Saturday, August 8, 2009

میری ہم جولیاں

آرٹس کونسل کراچی میں، میں بھی ان بے تحا شہ تالیاں بجانے والی ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین میں شامل تھی جب مدیحہ گوہر کا ڈرامہ بری اپنے اختتام پر پہنچا۔
کہانی کے کئ زنانہ کرداروں میں جو کہ جیل میں اپنے مقدمات کے فیصلے کا انتظار کر رہی تھیں ایک کردار جمیلہ کا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں ایک ساٹھ سال کے بیمار بڈھے سےسوہنی جمیلہ کی شادی، یہی سوچ کر کی گئ تھی کہ وہ اپنے شوہر کے اپنے سے بڑے بچوں کی اور بیمار شوہر کی خدمت کرے گی۔ لیکن وہ اس گاءوں کے ایک نوجوان کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے شوہر اور اسکے بچوں کے ہاتھوں اچھی طرح پٹنے کے بعد اس رات کلہاڑی لیکر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اور اپنے شوہر کو للکار کے اٹھاتی ہے۔ یہاں سے ڈرامہ اپنے کلائمیکس میں داخل ہوتا ہے۔ وہ اپنی کلہاڑی لہراتی ہوئ اسکے سینے پر مارتی ہے اور کہتی ہے، 'جا میں نے تجھے طلاق دی'۔ اسی طرح تین کلہاڑیوں کے وار کے ساتھ تین طلاقیں اس مرد کے حصے میں آتی ہیں۔ سوہنی سی جمیلہ کو پھانسی ہوجاتی ہے۔ لیکن جمیلہ کا کردار معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف اٹھنے والی ایک مضبوط آواز ہے اور وہ جہاں کہیں بھی ہے، میں اسکے ساتھ ہوں۔
اب سے کچھ عرصے پہلے ٹی وی پر ایک بسکٹ کا اشتہار آتا تھا۔ جس میں ایک لڑکی جو غالباً کسی ہوسٹل میں رہ رہی ہوتی ہے اپنی ماں سے بسکٹ کھاتے ہوئے فون پر باتیں کر رہی ہوتی تھی۔ اور وہ بسکٹ کھانے میں اتنی مگن ہوتی ہے کہ جب اسکی ماں کہتی ہیں کہ ہم نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے تو جواب میں وہ کہتی ہے۔'سپر'۔ یہ بسکٹ کا نام ہے۔ اس وقت فون رکھنے کے بعد وہ لڑکی سوچتی ہے یہ تو کوئ غیر معمولی بات ہوئ۔ پھر بھی بسکٹ کی لذت جیت جاتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک برانڈ کے بسکٹ کے ساتھ زندگی نہیں گذاری جاتی۔ اور زندگی میں اچھے بسکٹوں کے علاوہ بہت سارے تلخ حقائق ہیں جنہیں بسکٹوں کے سہارے نہیں اڑایا جا سکتا۔
یونیورسٹی میں میری وہ دوستیں جو ہوسٹل میں رہا کرتی تھیں۔ جب کبھی ہم لوگوں کی زبانی یہ بات سنتیں کہ ہمارے دو ہم جماعتوں یا جاننے کی آپس میں پسند کی شادی ہو رہی ہے تو ذرا اترا کر کہتیں۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ بھئ ہمارے یہاں تو کسی دن اماں یا ابا کا فون آئیگا کہ اگلے ہفتے تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ آجاءو۔ بس ہم جائیں گے اور شادی ہو جائے گی۔ میں نے انکے غرور کو کبھی تحسین سے نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے یہ فیوڈل روایات ہیں اور ان پر فخر کرنا اس نظام کو مضبوط کرتا ہے۔
میں ابھی دو دن پہلے تک یہی سمجھتی رہی کہ گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والے اس فرسودہ روائتی نظام کی پیدا وار ہیں۔ لیکن بھلا ہو ہمارے ایک ساتھی بلاگر کا انہوں نے میرے جیسے لوگوں کے علم میں اضافہ فرمایا اور انکشاف کیا کہ یہ وبا ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں ٹیوب ویل نہیں ہوتے ہیں اور ان سے منسلکہ کمرے۔ جہاں جہاں یہ سہولت بہم میسر ہے وہاں وہاں گھروں سے بھاگنے کی زحمت کوئ نہیں کرتا۔ اے کاش، جب آدم اور حوا کو زمین پر نا فرمان کہہ کر بھیجا گیا تھا تو ایک ٹیوب ویل بھی بھیج دیا جاتا اس سے ہابیل قابیل کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جاتے اور ہمیں بھی اس وقت اس مسئلے کا سامنا نہ ہوتا۔ یعنی ہمارے نوجوان گھروں سے بھاگ کر شادیاں نہ کرتے۔ صرف اسی انکشاف پر انکی انگلیاں نہیں رکتیں۔ بلکہ وہ روائت پسندوں کی اس بات کو دہراتے ہیں کہ عورتیں تو ہوتی ہیں ریا کار، اور جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ اپنی تخلیق میں موجود برائیوں کو سامنے لے آتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ عورت کی تخلیق بس برائ کے خمیر سے اٹھائ گئ ہے۔ خیر، یہ وہ چیز ہے جو انہوں نے اپنی زندگی کے سفر میں مختلف مراحل سے گذر کر سیکھی ہو گی۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انکے چاہنے والوں میں چند ایک کے علاوہ سب انکے عظیم خیالات کو سراہتے ہیں۔ ان میں سے بھی چند کو صرف یہ اعتراض ہے کہ بات کہنے کا انداز مناسب نہیں۔ اس غضب کی بات کو ذرا مناسب الفاظ میں کہا جاتا تو----------۔
اول تو میں ان سے یہ پوچھنا چاہونگی ہمارے صدر صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے جب وہ اپنی مرحومہ بیگم کی تصویر گلے میں لٹکائے بیرون ملک امداد کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر نیو یارک کے ایک فلیٹ کے قصے-----ریاکاری کی مثالیں اگر آپ ڈھونڈنے نکلیں تو شاید آپکی صنف کا کوئ مقابلہ نہ کرسکے۔ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عورت تھی جس کی وجہ سے ہم جنت سے نکلے تو نا انصافی کا پہلا بیج وہاں بویا جاتا ہے۔اس سے ملتے جلتے تمام بیانات یہودیوں اور عیسائیوں کے ذرائع سے حاصل کر کے ہماری تفسیروں میں ڈالے گئے ہیں۔تاکہ پدری نظام کو سپورٹ ملتی رہے۔ ہماری مذہبی کتاب میں اس بہکانے کے متعلق کوئ ہلکا سا اشارہ بھی موجود نہیں۔البتہ رسول للہ جب پہلی وحی کے بعد جب کسی کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک خاتون ہی ہوتی ہیں۔
آپکے نظام میں یہ معاشرتی کمزوریاں ابھی سے نہیں آئ ہیں۔ بلکہ یہ اس وقت بھی موجود تھیں جب سوہنی کچے گھڑے پر دریا تیر کر پہنچ رہی تھی، جب ہیر رانجھے کی بانسری سن رہی تھی اور جب صاحباں اپنے مرزا کے ساتھ بھاگنے کے تیار کھڑی تھی۔ ان کہانیوں کا دلچسپ عنصر یہ ہے کہ یہ سب شادی شدہ خواتین کہی جاتی ہیں۔ انہیں گھڑے ہوئے قصے کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے قصے اس دور کے مزاج اور سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ ٹیوب ویل وجود میں نہیں آیا تھا شاید اسی لئے ان برائیوں کو اپنے پیر جمانے کے موقع مل گیا۔
میرا تعلق اس شہر سے ہے جسے ایک عورت مائ کولاچی کے نام سے بسایا گیا۔ اپنے ساتھی بلاگر کی معلومات میں ، میں بھی کچھ اضافہ کرنا چاہونگی کہ اسی زمین سے ماروی اور سسی جیسی عورتوں نے جنم لیا۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ ماروی ایک سال تک اپنے شوہر سے الگ بادشاہ کے محل میں رہی مگر اس نے اس محل میں رہنے سے انکار کر کے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر ترجیح دی۔ اسکے بیحد اصرار پر جب وہ واپس آئ تو بعض روایات کے تحت اسے اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لئے ایک آزمائسشی امتحان سے گذرنا پڑا۔ جبکہ سسی اپنے محبوب شوہر سے ملنے کی کٹھنائیوں سے گذرتے ہوئے مر گئ۔ دنیا کی تاریخ اور ادب جو کہ بیشتر مردوں نے لکھا ہے اس میں بھی ایماندار اور غیر جانبدار مردوں کے لکھے ہوئے الفاظ عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اگر عورت صرف ریاکاری اور جسمانی تعلق کے لئے ہر کام کر گذرنے والی مخلوق کا نام ہوتا تو آج اقبال فاطمہ بنت عبداللہ پر نظم نہ لکھتے۔ یہی نہیں فاضل قلمکارجب چالیس سالہ مردوں کےحیات کے گوشوں پر سے پردے اٹھاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کسقدر فیوڈل نظام کی سوچوں کے زیر اثر ہیں۔
ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ اسی ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے کراچی میں یہ واقعات بہت کم سننے میں آتے ہیں۔ جبکہ یہاں ٹیوب ویل بھی نہیں ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ روزانہ لاکھوں مرد اور عورت صبح اپنے گھروں کو چھوڑتے ہیں اور نو دس گھنٹے گذار کر اپنے گھروں کو واپس پہنچتے ہیں۔ اچھی خاصی خواتین کے شوہر شہر یا ملک سے باہر رہتے ہیں۔ نو جوان لڑکیاں بلا کھٹکے ادھر ادھر بازاروں، تعلیمی اداروں، ملازمتی مقامات اور تفریح کے لئے اپنے مرد رشتے داروں کے تحفظی ساتھ کے بغیر آتی جاتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنے والدین کی مرضی سے شادی کرتی ہیں اور شادی شدہ جوڑوں کی اکثریت ایک مطمئن زندگی گذارتی ہے۔ یہاں اگر آنر کلنگ کے واقعات سنائ بھی دیتے ہیں تو انکا تعلق شاید ہی یہاں بسنے والی اکثریتی طبقے سے ہو۔ اب یہاں ٹیوب ویل نہ ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہے۔ اسپر کوئ کچھ روشنی ڈالنا پسندکرے گا۔ یا ابھی آپ اسی قسم کا کوئ چٹخارے دار بلاگ پڑھ رہے ہیں۔


ڈرامہ بری
آنر کلنگ-۱
آنر کلنگ-۲
مرکزی خیال ماخوذ

19 comments:

  1. گھر سے بھاگنے والوں کی اکثریت کا ذکر ہے جی اس تحریر میں ۔۔۔
    جز کو کل کرنے کا کارنامہ تو آپ نے سرانجام دیا ہے
    کہ اس کو سب پر منطبق کردیا ہے
    آپ کو اس پر اعتراض ہے تو
    پھر منٹو، عصمت، بیدی کی تحاریر پر بھی ایک پوسٹ لکھ ماریں
    اینٹ تو بخا ہوا ہے آپ کا آج کل ویسے بھی

    ReplyDelete
  2. بی بی!
    آپ نے روشنی ڈالنے کا لکھ کر ، مفت کا تردد کیا ہے۔ جبکہ آپ ہر چیز کو من و عن تسلیم و اثبات کہہ کر ٹیوب والوں پہ اپنے دل کی بھڑاس ضرور نکال چکی ہیں ۔ شایدکوئی پرانا ادہار ہوگا۔ جبکہ آپ کو اپنا اکثریتی طبقہ پارسا نظر آیا۔ وا ہ سبحان اللہ ۔ اللہ کی شان ہے ۔

    کچھ لوگ مفت کی ۔۔مشہوری۔۔ کے لئیے بھی ہر قدر خواہ وہ مذہبی ہو یا معاشرتی انہیں روندنا اپنا فرض عین منصبی سمجھتے ہیں۔ بدنام نہ ہوئے تو کیا نام نہ ہوگا؟ ۔ ایں جی

    بی بی ! اللہ سبحان و تعالٰی نے ہر انسان کو دو آنکھیں دے رکھی ہیں مگر آپ ابھی تک دنیا کو صرف ایک ہی آنکھ سے دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔۔صرف اپنی آنکھ سے۔۔

    ReplyDelete
  3. صدیوں سے روایات کی بھٹیوں میں پکے ذہن پھر انکی آبیاری کے لیے مزاہب کی تاویلیں
    بلاگوں کی پتیوں سے بھلا کٹ سکے گا یہ جگر؟
    کاش میری بیٹیوں کو اس غلامی سے آزادی ملے جس کا سپنا بھی میری بھولی ماں اور دادی نے نہیں دیکھا تھا۔

    ReplyDelete
  4. شائد آپ خاور کی بات نہ سمجھیں اور اسے اس کے ظاہری رنگ میں ہی لے لیا۔ میرے خیال میں خاور کی بات ایک معاشرتی طنز تھا ان لوگوں پر جو پسند کی شادی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ ٹیوب ویل اس چیز کا استعارہ تھا کہ جو آج بڑھ چڑھ کر پسند کی شادی پر فتاوٰی لگاتے ہیں ان کے اپنے دامن آلائشوں سے تر ہوتے ہیں۔ خیر میں نے تو اس مضمون سے یہی سمجھا۔
    ویسے اگر ہمیں معاشرتی ناانصافیوں کی بات کرنا ہے تو مرد و عورت کی جانبداری سے آزاد ہوکر کرنا ہوگا۔ مسئلہ دونوں کے حدود کے تعین کا ہے۔ بدقسمتی سے نہ آپ اور نہ میں اس معاملہ کو اتنی غیر جانبداری سے دیکھ سکتے ہیں جتنی درکار ہے۔ سو آنر کلکنگ بھی ہوتی رہیں گی اور آزاد و روشن خیالی کے نعرے بھی لگتے رہیں گے اور ہم آپ کبھی ایک کی تو کبھی دوسرے کی حمایت میں لکھتے بھی رہیں گے۔ لیکن کیا ہم اپنے اس چلن کو بدل کر ایک نئے رواج کی بنیاد نہیں رکھ سکتے؟

    ReplyDelete
  5. جعفر، کہانی اور بیان میں فرق ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے آپ نے نام لئے ہیں۔ یہ کہانی کار ہیں۔ ایک اچھا کہانی کار کہانی میں کہیں موجود نہیں ہوتا۔ وہ صرف کہانی کے تسلسل کو اس طرح قابو میں کرتا ہے کہ وہاں سے غیر محسوس طریقے سے آپ وہ چیز محسوس کر لیں جو وہ کہنا چاہتا ہے۔ اسی لئے ایک کہانی کے بہت زیادہ مطالب نکل آتے ہیں۔
    جبکہ مضمون کی حدود متعین ہوتی ہیں اور یہاں آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں اسکی ذمہداری کوئ کردار نہیں آپ اٹھاتے ہیں۔ میں انکے بلاگ پر یہ تبصرہ دے چکی ہوں کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ منٹو کے نقش قدم پر چلنا چاہ رہے ہیں۔ منٹو اپنے کسی کردار کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ میں ہوں۔ جبکہ صاحب بلاگ اپنا حوالہ دیتے ہیں کہ میں نے بھی یہ کیا ہے۔
    جاوید صاحب،میرا اور آپ کا کوئ ادھار نہیں ہے۔ نہ میں یہاں کسی ایک فریق کو پارسا ثابت کر رہی ہوں اور دوسرے کو نرا شیطان کہہ رہی ہوں۔ میرا خیال ہے اس خیال کی تردید کے لئے صرف اسی تحریر پر سے آپ کا دوبارہ گذرنا کافی ہوگا۔ میں نے آپ کے ممدوح ساتھی کی طرح لفظ ہر مرد نہیں استعمال کیا۔ یہ یاد رکھیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ترک ، پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں تو ایسا ہر ترک نہیں کرتا، بچے شیطان ہوتے ہیں مگر ہر بچہ شیطان نہیں ہوتا۔ تمام انسان دو دو ہاتھ پیروں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں مگر ہر انسان نہیں۔ جب ہن کسی صورتحال کو عمومی طور پر لیتے ہیں تو وہ سب نہیں کر رہے ہوتے بلکہ زیادہ تر لوگ کرتے ہیں۔
    یہاں عورت بہ حیثیت انسان وہ ظلم کرتی ہے کہ انسانیت پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے لیکن ہمارا نکتہء نظر جب معاشرے میں لوگوں کے آپس کے تعلقات پر ہوتا ہے جو افراد کے ایکدوسرے کی ھیثیت متعین کرنے سے ہوتا ہے تو اس سلسلے میں صرف میں نہیں ہر ذی ہوش شخص یہ جانتا ہے کہ ہم اس وقت جس دنیا میں رہ ہیں۔ یہاں پر ہر قسم کے قوانین مرد کی برتر حیثیت کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ آپ شاید اسے دیکھنا نہیں چاہتے کیونکہ آپ کو یہ قدرتی اڈوانٹیج حاصل ہے کہ آپ کو بہ حیثیت مرد پیدا کیا گیا ہے۔ ایک بات اور میں کہنا چاہونگی کہ لوگوں کو انکا حق دینے میں اور خیرات دیکر انکی مدد کرنے یا ہمدردی کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس باریک سے فرق کی وجہ سے ہم میں سے اکثر چیزوں کو صحیح سمجھ نہیں پاتے۔
    خرم صاحب، ڈپٹی نذیر احمد نے برصغیر میں خواتین کے حوالے سے سب سے پہلے کام کرنا شروع کیا۔ انکا قدم یہ تھا کہ انہوں نے خواتین کو گھریلو سطح پر زیادہ باشعور ہونے کا مشورہ دیا۔ وہ ایک مرد تھے انہوں نے محسوس کیا کہوہ اس طرح شاید صورتحال کو بہتر کر سکیں انکے بعد آنیوالوں نے زیداہ کام کئے اور اب ہمارا معاشرہ اٹھارہویں صدی سے مختلف ہے۔ قرا٘العین حیدر، معروف ادیب سجاد حیدر کی صاحبزادی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب خواتین کا ایک شہر سے دوسرے شہر تنہا جانا ایک مسئلہ ہوتا تھا انہوں نے اپنی بیٹی کو لندن پڑھنے کے لئے بھیجا۔ یہ فیصلہ انکی ماں کا نہِں انکے والد صاحب کا تھا۔ اگر انکی ماں نے یہ فیصلہ کیا ہوتا تو اطراف کے لوگوں کا ردعمل مختلف ہوتا اور وہ شاید اس پر عمل بھی نہیں کرپاتیں۔ میں خود جو کراچی کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں خواتین کی تعلیم کوئ نئ چیز نہِں، بے جا روک ٹوک نہیں، میرے قریبی مرد رشتے دار بھی میری بنیادی انسانی آزادی میں مخل نہیں ہوتے، اس شہر کا عمومی مزاج خواتین کے لئے دوستانہ ہے۔ پھر بھی مجھے اکثر اوقات ایسی صورتحال کا سامنا کر نا پڑ جاتا ہے کہ بس اپنے عورت ہونے کا سوچتی رہ جاتی ہوں۔ مسائل کو تسلیم کرنا انکے حل کی طرف پہلا قدم ہے، آج ہم جس مقام پر ہیں یہاں تک پہنچنے میں زمانہ لگا ہے اور ان میں کچھ مشہور اور کچھ گمنام لوگوں کا ہاتھ ہوگا۔ سب اپنی مقدور بھر کوشش کرتے جائیں تو ہم نہیں ہمارے بعد یہ منظر خاصہ مختلف ہوگا۔
    نئے رواج کے لئے نئ طرح سے سوچنا پڑتا ہے۔ آپ باسی کڑھی میں تازہ ابال لا سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. عنیقہ بہنا اگر معاملہ عورت و مرد کی برابری کا ہے تو یہ تو میرے خیال میں ایک افسانوی اور غیر حقیقی چیز ہے کہ پھر اللہ کو دو صنفوں کو بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ دو صنفوں کا ہونا ہی اس چیز کا ثبوت ہے کہ دونوں مختلف ہیں۔ سوال ی ہہے کہ کتنا مختلف ہیں۔؟ اس کا جواب ہمیں دیانتداری سے ڈھونڈنا ہے ایسے جس میں ذمہ داریوں کو ان کے فطری طریقے سے تقسیم کیا جائے۔ وگرنہ بس اپنی پسند کے جواب کی تلاش میں عمر گزار جائیں گے اور کچھ نفع وصول نہ ہوگا۔

    ReplyDelete
  7. میں جب خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہوں تو اس سے میری مراد یورپ میں چلنے والی آزادیء نسواں کی تحریک نہیں ہوتی۔ نہ ہی میرا مسئلہ خواتین اور مردوں کی برابری ہے۔ سماجی زندگی کے اندر اصول اور ضوابط کا ہونا لازمی ہے۔ ورنہ صورتحال یہ ہوجائے گی کہ میں بھی رانی تو بھی رانی کون بھرے گا پانی۔ لیکن بہت ساری بنیادی ضروریات ہیں جو سب کے لئے یکسان ہیں۔ بچے آپکے ہیں اور زندہ رہنا انکا بنیادی حق ہے محض اس لئے کہ وہ آپکے بچے ہیں آپ انہیں جان سے مار ڈالیں۔ اسکا آپ کو حق حاصل نہیں۔
    ایک بالک سادی سی بات بتاءوں کہ روڈ پر اگر میں جارہی ہوں،گذرنے کا راستہ تنگ ہو اور سامنے سے ایک مرد آرہا ہو تو یہ ہمیشہ میں ہوتی ہوں جو راستے سے ہٹ جاتی ہوں۔ شاید ہی ایسا ہو کہ وہ مرد اپنا راستہ تبدیل کرے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اسکا حق ہے کہ اسے دیکھ کر میں رکوں یا ہٹوں، مجھے عورت ہونے کیوجہ سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے، اسکا کوئ حصہ مجھے چھو جائے تو یہ میرے لئے بڑی بے حیائ کی بات ہوگی البتہ اسکو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو جناب جنگ کے بادشاہ ہیں ۔ یہاں میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ میں آپ کی برابری چاہتی ہوں۔
    دوسری اہم بات یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی اس تقسیم کے نتیجے میں آپ اپنے آپ کو بڑا برتر سمجھتے ہیں اور دوسرے کو کمتر۔ کیونکہ اکثر مرد یہ دعوی کرتے ہیں کہ کماتے ہیں اور گھر انکے خرچے پر چلتا ہے۔ اگر عورت بھی کمانے نکل جائے تو وہ بھی اپنا گھر بآسانی چلا سکتی ہے اور چلاتی ہے۔ لیکن عورت کے اسطرح مصروف ہوجانے سے بچوں پر خاصہ اثر پڑتا ہے۔ دراصل کوئ عورت اگر اپنے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کو اس وجہ سے استعمال نہیں کر پا رہی کہ وہ اپنے گھر کو بہتر طور پہ توجہ دے سکے تو اس بات پر اسکا شکر گذار ہونا چاہئے نہ کہ اسے کمتر سمجھ کر آپ یہ کہیں کہ آپ تو بس چولہا ہانڈی کر سکتی ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ نہ صرف نسل انسانی کا تسلسل عورت کے مرہون منت ہے بلکہ انکی تربیت میں بھی اسکا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ عورتیں اپنی اس قوت سے آشنا نہیں۔

    ReplyDelete
  8. اکثر حضرات نے فوراً ڈیفینسو پوزیشنیں سمبھال لیں بغیر یہ سمجھے کہ لکھنے والی کہنا کیا چاہ رہی ہیں،بھائیوں یہاں کسی کمیونٹی کی برائی نہیں کی گئی بلکہ ہمارا معاشرہ جس منافقت اور گھٹن اور نا انصافی کا شاہکار ہے اس کی وضاحت کی گئی ہے اب مثال کے طور پر کراچی کے لوگ یا اردو اسپیکنگ پان بہت کھاتے ہیں تو اگر کوئی پان کی برائی کرے تو یہ کراچی والوں یا اردو بولنے والوں کی برائی نہین ہوگی ،خود مجھے بے انتہا نفرت ہے پان کھانے والوں سے زیادہ ان کے جگہ جگہ پچکاریاں مار کر سارے کراچی کو غلیظ بنانے سے ،اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے خاندان مین نئی نسل کو اس کی لت نہیں مگر جو بڑے بوڑھے کھاتے بھی ہیں تو اس طرح کا گند نہیں مچاتے ،بات وہی ہے باشعور اور بے شعور ہونے کی،
    رہی خاور صاحب کی تحریر کی بات مانا کہ انہوں نے اپنے علاقے کی برائیوں کی نشا ندہی کی مگر جیسے کہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو یہ بات ان کی تحریر میں بے حد نمایاں تھی اور سب سے اہم بات جو نمایاں تھی وہ ان کے علاقے میں عورت کو انتہائی ذلیل چیز سمجھنا،
    ہاں آخر میں انہوں نے ضرور کام کی بات کی،
    کہ جاپان کے لوگوں کا جھوٹ پکڑا جائے تو وہ غیرت سے مرجاتے ہیں کون ہے اصل غیرتمند،
    مگر ہمارا مذہب تو جھوٹ کو ہی اتنی قابل نفرین چیز سمجھتا ہے کہ یہ نوبت ہی نہ آنے دو کہ تم جھوٹ بولو اور پھر وہ پکڑا جائے اور رسوائی تمھارا مقدر بنے!
    ایک مشہوریورپین فلسفی کا کہنا ہے ابھی مجھے اسکا نام زہن میں نہیں آرہا کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے اور اس کے ماننے والے دنیا کے بدترین لوگ ہیں

    ReplyDelete
  9. عنیقہ آپ کے بلاگ پر کئی بار تبصرہ کرنے کا بہت دل ہوتا ہے مگر تبصرہ کرنا خاصہ مشکل ہے بلاگ سپاٹ پر ، میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ ورڈ پریس پر اپنا بلاگ منتقل کر لیں کیونکہ آپ اچھا لکھتی ہیں اور آپ کی تحریروں سے اچھے مباحث جنم لیتے ہیں جو اور بھی بہتر ہو سکتے ہیں اگر تبصرہ کرنا آسان ہو۔ مجھے کامل یقین ہے کہ بہت سے لوگ صرف تبصرہ کرنے کی مشکل کی وجہ سے تبصرہ نہیں کر پاتے ہوں گے۔ میرا خیال ہے یہ مشکل فائر فاکس سے مخصوص ہے۔کاپی پیسٹ بھی نہیں ہوتا اگر فائر فاکس استعمال کیا جا رہا ہو۔
    میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ اگر ایک عورت گھر کو عمدگی سے سنبھال رہی ہے اور بچوں کی اچھی پرورش کر رہی ہے تو وہ ایک مرد کے باہر کمانے جتنا ہی کام کر رہی ہے اور اس میں کم از کم مجھے تو کوئی شک نہیں کیونکہ میں کماتا ہوں بھی اور بچوں کو بھی کافی دیکھتا ہوں۔

    ReplyDelete
  10. محب، گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ شروع میں میں نے ورڈ پریس میں ہی بلاگ بنانے کی کوشش کی تھی۔ مگر میرے ارد گرد کوئ بھی شخص اردو میں بلاگ نہیں لکھتا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ورڈ میں ایچ ٹی ایم ایل کو تبدیل کرنا مشکل ہوگا۔ مختصراً یہ کہ بلاگ اسپاٹ مجھے آسان لگا اور اسے گوگل کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ اس سلسلے میں شعیب صفدر صاحب نے مجھے کچھ لنکس فراہم کئے اور بہت سارے ہٹ اور ٹرائل کے بعد یہ آپکے سامنے ہے۔ فی الحال نہ ہمت ہے اور نہ وقت۔ البتہ یہ ہے کہ اس میں اردو ایڈیٹر ڈالنا ہے۔ جب بھی اتنا رسک لینے کا وقت ملتا ہے وہ میں یہاں ڈال دونگی۔
    جہاں تک تبصروں کا تعلق ہے۔ میرے خیال میں اردو بلاگرز میں ہم جہتی نہیں ہے۔ جسے ورائٹی کہنا چاہئے۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے جو مکمل طور پر صحیح نہیں بھی ہو سکتا اور وہ یہ کہ اردو لکھنے والے بہت محدود ہو کر لکھتے ہیں۔ اور یہی حال انکا تبصرہ کرتے وقت ہوتا ہے۔ لیکن خیر ، مجھے لکھتے ہوئے کافی کم عرصہ گذرا ہے، اردو بلاگنگ کی عمر خود بھی خاصی کم ہے۔ راز کی بات ہے مگر آپ کو بتا دوں کہ میں جان بوجھ کر متنازع مسائل پر لکھنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ صرف میں نہیں بلکہ تمام ذی شعور لوگوں کو یہ بات کھلتی ہے کہ ہمارے اندر برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے۔ اور ہم ٹھوس دلیلوں پر بات کرنے کے بجائےہر معاملے میں خدا اور رسول اور وطن کی محبت کو بیچ میں لے آتے ہیں۔ میرے ایک بزرگ عزیز کہتے تھے۔ بھئ جہاں پر یہ چیزیں آجائیں وہاں ڈائیلاگ ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے ڈائیلاگ پسند ہیں اگر اس سے ہماری معلومات اور جاننے کے عمل میں مدد مل رہی ہو۔ بلاگنگ کا تجربہ مجھے اچھا لگا۔ اس سے ہم کافی لوگوں کو جانتے اور سمجھتے ہیں اور انسانی فطرت کے کئ پہلو سامنے آتے ہیں۔
    اگرچہ کہ یہ کافی ذاتی سوال ہے اور آپکی مرضی ہے کہ اسکا جواب دیں یا نہ دیں۔ لیکن آپ کمانے کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال کیسے کر لیتے ہیں۔

    ReplyDelete
  11. عبداللہ،بات یہ ہے کہ صرف خاور نہیں یا پر کچھ اور بلاگرز کو بھی میں نے اسی طرح بات کرتے پڑھا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ عورتوں کی طرح طعنے مارنا،کیوں عورتوں کی طرح لڑ رہے ہو یا جواب دے رہے ہو۔ یہ انداز گفتگو آپکو گلی میں کھڑے ایک عام شخص کے برابر لے آتا ہے جو ایک گال میں پان چبا رہا ہوں۔ آتی جاتی عورتوں پہ نظر رکھ کر اپنے پڑوسی مردوں سے کوئ بیکار ترین بات کہہ کر آنکھ مار کر ہنسے۔ آپ کہانی نہیں لکھ رہے کہ اسکے کسی اور مقام پر اسکی توجیح نکال لیں۔ مجھے زاتی طور پر یہ چیز سخت نا پسند ہے یعنی عورتوں کو زلیل اور کمتر سمجھنا۔ میں اور دیگر خواتین یہاں پر بالکل برابر کی سطح پر موجود ہیں۔ اور ہم سب انکی زبان اور خیالات سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہاں اس مقام پر میں کسی مرد سے کم نہیں۔ یہ بات ان سب لوگوں کو سمجھنی چاہئیے۔

    ReplyDelete
  12. عنیقہ اسی بہانے کچھ فارسی بھی سیدھی ہوئی ۔ آپ کی بات میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کو شروع میں صحیح مدد میسر نہ آئی ورڈ پریس کے لیے اس وجہ سے آپ کو بلاگ اسپاٹ پر آنا پڑا اور اس سلسلے میں شعیب صفدر کی مدد سے آپ کو بلاگ سپاٹ پر بلاگنگ آسان لگی۔ ورڈ پریس پر اردو بلاگنگ کے لیے میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ دو تین سال پہلے کافی کوشش کی تھی اور اس سلسلے میں کافی پیش رفت بھی ہوئی تھی اور ہم نے کئی تھیمز اردوائے اور اردو میں بلاگنگ کرنا کافی آسان بنا دیا تھا مگر چند مسائل کی وجہ سے اس پر توجہ مرکوز نہ رہ سکی مگر اردو اوپن پیڈ کی وجہ سے ورڈ پریس میں ہر جگہ اردو لکھنا کافی آسان ہو گیا ہے اور ورڈ پریس میں اردو تھیمز کافی خوبصورت بھی لگتے ہیں ، خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ آپ کو اگر ورڈ پریس میں دوبارہ بلاگ بنانا ہو تو میں ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔
    آپ کی اردو بلاگران کے متعلق ہم جہتی والی بات میں صحیح طور سمجھ نہیں سکا ہوں ، اگر آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ زیادہ تر لوگ ورڈ پریس پر بلاگ لکھتے ہیں اور دوسرے سافٹ وئیر استعمال نہیں کرتے تو بہت حد تک یہ بات صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک غلط ہے کیونکہ کئی اچھے اردو بلاگران بلاگ اسپاٹ پر بھی بلاگنگ کرتے ہیں ، اس کے علاوہ مووایبل ٹائپ کو بھی استعمال کرتے ہیں مگر ورڈ پریس بلاگنگ میں ایک لیڈر کی طرح ہے اس لیے اس کے کثیر استعمال کی بہت معقول اور معروف وجہ موجود ہے۔ دوسرا تبصرہ کی سہولت قاری کے لیے ہوتی ہے نہ کہ لکھنے والے کے لیے اور قاری کو زیادہ سے زیادہ سہولت مہیا کرنا بلاگر کی بنیادی ذمہ داری میں آتا ہے۔ اردو لکھنے والے کم ضرور ہیں مگر ماشاءللہ کئی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اور روز بروز اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
    آپ نے جو راز کی بات بتائی ہے اس کے لیے شکریہ اور اب میں اور احتیاط سے آپ کی پوسٹس پڑھا کروں مگر گزارش ہے کہ چند غیر متنازع موضوعات پر بھی لکھیں جیسے کہ بچوں کے لیے ، وکیپیڈیا کے لیے اور تعلیم پر۔ مجھے بھی مباحثیں پسند ہیں اور گفتگو کرنا اچھا لگتا ہے اس لیے تیار رہیے گا کہ آئندہ دلائل سے زوردار مباحث ہوا کریں گے۔ بلاگنگ کا تجربہ واقعی بہت عمدہ ہے اور بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے اور آپ کی پوشیدہ صلاحیتیں بہت نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ میری رائے میں تو ہر شخص کو بلاگنگ کرنی چاہیے اور کچھ نہ کچھ لکھنا چاہیے چاہے وہ کتنا سادہ اور کتنا مختص ہی کیوں نہ ہو ، لکھتے لکھتے ہی لکھنا آتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر شخص ادیب اور شاعر ہو تبھی لکھے ۔ عام سی باتیں عام سے انداز میں بھی لکھی جا سکتی ہیں اور معلومات تو کم از کم شئیر کی ہی جا سکتی ہے۔
    میں آپ کو سوال کو اتنا ذاتی نہیں سمجھتا اور میرا خیال ہے کہ جواب دینے سے تو بالکل بھی نہیں گھبرانا چاہیے۔ میری جاب آجکل رات بارہ سے صبح نو بجے ہوتی ہے اور اس کے بعد اکثر اہلیہ کی جاب ہوتی ہے تو دو تین ماہ تو بچوں کو کافی وقت مجھے دیکھنا پڑا مگر اس میں میری ساس اور سسر نے مدد مگر پھر بھی بہت کم نیند لے پاتا ہوں اور آجکل ساس ، سسر پاکستان گئے ہیں تو پھر کافی سخت شب و روز گزر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ یہ وقت جلد ختم ہو جائے گا کیونکہ میری اہلیہ جاب چھوڑ کر پڑھائی کرنے کے موڈ میں ہے اور میری جاب بھی چند ماہ میں دن میں شروع ہونے والی ہے۔

    ReplyDelete
  13. محب، میں بچوں کے لئے ایک بلاگ تیار کرنے کے مراحل میں ہوں۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ ایک فورم ہونا چاہئے۔ لیکن اسے بنانا فی الوقت میری بساط سے باہر ہے۔ اس لئے بات ایک بلاگ پر رکی۔ اب آپکی بات پر سوچتی ہوں کہ اسے ورڈ پریس پر بنا لوں۔میری خواہش ہے کہ کوئ ایسی چیز ہو کہ کمیونٹی بنیاد پر کی جاسکے۔ دوسرے لوگ بھی اپنی تحریریں شامل کرسکیں۔ تو پھر مجھے آپکی مدد چاہئے ہوگی۔
    میری اپنی ایک ڈھائ سال کی بچی ہے اور انکی تربیت اور پالنے پوسنے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ بچوں کے لئے بہت کام کیا جانا چاہئیے۔
    نیند، وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئ۔ رات کو اچانک اگر آنکھ کھل جائے تو اٹھ کر بیٹی صاحبہ کو چیک کرتی ہوں کہ انکے ساتھ تو مسئلہ نہیں جو میری آنکھ کھل گئ تھی۔

    ReplyDelete
  14. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  15. گو کہ آپ کو ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانکنے کا شوق اور علم کا دریا اور عقل کل ہونے کا ان کہا دعوہ ہے لیکن
    خاور کی تحریر سمجھنے کے لئے صرف کچھ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جی
    لسانیت ، صوبائیت اور خودترسی سے (پتا نہیں یہ لفظ کیوں زیادہ استعمال کرتا ہوں؟ شائد میں اس کا خود شکار ہوں۔ پہلے بھی آپ میرے اس لفظ پر ایک پوسٹ لکھ چکی ہیں) نکل کر معاشرتی کردار بننا پڑتا ہے
    ورنہ آپکے اُسی پوسٹ پر تبصرے کے مطابق مزے لینے کے لئے بار بار پڑھنا پڑتا ہے
    یہ تو تھا پوسٹ پر تبصرہ
    باقی تبصرہ تبصرے پڑھ کر

    ReplyDelete
  16. معاف کیجئے گا عنیقہ جی آپ نے "ہر مرد" لفظ استعمال نہیں کیا تو خاور نے بھی کہیں "ہر عورت" استعمال نہیں کیا
    اور نا ہی انہوں نے کراچی کے ٹیوب ویلوں کا کوئی ذکر کیا
    ٹیوب ویل صرف تشبیہ کے لئے اتعمال کیا گیا ہے
    اچھا خٰر چھوڑیں "پرائی کیا پڑی مجھے؟"
    مشرف دی گریٹ اور بی لوڈ زرداری کے متعلق آپکے خیالات جان کر قسم سے ہواؤں میں اڑنے کو دل کر رہا ہے
    برسرالزام نام آیا تو سہی ;) ۔

    ReplyDelete
  17. میں آپکو ایک سادہ سا مشورہ دینا چاہونگی کہ لوگوں کو انکے علم کا طعنہ دینے اور اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں تو بات میں زیادہ وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ اب اگر آپکی انا کو ٹھیس نہ پہنچے تو میں نے لہیں پر بھ اپنا ایک علیحدہ تعارف نہیں دیا جس سے آپکو میرے علم کا دریا اور عقل کل ہونے کے اشارے ملیں۔ میں حتی الامکان کوشش کرتی ہوں کہ ان سب چیزوں سے جو کہ میرے اور باقی لوگوں کے درمیان خوامخواہ کی رکاوٹ پیدا کریں انہیں نہ لاءوون۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ کچھ جگہوں پر ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا جبکہ انکا ڈائرکٹ تعلق مجھ سے بن رہا ہوتا ہے۔ افسو میں نے زیادہ علم والوں کو زیادہ کرپٹ دیکَھا ہے اس لئے میں اسپر کچھ زیادہ فخر نہیں کرسکتی۔لیکن اپنے اردگرد کے ماحول اور انسانوں کو نظر انداز کرکے آپ کوئ معاشرتی کردار نہیں بن سکتے۔
    جی ہان جناب، جب ہم کہتے ہیں کہ مرد یہ کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتی ہے کہ مردوں کی اکثریت۔ عورتوں کو جھک جھک کرنے کی بڑی عادت ہوتی ہے۔ یعنی ایک بہت بڑی اکثریت کو۔ ایک مرد چالیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سو لڑکیوں کو بھگتا چکا ہوتا ہے۔ اسکا مطلب لیا جائے گا کہ نوے سے پطانوے فیصڈ مرد یہی کرتے ہیں۔ اپنے مردوں کو برا بھلا کہنے کے باوجود میں اس شمار کو پچاس ساٹھ فیصد سے آگے نہیں بڑھاءونگی۔
    عورتیں تو یہی کرتی ہیں، پہلے نونو-------۔ یعنی دوبارہ نوے سے پچانوے فیصد عورتیں اس شمار میں آئیں گی۔ جبکہ ایسی عورتوں کو میں بہت زیادہ ڈھیلا ڈھالا مارجن دوں تو شاید بیس فیصدی اس میں بھی ہمارے سماجی رویوں کی خاصی حصےداری ہوتی ہے۔ جنہیں بعض تعصبات کی بنیاد پر آپ سمجھنا نہیں چاہ رہے۔ ایک عورت ہونے کے ناطے اور بے شمار دوسری عورتوں سے تعلقات رکھنے کے بعد جن کی تعداد ان سے زیادہ ہوگی جنہیں خاور صاحب اور آپ ملکر جانتے ہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورتوں کی پہلی ترجیح انکے بچے اور گھر ہوتا ہے وہ ہرقسم کے حالات سے صبر کے ساتھ اس لئے گذر جاتی ہیں کہ انکے بچے محفوظ رہیں۔ اس سلسلے میں منٹو کا ایک افسانہ ہے جسکا نام مجھے یاد نہیں آرہا پڑھنے کی چیز ہے۔ اس افسانے میں بھی ایک عورت دھندا کرنے کے لئے ایک گاہک کو ساتھ لیجاتی ہے لیکن اسکے ساتھ اسکا بچہ ہوتا ہے۔ مجھے اپنے علم پہ نہیں اس چیز پر خوشی ہے کہ مجھے معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ وقت گذارنے کا موقع ملا جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ میں زندگی ایک ہموار رستے پر نہیں گذاری۔یہاں وہ دن بھی ہیں جب میں سمجھ رہی تھی کہ ابھی ہمارا گھر بھی راکھ کا ڈھیر بن جائے گا اور شاید آج کے دن کے بعد میں اپنے پیاروں میں سے کچھ کو نہ دیکھ پاءووں اوریہاں وہ دن بھی ہیں جب ہم گاتے تھے کہ بھیگتی سڑکوں پہ اسکے ساتھ گھومنا اچھا لگا۔ اور ہاں یہاں میری مراد کسی لو افئیر سے نہیں ہے۔
    جہاں تک لسانیت اور صوبائیت کا تعلق ہے اسکے وجود سے انکار کر کے آپ دوسرے لوگوں کے مسائل کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ محبت کا پیغام بانٹنا زبردست کام ہے۔ لیکن اس سے پہلے یا تو آپ کو یہ پتہ ہونا چاہئیے کہ نفرت بھی مختلف عوامل کی بناء پر اپنا وجود رکھتی ہے اوریا پھر آپ نفرت یا محبت کسی بھی چیز سے واقف نہ ہوں اور زندگی ایک سیدھے دھڑے پر چلتی رہے۔ جو بحیثیت انسان ہونا ممکن نہیں۔ ان مختلف انسانی جذبات کی بناء پر دنیا میں اتنی ہمہ رنگیت ہے۔ اگر آپ دن کے وجود سے اس لئے انکار کریں کہ آپ کو سورج نہیں پسند تو اس سے سورج کی موجودگی ختم نہیں ہوجاتی۔ میرے خیال میں یہ طرز عمل کہ اس موضوع پر بات نہ کریں یہ نیرو کے حالت جنگ میں بانسری بجانے کے عمل سے کم نہیں۔ حالانکہ مجھے بانسری اتنی پسند ہے کہ میں نے اسے سیکھنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
    اب جبکہ آپکو یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ میری ناقص عقل انکے اعلی بیانات کے لئے پاپڑ بیلنے سے قاصر ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم ایک بہتر سمت میں بڑھ جائیں۔ ہو سکتا ہے کچھ وقت کے بعد میں انکی تحریروں کو بعینہ اسی طرح سمجھنے کے قابل ہوجاءووں۔ جیسا آپ سمجھتے ہیں

    ReplyDelete
  18. عنیقہ کچھ دیر ہو گئی آپ کی پوسٹ پر تبصرہ کرنے میں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ بچوں کے لیے ایک بلاگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں میرا بھی ایسا ہی ارادہ ہے اور انشاءللہ اسے ورڈ پریس پر جلدی ہی شروع کرتے ہیں۔ رمضان کے بعد میرا خیال ہے اسے شروع کرنے کرنے کا سوچ سکتے ہیں ، میرے بیٹے کو Autism ہے اور اس کے متعلق معلومات جمع کرنا اور ایسے بچوں کے لیے علمی مواد ڈھونڈنا میری ترجیحات میں شامل ہے اور یقینا بلاگ بنانے سے اس عمل کو خاصی تقویت پہنچے گی

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ