Tuesday, June 15, 2010

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یہ تحریر نیٹ پہ  سفر کرتے ہوئے میرے پاس  آگئی۔ آپکی توجہ کے لئے حاضر ہے۔



77 comments:

  1. تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آدمی کی رائے عمر، علم، تجربے اور حالات کی وجہ سے بدلتی رہتی ہے۔ خود قائد اعظم اور علامہ اقبال کی رائے مختلف معاملات میں وقت کے ساتھ بدلتی ریی۔
    بہرحال قیام پاکستان کی مخالفت کرنا میرے نزدیک کوئی گناہ نہیں۔

    ReplyDelete
  2. یہ واقعی مولانا مودودی کے ارشادات ہیں؟؟؟
    پاکستان کا بننا ٹھیک تھا یا نہیں اس بارے میں جتنی متضاد آراء صحیح ۔۔ لیکن پاکستان کو غیر مستحکم اور تباہ کرنے میں جماعت اسلامی کا بہت بڑا کردار ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔۔

    ReplyDelete
  3. آدمی کی سوچ وقت کے ساتھ یقینا بدل سکتی ہےکسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ خود کو پاکستان کا ماما سمجھے

    ReplyDelete
  4. مولانا مودودی کا پاکستان آنا گویا اپنے خیالات کی نفی کرنا اور اپنے موقف سے ہٹنا ھے - عثمان نے صحیح کہا ھے کہ خیالات میں تبدیلیاں آتی رہتی ھیں - اگر ھم اپنا جا ئزہ لیں تو محسوس کریں گے کہ وقت کے ساتھ اُس میں تبدیلیاں آی ھیں-اس پوسٹنگ کی افادیت یہ ھے کہ جماعت کے بارے میں یہ ایک ٹھوس ثبوت مہیا کرتی ھے -

    ReplyDelete
  5. مولانا تو بہت پہنچی ھوئی شخصیت تھے۔پہلے میں صرف تفہیم القران پڑھ کر انکا مرید تھا۔اب پکا یقین ہے۔میں اس عکس سے قطعی طور پر متفق ھوں۔

    ReplyDelete
  6. اختلاف صرف قائد اعظم سے مطلقہ الفاظ سے ھے۔

    ReplyDelete
  7. پروفیسر غفور اور میاں طفیل فرماتے ہیں"قائد اعظم کا جنازہ پڑھنا ضروری نہیں تھا"اور پھر یہ بھی تسلیم کیا کہ مولانا مودودی نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔

    مساوات 27 فروری 1978۔

    http://sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-ash1/hs505.ash1/29869_397749357212_656582212_4842506_360056_n.jpg

    ReplyDelete
  8. جبتک مودودی کی پارٹی کو حکومت نہيں مل جاتی تب تک پاکستان حرام ہے اسکے بعد حلال ہو جائے گا

    ReplyDelete
  9. جماعت اسلامی کی منافقتوں کے تو هم بھی ماننے والے هیں لیکن جی کرانچی مين ایم کیو ایک کو انهوں نے هی "ڈکا" لگایا هوا هے اس لیے جب کرانچی والوں گے منه سے جماعت اسلامی کا گله سنتے هیں تو عجیب سا لگتا ہے
    دو غنڈے ایک دوسرے کی غنڈھ کردی کی تفصیلات بتا بتا کر خود کو معصوم ثابت کرتے هوئے کیسے لگیں اکر کبھی کهیں ایسا هو تو کیا هو

    ReplyDelete
  10. Mohterma aap key qaide tehreek bhi Pakistan key barey mein bohat kuch keh chukey hein unki clipping bhi samney layei

    ReplyDelete
  11. ہم خاور صاحب کی رائے سے متفق ہیں۔ ویسے تو اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ایم کیو ایم، پی پی پی، اے این پی، جۓے سندھ، تمام مسلم لیگیں، ایم ایم اے،جمعیت ف وغیرہ وغیرہ سب کا ماضی داغدار ہے۔
    ویسے مسلم لیگ کے بارے میں مولانا نے جو کہا وہ مسلم لیگیوں نے پاکستان بننے کے بعد سچ کر کے دکھایا۔ یہ مسلم لیگ ہی ہے جس نے آمروں کو تخت پر بٹھایا اور اتنے دھڑوں میں بٹ گۓے جتنے مسلمانوں کے فرقے بھی نہیں۔

    ReplyDelete
  12. خاور صاحب، اگرچہ کہ کراچی میں نہ رہنے والوں کو اور خاص طور پہ جنکی مٹی کراچی کی نہیں ہے یہ بات بہت بری لگتی ہے مگر یہ کہ آپ کراچی سے واقف نہیں ہیں اور نہ یہاں کی تاریخ سے اور نہ یہاں کے مسائل سے۔
    ایم کیو ایم نے اسّی کی دھائ میں کچھ ناگزیر اور بد مزہ واقعات کے دوران جنم لیا۔ اس سے پہلے کراچی میں جماعت اسلامی کا راج ایک لمبے عرصے تک رہا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے جماعت اسلامی نے اپنی جڑیں کراچی میں مضبوط کیں۔
    لازمی طور پہ جب کراچی کی سلطنت انکے ہاتھوں سے ایکدم اس طرح نکل گئ کہ انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایم کیو ایم اس طرح چھا جائے گی تواسکا دھچکا انہیں ہی پہنچنا تھا اس لئے آپکی یہ بات انتہائ لا علمی پہ مشتمل ہے کہ جماعت نے ڈکا لگایا ہوا ہے۔ اسل حقیقت تو یہ ہے کہ جماعت ایک زخم خوردہ شیر کی طرح ہے اور لامحالہ اسکے معتقدین یا وہ لوگ جنکا کسی بھی زمانے میں جماعت سے تعلق رہا ہے وہ بھی چاہے کوئ بات ہو توپ کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کر دیتے ہیں۔
    دوسری ایک نا معلوم وجہ یہ ہے کہ جب کوئ کراچی والا لکھتا ہے تو لازماً اسے ایم کیو ایم کا طعنہ دینا فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جب ہم یہ کہیں کہ پنجاب میں طالبان کے حامی عناصر بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں تو یوں لگتا ہے کہ تلوار چلا دی۔ خیر جناب اس حقیقت کا اعتراف تو ڈان میں ایک رپورٹ کی شکل میں حال ہی میں آگیا۔ لیکن حسب توقع ہمارے بلاگرز اس پہ خاموش رہے کہ اردو بلاگرز کی بڑی تعداد کا جھکاءو طالبان یا انکے پیش کردہ نظرئیے کی طرف ہے۔ وہ اگر ایم کیو ایم کے خلاف کوئ رپورٹ چھپتی تو سب باجماعت اسکی کاپیاں چھاپتے۔
    مزے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی قیام پاکستان سے ملک گیر جماعت رہی ہے جبکہ ایم کیو ایم کو اب تک یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ البتہ وہ اسکے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ لیکن اسکے حامی فرط جذبات میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ آخر ایم کیو ایم کی تسبیح ہر بات پہ کیوں پڑھتے ہیں۔ تو پھر کراچی میں ڈکا کس کا لگا ، ایم کیو ایم کا یا جماعت اسلامی کا۔
    عثمان صاحب، اگر انسان اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے اپنی رائے کسی بھی وقت بدل سکتا ہے اور یہ درست بھی ہے اور میں بھی اس پہ یقین رکھتی ہوں تو اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ یہ تینوں صاحبان یعنی مودودی، قائد اظم، اور اقبال جن نظریات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے وہ کوئ حتمی نظریات نہ تھے اور یہ کہ پاکستان کی بقاء اور ترقی کے لئے بحیثیت قوم ہمیں بھی اپنے طرز عمل اور نظرئیے پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اور یہ کہ جماعت یادیگر مذہبی جماعتیں یا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ جن میں طالبانی فکر سے متائثر لوگ بھی شامل ہیں انہیں بھی تبدیلی کے عمل سے گذرنا چاہئیے۔
    ایک بات اور اس تحریر میں ایک جملہ ایسا بھی ہے جس میں انہوں نے قائد اعظم کو ایک فاجر مسلمان کہا۔ انکا یہ بیان انیس سو چھیالیس کا ہے۔ انکی یہ رائے یقیناً بحیثیت ایک مسلم عالم کے ہوگی۔ لیکن ابھی تھوڑے عرصے پہلے ہی ہمارے چند بلاگرز نے ایسے ثبوت جمع کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی تھی جس میں انہیں مولانا قائد اعظم لکھا جا سکے۔ کون صحیح ہے مودودی یا یہ لوگ۔ اپنے ان نتائج سے وہ یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ قائد اعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جہآن اسلامی نفاذ شریعت ہو۔ کون صحیح ہے تاریخ یا یہ لوگ۔
    گمنام، 'میرے قائد تحریک' کی اس وقت کیوں یاد آگئ۔ یہ پوسٹ مولانا مودودی کے حوالے سے ہے۔ 'میرے قائد تحریک' کے حوالے سے نہیں۔ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شامل ہے جبکہ 'میرے قائد تحریک' نے ایسا کوئ کارنامہ انجام نہیں دیا۔ مولانا مودودی بہ نفس نفیس قائد اعظم کو جانتے تھے، قیام پاکستان کی تاریخ انکے سامنے عملی طور پہ بنی، جبکہ 'میرے قائد تحریک' نے پاکستان بننے کے بعد جنم لیا۔ انکا تذکرہ محض ایم کیو ایم کو جماعت کی حریف جماعت سمجھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس طرح تو آپ جماعت کی ہمہ گیر اہمیت سے انکار کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی وہ جماعت ہے جو بنگلہ دیش کے بنتے وقت بھی موجود تھی اور جسے ضیا الحق کی گیارہ سال کی حکومت میں حکومتی ایوان میں شامل ہونے کا اعزاز رہا اور جسکا افغانستان کے جہاد کے لئے پاکستانی جوانوں میں جہادی روح بیدارکرنے میں ایک اہم کردار ہے ان سب سے 'میرے قائد تحریک' کا کوئ تعلق نہیں۔ جماعت پان اسلامزم پہ یقین رکھتی ہے اور اس طرح اسکا دائرہ ء کار پاکستان سے باہر بھی پھیل جاتا ہے جبکہ 'میرے قائد تحریک' کے ساتھ یہ صورت حال نہیں۔ اس طرح آپ سب جماعت کے ایک قومی اہم جماعت ہونے کے باوجود اسے چھوٹے درجے کی جماعت بنانے کی کوششوں میں لا شعوری طور پہ لگے رہتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا مقابلہ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ یا طالبان سے کروایا جائے۔

    ReplyDelete
  13. بالکل درست۔ نہ صرف مولانا موددی بلکہ علامہ اقبال اور قائد اعظم سمیت ہر شخص کے افکار پر بحث اور تنقید کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے وجود پر بھی سوال اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ تاریخ ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہ افکار یا تنقید کس حد تک درست ہے۔
    ایک گذارش ہےکہ مجھے میرے نام کے ساتھ "صاحب" نہ لکھا جائے صرف عثمان ہی ٹھیک ہے ۔ میں اپنی تحریروں میں‌ صاحب ایک مخصوص پیرائے میں‌لکھتا ہوں۔۔۔اور جب کوئی میرے نام کے ساتھ صاحب لکھے تو میرا موڈ ٹھیک نہیں رہتا۔

    ReplyDelete
  14. اگر واقعی مولانا مودودی کے ارشادات ہیں؟؟؟ تو ،،،
    ایک محب وطن کے لیے تکلیف دہ اور مودودی ازم والوں کے لیے شرم ناک ھے۔ ایک بات اور سُنی کہ مودودی صاحب قایداعظم کو کافرآعظم کہتے تھے،،

    ReplyDelete
  15. مودودی ازم والوں سے تو مجھ کوئی غرض نہیں‌ البتہ ایک محب الوطن کے لئے ہرگز شرمندگی کا باعث نہیں۔ انسان انسان ہیں۔ انسانوں کی زبانوں سے اچھے اور بُرے قول نکلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ جو لوگ کچھ اچھے کاموں کی وجہ سے مشہور ہیں انھوں نے ساری عمر اچھا کام ہی کیا ہو۔ یا جو لوگ اپنے گناہوں‌کی وجہ سے بد نام ہیں‌ انھوں‌ زندگی کا ہر لمحہ گناہ میں ہی گذارا ہو۔ مشہور ہے کہ مولانا مودودی بستر مرگ پر یہ تسلیم کرتے پائے گئے کہ جماعت اسلامی کو سیاست میں لاکر انھوں نے غلطی کی (غالباً ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک انٹرویو میں‌ یہ ذکر کیا تھا۔۔واللہ علم۔(( اسی طرح قائد اعظم سے یہ بات منسوب ہے ان سے بستر مرگ پر لیاقت علی خان سے ملاقات کے بعد یہ کہتے سنا گیا " یہ شخص یہ دیکھنے آیا ہے کہ بُڈھا ابھی زندہ ہے اور مر تو نہیں‌گیا۔" علامہ اقبال ایک زمانے میں قادیانیت کے معتقد رہے۔ قائد اعظم اوائل عمری میں‌ فرقہ اسماعلیہ۔۔(آغا خانی فرقہ(( سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کا اسرار ہے کہ ان کی موت بھی اس ایمان پر ہوئی۔
    اوپر دیے گئے پمفلٹ میں‌موجود فرمودات کو پڑھتے وقت۔۔۔اس وقت کے حالات و اقعات اور دوسرے پس منظر سامنے رکھنا لازمی ہیں۔ اس وقت کے بہت سے علما کرام قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ میرے جاننے والے کچھ بھارتی مسلمان قیام پاکستان سے سخت نالاں ہیں۔ ان کے کہنا ہے کہ اُن کی پیٹھ میں‌چُھرا گھونپا گیا۔ ہم خود تو زمین کا ایک ٹکڑا لے کر بیٹھ گئے لیکن اُن کو ان حالات میں چھوڑ آئے کہ جس کا خمیازہ وہ آج تک بُگھت رہے ہیں۔ جسونت سنگھ کی کتاب میں‌بھی یہ تذکرہ ہے۔
    ہندوستان میں‌رہنے والے مسلمان ایک طرف۔۔۔پاکستان ہجرت کرنے والوں‌ نے بھی ایک قیمت چکائی ہے۔ اور کچھ تو اب بھی چکا رہے ہیں۔ ہجرت کرنے والوں کا کرب ہجرت نہ کرنے والے کبھی نہیں‌سمجھ سکتے۔

    ReplyDelete
  16. یہ تحریر منافقین کی تخلیق ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کے خیالات کوئی ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں۔ میں خود ترجمان القرآن کے دفتر لاہور رابطہ کیا تو پتا چلا کہ ان تاریخوں کے شماروں میں ایسی کوئی بات کہیں ہی نہیں گئی ہے۔ عنقیہ باجی آپ پر واجب ہے کہ وہ شمارے نکال کر ان کے عکس اپ لوڈ کرلیں۔ لیکن آپ ایسا نہیں کرسکتی کیوں کہ ایسا کچھ ہی نہیں

    ReplyDelete
  17. تلخابہ بھائ جان، یہ کوئ پہلی دفعہ نہیں کہ یہ بات سنی گئ۔ بالکل اسی پس منظر میں یہ باتیں ہمیشہ دوہرائ گئ ہیں۔
    نہیں معلوم آپ کنہیں منافقین کہتے ہیں۔
    مجھے تو ان میں سے کسی بات پہ کوئ اعتراض نہیں۔ اگر انہوں نے کہا تو اپنی مشاہداتی قوت سے وہ یہ بات کہہ سکتے تھے۔ اس بات سے ساری دنیا واقف ہے کہ جماعت اسلامی ان جماعتوں میں سے ہے جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کی تھی۔ مودودی صاحب پاکستان آ گئے کہ اس نئ مملکت کے قبلے کو صرف انکی جماعت درست رکھ سکتی ہے یہ مسلم لیگ کے بس کا کام نہیں۔ لیکن مولانا آزاد تو یہاں آئے بھی نہیں۔ وہ ایک سرکردہ کانگریسی لیڈر رہے۔
    اب آپ پہ واجب ہے کہ وہ تمام شمارے جنکا اس میں حوالہ دیا گیا ہے انہیں اکٹھا کریں اور انکی پوری نقل فراہم کریں۔ کیونکہ آپکی پہنچ تو دفتر لاہور جماعت اسلامی تک ہے۔
    لیکن آپ ایسا کریں گے نہیں کیونکہ آپ خود ان مندرجات کو پسند نہیں کرتے اور آپ اس پہ تحقیق نہیں کریں گے بلکہ انکے دفتر فون کر کے معلوم کرتے رہیں گے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار نہیں ہونا چاہئیے۔ جماعت نے آج تک اپنے اس روئیے کو یہ کہہ کر دھونے کی کوشش نہیں کی کہ ہم قیام پاکستان سے پہلے ایسے نہیں تھے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ہم ایسا ہی سمجھتے تھے لیکن چونکہ ہم اس نئ مملکت کے اندر اسلام کی بالا دستی چاہتے تھے اس لئے ہم نے اس نئ مملکت کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ یقین نہ ہو تو کسی ذمہ دار جماعتی سے جو جماعت کی تاریخ سے واقف ہو جو مولانا مودودی سے مل چکا ہو، بات کر کے دیکھئیے۔

    ReplyDelete
  18. حیرت ہے عثمان، جو مجھے لگتا ہے کہ آپ سے عمر میں خاصے کم ہونگے۔ اتنی متوازن بات کر رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  19. عثمان، اس بات کا اعلان میں بھی بار بار کر چکی ہوں کہ بلاگنگ کی دنیا میں ، میں سب سے برابری کی سطح پہ گفتگو کرتی ہوں اس لئے مجھے آنٹی، باجی، آپا، نانی، دادی جیسے القاب سے نہ پکارا جائے۔ مگر کوئ سمجھتا ہے نہ سنتا ہے۔
    لیکن خیر میں آئندہ اس بات کا خیال رکھونگی کہ آپکو جھنجھلاہٹ میں بھی عثمان صاحب نہ کہا جائے۔ میرا خیال ہے یہ میں نے آخری دفعہ ایک ساتھ لکھا ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  20. اگر پاکستان کی مخالفت کا ذکر چھڑا ہے تو پھر الطاف حسین کی اس تقریر کا حوالہ دنیا ضروری ہے جس میں انہوں نے انڈین سامعین کے سامنے اقرار کیا تھا کہ پاکستان کا قیام بہت بڑی غلطی تھی۔ اب آپ کہیں گی کہ اس تقریر کو بناں ساق و سباق کے لیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھیے اگر آپ مولانا مودودی کی باتیں بناں سیاق و سباق کے چھاپ سکتی ہیں تو پھر الطاف حسین کی تقریر کیوں نہیں۔ الطاف حسین کی تقریر کا لنک یہ ہے۔
    http://www.youtube.com/watch?v=yWAj7Awj2ks

    ReplyDelete
  21. بات عمر کی نہیں۔۔۔مختلف لوگوں سے رابطے اور مشاہدے کی ہے۔ جب میں پاکستان میں‌تھا تو پاکستان کے خلاف بات سننے کو توہین رسالت جیسا گناہ سمجھتا تھا۔ پردیس آکر بھارتی مسلمانوں اور کچھ بنگلہ دیشیوں سے بھی ملنا جلنا چلتا رہا۔ جن کے تجربات، مشاہدات اور نظریات ہم سے کافی مختلف تھے۔ ان سے بات کر کے ما تھا ٹھنکا کہ ہم آج تک تاریخ کو یک رخ سے ہی دیکھتے آئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ بھارتی مسلمان قیام پاکستان کی بہت بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام نے اُن کی اچھی بھلی حیثیت کو ایک دم زیرو بنا دیا۔ وہ بیچارے اب ایک ففتھ کالم کی حیثیت سے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اُن کی حالت زار کی ایک بڑی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے۔ لیکن ہم اپنے کئے کرائے سے پیچھا نہیں‌ چھڑا سکتے۔
    میرے جاننے والے بھارتی صوبہ بہار کے مسلمان ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ بہار اور یوپی کے درمیان سفر کرے وقت آپ کو مضافاتی علاقوں‌ میں مسلمانوں‌ کی چھوڑی ہوئی بڑی بڑی حولیاں‌ نظر آئیں‌ گی جن کو تالے پڑے ہوئے ہیں اور بھارتی حکومت کی ملکیت ہیں۔ ان کے وارثین یا تو ہجرت کر گئے یا قتل کر گئے۔ ان کا اصرار تھا (جس سے مجھ اتفاق تو نہیں(( کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو پینتالیس کروڑ مسلمان اپنے اثرورسوخ اور اعلٰی تمدن و تہذیب کے باعث بھارت میں ایک بڑی قوت ہوتے۔
    لیکن قیام پاکستان نے سب اکارت کر دیا۔
    خدا معلوم کتنا درست ہے۔

    ReplyDelete
  22. قتل کر دیے گئے
    تصیح فرما لیں

    ReplyDelete
  23. صرف ایک سوال کا جواب چاہئے۔
    مولانا مودودی کو قیام پاکستان کے بعد نئی ریاست میں اسلامی مملکت کے خدوخال کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پر لیکچرزدینے کیلئے کس نے بلوایا تھا ؟
    اگر یہ درست ہے کہ قائداعظم نے بلوایا تھا تو پھر کیوں؟
    اگر نہیں تو ثابت کرکے بتائیے کے ایسانہیں ہوا تھا؟

    ReplyDelete
  24. دانیال دانش:
    ثابت کریں کہ مولانا مودودی کو قائد اعظم نے بلوایا تھا۔
    دعویٰ کرنے والا پہلے اپنا ثبوت لاتا ہے۔ پھر اسے کاؤنٹر کرنے کے لئے مخالف سے ثبوت طلب کئے جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  25. ملن سوپ بنانے والوں کی جانب سے نواں کٹا کھلنے پر اہل وطن کو دلی فساد مبارک

    ReplyDelete
  26. یہ پڑھنے کے بعد تو میں ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔ اگر کسی شخص نے مولانا مودودی کی دو کتابیں بھی پڑھی ہیں تو اسے پہلے دو جملوں ہی میں اندازہ ہو جائے گا کہ یہ مولانا کا طرز تخاطب ہی نہیں ہے۔ مولانا نے زندگی بھر (سوائے قادیانیوں کے) کسی کے لیے کفر کا لفظ نہیں نکالا، وہ تو خود اس "کفر و فتوی کلچر" سے تنگ تھے اور اس کا بارہا اظہار بھی اپنی کتب و تقاریر میں کیا۔
    پیش کردہ "شاہکار" میں حوالہ جات تک درست نہیں دیے گئے، ترجمان القرآن ایک ماہنامہ تھا جبکہ یہاں صرف سن کے حوالے کو کافی سمجھ کر پیش کر دیا گیا ہے۔
    اسے کہتے ہیں کہ اپنی مرتبہ میں حوالہ جات مانگے جائیں اور حریف کو گندہ ثابت کرنے کے لیے گھٹیا اخبارات کے "ٹوٹے" ہی کافی :) ۔

    ویسے آدمی کے جھوٹا ہونا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کیے بات کو آگے بڑھا دے

    ReplyDelete
  27. ثابت کرو کہ ثابت کرنا، ثابت کرنا ہی ہوتا ہے اور منوا کے چھوڑنا نہیں ہوتا ۔

    ReplyDelete
  28. واقعی ہم کراچی والوں کے ساتھ سب سے بڑی ٹریجیڈی یہ ہے کہ اگر ہم کبھی جماعت پر تنقید کریں تو ہمارے دیگر اہل قلم ہمیں ایم کیو ایم کا طعنہ دیتے ہیں اور اگر ہم ایم کیو ایم کے خلاف لکھنے کی جسارت کر لیں تو فورا ہم پر جماعتی ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔
    میں خود بھی مودودی صاحب کی علمی صلاحیتوں اور کارناموں سے بے حد متاثر ہوں لیکن اسکے باوجود میں جماعت کی پالیسیوں کا ایک بڑا ناقد ہوں ۔ اسی طرح میں سید مصطفی کمال کے ترقیاتی کاموں سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن الطاف حسین کی بے تکی پلیسیوں، کھوکھلے نظریات، سیکولر ذہنیت اور سیاسی منافقت کا بھی میں کھل کر اظہار کرنے سے نہیں ڈرتا۔ کیا خوب ہو کہ اس تراشے کے الطاف حسین کی انڈیا میں کی گئی تقریر کا لنک بھی لگادیا جاتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

    ReplyDelete
  29. مجھے بھی اس تراشے کی صحت پر شک ہے اسکی وجہ یقینی طور پر وہی ہے جو ابو شامل نے بیان کی ہے۔ اول یہ کہ مولانا کے قاری انکی تحریروں کو دو سطور میں ہی پہچان لیتے ہیں اور مجھے بھی ان تراشوں میں مولانا کا قلم اور اصلوب کہیں نظر نہیں آرہا، دوم مولانا نے تکفیر بازی کے عام روایت سے بھی سخت تنگ تھے۔
    البتہ اس میں کوئی چک نہیں کہ جماعت اسلامی اور مولانا مدودی قیام پاکستان کے حق میں نہین تھے۔ انکی رائے یہ تھی اگر پاکستان قائم ہو بھی گیا تو وہ صحیح معنی میں ایک اسلامی ملک نہیں ہوگا اور اسکے قیام سے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی کوئی امید بر نہیں آئے گی۔
    اس سوچ میں وہ اکلیے نہیں تھے امین احسن اصلاحی اور منظور احمد نعمانی بھی انکے دست راست تھے۔
    اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جناب مسجد کی تعمیر سے پہلے اہل محلہ کا اسکے قیام اور محل وقوع پر اختلاف ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن اگر ایک دفع مسجد بن جائے تو اسکی حفاظت سب پر لازمی ہے۔

    ReplyDelete
  30. ابو شامل، آپ ہنس کر فارغ ہو لئیے ہوں تو ان لنکس پہ ضرور جائیے گا۔
    http://pakteahouse.wordpress.com/2009/08/15/maulana-maududis-role-against-jinnahs-pakistan/
    اس میں انہوں نے مولانا صاحب کی ایک کتاب کا تذکرہ کیا ہے جسکا نام ہے۔
    “Muslims and the Present Political Turmoil” (Vol.III)


    ” Who are the Muslims you are claiming to be a separate nation? Here, the crowd called Muslims is full of all sorts of rabble. There are as many types of characters in this as in any (other) heathen people”. (Vol. III, P.166)

    “Pity! From League’s Quaid-e-Azam down to the lower cadres, there is not a single person who has an Islamic outlook and thinking and whose perspective on matters is Islamic“. (Ibid. P.37)

    “To pronounce these people fit for leading Muslims for the simple reason that they are experts of Western type politics and masters of Western organizational arts, and are deeply in love with their people, is a manifestation of an unislamic viewpoint and reflects ignorance of Islam”. (Ibid. P.70)
    مولانا صاحب اس بات سے انکاری ہیں کہ مسلم لیگ قائد اعظم کی قیادت میں اسلامی نفاذ شریعت کا حامل ملک بنانا چاہتی ہے۔

    In no Muslim League resolution, or in a speech by a responsible leader of the League it has it been made clear that their final goal is of establishing an Islamic system of government. Those who believe that by freeing Muslim majority areas rule of Hindu majority, an Islamic government will be established here in a democratic set up, are wrong. In fact what will be achieved will be a heretical government by Muslims, indeed worse than that.” (Ibid. P.130-32)

    For these reasons, the great numbers (of Muslims) that we find. (listed) in the census records has become worthless for purposes of Islam. Anything done on the strength of these numbers will result in acute frustration.” (Ibid. P.56)

    یہ دوسرا لنک جماعت کے کسی حامی تحریرکار کا لگتا ہے۔ جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دراصل تحریک پاکستان نہ صرف دو قومی نظرئیے پہ قائم ہوئ بلکہ اس نظرئیے کا بانی کوئ اور نہیں بلکہ مولانا مودودی صاحب ہیں۔ اسی مضمون میں صاحب مضمون نے مولانا صاحب کے بیانات کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں انہوں نے کانگریسی لیڈرز سے بے زاری کا اظہار کیا ہے اور انہیں ایک مونسٹر قرار دیا ہے۔ اب مونسٹر کے اردو لفظی ترجمے سے آپ ہمیں ضرور آگاہ کیجئیے گا۔
    مولانا صاحب کی علمی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے میں بھِ ہوں۔ لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ انکا جیسا بت آپ نے اپنے ذہن میں تراش رکھا ہے اگلا کوئ ایسی بات کہے کہ اس سے اس بت کی ساخت متائثر ہو تو آپ اس پہ چڑھ دوڑیں۔
    مساوات، پیپلز پارٹی کی طرف سے نکالا جانے والا اخبار تھا۔ ایم زمانے میں اسکی سرکولیشن بہت اچھی تھی۔۔ یعنی امت اور ایوننگ اسپیشل سے زیادہ۔ تو آپ اسے اتنا تیسرے درجے کا اخبار نہیں کہہ سکتے۔

    ReplyDelete
  31. آس پوسٹ سے جماعت اسلامی ،،( جماعتی ) کے کارکن شو ھوگے ۔۔۔
    آس پوسٹ سے جماعت اسلامی ،،( جماعتی ) کے کارکن شو ھوگے ۔۔۔
    گو امریکہ گو ؟؟؟؟؟؟ چلو امریکہ چلو

    ReplyDelete
  32. میرا پاکستان ، ایک دفعہ پھر یہ بات دوہراءووںگی کہ ایم کیو ایم اسّی کی دھائ میں وجود میں آنے والی جماعت ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کی بنیاد انیس سو اکتالیس میں یعنی پاکستان کی پیدائش سے چھ سال پہلے۔ مودودی صاحب کی پیدائش انیس سو تین کی ہے۔ یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے وجود میں آنے سے پہلے ۔ اس طر تاریخی واقعات پہ کس کی اہمیت زیادہ ہے۔ مولانا صاحب کی الطاف حسین کی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں تو اس چیز کے مخلافین میں سے نہیں کہ کوئ کہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا۔ یہ کسی بھی شخص کا ایک نکتہ ء نظر ہو سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے یہ کہ آئین اختیارات صدر کے پاس زیادہ ہونے چاہئیں یا وزیر اعظم کے پاس۔ بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ہم ایک علیحدہ ملک پاکستان میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اور ہمیں اسکے معاملات چلانے ہیں۔ اگر الطاف حسین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا۔ تو یہ انکا انکی ذاتی فکر ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اور کراچی میں بے شمار لوگوں کی یہ سوچ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو الطاف حسین کے حامی نہیں ہیں۔ انہیں ہم غدار وطن نہیں کہہ سکتے۔ اگر مولانا مودودی نے یہ سب باتیں کہیں جو اس تحریر میں موجود ہیں تو اس میں صدمے میں آنے کی کیا بات ہے وہ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کے انڈیا میں موجود تھے اور انہوں نے یہ سب کچھ اپنے مشاہدے سے اخذ کیا تھا۔ البتہ اس وقت کچھ لوگوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے کہ وہ جس چیز کا پروپیگینڈہ کرتے ہیں یہ چیز اسکے حق میں نہیں جاتی۔ ابو شامل کو جو دو لنکس میں نے دیا ہیں انہیں ضرور پڑھئیے گا۔
    جعفر صاحب، آپ نے اپنی جو پروڈکٹ پیش کی تھی کیا اس پہ مطلوبہ فسادی نتائج نہ ملنے پہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ہاءو جیلس یو آر۔
    :)

    ReplyDelete
  33. او شامل، یہ کانگریسی مسلمان لیڈر جنہیں مولانا صاحب نے مونسٹڑ قرار دیا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔

    ReplyDelete
  34. افٰضل صاحب ( میرا پاکستان ) آپ عرصہ سے امريکہ ميں مقيم ہيں- وہاں سےآپ محب وطنی کے سرٹیفکٹ دینا چھوڑدے ،، جائن کی ہوئی ہے؟ آپ نے امريکہ ميں ku klux klan آپ نے امريکہ ميں ،،

    ReplyDelete
  35. ویسے گمنام صاحب!
    آپ کو دیکھ کر پتا لگا کہ بعض لوگوں میں‌اتنا پانی بھی نہیں‌کہ سکرین کے پیچھے بیٹھ کر ہی بہادری دکھا دیں۔ دوسروں‌ کے بلاگ پر بندوق کیوں رکھی؟
    اپنا سرکس شروع کیجئے!

    ReplyDelete
  36. اگر کسی شخص کی تحریر سے ایک آدھ جملہ اس کے باقی سیاق و سباق سے توڑ کر پیش کیا جائے تو ایک غلط تاثر پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس عکس میں بھی کچھ ایسی ہی بات نظر آرہی ہے۔ کسی علمی شخصیت یا تحقیقی ادارے نے اس طرح کے اقتباسات جمع کیے ہوتے تو الگ بات تھی لیکن سید مودودی کی فکر سے خاص مخاصمت رکھنے والا ایک سطحی اخبار؟۔۔۔!!! اگر یہی مشق آپ کے بلاگ پر کی جائے تو سیاق و سباق سے جدا کرکے ایسے کئی نادر نمونے جمع کیے جاسکیں گے جو آپ کے اصل مدعا کی ترجمانی نہیں کرتے۔

    سید مودودی پر جو الزامات لگائے گئے وہ عام طور پر من گھڑت اور سنی سنائی پر مشتمل ہیں۔ خلافت و ملوکیت نامی کتاب پر یہ الزام تھا کہ اس میں توہین صحابہ ہے۔ میں نے حقیقت جاننے کے لیے یہ کتاب پڑھی تو اندازہ ہوا کہ یہ الزام من گھڑت اور اندھی تقلید کا شاخسانہ تھا۔ سید مودودی کی تصانیف 70 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر ایک بہت ہی بڑا دائرہ بناتی ہیں۔ ان پر کیے گئے جھوٹے اعتراضات کو شہ سرخیاں بنا کر پیش کرنے سے بہتر یہ نہیں کہ سچائی جاننے کے لیے ان کی تصانیف کا تھوڑا مطالعہ ہی کرلیا جائے؟ پاکستان سے متعلق سید مودودی کا صحیح نظریہ جاننے کے لیے مسئلہ قومیت اور تحریک آزادی ہند اول دوم کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ یہاں ترجمان سے ایک اقتباس پیش کررہا ہوں جو کچھ مددگار ہوگا اصل بات جاننے کے لیے۔

    “مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندوستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے اور متحدہ ہندوستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ہندو ہندوستان اور مسلم ہندوستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یہ چیز وہی ہے جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے اور اگر مسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے انہیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ان کے اس مطالبہ کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ اس لئے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کریں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ہمیں اس چیز کو نصب العین بنانے پر جو اعتراض ہے وہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک اصولی جماعت اور ایک نظام کی داعی اور علمبردار جماعت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے صرف ایک قوم ہونے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اگر وہ اپنی اصلیت کو قائم رکھتے تو ان کے لیے قومی وطن اور اس کی آزادی کا سوال ایک نہایت حقیر سوال ہوتا۔ بلکہ حقیقاً سرے سے وہ ان کے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب وہ کروڑوں ہوکر ایک ذرا سے خطہ میں اپنی حکومت حاصل کرلینے کو ایک انتہائی نصب العین سمجھ رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ نظام اسلامی کے داعی ہونے کی حیثیت اختیار کریں تو تنہا ایک مسلمان ساری دنیا پر اپنے اس نظام کی جس کا وہ داعی ہے، حکومت کا مدعی ہوسکتا ہے اور صحیح طور پر سعی کرے تو اسے قائم بھی کرسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ رجب، شوال ٦٣ھ، جولائی، اکتوبر ٤٤ء)

    ReplyDelete
  37. خاور بلال صاحب، میں نے مودودی صاحب کی ہی نہیں بلکہ بہت سارا جماعتی لٹریچر بہت زایدہ پڑھا ہے۔ جماعتیوں سے میرے بڑے خاص روابط رہے ہیں۔ اس لئے میرے کیس میں آپکو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے انکی تصنیفات کو نہیں پڑھا۔ یہ جو ایک اقتباس آپ نے دیا ہے۔ اس سے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ کچھ اس طرح بنتے ہیں کہ،
    قیام پاکستان کے لئے سرگرم قوتیں جن بنیادوں پہ پاکستان چاہ رہی تھیں وہ ان سے متفق نہ تھے۔
    وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح جو پاکستان حاص کیا جا رہا ہے وہ اسلمای نفاذ شریعت کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کے لئے کیا جارہا ہے اور اس طرح وہ اسلامی نظام کے داعی نہیں رہیں گے۔
    تو اس تحریر میں جو بیانات ہیں وہ اس سے سرمو انحراف نہیں کر رہے۔ وہ بھی بالکل یہی بات کہہ رہے ہیں۔ جو بیانات میں نے انگریزی ربط سے دئے ہیں یہ انہی کی لکھی ہوئ ایک کتاب سے اخذ کئے گئے ہیں کیا وہ آپ نے پڑھی ہے۔
    انکی کتاب خلافت اور ملوکیت میں نے ایک بار نہیں دو بار پڑھی ہے۔ یہ کتاب ان تمام لوگوں کو سخت نا پسند ہے جو اسلام میں تقلید چاہتے ہیں لیکن مجھے پسند آئ۔
    آپکا کہنا ہے کہ اگر بات اپنے پس منظر سے نکال کر کی جائے تو بدل جاتی ہے۔ ہر بات نہیں بدلتی۔ میں اگر کہوں کہ میں مسلمان ہوں تو یہ بات چاہے کہیں سے بھی نکالی جائے اسکا مطلب ایک ہی رہے گا۔ لیکن میں اگر یہ کہوں کہ میں پیدا سندھ میں ہوئ ہوں لیکن میرا گھریلو ماحول سندھ کے روائتی قدیم ماحول سے بالک مختلف ہے تو میری اس بات کو ایک پس منظر کی ضرورت ہوگی۔
    میں اس تحریر کو بالکل انکی ذات میں گستاخی نہیں سمجھتی۔ وہ جس نکتہ ء نظر سے تعلق رکھتے تھے اگر اس میں وہ اس طرح کی باتیں کرتے کہ قائد اعظم تہجد گذار تھے، میں نے خود انہیں تنہائ میں نمازیں پڑھتے دیکھا، انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو عاق کر دیا تھا ، اپنی بیوی کو اس لئے طلاق دی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک پارسی سے کرنا چاہتی تھیں۔ تو پھر یہ انکی شخصیت سے انتہائ مےتصادم ہوتا۔
    اس وقت تک جن لوگوں نے اس پہ شک کا اظہار کیا ہے وہ صرف وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اس چیز کا پروپیگینڈہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان اسلامی نفاذ شریعت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ جبکہ یہ تحریر اور آپکی اپنی دی گئ مستند تحریر اس پروپیگینڈہ کے حق میں نہیں جاتی۔
    پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کو حق حکمرانی عطا کرنے کے لئے وجود میں آیا تھا۔ نہ کہ کچھ مذہبی جماعتوں کے پیش کردہ شریعتی نظام کے نفاذ کے لئے۔
    کیا آپ اپنی پیش کردہ اس تحریر کے پس منظر میں اس سے انکار کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  38. خاور بلال صاحب،
    میرا جماعتیوں سے بڑا گہرا اور قلبی تعلق رہا ہے سو اس بہانے مجھے انکا لٹریچر خوب پڑھنے کو ملا۔ میں نے انکی کتاب خلافت اور ملوکیت دو دفعہ پڑھی۔ انکی یہ کتاب مجھے پسند ہے۔ البتہ ان لوگوں کو سخت ناپسند ہے جو اسلام میں تقلید کے خوہشمند ہیں۔
    تو اس طرح آپ مجھ سے یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ میں ان کتب کو پڑھوں۔
    آپ نے فرمایا کہ بات کا پس منظر ہوتا ہے ہر بات کا پس منظر نہیں ہوتا۔ میں کہتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو اس بات کا کوئ پس منظر نہیں ہوگا اسے متعلقہ مضمون میں سے نکال لیں یہ ایسی ہی رہے گی۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں سندھ میں پیدا ہوئ لیکن میرے گھر کا ماحول ایک روائیتی سندھی گھرانے کا ماحول نہیں ہے تو اسکا پس منظر ہوگا۔
    اب آپ کے دئے گئے بیان کی طرف آتے ہیں جو آپ نے خود ترجمان القرآن میں پڑھا ہے۔ ترجمان القرآن ایک زمانے میں بڑی باقاعدگی سے میں نے بھی پڑھا ہے۔ جماعتیوں سے تعلق کی وجہ سے مفت میں مل جاتا تھا۔ اور وہ خیال کرتے تھے کہ میں اس طرح راہراست پہ رہونگی۔
    آپکی دی گئ تحریر سے دو نتائج نکلتے ہیں
    ایک یہ کہ اس وقت مسلمانوں کے لئے جس علیحدہ وطن کی کوشش ہو رہی تھی وہ صرف مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کی حیثیت سے ہو رہی تھی۔
    اور دوسرا یہ کہ اس تمام جدو جہد میں اسوقت کا مسلمان کسی نظام کا داعی نہیں بن رہا تھا یعنی نئ مملکت کو کسی نظام کے قیام کے لئے نہیں بنایا جا رہا تھا۔
    یہی بات کہی جا رہی ہے ناں۔ میں اسے موڑ توڑ تو نہیں رہی ہوں۔ یہی بات اسی سیاق و سباق کے ساتھ اس پوسٹ کی تحریر میں بھی موجود ہیں۔ یہ اس سے الگ تو کچھ نہیں ہے۔
    مولانا صاحب اگر یہ کہتے کہ میں نے خود جناح کو باقاعدگی سے نمازیں پڑھتے دیکھا، انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو جائداد سے عاق کر دیا کہ وہ ایک غیر مسلم سے شادی کر رہی ہے، انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی کہ وہ انکی بیٹی کی شادی ایک غیر مسلم سے کروا رہی تھیں۔ وہ تو تبلیغ پہ جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ ہم نے ہی سمجھایا کہ مملکت پاکستان کو انکی ضرورت زیادہ ہے۔ یہ کام ہم کر لیں گے تو یہ انکی شخصیت سے متصادم ہوتا۔ انہوں نے تو ایسا نہیں کیا۔ وہ جس چیز پہ یقین رکھتے تھے ، انہوں نے برملا اسکا اظہار کیا۔
    اس ساری تحریر سے صرف انہیں تکلیف ہے جو اس چیز کا پروپیگینڈہ کرتے نہیں تھکتے کہ پاکستان ، چند مذہبی جماعتوں کے پیش کردہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے وجود میں آیا۔ یہ ذرا دوسرا لنک چیک کیجئیے گا جو میں اوپر ابو شامل کو دینا بھول گئ۔ اس میں تو یہ صاحب فرط جذبات میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ دو قومی نظریہ دراصل مولانا مودودی صاحب نے پیش کیا۔ اقبال کے ماننے والوں کو اس سے تکلیف پہنچے گی۔ اسی میں انہوں نے مولانا صاحب کے حوالے سے یہ بیان دیا ہے کہ انہوں نے مولانا ابولکلام آزاد کو مونسٹر قرار دیا۔
    http://www.witness-pioneer.org/vil/Articles/politics/mawdudi2.html

    لیکن آپ خود اپنی پیش کردہ مستند تحریر سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ بات صحیح نہیں۔ ہے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کو حق حکمرانی دئے جانے کے لئے وجود میں آیا۔

    ReplyDelete
  39. عنیقہ صاحبہ میرے دیے گئے اقتباس اور آپ کے پیش کردہ انگریزی اقتباسات پڑھ کر جو تاثر بنتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان جس طرح اور جن لوگوں کے ہاتھوں بننے جارہا تھا اس سے سید مودودی کو اختلاف تھا۔ البتہ جو عکس آپ نے پیش کیا ہے اس کو پڑھنے والا یہ جانے گا کہ سید مودودی پاکستان کی اندھی مخالفت کرتے تھے، پاکستان سے نفرت کرتے تھے اور مسلم لیگ سے تعصب میں مبتلا تھے۔ آپ نے تو سید مودودی کو پڑھا ہے اور ان کی قدردان بھی ہیں تو آپ کو یہ بات قرین انصاف لگتی ہے کہ ان کا نظریہ جاننے کے لیے ان کے اپنے علمی سرمائے کو چھوڑ کر ایک سطحی اخبار کا تراشا پیش کیا جائے؟

    جس انگریزی مضمون کا لنک آپ نے فراہم کیا ہے اس میں یہ نہیں لکھا کہ سید مودودی نے ابوالکلام آزاد کو مونسٹر کہا ہے۔ بلکہ یہ بات علامہ اقبال کے حوالے سے لکھی ہے کہ انہوں نے محمد حسین مدنی کے بارے یہ بات کہی۔ اور یہ بات بھی نہیں مل سکی کہ دو قومی نظریہ سید مودودی کا ایجاد کردہ ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دو قومی نظریے کے حق میں اصل علمی مواد سید مودودی نے فراہم کیا جسے مسلم لیگ نے تحریک پاکستان میں استعمال بھی کیا۔

    ReplyDelete
  40. اب کیا ھو سکتا ھے۔ پاکستان بن گیا لاکھوں شہید ھو گئے۔کسی کو اعتراض ھے تو مر گئے پڑھ سکتا ھے۔قائد اعظم اور مولانا مودودی صاحب اللہ میاں کے پاس تصفیہ کرواچکے ھوں گے۔اس وقت کے مسائل کا حل عرض ھے۔پنجابی،پٹھان، بلوچی،سندھی، ہزاروال علیحدہ علیحدہ وطن کا اعلان کر دیں۔مہا جر حضرات انڈیا واپس چلے جائیں نہیں تو اپنے قائد کے پاس انگلینڈ۔۔۔باقی بندوقیں سید ھی کریں اور ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کر دیں۔
    خس کم جہاں پاک

    ReplyDelete
  41. Haider Maududi on Maududi and Jamaat Islami
    http://img3.imageshack.us/img3/8878/b8c9609532.jpg

    ReplyDelete
  42. "جو عکس آپ نے پیش کیا ہے اس کو پڑھنے والا یہ جانے گا کہ سید مودودی پاکستان کی اندھی مخالفت کرتے تھے، "

    بات تو يہی ہے، مودودی صاحب تو ناپاکستان کہا کرتے تھے پيار سے-

    ReplyDelete
  43. یہ تو ناانصافی ہوئی کہ مولانا صاحب کی تحاریر کو "تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو" کہ کر نشانہ بنایا جائے اور اگر الطاف حسین پاکستان کے بننے کو فحش غلطی کہیں تو اس کو نظریاتی اختلاف کہا جائے۔ جس طرح عام خیال ہے کہ مولانا مودودی نے پاکستان کی مخالفت کی مگر بعد میں وہ پاکستان میں جم گۓے۔ اسی طرح الطاف حسین کو چاہیے کہ اگر پاکستان بننا ایک بڑی فحش غلطی تھی تو پھر وہ پاکستان میں اپنی جماعت کیوں بنائے بیٹھے ہیں۔ وہ انڈیا کیوں نہیں چلے جاتے اور وہاں کے مسلمانوں کی ترجمانی کریں۔
    بات وہی ہے کہ ہر کسی کا نقطہ نظر ہوتا ہے کبھی وہ بعد میں سچ ثابت ہوتا اور کبھی غلط۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کہنے والا کس کردار کا مالک تھا اور اس کی باقی زندگی کس طرح گزری۔

    ReplyDelete
  44. عنیقہ ناز:
    میرے خیال سے آپ کو اس تحریر میں کم از کم ایک پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے ضرور لکھنی چاہیے تھی۔ تاکہ تبصرہ کرنے سے پہلے بلاگر کا نقطہ نظر واضح رہے۔ آگے آپ کی مرضی۔

    ReplyDelete
  45. میرا پاکستان صاحب، آپکا وہی الطاف حسین۔ میں تو مودودی صاحب کو بھی وہی ریلیکسیشن دے رہی ہوں جو الطاف حسین کو دے رہی ہوں۔ ان تمام تبصروں میں کسی ایک جگہ آپ نیہ نکالیں کہ میں نے انہیں ان تمام بیانات پہ برا بھلا کہا ہو۔ آپ ایسا ایک بھی جملہ نہیں نکال سکتے۔ میں تو خود یہ کہہ رہی ہوں کہ یہ انکا نکتہ ء نظر تھا۔ جسے آج انکے اپنے ماننے والے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
    میں صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں اور وہ یہ کہ چونکہ مودودی صاحب بھی یہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ اسلامی تشخص کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مفاد کے لئے ایک علیحدہ وطن کی لڑائ میں مصروف ہے اس لئے وہ اس خیال کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اب ہم اس تحریر کو ایک طرف ہا دیتے ہیں کہ بقول ہمارے مبصرین کے یہ ایک سطحی اخبار کی تحریر ہے۔ تو خاور صاحب کے بیان کے بارے میں کیا خیال ہے جو انہوں نے خود ترجمان القرآن سے نکالا ہے۔ اور اوپر جو انگریزی میں لکھا گیا ہے اسکے بارے میں کیا خیال ہے۔
    یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں کہ کہنے والا کس کردار کا مالک تھا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ جو کام اس نے کیا ہم اسکی افادیت کو جانیں اور اس سے سیکھیں۔ ایک بد کردار شخص بھی بہترین کام انجام دے سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح تاریخ ایک شخص کا مقام جو تعین کر رہی ہے۔ ہم اسکی اس اہمیت کی وجوہات کو سمجھیں جب ہی ہم اپنے حال میں کچھ دانشمندانہ فیسے کرنے کے قابل ہونگے۔
    جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بننا ایک غلطی تھی وہ ماضی کی بات کرتے ہیں۔ جسطرح جماعت نے پاکستان کو ایک نظریاتی مملکت بنانے کی ایک خود ساختہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھآلی۔ اسی طرح ہر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان بننے کے فیصلے سے مطابقت نہ رکھنے کے باوجود یہاں اپنے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہوں۔ آپ یا کوئ بھی شخص کسی بھی دوسرے شخص کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ مجھے آپکی اس بات سے صدمہ پہنچا کہ وہ انڈیا چلے جائیں اور وہاں کے مسلمانوں کی ترجمانی کریں۔ یہ وہی انڈین مسلمان ہیں جنکی وجہ سے آپ آج یہاں پاکستان سے محبت کے دعوے کرتے ہیں اور جنکی قربانیوں کے نتیجے میں آج آپکو یہ موقع ملا کہ یہ فیصلہ کریں کہ کسے پاکستان میں رہنا چاہئیے اور کسے نہیں۔
    اگر وہ مسلمان کوئ الگ چیز ہیں تو پھر آپ کس اسلام کا ترانہ ہر وقت پڑھتے ہیں وہ جو اسلام کے قلعے میں بند ہے۔
    خاور بلال صاحب، مجھے افسوس ہے کہ میرا بیان جو مونسٹر کے متعق تھا وہ غلط تھا۔ آپ نے اس بارے میں جو بات لکھی وہ بالکل صحیح ہے۔
    لیکن نظریہ پاکستان کی تشکیل میں مولانا صاحب کو علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر کے ہم پلہ لے آنا یہ ان سے عقیدت رکھنے والا شخص ہی کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تاریخ پہ لکھی گئ بیشتر کتابوں میں جو جماعت ست متائثر لوگوں نے نہیں لکھیں۔ مولانا صاحب کا حوالہ نہیں ملتا۔
    جو عکس میں نے پیش کیا اور جو انگریزی جملے میں نے ایک اور ذریعے سے یہاں ڈالے ہیں، جہاں یہ دعوی ہے کہ یہ انکی اپنی لکھی ہوئ کتاب میں موجود ہیں۔ انکے مفہوم ایک ہی جیسے ہیں اس لئے مجھے تو یہ ناممکن نہیں لگتے۔
    میں نے تو کچھ اور جملے بھی ان سے وابستہ سنے ہیں جو اس عکس میں موجود نہیں ہیں لیکن کافی سخت ہیں۔
    میں تو نہیں سمجھتی کہ وہ جھوٹ ہونگے۔ وہ جھوتکیوں ہونگے جبکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے حامیوں میں سے نہیں تھے۔ اسے میں انکا گناہ بھی نہیں سمجھتی۔ لیکن جماعت کا اصل گناہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ انہوں نے پاکستان کا مقصد اسلامی شریعت کے نفاذ سے جوڑا جو کہ صحیح نہیں ہے۔ یہ جماعت اسلامی کا بنیادی جھوٹ ہے۔
    یاسر صاحب یہی تو مسئلہ ہے کہ مہاجر یا تو انڈیا واپس چلے جائیں یا پھر انگلینڈ اپنے قائد کے پاس۔
    اور لاکھوں جانوں کے بدلے حاصل کیا گیا ملک پنجابی،پٹھان، بلوچی،سندھی، ہزاروال کے علیحدہ علیحدہ وطن بنانے کے لئے چھوڑ دیں۔ اس میں نقصان کس کا سب سے زیادہ ہے۔
    ویسے مجھے اس نادر خیال کو پیش کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئ۔

    ReplyDelete
  46. چونکہ یہ فوٹو مین انتہاء درجہ کے الزامات لگائے گئے ہین-

    ایک) مساوات 88-11-4 کا شمارہ دیکھین دو) ترجمان القران کی فائل سے یہ الزامات کی تصدیق کرین-- اتنی رکیک باتین ھوتی تو کیا پاکستان مین الکشن کے دوران انکو چھوڑدیا جاتا-- خانہء کعبہ کے غلاف کے دوران کیون یہ پرچی چھوپی رہی-- ایسا پروپگنڈہ یہان ھندوستان مین اسلامی تنظیمون کے درمیان چلتا رھتا ہے-- فیس بک پر ڈاکٹر ذاکر نائک اور طاہرالقادری کے چاہانے والون کے گروپ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہین- کیو ٹی وی کی خاتون کو بھی الزامات سے نوازا، ڈاکر اسرار احمد کے تعلق سے بھی یہ حال کرتے ہین



    گرچہ مین جماعت اسلامی کے سیاسی خیالات سے متفیق نہی ہون-- لیکن صاف صاف یہ جھوٹی پرچی ہے-- جو رات ممین مسجد کے دروازون پر لگائی جاتی--

    ساری کامنٹس ابھی نہی پڑھا صرف پرچی پڑھی ہے

    ReplyDelete
  47. یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں کہ کہنے والا کس کردار کا مالک تھا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ جو کام اس نے کیا ہم اسکی افادیت کو جانیں
    --------------------------------------
    وہ کیا شعر ہے کہ
    میرے قتل کے بعد جفا وغیرہ سے توبہ کرکے زود پشیمانی وغیرہ۔۔۔

    ReplyDelete
  48. جعفر صاحب، میں کبھی بھی اس روئیے کا حامیوں میں سے نہیں رہی کہ کسی کام کرنے والے شخص کے ذاتی کردار پہ کمنٹس دوں جبکہ اسکے کام کی سطح ایک عام انسان سے زیادہ ہو۔ جیسے کچھ عرصے قبل میں نے ایک تصویر قائد اعظم کی لگائ تھی جس میں وہ اپنے دو پالتو کتوں کے ساتھ موجود تھے۔ اس پہ بھی کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ فوٹو شاپ پہ ایڈٹ کی ہوئ لگتی ہے۔ ہر گز اصلی نہیں۔ اس لئے کہ آج کے پاکستان میں اچھا شخس ایک متقی مسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ وہ ہمارے بنیادی اہمیت کے حامل رہ نماء ہیں اس لئے لازماً ایک بے انتہا متقی شخص تھے اور وہ کتوں کے ساتھ تصویر نہیں بنوا سکتے تھے۔ میرے نزدیک تو انکے کتوں کے ساتھ تصویر بنوانے کا مسئلہ کوئ مسئلہ ہی نہ تھا۔ وہ جس کلاس اور پس منظر سے تعلق رکھتے تھے وہاں انکے لئے یہ کرنا بالکل معیوب نہیں تھا۔ پاکستان میں پاکستانی مسلمانوں کی ایک اچھی بڑی تعداد کتے پالتی ہے۔ اور اخبار میں انکے خرید و فروخت کت اشتہار آتے ہیں۔
    بالکل یہی حال اسی تحریر کا ہے۔
    اس پہ میں نے کوئ رائے تحریر نہیں کی اس لئے کہ میں آپ سب کی رائے اور رد عمل میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ میری مولانا صاحب کے بارے میں جو رائے تھی وہ انکے کام کے حوالے سے تھی۔ میرے نزدیک اگر انہوں نے یہ باتیں کہی بھی تو یہ انکے بنیادی نظریات سے الگ نہیں تھیں۔
    اس بات سے ایک زمانہ واقف ہے کہ وہ پاکستان بننے یا بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے یہ تو خاور بلال کے دئے گئے حوالے میں بھی موجود ہے۔ وہ ایک اگر دلچسپی رکھتے تھے تو اسلامی حکومت کے قیام میں۔ آخر اعتراض کس بات پہ ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں ایسا کہا۔ اگر وہ مسلم لیگ کے چاہنے والوں میں ہوتے تو اپنی ایک الگ جماعت کیوں بناتے اور خود اسکے امیر کیوں بن جاتے۔ وہ جماعت کے پہلے امیر تھے اور اسکے بانی بھی۔
    مجھے بالکل کوئ پشیمانی نہیں۔ میرا مءوقف شروع سے آخر تک ایک ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلامی حکومت کے قیام کے لئے بانیا گیا۔ وہ جھوٹ کہتے ہیں۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کو حق حکومت دینے کے لئے وجود میں لایا گیا۔
    اگر اس سے الگ کوئ بات آپ سمجھ رہے ہیں تو یہ آپکے ذہن کا فتور ہے۔
    گمنام نے ایک لنک دیا ہے اسے بھی پڑھئیے گا۔ اس میں کشمیر کے حوالے سے جو بات کہی گئ ہے وہ میں اس سے پہلے بھی کئ جگہ پڑھ چکی ہوں کہ مولانا صاحب کشمیر کے جہاد کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔
    انکا یہ اعتراف کہ انہوں نے جماعت کو ایک سیاسی جماعت بنا کر غلطی کی کہیں نہ کہیں موجود ہوگا۔ ڈھونڈنا پڑے گا۔ اس سے بھی شاید کسی کو انکار ہو۔
    میں بالکل کسی زود پشیمانی کا شکار نہیں ، آپ اپنی سمجھ دانی کے حصار میں ہیں۔ باہر نکل آئیں۔ کیا اب بھی آپکے گھر میں جسارت اخبار آتا ہے؟

    ReplyDelete
  49. یاسر جاپانی صاحب
    اس وقت کے مسائل کا حل عرض ھے۔پنجابی،پٹھان، بلوچی،سندھی، ہزاروال علیحدہ علیحدہ وطن کا اعلان کر دیں۔مہا جر حضرات انڈیا واپس چلے جائیں نہیں تو اپنے قائد کے پاس انگلینڈ۔۔۔باقی بندوقیں سید ھی کریں اور ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کر دیں۔
    خس کم جہاں پاک


    سر جی ہمارا دشمن بھی چاہتا ھے خس کم جہاں پاک ، ہمارے چھوٹے چھوٹے حصہ کرنا چاہتا ھے جس کی مثال بنگلادیش ھے ، اور ہم ھی نے آپس میں ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کرکے دشمن کو ہماری ایسی کی تیسی کا موقعہ دیا ،،
    جناب جی آپ نے یہ تو بتایا نہیں ہمارا قومئ آثاثہ بہادر پاک افواج و طالبان کس کہ حصہ میں جانا چاھئے ،،،

    ReplyDelete
  50. اے کے ملک صاحب اور عنیقہ بی بی میرے نادر خیال اور مسائل کا خوبصورت حل اس لئے تھا کہ مودودی صاحب پاکستان کے مخالف تھے اور جب پاکستان بن گیا تو وہ ھجرت کر کے پاکستان آگئے کہ اسلامی مملکت بننےکے خواھش مند تھے۔مخالف کس لئے تھے وجہ اس وقت آپ کو دیکھائی دے رہی ھے۔انڈیا کے مسلمان وہاں پر خوار ھو رھے ہیں اور پاکستان کے مسلمان نما انسان ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کر رھے ہیں۔اتنی لمبی لمبی کومنٹس پڑھ کر میں ایسا ہی حل بتا سکتا تھا جو سب کر رھے ہیں۔
    اسی طرح دل جمعی سے لگے رہیں منزل نہایت قریب ھے۔

    ReplyDelete
  51. عنیقہ صاحبہ علمی استدلال کی بنا پر تحریک پاکستان سے اختلاف الگ چیز ہے اور پاکستان کو درندے سے تشبیہ دینا الگ بات۔ اس عکس سے انتہائی غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو آپ بھی یقینا سمجھتی ہیں۔ محض ایک غلط فہمی کی بنا ایک پڑھی لکھی خاتون نے سید مودودی کے منہ سے ابوالکلام آزاد کو مونسٹر کہلوادیا تو باقی قوم کا کیا حال ہوگا؟ کسی مرے ہوئے شخص پر الزام جھاڑنا ویسے بھی آسان ہوتا ہے کہ آؤٹ ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا۔ اور پھر اس عکس سے جو تاثر بن رہا ہے وہ ایک محب وطن پاکستانی کو سید مودودی سے نفرت پر آمادہ کر سکتا ہے۔۔ حالانکہ جو نظریہ ان کا پاکستان کے بارے تھا وہ اگر انہی کی زبانی بیان کیا جائے تو بالکل ایک الگ تاثر دیتا ہے۔ مجھے شدید افسوس ہے کہ آپ نے اپنے موقف (سیکولر پاکستان یا اسلامی پاکستان) کو تقویت فراہم کرنے کے لیے اس عکس کا سہارا لیا جو بدنیتی پر مبنی ہے اور سید مودودی کی شخصیت کو مسخ کررہا ہے۔ اپنے موقف کو تقویت بخشنے کے لیے آپ یوں بھی کرسکتی تھیں کہ سید مودودی کے علمی ذخیرے سے خود اقتباسات نقل کرتیں۔ افسوس۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. محترم چونکہ آپ کو عنیقہ ناز کی بات سے اختلاف ہے تو آپ براہ کرم مودودی صاحب (میرا خیال ہے کہ انہوں نے خود کو مولانا کہلوانے سے منع کیا تھا) کی ایک یا دو تحاریر کا حوالہ دے دیں جو قیام پاکستان سے قبل کی ہوں کہ وہ پاکستان کے قیام کے بارے کیا خیالات رکھتے تھے تو بات یہیں ختم ہو جائے گی۔ تاہم اگر آپ صاحبہء بلاگ کو یہ کہیں کہ ان کی بات غلط ہے اور اصل صورتحال ایسی نہیں تو بات بڑھتی جائے گی لیکن دلیل غائب ہوتی جائے گی۔ امید ہے آپ میرا نقطہء نظر سمجھ رہے ہوں گے؟

      Delete
  52. ہم اہل علم سے امید رکھتے ہیں اور رکھیں گے۔جو کچھ اہل علم نے دریافت کیا اس کا صحیح تجزیہ کریں اور بغایت انکسار یہ دیکھیں کہ جو کچھ انہوں نے دریافت کیا ھے کسی اصول کے مطابق بیٹھتا ھے کہ نہیں۔
    جانچیں پرکھیں تولیں دیکھیں یہی اہل علم کی محنت ھے اس کے علاوہ سب مکر فریب ہی دیکھائی دیتا ھے۔

    ReplyDelete
  53. مودودی کی پاکستان، مسلم ليگ اور قائداعظم کے ليئے نفرت ظاہر و باہر ہے تس پہ دہلا يہ کہ خدا نے مودودی کی بجائے قائداعظم کی کاوش کو شرف قبوليت بخش ديا- مودودی حضرات چراغ پا ہوتے ہيں تو ہوتے رہيں، حقيقت تو وہی ہے جو مودودی کے اپنے قول و فعل سے ثابت ہے اور قيام پاکستان سے پہلے مودودی کی تحريک پاکستان کے ليئے نفرت ہر خاص و عام کے علم ميں تھی البتہ قيام پاکستان کے بعد بنے بنائے کيک کو کھانے کے شوق ميں تاريخ کو جو دوبارہ لکھنے کی جسارت کی گئی تو ناپاکستان کو مملکت خداداد اور کافراعظم کو حضرت اور رحمتہ اللہ کے خطابات اور مودودي کو پاکستان کا حامي قرار دے ديا- ضياالحق مدظلہ اگر کچھ عرصہ اور رہ جاتے تو بانی پاکستان کا تاج بھي مودودی کو دے ديا جاتا- اب جب ضياالحقی پراپيگنڈہ کا اثر زائل ہو رہا ہے اور تاريخی حقائق سامنے لائے جارہے ہيں تو مودوديوں کی سٹی گم ہو گئي-

    ReplyDelete
  54. " مودودی صاحب پاکستان کے مخالف تھے اور جب پاکستان بن گیا تو وہ ھجرت کر کے پاکستان آگئے کہ اسلامی مملکت بننےکے خواھش مند تھے۔مخالف "

    نہيں جی کيک کھانے کے ليئے پاکستان کے حامی بنے، منافق جو تھے سدا کے- اگر اسلامی مملکت چاہتے تو اسلامی مملکت کی تحريک کے مخالف نہ ہوتے- اور قيام پاکستان کے بعد مودودی اور اسکي جماعت نے اسلامی مملکت کے قيام کے ليئے کيا کيا؟ سوائے جھوٹ، دہشتگردی اور مطلب پرستی کے ان کے پاس ہے کيا؟ حتی کے مودودی کے قريبی ساتھی بھی مودودی کی مطلب پرستی ديکھتے ہوئے جلد ہی عليحدہ ہوگئے اور صرف جہلا اور غنڈوں کا ايک ٹولا مودودی کے ساتھ رہ گيا اور آج تک جماعت غير اسلامی کا حصہ ہے-

    ReplyDelete
  55. حضرت بے نام
    آپ کے اندازِ بیان کے کیا کہنے۔ جو لوگ سید مودودی پر افترا باندھتے ہیں ان میں یہ بات کامن ہے کہ وہ دلائل کے بجائے بھڑکیوں سے کام لیتے ہیں اور عموما اسی بے ہودگی سے پیش آتے ہیں جس کا آپ نے مظاہرہ کیا۔ ہوائی باتیں کرنے کے اور بہت سے مواقع مل سکیں گے آپ کو لیکن یہاں کم از کم دلیل سے بات کرلیتے تو آپ کا تبصرہ پڑھ کر وقت برباد ہونے کا احساس نہ ہوتا۔

    ReplyDelete
  56. The custodians of Ka‘bah have again become high priests and Ka‘ba is their property and Hajj is their sources of income...they have turned into the high priests of [the Hindu temples of ] Banaras and Hardawar. (Khutabat-e-Syed Abul A‘la Maududi, 7th edn, p. 195–197)

    پڑھتے جائيں اور سر دھنتے جائيں

    ReplyDelete
  57. ديوبندی بھی کم نہيں، تلخابہ کے بزرگوں کی سنيئے

    http://sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-ash2/hs045.ash2/35603_400985691591_537891591_4396482_3887301_n.jpg

    ReplyDelete
  58. خاور بلال:

    جناب عالی دليلوں اور حوالوں کی کيا کمی ہے اوپر کی بحث ہے- جہاں تک ماچھی گوٹ کے اجتماع ميں اکابرين کی مودودی سے عليحدگی کی بات ہے اس پہ مرحوم ارشاد احمد حقانی تفصيل سے متعدد بار روشنی ڈال چکے ہيں-

    امر واقعہ يہ ہے کہ مودودی کی تمام زندگی قلابازيوں ميں گزري، کبھی اليکشن حرام کبھی اليکشن ضروری ليکن ساری زندگی گوہر مراد (اقتدار) ہاتھ نہيں آيا سوائے ضياالحق اميرالمومنين کے دور ميں کسی حد تک اور اس دور ميں پھیلائی گئی انتہاپسندی آج تک قوم بھگت رہی ہے-
    پھر جماعت ميں ايک سے ايک بڑھ کے منافق- منور حسن کو ديکھيں، ہر دھماکے کے بعد فرماتے ہيں اس ميں طالبان نہيں بليک واٹر يا کوئی اور ملوث ہے ليکن حملہ آور کو بليک واٹر مان کے بھی حملہ آور کی مذمت سے انکار- ماضي سے جاري انہيں منافقتوں کی وجہ سے عوام کو کبھی بڑے پيمانے پہ بھا نہ سکے- آخر عوام سے مايوس ہوکے کوئی جماعتی بابر اعوان کی طرح پی پی ميں گيا اور کوئی نون ليگ ميں- جماعت کے اپنے اميدواروں کی ضمانتيں ضبط کا سلسلہ جاري ہے- رہے مودودی صاحب تو يہ کيسے ہوسکتا ہے کہ مودودی صاحب کی جماعت تو بری ليکن مودودی صاحب اچھے- الناس علی دين ملوکہم-

    ReplyDelete
  59. Sardar Shaukat Hayat in his book ‘The Nation that lost it soul’:

    "I conveyed the message of Quaid Azem to him [Maudoodi ed.] requesting him to pray as well as support Pakistan’s cause. Moulana replied: “How could he pray for “NA - PAKISTAN” (unclean Pakistan) ... Later the same Moulana beseeched for my help as I was a Minister in Panjab cabinet to rescue him from non Muslims of the area which task was performed by sending Pakistani troops. On reaching Pakistan, he issued an edict (Fatwa) against the “Mujahids” (fighters involved in Kashmir war) involved in Kashmir’s Jihad, saying that they would not be martyrs but would be dying the death of a dog because no Islamic State had declared Jihad."

    ReplyDelete
  60. ميں نہ تو کبھی جماعت اسلامی ميں رہا اور نہ کبھی ميری ملاقات اس کے کسی سربراہ سے ہوئی بلکہ جماعتِ اسلامی کا سيست ميں حصہ لينا ميرے ذہن کے مطابق قابلِ اعتراض ہے
    آپ مسلمان ہيں اور آپ کا دعوٰی ہے کہ اللہ آپ سے خوش ہے جس کا مطلب يہ ہوا کہ آپ باعمل متقی و پرہيزگار مسلمان ہيں
    حيرت ہوئی کہ آپ کو دين اسلام کا يہ اخلاقی اصول معلوم نہيں کہ جو شخص مر جاتا ہے اُس کا حساب اللہ کے سپرد ہو جاتا ہے اور اگر مرنے والے مسلمان ميں کوئی بُرائی تھی تو اُس برائی کا ذکر بھی گناہ کے ذمرے ميں آتا ہے ۔ آئمہ کرام لکھتے ہيں کہ مرے ہوئے مسلمان کی بُرائی بيان کرنے سے مرنے والے کو فائدہ اور بُرائی بيان کرنے والے کو نقصان ہوتا ہے
    جو بُرائی بيان کی گئی اگر وہ مرنے والے ميں نہيں تھی تو بْرائی بيان کرنے والے کو بہتان تراشی کا خميازہ بھُگتنا پڑے گا ۔ تھوڑا سا قياس کيجئے کہ غيبت کرنا اللہ نے مرے ہوئے سگے بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار ديا ہے جبکہ غيبت وہ بُرائی ہےجو ايک شخص ميںہو مگر اُس کی غيرموجودگی ميں بيان کی جائے
    مودودی صاحب سے جو کچھ منسوب کيا گيا اگر يہ بہتان نہيں تو متنازعہ ضرور ہے ۔ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کيلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ايک بات سنے اور بغير تصديق کے آگے بيان کر دے" ۔ کيا آپ نے ان منسوب بيانات کی تصديق کی ؟
    آپ کے شائع کردہ عکس کی تواريخ کو اگر مودودی صاحب کے بيان کی تاریخ مانا جائے تو يہ بيانات بالکل غلط ہيں ۔ اگر يہ تواريخ ان رسالوں ميں چھپنے کی ہيں اور بيانات پاکستان بننے سے قبل ديئے گئے تھے تو مودودی صاحب کے پاکستان آنے اور يہاں ايک فلاحی ادارہ کھولنے کے بعد وہ بيانات فاسق ہو جاتے ہيں ۔ ورنہ غير مُسلم سے مسلمان ہونا ناممکن ہوتا

    سياست کی بات کريں تو عبدالغفار خان صاحب نے پاکستان بننے کے بعد بھی اسے قبول نہ کيا ۔ افغانستان ميں رہ کر پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپيگنڈہ کرتے رہے اور وصيت کی کہ ان کا مردہ بھی پاکستان نہ لايا جائے ۔ وہ افغانستان ميں دفن ہيں
    فضل الرحمٰن صاحب کے والد مُفتی محمود صاحب پاکستان بننے تک کانگرس ميں شامل رہے اور پاکستان کے خلاف پروپيگنڈہ کرتے رہے
    تازہ بات ہے کہ الطاف حسين صاحب نے بھارت ميں پُرزور الفاظ ميں کہا تھا کہ پاکستان بننا ہی غلط تھا
    ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے والد شاہنواز بھٹو صاحب نے 1946ء ميں قائداعظم کے مقرر کردہ نمائندہ کے خلاف اليکشن لڑا اور ہار کر سندھ سے بمبئی منقل ہو گئے اور پاکستان بننے کے بعد وہيں قيام رکھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب 1953ء ميں سکندر مرزا کی دعوت پر پاکستان آئے ۔ اُنہيں جنرل ايوب خان سے سکندر مرزا نے متعارف کرايا اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب جنرل ايوب خان کے منہ بولے بيٹے بن گئے اور اسے ڈَيڈ کہہ کر مخاطب کرتے رہے
    اگر آپ انصاف پسند ہوتيں تو ان سب کے بيانات بھی اس تحرير ميں شامل کرتيں
    آج ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی پی پی پی ۔ مُفتی محمود صاحب کی جميعت علمائے اسلام اور الطاف حسين صاحب کی ايم کيو ايم پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہيں ۔ يہ تو قابلِ اعتراض نہيں مگر مودودی صاحب کے متنازع بيانات دنيا کی سب سے بڑی بُرائی ہے جسے ياد کراتے رہنا جنت کی چابی اور روشن خيالی کی ضمانت ہے

    اللہ مسلمانوں کو مسلمان بنائے ۔ آمين

    ReplyDelete
  61. عبدالغفار خان کی اولاد کی اے اين پی بھی حکومت ميں شامل ہے ۔ لکھنا رہ گيا تھا

    ReplyDelete
  62. افتخار اجمل صاحب، غیبت کی جو تعریف آپ نے فرمائ۔ اس میں کیا آپکا تبصرہ نہیں آتا۔ یہ سب لوگ جنکا آپ نے تذکرہ کیا یہ بھی تو دنیا سے گذر گئے ہیں اور اسلامی اقدار کا تقاضہ ہے کہ ان سب پہ بات چیت اور انہوں نے جو کچھ کیا اور کہا وہ سب بند کر دیا جائے۔ چونکہ اس بات کے اتنے واضح ثبوت نہیں ملتے کہ بھٹو، یحی خان بنگلہ دیش کے تخلیقی عوامل میں شامل تھے اس لئے انکو تاریخی کی روشنی میں اسکا ذمہدار قرار دینا بہتان ہوگا۔
    در حقیقت موءرخ ایک غیبت داں ہوگا اور اخبار غیبت کو جرم کو پھیلانے والے عناصر۔
    اگر سچ مچ ایسا ہو جائے تو دنیا کتنی پر امن جگہ بن جائے۔ تاریخ کے مضون کو دنیا کے چہرے سے مٹا کر پھینک دینا چاہئیے کہ یہ بہتان اور غیبت کے سوا کچھ نہیں۔
    اور آپ نے اپنے تبصرے میں بھی یہی کچھ کیا ہے۔
    جن دیگر جماعتوں کا آپ نے تذکرہ کیا ان سب نے پاکستان بننے کے بعد جنم لیا۔ اور ہم انکے آزدی سے قبل اور بعد کے نظریات کو جانچ نہیں سکتے۔ کیا خیال ہے آپکا اس بارے میں؟

    ReplyDelete
  63. بے نام حضرت نے جو انگریزی حوالے پیش کیے ہیں ان میں سے ایک سید مودودی کی اپنی تحریر ہے لیکن معذرت کے ساتھ وہ موضوع سے متعلق نہیں اور اس میں پاکستان کی بجائے خانہ کعبہ کی بات ہورہی ہے جس کا اس وقت محل نہیں۔ رہی بات دوسرے انگریزی حوالے کی تو وہ سید مودودی کی اپنی تحریر نہیں بالکہ ایک اور شخص نے سید مودودی کو موضوع بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اخباری تراشے میں جو آدھی آدھی لائنوں کے جملے سید مودودی سے منسوب کیے گئے ہیں اور جس طرح انہیں تحریک پاکستان کا ولن بناکر پیش کیا گیا ہے کیا اس کی تصدیق سید مودودی کی کسی اپنی تحریر سے ہوسکتی ہے؟ پاکستان کی پیدائش کو درندہ کہنا تو بڑی بات ہے چلیں کوئی ایسی ہی تحریر کا اقتباس لگادیں جس میں پاکستان کو گائے بھینس یا بکری جیسے القابات دیے گئے ہوں؟ مجھے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ اس اخباری تراشے کا مقصد محض نفرت پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔ کیا یہ بات میں دوبارہ دوہراؤں کہ سید مودودی تحریک پاکستان سے اختلاف رکھتے تھے لیکن وہ اختلاف اندھا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ان کا علمی استدلال تھا۔ اس علمی استدلال سے کوئ اقتباس پیش کیا ہوتا تو کتنی اچھی بات تھی۔ عنیقہ صاحبہ کا کوئی نظریہ پیش کرنا مقصود ہو تو ان کے بلاگ کو چھوڑ کر دیگر بلاگز سے حوالے پیش کرنا شریفانہ کام ہوسکتا ہے؟ بہرحال قابل حیرت بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جو اوروں پر تنگ نظری کے طعنے عموما کستے رہتے ہیں خود ان کی اپنی ذہنیت کا حال کتنا پتلا ہے۔ چچ چچ

    ReplyDelete
  64. بے نام حضرت نے جو انگریزی حوالے پیش کیے ہیں ان میں سے ایک سید مودودی کی اپنی تحریر ہے لیکن معذرت کے ساتھ وہ موضوع سے متعلق نہیں اور اس میں پاکستان کی بجائے خانہ کعبہ کی بات ہورہی ہے جس کا اس وقت محل نہیں۔ رہی بات دوسرے انگریزی حوالے کی تو وہ سید مودودی کی اپنی تحریر نہیں بالکہ ایک اور شخص نے سید مودودی کو موضوع بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اخباری تراشے میں جو آدھی آدھی لائنوں کے جملے سید مودودی سے منسوب کیے گئے ہیں اور جس طرح انہیں تحریک پاکستان کا ولن بناکر پیش کیا گیا ہے کیا اس کی تصدیق سید مودودی کی کسی اپنی تحریر سے ہوسکتی ہے؟ پاکستان کی پیدائش کو درندہ کہنا تو بڑی بات ہے چلیں کوئی ایسی ہی تحریر کا اقتباس لگادیں جس میں پاکستان کو گائے بھینس یا بکری جیسے القابات دیے گئے ہوں؟ مجھے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ اس اخباری تراشے کا مقصد محض نفرت پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔ کیا یہ بات میں دوبارہ دوہراؤں کہ سید مودودی تحریک پاکستان سے اختلاف رکھتے تھے لیکن وہ اختلاف اندھا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ان کا علمی استدلال تھا۔ اس علمی استدلال سے کوئ اقتباس پیش کیا ہوتا تو کتنی اچھی بات تھی۔ عنیقہ صاحبہ کا کوئی نظریہ پیش کرنا مقصود ہو تو ان کے بلاگ کو چھوڑ کر دیگر بلاگز سے حوالے پیش کرنا شریفانہ کام ہوسکتا ہے؟ بہرحال قابل حیرت بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جو اوروں پر تنگ نظری کے طعنے عموما کستے رہتے ہیں خود ان کی اپنی ذہنیت کا حال کتنا پتلا ہے۔ چچ چچ

    ReplyDelete
  65. محترمہ ۔ علم کا تقاضہ تو يہ ہے کہ آپ مدلل طريقہ سے ميرے لکھے کو غلط اور اپنی تحرير کو درست ثابت کريں ۔ آپ نے کردار کشی کی ناپاک مگر ناکام کوشش کی ۔ ميں نے آپ کو آئينہ دِکھايا ۔ آپ نے ميرے لکھے کا جواب يا اپنی تحرير کا جواز پيش کرنے کی بجائے حسبِ معمول موضوع کو اُلٹنے کی کوشش کی ہے

    ReplyDelete
  66. اسلام کا نام لے کر سادہ لوح مسلمانوں کو بےوقوف بنانے کا سب سے بڑا کارخانہ مودودی صاحب نے جماعت اسلامی کے نام سے لگایا.... اور ھمیشہ چور دروازے سے حکومت کرنے کی تدابیر کی...... مگر نہ یہ اپنے عزام میں پہلے کامیاب ہوئے اور نہ ہی آئندہ ہوں گے انشاءاللہ

    ReplyDelete
  67. افتخار اجمل صاحب، میں نے آپکے علم کی روشنی ہی میں جواب دیا ہے۔ آپ نے کہا
    'حيرت ہوئی کہ آپ کو دين اسلام کا يہ اخلاقی اصول معلوم نہيں کہ جو شخص مر جاتا ہے اُس کا حساب اللہ کے سپرد ہو جاتا ہے اور اگر مرنے والے مسلمان ميں کوئی بُرائی تھی تو اُس برائی کا ذکر بھی گناہ کے ذمرے ميں آتا ہے ۔ آئمہ کرام لکھتے ہيں کہ مرے ہوئے مسلمان کی بُرائی بيان کرنے سے مرنے والے کو فائدہ اور بُرائی بيان کرنے والے کو نقصان ہوتا ہے
    جو بُرائی بيان کی گئی اگر وہ مرنے والے ميں نہيں تھی تو بْرائی بيان کرنے والے کو بہتان تراشی کا خميازہ بھُگتنا پڑے گا' ۔
    اسکے بعد ایک کے بعد ایک آپ نے ان تمام لوگوں کا تذکرہ کر ڈالا جو مر چکے ہیں۔ اگر آپ اسے میری اخلاقی برائ گن رہے ہیں تو اسکے مرتکب آپ کیوں ہو رہے ہیں۔ کیا بھٹو، یحی خان، خان عبدالغفار یہ سب مردہ نہیں ہیں۔ آپ کیوں انکی غیبت کر رہے ہیں۔
    نہیں معلوم آپکے یہاں غلط اور صحیح دلیل کیا ہوتی ہے۔ جس پہ آپ قائم رہیں وہ دلیل ثابت ہوتی اور جو آپکو جھٹلا دے وہ موضوع الٹتا ہے۔
    یہ بات اوپر کے تبصروں میں، میں لاتعداد بار کہہ چکی ہوں کہ نہ مجھے مولانا صاحب کی یہ بات بری لگتی ہے کہ انہیں اس وقت پاکستان بنانے پہ اعتراض تھا اور نہ ہی مجھے اس سے کوئ غرض کہ وہ پاکستان بننے کے بعد ایک مختلف رائے پہ آگئے۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ انہیں پاکستان کے بننے پہ اعتراض تھا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لئے نہیں بنایا جا رہا ہے۔ اگر اس لئے بنایا جاتا تو وہ اس چیز کو پسند کرتے۔ جب مولانا صاحب اس وجہ سے ناپسند کرتے تھے تو بعد میں کیسے جماعت نے یہ ڈھونڈورا پیٹنا شروع کیا کہ پاکستان اسلامی نظام حکومت کے لئے بنایا گیا ہے۔ جبکہ خود اسکے بانی کا طرز عمل اس سے مختلف تھا۔
    لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ آپ لوگوں کے لیور کا فلکرم صرف الطاف حسین پہ ٹکا رہتا ہے اور اس سے باہر نکل کر دیکھنے کی صلاحیت ہی آپ حاصل نہیں کرنا چاہتے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔
    الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان بننا ایک غلطی تھی۔ اس سے پچاس سال پہلے یہ بات کئ لوگ کہہ چکے اور اب بھی کہتے ہیں۔ لیکن اب ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم ہر اس شخص کو جو یہ کہتا ہے کہ اس وقت نہیں بننا چاہئیے تھااسکے حوالے دیتے رہے۔ یہ ایک رائے ہے۔ ایسے ہی جیسے میری رائے ہے کہ سرحد کا نام پختونخواہ نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ اب تو کوئ دوبارہ جا کر انڈیا سے ری یونین نہیں کر رہا۔ ہم تو اپنے ملک کے ایک ٹکڑے کو بھی برضا و رغبت اپنے سے الگ کر چکے ہیں۔ اب یہ وہ پاکستان نہیں جس کے لئے آزادی کی جنگ لڑی گئ تھی۔ بنگلہ دیش کے الگ ہونے پہ آپکو افسوس ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس تراشے میں مولانا صاحب نے جتنی باتیں مستقبل کے حوالے سے کہیں وہ سب درست ثابت ہوئیں۔ یہ تو انکی دوربینی کا ایک واضح ثبوت ہے۔
    موضوع آپ الٹ رہے ہیں میں نہیں۔ یہ تراشہ کسی اخبار کا ضرور ہے مگر حوالے بیشتر ترجمان القرآن کے ہیں۔ انہیں نکالیں۔ اور پھر انہیں غلط کہہ دیں۔
    اوپر کے تبصروں میں انگریزی حوالے موجود ہیں اس کتاب کا نام ہے مسلمان اور انکے موجودہ مسائل۔ میں خود آج یا کل میں اس کتاب کو ڈھونڈنے نکلتی ہوں۔ آپ بھی دیکھئیے، گو کہ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا نہیں کریں گے۔ آپ صرف آکر مجھے ان اسلامی اصولوں کے بارے میں بتائیں گے جن پہ آپ عمل پیرا نہیں۔

    ReplyDelete
  68. " مولانا صاحب نے جتنی باتیں مستقبل کے حوالے سے کہیں وہ سب درست ثابت ہوئیں۔ یہ تو انکی دوربینی کا ایک واضح ثبوت ہے۔"

    اس کو

    self fulfilling prophecy

    کہتے ہيں- مودودی صاحب نے جو ناپاکستان کہا، انکي جماعت نے کر کے دکھايا-

    ReplyDelete
  69. دلائل کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ جتنے "ھاں" کے ملتے ھیں اُتنے ھی "نا " کے بھی مل جاتے ھیں -اور اگر نا بھی ملیں تو بھی بنا لیئے جاتے ھیں - یہی وجہ ھے کہ دُنیا کے تمام مذاھب میں بے شمار فرقے ھیں-اور سب کے پاس اپنے اپنے دلائل ھیں اور آپ اُنکو اپنے دلائل سے قائل نھیں کر سکتے ھیں -البتہ رنجشیں بڑھ جاتی ھیں میرے خیال میں اس بحث کو اب ختم کر دیں -ویسے آپ لوگ بھتر جانتے ھیں-شکریہ

    ReplyDelete
  70. While the level of dialogue and argumentation on this blog is, well, typical of how most of us react to facts when it confronts our pre-conceived notions, there is merit in Aniqa's post about Mawdudi's opinion about the Pakistan Movement. I should, however, insist that the person, not Aniqa but the one who compiled it, has done it selectively. The relationship between Mawdudi's Jamaat-i Islami and the Muslim Leaque were, at best, blow hot and cold, and, at worst, reflected Mawdudi's political opportunism and bigotry. The history is, indeed, chequered.

    Those of you who are interested in learning more about this topic may refer to Chapter 5 and 6 of Seyed Vali Reza Nasr's seminal work entitled "The Vangaurd of the Islamic Revolution: The Jama‘at-i Islami of Pakistan". This book is fortunately available online at http://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=ft9j49p32d;brand=ucpress

    The rest can continue bickering about irrelevant topics as a (flawed) defence mechanism...

    ReplyDelete
  71. نٹ پیٹو، آپکے اس تفصیلی تبصرے اور دیئے گئے لنک کا شکریہ۔ ابھی اسے جا کر دیکھتے ہیں۔
    میں ادارہ ء معارف اسلامیہ گئ کہ وہاں جماعت اسلامی اور مودودی کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن وہاں انکی کتاب، دی مسلمز اینڈ پریزیٹ ٹرموائیلز' یا ' شاید اردو میں اسکا نام 'مسلمان اور انکی موجودہ الجھنیں' نہ مل سکی۔ اب دوسری جگہوں پہ چیک کرتی ہوں۔

    ReplyDelete
  72. محترمہ اس کتاب کا نام شاید"مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" ہے جو آج کل "تحریک آزادیء ہند اور مسلمان" کے نام سے دستیاب ہے۔ ویسے مجھے دیر ہوگئی

    ReplyDelete
  73. یہ کتاب یہاں دستیاب ہے
    http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/

    ReplyDelete
  74. وقار اعظم، آپ نے صحیح کہا۔ اسکا ترجمہ یہی ہونا چاہئیے۔
    گمنام، آپ نے اچھا لنک دیا ہے۔ اسکا بے حد شکری۔

    ReplyDelete
  75. ابھی میں نے اس کتاب کا صرف مقدمہ پڑھا ہے۔ میرے ذہن میں اس وقت تک دو سوال تھے۔ اول یہ کہ کتاب کا نام کیوں تبدیل کیا گیا، تاریخی اہمیت کی حامل کتاب کا نام ویسا ہی رہنے دینا چاہئیے تھا جیسا کہ وہ تھا اور جو مزید مضامین اس میں شامل کئے گئے انہیں آخیر میں ضمیمے کی شکل میں ہونا چاہئیے تھا کہ کتابوں کو مستند رکھنے کا یہی طریقہ مستعملہے۔ دوسرے یہ کیا یہ کتاب اصل متن پہ ہے یا اسے ایڈٹ کیا گیا ہے۔ صاحب مرتب نے یہ دعوی کیا ہے کہ کتاب میں جو بھی تبدیلیاں کی گئ ہیں اسکا اصل مضمون سے کوئ تعلق نہیں۔ اب یہ تو کوئ اصل کتاب دیکھ کر ہی بتا سکتا ہے۔ ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ انہوں نے صحیح کہا ہوگا۔ اسکے ساتھ ہم اسے پڑھنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔
    امید ہے کہ وہ لوگ جو بہت بڑھ چڑھ کر اس سارے سلسلے کو دروغ گوئ کا ایک حصہ بتانے پہ لگے ہوئے تھے وہ بھی اسے پڑھنے کی زحمت فرمائیں گے۔

    ReplyDelete
  76. میرے بھائیو اور بہنوں! اوپر دئے ہوئے حوالے کی اصلیت کو پہچانو
    یہ تراشہ مساوات اخبار نے چھاپا تھا۔مساوات اخبار سابقہ سرخوں کا نمائندہ اخبار تھا بعد میں یہ پیپلز پارٹی کا ترجمان بنا۔میری معلومات کی حد تک یہی وہ اخبار ہے جس کے سرورق پر نذیر ناجی نے کسی رقص کرتی فاحشہ کا دھڑ اور گردن سے اوپر سید مودودی کی تصویر لگا کر شائع کی تھی ۔رہ گئے یہ تراشے میں انہیں اس بنا پر بھی پوری علمی دیانت کے ساتھ مسترد کرتا ہوں کہ سید مودودی کے قلم سے [ان کا پورا لٹریچر پڑھ لیں]ایک بار بھی کسی کی ذاتیات پر کوئی رقیق حملہ نہیں کیا گیا تھا ۔ان کا پورا لٹریچر جس انداز میں پہلے دن چھپا تھا ویسا کا ویسا اب بھی موجود ھے اگر کوئ اس میں یہ عبارات دکھادے تو بات بنے۔ ۔حقیقت یہ ھے کہ سرخوں کے نظریات کا مخالف سید مودودی اور ان کا لٹریچر تھا ۔ان کی عقلی اور علمی دلائل کا جواب ان سرخوں کے پاس نہیں تھا ۔اسی لیے انہوں نے ایک ثقہ عالم اور مفکر اسلام کے خلاف یہ گھٹیا چال چلی کہ اپنی طرف سے زہریلے جملے جوڑ کر سید کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ۔مجھے کسی سے کچھ نہیں کہنا سوائے اسکے کہ براہ کرم ان جملوں کے حوالے سے سید مودودی کے بارے میں کوئی تاثر اپنے ذہن میں بٹھانے پہلے لازماسید کے اپنے لکھے ہوئے لٹریچر کا مطالعہ کرلیں۔اور اب تو ان کی کتب نیٹ پر بھی بآسانی دستیاب ہیں۔کوئی چاہے تو رہنمائی کی جاسکتی ہے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ