Thursday, August 13, 2009

برسبیل تذکرہ


میں اپنے کمرے میں آنیوالی لیب کی تیاری کر رہی ہوں کہ کمرے کے دروازے پہ دستک ہوتی ہے۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ یہ فرسٹ ائیر آنرز کی دو لڑکیاں ہیں۔ ایک برقعہ پہنتی ہے اور دوسری برقعے کے بغیر۔ میری ایک سو بیس اسٹوڈنٹس کی کلاس میں یہ لڑکیاں ان پانچ چھ اسٹوڈنٹس میں شامل ہیں جو کلاس کے بعد مجھ سے ملتے ہیں، اس لیکچر کو ڈسکس کرتے ہیں، مزید حوالے چاہتے ہیں اور ان سے منسلک سوالات کو حل کر کے مجھے دکھانے بھی ضرور آتے ہیں۔ انکی اس ساری مشق کے پیچھے نہ صرف انکی علم حاصل کرنے کی لگن شامل ہے۔ بلکہ میرا وہ رویہ ہے جو میرے بیشتر سینئیر استادوں کو جو کچھ عرصہ پہلے میرے بھی استاد رہ چکے ہیں ایک نظر نہیں بھاتا۔
میں نے ٹیچرز کی ایک غیر رسمی میٹنگ میں اپنے کچھ سینئیر اساتذہ کو یہ بات کہتے سنا کہ یہ کتنا عجیب ہے کہ جونئیر اساتذہ کے کمرے میں اسٹوڈنٹس بغیر کسی جھجھک کے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح تو استاد کی کوئ عزت اور احترام اور رعب دبدبہ نہیں رہتا۔ اور اس طرح سے اسٹوڈنٹس میں کتنا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ یہ سینئیر اساتذہ اپنے ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور میں نے ابھی آغاز کیا ہے۔انکے اور میرے درمیان ایک نسل کا ہی نہیں اس لامتناہی علم کا بھی فرق ہے جو ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی کی وجہ سے ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھوٹ پڑا ہے۔ آج استاد ہونےکی تعریف کچھ مختلف ہو گئ ہے۔
ہاں، میری ان اسٹوڈنٹس میں سے برقعہ پوش خاتون کا نام نزہت اور دوسری کا نام سائرہ ہے۔ ناموں سے آسانی رہتی ہے اور مخاطب کرنے کے مناسب القاب ڈھونڈنے کے تردد سے بچ جاتے ہیں جو بعض اوقات خاصہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ وہ موٹی، چھوٹی فٹبال نما لڑکی اور وہ کالا سا زرافہ مخنچو، یہ نہ صرف ان افرادکی بلکہ مخاطب کرنے والے کی صحت کےلئے بھی مفید نہیں ہوتا۔
ان لوگوں نے دستک دینے کے ساتھ سلام کیا اور کہنے لگیں میم عید مبارک۔ کیسی گذری آپکی عید۔ جواباً میں نے ان سے ان کی عید کے بارے میں پوچھا۔ سائرہ مذہباً عیسائ ہے یہ مجھے اسکے نام کے بقیہ حصے سے پتہ چلا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے حیرت ہوئ جب وہ امتحان کے زمانے میں اسلامیات یاد کر رہی تھی۔ آپ لوگوں کے لئے تو اخلاقیات کا مضمون ہوتا ہے۔ پھر اسلامیات کیوں پڑھی جا رہی ہے۔ میم سب اسکی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اب میں کیا الگ سے ایک مضمون کی تیاری کروں۔ لیکن ہمیشہ اسلامیات پڑھنے کے باوجود وہ عیسائ ہے۔ وہ نہ صرف میرے مضمون کے دونوں حصوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر چکی ہے بلکہ دیگر مضامین میں بھی اسکی کارکردگی نمایاں ہے۔ ان سے کچھ رسمی بات کرنے کے بعد میں پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئ۔ پھر انہیں اسی استقامت سے کھڑا دیکھ کر مجھے کچھ شبہ ہوا۔ کوئ خاص بات ہے۔ میں نے دریافت کیا۔ میم عیدی چاہئیے۔ یہ لیجئیے میرا خرچہ آگیا ۔
میں مسکرا دی۔ روزے رکھےتھے۔ نزہت نے بڑے جوش میں جواب دیا سب رکھے تھے۔ اور عید بھی اتنی اہتمام سے منائ۔ سائرہ خاموش کھڑی آہستہ سے مسکراتی رہی۔ میں نے اپنا بیگ چھانا اور دس روپے کا ایک تازہ نوٹ ٹوکن عیدی کے طور پر نزہت کو دیا۔ وہ چیخ پڑی۔ میم اسے تو میں پلاسٹک کوٹنگ کرواکے رکھ لونگی۔ سائرہ نے آواز نکالی اور میری عیدی۔ عیدی روزے رکھنے والوں کو ملتی۔ میں نے اسے چھیڑا۔ اب آپ لوگ بھاگیں میری لیب شروع ہونے میں دس منٹ رہ گئے ہیں۔ وہ خامشی سے چلے گئے۔ میں اپنا لیب کوٹ پہننے لگی کہ دفعتاً مجھے لگا کہ میرا دل اندر سے خالی ہو گیا ہے۔ میں نے کوٹ میں سے ہاتھ نکالااور دروازے کی طرف دوڑ لگائ۔ وہ لوگ کوریڈور کے آخری سرے پہ پہنچ کر مڑنے والی تھیں۔ تہذیب کے برخلاف میں نے وہاں سے آواز لگائ۔ سائرہ۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں کمرے میں آنے کا کہا۔اب وہ کمرے میں موجود ہیں۔ میں نے ایک اور تازہ نوٹ نکالا اور سائرہ کو دیا۔ یہ آپکی عیدی ہے میں تو آپ کو چھیڑ رہی تھی۔ اسکے خاموش چہرے پہ وہی مدھم مسکراہٹ پھیل گئ جو مجھے بےحد پسند ہے۔
وہ لوگ جا چکی ہیں۔ میں آخری پانچ منٹ گذرنے کے انتظار میں کھڑکی کے ساتھ کھڑی ہوں۔ ذرا سی بلندی پر آجانے سے چھوٹی چھوٹی بدصورتیاں ختم ہوجاتی ہیں۔زمین کتنی وسیع اور آسمان کتنا کھلا لگتا ہے۔ میں نے کبوتروں کی غٹر غوں کے ساتھ سوچا۔

18 comments:

  1. اللہ آپ کو جزا دے۔ بہت اچھا کیا۔ خوشیاں بانٹنا اتنا مشکل تو نہیں۔ بس تھوڑا سا دل بڑا ہونا چاہئے۔ جی خوش کر دیا آپ نے۔

    ReplyDelete
  2. بہت پر مغز اور فکر انگیز تحریر ہے اور اسلوب بھی لاجواب ہے۔

    ReplyDelete
  3. ذرا سی بلندی پر آجانے سے چھوٹی چھوٹی بدصورتیاں ختم ہوجاتی ہیں۔زمین کتنی وسیع اور آسمان کتنا کھلا لگتا ہے۔

    بلاشبہ

    آپ نے وہی کیا جو اس تحریر کا ہر قاری چاہتا ہے۔ اور اچھا کیا!


    خوش رہیے۔

    ReplyDelete
  4. شاندار، عمدہ، بہترین
    میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    ReplyDelete
  5. بہت عمدہ
    آپ نے بہت اچھا طرز عمل اختیار کیا
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے

    ReplyDelete
  6. محبت بانٹنا اسقدر مشکل کام نہیں۔ ، صرف دل میں جگہ اور کچھ ضرف ہونا چاہئیے ۔

    آپ نے بروقت اپنے عمل سے ایک انسان کا دل رکھ لیا۔ کاش پاکستانی قوم کے باقی لوگ بھی یہ ننھا سا نکتہ جان جائیں تو پاکستان میں زندگی بہت حسین ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو سکا بدلہ دے۔ آمین

    ReplyDelete
  7. آپ کی تحریر مزید جاندار ہو سکتی تھی اگر آپ تحریر کے موضوع پر توجہ مرکوز رکھتیں۔
    ویسے مزہ آ گیا پڑھ کر۔

    ReplyDelete
  8. یہ آپ سب کی سائرہ سے محبت ہے۔ وہ تو میسر نہیں میری طرف سے شکریہ۔
    میرا پاکستان، یہ ادبی کہانی ہے نہ مضمون۔ایک پوسٹ کے بارے میں میری ترجیح یہ ہے کہ اسے اخبار کے کالمکی طرز پر لکھا جائے یا ایک ڈائری کی طرز جو کہ دراصل بلاگ کی تاریخ میں ابتدائ مقصد تھا۔ لیکن اکثر اس سے کہانی کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے جو کہ لاشعوری طور پر ہو جاتا ہے۔ ایک ذہنی رو میں جو چیزیں یاد آتی ہیں لکھ دیتی ہوں۔ اگر ایک کہانی یا مضمون لکھوں تو وہ لازماً اس سے روئے میں بہت مختلف ہوگا۔ ایسی کوئ بھی چیز میں آدھ پون گھنٹے میں لکھ کر فارغ نہیں ہوتی۔ ایک پوسٹ کو دوبارہ چیک کرنے کے لئے میں چند گھنٹے سے زیادہ نہیں دیتی۔ لیکن ایک کہانی لکھنے میں بعض اوقات کئ دن یا مہینے بھی لگ جاتے ہیں۔ اسے لپیٹ کر رکھ دیتی ہوں اور پھر کم ازکم ایک مہینے بعد پھر دیکھتی ہوں۔
    قصہ مختصر، یہ ایک ذہنی رو ہے اس میں بہہ جائیے، یہ بہاءو کہیں ادھر ادھر ہوگا اور پھر اسے موضوع کی طاقت پکڑ کر اپنے دھارے میں لے آئے گی۔

    ReplyDelete
  9. یہ مبارکبادیں دینے والے بھول رہے ہیں کہ دین کی شان میں گستاخیوں کے نام پر خون کی ہولی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے
    خود تو پھسیں گے ہی آپ کو بھی مروائیں گے
    لیکن ابھی بچنے کے چانس ہیں کہ جیش انٹرنیٹ یا سائیبر سپاہ نامی کسی تنظیم کی بنیاد نہیں پڑی
    "ذرا سی بلندی پر آجانے سے چھوٹی چھوٹی بدصورتیاں ختم ہوجاتی ہیں"۔
    بڑی غور و فکر والی بات لکھ دی آپ نے
    لیکن میں کیا کروں؟
    کہ غور کی مجھے عادت نہیں اور فکر والا دماغ نہیں :( ۔

    ReplyDelete
  10. ڈفر، اگر آپ الگ الگ ہر پوسٹ کے ساتھ تبصرہ فرما لیا کریں تو مجھے یوم ڈفر منانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ نہیں، آپ غور وفکر فرماتے ہیں مگر صرف آتھنٹک باتوں پر۔
    میرے خیال میں یہ مبارکبادیں اسی تناظر میں زیادہ دی جا رہی ہیں۔ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں کا کیا ڈر۔ میں ان سب کو اپنے خون سے بری کرتی ہوں۔ میری بیٹی کا خیال رکھئیے گا۔ میری خواہش ہے کہ وہ چادر اور چہار دیواری کے قضئیے میں پڑنے کے بجائے انسانیت کے بہتر مقاصد کے لئے کام کرے۔میری کتابوب اور ڈائریوں کو اسی طرح پیک کر کے رکھ دیجئیے گا وہ جب بڑی ہو تو اسکے حوالے کر دیجئیے گا۔ اسے نصیحت کر دیجئیے گا کہ اسکی ماں کو شراب پینا سخت ناپسند تھا اور یہ کہ اسکی خواہش تھی کہ چاہے دین پر کم عمل کرنا لیکن ہمیشہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنا اور اس مذہب سے کبھی منہ نہ موڑنا چاہے مسلمان تم سے منہ موڑ لیں۔ اور ہاں ڈبل روٹی بنانا ضرور سیکھ لینا تمہارے بابا کوتمہاری ماں کے ہاتھ کی بنی ڈبل روٹی بڑی پسند تھی وہ ہر روز اسی سے ناشتہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں انکی کمی محسوس نہیں ہوگی
    یہ تو کافی آبدیدہ کرنے والی تحریر بنتی جارہی ہے۔ جبکہ میں ابھی زندہ ہوں۔

    ReplyDelete
  11. میں نے تو ہر پوسٹ پر الگ الگ ہی تبصرہ کیا ہے لیکن کہیں بھی آپ نے "ڈفر دشمنی" سے نکل کر اور ریلیوینٹ (اسکی بھی اردو نہیں آتی) جواب نہیں دیا
    اور باقی جوابی تبصروں کی جگہ مجھے اس کی بھی سمجھ نہیں آئی ڈفر جو ٹھہرا ;) ۔
    میں آپ کے لئے اتا اہم ہوں اور آپ یوم ڈفر مناتی ہیں یہ جان کر دل باغ باغ ہو گیا

    ReplyDelete
  12. ۔"جگہ" کو "طرح" لکھنا تھا

    ReplyDelete
  13. ، ارے بھیا، یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اس وقت میرے تبصرے کے خانے میں اسمائیلیز نہیں ہیں اس لئے آپ شاید اتنی الجھن کا شکارہیں۔ یہان دوستی نبھانے کا وقت نہیں ہے آپ دشمنی گانٹھنے کی بات کر رہے ہیں۔ صبح سے آپکے ہر ہر تبصرے کا الگ الگ ارریلیونٹ جواب دیا۔ جتنا وقت ملا آپ پر خرچ کیا۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے وہ آپ کو دی۔ پھر بھی آپ ناراض ہیں، کیا گانا سناءووں۔ کیوں دور دور رہندے ہو حضور میرےکولون، مینوں دس دیو پویا کی کصور میرے کولوں۔
    خدا کا شکر ہے کہ آپ میرے ممتحن نہ ٹہرے ورنہ مدرسے سے کبھی چھٹی نہ ملتی۔ سارے جواب ارریلیونٹ قرار پاتے۔ ایک بات اور تبصروں کو میں تبادلہ ءخیال میں شامل سمجھتی ہوں کیا میں غلط سمجھتی ہوں۔ اور اسے امتحانی پرچے کی طرح سوالات کا مجموعہ سمجھنا چاہئیے۔
    اچھا اب اسی باغ باغ دل کے ساتھ سنیں کہ یہ جو آپ نے پیشنگوئ فرمائ میرے مارے جانےکی تو اس پر کچھ بعد از مرگ خیالات آئے اور وصیت لکھدی۔ لکھتے وقت خیال آیا کہ یہ تو ایک پوسٹ ہوگئ۔ مگر آج آپکی پوسٹ پڑھکر سوچا کہ اپنی یہ پوسٹ بنانے سے بہتر ہے کہ اسے آپکو دیدوں۔ آج آپکی پوسٹ بہت اچھی تھی۔ لیکن اب آپ کی یہ لائینیں پڑھ کر دل چاہ رہا ہے کہ پوچھوں۔ کیا آپ نے خود لکھی ہے۔
    ویسے برسبیل تذکرہ ریلیونٹ کو منسلکہ بھی کہہ سکتے ہیں یا متعلقہ بھی۔ یہاں یہ بتادوں کہ میں اردو کی طالب علم کبھی نہیں رہی اس لئے اسکی کوئ اتھانٹیسیٹی نہیں ہے۔ بالکل نا معتبر ہے۔

    ReplyDelete
  14. نہیں نہیں اردو ہے تو کم از کم مجھ سے اچھی یہ تو ماننا پڑے گا
    لیکن مرنے کی پیشنگوئی نہیں کی ہے بلکہ مرنے سے بچنے پر ایک قسم کی مبارکباد دی تھی
    اور بچنے کی وجہ بیان کرنے کی ناکام لوشش کی تھی

    ReplyDelete
  15. بہت اچھی تحریر ہے۔

    ReplyDelete
  16. انیقہ مینے کہا تھا نا کہ مجھے ڈر ہے کہیں نام کا اثر نہ ہوجائے اب یہ ڈر یقین میں تبدیل ہوتا جارہا ہے!
    آپکی تحریر بھی عمدہ تھی اور قبل از مرگ وصیت بھی زبردست،
    سمجھنے والے سمجھ گئے جو نا سمجھے وہ اناڑی ہے ؛)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ