Monday, August 17, 2009

میرے بچپن کے دن


بچی نے نہایت معصومیت اور تشویشناک لہجے میں اپنی ماں سے پوچھا۔ ' اماں، جب میں چلتی ہوں تو چاند میرے ساتھ چلنے لگتا ہے اورآسمان پر بادلوں کی پہاڑیاں میرے پیچھے بھاگنے کے لئے ایکدوسرے سے ٹکراتی ہیں اور جب میں تیز بھاگنے لگتی ہوں تو زمین کے سب درخت بھی میرے ساتھ بھاگتے ہیں۔ اماں کیا میں انکو بھی اتنی اچھی لگتی ہوں جتنی آپ کو۔
تو جناب، اس بچی کی طرح میں بھی اپنے گھر کے بالکل نزدیک ایک وسیع میدان میں سر شام باقی بچوں سے الگ تھلگ بادلوں، چاند اور سورج کی یہ محبت اکثر جانچتی رہتی۔ اور توقع کے مطابق یہ بالکل ایسے ہی نکلتیں تھیں۔ کچھ دنوں بعد مجھے یہ جان کر اورخوشی ہوئ کہ نانی کے گھر کے پاس جو چاند اوربادل ہیں وہ بھی مجھ سے کم محبت نہیں کرتے۔ میرا ددھیال سارے کا سارا انڈیا میں تھا اور کچھ سیاسی و معاشی بنیادوں پہ یہ امتحان وہاں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ درختوں کے لئے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ میدان ایسے ہی لق و دق پڑا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آبادی کے پھیلاءو نے اس میدان کو کھا لیا اور اب وہاں مکان، دوکانیں اور راستے بن گئے۔

ان سب امکانات کے وجود میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ اور یہ کہ ہر صبح سورج مجھے جگانے کے لئے نہیں اٹھتا بلکہ یہ اس کا اپنا لگا بندھا معمول ہے جس میں کچھ سائنسی اصول کارفرما ہوتے ہیں۔ چاند کی بڑھیا کا چاند سے کوئ تعلق نہیں دراصل جھوٹ تھا جو کچھ کہ سنا ، جو سنا افسانہ تھا، چاند میں سچ مچ نور کہاں چاند تو ایک ویرانہ ہے۔ یہ جھلملاتے ستارے تو دہکتی آگ کے گولے ہیں۔ اور یہ آسمان پرہر وقت شکلیں بدلتے بادل جو کوہ قاف کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ تو صرف پانی کے بخارات کا مجموعہ ہیں۔ اسی طرح کے تلخ حقائق نے رفتہ رفتہ ان جاں نثار دوستوں سے بھی محروم کردیا۔
انہی دنوں میں تتلیوں کے پیچھے محض یہ جاننے کے لئے بھاگا کرتے تھے کہ یہ شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں، کونسے سفر میں ہیں۔ اسی اندھا دھند جاسوسی میں کئ دفعہ کیچڑ میں جا کر گرے مگر تتلیوں نے کھل کر نہ دیا۔ یہ راز بھی بعد میں کسی کتاب سے معلوم ہوا۔ میں نے انہیں پکڑنے کی کوشش کبھی نہِں کی کیونکہ میرا خیال تھا کہ پکڑنے سے انکے پر ٹوٹ جائیں گے۔ ویسے بھی کراچی میں تتلی نظر آنا بہت ہی نایاب واقعہ ہوا کرتا ہے اور آلودگی بڑھنے کے ساتھ اب تو شاید ہی کبھی نظر آتی ہیں۔
بہت سارے بچوں کے برعکس مجھے یہ امتیاز حاصل رہا کہ مجھے اپنی بہت چھوٹی عمر کے واقعات بھی خاصی صراحت کے ساتھ یاد ہیں۔ میری یاد داشت کی لوح پر جو پہلا نقش ہے وہ تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر کا ہے۔ یہ چھوٹا اور معصوم سا قصہ جو میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں اس وقت میری عمر تین سال دو مہینے کی تھی۔ میرا ایک بھائ جو مجھ سے تقریباًتین سال چھوٹا ہے اسوقت تین مہینے کا تھا کہ ایک دن محلے میں کچھ خاندانوں نے ملکر کراچی چڑیا گھر جانے کا پروگرام بنایا اور ایکدن سب چل پڑے۔
ہم جیسے ہی چڑیا گھر سے اندر داخل ہوئے، گیٹ کے قریب پہلے انکلوژر کے پاس جمع ہو گئے یہ کوئ باقاعدہ لوہے کی سلاخوں سے بنا انکلوژر نہ تھا بلکہ ایک چوڑی سی, تین چار فٹ اونچی دیوار اٹھی ہوئ تھی جس کے ساتھ ساتھ لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ کیونکہ اس جانور کو سلاخوں کی ضرورت نہ تھی اسکے روکنے کے لئے یہی دیوار کافی تھِی۔ کسی نے شوق میں مجھے بھی کمر سے اٹھا کر انکا دیدار کرانے کی کوشش کی۔ لیکن گینڈے پر نظر پڑتے ہی میرے حواس گم ہو گئے۔ مجھے آج بھی وہ جذباتی صدماتی لمحہ اسی طرح یاد ہے۔ ایسی بھیانک، بے ڈھنگی اور عظیم الجثہ مخلوق کسی طرح بھی میرے تصور میں گھسنے کے لئے تیار نہ تھی۔ جبکہ میرے خیال میں وہ بلا روک ٹوک میری طرف بڑھی چلی آہی تھی۔
میں نے وہی بچوں اور خواتین کا کا آزمودہ ہتھیار استعمال کیا۔ اور دھاڑیں ما ر کر رونا شروع کیا سب نے مجھے اسوقت میری سمجھ کے مطابق جھوٹی تسلیاں دیں کہ وہ تو اس دیوار کے پیچھے بند ہے۔ پھرکافی دیر تک بہلاتے بھی رہے۔ سب سے پہلے مجھے گینڈا دکھانے کی سزا سب کو اس صورت ملی کہ پھر میں نے گود سے اتر کر نہ دیا۔ کیاپتہ میرے زمین پر پیر رکھتے ہی گینڈا اگر زمین پھاڑ کر نکل آئے تو۔ بچوں میں تخلیقی قوت اور طرح طرح کے تصور باندھنے کی کتنی زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔
میں سوچتی ہوں ایسے ہی کسی واقعے سے گذر کر فلم ٹریمر کا مرکزی خیال اخذ کیا گیا ہو گا۔ کبھی کبھی لوٹ کر جب بچپن کے دامن میں پناہ لیتے ہیں تو جیسے ڈزنی لینڈ جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہاں سے وہ توانائ ملتی ہے جو پوپائے دی سیلر کو پالک کھا کر ملا کرتی تھی۔یہیں سے سوچ کے وہ توانا اور نئے جذبے پھوٹتے ہیں جو انسان کے اندر جینے کی خواہش کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہماری زندگیوں کا یہ آب حیات صرف ایک خیال کی رو کے فاصلے پر ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم اس سے محروم رہتے ہیں کیوں؟

10 comments:

  1. گینڈے کو پہلے دفعہ دیکھ کر مجھے بھی ڈر لگا تھا، خیر میں ان دنوں زیادہ چھوٹا تو نہیں تھا، پھر بے اس عظیم البحثہ جانور سے بہت خوف محسوس ہوا
    اور دوسری بات ،واقعی انسان کا بچپن، معصومیت کے واقعات سے بھرپور ہوتا ہے

    ReplyDelete
  2. کیا بچپن ہے جیسے لکھا ایسے اگر اپنے بچوں کو سنائیں کیا حال ہو گا بچوں کا ہے ۔ :roll:

    ReplyDelete
  3. آپ کا بچپن تو برا دیومالائی قسم کا گزرا ہے
    تتلیاں یہاں بھی اب کافی کم نظر آتی ہیں
    لیکن پھر بھی نظر آ جاتی ہیں
    ان گرمیوں میں میں نے دیکھا کہ
    موٹر وے پر ایک جگہ پانچ سات منٹ کا راستہ ہے
    وہان پر اتنی تتلیاں ہوتی ہیں کہ ہوا میں روءی کی طرح پھیلی ہوتی ہیں
    اور گاڑیوں سے ٹکرا ٹکرا کر سڑک پر ان کی ایک بڑی تعداد پڑی ہوتی ہے

    ReplyDelete
  4. بہت خوب!

    ماضی ۔ یادیں ۔ گزرا وقت ویسے بھی حسین ہوتا ہے ۔ شاید اسلئیے بھی کہ انسانی ذہن میں اللہ تعالٰی نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ تلخیوں کو یاداشت کی تختی سے مٹا دیتا ہے ۔ جبکہ اچھیں یادیں عمر بھر کے لئیے اس پہ ثبت ہوجاتی ہیں۔

    یادیں ۔ جب گزرے ہوئے حسین بچپن سے متعلقہ ہوں ۔ تو انسان لاکھ کوشش کرے وہ کبھی نہ کبھی آپ کا دامن پکڑ لیتی ہیں۔ کوئی چہرہ ۔پرانی ہمجولی۔ اسکول کی تصویر ۔ ماضی کی کوئی کتاب ۔ بچپن کی استعمال شدہ کوئی چیز۔ اس وقت دیکھا ہوا کوئی منظر ۔ کسی بچے کو ماں سے ضد کرتے ہوئے دیکھ کر ، اور کچھ نہیں تو بعض دفعہ کوئی بچپن کی مخصوص خوشبؤ تک بعض اوقات انسان کو بیٹھے بیٹھے کئی سال (جو بعض اوقات نوری سال لگتے ہیں۔ صدیوں جیسے) کا سفر لمحوں میں کروا دیتے ہیں۔

    آجکل تو بچوں کو بھی بخوبی علم ہے ، کہ چاند میں مائی فاطمہ چرخہ نہیں کاتتی بلکہ یہ اس کے ایک ہی رخ پہ جمے پہاڑوں کی معمولی سی لکیر سی ہے۔ اور ہمارے دور کے بچے یہ بھی جانتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں پو پائے کی طرح صرف پالک کھانے سے فوری طاقت نہیں ملتی۔ بلکہ یہ بچے تو مکی ماؤس کی طرح شیطان بچے ہیں۔

    آپکی تحریر بہت خوب ہے۔دل کو چھوتی ہوئی اور انسانی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی۔

    ReplyDelete
  5. کامی میری بیٹی کی تیسری سالگرہ میں ابھی چار مہینے سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے۔ لیکن اسے سنڈریلا کے کارٹون میں اسکی سینڈل رہ جانے والا سین بہت پسند ہے۔ سارے دن میں کئ دفعہ ہماری ایک تصوراتی فون پر تصوراتی بات ہوتی رہتی ہے۔ اور ہر بات پر مجھے ایک اسٹوری سمجھائ جاتی ہے۔ اب میں یہ کرونگی پھر آپ یہ کیجئیے گا۔ وہ بابا بلیک شیپ کے ساتھ ماما بلیک شیپ جو انکی اپنی تخلیق ہے ضرور پڑھتی ہے کہ ماما کی بھی باری ہوتی ہے اور اپنی مرضی سے مجھے کبھی ماما اور کبھی اماں کہتی ہیں۔تو بس ایسا ہی حال ہورہا ہے انکا۔
    یاسر، بچپن سے معصومیت کبھی الگ نہیں ہوسکتا، چاہے دنیا جتنی ترقی کر لے۔
    ڈفر، نہیں ایسا دیو مالائ نہیں تھا۔ میں سوچتی ایسا تھی۔ جیسے میں سوچتی تھی کہ اللہ میاں ہمارے گھر کے باہر نیم کے درخت پہ بیٹھے ہر وقت گھر کے اندر جھانک کر جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور صحن میں کوئ کام کرتے وقت میں خاصی محتاط رہتی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پانچ چھ سال کی تھی۔ شاید میں تھوڑی سی آٹاسٹک تھی۔ محض بیانات سے میری تشفی نہیں ہوتی تھی۔ جب تک اسے تصور نہ کرلوں۔
    جاوید صاحب، آپکی بات پر مجھے اپنی اسکول کی نئ کتابوں کی خوشبو یاد آگئ۔ جب ہم نئ کلاس میں جاتے تھے تو نئ کتابوں میں سے بڑی مسحور کن خوشبو آیا کرتی تھی۔ میں ابھی کچھ دنوں پہلے اپنی بچی کے ساتھ سمر کیپ فن میں شریک ہو رہی تھی۔ اس شرکت کی وجوہات میں ایک الگ پوسٹ میں بیان کرنا چاہونگی۔ وہاں پر زیادہتر بچے چح سات سال کے تھے۔ چونکہ اسکول انتظامیہ نے فیس اینٹھنے کے علاوہ کوئ کام نہ کیا تھا اور اسکول کی انتظامیہ کو امید نہ تھی کہ میرے جیسی ایک اماں بھی آجائیں گی جو ٹیچر موجود نہ ہونے کے باعث انکی کلاس میں انکے دیگر بچوں کا دل بھی بہلائیں گی اور انکی نالائقی پہ بھی کچھ گرجیں برسیں گی بھی۔ تو مجھے ان بچوں کے ساتھ ایک مہینہ گذارنے کا اتفاق ہوا۔ آج بھی بچے اتنے ایکسپوژر کے باوجود اتنی ہی معصومیت سے سوچتے ہیں۔ ایک روتے ہوئے بچے کو میں نے اپنا موبائل فون دیا کہ اپنی بابا کو فون کرلو وہ ابھی آکر لے جائیں گے اس نے میرے ہاتھ سے فون لیا اور اسپر نمبر ملایا۔ میں نے اس ساڑھے تین سالہ بچے سے پوچھا کہ بابا کا م=نمبر کیا ہے تو اس نے بتایا۔ دو تین چار پانچ چح اور پھر اس نے کچھ سوچ کر کہا اور سات بھی۔ ہائے بچے۔

    ReplyDelete
  6. بہت عمدہ لکھا ہے۔۔ ماشاءاللہ۔۔
    کراچی میں تتلیاں کہاں؟۔۔ لوگ کہتے ہیں تتلیاں‌دیکھنی ہیں تو کراچی چلو۔۔ جملہ معترضہ ہے۔۔ ازراہ تفنن ہی لکھا ہے اس لیے نو آدم و حوا کا جھگڑا (:

    ReplyDelete
  7. شکریہ راشد کامران صاحب، لیکن میں آپ کو یقین دلادوں کہ یہاں آکر کسی بھی قسم کی تتلیاں دیکھنے میں بڑی مایوسی ہوگی۔ یہ الگ بات کہ
    ہم جنہیں چھو نہ سکیں
    ان کو تتلیاں کہتے ہیں
    :)
    شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ انہوں نے انہیں خدا کہا۔

    ReplyDelete
  8. بھولا بھالا بچپن اور اسکی بھولی بھالی یادیں ،
    بچپن میں اماں ابا کے ساتھ ابہا(سعودی عرب کا مری) گھومنے گیا تو ڈھیروں بندروں کو دیکھ کر ایک ہی بات سوچتا رہا کہ اتنے سارے اور اتنے شریر بندروں کو کون لوگ چڈیاں پہناتے ہوں گے اور کیسے جب صبر نہ ہوا تو پوچھ ہی لیا اور اس پر جو قہقہوں کا طوفان اٹھا کہ گاڑی کی چھت اڑتے اڑتے رہ گئی

    ReplyDelete
    Replies
    1. عبدللہ، اس بات کی وضاحت کیجئے گا کہ بندروں نے واقعی چڈیاں پہنی ہوئی تھیں کہ یا کہ وہ کوئی اور مخلوق تھی؟

      Delete
  9. ہاہاہا، آپ بھی ٹرمرز کی فین نکلیں :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ