Wednesday, November 17, 2010

عید قرباں کراچی میں

ہر طرف گائے بکریوں کا شور ہے۔ رات کے آٹھ بجتے ہی لڑکے اپنے اپنے جانوروں کی رسیاں تھامے روڈ پہ نکل آتے ہیں اور پھر انکی ریس شروع ہوتی ہے۔ گھنگھرءووں کی چھم چھم، جانوروں کی میں میں ، باں باں اور بھیں بھِیں اور لڑکوں کی فرط جوش میں نکلتی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائیٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔  مگر واپس آجائیے، یہ اسپین نہیں پاکستان کا شہر کراچی ہے۔ اور خیال اغلب ہے کہ یہ ساری مشق یہ معلوم کرنے کے لئے ہوتی ہے کہ یہ جانور پل صراط پہ صحیح کارکردگی کا مظاہرہ کر پائے گا یا نہیں۔ میں اس سب  کو برا  کہنے کی جراءت نہیں کرسکتی مگر میرے جیسے کمزور دل ڈرائیورز پہ یہ وقت پل صراط پہ چلنے سے کم نہیں ہوتا۔
میں نے کہا بقر عید تو دراصل مردوں کا تہوار ہے۔ بکرا منڈی جانا ، پھر اسکا ایک تفصیلی معائنہ کرنا،  جانوروں کی تفصیلات حاصل کرنا، کیا عمر ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا جانور اور محبوب دونوں بالی عمر کے ہی پسند کئیے جاتے ہیں، کوئ شرعی عیب تو نہیں چاہے خود شریعت پہ عیب ہوں مگر قربانی کے جانور میں کوئ عیب میں ہونا چاہئیے ورنہ دنیا تُھو تُھو کرے گی، منہ کھلوا کر دانت گننا یہ خاصہ خطرے کا کام ہوتا ہے کہ جانور آپکی انگلیاں نہ گننے لگ جائے۔ اس لئے قربانی ان جانوروں کی ہوتی ہے جو کبھی مکتب نہ گئے ہوں۔ شاید افضل بھی انہی کی ہو۔ پھر چلا کر دیکھنا کہ الہڑ مٹیار کی طرح چلتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اس چال میں چلن کا بانکپن ہونا چاہئیے۔ ورنہ کہیں ضعف چلن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجائیں، خاص طور پہ گئیوں کا ضعف چلن ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بن سکتا ہے جس میں قانون بھیگی بلی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔   پھر قیمت کا تعین اور اس پہ بحث۔ اسکے بعد اپنی حد سے باہر جاتا دیکھکر اسے چھوڑنا، اپنی حد میں آتا دیکھ کر سوچنا کہ مبادا اس سے اچھا کوئ اور جانور مل جائے اور دوسرے کی حد میں جاتا دیکھ کر تائسف میں پڑنا کہ سال بھر اس نے ہم سے بہتر مال بنایا۔ اس طرح پوری بکرا منڈی کا ایک سیر حاصل تجزیہ جسکے بعد آپ محض میں میں اور بھیں بھیں  سن کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کسی سرائیکی دوکاندار کا جانور ہے یا سندھ کے میدانوں سے آیا ہے۔ آیا خالص پاکستانی جینز رکھتا ہے یا کسی فرنگی ملک کے شاندار جینز میں بھی حصے دار ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں مگر انہیں بٹھا دیتے ہیں کہ  عید پہ  قربانی بے زبان ، معصوم، 'سیدھی' سادی گئیوں اور بکریوں کی جائز  ہے ہماری نہیں۔
ایک دفعہ آپ جانور کے مالک ہو جائیں تو اسے اپنے محلے یعنی گھر تک پہنچانا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ جانورلے جانے والی گاڑیوں کے مالکان سے حساب طے ہونے کے بعد جب اس کھلی گاڑی میں دوستوں کے ہجوم اور جانور کے ساتھ پیچھے جالی میں ٹنگ کر سہراب گوٹھ سے روانہ ہوتے ہیں اور  شہر کے درمیان سے گذرتے ہیں تو ایک خمار چڑھتا ہے جسے گائے کے پیشاب کی دھاراور گوبر کی بدبو بھی نہیں اتار سکتی۔
پھر گھر پہنچ کر ایک خلقت ، میرا پیا گھر آیا کے نعرے لگاتی، آپکے جانور کے دیدار کوبھاگی چلی آتی ہے۔ جانور کو گاڑی سے اتارتے وقت انتہائ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ معلوم کیوں، اس بات کا احساس جانور کو بھی ہوتا ہے کہ یہ بھاگ نکلنے کے سنہری مواقع میں سے ایک ہے۔  جانوروں میں پلاننگ کرنے کے خامرے نہیں ہوتے اس لئے بہت محدود تعداد ہی ایسا کر پاتی ہے اور جب بھی کرتی ہے بغیر پلاننگ کے ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں چاہے منہ اٹھائے دوڑ پڑتی ہے۔ ایسے موقع پہ آُپکے پاس بھی اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ سوچیں کہ میں اگر گائے یا بکرا  ہوتا تو دوڑ کر کہاں جاتا۔ نتیجتاً ایسے کسی واقعہ کے پیش آنے کی صورت میں آپ اسی طرف ہو لیتے ہیں جہاں جانور جاتا ہے۔ باقی زمانہ بھی چلو تم ادھر کو گائے ہو جدھر کو کی تصویر بن جاتا ہے۔ ایسا وقت پھر مجھ جیسے ڈرائیور کے لئے روز قیامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ میری بھی اس سلسلے میں کوئ پلاننگ نہیں ہوتی۔ اگر کوئ جانور میرے سامنے بھاگا چلا آرہا ہوتو میں بالکل صم بکم ہو جاءونگی۔ یہاں تک آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ پلاننگ کسے کہتے ہیں اور یہ بقاء اور قضا کے لئے کتنی ضروری ہے۔
اب فرض کیا کہ جانور کے سیدھے میرا مطلب سدھائے ہوئے ذہن میں ایسی کوئ بات نہیں آتی تو یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے پا جاتا ہے۔ اور آپ اسے اسکی مرضی کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے یا اندرکسی کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں۔  اب کچھ لوگ جنہیں سیدھے سادے، شریف جانور پسند ہیں تو وہ نہایت حیا سے آنکھیں پٹپٹاتی گائے کی اس ادا پہ دل ہی دل میں نثار ہوتے رہتے ہیں۔
اگر جانور بھاگ جائے اور ستارےآپکے حق میں ہوں تو آپ اسے اپنی اور محلے والوں کی تگ و دو کے بعد دوبارہ پکڑ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسانی معالات کے بر عکس ایسی بھاگی ہوئ گائے پہ فخر و غرور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔  پھڑکنیاں کھاتا ہوا  دل اپنے جانور کی اس ادا پہ قتل ہوتا رہتا ہے کہ کیا جاندار چیز ہے، ظالم لگتا ہے کمان سے نکلا تیر ہے۔
 اسکے بعد کیا ہوتا ہے اسے پڑھنے کے لئے پہلے پیرا پہ واپس جائیں۔
جانور کا کھانے پینے انتظام کرنا بھی  دیہاتوں سے وابستہ ہمارے رومانی تصورات کو نکھار دیتا ہے۔  ہمارے شہر میں اکثر گھر کنالوں اور مرلوں پہ نہیں بنے ہوئے اس لئے شہر کی گلیاں اس زمانے میں آدھی رہ جاتی ہیں کہ آدھی گلی میں ان جانوروں کی باپردہ رہائیش کے لئے کیمپس بنا دئیے جاتے ہیں۔ جہاں محلے کے مخنچو، چھٹنکو، دادا، ہیرو اور بدمعاش سب حسب ذوق و شوق حاضری دیتے ہیں۔  اور ادائے جانوراں سے شغل فرماتے ہیں۔
لیکن اسکے ساتھ ایک نہایت دلچسپ مرحلہ اپنے جانوروں کی سجاوٹ ہے۔ پورے شہر میں جا بجا جانوروں کی آرائیشی اشیاء کی دوکانیں ان دنوں سج جاتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  اپنے جانوروں کو سجانے سنوارنے میں ہمارے مرد کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کے پرانے جانوروں کو ان قربانی کے جانوروں سے جیلسی محسوس ہوتی ہے۔ شہری خواتین اس چیز کو زیادہ دل سے نہیں لگاتیں۔ انکا خیال ہوتا ہے کہ اس بہانے ان پہ رہنے والی کڑی نظر بٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹھی عید پہ جس قدر پردے اور خواتین سے متعلق دیگر امور کا تذکرہ رہتا ہے بقر عید پہ یہ رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے فلمی اداکارائیں بھی اس مہینے اپنا کوئ اسکینڈل بنوانے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔
  ان دوکانوں پہ گلوں کے ہار، سینگوں میں ٹانگنے کی اشیاء، پیٹھ پہ بچھانے کی مختلف طرح کی چادر نما چیزیں، گلوں کی گھنٹیاں اور پیروں کے گھنگھرو شامل ہوتے ہیں۔ کچھ شوقین اس سب سے پہلے مہندی کی رسم بھی کرتے ہیں۔  گھنگھرو پہن کر جب جانور ٹھمک ٹھمک کر روڈ پہ چلتا ہے تو اس سے لا محالہ دل سے صدا نکلتی ہے کہ پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے تو لاکھ چلے رہ گوری تھم تھم کے اسکے علاوہ ڈرائیورز کو بھی یہ خبر ہو ہی جاتی ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔  چونکہ خواتین کے لئے بجنے والا زیور پہن کر چلنا درست نہیں تو یہ آرزو بھی یہ گئیاں اور بکرے بکریاں پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بات کے ہم اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئ خاتون کوئ چھنا چھن کرنے والا زیور پہن بھی لیں تو ہماری آنکھیں کسی گائے کا تصور کرتی رہتی ہیں۔
بقر عید پہ عشّاق کیا کرتے ہیں؟ میٹھی عید کی طرح گلی کے نکڑ یا چھت سے تاکا جھانکی یا فیس بک پہ ایک تحریری عید مبارک کے بجائے اس عید پہ موقع ہوتا ہے کہ آپ گائے کا حصہ لیکر انکے گھر پہنچ جائیں۔ بکرے کی ران یا گائے کا دس کلو کا پورا ایک بغیر ہڈی کا ٹکڑا انکے گھر والوں کو آپکے قدموں پہ ڈھیر کر دےگا۔ یہ کوئ مغرب نہیں کہ ڈائریکٹ محبوب پہ ہلہ مارا جائے۔  یہ مشرق ہے مشرق۔  ایک دفعہ گھر والوں کا دل مٹھی میں آجائے تو سمجھیں کہ اب محبوب چاہے بھی توآپ کے کھونٹے سے جان چھڑانی مشکل ہے۔ اسکے گھر والے اسے آپکے یہاں باندھ کر رہیں گے۔  البتہ اپنے گھر والوں کو اس ران یا گوشت کے ٹکڑے کی منزل آپ کہاں بتائیں گے یہ آپکی ذہانت اور محبت کی گہرائ پہ منحصر ہے۔
 عید میں سے اس تمام تر تفریح نکل جانے کے بعد خواتین کے لئے اس عید میں جو بچ جاتا ہے۔ وہ کچن میں نظر بند ہونا ہے۔ اس کے لئے وہ یا تو سال بھر کی جمع کی ہوئ ترکیبیں آزماتی ہیں یا پھر انکی اس بوریت کو دور کرنے کے لئے مختلف برانڈز کے تیار مصالحوں سے پرچون کی دوکانیں بھر جاتی ہیں۔ اس سے پھوہڑ عورتیں ہی نہیں سگھڑ مرد بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سلیقہ مندی کی داد پاتے ہیں۔ اسکے علاوہ خاندان میں چلی آنے والی سینہ بہ سینہ تراکیب بھی ہوتی ہیں۔  ہم بھی کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنی تراکیب ہیں سب خاندانی ہیں  اس لئے انہیں افشا نہیں کیا جا سکتا۔ یوں ہماری مجبوری صرف مملکت یا کائینات کےراز افشا کرنا رہ جاتی ہے۔
لیکن ایک آسان سی ترکیب تو میں آپکو بتا سکتی ہوں۔ حسب مرتبہ گوشت لیجئیے اس میں حسب ذائقہ تمام مصالحہ جات ملا لیں۔ حسب وزن گوشت کچا پپیتا ملا دیں۔ حسب میسر وقت اسے پڑا رنے دیں اور پھر سیخوں پہ لگا کر بار بی کیو کر لیں۔  آپ کہیں گے یہ تو ہم بھی بتا سکتے ہیں۔ تو جو تراکیب  سینہ بسینہ نہ چلیں وہ بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اب آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ خاندان کس طرح بنتے اور سنبھالے جاتے ہیں۔
میرے پیارے قارئین، یہ کراچی میں بقرعید کا ایک دھندلا سا خاکہ تھا۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ ہمارے یہاں بقر عید ایک انڈسٹری ہی نہیں سارے کمرشل مصالحوں سے بھرپور ایک تہوار ہے اس لئے اتنا ہِٹ جاتا ہے۔ 

13 comments:

  1. اوجی یہ تحریر بکرے کی خصوصیت پہ ہے یا عورت کی مظلومیت پر ؟
    اور آپ کہ پاس کیا بقر عید کی صبح بھی اتنا ٹائم ہے کہ یہ طویل پوسٹ لکھ ڈالی ؟ آپ کا بکرا تو بڑا مظلوم ہے پھر۔
    ویسے بکرا کہانی سے یاد آیا کہ برسوں پہلے میں بھی لاہور کی بکر منڈی میں اس کارگزاری سے گذرتا تھا۔ ایک دفعہ تو مجھے ایک رکشے میں دوچھترے لانا پڑے۔ ان دونوں کی گردنیں میرے بازؤں میں اور میری گردن ان کے قابو میں۔ بس کچھ نہ پوچھو۔
    اور یہاں۔۔۔بس قصاب کو پیسے دے آؤ۔ اگلے دن گوشت مل جائے گا۔ دیدار بکرا تک نصیب نہیں ہوتا۔ بکرا بیتی کہاں سے سناؤں۔ عید یہاں بس اتنی ہے کہ رج کے کھا تے دب کے واہ ۔

    ReplyDelete
  2. عنیقہ آپ کو بہت بہت عید مبارک

    ReplyDelete
  3. ایسے کمالِ فن سے تراشی ہے ان عید
    کمبخت کے کمال نے سونے نہیں دیا !!

    ReplyDelete
  4. پہلے تو آپ کو معہ اہل خانہ عید کی مبارک اور اس کے بعد اس حسرت کا اظہار کروں گا کہ ایک دہائی گزر گئی ان مناظر کو دیکھے ہوئے۔ اب تو بس بچیوں کو مذبح خانہ لے جاکر جانوروں کا دیدار کرواتے ہیں اور وہیں سے گوشت لے کر گھر آجاتے ہیں۔ وہ جو رومانویت آپ نے اپنی تحریر میں بتائی ہے اس سے ہماری بچیاں تاحال محروم ہیں :(

    ReplyDelete
  5. Fantastic... the flow and narrative is awesome. You have described the whole bakra eid in Karachi thing so wonderfully. For me, this eid makes me really frustrated. I believe that bringing so many animals to the city is extremely dangerous. Specially when we are not even able to handle the waste produced by human population.All that slaughtering of animals on the streets is disgusting. The blood and filth every where makes me feel sick I hardly go out during these three days.

    ---
    Sorry about leaving the comment in English I am on a computer with no Urdu support installed on it yet.

    ReplyDelete
  6. تھوڑی سی روشنی قربانی کے بعد کے معاملات پر بھی ڈالنی چاہیے تھی آپ کو۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، جسکے گھر کے آگے جی چاہا جانور میں سے نکلی غلاضت پھینک دی، پھر اس غلاضت سے بیماریوں کا پھوٹنا، یہ سر عام قربانی کے جانورں کی دوڑ لگوانا پھر بھلے اس سے کسی کا نقصان ھوتا ھے تو ھو۔ کوئی بچہ کچل کے مرتا ھے تو مرے، ہماری تو نیکیاں بھی دوسروں کے لئیے اذیت کا باعث بن چکی ہیں، کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ سب ممکن ھے ؟ اور کیا یہ ہی درس ھے قربانی کا یہ ہی روح ھے قربانی کی ؟۔

    ReplyDelete
  7. عثمان، دو دن چے لکھا رکھا تھا۔ اتنا وقت نہیں مل رہا تھا کہ جملوں می ساختی غلطیاں یا ہجوں کی غلظیاں نکال کر ٹیگز ڈالدوں ۔ سو عید کی صبح جیسے ہی اتنا وقت میسر آیا یہ کر گذرے۔
    کوئ بھی دو سینگ رکھنے والی چیز مظلوم نہیں ہو سکتی الّا یہ کہ وہ آپ سے محبت کرنے لگے۔
    :)
    یہاں، آپکو میری قسمت پہ رشک کرنا چاہئیے تھا۔
    خرم صاحب، ان جن آپکی بچیاں کبھ یہ دیکھنے کی سعادت حاصل کریں گی ےو کہیں گی کیا تممن کی پاکستانی معاشرے میں کوئ اہمیت ہے۔ یا یہ بھی مادی ترقی میں شامل ہوتا ہے۔
    نومان، آبادی میں اضافے کے ساتھ یہ چیز ہر سال بد ترین ہوتی جارہی ہے۔ ادھر پچھلی سٹی گورنمنٹ نے جانوروں کی شہر کے اندر ، خرید و فروخت اور ہر گلہ کے نکڑ پہ قائیم چھوٹی چھوٹی بلرا منڈیوں پہ پابندی لگائ ہوئ تھی مگر اس سال پمارے پی پی کی سب کرپشن کھاءو پالیسی کے تحت شاید ہی کوئ گلی نچی ہو جہاں یہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ لوگوں کا جہاں دل چاہے دس جانور لے کر کھڑے ہو گئے۔ اور وہیں بھاءو تاءو شروع۔ صرف، پولیس کی مٹھی گرم کرنا ہوتی ہوگی۔ جانوروں کا یہ ہجوم اور پھر قربانی کے جانوروں کا ہجوم۔ عید سے دو دن پہلے مجھے تین چار مختلف جگہوں پہ جانا ہوا۔ ہر گلی میں بس اتنا راستہ نظر آیا کہ ایک گاڑی اللہ کا نام لے کر چلی جائے۔ میں نے تو اکثر گلیوں میں گاڑی ڈالنے کے بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دی۔ حالانکہ قربانی کا جانور ہمارے گھر میں نہیں آیا۔ کہیں اوررہا۔ مگر گلی کے جانوروں کی بدبو سے گھر مہک رہا تھا۔ حالانکہ یہ کراچی کے بہتر علاقوں میں سے ایک ہے۔
    فکر پاکستان،تمدن اور تہذیب کی ہنارے یہاں نہ کوئ بنیاد ہے نہ ڈیمانڈ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ھکومتی نا ایلیاں اور غیر دپچسپہ اپمی جگہ کہ وہ بھی اسی ماعشرے کے افراد سے جنم لیتی ہے لیکن لوگ انفرادی سطح پہ صفائ اور تہذیب سے بالکل نا واقف ہیں۔ یہاں میری گھر کے آگےپوری پٹی پہ میں نے گھاس لگوائ ہے ۔ ایک قطار میں پودے لگے ہوئے ہیں کسی نے اپنی گائے لا کر وہاں باندھ دی۔ آدھی گھاس تو اس گائے نہ چر لی۔ باقی انکی گندگی جو پھیلی وہ الگ۔ جب یہ پتہ چلایا کہ یہ کس کا جانور ہے اور انکو اس نْصان سے مطلع کیا تو دو گھنٹے بعد انہوں نے کمال مہر بانی سے اسے ہٹا لیا۔ اب اسکی چھوڑی ہوئ گندگی ہمیں کسی کو پیسے دیکر صاف کرانی ہوگی۔ کیا آپ یقہن کریں گے کہ یہ کراچی کا ایک بہتر رہائیشی علاقہ ہے جہاں ہر گھر میں ایک نہیں تین تین گاڑیاں موجود ہیں اور تقریبا سب ہی لوگ پڑھے لکھے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. باقی سب لوگوں کو بھی بہت بہت عید مبارک۔

    ReplyDelete
  9. Eid mubarak Aapko aur Aapki Family ko!

    ReplyDelete
  10. الحمد للہ قربانی ہوگئی۔
    بکرے کٹے بھی اور تقسیم بھی ہوگئے۔ گھر گھر سے کلیجی اور بٹ کے پکوان کی خوشبو نے اعلان کیا کہ امّتِ ابراہیمی کے ہر فرزند نے مزے لے لے کر سنّتِ ابراہیمی کا لطف اٹھایا۔ حضرت ابراہیم کو تو بیٹھی جگہ فرشتوں نے دُنبہ پیش کر دیا اور بغیر کسی مشقّت کے انہوں نے ایک اکیلے بکرے کو ذبح کر دیا۔ لیکن فرزندانِ امتِ ابراہیمی کو دو دو اور چار چار بکرے ڈھونڈھنے، قصّاب کو لانے، اور پھرصاف صفائی میں جتنی محنت اور مشقّت سے دوچار ہونا پڑا یہ تو حضرتِ ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی نہیں کرنا پڑا۔ اور نہ انہیں علماء سے پوچھنا پڑا کہ بکرے کی عمر کیا ہو، اسکا رنگ کیسا ہو، اسکی ٹانگ اور کان کیسے ہوں، اور نہ بی بی ہاجرہ کو گوشت صاف کرنے، اچھا والا گوشت سمدھاوے میں بھیجنے ، درمیانی گوشت رشتہ داروں میں اور کم درجے کا گوشت غریبوں کو دینے کیلئے پیاکٹس بنانے کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اور نہ انہیں مسلمان بستیوں میں سے گزرتے ہوئے ناک پررومال رکھنے کی نوبت آئی جہاںقربانی کرکے اوجڑی ، خون اور غلاظت گلی میں پھینک دینامسلمانوں کیلئے ثواب میں شامل ہے۔ سلام ہو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر کہ جنہوں نے بیٹے کی قربانی پیش کردی اور ہمارے لئے اتنی آسان سنت چھوڑ گئے کہ ثواب کا ثواب بھی اور لذیذ گوشت کے مزے بھی۔

    غیر مسلم بھی دیکھتے ہونگے تو حیرت میں پڑجاتے ہونگے کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ (بے شک یہ سب سے بڑی آزمائش ہے) کہتا ہے۔ جس قربانی پر اللہ تعالیٰ (ابراہیم پر سلام ہو) کہہ کر انکی قربانی کو سلام کرتا ہے۔ اور اسکو "ذبحِ عظیم" یعنی عظیم ذبیحہ قرار دیتاہے کیا وہ قربانی یہی ہیکہ اس کی یاد میں ہر سال لاکھوں جانوروں کا خون بہادیاجائے؟ ایک دو وقت کا مزے لے کردستر خوان سجایاجائے؟ جس قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (ہم آپ کو تمام انسانوں کی امامت اور قیادت یعنی لیڈرشپ بخشیں گے۔)

    اگر لاکھوں جانوروں کو ذبح کرنے سے دنیا کی قیادت مل سکتی تھی تو آج مسلمان چاہے وہ مسلم ملکوں کے تاجدار ہوں کہ دوسرے ملکوں کے خستہ حال، سارے کے سارے امریکیوں، یہودیوں یا ہندوؤں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس گوشت کی تقسیم پر سلام بھیجنے والا ہوتا تو نہ آج ہندوستانی مسلمان اخلاقی اور معاشی طور پر ہریجنوں سے بد تر ہوتے اور نہ پاکستانیوں پر دہشت گردی اور کرپٹ ہونے کے الزام ہوتے۔

    ****
    مکمل مضمون بھی ضرور پڑھئے ۔۔۔۔۔ یہاں
    http://socioreforms.com/ur/curr-act-posts/ho-gayi-qurbani

    ReplyDelete
  11. عنیقہ یہ وہ گفتار کے غازی ہیں جنہیں کردار کی کوئی فکر نہیں،اور سچ پوچھیں تو آپنے بالکل صحیح نقشہ کھینچا ہے موصوف کی ایک تحریر پڑھ کر میں بھی کچھ ایسی ہی سوچ میں پڑگیاتھا!
    ویسے موصوف کے جواب میں موجود تڑپن پڑھ کر محسوس ہورہا ہے کہ صحیح رگ پر ہاتھ رکھاتھا!!!!
    :)
    کاشف بندہ جھوٹ بولے پر اتنا بھی نہیں کہ جوتوں سمیت آنکھوں مین اترنے کی کوشش کرے یہ عید الاضحی تو میں نے بھی کراچی میں ہی کی ہے اور مجھ سمیت میرے کراچی مین پھیلے پورے خاندان میں سے کسی نے ایسا جھوٹ نہیں گھڑا جیسا تم نے گھڑا ہے یہ تم جماعتی جھوٹ بولنا کب چھوڑوگے یا مذہب کے نام پر اسے بھی جائز کررکھاہے،
    ایک ہی گھر کے دو بھائیوں نے ایک کھال اپنی خوشی سے ایم کیو ایم کو دی اور دوسرے نے دار العلوم کو ،اسی طرح محلوں میں بھی سب نے جسے چاہا اپنی مرضی سے کھالیں دیں اور کوئی پھڈا فساد نہ ہوا سوائے لیاری اور ایک اور کوئی جگہ تھی جہاں کی خبر اخبار میں بھی آئی تھی اور اپنے اجمل صاحب بغض معاویہ میں حسب عادت اسے پورے کراچی پر منطبق کر کے بیٹھ گئے!!!
    ہاں ایم کیو ایم کو ہمیشہ کی طرح لوگوں نے ذیادہ کھالیں دیں اسی کی جلن تم جماعتیوں کو چین نہیں لینے دیتی!!!!
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ