یہ ایک درخواست ہے جو سزائے موت کے منتظر ایک شخص نے محترمہ رئیس فاطمہ سے کی ہے۔ محترمہ رئیس فاطمہ روزنامہ ایکسپریس کے لئے لکھتی ہیں۔ انکے آج، اتوار۱۶ اگست، ۲۰۰۹ میں چھپنے والے کالم کے ذریعے یہ درخواست میرے علم میں آئ ہے۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ دس سال سے اپنی سزا کاٹ رہے ہیں اور سزائے قید کے منتظر ہیں۔ انہیں مطالعے کا شوق ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ انتظار کے اس کرب کو کم کرنے کے لئے انہیں کچھ کتابیں، رسالے کوئ بھی ناول، سفر نامے یا کسی بھی قسم کی پڑھنے کی چیز روانہ کر دی جائے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہم سب کے لئے ایک نئ تاریخ مرتب کرنے کا وقت ہے۔ ہم سب نے اپنے بڑے بڑے لیڈروں کو ایسی اپیلوں پر کیا نہیں دہیا۔ آج اس ایک عام سے شخص کی اپیل پر کھڑے ہوجائیں اور اپنے گھر میں جس چیز کو آپ سمجھتے ہوں کہ ایک عرصے سے پڑی ہے اور اب نہیں پڑھی جائے گی اسے مندرجہ ذیل پتے پر روانہ کر دیں۔ آپ میں سے جو لوگ نئ کتابیں بھیج سکتے ہوں وہ نئ خرید لیں۔ لیکن خدا کے لئے اس درخواست سے بس یونہی مت گذر جائیں۔ چاہے کتنے مصروف ہوں اس شخص کو ضرور وقت دیں۔چاہے اپنی ردی اسے بھیجیں لیکن پوسٹ آفس تک جانے کی زحمت ضرور کریں۔یہ ہمارے زندہ ہونے کی علامت ہوگی۔
پتہ ہے
علی اصغر گجر
وارڈ نمبر ۷، قیدی سزائے موت
ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا
ریفرنس؛
نجانے کیوں انکا یہ کالم آج کے ایکسپریس کے انٹر نیٹ اشاعت میں موجود نہیں ہے۔ اور اسکی جگہ امجد اسلام امجد کا کالم موجود ہے۔ بہر حال کوئ تصدیق کرنا چاہے تو اسے آج کا ایکسپریس اخبار خریدنا پڑیگا یا محترمہ رئیس فاطمہ سے رابطہ کریں۔ انکا ای میل پتہ یہ ہے۔
raeesfatima17@yahoo.com
یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ محترمہ سے میرا صرف اخباری تعلق اتنا ہے کہ اخبار کا ایڈیٹوریل صفحہ پڑھتے ہوئے انکے کالم پر سے بھی گذرتی ہوں۔
Sunday, August 16, 2009
6 comments:
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
میں اس کے خلاف نہیں ہوں ۔ صرف معلومات کے لئے لکھ رہا ہوں کہ ہر مرکزی جیل میں پڑھنے کے لئے کتابیں مل سکتی ہین جن میں قرآن شریف مع ترجمہ ۔ تاریخ اور کورس کی کتابیں ہوتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے اور بھی ہوتی ہوں
ReplyDeleteاس مضمون میں چھپنے والے اس قیدی کے خط کے بمطابق اسے صرف چند اخبار اور دو تین عد ادبی شمارے میسر ہیں۔ صاحب مضمون نے اس خط کو چھاپنے کے ساتھ ساتھ حکام اور دیگر رہنماءووں سے بھی گذارش کی ہے کہ وہ تمام جیلوں میں لائبریریاں قائم کریں۔ ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئ شخص دس سال سے جیل میں موجود ہو تو محض تاریخ اور کورس کی چند کتابیں کب تک ساتھ دے سکتی ہیں۔ میں نے ابھی کچھ کتابیں نکال کر رکھی ہیں جنہیں میں کل صبح پوسٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں، انشاءاللہ۔
ReplyDeleteصاحب مضمون نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ نو کتابیں بھجوا چکی ہیں اور آئندہ بھی بھجواتی رہیں گی۔
ReplyDeleteبہت اچھی بات ہے۔
ReplyDeleteمیں نے پتہ نوٹ کرلیا انشااللہ جلد ہی کچھ نہ کچھ ضرور ارسال کروں گا۔
میں تو سعودی عرب میں ہوں، میرے لیے بجھوانا کچھ مشکل ہے
ReplyDelete:-)
اس ظلمت کدہ جسے لوگ نظام قانون اور انصاف کہتے ہیں کہ شکار لوگوں کی اذیت کی انتہاء ہے یہ کہ لوگ جیلوں میں بیس بیس اور تیس تیس سال گزار دیتے ہیں اور یہاں تک کہ مر جاتے ہیں لیکن ان کے کیس کی شنوائی بھی نہیں ہوتی اور ان میں سے اکثریت بے گناہ ہوتی ہے،آپکا دیا ہوا اڈریس مینے نوٹ کر لیا ہے دعا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کے عذاب ختم ہوں اور اس ملک میں قانون اور انصاف کا نیا سورج طلوع ہو آمین
ReplyDelete