یہ سن دو ہزار ایک کا اکتوبر تھا۔ جب میں نے پہلی دفعہ بلوچستان کا رخ کیا۔ ہمیں بذریعہ سڑک گوادر جانا تھا۔ گوادر کراچی سے ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشرف کو حکومت سنبھالے دو سال ہو رہے تھے۔ اور انکی حکومت کے بہترین فیصلوں میں سے ایک کراچی سے گوادر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر شروع ہو چکی تھی۔یہ سڑک مختلف مقامات پر بن رہی تھی اور اس وقت تک زیادہ تر راستہ کچا تھا۔ ہمیں ایک رینج روور گاڑی میسر تھی۔ اور ان راستوں پر جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا فور وہیل ڈرائیو کے بغیر چلنا ناممکن تھا۔ اسکے باوجود ہمیں کراچی سے گوادر پہنچنے میں تقریباً ڈھائ دن لگے۔ اس سفر کی روداد روزنامہ جنگ میں قسط وار شائع ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کو اسے پڑھنے سے دلچسپی ہو وہ دئیے ہوئے لنک پر جا سکتے ہیں۔ اس وقت میرا مقصد اس کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے۔
یہ سڑک تقریباً ساحل کے ساتھ ہے۔ راستے میں مختلف آبادیاں ملیں۔ گوادر جو کہ مکران ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے اسوقت ایک قصباتی شہر سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اسکی آبادی چالیس ہزار کے قریب تھی۔ شہر کے مرکز سے بس ایک سڑک گذر رہی تھی ۔ بیشتر گھر پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔ جس ہوٹل میں ہم جا کر ٹہرے یہ چار کمروں کا ایک ریسٹ ہاءوس تھا۔ پانچ سال بعد یہی ہوٹل متوقع ترقیاتی منصوبوں کے باعث دس کمروں تک بڑھا دیا گیا۔ اسکے علاوہ پی سی والوں نے بھی اپنا ایک ہوٹل بنا لیا تھا۔ ہوٹل والوں کے بقول روڈ بن رہی، زمین کے دام چڑھے ہوئے ہیں اور لوگ آرہے ہیں۔ گوادر ایک نئے، روشن مستقبل کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اسکے بعد سے اب تک میں لا تعداد بار وہاں جا چکی ہوں۔ پہلے ہوٹل میں رکنا پڑتا تھا۔ پھر ایک عزیز نے ایک چھوٹا سا گھر بھی وہاں بنا لیا۔ جہاں سمندر اتنے نزدیک کہ جب وہ مد پر ہوتا تو اسکی لہریں چہار دیواری سے ٹکراتیں۔اس گھر کو بنانے میں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا انکی ایک الگ داستان ہے۔ اسکی بنیادی وجہ وہاں کاریگروں، راج، مستری مزدور کا نہ ہونا تھا۔ وہاں کی بیشتر آبادی ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہے اور جو کچھ لوگ ہیں انہیں صرف مقامی پرانے انداز سے کام کرنا آتاہے۔ سب بلڈنگ مٹیریئل کراچی سے گیا۔ حتی کہ بڑھئ کو ایک دفعہ دروازوں کے ناپ کے لئے لیجایا گیا اور دوسری دفعہ انکو لگوانے کے لئیے۔ یہ ایک بہت سادہ سا گھر ہے لیکن اتنے سادہ گھر کو بنانے کے لئے بھی انہیں خاصی مشقت سے گذرنا پڑا۔
اس دوران یہاں پر بے پناہ ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا۔ عام لوگوں نے اتنا کام ہوتے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے کاروبار نکال لئے۔ حتی کہ آج گوادر میں ایک سپر مارکٹ بھی موجود ہے۔ پچھلے سال جب مجھے جہاز کے ذریعے ایک دفعہ پھر گوادر جانے کا اتفاق ہوا تو اوپر سے یہ دیکھکر دنگ رہ گئ کہ کالی سڑکوں کی لائینیں کتنی دور تک نظر آرہی تھیں۔ گوادر اور اسکے اطراف میں اب سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔
کوسٹل ہائ وے ایک بہت خوبصورت سڑک ہے جو سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بن سکتی تھی۔ پیسے نے جب گوادر کا رخ کیا تو اب یہاں بھی ایسے گھر نظر آتے ہیں۔ جو کراچی میں پوش علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ اب سے دو سال پہلے مقامی لوگ اتنے مالدار ہو رہے تھے کہ انکے پاس قیمتی گاڑیاں اور ہاتھوں میں سیٹیلائٹ فون ہوا کرتے تھے۔ مقامی لوگ تو فائدہ اٹھا ہی رہے تھے مگر باہر سے بھی لوگ آکر نئے کاروبار متعارف کروا رہے تھے۔ یہ وہ گوادر اور یہ وہ ضلع مکران نہیں تھا جسے میں نے سن دو ہزار ایک میں دیکھا۔ عام لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا تھا کہ ایکدم سب چیزوں کو بیک گئیر لگ گیا۔ مشرف کو ہٹانے کی تگ و دو شروع ہو گئ۔ اور بالآخر ان سے نجات پانے کے جشن منا لئے گئے۔
اب ہر چیز جیسے رک گئ ہے۔ ہر جگہ ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔ اس صورتحال کو پیدا کرنے والے اپنے لوگوں کے ساتھ مخلص نہیں۔ صرف ایک کوسٹل ہائ وے جو کہ ایک آمر کے دور میں بنی جسنے اس علاقے کی سوچ کو تبدیل کردیا۔ اسے انکے سرداروں نے کبھی بنانے میں دلچسپی نہ لی۔ انہیں وسائل چاہئیں مگر اپنی فلاح اور اپنی ذاتی ترقی کے لئے۔ ان سرداروں کے بچے ملک سے باہر بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ مگر گوادر جیسے شہر میں یہ ایک ہسپتال، ایک بہتر تعلیمی ادارہ، کوئ وو کیشنل انسٹیٹیوٹ نہیں بنوا سکتے تھے۔
میں اخباروں میں خان آف قلات کے بیانات پڑھتی ہوں اور بگتی جیسے ظالم شخص کو شہید قرار دینے کے بیانات پڑھتی ہوں۔ کل ٹی وی پر ایک صاحب کو سن رہی تھی کہ کتنے جوش اور جذبے سے ان ظالموں کے مارنے کی تحقیقات کروانا چاہ رہے تھے۔ کوئ کمیشن ایسا کیوں نہیں بنانے کو کہتے جو ان سرداروں کے خلاف تحقیقات کرے جو لاکھوں لوگوں کو جانوروں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور کرتے ہیں اور اپنے تھرل کے لئے ایک قوم کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ بگتی جو کہا جاتا ہے کہ آکسفورڈ سے پڑھا ہوا تھا کتنے اسکول انہوں نے قائم کروائے اپنے علاقے میں۔ ظلم کی جو داستانیں اسکے نام سے زبان زد عام تھیں۔ شاید ہی کسی اور کے نام پر اتنی ہوں۔
دے رہے ہیں جو تمہیں اپنی رفاقت کا فریب
انکی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاءوگے
میں سوچتی ہوں کہ جب یہ نام نہاد آزادی کے رہنما بلوچستان کو آزاد کروا لیں گے تو انکے بچے تب بھی ملک کے باہر پڑھیں گے۔ یہ علاج کے لئے تب بھی بلوچستان سےباہر جایا کریں گے۔ لیکن اس وقت یہ کیا بہانہ بنایا کریں گے؟
یہاں پر مزدور سے لیکر انجینیئر باہر سے آیا کریں گے۔ کیونکہ فی الحال تو انکے علاقے میں نہ کوئ اچھا تعلیمی ادارہ ہے نہ ہسپتال۔ نہ کسی اور شعبے میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی کوئ قابل ذکر تعداد۔ یہ حکومتی انتظامی معامالات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور حکومتی عہدوں کو اپنے درمیان بانٹ لیں گے۔ یہ کس چیز کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عہدوں کی جنگ۔
اگر انہیں اپنے لوگ عزیز ہوتے تو یہ سڑک مشرف کے دور میں نہیں اس سے بہت پہلے بن چکی ہوتی۔ نواز شریف نے موٹر وے نہیں یہ سڑک بنوائ ہوتی۔ اس وقت تو بگتی زندہ تھا اور شریف جیسے محب وطن لوگ حکمران تھے۔
لیکن یہ توفیق مشرف کو ملی۔ اور اب انکے جانے کے بعد یہ سڑک پھر ویران ہے۔ اسپر چلنے والے ٹرالر اور ٹرکس ابھی رواں بھی نہ ہوئے تھے کہ رک گئے۔ نجانے وہ پہئیے کب چلیں گے جو ترقی کے خوابوں کو ہر آنکھ میں بانٹیں گے اور انکی تعبیریں ہر گھر میں نظر آئیں گی۔ یا یہاں کے لوگ پھر اپنے دشمنوں کو اپنا مہربان سمجھتے ہوئےانکے ہاتھوں کو چومتے رہیں گے۔ کیا بلوچ عوام اب بھی نہیں سمجھیں گے کہ آزادی کے جو جھوٹے خواب یہ انہیں دکھا رہے ہیں یہ دراصل انکے تا ابد قائم رہنے والی آقائیت کے خواب ہیں۔ یاایسا ہے کہ
جو ہاتھ کھیلتے ہیں ان سے توڑتے ہیں انہیں
کچھ ان سے ہوتے ہیں مانوس تو کھلونے بھی
ریفرنس؛
شائع شدہ سفر نامہ
یہ انکے دئیے ہوئے لنک کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ بہر حال اسکی پہلی قسط ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ کو شائع ہوئ۔ اور یہ شاید نو قسطوں پر مشتمل ہے۔ آپ اسے دئیے ہوئے لنک پر جا کر تلاش کرسکتے ہیں۔
دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
ReplyDeleteان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
بالکل صحیح کہا آپ نے۔ پر کیا کیجے کہ وہاں کے لوگ اب بھی بُگٹی کو ہی بہت کچھ سمجھتے ہیں۔ پھر ہم لوگوں کا تو المیہ ہی یہ کے جو بھی شخص مرجائے اُس کے سارے گناہ ہم لوگ بڑی فراخ دلی سے معاف کردیتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ شخص چاہے اس کا کردار کیسا بھی رہا ہو شہید بھی ہوجاتا ہے اور آئند کچھ سالوں میں مرشد سائیں بھی بن جاتے ہیں۔
لال مسجد کے واقعے اور بلوچستان کے زیرِ بحث آپریشن میں بقول چوہدری شجاعت کے تمام معاملات مذاکرات کے تحت طے ہوگئے تھے لیکن اُس کے باوجود مشرف نے آپریشن کو ترجیح دی۔ لال مسجد کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات سے تو میڈیا کے ذریعے پبلک بھی تقریباً باخبر تھی لیکن یہاں بھی مذاکرات کے باوجود آپریشن ہی کو ترجیح دی گئی۔ یقیناً یہ دونوں اوپریشن بڑے سرکار کی ایما پر ہوئے اس لئے مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مشرف صاحب کا فیصلہ درست بھی تھا تب بھی اس کا طریقہ کار ہرگز درست نہیں تھا، اس آپریشن اور اس سے پیشتر کی پالیسیز کے باعث عام لوگوں کی اکثریت پاکستان کی مخالف ہوگئی ۔
عام آدمی یوں بھی ان سرداروں (بگٹی وغیرہ) کو عقیدت کا چشمہ لگا کر دیکھتا رہا ہے اس عمل سے اب وہ کہیں زیادہ پوٓتر ہو گئے ہیں۔
شجاعت صاحب کے مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں جس میں سٹیٹس کو کے برقرار رہنے کی ضمانت دی جاتی ہے۔ ایسے مذاکرات سے کیا تبدیلی آسکتی ہے بھلا؟ اس قوم کو اپنے حکمران طبقے سے سوال پوچھنے کی عادت ڈالنا ہوگی اگر زندہ رہنا ہے تو۔ اکیسویں صدی میں پندرہویں صدی والی بے لوث غلامی نہیں چل سکتی۔ بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں جھگڑا بادشاہی کا ہے اور اس ہوس کا علاج کلام نرم و نازک سے کم ہی ہوا ہے۔ الطاف ہو کہ بگٹی کہ فضل اللہ۔ جب تک انہیں انجیکشن نہ دیا جائے انہیں سمجھ نہیں آتی۔
ReplyDeleteخرم الطاف کو بگٹی اور فضل ا للہ کے ساتھ ٹانک کر آپنے اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لی مگر آپ یہ بتانا بھول گئے کہ نواز اور شہباز کو بھی کوئی انجیکشن لگنا چاہیئے یا نہیں،اور آپکے سو کالڈ ایکس سروس مینز کو؟
ReplyDeleteاور اپنی قوم کو آپ یہ اسباق کب پڑھانا شروع کرنے والے ہیں
عنیقہ آپ کہاں مشرف کی تعریف لے کر بیٹھ گئیں اس وقت تو مشرف کو ذلیل کرنے کا وقت ہے اس کے کیئے کوئی اچھے کام کسی کو یاد نہیں آئیں گے جو لوگ 12 مئی اور جامعہ حفصہ کورویا کرتے ہیں انہین 88 اور 92 کا ٹھٹھا اڑانے سے فرصت نہیں ہے،مومن لوگ ہیں کافروں کے مرنے اور دفع ہونے پر خوشیاں نہ منائیں بغلیں نہ بجائیں تو اور کیا کریں؟
ReplyDeleteمحترمہ ایک کوسٹل ہائی وے بن جانے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ گوادر کو ریل اور سڑک کے راستے چین اور وسطی ایشیا سے ملانے کی ضرورت ہے ورنہ اس کی قدر دو ٹکے کی بھی نہیں۔ یہاں آنے والا مال پاکستان کو کراچی کی بندرگاہ پر آنے والے مال سے زیادہ لاگت میں پڑتا ہے بلکہ اسے ایک حساب سے واپس لانا پڑتا ہے کراچی ملک میں ترسیل کے لیے۔ گوادر کی بندرگاہ بھی ابھی زیر تعمیر ہے اور اس کا ڈیوٹی فری زون بحریہ کے زیر استعمال زمین خالی ہونے کا منتظر ہے۔ گوادر پر آج سے پانچ سال پہلے جو بھنگڑے ڈالے گئے تھے یہ شاید مکمل آپریشنل ہونے میں اتنے سال ہی اور لے جائے۔
ReplyDeleteبلوچیوں کا اعتراض جائز ہے۔ ایک سڑک بن گئی اور پراپرٹی مافیا نے سڑکیں بنا کر، جی ہاں صرف سڑکیں بنا کر پراپرٹی کوڑیوں کے مول مقامیوں سے خرید کر کروڑوں تک میں بیچی اور اب پھر اس پراپرٹی کی کوئی قدر نہیں۔ بلوچی ہر دس بارہ سال بعد کیوں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں؟ مجھے نہیں پتا مجھے تو اتنا پتا ہے کہ میں ایک پنجابی فیصل آباد میں بیٹھا اس گیس کا زیادہ ماما لگتا ہوں جو سوئی سے نکلتی ہے اور میرے شہر میں ہر ایک کلومیٹر پر ایک سی این جی سٹیشن ہے۔ جبکہ پورے کوئٹہ میں ایک سی این جی سٹیشن ہے۔ یہ تو حالات ہیں وہاں۔ ان مسائل کو کبھی حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ زرداری حکومت نے آکر معافی مانگ لی، ایک قوم پرست کو جیل سے آزاد کردیا اور پھر؟ ابھی تک کوئی بھی آئینی اصلاحات نہیں ہوسکیں، کمیٹی کے جوڑوں میں دو چار اور کمیٹیاں بیٹھ گئی ہونگی۔
سب سے پہلے دوست، شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں وہاں خود ہو کر آچکی ہوں۔ یہ میں کسی کا لکھا ہوا اسکرپٹ آپکو نہیں دے رہی۔ بندرگاہ کی وہ تعمیر ابھی مکمل ہو چکی ہے جو کہ اگلے پانچ سالوں کے لئے پلان کی گئ تھی۔ اب یہاں سے صرف ایک چھوٹی سی سڑک نکال کر اسے ایک قصبے سے ملانا ہے یہ اتنی سی سڑک پچھلے ڈیڑھ سال سے نہیں بن پا رہی ہے۔ جبکہ یہ پوری ہائ وے اور بندرگاہ کی توسیع جس میں مزید گودیاں شامل ہیں شاید ڈھائ سال میں تیار ہو گئ تھی۔ اسکے مکمل آپریشنل ہونے میں امریکہ بہادر بھی ایک رکاوٹ ہیں ۔ کیونکہ اس پورے پلان کو چین کی مدد سے مکمل کیا گیا ہے۔ اور انکل نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں چین کا اثر بڑھے۔ انڈیا انکا ہم خیال ہے۔ کیونکہ چین شاید امریکہ کے لئے سب سے بڑآ خطرہ ہے۔ اسی لئے اس بندرگاہ کی توسیع کے دنوں میں انہوں نے بار بار مداخلت کی۔ حالانکہ اسکا جواز نہیں بنتا یہ ہمارے ساحل ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے جو چاہیں کریں تو اب اس چیز کو اس طرح کور اپ کیا جا رہا ہے کہ ان علیحدگی پسندوں کو جنکے ضمیر ہمیشہ بکے رہے ہیں۔فنڈ فراہم کر کے یہاں غیر یقینی صورت حال پیدا کی جائے۔
ReplyDeleteآپ فیصل آباد میں بیٹھ کر یہ بات کہہ رہے ہیں میں ہر تین مہینے پر وہاں جاتی ہوں اور پندرہ بیس دن رہ کر آتی ہوں۔ زمینوں کی خرید فروخت سڑکیں بننے کے بعد نہیں اس کہیں پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اسکے لئے آپکو سن دو ہزار کے اخبارات چھاننے پڑیں گے۔ اگر آپ نے دو ہزار ایک میں گوادر دیکھا ہوتا تو وہاں ریت مٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس وقت مقامی لوگوں نے اس زمین کو جو انہوں نے کبھی بھی قیمتاً نہیں خریدی۔ بلکہ اپنی قبائلی طاقت پر اپنے پاس رکھی۔ خوب مہنگے داموں بغیر کسی حکومتی دباءو کے بیچا۔ میں نے یہاں خانہ بدوش نظر آنیوالے لوگوں کو مہینوں میں ایسے بدلتے دیکھا۔ کیونکہ انہوں نے یہ منہ مانگے بیچی۔ اس سلسلے میں خاصے فراڈ بھی ہوئے۔ یہ الگ بات کہ اسے خریدنے والے آج بہٹھے صورت تک رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ آپکی یہ بات صحیح نہیں کہ مقامیوں سے کوڑیوں کے مول خرید کر کروڑوں میں بیچی۔ یہ کراچی میں بھی ہوا ہے۔ جس زمین کو پہلے کچرا سمجھا جاتا تھا وہ کسی پروجیکٹ کی وجہ سے سونا بن گئ۔ لوگوں ے جو زمین دس سال پہلے لاکھوں میں لی تھی وہ اب کروڑوں میں ہوگئ۔ گوادر میں جس وقت کافی زمین بکی اس وقت یہاں ماسٹر پلان بھی نہیں بنا تھا۔ نقشہ منظور ہونے کے بعد جن لوگوں کو سوئے اتفاق اچھی جگہ مل گئ انہیں فائدہ ہوا۔ بعض لوگوں کی زمین مختلف پروجیکٹس میں کٹ گئ اور انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔ تو ایسا تو ہوتا ہے جب کوئ نیا شہر آباد ہوتا ہے۔ یا تو مقامی لوگوں پر پابندی لگنی چاہئیے کہ وہ اپنی زمین نہ بیچیں، یہ ہونا تو ناممکن ہے۔ ہزارون ایکڑ زمین ایک میر اپنے پاس رکھ کر کیا کرے گا۔ اسے تو یہ یاد نہیں کہ اسکی زمین کا رقبہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسری پابنندی یہ لگا دیں کہ غیر مقامیوں کو نہ بیچی جائے۔تو پھر اس زمینکو کون خریدےگا۔ کیونکی پورے بلوچستان میں اگر زمین کا حق ملیکت نکالنے کھڑے ہوں تو شاید چند گھرانوں کے پاس یہ سارا صوبہ رکھا ہوا ہوگا ۔اب وہ آپس میں تو لین دین نہیں کرسکتے۔پورا گوادر شاید تین چار لوگوں کی ملکیت ہوگا۔ دوسری طرف اس زمین کو خریدنے والوں میں مقامی لوگ بھی ہیں جنہوں ے اپنے میر سے یہ زمین خریدی۔ پھر اہم مقامات کی زمینیں اپنے پاس رکھیں اور باقی کی آگے کسی اور کو بیچ دیں، زیادہ منافع پر۔ ایسے بہت سے لوگوں سے میں وہاں پر واقف ہوں۔ اب سے تین چار سال پہلے کراچی میں بہت کم لوگ ہونگے جنکے سٹیلائٹ فون ہو۔ جبکہ یہ اسوقت گوادر میں عام نظر آتا تھا۔ یہ وہ دولت تھی جو مقامی لوگوں نے زمین بیچ کر حاصل کی۔ خریدنے والے نے تو اپنے سرمائے پر بڑا رسک لیا۔ کیونکہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو اسے آپریشنل ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔ہماری اس حکومت میں تو اتنا دم خم نظر نہیں آتا کہ وہ امریک کی مخالفت کے باوجود اس پروجیکٹ کو اس رفتار سے لے جائے جیسا یہ پہلے چل رہا تھا۔ اور یہ جو ریل کی بات کر رہے ہیں آپ یہ لائن اس زمانے میں منظور بھی ہو چکی تھی۔ میں نے خود اسکے تجویز شدہ پلان کو دیکھا۔ اب میری یادادشت میں صحیح سے نہیں ہے۔ لیکن اس پر کام شروع ہو رہا تھا۔ فی الحال کچحھ نہیں ہو رہا۔ زمین کی قیمت جو ایک زمانے میں خوب چڑھی تھی وہ بھی خوب گر گئ ہے۔
باقی لوگوں کےلئے ایک لمبا جواب لکھا تھا مگر سب اڑ گیا۔ میں بہت بور ہوئ۔ اب کچھ دیر بعد موڈ بناءوونگی اسے دوبارہ لکھنے کا۔
بلوچی ہر دس بارہ سال بعد اس لئے کھڑے ہوجوتے ہیں کہ انکے بزعم خود نیشنلسٹ رہنما نہیں چاہتے کہ انکے صوبے کی حالت تبدیل ہو۔ وہ اس موقع کو استعمال کر سکتے تھے کہ انکی قوم آگے بڑھے لیکن وہ ہر فیوڈل کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح عوامی سطح پر تبدیلی نظر آنے سے انکے اثر رسوخ میں فرق پڑے گا اور یہ انہیں گوارا نہیں۔ یہ البتہ انہیں گوارا ہے کہ انڈیا کے ساتھ ملکر اپنی جڑوں کو کھوکھلا کریں
یہ میں کہنا چاہ رہی تھی کہ دو ہزار ایک کے اخبارات دیکھیں ان میں زمین بیچنے کے اشتہارات ہیں جبکہ اس وقت سڑک بننا شروع ہوئ تھی۔ اورہاں، پاکستان کی جتنی بھی ساحلی پٹی ہے اس میں سب سے اچھے اور اہم مقامات پاکستان نیوی کے پاس ہیں۔ یہ چیز تو آپ کراچی میں اور مضافات کے ساحلی مقامات پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں گوادر کوئ ایکسیپشن نہیں ہے۔
ReplyDeleteلال مسجد کا واقعہ جہاں ایک طرف ہمارے میڈیا کے سازشی کردار کو نمایاں کرتا ہے وہاں اس چیز کو بھی سامنے لاتا ہے کہ کسطرح ہمارے یہاں لوگ مذہب کے نام پر ہر زیادتی کرنے کے لیءے تیار ہو جاتے ہیں۔ شجاعت صاحب چھ مہینے سے زائد عرصے تک ان سے مذاکرات کرتے رہے۔ لیکن مسجد والے تو انوکھا لاڈلا بنے ہوئے تھے کیونکہ انہیں استعمال کرنے کے لءے اتنا چڑھا دیا گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ بس اب انک مرضی کی شریعت نافذ ہو کر رہے گی ۔ شجاعت صاحب کے یہ مذاکرات آپریشن کے آخری دن تک چلتے رہے۔
ReplyDeleteمیں نے اس دس گیارہ دن کے عرصے میں کسی چینل کی کوئ خبر مس نہیں کی۔ اگر انکو ایک دفعہ پھر چلا کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ میڈیا پہلے دن جس شدو مد سے چاہ رہا تھا کہ یہ آپریشن ہو وہی میڈیا آخریدن ان لوگوں کو پاکستان کی تاریخ کے مظلوم ترین لوگ قرار دے طکا تھا۔ یہان یہ ذہن میں رہے کہ اس دوران کوئ اور نہیں خود رشید غازی یہ فرما رہے تھے اور بابار فرما رہے تھے کہ ہمارے پاس حکومت سے لڑنے کے لئے ایک مہینہ تک کا اسلحہ ہے۔ اور مدرسے کے لڑکوں کا اسلحہ لیکر اندھا دھند چلانے کی فوٹیج آپ کسی بھی چینل کے پاس سے حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے برین واشڈ کواتین اور بچوں کو ڈھال بنا لیا۔ یہ سب چیزِیں جائز تھیں۔ کیونکہ یہ سب مذہب کے نام پتر ہو رہا تھا۔ اگر یہی چیزیں کراچی میں ہوتیں تو یقیناً رد عمل مختلف ہوتا۔ یہاآں میرا مقصد کسی بھی قسم کے اسلحے کے استعمال کو جائز قرار دینا نہیں ہے۔ لیکن طالبانی عناصر کو کسی شہر کی تنظیم سے ملا دینا اسے میں تو طابان کی حمایت اور اس شہر سے زیادتی سمجھتی ہوں۔ طالبانی سازش پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف سازش ہے اور اسے اسی طرح لیا جانا چاہئیے۔ اس طالبانی عنصر کو کیوں حمایت ملتی ہے اور کہاں کہاں انکی حمایت زیادہ ہے اور کیوں ہے اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس چیز نے ایک بات ثابت کی ہے اور یہ کہ ہزارون سال پرانا نظریہ کہ ریاست کی قوت حکومت، فوج اور مذہبی عناصر کے درمیان محاذ جنگ ہوتی ہے۔یہی آجکے پاکستان میں ہو رہا ہے۔
جن لوگوں نے اس ملک سے انسانیت ختم کردی انکے خلاف آپریشن نہ ہو بلکہ ان سے بھ مذاکرات کئے جائیں۔ یہ کس طرز فکر کی طرف لے جا جاتا ہے۔ جس شخص نے خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور باقی لوگوں کو دیشت میں لپیٹ دیا جس نے اس ملک کی سالمیت کو داءوو پر لگا دیا۔ اسکی مذمت کے لئے بولنا والا تو کوئ نہیں البتہ اسے ہیرو کے طور پر سراہنے والے بہت ہیں۔ یہ ذہنی طور پر بیمار ہونے کی علامت نہیں تو اور کیا ہے۔
بگتی، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اسی طرح انکی سفاکیت کی داستانیں سنتے رہے ہیں۔ انکی پیدائش شاید انیس سو تیس کی دھائ میں ہوئ۔ تقریباً تین نسلوں نے انکے عذاب کو سہا۔ انکے مرنے کے بعد بھی انکے حصے میں کوئ ایسا کام نہیں جسے فخر کے ساتھ انسان دوستی کے نام پر پیش کیا جا سکے۔ دراصل اگر بلوچ قوم اس سحر سے باہر نکل آئے کہ وہ بلوچی تھے اور ہمارے سردار تھے تو ان سے محبت کرنے کا کوئ جواز باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے بلوچوں کے حقوق کی کوء جنگ نہیں لڑی صرف اپنی حق طاقت کی جنگ لڑی۔
وہ حق غاصب کرنے والوں میں سے تھے جنہوں نے شاید ہی کبھی کسی کو کچھ دیا ہو۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہمیشہ انکے حکومت سے مذاکرات ہوتے رہے۔ پاکستان کے دیگر کرپٹ لیڈران کے مقابلے میں وہ خاصے خود غرض تھے۔ باقی لوگ تو پھر اپنے شہر اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کچھ نواز دیتے ہیں کہ وہ بھی کسی حد تک زندگی گذارتے رہیں اور بالکل مر نہ جائیں۔ انہوں نے اسکی زحمت بھی نہ کی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اگر پھر بھی لوگ اسکی توقع رکھتے ہوں کہ وہ مذاکرات پر تیار ہو جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو ضرور دستووسکی کا ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھنی چاہئیے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ ایسے لوگوں کہ لئے ہم یہ مقولہ کیوں دہرانے لگتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اگر ان لاکھوں لوگوں کی مدد کے لئے کوئ اٹھ کر نہیں آتا اور انہیں ایسے بے حس لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر ہمیں اپنے معاشرے میں خیر اور برکت کے لئے کوئ امید خدا سے نہیں رکھنی چاہئے۔ جس معاشرے میں ظلم کو دیکھ کر لوگ خاموش رہیں وہاں ایسی ہی افراتفری قدرت پھیلا دیتی ہے جیسی آج ہمیں میسر ہے۔جو عرصہ ء دراز سے چلے آنیوالے ظلم کو سہتے ہوئے لوگوں کی شاید بد دعاءووں کا نتیجہ ہے۔
خدا تو اس بات پر ہنستا ہوگا کہ لوگ مجھے مسجد کی حفاظت میں حاصل کر رہے ہیں اور میں یہاں اس ویرانے میں کسی کیڑے کی طرح مرنے والے شخص کے سرہانے بیٹھا ہوں کوئ ہے جو اسے ہسپتال لے جائے۔
کچھ عرصہ قبل ایک مضمون پڑھا تھا کہ جاپان میں اسلام کے بارے اتنی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی کہ ایک طرح سے ماس کنورژن کا امکان پیدا ہونے لگ گیا تھا۔ اس کے بعد طالبان نے بامیان میں بدھا کے مجسمے مسمار کئے اور نو دو گیارہ یعنی نائن الیون بھی ہوا تو اس کے بعد چل سو چل :)
Deleteعنیقہ میری دعا ہے کہ کاش آپ کا لکھا ہوا رائیگاں نہ جائے اور لوگوں کے دلوں میں اتر جائے ،اگر ایک شخص بھی آپکی تحریر کو پڑھ کر اپنا اندر سدھار لیتا ہے تو سمجھیئے آپ کامیاب ہوئیں،
ReplyDeleteگوکہ اس کی امید تو کم ہے کہ جن کے گلے جامعہ حفصہ اور 12 مئی پر چلا چلا کر سوکھے جارہے تھے اور قلم سے تحریروں کا سیل رواں بہہ رہاتھاانہیں کراچی حیدر آباد میں ہونے والے مظالم پر سانپ سونگھ گیا ہے،اور اگر قلم چلتا ہے تو صرف اس مقصد کے لیئے کہ کسی طرح اس سچ کو جھوٹ ثابت کیا جاسکے،بس اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے