ِ
پہلے تو میں آپ کو اطمینان دلادوں کہ اس قصے کا دودھ والوں کی ملاوٹ سے کوئ تعلق نہیں۔ نہ ہی آپ مجھے اس قسم کے جملے لکھ کر بھیجنے میں اپنا وقت ضائع کریں کہ باجی، دودھ والوں سے کہیں کہ وہ کوٹری کے اسطرف والی نہر سے پانی ملایا کریں۔ وہاں پلا مچھلی بھی آتی ہے۔ اور اکثر مینڈک نکلنے کے بجائے کبھی کبھی مچھلی بھی نکل آئے تو کیا حرج ہے۔ تو ان باجی کادودھ والوں تک ایسی کوئ فرمائش پہنچانے کا ارادہ نہیں۔ بعد میں وہ پلا مچھلی کی قیمت بھی دودھ میں شامل کر دیں گے تو یہ سب لوگ کہیں گے کہ ہم دودھ والوں سے کمیشن کھارہے ہیں۔
جیسا کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک دودھ والے کا قصہ ہے اور انکی باقی کمیونٹی سے اسکا کوئ تعلق نہِں۔ مزید یہ کہ اگر آپ کو دودھ والے اور طوطے کےدرمیان ہونےوالی گفتگو سن کر بڑی ہنسی آتی ہے تو میں معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہونگی کہ پوسٹ کے لمبا ہوجانے کے ڈر سے اسے یہاں پھرنہیں لکھا جا سکتا۔ آج آپ کچھ نئ باتوں پر ہنسنے کی کوشش کریں۔ زیادہ کمزور دل احباب کا دل بھر آئے تو رو بھی سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی واضح کردوں کہ میں روشن خیال ہونے کے باعث صرف ڈسپوزیبل ٹشو پیپر استعمال کرتی ہوں اور اس نازک موقع پر جیسا کہ روایت ہے آپ کو کوئ بھی رومال عطا کرنے سے قاصر ہوں۔ ویسے بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ اس سے صرف آنسو نہیں صاف کریں گے بلکہ سڑکیاں بھی ماریں گے۔کیا کہا، مگرمچھ کے آنسو بہانے میں ناک سڑکتی نہیں ہے۔ میں اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ اس ساری بحث سے پہلے ہی اس قصے کا حسن ختم ہو رہا ہے۔کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کوئ محکمہ ء تحفظ حسن و جمالیات بھی ہونا چاہئیے۔
وہ کراچی کی ایک حسین جولائ کی سہ پہر تھی۔ کراچی میں جولائ ہمیشہ حسین ہوتا ہے اس وقت بھی جب جولائ نہیں ہوتا تھا۔ خیر، موسم کی دلداری کے لئیے میں نے سوچا کہ کچھ دوستوں سے ملا جائے۔قرعہ ءفال ایک ایسی دوست کے نام نکلا جن کی دو بہینیں اور تھیں۔ اتنی ساری لڑکیاں ہونگیں۔ ادھر کی غیبت، ادھر کے تبصرے، کچھ نئ خبرِیں، کچھ پرانی خبریں تازہ بگھار کے ساتھ، خوب چیں پیں ہوگی کتنا مزہ آئے گا۔ میں نے تصور میں ایسے ہی معصوم سپنے سجائے۔ نہیں معلوم تھا کہ ایک دودھ والا ان سب سپنوں کو روندنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ اب وہاں پہنچتی ہوں تو کیا دیکھتی ہوں ۔ ساری قوم جیسےایک عالم خواب میں ہے۔سب سے پہلے سب سے چھوٹی والی داخل ہوئیں۔ بنّا کہہ رہی ہیں آج انکی باری ہے۔ اور میں بتا دوں میں تیار ہوں اور اب میرے علاوہ کوئ دودھ لینے نہیں جائے گا۔ مجھے ذرا جھٹکا لگا۔ دل میں اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہا۔ ایک ہمارا گھر ہے، بیچارا بیل بجا بجا کر تنگ آجاتا ہے ہر
شخص جو کام کر رہا ہوتا ہے اسی میں مصروف رہتا ہے زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ابھی دو دن
پہلے وہ دھمکی دے چکا تھا کہ اگر اب دوسری بیل پر کوئ نہ آیا ےتو وہ قیامت تک اپنی شکل نہیں دکھائے گا۔ اتنی بھیڑ میں کسے انکی شکل دیکھنے سے دلچسپی ہوگی۔ کسی گل محمد نے یہ دھمکی بھی اڑادی۔
چلیں، اتنی دیر میں بنّا بھی لال پیل ہوتی آگئیں۔ چھوٹے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم دوسروں کی باری نہ آنے دو۔ میری دوست نے دونوں کو دیکھا اور دانت پیسے۔ اور بڑے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہر دفعہ میں قربانی کا بکرا بنی رہوں۔ میں ہکا بکا ایک کے بعد ایک کی صورت دیکھتی ہوں۔ ہم بھی اپنے گھر میں اسی طرح ہر تھوڑے دن بعد حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ لیکن اس سے بالکل الٹ مقصد کے لئے۔ 'میں جاتی ہوں ہر دفعہ دودھ لینے کے لئے'۔ 'تین دن سے تو میں لے رہی ہوں۔ آپ نے روز ازل ہی یہ فریضہ انجام دیا ہوگا'۔ 'یہ آپ کس روز ازل کی بات کر رہی ہیں۔ ابھی پچھلے پورے ہفتے یہ میں تھا جو خدمت کرتا رہا ہوں'۔ اس قسم کے سارے ڈائیلاگ ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگے۔
بیساختہ منہ سے نکلا تم لوگ کتنے عظیم ہو اور ایک ہم ہیں خودغرض، ایکدوسرے کو طعنوں سے مار ڈالنے والے، ذرا جو ہمارے اندر مل بانٹ کر کام کرنے کی عادت ہو۔ یا احساس ذمہ داری۔ آخر ہم ایسے کیوں ہیں۔ چندا میری دوست ایک ادا سے بولیں، تمھارا دودھ والا کیا اتنا گلفام ہے جتنا ہمارا ہے۔ کیا اسے دیکھ کر آپ کے چہرے پر اتنی رونق آجاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔اور جس کے بعد غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
لو، ہم مریض عشق کے بیماردار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا اگر انہوں نے توجہ نہ دلائ ہوتی کہ کہ جولائ اتنا حسین ہوتا ہے کہ مکھیاں بھی بڑی سیلانی ہوجاتی ہیں، کچرے کے ڈھیر اور ہمارے منہ میں خاص فرق روا نہیں رکھتیں۔بنّا نے چندا سے کہا کہ آج وہ کھڑکی سے دیکھ لیں کیونکہ آج کے دن بنّا کے حق پر کوئ ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ چندا کو شدید غصہ آیا، کھڑکی سے کیا نظر آتا ہے 'پیٹھ۔' ۔ اور وہ غصے میں بھری کچن میں چلی گئیں غصہ خالی کر کے کچھ کھانا بھرنے کے لئے۔ بعض لوگ کچھ کھا کر غم غلط کرتے ہیں بالخصوص وہ جو دوسروں کو کچھ ایسا کھلانے کی سکت نہیں رکھتے مثلاً مار، جوتے، ڈانٹ۔ بیل بجی، بنّا دروازے پر دودھ کی بالٹی پکڑے تیار کھڑی تھیں۔ 'آج اس نے پیلا کرتا پہنا ہوا ہے'۔ انہوں نےدروازے میں موجود سوراخ سے جھانکتے ہوئے سرگوشی کی اور دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھول دیا۔ چھوٹی نے اپنا سوجا ہوا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا۔میں کھڑکی پر جا کر کھڑی ہوگئ، یہاں سے منگھوپیر کی پہاڑیوں پر آباد گھروں کی روشنیاں بہت اچھی لگتی ہیں۔ لیکن دن کے وقت کہاں یہ منظر نظر آسکتا ہے۔ویسے چندا ٹھیک کہہ رہی تھی کھڑکی سے تو اسکی صرف پیٹھ نظر آتی ہے۔ ایک بات اور، جولائ کے حسین مہینے میں پیلا رنگ اتنا برا نہیں لگتا۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ محکمہء تحفظ حسن و جمالیات بھی ہونا چاہئیے۔ پھر خیال آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
پہلے تو میں آپ کو اطمینان دلادوں کہ اس قصے کا دودھ والوں کی ملاوٹ سے کوئ تعلق نہیں۔ نہ ہی آپ مجھے اس قسم کے جملے لکھ کر بھیجنے میں اپنا وقت ضائع کریں کہ باجی، دودھ والوں سے کہیں کہ وہ کوٹری کے اسطرف والی نہر سے پانی ملایا کریں۔ وہاں پلا مچھلی بھی آتی ہے۔ اور اکثر مینڈک نکلنے کے بجائے کبھی کبھی مچھلی بھی نکل آئے تو کیا حرج ہے۔ تو ان باجی کادودھ والوں تک ایسی کوئ فرمائش پہنچانے کا ارادہ نہیں۔ بعد میں وہ پلا مچھلی کی قیمت بھی دودھ میں شامل کر دیں گے تو یہ سب لوگ کہیں گے کہ ہم دودھ والوں سے کمیشن کھارہے ہیں۔
جیسا کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک دودھ والے کا قصہ ہے اور انکی باقی کمیونٹی سے اسکا کوئ تعلق نہِں۔ مزید یہ کہ اگر آپ کو دودھ والے اور طوطے کےدرمیان ہونےوالی گفتگو سن کر بڑی ہنسی آتی ہے تو میں معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہونگی کہ پوسٹ کے لمبا ہوجانے کے ڈر سے اسے یہاں پھرنہیں لکھا جا سکتا۔ آج آپ کچھ نئ باتوں پر ہنسنے کی کوشش کریں۔ زیادہ کمزور دل احباب کا دل بھر آئے تو رو بھی سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی واضح کردوں کہ میں روشن خیال ہونے کے باعث صرف ڈسپوزیبل ٹشو پیپر استعمال کرتی ہوں اور اس نازک موقع پر جیسا کہ روایت ہے آپ کو کوئ بھی رومال عطا کرنے سے قاصر ہوں۔ ویسے بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ اس سے صرف آنسو نہیں صاف کریں گے بلکہ سڑکیاں بھی ماریں گے۔کیا کہا، مگرمچھ کے آنسو بہانے میں ناک سڑکتی نہیں ہے۔ میں اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ اس ساری بحث سے پہلے ہی اس قصے کا حسن ختم ہو رہا ہے۔کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کوئ محکمہ ء تحفظ حسن و جمالیات بھی ہونا چاہئیے۔
وہ کراچی کی ایک حسین جولائ کی سہ پہر تھی۔ کراچی میں جولائ ہمیشہ حسین ہوتا ہے اس وقت بھی جب جولائ نہیں ہوتا تھا۔ خیر، موسم کی دلداری کے لئیے میں نے سوچا کہ کچھ دوستوں سے ملا جائے۔قرعہ ءفال ایک ایسی دوست کے نام نکلا جن کی دو بہینیں اور تھیں۔ اتنی ساری لڑکیاں ہونگیں۔ ادھر کی غیبت، ادھر کے تبصرے، کچھ نئ خبرِیں، کچھ پرانی خبریں تازہ بگھار کے ساتھ، خوب چیں پیں ہوگی کتنا مزہ آئے گا۔ میں نے تصور میں ایسے ہی معصوم سپنے سجائے۔ نہیں معلوم تھا کہ ایک دودھ والا ان سب سپنوں کو روندنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ اب وہاں پہنچتی ہوں تو کیا دیکھتی ہوں ۔ ساری قوم جیسےایک عالم خواب میں ہے۔سب سے پہلے سب سے چھوٹی والی داخل ہوئیں۔ بنّا کہہ رہی ہیں آج انکی باری ہے۔ اور میں بتا دوں میں تیار ہوں اور اب میرے علاوہ کوئ دودھ لینے نہیں جائے گا۔ مجھے ذرا جھٹکا لگا۔ دل میں اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہا۔ ایک ہمارا گھر ہے، بیچارا بیل بجا بجا کر تنگ آجاتا ہے ہر
شخص جو کام کر رہا ہوتا ہے اسی میں مصروف رہتا ہے زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ابھی دو دن
پہلے وہ دھمکی دے چکا تھا کہ اگر اب دوسری بیل پر کوئ نہ آیا ےتو وہ قیامت تک اپنی شکل نہیں دکھائے گا۔ اتنی بھیڑ میں کسے انکی شکل دیکھنے سے دلچسپی ہوگی۔ کسی گل محمد نے یہ دھمکی بھی اڑادی۔
چلیں، اتنی دیر میں بنّا بھی لال پیل ہوتی آگئیں۔ چھوٹے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم دوسروں کی باری نہ آنے دو۔ میری دوست نے دونوں کو دیکھا اور دانت پیسے۔ اور بڑے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہر دفعہ میں قربانی کا بکرا بنی رہوں۔ میں ہکا بکا ایک کے بعد ایک کی صورت دیکھتی ہوں۔ ہم بھی اپنے گھر میں اسی طرح ہر تھوڑے دن بعد حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ لیکن اس سے بالکل الٹ مقصد کے لئے۔ 'میں جاتی ہوں ہر دفعہ دودھ لینے کے لئے'۔ 'تین دن سے تو میں لے رہی ہوں۔ آپ نے روز ازل ہی یہ فریضہ انجام دیا ہوگا'۔ 'یہ آپ کس روز ازل کی بات کر رہی ہیں۔ ابھی پچھلے پورے ہفتے یہ میں تھا جو خدمت کرتا رہا ہوں'۔ اس قسم کے سارے ڈائیلاگ ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگے۔
بیساختہ منہ سے نکلا تم لوگ کتنے عظیم ہو اور ایک ہم ہیں خودغرض، ایکدوسرے کو طعنوں سے مار ڈالنے والے، ذرا جو ہمارے اندر مل بانٹ کر کام کرنے کی عادت ہو۔ یا احساس ذمہ داری۔ آخر ہم ایسے کیوں ہیں۔ چندا میری دوست ایک ادا سے بولیں، تمھارا دودھ والا کیا اتنا گلفام ہے جتنا ہمارا ہے۔ کیا اسے دیکھ کر آپ کے چہرے پر اتنی رونق آجاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔اور جس کے بعد غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
لو، ہم مریض عشق کے بیماردار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا اگر انہوں نے توجہ نہ دلائ ہوتی کہ کہ جولائ اتنا حسین ہوتا ہے کہ مکھیاں بھی بڑی سیلانی ہوجاتی ہیں، کچرے کے ڈھیر اور ہمارے منہ میں خاص فرق روا نہیں رکھتیں۔بنّا نے چندا سے کہا کہ آج وہ کھڑکی سے دیکھ لیں کیونکہ آج کے دن بنّا کے حق پر کوئ ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ چندا کو شدید غصہ آیا، کھڑکی سے کیا نظر آتا ہے 'پیٹھ۔' ۔ اور وہ غصے میں بھری کچن میں چلی گئیں غصہ خالی کر کے کچھ کھانا بھرنے کے لئے۔ بعض لوگ کچھ کھا کر غم غلط کرتے ہیں بالخصوص وہ جو دوسروں کو کچھ ایسا کھلانے کی سکت نہیں رکھتے مثلاً مار، جوتے، ڈانٹ۔ بیل بجی، بنّا دروازے پر دودھ کی بالٹی پکڑے تیار کھڑی تھیں۔ 'آج اس نے پیلا کرتا پہنا ہوا ہے'۔ انہوں نےدروازے میں موجود سوراخ سے جھانکتے ہوئے سرگوشی کی اور دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھول دیا۔ چھوٹی نے اپنا سوجا ہوا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا۔میں کھڑکی پر جا کر کھڑی ہوگئ، یہاں سے منگھوپیر کی پہاڑیوں پر آباد گھروں کی روشنیاں بہت اچھی لگتی ہیں۔ لیکن دن کے وقت کہاں یہ منظر نظر آسکتا ہے۔ویسے چندا ٹھیک کہہ رہی تھی کھڑکی سے تو اسکی صرف پیٹھ نظر آتی ہے۔ ایک بات اور، جولائ کے حسین مہینے میں پیلا رنگ اتنا برا نہیں لگتا۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ محکمہء تحفظ حسن و جمالیات بھی ہونا چاہئیے۔ پھر خیال آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
بیان ادہورا ہے۔ ۔
ReplyDeleteاتنا تو ثابت ہوا کہ آپکی دوستوں کا واجد علی شاہ سے دور پار کی بھی نہ قرابت داری ہے نہ کوئی اور رابطہ وگرنہ انہوں نے تو بطور سزا گوالن دکھلا دی تھی اور یہاں لوگ گوالہ پر واری صدقے جارہے ہیں۔
ReplyDeleteگوالن پاس سے گذروا دی گئی تھی، بقول مشتاق احمد یوسفی صاحب :)
Deleteآپ نے برنس روڈ والے بلاگر پر طنز کیا ہے یا انہیں نوید دی ہے؟؟؟
ReplyDeleteبیان ادھورا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
ReplyDeleteاسے اک خوبصورت موڑ دیکے چھوڑنا اچھا
ان بادشاہوں کا کیا بھروسہ خرم صاحب ، سنا ہے انکا دل ایک ڈومنی پر بھی آگیا تھا۔
چونکہ مجھے معلوم نہیں رضوان کہ برنس روڈ پر کون بلاگر رہتا ہے۔ اس لئے مثبت جانب رہتے ہوئے یہ انکے لئے نوید ہوگی۔ آپکی اس بات سے برنس روڈ کے گولہ کباب یاد آگئے اور ایک شعر بھی،
ہیشے میں عیب نہیں، رکھئیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
اردو کے امتحان میں ایک سوال ہوتا تھا (ابھی بھی ہوتا ہوگا شاید)
ReplyDeleteمندرجہ ذیل پیرے کو سلیس اردو میں بیان کیجئے؟
مندرجہ ذیل کا مطلب ہے نیچے والا۔ نیچے تو کوئ پیرا نظر نہیں آرہا ہے۔ اور اگر اس سے مراد یہ تحریر ہے تو میں نےپھر غور کیا جو الفاظ مشکل لگے وہ دو تین تھے۔ مثلاً قرعہ ءفال۔ لگتا ہے آسان چیزوں کی تہوں مِں بھی سب گہرے معنی تلاش کرتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ایک دوپہر کا تذکرہ ہے۔ ان چار میں سے دو کی شادی ہو گئ۔ دودھ والے سے نہیں۔ وہ خدا جانے کہاں گیا۔ دنیا بہت وسیع ہے۔ اس بےچارے کو تو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ اس دروازے کے پیچھے کیسے ڈرامے بنائے لوگوں نے۔
ReplyDeleteاب میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں کہ مقصد بھی لکھوں ہر تحریر کا۔ لوگ مجھ سے با مقصد تحریریں چاہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئ گہرا اور عظیم مقصد نہ ہو تو کیا لکھوں۔
امتحانی پرچے میں مندرجہ ذیل ہی لکھا ہوتا تھا ، مندرجہ بالا نہیں، لہذا
ReplyDeleteگلو بادشاہ کہا کرتا تھا کہ بات سمجھ میں آگئی ہے؟ تو بس پھر ٹھیک ہے
:lol:
میں کسی تحریر میں سے کوئی بھی مقصد تلاش کرنے کی حماقت کبھی نہیں کرتا۔ لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس اس تحریر سے لطف اندوز نہیں ہوسکا۔
آپ نے اپنا جو ایک معیار قائم کیا ہے یہ تحریر اس سے ذرا کم ہے۔
یہ جان کر واقعی دلی خوشی اور تسلی ہوئی کہ "پوسٹ کے لمبا ہو جانے کے ڈر سے آپ کچھ چیزیں نہیں لکھ سکتیں"۔
ReplyDeleteقسمے