Saturday, August 1, 2009

مشرف تو ہے ناں

جب میں کہتی ہوں کہ مجھے مودودی صاحب کی تفہیم القرآن بے حد پسند ہے اور انکی کتاب جس پر کچھ لوگ خاصے چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، خلافت اور ملوکیت، وہ مجھے خاصی زبر دست کتاب لگتی ہے۔ تو سب لوگ تو نہیں لیکن زیادہ تر لوگ مجھے جماعت اسلامی کا بندہ سمجھیں گے۔ وہ لوگ جو بہ نفس نفیس میرے ساتھ موجود ہونگے حیرت سے کہیں گے کہ آپ حلئیے سے تو بالکل جماعتی نہیں لگتیں۔ پھر بھی ایسا ہے۔ ارے جناب ، جماعت یوں، جماعت ووں۔ مجھے انکی بات پہ مسکرانا پڑتا ہےکہ تھوڑی دیر بعد وہ مجھے کسی اور چیز کی اصلیت سے واقف کرا رہے ہونگے یا ہونگیں۔
جب میرے منہ سے نکل جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کی بالکل ٹھوس وجوہات ہیں اور اگر یہ ضیا الحق کے زمانے میں وجود میں نہ آتیں تو شہید بے نظیر، یا آپکے نواز شریف کے زمانے میں آجاتی۔ ان وجوہات کو ختم کئیے بغیر اسے پیدا ہونے سے کوئ نہیں روک سکتا تھا۔ یہ سنتے ہی احباب مجھے طعنے دینے لگیں کہ یہ ہیں وہ جو یہاں آکر نواب بنے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ نواب بنے بیٹھے ہیں تو انہوں نے اسی سرزمین پر بھوکے رہ کر کر لالٹین کی مدھم روشنی میں دن رات محنت کرکے اپنے شب وروز کو سنوارا ہے۔ انہیں لیموں کے چھلکوں سے مندروں کی گھنٹیاں صاف کرنے کے منظر دکھائ دیتے ہیں۔ حالانکہ جو وہاں رہتے ہیں ان میں سے کسی کو میں نے گھنٹے اور گھنٹیاں صاف کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ یہاں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے جوتے صاف کرتے اور گھنٹیاں بجاتے ضرور دیکھا ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی ان باتوں پر مجھے فوراً سماج دشمن عناصر میں ڈالکر غدار وطن میں شامل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ اس ارض پاک کی محبت میں گھلنے والے اور اس کی بلندی سرفرازی میں اپنے خون کو پسینہ بنانے کی سعادت صرف انہیں حاصل ہے۔
اگر میں مروجہ مذہبی اصولوں سے اختلاف کروں جنہیں میں سمجھتی ہوں کہ ایک خاص طبقے نے لوگوں کو مذہب سے متنفر کرانے اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے تشکیل دیا ہے تو لوگ میرے عقائد کی تحقیق پر لگ جاتے ہیں۔اور جناب میرےسائنس سے متعلق اس تھیسیس کو جسکے متعلق میں آپ سب لوگوں کو کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھتی اسے کھوج نکالتے ہیں اور اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اسکے آغاز پر بسماللہ اور ایک قرآنی آیت کا حوالہ بمعہ ترجمہ کیسے موجود ہے یہ تھیسس ملک سے باہر ایک جرمن اور ایک جاپانی سائنسدان کے پاس اس غرض سے گیا کہ وہ تصدیق کر دیں کہ اس تھیسس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے ہا نہیں۔ یہ باہر کے غیر مسلم عقائد کے سائنسدان بھی اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ بھلا سائنس کے تھیسس پر اپنے عقائد کا لیبل کیوں چسپاں کیا جاتا ہے۔ تو انہیں شنید ہوں کہ ایسے مواقع پر کام میں لانے کے لئیے جب خدا سے زیادہ بندوں کو اسکی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے انکی اس انتھک محنت کا شکریہ، میں خود بھی بھول گئ تھی کہ اس میں کتنے صفحے ہیں۔ آپ تو تجسس، تحیر اور تہمت سبھی مراحل سے شادمانی سے گذر گئے۔
اگر میں معاشرے میں موجود ناانصافیوں کو خواتین اور بچوں کے حوالے سے بیان کرنا چاہوں تو میری تحریر کو مشرف کی پھیلائ ہوئ بےحیائیوں اور آزدی اظہار رائے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مشرف سے پہلے عصمت چغتائ، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور اسی قبیل کے دوسرے لکھنے والوں کے نام ان لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔ اب جب کہ وہ لوگ مزید لکھنے کے قابل نہیں رہے تو ہماری بیان کی سرزمین کو بنجر ہوجانا چاہئیے یا پھر ان موضوعات پر سوائے مردوں کے کسی اور کو لکھنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ وہ بے حد حیا دار طریقے سے لگتے ہیں اور اسے پڑھ کر نہ صرف جذبہ ء مسلمانی تازہ ہوتا ہے بلکہ بڑا مزہ آتا ہے۔خاص طور پر نفسانی مزہ۔

اگر میں یہ کہوں کہ جسم فروشی انسانی تاریخ کا سب سے پرانا پیشہ ہے اور یہ پاکستان میں بھی ہر زمانے میں ایک ہی شرح سے موجود رہی جبھی تو منٹو سمیت اردو کے ہر بڑے لکھنے والے نے انکے متعلق لکھا اور یہ دراصل مشرف کی پھیلائ ہوئ بےحیائیوں کا حصہ نہیں ہے۔ تو مجھے فحاشی پھیلانے والوں کا ایجنٹ سمجھ لیا جائے گا۔ اور مشرف کے حصے میں سو گالیاں الگ سے۔

اگر میں کہوں کہ شراب پینے والے بھی ہمارے معاشرے میں ہمیشہ اسی رفتار سے موجود رہیں ہیں۔ حتی کہ ہماری تاریخ کے ایک بڑے نام سید احمد شہید کو کسی غیر مسلم نے شہید نہیں کیا تھا بلکہ جب وہ بالا کوٹ کے علاقے میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کے عمل سے گذر رہے تھے تو شراب پر پابندی لگانے کی وجہ سے وہاں پر ایک طبقہ انکے سخت خلاف ہو گیا تھا۔ جس نے انکو ختم کرکے دم لیا تو نہ صرف میرے خلاف حد جاری ہوجائےگی بلکہ شاید یہ خیال کیا جائے گا کہ میرا اس کی خرید و فروخت سے کوئ تعلق ہے۔ مشرف کے حصے میں ہزار گالیاں الگ سے۔
حالانکہ امیر مینائ کہہ گئے ہیں کہ
کیا ہند میں کمی مے و معشوق کی امیر
شیراز جائیے نہ خراسان جائیے

حضرت علی کا ایک مشہور قول ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ مگر نہیں جناب یہ بھی ایک ہمارا عمومی مزاج ہے کہ ہم پہلے کہنے والے کو ایک ٹھپہ لگائیں گے۔ اور پھر درے۔ پھر ایکطرف اسے پھینک کر کہیں گے لو جی میں نےتو اپنے حصے کا کام کردیا۔ اب باقی سب چھتر لگاءو اس لعنتی کوایسے کہ اسکی تشریف کیا اسکی روح تک لال ہو جائے۔ ایسے بدعقیدہ اور مصیبتی لوگ اب تک ہماری صفوں میں گھسے ہمارے ساتھ مکاری کر رہے تھے۔ او جی انکا تو ماضی حال مستقبل یہی ہے۔ مزید گالیاں۔ چونکہ اس وقت مشرف آسانی سے میسر ہے تو ای بہانے لاکھ پھر اس شیطان کو۔۔
اگر میں ان سب صورت حالات سے بچنا چاہتی ہوں تو مجھے ہر وقت اپنی باتوں میں ایک مصنوعی جذبے کو شامل رکھنا چاہئیے۔ مجھےانکی پیشانی پر نظر رکھنی چاہئیے۔ اور اس پہ نمودار ہونے والی لائنوں کے حساب سے اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہئیے۔ کیونکہ وہی تو ہیں سچے اور پکے مسلمان، اور اس ملک کو تا ابد قائم رکھنے والے۔
میں تو سمجھتی ہوں کہ ایک نظام وضع ہونا چاہئیے اور پاسپورٹ کی طرز پر ایک سرٹیفیکیٹ جاری ہونا چاہئیے جس میں لکھا ہو کہ انکے بنیادی مذہبی عقائد اور پاکستان سے انکی محبت کو دیکھ لیا گیا ہے اور یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ ہمارے منظور شدہ عقائد اور محبت کی جانچ سے قریب تر ہیں۔ فی الحال اگلے تین برسوں تک ان میں کسی واضح تبدیلی کے آثار نہیں۔ تین سال بعد حامل سند کو دوبارہ اس جانچ سے گذرنا ہو گا ۔ اس مدت کے بعد یہ بیان مستند نہیں رہے گا۔
کسی پر زیادہ شبہ ہوتو اسے یہ سرٹیفیکیٹ بہت کم مدت کے لئیے دیا جائےاور جو ان پر پورے نہ اتریں انکے لئیے پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے۔
جب تک یہ نہ ہو ہم اپنی زبان صاف کرتے ہیں۔ کیوں لالے کی جان، مشرف تو ہے ناں۔
سید احمد شہید
سید احمد شہید اور افغان

29 comments:

  1. بی بی!

    ریلیکس ۔ ریلکس۔ ریلکس پلیز۔ اسقدر اثر(ٹینشن) نہ لیں ۔ اس سے بلند فشار خون اور ذیابیطس جیسے موذی مرض جان سے چمٹ جاتے ہیں ۔ جو پاکستان کی خواتین میں بہت چھوٹی عمر سے عام ہیں۔ (یہ جوک نہیں ۔ میں خلوص نیت سے برادرانہ مشورہ دے رہا ہوں۔)

    لگتا ہے آپ پے در پے چھوٹے چھوٹے مسئلوں پہ چڑ گئیں ہیں۔ آپ نے کامل صفائی سے سب کے تبصرہ جات کو گالی کا نام دے دیا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ اللہ نہ کرے کوئی آپ سے بد تمیزی کرے۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ آپ کے نزدیک اپنے نادر خیالات کے لئیے تو ،سب کا آپ کی انتہاء سے متفق ہونا ضروری سمجھتی ہیں ، جبکہ آپ کے نزدیک بہتوں کا اسلام بھی درست نہیں ۔ میں آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں ۔ کہ اسلام کا نام لیکر یا اسلام کو استمعال کر کے کچھ لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہوگا۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں ۔ کہ اسلام کہ نام پہ سادہ دل مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر غیر اسلامی طریقے سے اپنے الو سیدھے کئیے ۔ اور ایسے لوگ ناقابل معافی ہیں اور انکی دوگنی سزا ہونی چائیے کہ انہوں نے ایک عام چوری چکاری نہیں کی بلکہ اللہ کے دین کو اپنے مفادات کے تابع کرنے کوشش کی ہے۔ مگر ایسے بدنصیب لوگوں کے مقابلے پہ پاکستان میں وہ لوگ ابھی بھی نسبتا ذیادہ ہیں جو اسلام اور اسلام کے مروجہ اخلاق و طریقہ معاملات پہ یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ آپ کے ہاں شیر بکری ایک ہی گھاٹ پہ پانی پیتے ہیں۔ آپ گدھے گھوڑے کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے ہوئے سبھی مسلمانوں پہ سنگباری شروع کر دیتی ہیں ۔ اس سے بھی لوگ آپ سے بدک جاتے ہیں اور آپ کو پھر شکایت ہوتی ہے۔

    جسطرح اسلام کے بارے میں آپ کے نادر خیالات ہیں اسی طرح پاکستان میں اکثریت کی رائے یہ ہے ۔ کہ ایم کیو ایم کے مخصوص معدودئے چند لوگوں نے لسانیت کو بنیاد بناتے ہوئے، کراچی کے ایک بڑے طبقے کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ جبکہ وہ مخصوص طبقہ یہ لسانی تعصب صرف اپنے مفادات کے لئیے کئیش کروا ہا ہے۔ جبکہ وہ اہل اردو سے کبھی بھی مخلص نہیں رہا ، ایسے لوگوں نے لسانی تعصب کو ہی اپنی سیاسی بنایا ہوا ہے ۔ اسلئیے نہیں کہ وہ اردو بولنے والوں کی خاطر اپنی سیاست کرتے ہیں ، بلکہ انہوں نے اردو والوں کو اپنی خاطر میں لگا رکھا ہے۔ یہ تعصب پھیلانے میں ہی ان کی بقا ہے، اور وہ یہ کام بخوبی کئیے جارہے ہیں۔ نقصان اہل کراچی کا ہورہا ہے۔

    یہ دونوں روئیے انتہاء پسندانہ ہیں کو وہ مذھبی انتہاء پسندی ہو یا لسانی انتہاء پسندی۔ ونوں درست نہیں۔ دونوں میں کچھ لوگوں کی اپنی دال روٹی چلتی ہے۔ ہر قسم کی انتہائیں نہ صرف قابل مذمت بلکہ کسی حد تک عام عوام کے لئیے خطر ناک اور نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں خواہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا مذہب کی آڑ میں لوگوں کو انتشار پہ اکسانا ہو۔ لسانی تعصب ہو یا صوبائی ، اسے اپنے لئیے استعمال کرنا نہائیت نیچی درجے کی سیاست ہے۔

    کبھی کبھار مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس ملک میں ستر فیصد آبادی انپڑھ ہے ۔ بیماریاں عام ہیں اسپتال کم ہیں۔ پانی یا صاف پانی مہیاء نہیں ۔ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہیں اور نوبت اپنے لخت جگر بیچنے تک پہنچ چکی ہے ۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ جس ملک میں اسقدر مسائل ہوں وہاں تو سیاسی پارٹیوں کے منشور میں ایسے مسائل کو حل کرنے کی اولیت حاصل ہونی چاہئیے۔ نکہ کس نے کس کی زبان یا صوبے پہ آنکھ رکھی ہوئی ہے ۔ ایسے ملک میں تو کام ہی اس قدر زیادہ ہے کہ ہر قسم کے تعصب اور تفاخر ھوا ہو جانے چائیں۔ عام آدمی کو تو شعور سے بیگانا قارا دیا جاسکتا ہے مگر یہ خاص لوگوں اور اشرافیہ کا بھی اتنا ہی مسئلہ ہے بلکہ بڑھ کر ہے کیوں کہ جب آپ کے محل کے ارد گرد آباد غریب کے جھونپڑوں کو آگ لگی ہو۔ بروقت اسے بجھانے کا کوئی بندوبست نہ کیا جائے تو آپ کا محل زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکتا۔اور لامحالہ طور پہ آگ جلد یا بدیر آپ کے محل تک پہنچے گی۔

    ReplyDelete
  2. آپ کے یہ الفاظ ۔۔۔۔ یہ ہیں وہ جو یہاں آکر نواب بنے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ نواب بنے بیٹھے ہیں تو انہوں نے اسی سرزمین پر بھوکے رہ کر کر لالٹین کی مدھم روشنی میں دن رات محنت کرکے اپنے شب وروز کو سنوارا ہے۔۔۔ ۔ ان الفاظ سے ہمیں اتفاق نہیں۔ کراچی اور ملک کے کئی دیگر حصوں میں حقداروں کو وہ نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے ۔ بلکہ ان کے حق پہ انہی کے ساتھ ہجرت کر کے آنے کچھ رذیل لوگوں نے ڈاکہ ڈالا۔ جن کے پاس بھارت میں بھی کچھ نہیں تھا انہوں نے اس بہتی گنگا سے خوب خوب اشنان کیا ۔ اور جو لوگ خاندانی اور شرفاء تھے ۔ وہ تو ہجرت کے صدموں سے بھی نہ سنبھل پائے تھے کی بندر بانٹ ہوچکی تھی ۔
    ایوبی دور تک یہ مسئلہ بڑے زورو شور سے اٹھتا رہا ہے کہ ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے اثاثوں کے بندر بانٹ کی تحقیق کی جائے کہ کون کون سے ناجائز لوگ انہیں اپنے نام کروا چکے ہیں ۔ مگر تب تک یہ مافیا پاکستان میں بہت مطبوط ہو چکی تھی ۔ ایوبی حکومت کی کوئی پیش نہ چلی ۔ میں ایک ایسی شخصیت کو جانتا ہوں جنہوں نے بہت عرصہ پہلے یہ کہا تھا کہ پاکستان کی بنیادوں میں حرام ( ہندؤں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کی ناجائز بندر بانٹ)ڈال دیا گیا ہے ۔ جب تک یہ حرام درست نہیں کیا جاتا پاکستان کے ساتھ مسائل رہیں گے۔ اس حرام کمانے میں بہت سے لوگ شامل تھے جب کہ حقداروں کے بارے میں ایک واقعے کا میں خود گواہ ہوں ۔ میرے ایک جاننے والے نے بھارت میں اپنے آباء کا علاقہ دیکھنے کی خواہش کی ۔ وہاں کے بڑے بوڑہوں نے بتایا کہ یہ بڑی بڑی حویلیاں اور زمینیں آپ کے ہجرت کر جانے والے اجداد کی ہیں ۔ میرے یہ جاننے والے یہ دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔ خود مجھے حیرت ہوئی ۔ جب وہ بھارت سے واپس آئے تو اپنے چچا جنہوں نے انھیں پالا تھا۔ چچا سے پوچھا۔ کہ ہم اسقدر بڑے زمیندار ہوتے ہوئے ، ہم نے پاکستان میں اسقدر تنگدستی میں زندگی گزاری۔ جبکہ جعلی کلیم کروانے والے بھی کروڑوں کے مالک بن گئے ۔ آپ نے اپنی جائیداد کو کلیم کیوں نہ کیا ۔ تو ان کے ناتواں بوڑھے چچا نے بڑی بے چارگی سے جو جواب دیا ۔ وہ جواب اس سارے افسوسناک معاملے کا ایک ننھا سا پہلو ہے۔ اس لاغر بوڑے آدمی نے لیٹے لیٹے جواب دیا کہ " ہم یہی سمجھتے رہے وقتی فساد ہے ۔ پہلے بھی کبھی کبھار فرقہ ورانہ فسادات ہوتے رہتے تھے ۔ اس دفعہ کچھ زیادہ معاملہ خراب ہوگیا ہے۔ بیٹا پہلے سال چھ ماہ تو ہم یہی سمجھتے رہے کہ آج نہیں تو کل یہ سارا معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا ۔ اور لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے ۔ بھلا ملک بھی کبھی یوں تقسیم ہوا کرتے ہیں۔ جب تک ہمیں یقن ہوا تب تک جائیداد کے کلیم کرنے کی مدت ختم ہوگئی ۔ بعد از بسیار اور عدالتوں کے دھکے کھانے میں جمع شدہ پونجی ختم ہوگئی اور گھر میں فاقے ہونے شروع ہو گئے ۔ویسے بھی پے در مے صدمات نے حوصلہ چھین لیا تھا ۔ تمھارا باپ دوسر ے چچا کا سارا کنبہ بچے اور پتہ نہیں کس کس کو بلوائیوں نے مار ڈالا تھا ۔ نہ اتنا حوصلہ تھا نہ ہمت ، اور پیسیہ پاس نہیں تھا بس پھر صبر شکر کر کے بیٹھ گئے ۔ یاد رہے کہ اس خاندان نے سخت محنت و مشقت سے اپنے بچوں کو پڑہایا ۔

    آپ کے یہ الفاظ ۔۔۔۔ یہ ہیں وہ جو یہاں آکر نواب بنے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ نواب بنے بیٹھے ہیں تو انہوں نے اسی سرزمین پر بھوکے رہ کر کر لالٹین کی مدھم روشنی میں دن رات محنت کرکے اپنے شب وروز کو سنوارا ہے۔۔۔ ۔ ان الفاظ سے ہمیں اتفاق نہیں۔

    جنہوں نے بھوکے سو کر اور لالٹین (لوڈ شیدنگ سے قطع نظر پاکستان کی اکثرو بیشتر آبادی کے پاس ابھی بھی لالٹین اور دیئے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہاں تک روشن خیالی تو شاید پہنچی مگر بجلی کی روشنی نہیں پہنچی) لاٹین کی مدہم روشنی میں دن رات محنت کرکے اپنے شب وروز کو سنوارا ہے۔۔۔ ایسے بہت کم لوگ ہیں ، ۔ ورنہ ایسے بے چارے لوگ تو پتہ نہیں کب سے خاک ہوگئے ۔ اور جن لوگوں نے لالٹین کی روشنی میں محنت کی تو وہ بھی ماسوائے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے سوا کچھ نہ کر پائے ۔ جن میں کراچی کی مڈل کلاس کے لوگ آتے ہیں ۔ گزارش ہے کہ کراچی کی بڑی جائدادوں کے مالک بننے والوں کے بارے میں تحقیق کریں۔ آپ دم بخود رہ جائیں گی۔

    مشرف کی تو بات اب رہنے دیں ۔ اسے عبرتناک مثال بنانے کے لئیے مشیت ایزدی حرکت میں آچکی ہے۔ ڈکٹیٹروں کا انجام آخر کار یہی ہوتا ہے ۔ آخر میں وہ یک و تنہا ہوتے ہیں۔ خواہ انکا تعلق کسی بھی لسانی گروہ یا صوبے سے ہو۔

    میری رائے میں ایم کیوایم مشرف کے دور میں اپنا عروج دیکھ چکی ہے ۔ اب ایم کیو ایم کی واپسی کا سفر شروع ہورہا ہے۔ ایم کیو ایم اپنا یہ سفر کتنے وقت یا عجلت میں کرتی ہے۔ یہ کراچی اور حیدرآباد مین اس کے ستم سہنے والے لوگوں پہ منحصر ہے۔

    ReplyDelete
  3. Musharaf kay dor main kam uz kam yeah naheen tha;

    Muslim mob kills six Christians over blasphemy rumours in Pakistan

    Islamabad - Six people, including four women and a child, were killed and 14 injured Saturday when a Muslim mob ransacked two churches and set ablaze dozens of houses of minority Christians.

    http://www.earthtimes.org/articles/show/279866,muslim-mob-kills-six-christians-over-blasphemy-rumours-in-pakistan.html

    ReplyDelete
  4. ہماری میس یا کینٹین میں ایک عدد رجسٹر برائے مشورہ و شکایات رکھا ہوا ہے۔
    ایسا نہیں کہ کھانا اچھا نہیں ہوتا یا سروس بری ہوتی ہے سب ہی کی توندیں نکل رہی ہیں اور ویٹر بھی منہ سے حکم کے منتظر رہتے ہیں لیکن حرام ہے کہ مدح کا ایک لفظ بھی کسی نے لکھا ہو پھر بھی کھانا پکانے والے اور کھلانے والے صرف نوکری کے لیے نہیں بلکہ جی جان سے لگے رہتے ہیں۔
    آپ بھی لکھتی رہیے یہ قطعًا ضائع نہیں ہو رہا بلکہ سرائت کر رہا ہے نشتر کا کام کر رہا ہے تبھی تو نیزے کی طرح کے تبصرے اور پیغامات وصول ہورہے ہیں۔
    نسیم حجازی کے ناولوں کو تاریخ سمجھنے والی قوم کو “ خلافت و ملوکیت “ کے حوالے سازش ہی دِکھتے ہیں رہ گئی روشن خیالی اور خواتین کے حقوق کی بات تو صدیوں کے طلسم کبھی لمحوں کے منتروں سے زائل نہیں ہوتے۔
    عصمت چغتائی اور منٹو نے کیا کیا بہتانوں اور الزاموں کا سامنا نہیں کیا؟ ان جیسوں ہی کے جلائے ہوئے چراغوںکی وجہ ہی سے خواتین “ بہشتی زیور “ کے علاوہ بھی کچھ پڑھنے کا حق لے پائیں ہیں۔
    آپ لکھتی رہیے کہ اس راہ گزر سے کچھ خار تو کم ہونگے اور کتنوں کو حوصلہ ملے گا ( فیض کو اسوقت میں بھولا ہوا ہوں اور آپ کی طرح ترنت حوالہ بھی نہیں لا سکتا)

    ReplyDelete
  5. اچھا ہے کہ آپ نے لکھ دیا۔ اس تحریر سے کافی بوجھ ہلکا ہو گیا ہو گا۔ باقی کا کچھ نہیں کہوں گا، صرف سید احمد شہید کی بات کروں گا، بی بی یہ کس نے بتایاآپکو کہ اس طرح شہید کیا گیا تھا۔ میرا آبائی قصبہ بالاکوٹ ہے، اور ہماری برادری سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کو پناہ دینے والے ہیں۔ واصل خان، جن کا زکر ملتا ہے کہ تاریخ میں کہ انھوں نے بالاکوٹ میں مسلم لشکر کو جس کی سربراہی سید احمد شہید کر رہے تھے اور شاہ اسماعیل شہید ان کے دست راست تھے، یہاں پڑاو ڈالا اور تین دن قیام کے بعد، یہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ جہاد کا فیصلہ طے ہوا، شاید یہ آپکو حیرت میں مبتلا کر دے کہ مقامی آبادی کے ۶۰ فیصد نوجوان اس جنگ میں شہید ہوئے، جن کے مزارات اب بھی بالاکوٹ شہر میں جا بجا بکھرے ہیں۔ ہمارے اپنے آبائی گھر جو زلزلے کی نظر ہو گیا، میں چھ مزار تھے،جن کی نشاندہی ایک چھوٹی دیوار سے کی گئی تھی، اور اس احاطے میں داخلہ ممنوع تھا۔ یہی حال تقریبا تمام شہر کا تھا۔
    یہ معلومات آپ ڈاکٹر عبداللہ پنی کی" تاریخ ہزارہ" اور ایک انگریز مصنف جن کا نام مجھے یاد نہیں کی کتاب "دی پٹھان" سے حاصل کی گئی ہیں۔
    کبھی بالاکوٹ چکر لگے تو مزاروں پر موجود اس وقت کی تحاریر، پیغامات اور سید صاحب کے ہاتھوں سے لکھے حکمنامے اور معائدے، براہ مہربانی ضرور ملاحظہ کریں۔
    نوٹ::: یہ تبصرہ صرف درست معلومات فراہم کرنے کو کیا گیا۔ کسی صاحب یا صاحبہ کے پاس کچھ بہتر اور مصدقہ تاریخ کا حوالہ ہو اس بارے تو ضرور بتائے۔

    ReplyDelete
  6. سب سے پہلے عمر صاحب، ویسے میرے پاس اس سلسلے میں پہلی معلومات کا ذریعہ وہ کتاب تھی جوکہ اسی کی دھائ کے اوائل میں کراچی کے اسکولوں میںحکومت پاکستان کی اجازت سے پڑھائ جاتی رہی۔اس وقت جو کتاب پڑحائ جاتی ہے یا پچھلے تیس سالوں سے جو پڑھائ جا رہی ہے وہ اس کتاب کے حجم کا آدھا بھی نہیں ہے۔ بد قسمتی سے اس میں پڑھے جانے والے مضمون تو مجھے یاد ہیں لیکن کتاب نہیں ہے۔ لیکن وکیپیڈیا میں بھی اس چیز کا تذکرہ ہے کہ کس طرح مقامی لوگوں میں سے کچھ قبائل نے انہیں دھوکہ دیا اور اس سلسلے میں یار محمد اور اسکے بھائ سلطان محمد کا نام درج ہے۔ ییہاں میرا مطمح نظر انکی جدوجہد کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ وہ اپنے طور پر احیائے اسلام کی تحریک چلا رہے تھے ۔میں صرف اتنی معمولی سی بات کہنا چاہتی ہوں کہ شراب نوشی اس خطے کے لئے کوئ نئ چیز نہیں۔ جب بھٹو کے زمانے میں شراب پر پابندی لگائ گئ تو ضائع ہونے والی شراب پی کر ہی کتنے لوگ مر گئے تھے۔ بہت ساری چیزیں ہم جس معصومیت سے اپے گلے سے نکال کر مغرب کے گلے میں ڈال دیتے ہیں وہ ہمارے پاس بھی اس وقت سے موجود ہیں جب سے انکے پاس ہیں۔
    گوندل صاحب اسی لئے میں یہ نہتی ہوں کہ سمندر کے کنارے پہ بیٹھ کر اسکے متعلق نہ کچھ کہا جا سکتا ہے اور نہ پیشن گوئ کی جاسکتی ہے۔ تو آپکے خیال میں کراچی میں زندگی کے اتنے مشکل شب وروز گذار کر جو کہ آپکو تخیلاتی باتیں لگتی ہیں۔ میں ان سب باتوں پر فشار خون یا ذیابیطس کا شکار ہو جاءونگی توان پر کچھ عرصہ پہلے ہو جانا چاہئیے تھا۔ اب تو بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی ذیا بیطس کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہ سب باتیں میرے لئے بالکل نئ نہیں ہیں۔ یہ میں نے ہمیشہ اسی جذبے، انداز اور الفاظ میں سنی ہیں۔ یہ شکائیتیں یہ حکائیتیں، انکے بارے میں میر نے کہا کہ درد و غم اتنا کیا جمع تو دیوان کیا۔یہ سب چیزیں میں ایک خزانے کی صورت رکھتی جارہی ہوں۔ بلکہ درخواست کرونگی اگر کوئ مجھے یہ پوسٹس بمعہ تبصرے محفوظ رکھنے کا آسان طریقہ بتا دے۔ مجھے اپنی مصروف زندگی سے وقت نکالنا پڑتا ہے یہ سب کچھ سننے اور جمع کرنے کے لئے۔یہ میرے لئے وقت گذاری کا ذریعہ نہیں۔
    آپ کی کچھ باتوں کے لئے میں یہ کہونگی کہ آپ میری پچھلی پوسٹوں بہ عنوان احسان فراموش کراچی والے اور میں نہ مانوں پڑھئے گا۔
    باقی یہ کہ میر کہتے ہیں کہ
    شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں
    جبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا۔ تو مستی میں کئے گئے اقوال اور اعمال کا اپنا ہی مزہ ہے۔ نواز شریف نے حقیقی کو تخلیق کیا ایم کیو ایم کا زور توڑنے کے لئے۔ مشرف نے شہر کے سکون کو ترجیح دی اور انہیں قابو میں رکھا۔ ختم پھر بھی نہیں کیا کہ ایسے مہرے وقت پڑنے پر دوسرے گروپ کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے نے پھر انہیں نکال کر باہر کھڑا کر دیا ہے اور اسوقت جن علاقوں میں وہ پہلے ہلچل مچاتے تھے وہاں پھر تناءو ہے۔ جمہوریت کا شور مچانے والے جمہوریت پر نہیں آمریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ورنہ لوگ اپنی کارکردگی اور قابلیت کی فکر کریں کہ ہم یہ نہیں کریں گے تو ووٹ نہیں ملے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ لوگ شخصیت پرستی کے نشے میں چور ہیں۔

    ReplyDelete
  7. میں ایم کیو ایم میں جو اچحی باتیں دیکھتی ہوں کہ یہان ایک لیڈر کے گذرنے کے بعد اسکے بیٹے یا بھائ کے آنے کا کوئ امکان نہیں۔ ویسے بھی یہ اس شہر کے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ ووٹ دینے والوں کی تعداد مڈل کلاس سے ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انڈیکس مڈل کلاس کے حجم پر ہوتا ہے۔ وہ مظبوط ہوگی اور بڑھے گی تو ملک آگے کی طرف چلے گا۔ ورنہ گھوڑوں کو مربے کھلانے والے یا شیروں کو سائیبیریا سے امپورٹ کر کے اپنے ذاتی گھر میں اے سی میں رکھنے والے چند لوگ ترقی کی راہ میں رکاوٹ، اور معاشرے کے ٹوٹل امیج کے لئے دھبے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔دراصل وہ ہم نہیں۔ اس لئیے وہ یہاں پر کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔
    ایم کیو ایم کا بنیادی ڈھانچہ نوجوانوں سے بنا ہے۔ یہ چیز مجھے انکی پسند ہے۔ یہ الگ بات کہ تجربہ نہ ہونے، نوجوانوں کی طرح طاقت کے غیر ضروری مظاہرے اور استعمال سے وہ ابھی چھٹکارا نہیں پا سکے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر وقت پر الیکشن ہوتے رہیں اور دوسرے سیاسی لوگ اسے ختم کرنے کی بجائے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنا لیں تو انکا کردار زیادہ مثبت ہوتا جائے گا۔ آپکو ایم کیو ایم پسند نہیں آتی کسی اور سیاسی قیادت کو اپنے درمیان سے مڈل کلاس کی ترویج کے لئے تخلیق کریں۔ لوگوں کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ کریں۔
    یہاں اس وقت لوگوں کی اکثریت پیپلز پاٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو اتنے ووٹ دینے کے لئیے تیار نہیں کہ وہ حکومت میں آجائیں۔ اب اگر آپ ایم کیو ایم کو تسلیم نہیں کرتے اور پیشن گوئ کرتے ہیں کہ یہ اب ختم ہونے والی ہے تو پھر یہ شہر، ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والا شہر کسکے حوالے کریں گے۔ میری پارٹی کا تو کوئ وجود نہیں۔ تو ان کئ ہاتھیوں سےجنگ کرنے کے لئےآپ کون سا ہاتھی تیار کرنا چاہ رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. عنیقہ ابھی کچھ عرصے سے ہی میں نے آپ کی تحریریں پڑھنی شروع کی ہیں. آپ کے انداز ا بیان اور خیالات کا میں بہت مداح ہوں. بس اردو ٹیپنگ اور زور ا بیان کی کمی کی وجہ سے میں کوئی تبصرہ نہیں کر پا تا تھا.ہر دفعہ گوندل صاحب کا تبصرہ پڑھ کے مونھ کا ذائقہ تو خراب ہوتا ہی تھا لیکن اس دفعہ تو تن بدن میں آگ لگ گئی. بری مہربانی اس مہاجر دشمن شخص کو اپنے بلوگ سے بین کر دیجئے . جہاں تک یہ بات ہے کے 'وہ جو یہاں آکر نواب بنے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ نواب بنے بیٹھے ہیں تو انہوں نے اسی سرزمین پر بھوکے رہ کر کر لالٹین کی مدھم روشنی میں دن رات محنت کرکے اپنے شب وروز کو سنوارا ہے' تو میں اور میرا خاندان اس بات کا گواہ ہے کے ہندوستان میں اپنی پانچ سو سال کی جمع پونجی لٹا نے کے بعد پاکستان آ کے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا. یہاں آ کے ہم لوگ جہومپڑِیون میں بھی رہے ہیں لیکن اپنی تعلیم کسی نہ کسی طرح پوری کی ، محنت کی اور آج الحمدللہ ہمارے خاندان کے لوگ ملک اور ملک سے بہار اچھے عہدوں پی فایز ہیں اور بلند متواسط طبقے میں شمار ہوتے ہیں.

    ReplyDelete
  9. مرزا غالب فرما گئے ہیں

    نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
    شوخی نيرنگ ۔ صیدِ وحشتِ طاؤس ہے
    دام سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا
    لذتِ ایجادِ ناز ۔ افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
    نعل آتش میں ہے ۔ تیغ یار سے نخچیر کا

    آپ اگر ایک منٹ فارغ کر سکیں تو مندرجہ ذیل ربط پر لکھی چند سطور پڑھ ليجئے ۔ عمل سے ان شاء اللہ سکون ملے گا
    http://www.theajmals.com/blog/2009/08/02

    ReplyDelete
  10. !
    سبحان اللہ ! یہ اللہ کی شان نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ دل جمعی سے کسی ایک موضوع سے دوسرا غیر متعلقہ موضوع نکال لیتی ہیں اور حوالے آپ مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کی دسویں کی نصابی کتابوں کا دیتی ہیں ، جس میں اپنی ساری فتوحات اور پاکستان کا قومی ترانہ دنیا کے قومی ترانوں سے برتر ثابت کرنے کی بیکار کوشش کی جاتی ہے۔
    آپ رقم طراز ہیں ۔۔ بہت ساری چیزیں ہم جس معصومیت سے اپے گلے سے نکال کر مغرب کے گلے میں ڈال دیتے ہیں وہ ہمارے پاس بھی اس وقت سے موجود ہیں جب سے انکے پاس ہیں۔۔۔
    بی بی ! مسلمانوں میں شراب نوشی کی عادت پہ کوئی بھی یوروپ کو قصوروار نہیں ٹہرا رہا ۔ نہ ہی شراب کے مسئلے پہ میر یا غالب کی شاعری کو فتویٰ قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس کی رُو سے شغل شراب جائز قرار دیا جاسکے ۔ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ۔ جس میں دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ شراب کو اُم الخبائث قرار دیتے ہوئے۔شراب کشید کرنے سے لیکر اسے پینے پلانے، بیچنے ، باربرداری کرنے ، اس سے کاروبار کرنے یعنی ہر مرحلے کو مسلمانوں پہ منع قرار دیا ہے ۔ نہ صرف مسلمانوں کے لئیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے ۔ بلکہ اسے غیر مسلموں کو بیچنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔
    اسلام کے آفاقی اصولوں کے تحت جو چیز مسلمانوں کے لئیے نقصان دہ ہے اسے دوسری قوموں کے لئیے بھی نقصان دہ جانتے ہوئے اسے ان کو بیچنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے پابندی سے مفر کی کوئی صورت نہیں، اب اگر کوئ میر یا غالب کی طرح حکام الہٰی کو طرح پس پشت ڈال دیتا ہے تو اسکا وہ خود ذمہ دار ہے اسلام میں شراب پینے پہ حرام کی حد تک ممانعت ہے۔یوروپ میں شراب سر عام ملتی ہے ۔ وہاں شراب سر عام کیوں ملتی ہے، یہ یوروپ کا مسئلہ ہے ۔ البتہ پاکستان کا مسئلہ مسلمان ریاست ہونے کی وجہ سے مختلف ہے ۔ اور شراب نوشی کو پاکستان میں روکنے کے کے لئیے تمام اقدامات کیے جانے چاھئیں ۔
    شراب و شباب کے قصے پاکستان میں ہی نہیں۔ بلکہ مسلم حکمرانی کے دور میں بھی ھندؤستان کے طول عرض میں بہت سے مسلمان امراء کے ساتھ منسوب رہے ہیں ۔ امراء تو درکنار انکے درباری خوشامدی اور قصیدہ گو شاعر تک شراب و شباب کے نہ صرف رسیا تھے ۔ بلکہ شاہ کو خوش رکھنے کے لئیے ۔ شاہ سے بڑھ کے مینا و ساغر اور میخانہ و ساقی کے حسن کے لئیے رطب السان تھے۔ یہیں سے وہ میر اور یہ غالب کے قصیدے اور داستانیں جن کا آپ اکثر ذکر کرتی رہتی ہیں۔

    ReplyDelete
  11. را مقصد محض معلوماتی مکالمہ ہوتا ہے۔ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا رکن نہیں ہوں۔ پاکستان کے اسقدر سیاست ذدہ معاشرے کو خود پاکستان کے عوام کے لئیے بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ یا تو شعور و علم عام ہو اور لوگ چھے برے کی تمیز جان سکیں پھر بھی کسی حد تک جائز طور پہ تحمل اور برداشت سے اپنا نقطہ نظر ہر کوئی کہہ سکے ۔ نہ کہ دوسروں پہ اپنا نقطہ نظر مسلط کیا جائے۔ ایسی صورت میں پڑھے لکھے لوگوں پہ یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ انپڑھ یا کم شعور لوگوں کی رہنمائی کریں ۔ نہ کہ انہیں استعمال کریں۔ یہ بینا اور نابینا والا معاملہ بنتا ہے جس میں بینا کو چائیے کہ نابینا کی رہنمائی کرے نا کہ اسے نابینا ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکا زاد راہ ھتیا لے۔
    پاکستان میں مڈل کلاس تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہے۔ قوم دو بڑے طبقوں میں بٹتی جارہی ہے ، بے پناہ مالی اور قومی وسائل کی مالک چھوٹی سی اقلیت مگر انتہائی کم ظرف اشرافیہ ، اور دن بدن غریب سے غریب تر ہوتے بہت بڑا اکثریتی طبقہ عوام۔ پاکستان کے لئیے آنے والے وقتوں میں یہ کوئی اچھا پیش خیمہ نہیں ، اگر کوئی معجزہ نہ ہوا ہم نے اپنی روش یکسر نہ بدلی تو آنے والے وقتوں میں، میں پاکستان کے لئیے بہت سی مشکلات اور دقتیں دیکھ رہا ہوں ۔ جسکے سامنے طالبان ڈرامہ بہت حقیر ثابت ہوگا۔
    اگر اشرافیہ اپنے ظرف کو کچھ وسیع کرے تو پاکستان میں بھی بہت ترقی ہوسکتی ہے۔ پاکستان اپنا باوقار مقام بنا سکتا ہے جسمیں پاکستانی لوگ عزت و احترام سے رہ سکتے ہیں۔ انگلستان کو موجودہ ترقی دینے میں انگلستان کے لارڈز کی کوششیں تھیں ۔وہاں عام آدمی کے حالات ہم سے بھی گئے گزرے تھے۔

    آپ نے اسفسار کیا ہے ۔۔ اگر آپ ایم کیو ایم کو تسلیم نہیں کرتے اور پیشن گوئ کرتے ہیں کہ یہ اب ختم ہونے والی ہے تو پھر یہ شہر، ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والا شہر کسکے حوالے کریں گے۔ میری پارٹی کا تو کوئ وجود نہیں۔ تو ان کئ ہاتھیوں سےجنگ کرنے کے لئےآپ کون سا ہاتھی تیار کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ایم کیو ایم فوری طورختم ہونے جارہی ہے۔ بلکہ صرف اتنی سی گزارش کی تھی کہ میری رائے میں مشرف کی چھتری تلے ایم کیو ایم کا عروج کا دور تھا ۔ مشرف کی چھتری ہتتے ہی اب ایم کیو ایم کا واپسی کا دور شروع ہوچکا ہے یہ ایک فطری بات ہے۔ ایم کیو یہ سفر کسقدر عجلت سے کرتی ہے اب اسکا دارومدار کراچی کے لوگوں پہ منحصر ہے کہ وہ اسے کتنا عرصہ مذید برداشت کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ساتھ ایک بہت بڑا ضافی مسئلہ بھی رہا ہے کہ اس میں عدم برداشت اور تشدد کا بہت عمل دخل رہا ہےحتیٰ کہ اپنے ووٹروں کے ساتھ بھی ایم کیو ایم کے کچھ رہنماؤں کی طرف سے تشدد کا عنصر بہت زیادہ رہا ہے۔صرف کسی ایک مخصوص طبقے کی نمائیندگی کرنے کی دعویدار علاقائی تنظیموں یا پارٹیوں کا ایک مخصوص پس منظر ہونے کی وجہ سے انکا کردار بھی بہٹ محدود اور ایک خاص عرصے تک ہوتا ہے ۔ علم سیاست اسے پاکستان پہ ہی نہیں دنیا بھر میں لاگو کرتا ہے۔
    کونسا ہاتھی ؟ میں سمجھتا ہوں ابھی تک ہاتھی صیغہ راز میں ہے ۔ حالات کبھی کبھار خود ہی حاتھی کا کردار ادا کرتے ہیں اور راتوں رات ہاتھی تیار ہوجاتے ہیں ۔

    ReplyDelete
  12. سب سے پہلے نامعلوم کے نام، افسوس میں انہیں پہلے کچھ کہنا بھول گئ۔ یقینی طور پر ہر ذی ہوش شخص اس سارے سانحے پر افسو کا اظہار کریگا۔ میں اس چیز کا بہتر اندازہ کر سکتی ہوں کہ جب ایک بپھرا ہوا ہجوم آپ پر بغیر کسی وجہ کے حملہ کردے تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔ ساری دنیا مین اسوقت شدت پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ بد قسمتی سے ہم جو کہ امن کے مذہب کے داعی ہیں اس کی لپیٹ میں سب سے زیادہ ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں پیش ہونےوالے ان واقعات پر کوئ ڈیٹا تیار کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ جنوبی پنجاب اس سلسلے سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اس قسم کے واقعات وہاں پر آج سے دو تین سال پہلے بھی پیش آئے ہیں۔ یہ شاید وہ علاقے ہیں جہاں طالبان کا اثر و نفوذ بڑھ رہا ہے۔
    گوندل صاحب مجھے شاید ہر پوسٹ کے ساتھ اپنا مقصد واضح طور پر لکھنا چاہئیے۔ کیونکہ اس طرح زیادہ تر لوگوں کو خاصی پریشانی رہتی ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو روائیتی چیزیں روائیتی انداز میں لکھنے پڑھنے کے قائل ہیں۔ سن لیجئیے کہ میرا یہ پوسٹ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے طرز عمل کے اندر لچک رکھنی چاہئیے اور لوگوں کو برانڈ نہیں کرنا چاہئیے۔ انکے چند بیانات پر۔ جیساکہ تفہیم قرآن اور ملوکیت اور خلافت کو پسند کرنے سے میں جماعتی نہیں ہوجاتی۔ میں جماعت کو کبھی ووٹ نہیں دونگی۔ ایم کیو ایم کی حیثیت تسلیم کرنے سے اور انکی اچھائیاں کو تسلیم کرنے سے میں انکے ہر غلط عمل کی پشت پنہی نہیں کرتی۔ سب اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں انہیں بھی سیکھنا چاہئیے۔ لیکن ملکی سیاست میں آپ انکی اہمیت سے اس لئے انکار کریں کہ آپ بعض ذاتی وجوہات کی بناء پر انہیں پسند نہیں کرتے تو یہ آپکا مسئلہ ہے انکا نہیں۔ جو انہیں کرنا آتا ہے وہ وہی کریں گے۔
    افتخار اجمل صاحب، آپ سے کس نے کہا میں پریشان ہوں۔ الحمد للہ میں اتنی ہی اچھی نیند لیتی ہوں جتنی آپ لیتے ہونگے۔ اپنی بچی کے ساتھ بآواز بلند نظمیں گاتی ہون، ریس لگاتی ہون، ڈرائنگ کرتی ہون، نقلیں اتارتی ہوں۔ آجکل اسکے لئے انٹر نیٹ پر بیٹھ کر اچٹیویٹیز تلاش کرتی ہوں۔ پرنٹ نکال کر انہیں کارڈ بورڈ پہ چپکانا اور اس طرح کے درجنون اور کام۔ اسکے علاوہ اپنا لمبا چوڑا گھر ، رشتے داریاں سنبھالتی ہوں۔ اپنے گھر میں رہنے والے مکینوں کی دیکھبھال کرتی ہوں۔ ان سب کے علاوہ میرے دیگر مشاغل ہیں جنہیں یہاں بیان کرنے میں مجھے کوئ دلچسپی نہیں۔ میرے پاس پریشان رہنے کا جواز اور فرصت دونون نہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو میری تمام تحریروں پر سے پھر گذر جائیے اور تبصرہ جات سے بھی۔ امید ہے آپ کو تسلی ہو جائے گی۔ اور اگر ان باتوں پر میں آپ کو پریشان لگتی ہوں تو پھر ملک کے مایہ ناز کالم نگاروں، لکھنے والے ادیبون اور شعرا، تحقیقداں، تجزیہ نگار۔ یہ سب تو پھر ڈپریشن کی آخری حدوں کو پہنچے ہونگے۔
    میں پھر واضح کردوں کہ یہاں لکھا جانیوالا تمام مواد، آخری فیصلہ نہیں، نہ یہاں کسی چیز کی تبلیغ ہو رہی ہے۔ یہ سب موضوعات ہر قسم کی بحث کے لئیے کھلے ہین۔ او ر مجھے خوشی ہوگی اگر ہم اپنے علم کو بانٹ سکیں۔۔ بغیر کسی شدت پسندی اور ٹھپے کے۔ اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں نے یہاں کوئ ماڈریٹر نہیں رکھا۔کسی کے اوپر پابندی نہیں کہ وہ اپنا نام ظاہر نہ کرنا چاہے تو ضرورکرے۔ میری دلچسپی صرف اس میں ہے کہ سب کس طرح سوچتے ہیں اور اگر ان سے الگ لوگ سوچتے ہیں تو میں باقی سب کے علم میں لاءوں۔ آپ سب بھ یہ سوچیں کہ کچھ لوگ آپ سے الگ کیوں سوچتے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. بلکہ درخواست کرونگی اگر کوئ مجھے یہ پوسٹس بمعہ تبصرے محفوظ رکھنے کا آسان طریقہ بتا دے۔

    طریقہ بہت آسان ہے۔
    1۔سب سے اوپر والے انتہائی بائیں کونے میں File پہ کلک کریں
    2۔ وہاں آپ کو بہت سے آپشن نظرآئیں گے ۔ وہاں پہ Save As پہ کلک کریں۔ اس سے ایک نئی ونڈو یا چوکھٹا کھلے گا ۔
    3۔ اس چوکھٹے میں سب سے اوپر اوپر Save In آپشن نظر آئے گی وہاں آپ اس پوری سائٹ کو بلکل اسی طرح جس طرح آپ کو یہ تمام تبصروں وغیرہ کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ آپ اسے اپنے مطلب کا فائل ہولڈر چنیں جہاں آپ اسے محفوظ کرنا چاہتیں بہتر ہو کہ آپ اپنی سائٹ کے محفوظ کرنے کے لئیے ایک نیا فائل ہولڈر بنا لیں۔ تا کہ اسمیں اپنی تمام تحاریر عین مین بمعہ تبصروں کے محفوط کرسکیں۔
    4۔ تین نمبر والے چوکھٹے میں نیچے کی طرف تین الگ الگ تکونیں نظر آئیں گی جن میں سے ایک پہ Name دوسری کے آگے Type تیسری کے آگے Codification لکھا نظر آئے گا اور ان تکونوں کے سامنے بنے خانوں میں آپ اپنی فائل کا نام رکھیں اور جہاں لفظ Type لکھا ہے وہاں اس تکون پہ کلک کر Complete Web Page کو چنیں اور فائل محفو ظ کر لیں ۔ پھر آپ یہ فائل جیسی آپ کو انٹرنیٹ پہ نظر آتی ہے ویسے ہی یہ آپ کے کمپیوٹر پہ آپ اسے بغیر انٹر نیٹ کنیکشن کے کھول سکیں گی۔
    File + Save As+Type+Complete Web Page.
    And click for save.

    ReplyDelete
  14. اسطرح تو اوپر الفاظ گڈ مڈ ہونے سے آپ کو شاید سمجھ نہ اب اسے یوں لکھا رہا ہوں ۔۔

    طریقہ بہت آسان ہے۔
    ۔سب سے اوپر والے انتہائی بائیں کونے میں
    File
    پہ کلک کریں۔

    ۔وہاں آپ کو بہت سے آپشن نظرآئیں گے ۔ وہاں پہ
    Save As
    پہ کلک کریں۔ اس سے ایک نئی ونڈو یا چوکھٹا کھلے گا ۔

    ۔ اس چوکھٹے میں سب سے اوپر اوپر
    Save In
    آپشن نظر آئے گی وہاں آپ اس پوری سائٹ کو بلکل اسی طرح جس طرح آپ کو یہ تمام تبصروں وغیرہ کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ آپ اسے اپنے مطلب کا فائل ہولڈر چنیں جہاں آپ اسے محفوظ کرنا چاہتیں بہتر ہو کہ آپ اپنی سائٹ کے محفوظ کرنے کے لئیے ایک نیا فائل ہولڈر بنا لیں۔ تا کہ اسمیں اپنی تمام تحاریر عین مین بمعہ تبصروں کے محفوط کرسکیں۔

    ۔ تین نمبر والے چوکھٹے میں نیچے کی طرف تین الگ الگ تکونیں نظر آئیں گی جن میں سے ایک پہ
    Name
    دوسری کے آگے
    Type
    تیسری کے آگے
    Codification
    لکھا نظر آئے گا اور ان تکونوں کے سامنے بنے خانوں میں آپ اپنی فائل کا نام رکھیں اور جہاں لفظ
    Type
    لکھا ہے وہاں اس تکون پہ کلک کریں
    Complete Web Page
    کو چنیں اور فائل محفو ظ کر لیں ۔ پھر آپ یہ فائل جیسی آپ کو انٹرنیٹ پہ نظر آتی ہے ویسے ہی یہ آپ کے کمپیوٹر پہ آپ اسے بغیر انٹر نیٹ کنیکشن کے کھول سکیں گی۔
    File + Save As+Type+Complete Web Page.
    And click for save.

    نوٹ۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کوڈیفکیشن میں سے مکمل ویب پیج کا چناؤ کرتے ہوئے سائٹ کو محفوظ کریں ۔

    ReplyDelete
  15. عنیقہ ناز صاحبہ، سب سے پہلے تو بہت شکریہ۔
    ویکییپیڈیا کے متعلق اتنا کہوں گا کہ ہم میں سے اکثر پاکستانیوں نے اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اکثر پاکستانی آرٹیکل بغیر کسی حوالے کے ٹیگ زدہ ہیں۔ ویکیپیڈیا پر اس حوالے سے جو ایک مستند حوالہ ہے وہ گزیٹیئر آف انڈیا کا ہے، جس میں یہ معلومات بہت کم ہیں۔
    یار محمد اور سلطان محمد کے حوالے سے جو بات آپ نے کی، تو یار محمد کو سید احمد شہید نے پشاور میں اپنا نمائندہ یا گورنر کہہ لیں، مقرر کیا تھا اور سلطان محمد اس کا دست راست تھا۔ پشاور، یا نوشہرہ سے اپنا مرکز ہزارہ میں لانے کا مقصد سید احمد شہید کی نوشہرہ اور پھر اٹک کے علاقے میں شکست تھی۔ اور وہیں سے جب پسپائی ہوئی تو ہزارہ میں داخل ہوئے اور یہاں اپنا نیا مرکز بنایا۔ تاریخ میں اس حوالے سے یار محمد کی غداری کا ذکر ملتا ہے۔ بالاکوٹ میں مرکز کی تشکیل اسی وقت ممکن تھی جب مقامی آبادی ان کا ساتھ دیتی۔ یہی مقامی آبادی تھی، جس نے سید صاحب کو قبول بھی کیا اور پھر یہاں شانہ بشانہ جہاد بھی کیا۔ کئی قبائل جلاوطن بھی ہوئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یار محمد اور سلطان محمد جیسوں نے غداری کی۔

    ReplyDelete
  16. شکریہ عمر، معلومات شیئر کرنے کا۔ مین نے مزید کچھ ریفرنس ڈالے ہیں انہیں چیک کر لیں۔ مزید کی میں تلاش میں ہوں۔
    عمیر، یقیناً لوگوں کی محنت اور جدو جہد کے بارے میں آپ جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ اور انکو میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ اورنگی ٹاءون کراچی کا ایک مضافاتی علاقہ ہے۔ اسکے اطراف میں پشتو اسپیکنگ لوگوں کی آبادیاں ہیں۔ فی الوقت یہاں کی آبادی تیس لاکھ سے زائد ہے۔ اسکے اندرونی علاقے جو ایک مدت تک بجلی کےبغیر رہے اور جہاں شاید ابھی بھی کچھ علاقوں میں بجلی نہ ہو۔ وہاں بہاریوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ انکے گھروں میں چاہے بیٹھنے کے لئے جگہ نہ ہو مگر کتابیں ضرور ہوتی تھیں۔ تعلیم کے معاملے میں ان لوگوں کو میں نے انتھک محنت کرتے دیکھا۔ حالانکہ انکے بالکل برابر میں پشتو اسپیکنگ لوگ رہتے ہیں مگر وہ تعلیم کی اہمیت سے نا آشنا ہیں۔
    آج سے کچھ عرصے پہلے میں نے جن بہاریوں کو ان دور افتادہ علاقوں میں خستہ جھونپڑیوں میں رہتے دیکھا تھا وہ آج کسی فرسٹ ورلڈ ملک کے بڑے بڑے اداروں میں اپنی قابلیت کما رہے ہیں۔ محنت کرنے والوں کے لئے وقت ایک سا نہیں رہتا۔
    لیکن ، ایک بات یہ ہے کہ سب کی باتیں سننی چاہئیں۔ کسی بھی شخص کی بات پر کان بند کرنے سے وہ بولنا اور سوچنا بند نہیں کرتا۔یہ کمیونیکشن کا دور ہے۔ بولیں گے نہیں تو جانیں گے کیسے۔ بغیر بولے تو دل بھی نرم نہیں ہوتا۔بولیں، اگر سننے والا برداشت کر لے تو آپ اور وہ تا دیر ساتھ چلیں گے اور برداشت نہیں کریں گے تو راستہ الگ کر لیں گے۔ نہیں بولیں گے تو اجنبی رہیں گے۔
    گوندل صاحب، اس مشورے کا شکریہ یہ خاصہ قیمتی مشورہ ہے۔

    ReplyDelete
  17. Aap ke blog par comment ke box mein copy paste ki option enable kion nahin hai

    ReplyDelete
  18. تبصرے کے باکس پر رائٹ کلک کرکے ”دس فریم“ سیلکٹ کریں اور اگلے میینو میں سے ”شو اونلی دس فریم“ سلیکٹ کرلیں.

    ReplyDelete
  19. جعفر یہ مشورہ شاید محب کو دے رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  20. میں نے چار پانچ سطور لکھیں تھیں ۔ آپ نے اسے ضرب دے کر لکھ دیں ۔ ارے بی بی ۔ مجھے الہام نہیں ہوتا ۔ آپ کی تحریر آپ کی پریشانی کی غماز تھی ۔ مجھے کیا معلوم کہ آپ دوسروں کو پریشان کرنے کیلئے لکھتی ہیں ۔
    اسی بہانے یہ تو معلوم ہوا کہ آپ بچی کے ساتھ بچی بنتی ہیں ۔ یہ بات مجھے بہت پسند ہے ۔ اپنی بچی کو جو میری پوتی کے برابر ہو گی خوب ٫يار کریں ۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے ۔ آپ کیوں بگڑنے لگیں ۔ بچی خوش رہے گی تو آپ بھی خوش رہیں گی

    ReplyDelete
  21. معذرت
    خوب پیار کریں
    پہلے غلط لکھا گیا ہے

    ReplyDelete
  22. عمیر رقم طراز ہیں۔۔ہر دفعہ گوندل صاحب کا تبصرہ پڑھ کے مونھ کا ذائقہ تو خراب ہوتا ہی تھا لیکن اس دفعہ تو تن بدن میں آگ لگ گئی. بری مہربانی اس مہاجر دشمن شخص کو۔۔

    لاحول ولاقوة الا بالله۔ بھائی صاحب آپ کو کیسے الہام ہوا کہ میں مہاجر دشمن ہوں۔؟ اگر آپ تعصب کی پٹی آنکھوں سے ہٹا کر میرے تمام سابقہ مکالمے کا بغور جائزہ لیں تو بات آُپکے ذہین نشین ہو جانی چاہئ۔ے اگر نہیں تو فصیح و بلیغ اردو کی بجائے آسان اردو میں پھر سے بیان کیئے دیتا ہوں ۔ میں نے صرف اتنی عرض کی تھی کہ ہندؤوں کے چھوڑے ہوئے اثاثوں کی تقسیم کی بندر بانٹ میں خود مہاجروں کے ساتھ ذیادتی ہوئی کہ جو مہاجر حقدار تھے ۔ اور جدی پشتی نجیب الطرفین تھے وہ تو ہجرت کے صدمے سے بھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ان میں سے بہتوں کے خاندان میں ، عزیز و اقارب ، بہن بھائی ، بچے یا ماں باپ ، دوران ہجرت شہید ہو گئے ۔ آبائی مکان، حویلیاں ۔ گلی کوچے ، گھر بار سب چھوٹ گیا ۔ وہ ابھی ان صدموں کے مارے اپنے گم شدہ عزیزو اقارب کو کراچی کے مختلف کیمپوں میں کھوج رہے تھے۔تو وہ اپنی گم گشتہ زندگی اور اپنی آبائی مکانوں ، جائیدادوں یا کاروبار اور زمینوں کے ثبوت اس دوران کہاں سے دیتے۔ دوسری طرف جو وہ لوگ جو ہوشیار اور بدیانت تھے اور ہجرت سے پہلے جن کے الے پلے کچھ نہیں تھا ۔انہوں نے بحالی کے مختلف اداروں سے ملکر کروڑوں کے مکان اور جائدادیں اپنے نام کروالیں۔جبکہ حقدار ۔ جیسے کہ آپ نے اپنے بارے میں فرمایا ہے ، اپنے جائز حق سے صرف اس لئیے محروم رہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی نوابی کے داعوے اور جاگیروں کے کلیم کئیے وہ ملی بھگت کے ذرئیعے رات و رات کڑوؤں کی جائدادوں کے مالک بن گئے۔ اور کم ظرف لوگوں کو اسقدر اچانک اتنا کچھ مل جانے کی وجہ سے بہت سی خباثتوں نے جنم لیا جس کا سب سے ذیادہ نقصان شرفاء کو ہوا ۔ جنہوں نے بہت آسان زندگی گزاری تھی وہ کچھ ہی عرصے میں اپنے عزواقارب کو شہید کروا کر مہاجر ہوئے اور گھر بار سب کچھ چھوٹ گیا وہ اپنے جائز حق سے بھی محروم کر دئیے گئے۔ میں نے ہمیشہ اس بات پہ ذور دیا ہے کہ بہت سے جائز طور پہ حقدار کیونکر اپنے حق سے محروم رہے ۔ جو لوگ بڑی بڑی حویلیوں کے مالک تھے اور بڑی جائداوں کے وارث تھے۔ ہجرت کے بعد جسطرح بوریاں سی کر اور ردی کاغذ سے لفافے بنا کر بیچتے ہوئے اور اسطرح کے چھوٹے موٹے کاموں کی ابتداء کرتے ہوئے انھوں نے اور انکے بچوں نےجس طرح اپنا پیٹ پالا یہ بہت حوصلے کی بات تھی اوریہ انتہائی ناانصافی تھی ۔ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کرنا بہت مشکل، اب ظاہر سی بات ہے جنہوں نے انکے ساتھ زیادتی کی وہ ہجرت سے پہلے کچھ بھی نہیں تھے اور وہ موقع پرست تھے انہوں نے لوگوں کی اس ناگہانی افتاد سے ۔ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اپنے آپ کو صاحب جائداد کہلواتے ہوئے حقداروں کا حق ھتیاء لیا۔ اور ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ آج نواب بنے بیٹھے ہیں ۔ اور قربان جاؤں عمیر صاحب آپکے۔ آپ ہی بتائیں اس میں مہاجر دشمنی کہاں سے آگئی۔؟ واقعی کسی نے کہا ہے کہ تعصب کی آنکھ سےسفید ، سیاہ اور سیاہ ، سفید نظر آتا ہے۔

    آپ کی اطلاع کے لئیے عرض ہے میرے معدودئے چند دوستوں میں سے میرےسب سے اچھے اور پرانے دوست مہاجر ہیں ۔ جنکا خلوص مجھے زندگی بھر ہمیشہ بہت کام آیا ہے۔

    عنقیہ بی بی!

    مڈل کلاس میں تعلیم صرف بہاریوں پہ ہی منحصر نہیں ۔ پاکستان بھر کی مڈل کلاس نے اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنی جائز ضرورتیں روک کر ، اپنے بچوں کو پڑہایا ہے ۔ اور ٹاٹ اسکولوں اور سرکاری کالجوں سے پڑھے لوگوں نے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ اسمیں بہاری ہی نہیں بلکہ پٹھانوں سمیت سبھی قومیتیں شامل ہیں ۔ ملک کے بندوبست میں شامل اعلٰی تعلیم یافتہ بڑے بڑے عہدیداران ،سبھی کسی ایک قوم کے نہیں۔ اسمیں پٹھان، سندھی، بلوچی، پنجابی ،بہاری، یو پی،سی پی،سبھی جگہوں کے لوگ شامل ہیں۔ )یہ الگ بات ہے کہ پنجاب کا صوبےکی آبادی بے تحاشہ طور پہ دوسرے صوبوں سے ذیادہ ہونے کی وجہ سے پنجابی زیادہ نظر آتیں ہیں ، (بڑی بڑی ڈگریوں کے حامل سبھی لوگ شامل ہیں اور زیادہ تر کا پس منظر پاکستانی مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔

    میرا نکتہ یہ تھا کہ یہ مڈل کلاس کے یہ لوگ جو آگے نکل گئے اب وہ مڈل کلاس نہیں ہیں جبکہ اکثریت غریبی کے ہاتھوں مڈل کلاس سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ یعنی ملک کی آبادی تیزی سے دو حصوں میں بٹتی جارہی ہے ۔ تعداد میں بہت کم مگر خطرناک حد تک امیر۔ اور تعداد میں بہت ذیادہ اور افسوسناک تک مفلس اور غریب۔ جبکہ مڈل کلاس اسی تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہے۔اور یہ پاکستان اور پاکستان کی اشرافیہ کے لئیے اچھا پیش خیمہ نہیں ۔

    سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پہ جامع معلومات لکھنے کے لئیے بہت وقت اور جگہ چاہئیے ۔ آپکا بلاگ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

    ReplyDelete
  23. السلام علیکم۔ بڑے کمال کی بات ہے کہ جس ذہن سے ہم کو کوئی کتاب سمجھ میں آ جائے وہ ہمیں "زبردست" کتاب لگے اور جس قلم سے خیرالقرون کی مقدس ہستیوں کی توہین ہو ، وہ قلم ہم کو فتنہ پرور نظر نہ آئے۔
    خیر اپنی اپنی فکر و نظر کی بات ہے سب۔

    ReplyDelete
  24. جی ہاں ،آپ نے بجا فرمایا یہ اپنا طرز فکر ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہمارے یہاں مختلف طبقہ ہائے فکر پائے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تاریخ کا حق یہ ہے کہ موءرخ اسے من و عن تحریر کرے۔ انبیاء کو معصوم قرار دیا گیا ہے۔ اور اطاعت اللہ اور رسول کی کی جانی چاہئیے۔تاریخ اگر صحیح طور پر تحریر نہ ہو اور اس میں آپ اپنی محبت میں چیزوں کو نظرانداز کریں یا بیان کرنے سے گریز کریں تو اسکا لکھنا نہ لکھنا برابر ہے۔ دراصل سچ کا چھپانا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر بڑی شخصیات کو انسانوں کی حیثیت سے پڑھیں تو انکی شخصیت کی بڑائیاں زیادہ بڑی لگتی ہیں۔ اگر انہیں مافوق الفظرت بنا دیا جائے تو کون ان سے کچھ سیکھنے کی چاہ رکھے گا۔

    ReplyDelete
  25. محترمہ عنیقہ صاحبہ ۔۔ آپ نے مجھے جب لکھا تھا کہ آپ اپنے شروع کیے ایک موضوع پر میرے سے مزید بات نہیں کرنا چاہتے ۔۔ تو یہ اپنے آپ میں ایک ماڈریٹ ہونے کی اچھی مثال دی تھی ۔۔

    محترمہ ۔۔ سائکالجی کا سٹوڈنٹ سٹوڈنٹ تو نہیں ۔۔ پر آپ نے جس طرح سے ابھی اوپر اپنے تبصرے میں اپنی زندگی کوگواہی طور پر فر فر لکھ دیا اور جتا دیا کہ آپ پریشان نہیں ہو ۔۔ کیا خوب لکھے ہیں زندگی کے نشیب و فراز ۔۔ لیبل لگانا !! ۔۔ آپ خود لیبیل لگاتے ہو ۔۔ سبوت دوں آپ کو ؟ ۔۔ بتانا ضرور دوگا ۔۔۔ آپ کی تحاریر سے ہی ۔ کے فلانا یہ ہے فلانا وہ ہے ۔۔ آپ تو صوبائی و علاقائی لیبل تک بے باک ہو کر لگا دیتے ہو ۔۔ اور آنٹی مقصد !!!!! ۔۔ بہت خوب لکھی لکھنے والے نے بھی ۔۔ بلاگ لکھنے والا اب تبصرات میں بتا رہا ہے کہ مقصد کیا ہے ۔۔ بڑا حق ادا ہوا نا بلاگ پوسٹ کا !

    محترمہ ۔۔ یہاں زندگی کے ادوار بدلتے رہتے ہیں ۔۔ حالات کے ساتھ رجحان بدلتے رہتے ہیں ۔۔ کردار کے ساتھ انسان بدلتے رہتے ہیں ۔۔ اے سی روم میں بیٹھ کر بلاگ لکھنا و ادھر ادھر کی کتبایں پڑھ کر انسانوں کے کرداروں پر تحریر نگاری کرنا ۔۔ بہت آسان ہے ۔۔ بلکہ یہ تو اچھی بات ہے ۔۔ سٹار پلس دیکھنے سے تو اچھی بات ہے ۔ آپی جی دل سے کہ رہا ہو اللہ جانتا ہے میرا مجھے آپ سے کوئی دشمنی نہیں ۔۔ ہا آپ کا جو اندازے گفتگو یہ جو آپ دوسروں کی جس انداز میں کردار نگاری کرتے ہو اس سے اختلاف ہے اور رہے گا ۔۔ اپنی ماسی کے بچوں کو بلاگ سے دور رکھیے گا ۔۔ وگرنہ وہ پھر آپ پر شرمندہ ہونگے کہ کیسے اللہ کی ایک شوخی مخلوق نے ان کی والدہ کی کرادر نگاری فرمائی ۔

    ہمارے یہاں کیا ۔۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں ڈاروین کی تھیوری کو ایسے پڑھایا جاتا ہے جیسے کے یہی فیکٹ ہو ۔۔ تھیوری کا پتا ہی ہوگا آپ کو کہ ہوتی کیا ہے ۔۔ دنیا میں ہوکر دنیا میں رہا ہے انسان جیسے کے بھلے شاہ ۔۔ اور لکھا ہے پھر اس نے دنیا کو ۔۔ کہ دنیا ہے کیا ۔۔ پر بات وہی ہے ۔۔ کہ بھلے شاہ کوئی سائیسنسدان نہیں تھا سو سائینسدانوں کا بھلے شاہ ہے آئینسٹائین ۔

    آنٹی ۔۔ بڑے ہو کر آپ کو بچوں نے آپ کا بلاگ پڑھنا ہے ۔۔ اٍس بلاگ کو سمبھال کر رکھیے گا ۔۔ بچے بہت کچھ مزید سیکھیں گے ۔ ماں تو آپ ہیں ہی پر یہاں آپ کی تحاریر کے علاوہ دیگر لیبل زدا وہ غیر لیبل زدا لوگوں کے تبصرات بھی تو ہے اور کیونکہ یہاں تبصرات میں ( بقول آپ کے ) موڈریشین بھی جو نہیں ۔

    یہ تبصرا آپ کی شوخی تحریر کے احترام میں بہت دنوں پہلے لکھا تھا بوجہ مصروفیت دے نا سکا ۔۔

    جزاک اللہ خیر

    ReplyDelete
  26. ریحان، آپ پریشان نہ ہوں۔ میں ان سب چیزوں سے واقف ہوں۔ میرے بچوں کے مستقبل کی فکر کے لئے میں ہوں۔ میں انکے سامنے اس دنیا کو ایسے ہی رکھنا چاہونگی جیسا کہ یہ ہے۔ تاکہ انہیں کوئ صدمہ یا جھٹکا نہ لگے۔ جیسا کہ آپ اب تک ہیں۔ یقینی طور پر وہ بلھے شاہ بھی پڑھیں گے اور ڈارون کی تھیوری بھی۔ وہ اس خظے کی جس میں ہم رہتے ہیں دس ہزار سالہ تاریخ بھی پڑھیں گے اور آجکی تاریخ بھی۔ وہ جانیں گے یہاں انسان معمولی باتون کے اوپرقتل ہوجاتے ہیں۔ لوگ اپنے نظریات کے لئے دوسروں کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہیں اسی دنیا میں ایسے انسان بھی رہتے ہیں جن سے ملکر انساں اپنے آپ کو اپنے ماحول کو بہتر طور پہ جان پاتا ہے اور اسکی زندگی میں بہتر مقاصد آتے ہیں۔ یہ بہتر مقاصد انسانیت کو انسان ہونے پر فخر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انہیں پتہ چلے گا کہ زندگی کے بعد انہیں جس چیز کے لئے جوابدہ ہونا ہے اسکا انکے ماں باپ کی کی گئ اچھائیوں اور برائیوں سے کوئ تعلق نہیں۔ وہ اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔ بحیثیت ماں میں یہ چاہونگی کہ وہ زندگی میں اچھائ اور برائ کا فیصلہ خود سے کرنے کے قابل ہوں۔
    یہ بات سمجھ لیں کہ اپنی بڑھتی ہوئ عمر کے ساتھ وہ ہر چیز کے بارے میں جانیں گے چاہے میں انہیں بتاءوں یا نہیں۔ ہر گذرتے پل کے ساتھ دنیا بہت چھوٹی ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اس دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں جہاں آپ رہتے ہیں۔
    اور ہاں میرے بچے مجھے صرف اس بلاگ سے نہیں جانیں گے بلکہ ان شب وروز سے جانیں گے جو میں انکے ساتھ گذارتی ہوں۔ اور جن میں کسی بھی شخص کا منافقت کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
  27. ہی ہی ہی
    دیر سے بلاگ وزٹ کرنے پر معذرت
    گو کہ تحریر میں میرے تبصرے کو میرے نام اور پس منظر کے بغیر پیش کیا گیا ہے لیکن میں پھر بھی اپنے تبصرے پر قائم ہوں
    مزید یہ کہ مذکورہ تحریر اور اس پر ہونے والے تبصرہ جات (پوسٹ کی روٹ کاز) کا لنک دے دیتیں تو بحث مزید گرما گرم اور مصالحے دار ہو سکتی تھی اور کافی سارے پڑھنے والوں کو اس تحریر کا مقصد بھی سمجھ میں آجاتا
    کیونکہ آپ کے مطابق اس بلاگ پر اظہار خیال کی مکمل آزادی ہے تو میں اب بھی یہی کہوں گا کہ پاکستان اور اس کی اساس سے متضاد جو بات بری لگے گی اس سے مجھے اختلاف کا پورا پورا حق ہے
    باقی جاوید صاحب کے پہلے تبصرے کو ہی میرا تبصرہ بھی سمجھیے اور عمر کے تبصرے سے آپ کی معلومات کی آتھیٹسٹی (اس کی اردو کیا ہو گی؟) پر تو کوئی شک ہی نہیں
    اور ہاں جن تبصروں پر آپ نے یہ پوسٹ لکھ دی ہے وہ سارے آپ کے لئے نہیں ہمارے "پوپ بینڈیکیٹ" کے لئے بھی جوابی تھے
    :D
    پھر بھی اتنی اذیتناکی کہ ان تبصروں کا ایک پوسٹ کا سبب بن جانے پر معافی کا خواستگار ہوں
    پی ایس: عمیر صاحب کے محبت بھرے تبصرے سے ٹپکتی تعلیم اور خوشحالی پر ان کو مبارکباد ;) ۔

    ReplyDelete
  28. میرے خیال میں آپکو اس فہمی سے باہر آجانا چاہئیے کہ آپ کے تبصرے پر کوئ چیز لکھی ہے۔ یا یہ کہ یہ سب کچھ ازیت کے عمل سے گذر کر لکھا جاتا ہے۔ الحمد للہ، میں اسی خطے میں رہتی ہوں، آپ اپنے آپکو جہاں کا باسی سمجھتے ہیں۔ اس لئے کچھ قدرتی اصولوں کے تحت مرے اور آپکے مسائل ملتے جلتے ہو جاتے ہیں۔ جس سے شاید آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں آپکے قلم سے ٹپکنے والے الفاظ کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہوں۔ کیونکہ میں اپنا سارا وقت کریلے اور بھنڈی پکانے میں خرچ نہیں کرتی تو آپ لوگوں کے نقار خانے میں اس طوطی کیی آواز شامل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ اگر اردو میں بلاگنگ کرنےوالے سو افراد کو عوام سمجھ لیا جائے تو شاید اس سے زیادہ زیادتی کی بات نہیں ہو سکتی۔ آپ یا آپ جیسے خیالات رکھنے والے اس ملک کی کل آواز نہیں ہیں۔ اگر آپ کو یہ سہولت میسر ہے کہ آپ اپنی آواز دوسروں تک پہنچا سکین تو میں آپ کے علم یہ لے آءووں کہ اس ملک کے لا تعداد لوگوں میں اپنی آواز پہنچانا تو دور کی بات اسے نکالنے کی بھی ہمت نہیں ہے۔ محض اپنے آپ کو پاکستان کا حامی وناصر سمجھنے کی دھند سے باہر نکل آئیں تو بہت سارے نئے لوگوں سے اور بہت سارے مثبت خیالات سے آپ کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ اساس پاکستان آپ نے تشکیل نہیں دیا ۔ اس کی اساس میں جن اور لوگوں نے خون بہایا ہے کبھی اپنی نرگیسیت سے باہر آکر انہیں بھی سلیوٹ کیجئے گا۔ اساس پاکستان قرآن کی طرح جزدان میں لپیٹ کر چومنے چاٹنے اور عقیدت دکھانے کی چیز نہیں ہے۔ اپنی اسی عقیدت کی بنیاد پر آپ آدھے سے زیادہ ملک کھو چکے ہیں اور الحمد للہ باقی کے بارے مین وسوسوں کا شکار ہیں۔ اس پوسٹ کے ساتھ جو دو حوالے موجود ہیں انہیں بھی ضرور پڑھئے گا۔
    مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ خطہ اتنا اسلامی تھا اور اس کے بعد بھی کے یہان یہ کہنے پر لوگ برا مانتے ہیں شراب ملک میں مشرف نے نہیں متعارف کرائ بلکہ آپ اسے پہلے سے جانتے تھے اور یہ باقی کی بے حیائیاں بھی انکے دور میں نہیں آئیں بلکہ یقینی طور پر یہاں پہلے سے موجود ہیں۔ آپ اپنے پوپ بینیڈکٹ کے لئے رطب اللسان ہوتے ہوئے یہ بات یاد رکھیں کہ ہر شخص کو کم ازکم اتنی آزادی حاصل ہے جتنی آپکو ہے۔ اور ہاں یہ بات بھی سمجھ لیجئیے کہ میں مشرف کی نہیں اسکے پیچھے کام کرنے والی پالیسی کی حامی ہوں۔ میں ان لوگوں کے شدید خلاف ہوں جو مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس روئیے نے اسلام کو حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اور اسکی شکل بگاڑ کر رکھدی ہے میں اس عمل کے خلافگ ہون جس میں آپ اپنی علاقائ ثقافت کو مذہب کے ساتھ ملا کر ایک ملغوبہ تیار کرتے ہیں اور اسے ایک مقدس گائے کا روپ دیکر ہر ایک کو اسکی عبادت کرنے پر مجبور کرت ہیں۔ اور ان سب اختلافات کے باوجود اپنے آپ کو ایک اچھا مسلمان ، پاکستانی اور ایک بہتر انسان سمجھتی ہوں۔

    ReplyDelete
  29. میرے خیال شریف میں دنیا کا سب سے پرانا پیشہ کاشتکاری یا شکار یا گلہ بانی ہے :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ