Wednesday, September 2, 2009

ہوس ثواب

میں ہمیشہ یہ سمجھتی رہی کہ زکوِٰت اس زائد مال پر فرض ہوتی ہے جو آپکے پاس سال بھر پڑا رہا ہو۔ یہاں زائد سے میری مراد صاحب نصاب ہونا ہے۔ اپنی شادی والے دن جب مختلف حاصل ہونے والے تحائف کی وجہ سے میں صاحب نصاب ہو گئ تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال اپنی شادی کے سالگرہ کے دن کو زکوٰت کا حساب لگانے کا دن بنا لیا جائے۔ اور اگر اس درمیان خدا کسی اور چیز کی توفیق دے تو اسکی زکوٰت وقت خرید پر ادا کر کے اسے باقی چیزوں کے حساب کتاب میں ڈالدوں۔ یعنی اب اسکی زکوٰت بھی باقی چیزوں کے ساتھ ادا کی جائے گی۔
کچھ عرصے بعد رمضان آگیا۔ گھر میں نئے پرانے کام کرنے والے زکوٰت کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس وقت ابھی سال ہونے میں کافی عرصہ تھا۔ اس لئے میں نے زکوٰت سے تو معذرت کر لی البتہ جو کچھ اور ممکن ہوا وہ کر دیا۔
لیکن اب ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ آخر رمضان میں کیوں اتنے جوش و خروش سے زکوٰت دی جاتی ہے۔ کسی نے ہمیں کہا کہ ارے اپنی علامیت ایک طرف رکھ دیں۔ آپ نے بے شک پڑھا لکھا ہے لیکن آپ سے بہتر اسلامیات ہمیں معلوم ہے جو بات آپ کہہ رہی ہیں اسکے حساب سے تو صاحب حیثیت شخص کو ایک رجسٹر رکھنا پڑ جائے گا کہ کونسی چیز کب خریدی۔ ہاں تو،  میں نے دلیل دی مال جمع کرنا آسان کام تو نہیں۔ اسکی ذمہ داری ہوتی ہے۔جواب ملا،' اور  اسکا کیا کیا جائے کہ آپکو صحیح سے علم نہیں  کہ زکوٰت رجب اور رمضان میں دی جاتی ہے'۔ لیجئیے، کہاں تو رمضان کا عقدہ نہ حل ہو رہا تھا۔ کہاں یہ رجب بھی آگیا۔یہ شرمندگی الگ کہ اتنا پڑھنے کے باوجود یہ چیز آج تک کیوں نہ پتہ چلی کہ رجب سے بھی زکوٰت کا تعلق ہے۔
اس لمحہ ء غور وفکر میں اپنی ایک سینئیر دوست کا خیال آیا کہ وہ ان دنوں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد ادارہ الھدی میں قرآنی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ یعنی تفسیر کے ساتھ پڑھنے میں مصروف تھیں۔ انہیں فون کھڑکھڑایا۔
باتوں باتوں میں، میں نے انہیں اپنا مسئلہ بتایا۔ کہنے لگیں، 'آج ہی زکوٰت والا سبق ختم کیا ہے۔ رجب کی کہانی یہ ہے کہ اس حکم سے پہلے عرب اپنے دیوی دیوتاءووں کے نام سے پیسے نکالا کرتے تھے جس کے لئے انہوں نے رجب کا مہینہ مقرر کیا تھآ۔ جس سال زکوٰت فرض ہوئ اس سال رسول اللہ نے رجب کے مہینے اپنے قاصد تمام قبائل کو بھیجے تاکہ انہیں نئے حکم کا پتہ چل جائے اور جو رقم انہوں نے اس سال اپنے  بتوں کے لئے نکالی تھی اسے وصول کر لیا جائے۔ بس اس سال اس مہینے وصولی کے بعد یہ چیز ختم ہو گئ۔ کیونکہ زکوٰت سال بھر رکھے رہے زائد مال پر فرض ہے'۔
اچھا، میں نے مزید کہا۔ 'اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ رمضان سے اسکا کیا تعلق ہے'۔ اب وہ تھوڑا سا جھجھکیں۔' ویسے تو کوئ تعلق نہیں ہے۔ لیکن دیکھو ناں رمضان میں ہر نیکی کا ثواب کئ گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور پھر عید پر لوگوں کو پیسے چاہئیے ہوتے ہیں اس لئے لوگ رمضان میں زیادہ زکو٘ دیتے ہیں'۔
 یہ جو ثواب کمانے کی ایک نئ لہر پاکستانی مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ کیا واقعی اس سے انہیں اتنا ہی ثواب ملتا ہے۔اگر آپ پر محرم کے مہینے زکوٰت فرض ہوتی ہے تو آپ نو مہینے رمضان کےمہینے کا انتظار کریں گے تاکہ زیادہ ثواب ملے۔
میں گاڑی سگنل پہ روکے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوں۔ ہر طرف بل بورڈز لگے ہیں۔ خوب بڑے۔ 
ایک طرف عمران خان کالی شیروانی پہنے کھڑے مسکرا رہے ہیں.  انہیں زکوٰت چاہئیے اپنے ہسپتال کے لئے۔  دوسری طرف ایک بورڈ پر ایک غریب بچی کا چہرہ سوال کر رہا ہے، زکوٰت مجھے نہیں دیں گے کیا۔ ایک اور جانب کسی اور ادارے کا اشتہار لگا ہے، ہم ہیں اسکے صحیح مستحق۔گاڑی کے شیشے پر تین چار لوگ ہاتھ مار رہے ہیں، زکوٰت، زکوٰت۔ میری چھوٹی سی بچی پیچھے اپنی کار سیٹ میں بندھی مجھ سے سوال کرتی ہے۔ اماں، یہ کیا کر رہے ہیں۔ میں گاڑی آگے بڑھاتی ہوں اور سوچتی ہوں۔ یہ سب زیادہ ثواب حاصل کرنے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔

20 comments:

  1. زکوٰۃ مانگنے کے لئے چند ادارے لاکھوں روپے خرچ کرکے بڑی بڑی تشہیری مہمات چلارہے ہیں جن میں شوکت خانم فاونڈیشن سرفہرست ہے۔ اور واقعی ہر طرف سے مانگنے والوں کا ایسا تانتا بندھا ہے کہ منع کرتے کرتے بھی خجالت اور احساس جرم سا ہونا لگتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. اگر تمام لوگ رمضان کے انتظار میں بیٹھے رہے گے تو زکوۃ کا ادراہ جی ہاں ادارہ تو باقی سال بالکل مفلوج ہوجائے گا۔ یہی پڑھنے میں آیا ہے اور یہی آج تک علماء کا استدلال بھی ہے کہ صاحب نصاب کو سال بھر کی بچت پر ایک سال مکمل ہونے پر زکوۃ ادا کردینی چاہیے اب وہ سال رمضان میں مکمل ہو تو رمضان میں ورنہ رجب، شعبان، شوال اور صفر میں بھی دی جاسکتی ہے۔

    ReplyDelete
  3. زکوٰۃ فرض تو سال گزرنے پر ہوتی ہے لیکن ادا پہلے بھی کی جاسکتی ہے۔ رمضان میں زکوٰۃ دینے کا یہی لالچ ہوتا ہے کہ ثواب ہر چیز پر زیادہ ملتا ہے۔ ویسے بھی اگر زیادہ تنگی نہ ہو تو ایک دفعہ آپ رمضان میں زکوٰۃ دے دیں تو پھر اس کے بعد جو کچھ بھی خرید کریں گے اس کا حساب اگلے رمضان تک آسان ہو جائے گا۔ اللہ تعالٰی دلوں کے حال بہتر جانتا ہے سو رمضان میں دیں یا محرم میں، دینی ضرور چاہئے اور سال سے دیری نہ ہو بس یہ دھیان رہے۔
    واللہ اعلم

    ReplyDelete
  4. میں تو اب بھی وہی کرتی ہوں جو پہلے دن سوچا تھا۔ یعنی رمضان آنے کا انتظار نہیں کرتی۔ جس وقت ایک چیز کا وقت ہو گیا اسے اس وقت کر دینا چاہئیے کیونکہ موت اور زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں۔ دوسرے ثواب کے چکر میں زکوت کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ میں اپنے طور پر یہی سمجھتی ہوں کہ کیونکہ انسان اپنی عقل اور سمجھ میں مختلف درجات رکھتے ہیں تو ثواب کا لالچ بھی ایک خاص ذہنی سطح کے لئے رکھا گیا ہے۔ ورنہ نفس مطمئنہ کس حالت کا نام ہے۔کار ثواب کے بجائے اگر یہ سوچا جائے کہ ایک مسلمان کو یہی کرنا چاہئیے تو رمضان کے علاوہ بھی نیکی کرنے کا اور دین پر چلنے کا جذبہ باقی رہے گا۔

    ReplyDelete
  5. سبحان اللہ عنیقہ !
    ویسے یہ کیا لکھ دیا آپنے وہ جو ان لائٹینڈ ماڈریشن کا طعنہ دیتے تھے آپکو آپ نے ان کا بھی خیال نہیں کیا !

    ReplyDelete
  6. عنیقہ صاحبہ! آپ بالکل درست سمجھتی ہیں کہ زکوٰۃ ہمیشہ اس زائد مال پر فرض ہوتی ہے جو تمام سال پڑا رہا ہو۔ اگر اسے سال مکمل نہیں ہوا تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، اگر کوئی عدم ادائیگی پر ناک بھوں چڑھاتا ہے تو چڑھانے دیں، اسے اس کی دینی کم علمی ہی سمجھیے گا۔
    البتہ نیکی کے کاموں اور ثواب کے سلسلے میں جوش و خروش کا مظاہرہ کرنا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنا تو اللہ کا حکم ہے۔ "وسارعو الی مغفرۃ"(دوڑو (اپنے رب کی) مغفرت کی طرف) کا اشارہ کس طرف ہے؟ پھر سورۂ تکاثر میں دنیا کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والوں کا انجام؟ پھر "لن تنالو البر حتیٰ تنفقو مما تحبون" کی آیت کہ "تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی قیمتی ترین چیز قربان نہ کرو" میرے خیال میں یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ نیکی کے کاموں میں سبقت لینے کے لیے کوشش کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں خیر ہی پیدا ہوگا۔ ہاں خود نیکی کے کام کرنے کے بعد دوسروں کو حقیر جاننا، یا دکھاوے و ریاکاری کے لیے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس ضمن میں اگر کوئی نیک دلی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
    اور ہمارے ہاں یہ جو مانگنے کا نیا انداز نکل پڑا ہے، ذاتی حیثیت میں میرے لیے بڑا تکلیف دہ ہے۔ اشتہار بازی کے ضمن میں لاکھوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں جو مزید مستحقین کے کام آ سکتے تھے۔
    تحریر کا اختتام ہمیشہ کی طرح بہت شاندار رہا۔ خوش رہیے۔

    ReplyDelete
  7. عبداللہ، ایسے لوگوں کو پتہ چلنا چاہئیے کہ روشن خیال ہونے میں اور بے راہرو ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اس فرق کو نہیں جان سکتے تو انہیں خاصے حیران کن صدمات پہنچیں گے۔

    ابو شامل، خیر اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور انکے ثواب کو گننا اور پھر سود و زیاں کو تولنا میرا خیال ہے اس میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ نبی کریم کی زندگی میں ان سے شرف ملاقات حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہوتی تھی اور شاید اسکا بڑا ثواب بھی ہوگا۔ لوگ ان سے ملنے کہاں کہاں سے نہیں آتے تھے۔ لیکن حضرت اویس قرنی ان سے والہانہ محبت کرنے کے باوجود وہاں آنے سے قاصر تھے کیونکہ انکی والدہ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئ اور نہ تھا ۔ رسول اللہ نے انکے متعلق پیشن گوئ فرمائ انکے نام سے تصوف کا ایک سلسلہ بھی ہے۔
    کراچی میں کچھ علاقوں میں میمن بہت رہتے ہیں۔ ربیع الاول میں ایسے علاقوں میں بڑا چراغاں ہوتا ہے اور وہ بھی بالخصوص ہرے رنگ کی روشنی کا۔ میں نے ایک لڑکے سے پوچھا یہ ہرے رنگ کی روشنی کیوں استعمال کرتے ہو۔ جواب ملا کیونکہ اسکا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے خیال آرہا ہے کہ اس پہ تو ایک پوری پوسٹ بن سکتی ہے۔ شکریہ آپکا۔

    ReplyDelete
  8. نئی ٹیگ لائن۔۔۔
    دھمکی ہے یا دعوت۔۔۔

    ReplyDelete
  9. آپکی تحریر اچھی ہے۔ ہمیں صرف اسکے موضوع کے لئیے لفظ "ھوس" کے انتخاب سے اختلاف ہے۔

    کچھ عرصہ پہلے بی بی سی انٹر نیٹ اردو ایڈیشن میں بھی ذیادہ نیکیوں کے بارے میں لفظ "ھوس" لکھا گیا تھا جو نامناسب ہے۔ کیونکہ ثواب کمانا ایک نیک عمل ہے اور ایک نیک عمل کے لئیے لفظ "ھوس" لکھنا غیر مناسب ہوگا ۔

    بہر حال یہ میری ذاتی رائے ہے۔

    رمضان میں غالبا زیادہ ثواب کے چکر میں لوگ زکٰواۃ نکالتے ہیں۔ زکٰواۃ یا زکواٰۃ کے علاوہ بھی کسی ضروتمند کی اس وقت مدد کی جائے ۔ جب وہ مدد کا خواہاں ہوتو سکا بھی اپنا ہی اجر ہے۔ جو شاید شاید زکٰواۃ دینے کے لئیے رمضان کے انتظار میں بھی نہ ملے۔

    بہتر ہوتا آپ اسے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیتیں کہ زکوٰۃ رمضان سے پہلے فرض ہے۔ اور ذکٰواۃ دیتے وقت جیسے کہ ہمارے ۃان عام چلن ہے۔ نہ تو کسی کو نادار ہونے کی وجہ سے حقیر سمجھا جائے اور نہ ہی اس میں احسان کا پہلو ہونا چاہئے ورنہ زکٰواۃ کا اجر ختم ہوجاتا ہے۔ نیز زکٰواۃ خاص مستحق افراد کے لئیے ہے۔ مساجد وغیرہ کو زکٰواۃ نہیں لگتی۔ یہ مساجد کا ذکر اس لئیے ضروری ہے کہ مجھے ایک آدھ دفع اتفاق سے میرے علم میں یہ بات آئی کہ صاحب نصاب کسی مسجد کو زکٰواہ دینے والے تھے۔ انھیں اصل حقیقت بتانے ان صاحب نے مستحق افراد کو زکٰواۃ دی۔

    اللہ آپ کو اجر دے۔ آمین

    ReplyDelete
  10. زکوٰۃ رمضان سے پہلے فرض ہے۔

    زکوٰۃ رمضان سے پہلے فرض ہے۔ سے مراد رمضان کے روزے اسلام کا چوتھا بنیادی رکن ہے جبکہ زکٰواۃ نماز کے بعد تیسرے نمبر پہ فرض ہے۔

    ReplyDelete
  11. سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
    اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

    مندرجہ بالا ارشاد علامہ اقبال کا ہے۔ کچھ چیزیں انسانی خوبیاں ہوتی ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے ہر عمل کی جزا چاہتے ہیں اور وہ لوگ جو اچھے کام کرتے ہیں اس لئے کہ معاشرے کو، انسانوں کو انکی ضرورت ہےاس میں بنیادی طور پر نیت کا فرق ہے اور میں سجھتی ہوں کہ اس نیت کے فرق کی وجہ سے دوسری چیز میں برکت زیادہ نظر آتی ہے، تسلسل زیادہ نظر آتا ہے اور اس سے اپنے آپ کو منسلک کرنے والے لوگ زیادہ مستقل مزاج نظر آتے ہیں۔ جو لوگ ثواب کمانے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں وہ بہت جلد نیکیاں کرتے ، کرتے تھک جاتے ہیں، کیونکہ بظاہر تو ہمیں ثواب نظر نہیں آرہا ہوتا۔ اس لئے ان کے کاموں میں دکھاوا زیادہ ہوتا ہے۔ کم ازکم لوگوں میں ہی شہرت ہو جائے۔
    جیسا کہ راشد کامراں صاحب نے کہا کہ زکوت ایک ادارہ ہے۔ اسے معاشرے میں معاشی تفریق کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اسکی ترسیل پورے سال ہونی چاہئیے نہ کہ اسے رمضانوں کے ساتھ وابستہ کر دیا جائے۔ یہ چلن شاید ضیا الحق کے دور حکومت رمضان کے مہینے میں حکومتی سطھ پر کٹوتی کے لئے بنائے گئے قانون کی وجہ سے بڑھا ہے۔ یہ تو سرکاری سطح پر کاموں کو آسان بنانے کے لئے کیا گیا ہوگا۔ میرے ذاتی خیال میں اسکی دل شکنی کرنی چاہئیے۔اور ختم کرنے کی طرف قدم اٹھانا چاہئیے۔ یہ چیز اسکی اسلامی روح سے متصادم ہے۔ مزید کچھ عرصہ گذرنے پر نئے لوگ بھی اس مغالطے کا شکار رہیں گے کہ زکوت رمضان سے منسلک ہے۔ خدا ہم سب کو ثواب کی ہوس میں دینی ارکان کی شکل بگاڑنے کی عادت قبیح سے محفوظ فرمائے۔

    جعفر، جب ایک تیر سے دو شکار ہو رہے ہوں تو عقلمندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دونوں ہی کئے جائیں۔میں ہمیشہ ایسے تقاضوں کو لبیک کہتی ہوں۔

    ReplyDelete
  12. بڑا اچھا موضوع چل رہا ہے تو کيوں نہ ميں بھی فائدہ حاصل کر لوں ميرے پاس چند پلاٹ اور تھوڑا سا زيور ہے کسی سے زکوت کا حساب کتاب پوچھتی ہوں تو مختلف جواب سننے کو ملتے ہيں کوئی کہتا ہے زکوت فرض نہيں ہوئی کوئی کہتا ہے کہ کسی مستند مولوی سے پوچھو اب ادھر ميں کہاں سے مستند مولوی ڈھونڈوں اور کوئی مولوی تو جواب دينا ہی پسند نہيں کرتے آپ خواتين و حضرات ميں سے اگر کوئی ميرا مسئلہ حل کر سکتے ہيں تو عنيقہ کے فورم پر بتائيں ميں آپکو تمام تفصیلات ايميل کر دوں گی رمضان ميں لگے ہاتھوں يہ ثواب بھی حاصل کر ليں

    ReplyDelete
  13. بھلے کری آیا اسماء، معلوم نہیں کوئ مولوی صاحب اس بلاگ تک پہنچ پائیں یا نہیں کہ یہ روشن خیالوں کا بلاگ ہے۔ لیکن اسکا ایک آسان سا حساب ہے جس کے لئے کسی مولوی صاحب کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپکے گھر میں اگر ترازو موجود ہے تو اچھی بات ہے ورنہ ایک چھوٹا سا ڈیجیٹل بیلینس لے لیں۔ جو کچن میں استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی چلے گا اور آسانی سے کچن وئیر کی شاپ سے مل جائے گا۔ اپنے زیور کو تول لیجئیے۔ بیلینس میں یہ چیز دیکھ لیں کہ گرام کی حدوں میں تول سکتا ہو۔ محض پاءونڈ یا کلو میں نہیں۔ کیونکہ حساب گرامز میں لگانا ہو گا۔ زکوت ساڑھے سات تولے سونے یا باون تولہ چاندی پر فرض ہوتی ہے۔جبکہ ایک تولہ تقریباً بارہ گرام کے برابر ہوتا ہے اور ساڑھے سات تولہ ۸۷ ستاسی گرام کے برابر ہوگا، جبکہ باون تولہ ، چھ سو بارہ گرام ۶۱۲۔

    اب جبکہ آپ کو اپنے سونے کا وزن پتہ ہے تو ساڑھے سات تول سونا یا باون تولہ چاندی یا اس سے زائد ہونے کی صورت میں آپکو زکاوت ضرور دینی ہے۔ مارکیٹ میں آج کے دن کا سونے اور چاندی کا بھاءو معلوم کر لیجئیے۔ چونکہ بیلینس سے آپ نے اپنے زیورات کا وزن معلوم کر لیا ہے تو اب اسکی موجودہ بالکل صحیح قیمت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ پاکستانی زیورات کی صورت میں سونے کا زیور عام طور پر بائیس قیراط کا ہوتا ہے تو اسی حساب سے قیمت نکال لیں۔ حاصل شدہ رقم کا ڈھائ فی صد نکال لیں۔ یہ آپکی زکات ہے۔
    بالکل صحیح جاننے کے لئیے اگر زیور خریدتے وقت سنار سے اس میں موجود خالص سونے کی مقدار معلوم کرلیں تو اور آسانی رہے گی۔ کیونکہ زیورات میں استعمال ہونے والے سونے میں ملاوٹ کی جاتی ہے۔ باہر کے ممالک میں عام طور سے اٹھارہ یا یا بعض اوقات نو قیراط سونے کا زیور بھی ملتا ہے۔ تو اس حساب سے انکی قیمت دیکھ لیں۔ بہت زیادہ جڑاءو زیور ہونے کی صورت میں عام نگینوں کے اوپر کوئ زکات نہیں۔ اگر پتھر بہت زیادہ قیمتی ہے تو اسکے حالات الگ ہونگے۔
    پلاٹ یا زمین پر میرے علم کے مطابق کوئ زکات نہیں۔ زرعی زمین پر البتہ عشر نافذ کیا جاتا ہے جس کی تفصیلات اس وقت مجھے یاد نہیں۔
    اس مشورے میں اگر کوئ اور کچھ کمی بیشی کرنا چاہے تو ضرور کریں۔ مجھے کوئ اعتراض نہیں۔ اور اس مرحلے پر میرے اعتراض کی کوئ حیثیت بھی نہیں۔
    آپ کا ثواب اپنی جگہ لیکن ایسا ہے کہ رمضان کے بعد بھی ضرورتمندوں کی ضرورت ختم نہیں ہوتی۔ اور صرف رمضان میں نکالنے سے آپکا ثواب شاید زیادہ ہو جائے لیکن رمضان کے بعد ضرورت مند اور بڑھ جاتے ہیں۔ زکات کا درجہ عبادات میں ہے۔ یہ صاحب استطاعت، خوش حال لوگوں پر معاشرے کا حق ہے۔ اور ہمیں اس قسم کے حقوق کی بجا آوری میں سوسائٹی کے بہتر مستقبل اور اسے مضبوط کرنے والے عوامل کی طرف دیکھنا چاہئے میرا خیال ہے کہ اس صورت میں زیادہ ثواب ملے گا کہ یہ صدقہ ء جاریہ بھی بن جائے گا۔

    :)

    ReplyDelete
  14. بہت شکريہ عنيقہ (ديکھا ميں کتنی عقلمند ہوں ايک دفعہ آپ نے سمجھايا کہ انيقہ نہيں عنيقہ ہوں ميں تو مجھے بات سمجھ آ گئی وگرنہ ادھر تو لوگ بات سمجھنے ميں تمام عمر لگا ديتے ہيں ) سونے کا تو مجھے پتہ ہی ہے کيونکہ درسی کتب ميں کافی ذکر ہوتا تھا البتہ يہ کوئی بتائے کہ سونا تھوڑا ہو اور اتنے پيسے بھی سال بھر پڑے رہيں کہ اگر ان سے سونا خريدا جائے تو پہلے والا اور يہ رقم ملا کر ساڑھے سات تولے بن جائے تو کيا اسطرح زکوت دينی ہو گی يا سونا الگ سے ساڑھے سات تولے کو پہنچ رہا ہو اور چاندی الگ سے باون تولے (اس سوال کا جواب اتنا ضروری نہيں ہے کيونکہ نہ ميرے پاس سونا ہے نہ بينک بيلنس صرف معلومات کے ليے پوچھ رہی ہوں) ميرا اصل مسئلہ پلاٹ کا ہے ، کسی نے تو مجھے بتايا ہے کہ چاہے جتنے بھی پلاٹ ہوں ان پر زکوت نہيں ہے کيا واقعی ايسا ہے ؟ قبضہ اور غير قبضہ پلاٹ کا کيا چکر ہے يا دونوں ايک ہی کيٹگری ميں آتے ہيں؟ اب ديکھا ہم ہر وقت مولويوں کو ايويں ہی کوستے رہتے ہيں کبھی ان کی ضرورت کتنی شدت سے پيش آتی ہے

    ReplyDelete
  15. اسماء، آپ کے عقلمند ہونے میں کوئ شبہ نہیں اتنے لوگوں کو لگامیں ڈال دیتی ہیں۔
    :)
    جی ہاں آپ بالکل صحیح سمجھ رہی ہیں اگر اتنا کیش ہو کہ ساڑھے سات تولے سونے کے حساب کو پہنچ رہا ہو تو اس پر اسی حساب سے زکات ہو گی۔ زمین کے بارے میں ، میں نے افتخار اجم بھوپال صاحب کا مرتب کردہ مضمون بھی دیکھ لیا ہے۔ جو انہوں نے مجھے اس تحریر کے بعد ای میل کیا تھا۔ اس میں بھی زمین پر زکات کا کوئ تذکرہ نہیں۔ آپ کا ای میل اڈریس نہیں ورنہ میں آپکو یہ فارورڈ کر دیتی۔
    یہ ایک الگ دلچسپ موضوع ہے کہ کیا اسلام میں مولویوں کی اتنی ہی ضرورت پڑتی ہے جتنا کہ ہم ان پر انحصار کرتے ہیں۔ میں نے اسے ذہن میں رکھ لیا ہے۔ کیونکہ کافی عرصے پہلے ڈان میں ایک کالم نگار عرفان حسین بھی اس پر کچھ لکھا تھا۔ اور مجھے اس سے اتفاق تھا۔

    ReplyDelete
  16. دیکھیں میں پہلے کبھی کسی جگہ پڑھے ہوئے مسئلے کی بنیاد پر یہ مشورہ دوں گا کہ زمین کے حوالے سے مزید ریسرچ کر لیں کیونکہ ایسا پلاٹ جس پر رہائشی مکان تعمیر کرنے کا ارادہ ہو تو غالبا زکوۃ نہیں ہوتی لیکن بطور ہولڈنگ جو پلاٹ رکھے جاتے ہیں یا جن کو رکھا تو رہائش کے لیے تھا لیکن اچھے پیسے ملنے پر بیچ دیا ان پر زکوۃ دینی ہوتی ہے۔ اور سونے کا حساب ایک نصاب ہے اس کے لیے سونا بذات خود ہونا ضروری نہیں بلکہ تمام چیزیں‌ جن پر زکوۃ دینی ہے ان کا مجموعہ اگر اس نصاب کو پہنچتا ہو تو پھر زکوۃ فرض‌ہوتی ہے اور اس کے مصارف بھی مخصوص ہیں لہذا ہر جگہ بھی زکوۃ نہیں دی جاسکتی۔
    آپ بہر حال اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرلیں یہ میں نے وہ بیان کیا جس کی بنیاد پر میں ہمیشہ زکوۃ کا حساب کرتا ہوں

    ReplyDelete
  17. آپکی بات میں وزن ہے راشد کامران صاحب۔ میں بھی سوچ رہی ہوں کہ جب سونے کے اوپر زکٰوت ہے چاہے زیور ہو یا انویسٹمنٹ کے خیال سے لیا ہو تو زمین پر بھی ہونا چاہئیے جو انویسٹمنٹ کے خیال سے لی گئ ہو۔
    میں نے نیٹ پر بھی چیک کیا اس میں بھی زمین کی تفصیل نہیں۔ البتہ اسلامی محفل نامی اردو سائٹ پر انہوں نے ہر طرح کے مال تجارت پر زکات بیان کی ہے۔
    کسی مستند کتاب میں دیکھنا چاہئیے۔

    ReplyDelete
  18. ديکھا يہی تو مسئلے ہيں پلاٹ کے ساتھ کہ کچہ پتہ ہی نہيں چلتا کہ کس نيت سے ليے کس پلاٹ کا کيا کريں کتنی زکوتہ ديں اب آپ بتائيں ناں ميں کدھر سے پتہ کروں ، ويسے تو جاويد گوندل صاحب ہر کسی کی پرابلم کا حل ڈھونڈ لاتے ہيں ليکن ميرا شمار ذرا اينٹی گروپ ميں ہوتا ہے اسليے ميرے مسئلے کو شايد انہوں نے بھی قابل غور نہيں سمجھا اور يہ جعفر اور ڈفر بڑے نيک نمازی بنے پھرتے ہيں اب بتائيں ناں ذرا ميرے مسئلے کا حل؟

    ReplyDelete
  19. راشد کامران صاحب کی بات بلکل درست ہے اسماء!
    اب یوں سمجھیئے کہ آجکل اتنی مہنگائی ہے تو کوئی بندہ اگر یہ سوچ کر دو پلاٹ رکھ لیتا ہے کہ ایک کو بیچ کر ایک کو بنوا لے گا تو ان دونوں پر کوئی زکوات نہیں ہوگی یا پھر ایک سے زیادہ پلاٹ ہیں اور نیت رہائش کی ہی ہے تو بھی اس وقت تک زکوات نہیں جب تک اس کی نیت بدل نہ جائے اور جب نیت بدل گئی تو پھر اس کے بکنے پر جو منافع ہاتھ آیا اس مین سے زکوات کی رقم منہا کر کے بقیہ استعمال میں لاسکتا ہے،
    ویسے اسماء مولویون کے بغیر بھی مسئلے حل ہو جاتے ہین اگر گھر مین احادیث کی کتب موجود ہوں اور بندہ پڑھا لکھا ہو

    ReplyDelete
  20. لیکن اب ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ آخر رمضان میں کیوں اتنے جوش و خروش سے زکوٰت دی جاتی ہے۔
    تو میرے محدود علم کے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان میں اعمال کا ثواب پڑھ جاتا ہے اسی لئے لوگ رمضان میں ذیادہ زکوتہ دیتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ باقی مہینوں میں زکوت خیرات نہ دے جائے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ