مجھے لغات پڑھنے کا شوق ہے۔ اکثر اوقات اس پر ہنس دیتے ہیں احباب۔ لغت کوئ پڑھنے کی چیز ہے۔ یہ تو صرف اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی لفظ کا مطلب نہ سمجھ میں آرہا ہو۔ لیکن میرے لئے لغت چہار اطراف پھیلی کائنات کی طرح ہے۔ میں اسے بہت دیرتک پڑھ کر بھی بور نہیں ہوتی۔
لفظ پڑھنا تو میری عادت ہے
تیرا چہرہ کتاب سا کیوں ہے
میں اس میں اتنی ترمیم چاہتی ہوں کہ تیرا چہرہ لغات سا کیوں ہے۔ ابھی ابھی مجھے یہ جان کر خوشی ہوئ کہ لاطینی امریکہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب گبرئیل گارسیا مارقیس بھی ہر صبح اٹھ کر لغت کےدو تین صفحے پڑھتے تھے۔ یقین آگیا کہ دنیا کے عظیم دماغ ایک طرح سوچتے ہیں۔ اسی یقین پر میں بلاشبہ اگلے تیس سال آرام سے لکھ سکتی ہوں۔
اور آج اس یقین کا پہلا دن ہے۔
گبرئیل گارسیا نے یونیورسٹی میں قانون اور صحافت میں تعلیم حاصل کی۔ صحافی کی حیثیت سے خاصہ کام کیا۔ لیکن انکی وجہ ء شہرت انکی وہ تحریریں بنیں جن کا تعلق فکشن سے ہے۔ تنہائ کے سو سال اور ہیضے کے دنوں میں محبت انکے دو مشہور ناول ہیں۔ جس میں سے انکے ناول تنہائ کے سو سال کو نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ اس ناول کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ناقدین کی نظر میں زینت حسام کا کیا گیا ترجمہ اصل سے زیادہ قریب ہے۔ اتفاق سے مجھے ان میں سے کوئ ترجمہ پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ میں نے اسکا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔
انکے کام سے قطع نظر میں اس وقت ان سے منسوب ایک ایسی نظم پیش کرنا چاہ رہی تھی جو انکے نام سےلاطینی امریکہ کے اخباروں میں چھپی۔ بعد میں یہ بات ثابت ہوئ کہ یہ کسی غیر معروف ادیب کی نظم ہے۔ مارقیس نے اسکے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ نظم کا عنوان ہے۔
کٹھ پتلا
اگر ایک لمحے کے لئے خدا یہ بھول جائے کہ میں کپڑے اور گودڑ کی گڑیا ہوں اور مجھے زندگی کی ایک رمق دے دے تو شاید میں وہ سب نہ کہہ سکوں جو میں سوچتا ہوں، مگر میں جو کہتا ہوں یقیناً سوچ کر کہوں گا۔
میں چیزوں کی قدر اس لئے نہیں کرونگا کہ انکی قیمت کیا ہے، بلکہ اس لئے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔
میں کم سوءونگا، خواب زیادہ دیکھوں گا۔ مجھے معلوم ہےکہ ہم ایک منٹ کے لئے بھی آنکھیں بند کرتے ہیں تو روشنی کے ساٹھ سیکنڈ سے محروم ہوجاتے ہیں۔
میں سنوں گا جب دوسرے بولیں گے اور میں عمدہ چوکلیٹ آئس کریم کا کس طرح مزہ لوں گا۔
اگر خدا مجھے زندگی کی ایک رمق بخش دے تو میں سادہ کپڑے پہنوں گا، اپنے آپ کو سورج کے سامنے ڈھیر کر دوں گا، صرف اپنے بدن کو نہیں روح کو بھی کشادہ کروں گا۔
میرے خدا، اگر میرا دل ہوتا تو میں برف پر اپنی نفرت تحریر کر کے سورج نکلنے کا انتظار کرتا۔
وان گاف کے خواب کے ساتھ میں ستاروں پر بینڈیٹی کی ایک نظم مصور کر دیتا اور سیراٹ کا گیت چاند کے لئے رومانی نغمہ ہوتا۔
اپنے آنسوءوں سے میں گلابوں کو پانی دیتا، انکے کانٹوں کا درد محسوس کرتا اور انکی پنکھڑیوں کے مجسم بوسے------میرے خدا اگر میرے پاس زندگی کی بس ایک رمق ہوتی---۔
میں کوئ دن ایسا نہ جانے دیتا جس میں ان لوگوں سے جن سے مجھے محبت ہے، یہ نہ کہتا کہ مجھے ان سے محبت ہے۔
میں ہر عورت اور مرد کو یہ باور کراتا کہ وہی میرے سب سے پسندیدہ لوگ ہیں اور میں عشق کے عشق میں مبتلا ہو کر زندہ رہتا۔
میں مردوں پر یہ ثابت کر دیتا کہ انکا یہ خیال کسقدر غلط ہے کہ وہ بوڑھے ہونے کے ساتھ محبت میں گرفتار نہیں ہو سکتے-----یہ جانے بغیر کہ وہ بوڑھے جبھی ہوتے ہیں جب محبت میں گرفتار ہونا بند کردیتے ہیں۔
ایک ایک بچے کو میں پروں کا تحفہ دیتا مگر انہیں اڑنا خود سیکھنے کے لئے چھوڑ دیتا۔ بوڑھیوں کو میں سکھاتا کہ موت بڑھاپے سے نہیں بلکہ بھول جانے سے آتی ہے۔ میں نے اتنا کچھ سیکھا ہے تم لوگوں سے-----
میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہر ایک پہاڑ پر چوٹی پر رہنا چاہتا ہے، یہ محسوس کیے بغیر کہ سچی خوشی اس راستے سے آتی ہے جس سے ہم اونچائ پر چڑھتے ہیں۔
میں نے یہ سیکھا ہے کہ جب ایک نو مولود بچہ اپنے باپ کی انگلی کو اپنی ننھی منی مٹھی میں دباتا ہے تو اسے ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیتا ہے۔
میں نے یہ سیکھا ہےکہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلندی سے اسی وقت دیکھنے کا حق رکھتا ہے جب کھڑے ہونے میں اسکی مدد کر رہا ہو۔ میں نے اتنی بہت سی باتیں سیکھی ہیں تم لوگوں سے مگر انجام کار ان میں سے زیادہ تر باتیں میرے کسی کام نہ آئیں گی اسلئے کہ جب وہ مجھے اس سوٹ کیس میں رکھ رہے ہونگے تو بد قسمتی سے میں مر رہا ہوں گا۔
یہ ترجمہ غالباً آصف فرخی نے کیا ہے کیونکہ اس پر انکا نام نہیں لکھا ہے۔ میں نے اسے انکی زیر ادارت چھپنے والے پرچے دنیا زاد کی دوسری کتاب سے لیا ہے۔ آصف فرخی اردو ادب کی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اپنی ادبی خدمات کے سلسلے میں تمغہ ء امتیاز حاصل کر چکے ہیں۔
آصف فرخی
گبرئیل گارسیا مارقیس
نوٹ؛ جاوید گوندل صاحب کی توجہ دلانے پر گبرئیل گارسیا مارقیس کے نام کا تلفظ صحیح کر دیا گیا ہے۔
لفظ پڑھنا تو میری عادت ہے
تیرا چہرہ کتاب سا کیوں ہے
میں اس میں اتنی ترمیم چاہتی ہوں کہ تیرا چہرہ لغات سا کیوں ہے۔ ابھی ابھی مجھے یہ جان کر خوشی ہوئ کہ لاطینی امریکہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب گبرئیل گارسیا مارقیس بھی ہر صبح اٹھ کر لغت کےدو تین صفحے پڑھتے تھے۔ یقین آگیا کہ دنیا کے عظیم دماغ ایک طرح سوچتے ہیں۔ اسی یقین پر میں بلاشبہ اگلے تیس سال آرام سے لکھ سکتی ہوں۔
اور آج اس یقین کا پہلا دن ہے۔
گبرئیل گارسیا نے یونیورسٹی میں قانون اور صحافت میں تعلیم حاصل کی۔ صحافی کی حیثیت سے خاصہ کام کیا۔ لیکن انکی وجہ ء شہرت انکی وہ تحریریں بنیں جن کا تعلق فکشن سے ہے۔ تنہائ کے سو سال اور ہیضے کے دنوں میں محبت انکے دو مشہور ناول ہیں۔ جس میں سے انکے ناول تنہائ کے سو سال کو نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ اس ناول کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ناقدین کی نظر میں زینت حسام کا کیا گیا ترجمہ اصل سے زیادہ قریب ہے۔ اتفاق سے مجھے ان میں سے کوئ ترجمہ پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ میں نے اسکا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔
انکے کام سے قطع نظر میں اس وقت ان سے منسوب ایک ایسی نظم پیش کرنا چاہ رہی تھی جو انکے نام سےلاطینی امریکہ کے اخباروں میں چھپی۔ بعد میں یہ بات ثابت ہوئ کہ یہ کسی غیر معروف ادیب کی نظم ہے۔ مارقیس نے اسکے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ نظم کا عنوان ہے۔
کٹھ پتلا
اگر ایک لمحے کے لئے خدا یہ بھول جائے کہ میں کپڑے اور گودڑ کی گڑیا ہوں اور مجھے زندگی کی ایک رمق دے دے تو شاید میں وہ سب نہ کہہ سکوں جو میں سوچتا ہوں، مگر میں جو کہتا ہوں یقیناً سوچ کر کہوں گا۔
میں چیزوں کی قدر اس لئے نہیں کرونگا کہ انکی قیمت کیا ہے، بلکہ اس لئے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔
میں کم سوءونگا، خواب زیادہ دیکھوں گا۔ مجھے معلوم ہےکہ ہم ایک منٹ کے لئے بھی آنکھیں بند کرتے ہیں تو روشنی کے ساٹھ سیکنڈ سے محروم ہوجاتے ہیں۔
میں سنوں گا جب دوسرے بولیں گے اور میں عمدہ چوکلیٹ آئس کریم کا کس طرح مزہ لوں گا۔
اگر خدا مجھے زندگی کی ایک رمق بخش دے تو میں سادہ کپڑے پہنوں گا، اپنے آپ کو سورج کے سامنے ڈھیر کر دوں گا، صرف اپنے بدن کو نہیں روح کو بھی کشادہ کروں گا۔
میرے خدا، اگر میرا دل ہوتا تو میں برف پر اپنی نفرت تحریر کر کے سورج نکلنے کا انتظار کرتا۔
وان گاف کے خواب کے ساتھ میں ستاروں پر بینڈیٹی کی ایک نظم مصور کر دیتا اور سیراٹ کا گیت چاند کے لئے رومانی نغمہ ہوتا۔
اپنے آنسوءوں سے میں گلابوں کو پانی دیتا، انکے کانٹوں کا درد محسوس کرتا اور انکی پنکھڑیوں کے مجسم بوسے------میرے خدا اگر میرے پاس زندگی کی بس ایک رمق ہوتی---۔
میں کوئ دن ایسا نہ جانے دیتا جس میں ان لوگوں سے جن سے مجھے محبت ہے، یہ نہ کہتا کہ مجھے ان سے محبت ہے۔
میں ہر عورت اور مرد کو یہ باور کراتا کہ وہی میرے سب سے پسندیدہ لوگ ہیں اور میں عشق کے عشق میں مبتلا ہو کر زندہ رہتا۔
میں مردوں پر یہ ثابت کر دیتا کہ انکا یہ خیال کسقدر غلط ہے کہ وہ بوڑھے ہونے کے ساتھ محبت میں گرفتار نہیں ہو سکتے-----یہ جانے بغیر کہ وہ بوڑھے جبھی ہوتے ہیں جب محبت میں گرفتار ہونا بند کردیتے ہیں۔
ایک ایک بچے کو میں پروں کا تحفہ دیتا مگر انہیں اڑنا خود سیکھنے کے لئے چھوڑ دیتا۔ بوڑھیوں کو میں سکھاتا کہ موت بڑھاپے سے نہیں بلکہ بھول جانے سے آتی ہے۔ میں نے اتنا کچھ سیکھا ہے تم لوگوں سے-----
میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہر ایک پہاڑ پر چوٹی پر رہنا چاہتا ہے، یہ محسوس کیے بغیر کہ سچی خوشی اس راستے سے آتی ہے جس سے ہم اونچائ پر چڑھتے ہیں۔
میں نے یہ سیکھا ہے کہ جب ایک نو مولود بچہ اپنے باپ کی انگلی کو اپنی ننھی منی مٹھی میں دباتا ہے تو اسے ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیتا ہے۔
میں نے یہ سیکھا ہےکہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلندی سے اسی وقت دیکھنے کا حق رکھتا ہے جب کھڑے ہونے میں اسکی مدد کر رہا ہو۔ میں نے اتنی بہت سی باتیں سیکھی ہیں تم لوگوں سے مگر انجام کار ان میں سے زیادہ تر باتیں میرے کسی کام نہ آئیں گی اسلئے کہ جب وہ مجھے اس سوٹ کیس میں رکھ رہے ہونگے تو بد قسمتی سے میں مر رہا ہوں گا۔
یہ ترجمہ غالباً آصف فرخی نے کیا ہے کیونکہ اس پر انکا نام نہیں لکھا ہے۔ میں نے اسے انکی زیر ادارت چھپنے والے پرچے دنیا زاد کی دوسری کتاب سے لیا ہے۔ آصف فرخی اردو ادب کی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اپنی ادبی خدمات کے سلسلے میں تمغہ ء امتیاز حاصل کر چکے ہیں۔
آصف فرخی
گبرئیل گارسیا مارقیس
نوٹ؛ جاوید گوندل صاحب کی توجہ دلانے پر گبرئیل گارسیا مارقیس کے نام کا تلفظ صحیح کر دیا گیا ہے۔
شاید مجھے یہ لکھنے کا حق نہیں لیکن دل میں آئی بات نہ کہنے سے بندے کے دل میں سوراخ ہوجاتے ہیں
ReplyDeleteآپ جب بھی ایسا لکھتی ہیں تو دل کرتا ہے کہ تحریر ختم نہ ہو۔۔۔
اے حق لکھنے والے ناحقدار، یہ ان چار دل کے نکاسی خون کے سوراخوں سے تو آپ سب کو نہیں دھمکاتے رہتے جو اگر نہ ہوں تو دل کی کھیتی یا تو بنجر ہو جائے یا وہاں سیم و تھور ہو جائے۔ خون کے جمع رہنے سے۔ میرے پاس بھی ہیں، پورے چار۔
ReplyDeleteیہ لیجئیے ایک شعر آپکی نذر ابھی پڑھا ہے۔
جب تک میری کسی سے رقابت نہیں ہوئ
میں جانتا نہ تھا پس دیوار دیکھنا
اور ہاں شاعر کا نام ہے، عزم بہزاد۔
ReplyDeleteبہت خوب۔ آپ نے وکی کے بارے میں میرے بلاگ پر اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ادب اور تاریخ کے حوالے وہاں کام کرنے کے مواقع بہت زیادہ ہے۔ نیا مواد شامل کیجیے یا پھر پہلے سے موجود مواد کی ترتیب میں مدد دیجیے۔
ReplyDeleteوہ زبان کہاں سے لاؤں جس سے آپ کو میں سمجھاؤں
ReplyDeleteلغات کا مطالعہ بہت صحتمند عادت ہے ۔ اسے جاری رکھیئے ۔ مزید یہ کہ اپنے حال پر رحم کھایئے اور لوگوں کی باتوں پر غم نہ کھایئے ۔
Mujhe bhi lughat parhna bahut pasand hai aur acha laga ke aap ki bhi yahee aadat hai aur baray loogon ki bhi
ReplyDeleteافتخار اجمل صاحب، پھر سے ایک بات کہنی پڑے گی کہ
ReplyDeleteجو تمہاری مان لیں ناصحا تو بچے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی حکائیتیں
محب ، خوش ہو گئے ناں، اب لگ جائیں کام سے نوبل انعام نہ سہی بوکر پرائز ہی حاصل کر لیں۔
چلیں اب بغیر ڈکشنری دیکھیں بتائیں کہ صہبا اور صبا میں کیا فرق ہے۔
وہاب، میرا خیال ہے کہ پہلے سے موجود مواد پر ہاتھ صاف کرنا چاہئیے۔ اگلے مرحلے میں نیا مواد شامل کریں گے۔
Gabriel García Márquez
ReplyDeleteبرسبیل تذکرہ۔ ادب کا نوبل انعام پانے والے کولمبین رائٹر کے کے نام کا درست تلفظ۔ گابرئیل گارسیا مارقیس ۔ یہ لاطینی نام ہسپانوی زبان میں بھی ۔ گابرئیل گارسیا مارقیس ۔ پکارا جاتا ہے۔ آپ کی دلچسپی کے لئیے ۔ آپ کے علم میں لانا چاہوں گا کہ ہسپانوی زبان میں اردو میں ۔ ۔ش۔۔ اور۔۔ ز ۔۔ کی آواز دینے والے حروف ہی نہیں ہیں۔
گابرئیل گارسیا رائٹر ہیں شاعر نہیں۔ اور یہ نظم گابرئیل گارسیا کی نہیں بلکہ یہ نظم ایک میکسیکن با شندے جونی ویلچ Johnny Welch کی ہے ۔ گابرئیل گارسیا نے ان سے یہ نظم منسوب کیئے جانے پہ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں نہائیت دکھ ہے کہ ان سے ایک ایسی گھٹیا سی نظم ان سےمنسوب کی گئی جو انکا معیار نہیں اور یہ شرم کا مقام ہے۔
گابرئیل گارسیا مارقیس سے ناحق طور پہ منسوب نظم کو ہسپانوی زبان سے انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔ پھر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ جس سے کچھ الفاظ کے وہ معنی شاید نہیں بنتے جو صاحب ترجمہ نے اردو میں کئیے ہیں۔
مثلا نظم کا وہ حصہ جس میں شاعر کہتا ہے ۔۔میں چیزوں کی قدر اس لئے نہیں کرونگا کہ انکی قیمت کیا ہے، بلکہ اس لئے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔۔۔۔ نظم کے اسلوب سے ہسپانوی سے لطٖ معنی کی بجائے درست لفظ ۔۔ حقیقت۔۔ ہے۔
اس نظم میں بیان خواہش کی صورت حال کچھ اسطرح بنتی ہے کہ شاعر ابھی کی بات کر رہا ہے کہ میں اگر یوں ہوتا تو یہ کرتا یا وہ کرتا ۔ مثلا ۔۔ میں کم سوءونگا، خواب زیادہ دیکھوں گا۔۔۔ یہ درست ترجمہ نہیں۔ درست ترجمہ یوں ہے کہ میں کم سوتا،خواب زیادہ دیکھتا۔ وغیرہ۔۔۔ واخو (ولندیزی مصور1853 ۔ 1890 Vincent Willem van Gogh ) کے خواب سے بے دینتی (اراغوائے Uruguay 1920 ۔ 2009 Mario Orlando Hardy Hamlet Brenno Benedetti Farrugia) کی ایک نظم تاروں پہ تصویر کرتا۔ اور سیرات (Joan Manuel Serrat 1943 en Poble Sec (Barcelona), Spain)
کی مشہور زمانہ نظم سیرینیتا چاند کی نذر کرتا۔
ہسپانوی میں یہ نظم یہ ہے۔ میں آخر میں لکھ دونگا ۔
LA MARIONETA
ReplyDeleteSi por un instante Dios se olvidara
de que soy una marioneta de trapo
y me regalara un trozo de vida,
posiblemente no diría todo lo que pienso,
pero en definitiva pensaría todo lo que digo.
Daría valor a las cosas, no por lo que valen,
sino por lo que significan.
Dormiría poco, soñaría más,
entiendo que por cada minuto que cerramos los ojos,
perdemos sesenta segundos de luz.
Andaría cuando los demás se detienen,
Despertaría cuando los demás duermen.
Escucharía cuando los demás hablan,
y cómo disfrutaría de un buen helado de chocolate.
Si Dios me obsequiara un trozo de vida,
Vestiría sencillo, me tiraría de bruces al sol,
dejando descubierto, no solamente mi cuerpo sino mi alma.
Dios mío, si yo tuviera un corazón,
escribiría mi odio sobre hielo,
y esperaría a que saliera el sol.
Pintaría con un sueño de Van Gogh
sobre las estrellas un poema de Benedetti,
y una canción de Serrat sería la serenata
que les ofrecería a la luna.
Regaría con lágrimas las rosas,
para sentir el dolor de sus espinas,
y el encarnado beso de sus pétalo...
Dios mío, si yo tuviera un trozo de vida...
No dejaría pasar un solo día
sin decirle a la gente que quiero, que la quiero.
Convencería a cada mujer u hombre de que son mis favoritos
y viviría enamorado del amor.
A los hombres les probaría cuán equivocados están,
al pensar que dejan de enamorarse cuando envejecen,
sin saber que envejecen cuando dejan de enamorarse.
A un niño le daría alas,
pero le dejaría que él solo aprendiese a volar.
A los viejos les enseñaría que la muerte
no llega con la vejez sino con el olvido.
Tantas cosas he aprendido de ustedes, los hombres
He aprendido que todo el mundo quiere vivir
en la cima de la montaña,
Sin saber que la verdadera felicidad está
en la forma de subir la escarpada.
He aprendido que cuando un recién nacido
aprieta con su pequeño puño,
por vez primera, el dedo de su padre,
lo tiene atrapado por siempre.
He aprendido que un hombre
sólo tiene derecho a mirar a otro hacia abajo,
cuando ha de ayudarle a levantarse.
Son tantas cosas las que he podido aprender de ustedes,
pero realmente de mucho no habrán de servir,
porque cuando me guarden dentro de esa maleta,
infelizmente me estaré muriendo
جاوید صاحب ، ان سب معلومات کا شکریہ۔ جیساک میں نے اس پوسٹ کے اخیر میں اس نظم کے ماخذ کے بارے میں بتایا۔ یہ ساری غلطیاں بھی وہیں سے آئیں ہیں۔ آصف فرخی بہ حیثیت مترجم ایک حیثیت رکھتے ہیں۔ میری طرح وہ بھی ہسپانوی زبان سے لا علم ہونگے اس لئے امکان یہی ہے کہ انہوں نے انگریزی سے ترجمہ کیا ہوگا۔ میں انہیں ذاتی حیثیت میں جانتی ہوں اور کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں نکلا کہ وہ یہ زبان جانتے ہیں۔ ترجمہ اور وہ بھی شاعری کا کبھی اصل کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ایک دانا کے بقول شاعری آوازوں کی ٹیکنک ہے۔ دنیا میں چونکہ ہر زبان میں ہر آواز نہیں ہوتی اس لئے شاعری کا ترجمہ اور بھی مشکل ہوتا ہے۔
ReplyDeleteمیں نے لکھا ہے کہ یہ نظم ان سے منسوب کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انکی نہیں ہے۔ اسکا متن مجھے اچھا لگا اس لئے سب لوگوں کو شامل کر لیا۔
جی ہاں مجھے بھی اس بات پر حیرانی ہوتی تھی کہ گارسیا کیوں نہیں لکھا جاتا۔ اسے بھی لکھتے وقت میں نے تھوڑا سوچا اور پھر خیال آیا کہ غلط ہوگا تو کوِئ نشاندہی کردیگا۔
میرے خیال سے ہسپانوی زبان میں جیم کی آواز بھی نہیں ہوگی کہ لکھے ہوئے فجیٹا پزاکو فہیٹا کہا جاتا ہے۔آپ بہتر واقف ہونگے۔
ویسے میں شاعر نہیں لیکن کبھی کبھی اس پر ہاتھ صاف کر لیتی ہّوں۔ اور وہ کچھ ایسا برا نہیں ہوتا۔ لیکن اس پائے کا بھی نہیں ہوتا جیسا کہ ہمارے دوست، محمد احمد، م م مغل یا وارث صاحبان لکھتے ہیں۔
شکریہ۔
جی ہاں ۔آپ نے بجا ارشاد فرمایا۔ ۔ انگریزی زبان میں ۔۔ج ۔۔جیم۔۔ کے لئیے استعمال ہونے والا انگریزی کا حرف تہجی ۔۔جے۔۔ ہسپانوی زبان میں وہی آواز دیتا ہے اردو زبان کے لئیےجوسو فیصد ۔۔ خ ۔۔ دیتا ہے۔ ۔۔ج۔۔ جیم کے لئیے بھی ہسپانوی کا کوئی حرف نہیں۔۔ ہاں البتہ ۔۔ ۔۔ڈبل ایل۔۔ کو ۔۔ج۔۔ اور ۔۔ ی۔۔ کے درمیان درمیان آواز نکالنے کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ۔
ReplyDeleteمثلا جاوید کو اگر انگریزی زبان میں لکھ کر کسی سےہسپانوی زبان میں پڑھوایا جائے تو وہ اسے ۔ نہائت آسانی سے ۔ خابید۔۔ پڑھے گا ۔ اور اگر کسی ہسپانوی کو زبانی بول کر ۔۔ جاوید۔۔ لکھنے کو کہا جائے تو اسے ڈبل ایل کے ساتھ شروع کرتے ہوئے ۔۔ یاوید پڑھے گا۔ ہسپانوی میں ۔۔ انگریزی زبان کا لفظ۔۔ وی ۔۔ ہسپانوی میں ۔۔ ب ۔۔ کی آواز دیتا ہے۔ جبکہ ۔۔ و ۔۔ کے لئیے ۔۔ ڈبلیو۔۔ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
یوروپ کی تقریبا سبھی زبانوں کے بہت سے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف بولے جاتے ہیں خصوصی طور پہ لاطینی زبان سے وجود میں آنے والی یوروپ کی موجودہ بہت سی زبانوں(ہسپانوی ، فرانسیسی، اطالوی، پرتگیزی، قئتلان اور گالیگو وغیرہ ) کا اسلوب انگریزی سے مختلف ہے ۔ مثلا جسے ہم ۔۔ پیرس۔۔ پڑھتے اور بولتے ہیں۔ یہ لفظ انگریزی نا جاننے والے ایک فرانسیسی کے سامنے بولا جائے تو وہ اس سےنابلد ہے۔ کیونکہ ۔۔پیرس ۔۔ کو فرانسیسی میں ۔۔ پاغی۔۔ کہتے ہیں۔ فرانسیسی زبان میں ۔۔ ر ۔۔ کو ۔۔غ۔۔ اور انگریزی زبان کے حرف ۔۔ اے ۔۔ کو ۔۔ آ ۔۔ پڑھا جاتا ہے ۔۔ جبکہ پیرس کا ۔۔ آخری ۔۔ ایس۔۔ خاموش حرف ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسپین کے شمال مشرقی صوبے (کومونیداد) قعتئلونیا میں قعتئلان زبان میں عربی یا اردو کی طرھ ۔۔ ش۔۔ اور۔۔ ج۔۔کی آواذ دینے والے مکمل طور پہ موجود ہیں ۔ اور اس کےلئیے باالترتیب انگریزی والے حروف ۔۔ ایکس۔۔ اور ۔۔جے ۔۔ استعمال کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ اسپین کے جنوب مغربی صوبے (کومونیداد) گالیسیا کی زبان گالیگو میں ۔۔ل ۔۔ موجود ہے۔۔ اور اس کے لئیے ۔ انگریزی حرف ۔۔ ایل ۔۔ استعمال کیا جاتا ہے۔
بات چونکہ ہسپانوی کی ہورہی ہے ۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ہسپانوی میں کچھ الفاظ ابھی بھی عربی کے ملتے ہیں۔ جو اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئے تقریبا چارسوسال گزرجانے کے بعد بھی عربی کے ان الفاظ کے وہی معنی ہیں جو عربی میں ہیں ۔ اور کچھ اشیاء کے نام بھی ابھی تک اپنے پورے معانی کے ساتھ عربی میں ہیں۔
میرے خیال سے ہسپانوی زبان میں جیم کی آواز بھی نہیں ہوگی کہ لکھے ہوئے فجیٹا پزاکو فہیٹا کہا جاتا ہے۔آپ بہتر واقف ہونگے۔
ReplyDeleteہسپانوی میں ۔۔ٹ۔۔ کی آواز بھی مفقود ہے۔ ۔ انگریزی کے حرف تہجی۔۔ ٹی۔۔ کو ۔۔ ت۔۔ بلایا جاتاہے۔
ہسپانوی میں انگریزی کے اسلوب میں لکھا گیا لفظ ۔۔فجیٹا پزا کو ۔۔فخیتا پیزا۔ پڑھا جائے گا۔ ویسے یہ لفظ ۔۔ فخیتا۔۔ آپ نے کہاں سے لیا ہے کیونکہ میری نظر سے کبھی اسطرح کا کوئی نام یا لفظ نہیں گزرا۔
البتہ میکسیکو میں ایک کھانے کا نام۔۔ فاخی تا ۔۔ ہے ۔ اور یہ ڈش عربی کی ڈش ۔۔شاورما ۔۔ یا ترکی کی ڈش۔۔ ڈونر کباب ۔۔کی طرز پہ تیار کی جاتی ہے۔
ReplyDeleteکراچی میں پیزا ہٹ میں ایکدفعہ آرڈر دیتے وقت میں نے مینو میں یہ نام دیکھا اور اسکا غلط تلفظ ادا کیا، اسکے ہجے دیکھ کر۔ کسی نے مجھے ٹوکا یہ فجیٹا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا موصوف نے کچھ عرصے اسپینش سیکھنے کی کوشش کی مگر دیگر مصروفیات کی وجہ سے جاری نہ رکھ سکے۔ میں نے بھی ایک زمانے میں فرنچ سیکھنے کی کوشش کی لیکن پے درپے کچھ ایسے سلسلے ہوئے کہ تین چار کلاسوں سے زیادہ نہ لے سکی۔ اسی دوران پتہ چلا کہ یہ پیرس نہیں ہوتا بلکہ پاغی ہوتا ہے۔ ابھی بھی کچھ لوگوں سے کہوں تو وہ میری بات پر یقین نہیں کرتے۔ تو پھر آپ کب آرہے ہیں پزاہٹ کا چکن فجیٹا کھانے۔
ReplyDeleteموقع ملے تو مزید کوئی نہ کوئی زبان سیکھنی چاہئیے ۔ بلکہ ایک نہیں دو دو زبانیں سیکھنی چاہیں کراچی اور لا ہور جیسے بڑے شہروں میں تو دنیا کی مختلف زبانیں سیکھنے کی سہولت موجود ہے۔فرانسیسی بہت خوب زبان ہے۔
ReplyDeleteپیزاہٹ پہ چکن فجیٹا کھانے کی دعوت دینے کا شکریہ۔ دراصل میں یا تو گھر پہ کھانا کھاتا ہوں خواہ وہ پاکستانی ، یورپین یا کسی بھی ملک کی ڈشز ہوں یا کبھی کبھار کسی اچھے ریسٹورنٹ پہ کھانا کھا لیتا ہوں۔ اچھے رسیٹورنٹ سے مراد لازمی طور پہ مہنگے ریسٹورنٹس نہیں بلکہ جہاں کھانا اچھا اور معیاری ہو۔ خواہ وہ پھٹا ریسٹورنٹ ہی کیوںنہ ہو۔ ۔
فاسٹ فوڈ سے جان جاتی ہے۔ یہ ہماری غریب الوطنی کی متواتر یاد دلاتا رہتا ہے۔ کہ غریب الوطنی
کے دوران بھی جب میں مزید غریب الوطن ہو رہا ہوں کہ کبھی کبھار ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑ جائے تو وقت کی قلت کی وجہ سے رستے میں گاڑی روک کر کہیں سے کچھ کھا لیا۔ یا کسی ائر پورٹ پہ بھوک مٹا لی۔ورنہ پیزا ، پستا اور برگر سے گریز کرتا ہوں ۔ پھر بھی آپ کے خلوص کا شکریہ۔