہوئے "بنتِ کراچی" بن کر دکھاتیں۔

    ReplyDelete
  2. جاوید صاحب، کیا آپ نے جعفر اور دیگران کے بلاگز پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار دل بھر کے نہیں کر لیا۔ مجھے بھی لگا رہنے دیں۔ آپنے صرف بارہ مئ کی فوٹیج وہاں ست دیکھی جہاں سے آپ اپنی نفرت کا غبار نکال سکیں۔ کیا آپ نے یہ دیکھا تھا کہ جس وقت ٹی وی پر خبر آئ کہ شہر میں چار افراد مارے جا چکے ہیں۔ دن کا ایک بج رہا تھا اور ہمارے چیف جسٹس اوراعزاز احسن صاحب مسکراتے ہوئے پیسٹری اڑا رہے تھے۔ بارہ مئ کا سارا ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب ٹھٹھہ سے آنیوالا ایک قافلہ اس جگہ پر پہنچا جہاں پر ایک گوٹھ لگتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کتنی دفعہ اس شہر خرابہ میں آئے ہیں۔ ویسے میں یہ ضرور پوچھنا چاہونگی کہ جب ستائیس دسمبر کو کچھ مخصوص علاقوں میں ہلہ بول دیا گیا اور لوگوں کو جان سے مار دینے کے رلاوہ لڑکیوں کو آغوا بھی کر لیا گیا تو اس واقعے پر آپ اتنی تشویش کا اظہار نہیں کرتے۔ آپ کیوں اتنے جانبدار ہو کر ابل پڑتے ہیں۔ کسی نے تصویر کا ایک رخ دکھایا۔ میں نے دوسرا بھی رکھ دیا ۔ کیا غلط کیا۔کسی نے ایک فرزند کراچی کے ارشاد سنائے میں نے دوسرے کے سنا دئیے۔ محض اس لئیے کہ آپ جس دنیا میں رہتے ہیں اس سے باہر آکر دیکھیں۔ وہ اس سے مختلف ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔ میں نے اسی لئے ضمیر نیازی کا بھی حوالہ ڈال دیا ہے۔ موصوف کے بارے میں میری معلومات بہت محدود ہیں۔ اور نام سے تو وہ میانوالی کے رہنے والے لگ رہے ہیں۔ حیرت ہے پھر بھی انہوں نے آپکی طرح ضد نہیں باندھی۔
    میں بالکل اس ایک آپریشن کی بات نہیں کرتی۔ لیکن اس بات پر اصرار کرتی ہوں کہ چیزوں کو انکے صحیح تناظر میں دیکھا جائے۔

    ReplyDelete
  3. میں نے ایک نظم لکھی تھی جب کراچی جل رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پچھلے دنوں ایک مشاعرے میں حاضرین نے اسے بہت پسند کیا ۔ ۔ ۔ مگر یہ تقریباَ سترہ اٹھارہ سال پرانی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شاید آج بھی ایسا ہی ہے

    ملتی ہے یہ خبر اخبار میں
    جل رہا اب شہر اخبار میں

    مر جاتے ہیں کچھ لوگ کہیں
    اٹھتی ہے اک لہر اخبار میں

    لیڈر کا بیاں ہے کہ شعلہ کوئی
    کتنا بھرا ہے زہر اخبار میں
    ------------
    یا پھر یہ دیکھیے کہ جب اپنے آنکھوں سے ظلم دیکھیں تو ، ، ،

    چاروں طرف جھنگل ہے ، کہاں گئے سب آدمی
    اتنی ویرانی کہ کھو گئے ، نہ مل سکے اب آدمی

    ------------
    استاد دامن نے شاید ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا

    تواڈی اکھاں دی لالی دسدی اے
    رؤئے تُسی وی رؤئے اسی وی آں

    میرے خیال میں ترجمے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ ۔ ۔۔

    ReplyDelete
  4. کراچی میں‌رہتے ہوئے آپ ضمیر نیازی کو نہیں‌جانتیں
    تعجب ہے!!!!
    پاکستانی صحافت کی آبرو کہا جاتا تھا جی انہیں۔۔۔

    استاد دامن کا شعر میرے خیال میں‌کچھ یوں‌ہے
    لالی اکھاں دی پئی دسدی اے
    روئے تسی وہ او، روئے اسی وی آں

    ReplyDelete
  5. جناب جعفر، معلومات محدود ہونا اور نہ جاننا کچھ دو الگ مطالب کی ترکیبیں نہیں ہیں۔ میری معلومات محدود ہیں اور میں نہیں جانتی کہ انکی پیدائش کہاں کی ہے۔ یہاں ایک کرم فرما ہیں اردو کے ایک بہت اچھے ناقد، اچھے انسان جن کے علم اور رکھ رکھاءو سے میں بڑی متاءثر ہوں۔ وہ نیازی ہیں۔ دوسرے آپکے عمران خان وہ بھی نیازی ہیں دونوں میانوالی کے ہیں۔ اس لئیے یہ میرا گمان ہے کہ وہ بھی میانوالی سے تعلق رکھتے ہونگے۔
    جاوید صاحب سے مزید یہ کہنا تھا کہ اس نظم کے آخری حصے کو پڑھئیے گا یہاں میں آپکو بے نظیر بھٹو کا ایک بیان یاد دلانا چاہونگی جو انہوں نے آپریشن کے دنوں میں دیا تھا جس میں انہوں نے کراچی میں آباد اردو اسپیکنگ لوگوں کو چوہے قرار دیا تھا، بزدل چوہے۔
    اظہر الحق صاحب آپکی آمد کا بے حد شکریہ اور ان نظموں میں شریک کرنے پر مزید شکریہ۔ امید ہے آپکی شاعری سے آئندہ بھی محظوظ ہونے کا مو قع ملے گا۔

    ReplyDelete
  6. ی بی ! خوش رہیں۔
    اللہ تعالٰی آپکے علم و مرتبہ میں اضافہ فرمائے۔

    ReplyDelete
  7. آپ عطاء اللہ خان نیازی کو تو بھول گئی، وہ بھی میانوالی سے ہیں

    ReplyDelete
  8. عنیقہ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ دمیں ایسی ہوتی ہیں جو کبھی سیدھی نہیں ہوتیں تو انہیں بھی اسی دم میں سے سمجھ لیں ویسے قصور انکا بھی اتنا نہیں ہےوہ بے چارے بھی کیا کریں انہوں نے کراچی کو اس حال میں دیکھا تھا جب ایجینسیوں کی حکمرانی تھی اور یہ سب مظالم عام سی بات تھی تو جس طرح ساون کے اندھے کو ہرا ہرا نظر آتا ہے ایسے ہی ایجینسیوں کے اندھے کو ہر طرف ظلم اور زیادتی ہی ہوتی نظر آتی ہے چاہے کراچی میں سچ مچ جینے مرنے والے کچھ بھی کہتے رہیں ان جیسوں کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہوتی ہے!

    ReplyDelete
  9. انیقہ آپ بھی کہاں ماتھا پھوڑ رہی ہیں!ان جناب کا تو یہ حال ہے کہ جب بھی ان حضرت سے کسی بات کا ثبوت مانگوبجائے ثبوت مہیا کرنے کے یہ اسی طرح اپنی سرکاری ملازمت اور حیثیت اور دیانت داری اور حب الوطنی کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں مگر ثبوت ؟ان سے بات کر نا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے :lol:

    ReplyDelete
  10. Javed Gondal.
    I use to read your comments on BBC, sorry to say you are a baised person.

    Mr go back and read the history of Karachi riots and mass massacre of Mohajirs from the hands of so called sons of soil like Punjabies, Pathans and Sindhis.

    You people are itched from MQM just because MQM give strength to the Mohajirs and now no more one way traffic of mohajirs Massacres.
    go and read history so that you can know what happened in Karachi in Jan 1964(Massacre of Mohajirs for Supportin Fatima Jinnah), in 1973(when sindhi language bill was moved and mass massacre of Mohajirs took place), in 1986( back lash of operation cleanup on sohrab goth against drug mafia results in more then 400 mohajir deaths in one day), 1988(Mohajirs massacre in Hyderabad) and 1990( Pakka Qilla Operation that killed around 100 men women and children all are mohajirs), and then the brutal Genocide of Mohajirs that killed more then 15000 mohajirs.

    ReplyDelete
  11. جہانزیب اور جنرل نیازی بھی کیا میانوالی کا رہنے والا جس نے 90ھزار فوجیوں کے ساتھ بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالے،،

    ReplyDelete
  12. جہانزیب تو بھول بھی گئے ہونگے کہ انہوں نے اس پہ کمنٹ کیا تھا۔ اب کیا کروں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ