یہ ایک انیس بیس سالہ پل دو پل کی گمنام شاعرہ ہے جہاں اساتذہ کو پڑھتے ہیں۔ وہاں اسکے ایک نامکمل دیوان سے ایک نظم آپکے سب کے لئے۔ عنوان ہے اسکا۔'چاند' ۔ یہ صدیوں سے چاند نے انسانوں کو اپنے سحر میں کیوں رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ اب سب کہتے ہیں کہ چاند تو اک ویرانہ ہے۔
کیسا البیلا ہوں، وہ دکھاتا رہا
آسماں اپنی چھب سے سجاتا رہا
چومتا تھا کبھی وادیاں وہ حسیں
کبھی صحرا میں جادو جگاتا رہا
کبھی آیا قریب، کبھی ہوا وہ دور
شوخی ہر موج کو یوں دکھاتا رہا
ایک پل یوں ہوا جاکے تالاب میں
ٹہرے پانی کو چندن بناتا رہا
پھر چھپا جاکے وہ نیم کے پیڑ میں
روشنی سےپر اپنی بلاتا رہا
میں کہ بے چین تھا رات پچھلے پہر
تھپکیوں سے وہ مجھکو سلاتا رہا
کبھی روٹھا بھی، وہ کبھی برہم ہوا
کتنا نادان تھا یوں ستاتا رہا
رات یوں بھی ہوا چاند رویا بہت
چاندنی بن میں پھر بھی لٹاتا رہا
ہیں ستارے بہت آسماں ہے میرا
یہ سناتا رہاچاند گاتا رہا
اتنی تنہائ تھی وہ اکیلا بہت
سنگ دریا کے خود کو بہاتا رہا
چاند ہرجائ ہے کیوں میرا نہ ہوا
چاند سنتا رہا مسکراتا رہا۔
Friday, August 21, 2009
4 comments:
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماشااللہ بہت اچھی نظم ہے۔
ReplyDeleteگمنام شاعرہ اگر ایسے ہی لکھتی رہیں تو ایک دن نامور بھی ضرور ہو جائیں گی۔
رات یوں بھی ہوا چاند رویا بہت
ReplyDeleteچاندنی بن میں پھر بھی لٹاتا رہا
بہت خوب
چاند پہ بہت سے لوگوں اور اساتذہ قسم کے شعراء نے طبع آزمائی کی ہے مگر مندرجہ بالا شاعری ،شاعرہ کی عمر کے حوالے سے یہ پتہ دیتی ہے کہ ان کے اندر ایک اچھا شاعر چھپا بیٹھا ہے۔
ذیل میں ایک نظم ہے جو مجھے اچھی لگتی ہے یہ بھی چاند کی زمین پہ کہی گئی ہے۔ امید ہے آپ کو اور سب قارئین کو پسند آئے گی۔
ہجر کے ماہتاب ، سن
ہم بھی ہیں تیرے ہم سفر
ہم سے بھی کوئی بات کر
ہم تو تیرے رفیق ہیں
ہم سے نہ اجتناب کر
دشت فراق یار میں
ازلوں کے ہمرکاب سن
ہجر کے ماہتاب سن
بخت میں جب نہ چین ہو
وقت سے کیا گلہ کریں
اس سے کہاں ملا کریں
راہ میں اس کو روک لیں
کیسے یہ حوصلہ کریں
تو تو ہمارے ساتھ چل
تو تو ہمارے خواب سن
ہجر کے ماہتاب سن
تاروں میںانتشار ہے
کسی کی نگاہ کے سبب
اپنی ہی چاہ کے سبب
ہم نے جسے گنوا دیا
شدت راہ کے سبب
اس کے فراق کا
ہم سے کبھی حساب سن
ہجر کے ماہتاب سن
آپ ہفتہ بلاگستان نہیں منا رہیں؟
ReplyDeleteآخر کیوں؟
اچھی نظم ہے ماشاءاللہ، اللہ شوق سلامت رکھے
ReplyDelete