میں اپنے ایک ساتھی کے بلاگ پہ تبصرہ کرتے کرتے رک گئ۔ امید ہے کہ برا نہیں مانیں گی، تبصرے کا نہیں، یہاں لکھنے کا۔ لکھنے جا رہی تھی کہ پاکستان کا نام تبدیل کر کے مرمتستان رکھ لیتے ہیں۔
جس کسی کی مرمت لگانی ہو یا لگوانی ہو ہم حاضر ہیں۔ سروس میں اعلی، خدمت میں آگے۔ ایسی مرمت لگائیں گے کہ اسے اور ہمیں دونوں کو اپنی پیدائش کا وقت یاد آجائے گا۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے ہم مرمت لگا کر رہیں گے۔ ہم سے ایک دفعہ مرمت لگوانے کا معاہدہ کر کے دیکھئیے۔ پھر آپ اپنے معاہدے سے پھر بھی جائیں لیکن ہم مرمت لگاتے رہیں گے۔ ہماری اعلی سروس کی مثال کے لئے، ہم نے اپنے ہی ملک میں مرمت لگانے کے شو روم کھول رکھے ہیں۔ یہاں آنے کی ضرورت نہیں، اپنے اخبار کھولیں اور ہماری اعلی کار کردگی ملاحظہ فرمائیے۔ مرمت لگانے کے معاملے میں ہم اتنے جذباتی ہیں کہ وہ سارے الفاظ جو م کی پیش والی آواز سے شروع ہوتے ہیں جب تک انکی اچھی طرح چھان پھٹک نہیں کر لیتے انہیں قابل مرمت ہی سمجھتے ہیں جیسے محبت ، مروت وغیرہ وغیرہ۔
نہیں ، پھر خیال آیا کہ ایسا تو نہیں ہے ابھی بھی پاکستان میں ایک قابل ذکر تعداد ان لوگوں کی ہے جو عدم مرمت کے قائل ہیں۔ اور وہ مرمت نہیں بلکہ مذمت پہ اکتفا کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کا نام مذمتستان ہونا چاہئیے۔
یہ بھی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے کہ ہر تھوڑے دن پہ کسی کی ایسی مرمت ہوتی ہے کہ پھر مذمت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یوں صورت حال ایسی بنتی ہے کہ
پھر ایک مذمت کا سامنا تھا مجھے
میں ایک مذمت کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس میں مذمت کو مرمت سے تبدیل کر لیں اور دوہرا مزہ لیجئے۔ یاد رکھئیے کہ بہرحال اثر میں مرمت ، مذمت سے کہیں برتر ہے۔ یہ لگنے والے پہ جو بھی اثر چھوڑے لگانے والے کا مورال کافی بلند ہو جاتا ہے۔ اور بہت دنوں تک رہتا ہے۔ اگر کوئ مذمتی سلسلہ شروع نہ ہو جائے تو پھر مرمت لگانے والے کی تسلی نہیں ہوتی یوں مرمت کا ایک اور چکر چلنے کا اندیشہ رہتا ہے تو مرمت کی تیزی کو مذمت کے دف سے مارا جاتا ہے یوں مرمت کے بعد مذمت سے ، مرمت لگانے والا ٹن ہو کر کچھ دنوں تک انٹاغفیل رہتا ہے۔
لیکن یہاں کہانی میں ایک ٹوئسٹ آتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب مرمت لگانے والے کی ، مرمت لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ پھر ہم فوراً ہی کرکٹ کے میدان میں اپنا بلا چھوڑ کر بھاگتے ہیں اور واشنگٹن جا کر حاضری دیتے ہیں۔ ڈیئر سر، ہمارے سپہ سالار کا دماغ خراب تھا۔ اس نے ہمارے علم میں لائے بغیر ہمارے دشمنوں کی مرمت کرنی چاہی۔ ڈیئر سر اسکی مذمت کرتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ سپہ سالار کی ایسی مرمت لگائیں کہ یاد رکھے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں، ڈیئر سر اس بد تمیز سپہ سالار کو کچھ عرصے بعد ملک کا صدر بنا دیتے ہیں اور بلّا چھوڑ کر حاضری دینے والے حیران پریشان اسکی مذمت کرتے ہیں۔ اب انکی مرمت کی باری شروع ہوتی ہے۔
خیر رات کو جب تابکاری والی تحریر کو توڑ کر تین ٹکڑے کر کے پوسٹ کیا، ایک بوجھ اتارا تو سوچا کہ اب اپنی سونے کی باری آئ۔ ٹی وی لاءونج سے گذرتے ہوئے، میری نظر ٹی وی پہ پڑی۔ ایک جملہ لکھا تھا۔ کیا اسلام میں لونڈی کی اجازت ہے؟ اور لقمان صاحب چند مولانا صاحبان سے گفتگو فرما رہے تھے۔ میں نے سوچا موضوع اچھا ہے مجھے بھی سننا چاہئیے۔ میری ایک مبصر نے اس بارے میں سوال بھی کیا تھا۔ میں خاموش ہو گئ تھی کہ کیسے اسکا جواب دیا جائے۔ تو اس کیسے کا جواب ملے گا۔ یہ الگ بات کہ پروگرام تقریباً اپنے خاتمے پہ تھا۔ چونکہ چار معزز صاحبان گفتگو فرما رہے تھے۔ تو اب میں ان میں سے ہر ایک کی تفصیلات نہیں لکھ سکتی۔
ایک مولانا صاحب نے اس وقت کا نقشہ کھینچا کہ کس ضرورت کے تحت جنگ میں گرفتار خواتین کو لونڈی بنایا جاتا تھا اورچونکہ ان مردوں کی پہلے سے چار بیویاں موجود ہوتی تھیں اس لئے ان گرفتار خواتین کو لونڈی بنا کر مرد ان سے بغیر نکاح کے تعلقات رکھتے تھے۔ قرآن اور سنت کے تحت یہ بالکل صحیح ہے۔ بقیہ دو نے بھی انکی تائید کی۔ ان میں سے تو ایک صاحب بہت جوش سے گردن ہلا رہے تھے۔ لقمان صاحب نے ان سے دریافت کیا تو پھر اگر پاکستان کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں مقبوضہ کشمیر پہ حملہ کرے اور اسے فتح ہو تو کیا حاصل ہونے والی خواتین کو لونڈی بنانا درست ہوگا۔ مولانا صاحب تھوڑا سا رکے اور کہنے لگے کہ جن ممالک سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں ان سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق بات چیت ہو گی اور اقوم متحدہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ گرفتار خواتین کو لونڈی بنایا جائے۔
اس پہ لقمان صاحب نے کہا کہ اچھا چلیں اسرائیل سے ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس پہ حملہ کریں اور ہمیں فتح حاصل ہو تو ایسا کرنا درست ہوگا۔ جواب ملا کہ اس صورت میں یہ درست ہوگا۔
تو اے مرد مومن، اب اسرائیل کی مرمت کرنے میں دیر کس بات کی ہے۔ امریکہ کی ناجائز اولاد کو ایسی ہی سزا دینی چاہئیے جس سے انکی غیرت کا جنازہ نکل جائے۔ لیکن سنا ہے کہ وہ غیرت کے معاملے میں ایسے ہی ہیں جیسا کہ کسی کی نزاکت کے بارے میں سن کر ایک صاحب نے حیرانی سے کہا کہ
سنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں
تو وہ ازار بند کہاں باندھتے ہیں
یعنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بے شمار قتل و غارت گری جو ہمارے یہاں غیرت کے نام پہ کی جاتی ہے وہ اسکے لئے کیا بہانہ کرتے ہونگے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
یعنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بے شمار قتل و غارت گری جو ہمارے یہاں غیرت کے نام پہ کی جاتی ہے وہ اسکے لئے کیا بہانہ کرتے ہونگے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
انکے یہاں غیرت کی عدم موجودگی کے شک کی بناء پہ ایک نامعلوم راوی کہتا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد انکی خواتین نے بلا فرق جائز اور ناجائز بچے پیدا کئے کہ انکی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوکیونکہ ہولوکاسٹ کے بعد انکی آبادی بہت کم ہو گئ تھی۔ سو معلوم نہیں کہ اس صورت میں وہ خواتین اور وہ خود کیا کریں گے۔
کیونکہ اس اسرائیلی مملکت کی نظریاتی بنیاد ہی 'مرمت کرو اور مذمت کرواءو' کے نعرے پہ رکھی گئ تھی تو پیدا ہونے والے ہر بچے کو ریاست نے ایک کارآمد شہری بنانے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کی۔ اور اس طرح سے وہ بڑے ہو کراتنے اچھے طریقے سے مرمت لگانے کے قابل ہو گئے کہ چنگیز خان بھی انکے سامنے پانی بھرے۔ کون سا پانی، یہ بتانے میں حد ادب مانع ہے۔
وہیں پہ ایک مبصر کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل کی مرمت لگانے کے نتیجے میں جوابی مرمت ہو گئ تو کیا ہوگا۔ ایسا تبصرہ کرنے والے افراد ہی مرمت لگانے کا حوصلہ رکھنے والوں کی ہمت شکنی کرتے ہیں۔ ہم انکی مذمت کرتے ہیں۔ایک مرمت لگانے والا ہی دوسرے مرمت لگانے والے کی نفسیات سمجھ سکتا ہے۔
دعا کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں دن رات مرمت کی دھما چوکڑی مچانے والے اسرائیل کے صحن میں کود جائیں تاکہ ہم بھی کسی دن مرمت اور مذمت کے چکر سے باہر نکل کر آرام سے سوچیں کہ آج کیا پکے گا۔
اب اسرائیل بھی؟؟؟۔۔۔
ReplyDeleteاب اسرائیل بھی کیا؟ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہے وہی ہے۔ ہر روز ظلم اور بربریت اور ڈھٹائ کے نئے ریکارڈ قائم کرتا ہے۔ یہی اسکا مقصد پیدائش ہے۔
ReplyDeleteہم یہاں یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم تو ابن سینا اور افلاطون پیدا نہیں کر سکتے۔ آپ دیکھتے نہیں ہمارے ساتھ کتنی زیادتی ہوتی ہے۔ مگر انکے پیدا کرددہشت کے ہیرو کا اپنا ہیرو ماننے میں ذرا تامل نہیں ہوتا۔ جتنے دھماکے پاکستان میں پچھلے ایک سال میں ہوئے، جتنے لوگ ان میں مارے گئے۔ یہی دھماکے ہمارے معصوم،حالات کے مارے ہوئے، خدمت دین کے جذبے سے سرشار جہادی اسرائیل میں جا کر دکھائیں۔ یہاں پہ بھی تو وہ خودکش حملہ آور استعمال کرتے ہیں۔ یہ جان تو ایک دن جانی ہے، پھر جاں کے زیاں کا افسوس ہی کیا۔ اگر اسرائیل کے دماغ ٹھکانے نہ آئیں تو دیکھیں۔
بہت خوبصورت تحریرھے۔مجھے تو مولوی صاحب کی ایک ہی بات پسند آئی کہ اسرائیل کو فتح کرنے کے بعد لونڈیاں بنا نا جائیز ہو جائے گا ۔اب ٹی وی والے مولوی صاحب کب اسرائیل فتح کرکے دے رھے ہیں؟۔میں تو کہتا ہوں۔اسرائیل وغیرہ کو چھوڑیں کھائیں پیئں عیش کریں۔مگر پہلے گھر کی بھوک ختم کریں۔فلسطین کے آس پاس والے تیلیوں کو جب جوش آئے تو ان کے حق نعرے لگا لیں۔بعد میں لونڈیوں کی باندر بانٹ کے وقت پہنچ جائیں گئے۔
ReplyDeleteویسے جو "مرمت" کے خوف سے لندن میں بیٹھ کر "مذمت" کر رہے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ReplyDeleteاتنی اچھی تحرير کے بيچ ميں جب مجھے پھي پھی کاکا (ٹوائلٹ) کے ليے اٹھايا جاتا ہے تو سخت غصہ آتا ہے ، قومی طور پر ہم کسی کو مرمت لگانے کے قابل ہو جائيں تو کيا مزہ ہے ميری ايک پارکی الجيرين دوست اکثر مجھے کہتی ہے پاکستانی بڑے اچھے ہوتے ہيں ايک دو بار تو ميں نے اسکی بات کو دماغی خلل سمجھ کر چھوڑ ديا ہفتہ پہلے يہی دہرانے پر ميں نے اس سے وجہ دريافت کی تو بولی ايک دفعہ ميرے مياں نے مجھ پر ہاتھ اٹھايا ميرے شور مچانے پر پڑوسی پاکستانی آدمی اور بيٹے آ گئے ميرے شوہر کی ايسی مرمت لگائی کہ چار سال ہو گئے اسکے بعد ميرے شوہر نے مجھ پر ہاتھ نہيں اٹھايا ،پاکستانی بڑے اچھے ہوتے ہيں مجھے بہت اچھے لگتے ہيں
ReplyDeleteلقمان صاحب والا چينل بھی ساتھ بتا دينا تھا اب جو جو بلاگ پڑھے گا سارا دن ريسرچ کر کے مطلوبہ چيز تک پہنچگا
ReplyDeleteجہانزیب صاحب، آپکے لئے ایک تحریر کا لنک حاضر ہے۔
ReplyDeletehttp://anqasha.blogspot.com/2009/05/blog-post_15.html
اسے پڑھیں اور انصاف کریں، میں آپ سے اپنے سب بڑے دشمن کی بات کرتی ہوں، میں اتنے بڑے ملک اور اتنی بڑی ملت کی بات کرتی ہوں اور آپ لندن والوں کا قصہ لے آتے ہیں۔ یہ تو فیئر گیم نہیں ہے۔اینٹ کا جواب پتھر سے دیں، اینٹ سے دیں کنکری سے دیں گے تو کیا ہوگا۔ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔ خدا آپکا حامی و ناصر ہو۔ اللہ آپکو آپکے بلند مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ اور آپ اس مقام پہ پہنچیں جہاں سے کوئ مذمتی بیان جاری کر سکیں یا کسی کی مرمت لگا سکیں۔
:)
اسماء، میرا خیال ہے لقمان مبشر کا پروگرام ایکسپریس چینل سے آتا ہے رات کو گیارہ بجے پرسوں پیر تھا۔ اور تاریخ اکتیس مئ۔ مل جائے تو مجھے بھی بتائے گا۔ میں نے تو آخری کے چند منٹس دیکھے۔
ReplyDeleteشکریہ یاسر صاحب۔
ReplyDeleteخوب لکھا ہے آپ نے ۔ ۔
ReplyDeleteزبردست لکھتیں ہیں آپ مجھے پسند آتا ہے ۔ (:
بوچھی
یاسرعرفات کے سامنے کسی نے کہا کہ یہودی ہمارے دشمن ہیں- انہوں نے ٹوکا اور کہا کہ ہماری یہودی سے نہیں صہونیت سے لڑائی ہے،اور صہونیت ہماری ہی نہیں یہودیوں کی بھی دشمن ہے ,مگر یہ سچ ہے کہ ہم یہودیت کو صیہونیت سے کنفیوز کر دیتے ہیں، جیسے لوگ اسلام کو طالبان سے کرتے ہیں-اور یہودی بھی صہونیت کا ایسے ہی شکار ہیں جیسے ہم طالبان کا-مگر فرق یہ ہے کہ صہونی شاید ہی اپنے یہودیوں کو تشدّد کا نشانہ بناتے ہوں-
ReplyDeletewELL SAID APNA KOREA!
ReplyDeleteہاں جی یہی دھماکے ہمارے معصوم،حالات کے مارے ہوئے، خدمت دین کے جذبے سے سرشار جہادی اسرائیل میں جا کر دکھائیں۔ اور آپ ہمیں یہاں تابکاری پر لیکچر دیں یا کسی مسئلہ معترضہ پر اپنی تحریر کا جادو جگا کر دادو تحسین کے ڈونگرے سمیٹیں۔ واہ جی واہ کیا زبردست تحریر ہے اس سے پہلے اس موضوع پر اس سے بہتر تحریر آج تک نہیں پڑھی۔ آپ نے تو کی بورڈ کا حق ادا کردیا۔
ReplyDeleteیہ لقمان بھی جاہل ملا کو پٹھا کر ٹی وی کا پیٹ پھرنے لگتا ہے، لندن والے پیر صاحب اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے تھے۔۔۔۔
ویسے جی مبارکاں،بڑی خوشی ہوئی پڑھ کر آپ لوگوں نے سب سے پہلے ہم سے آگے بڑھ کر ملت کی بات کرنی شروع کردی ہے۔۔۔۔۔۔
LoLzzzz
کیسے عجیب لوگ ہیں
ReplyDeleteکہاں کی بات کہاں لے جاتے ہیںؕ
بھلا بھائی کا اس سارے لفڑے سے کیا لینا دینا؟
جیلس لوگ۔۔۔
محمد وقار اعظم صاحب، چاہے جیسی قسم لے لیں وہ تابکاری والی تحریر آپکے لئے نہیں تھی۔ اگر آپکے لئے ہوتی تو آپ بھی اسکے تبصروں میں حصہ لیتے۔ اس لئے اسکی فکر میں نہ گھلیں۔
ReplyDeleteلقمان اور آپکے بیچ کیا مسئلہ ہے یہ آپ اور وہ جانیں۔ مجھے تو بہت کم یہ سعادت حاصل ہو پاتی ہے کہ انہیں دیکھوں۔ اب یہ جاہل ملّا کی قسمت یا میری۔ اس بارے میں خدا بہتر جانتا ہے۔
داد و تحسین کے ڈونگروں میں اپنا ڈونگرہ شامل کرنے کا بے حد شکریہ۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ لندن والے پیر صاحب سے آپ اتنا مستفید ہوئے ہیں اور اتنی اندرون خانہ کی باتیں جانتے ہیں۔
چونکہ اب آپکو یقین ہو گیا ہے کہ ہم آپ سے بڑھ کر ملت کی بات کرنے لگے ہیں، امید ہے میری تحریروں پہ اب آپکی کرم نوازی ہوتی رہے گی۔
:)
جعفر، سنا نہیں
ہم نہ ہونگے تو کسی اور کے چرچے ہونگے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔
اسی خیال سے ہم دل برا نہیں کرتے۔
اپنا کوریا صاحب، بہت اچھی بات بتائ آپ نے۔ مگر اسکا احساس بہت کم لوگوں کو ہے۔
ReplyDeleteارے بی بی ۔۔۔چلیےرہنے دیجئے۔۔۔ آپ سے عزت سے بات کرنا کچھ اچھا نہیں لگے گا مگر چونکہ اسلام نے عورتوں کا احترام کرنے کو کہا ہے تو اسکی تعلیمات سر آنکھوں پر۔۔۔لیکن جو آپ کی جہالت کا عالم ہے تو آپ سے علمی گفتگو تو بالکل زیب نہیں دیتی ۔۔۔شاید اسی لیے ایسے موقع پرہی "قالو سلامہ"کا حکم دیا گیا ہے۔ ویسے اسلام سے متعلق اتنی گستاخی کرنے پر تو آپ کو سلام کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ ۔۔بی بی اگر آپ نے قرآن کو دھیان اور یقین کےساتھ پڑھا ہوتا تو اس گھونچو لقمان یا اسکے مہمان پر اسلام کو قیاس نہیں کرتیں بلکہ اپنے حاصل کردہ علم اور کامل یقین کی روشنی میں قرآن میں بیان کردہ صحیح بات کو سمجھے بغیر گڑ بڑ گھوٹالہ نہیں کرتیں۔۔۔ خیر میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ آپ سے علمی گفتگو فضول ہے۔۔۔
ReplyDeleteویسے بی بی آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اسلام کو سمجھنا ہے تو مولوی یا مسلمان کو مت دیکھو بلکہ اللہ کے احکام، رسول کے فرمان اور قرآن کو دیکھو ۔۔۔ تو ایک دفعہ اس معاملے پر خود تحقیق کرلیجئے ۔۔۔ اورخود سمیت ہر کسی کو عالم یا اسلام کا ٹھیکیدار مت سمجھ لیا کیجئے ۔۔۔یہ اسلام جتنا دوسرے مسلمانوں کا ہے اُتنا ہی آپ کا بھی ہے ویسے موٹی موٹی کتابیں پرھنے والوں کےلئے میرا ایک قطعہ ہے:
مری ہر خواہشِ پُرخوف کا چہرہ حَسِیں بنتا
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گماں میرا یقیں بنتا
مفاہیم و مطالب کھول کر سمجھانے پڑتے ہیں
کتابیں لاد دینے سے گدھا عالم نہیں بنتا
آداب عرض ہے۔۔۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteاسلام میں نہ غلام بنانا جائز ہے نہ لونڈیاں بنانا ،اللہ ان مولویوں کو ہدایت عطافرمائے،
ReplyDeleteاسلام تو آیا ہی غلامی ختم کرنے کے لیئے تھا ورنہ غزوہ بدراور اس کے بعد ہونے والے غزووں کے قیدیوں کو زر فدیہ اداکر کے رہا نہ کیا جاتا ،اور جو پہلے سے غلام تھے ان کی رہائی کا اتنا اجر بتایا گیا اور اکثرخطاؤں کا بدلہ غلام آزاد کرنا رکھاگیا جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ غلامی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم کیا جائے اسی لیئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو غلام کیسے بناسکتے ہوں جنہیں انکی ماؤں نے آزاد جنا ہو!
اللہ ہمیں دین کا صحیح فہم اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین
صفدر صاحب، آپکے دماغ کو روشن کرنے کے لئے اتنا کہنا کافی ہے کہ جو جاہل مولانا صاحب یہ کہہ رہے تھے وپ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامیات سے متعلق کسی شعبے میں ریسرچ سے تعلق رکھتے تھے۔ میں انکا نام بھول گئ ہوں۔ آپکی سمجھ پہ تو اس وقت میرے عورت ہونے کے احساس نے اتنا غلبہ کیا ہوا ہے کہ یہ بھی نہیں سمجھے کہ یہ سب ٹی وی پہ نشر ہو رہا تھا پورے پاکستان کی عوام کے لئے۔ اگر آپکو اس پہ اعتراض ہے تو لقمان مبشر سے رابطہ کیجئیے۔ امید ہے آپ ان سے بے عزتی کے ساتھ بات کریں گے کہ مردوں کے ساتھ بے عزتی سے بات کرنے کی اسلام میں کوئ ممانعت نہیں ہے۔
ReplyDeleteیہ تو سمجھ میں آگیا کہ یہ سب پتلی کتابوں کا کیا دھرا ہے۔ اللہ آپکو مزید پتلی کتابیں پڑھنے کی توفیق دے۔
لیکن ایک بات یاد رکھئیے گا کہ وہ تین مولانا جہاں اس ایک بات پہ متفق تھے وہاں اس گھونچو لقمان مبشر نے اپنے ناظرین سے آخر میں کہا کہ ناظرین ان مولانا صاحبان نے جو کچھ بھی کہا اس سے الگ اس قسم کے مسائل کے لئے خود قرآن اور حدیث کا مطالعہ کیجئیے۔
ReplyDeleteلیک آپ جیسے صاحب عرفان لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مولانا صاحبان کیا پیغام دے رہے ہیں اور وہ دوسرا شخص کتنی الگ بات کہہ رہا ہے۔ سلام کی گستاخی کون کر رہا ہے وہی جسکے پیچھے کھڑے ہو کر آپ نماز پڑھیں گے اور جسے عزت سے سلام کرنے کو آپکا دل چاہے گا۔
چونکہ یہ فتوی میرا جاری کردہ نہیں ہے بلکہ آپ ہی کے کسی عالم کا ہے تو اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں اپنے آپکو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتی ہوں۔ یہ بات کسی اسلام کے ٹھیکیدار نے ہی کہی ہے۔ میں نے نہیں۔
یہ لقمان بھی جاہل ملا کو پٹھا کر ٹی وی کا پیٹ پھرنے لگتا ہے، لندن والے پیر صاحب اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے تھے۔۔۔۔...
ReplyDeleteجماعت کے ليے
’ہم آہ بھی بھرتے ہيں تو ہو جاتے ہيں بدنام
وہ قتل بھی کر ديں تو چرچا نہيں ہوتا.. .
اس جماعت کی وجہ سے تو آج اسلام زندہ ہے۔ ابھی تو دہلی کے لال قلعہ پر اور وائٹ ہاؤس پر اسلام کا جھنڈا لگانا ہے مودودی حضرت تو تمام علوم و فنون ميں مہارت رکھتے ہے۔ يہ ہماری کم علمی ہے کہ ہميں معلوم ہی نہيں کہ ان حضرت نے يہ علم و فن کس سے حاصل کيا۔اس ليے ان حضرت کے پيروکار يہ کہتے ہيں کہ جماعت اسلامی ميں اسلام ہے اسلام ميں جماعت اسلامی نہيں۔
عنیقہ آپ بعض اوقات اپنی سوچ پر سختی کر جاتی ہیں۔
ReplyDeleteاور آپ سے اللہ واسطے کا عار رکھنے والے آپ کی اچھی تحریروں کو بھی بغض معاویہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔آپ نے اس تحریر میں اسلام کا مذاق نہیں اڑایا مولوی کی جہالت کا مذاق ضرورو اڑایا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کی مسلمانی یادینی تعلیمی قابلیت کیوں مشکوک ھوگئ؟
ویسے لڑائی تو میں بھی آپ سے کرتا رہوں گا۔ایسے ہی جیسے ایک گھر والے کرتے رہتے ہیں۔دوسرے دن بھول جاتے ہیں۔تھوڑی بچپن کی یاد تازہ ھوجاتی ھے.
lol.
وہ ناجائز بچے پیدا کرنے والی بات میں نے انقلاب فرانس کے متعلق بھی سن رکھی ہے۔ پتا نہیں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟
ReplyDeleteیاسر صاحب، میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ کہا مولانا صاحب نے، وہ بھی ایک نے نہیں تین نے۔ لیکن مسلمانیت میری مشکوک ٹہر گئ۔
ReplyDeleteاگرچہ کہ یہ میں نے ملک کی مجموعی صورت حال کے لئے لکھا، مگر اس میں سے بھی لوگوں کو ایم کیو ایم کی بو آگئ۔
اب بھی خیر ہے کہ اس میں سے لوگوں نے پنجابی تعصب اور مردوں کی شان میں بے عزتی دریافت نہیں کی۔
ویسے میری ایک خواہش ہے کہ کہیں سے ایکسپریس والے اس تحریر کو اگر پڑھ لیں تو ایک دفعہ پھر اس پروگرام کو ٹیلی کاسٹ کر دیں۔ تاکہ باقی لوگ بھی دیکھ سکیں۔
جعفر
ReplyDeleteکیسے عجیب لوگ ہیں
کہاں کی بات کہاں لے جاتے ہیںؕ
بھلا بھائی کا اس سارے لفڑے سے کیا لینا دینا؟
جیلس لوگ۔۔۔,....
تعصب میں انسان اندھا ہو جاتا ہے
مینوں پتا سی۔۔۔۔ ایھوئی جواب آنااے۔۔۔۔ ہور تے تسی کچھ لکھ نئیں سکدے۔۔۔
ReplyDeleteدیکھئے محترمہ غصہ کرن دی کوئی لور نئیں۔۔۔ میں نے آپ کا یہ پہلا بلاگ نہیں پڑھا جو آپ کے لکھےکو سمجھ نہ سکوں۔۔۔ویسے محترم عزت مآب جناب مبشر لقمان مد ظلہ العالی نے جو مشورہ ارشاد فرمایا تھا اُس پر آپ نے خود عمل کیوں نہ کیا؟؟؟ ملائوں کی جاہلانہ گفتگو کو اپنے بلاگ کا حصہ ہی کیوں بنایا؟؟؟ لوگوں کوحقیقت بتانا ہی تھی تو قرآن اور حدیث پڑھ کر اصل بات لکھدیتیں۔۔۔ اصلاح ہوجاتی پوری قوم کی ۔۔۔ یہ راستہ بھی تو تھا ناں اصل بات کرنے کا؟؟؟ ۔۔۔ پھر بھڑکانے والا گستاخی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟؟؟کیوں ایک غلط بات کو کسی کے کہنے پر اسلام کا حصہ جانا؟؟؟ اسے اس ملا کی زبانی قران و حدیث کی رو سے صحیح کہہ کر کیوں مذاق بنایا اسلام کا؟؟؟
اسی لئے میں نے مبشر لقمان کو گھونچو کہا تھا جسے یہ پتا نہ ہو کہ کس سے کیا پوچھنا چاھئے اسے اور کیا کہا جائے ۔۔۔ دوسروں کو قرآن و حدیث کا مشورہ دے دیا اور خود ملاَوں سے پوچھتا رہا واہ جی واہ۔۔۔ ویسے وہ کل ملعون مرزا غلام احمد کوبھی لیے بیٹھا تھا جس نےگھونچو کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صرف قادیانی ہی مسلمان ہوتے ہیں باقی آپ سب تو کافر ہیں ۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔پتا نہیں لوگوں کو منہ کی کھانے کا شوق کیوں ہوتا ہے ۔۔۔
اور سرسری طور پر اطلاعاََ عرض ہے کہ لونڈی بنانے کا سلسلہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی ختم کروادیا تھا ۔۔۔ اور اس وقت تک زمانہ جاہلیت میں جتنی لونڈیاں بنائی جاچکی تھیں اُنہیں چھوڑنے کاحکم اس لئے نہیں دیا گیا کہ وہ جن جن کے پاس تھی وہ انکے زیرکفالت تھیں۔۔۔اگر سب کو آزاد کردیا جاتا تو ایک بڑی تعداد کفالت سے محروم ہوجاتی اور آپ ماشا اللہ پڑھی لکھی ہیں تو سمجھ سکتی ہیں کہ پھر کیا معاشی اور معاشرتی مسائل جنم لیتے ۔۔۔اسلام اور قرآن کی ساری تعلیمات ہمیں
ایک حد میں رہتے ہوئے حکمت سے کام لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔۔۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک فرمان کو دیکھیں گی تو آپ کو علم وحکمت کے نئے در وا ہوتے نظرآئیں گے۔۔۔الحمد للہ۔۔۔
تومحترمہ عنیقہ ۔۔۔ یہ سب باتیں قصہ پارینہ ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ابتدائے آدمیت میں بھائی بہنوں کی آپس میں شادی ہوتی تھی اور جیسے شراب بھی بعد میںبتدریج اور آہستہ آہستہ حرام کی گئی ورنہ حکم آنے سے پہلے نماز بھی پڑھی جاتی تھی اور شراب بھی پی جاتی تھی۔۔۔ہے ناں؟ اور پھر جتنی زیادہ خرابی ہو مرمت میں وقت بھی اتنا لگتا ہے ۔۔۔
اور جہاں تک عورت کی عزت کا تعلق ہے تو عورت تو اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی ہیں اورایک لمبی فہرست ہے قابل قدر خواتین کی ۔۔۔ آج بھی اُن عورتوں کا احترام کیا جاتا ہے جو خود کو عورت کےاصل مقام پر برقرار رکھتی ہیں۔۔۔ورنہ ایسا تو نہیں ہوتا ناں کہ مرد یا عورت جو جی میں آئے کرتا رہے اور اس کی سرزنش بھی نہ کی جائے۔۔۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عورت کا احترام کون کرسکتا ہے ۔۔ لیکن جہاں بات اصول کی ہو تو فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسکا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔۔۔ اس کا مطلب احترام عورت میں کمی بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔
اور پھر آپ نے یہ حدیث بھی تو پڑھی ہے ناں جسکا مفہوم یہ ہے کہ ۔۔۔ کوئی عورت خوشبو لگا کر
اس حال میں گھر سے باہر نکلی کہ اُس کی خوشبو کسی نامحرم کو پہنچ گئی تو وہ زانیہ ہے۔۔۔
صفدر صاحب، آپ نے شاید تاریخ نہیں پڑھی۔ یا حال پہ نظر نہیں رکھتے۔ ایک دفعہ ہمارے جعفر صاحب نے ایک فیس بک پہ اسٹیٹس ڈالا کہ پانچ سے زیادہ ایسے مسلمان بادشاہوں کے نام لکھئے، جنکی ایک بیوی اور کوئ کنیز یا لونڈی نہ ہو۔ انہوں نے یہ سوال وہاں ڈالا تھا۔ یہی سوال میں آپ سے کرتی ہوں۔
ReplyDeleteمیں فتوی نہیں دے سکتی، میں صرف فتوی دینے والوں کے فتووں کا حوالہ دے سکتی ہوں۔ ہمارے مذہبی نکتہ ء نظر رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث عام لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ جس طرح بیمار ہونے پہ ہم ایک ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں اور اسکی ہد بات پہ عمل کرتے ہیں۔ بالکل ٹھیک اسی طرح ہمیں دین سمجھنے کے لئے دین کے عالموں کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔ یہ ایک دینی عالم کی رائے ہے جو انہوں نے ٹی وی پہ دی۔ میں صرف اپنے قاری کو یہ بتا سکتی ہوں کہ کسطرح انکے ایمان کو مضبوط تر بنایا جاتا ہے۔ میں انہیں صرف اس چیز سے آگاہ کر سکتی ہوں کہ یہ معلوم کرنا بھی کتنا مشکل کام ہے کہ صحیح عالم دین کون ہے۔ وہ جو لقمان مبشر کے ساتھ ٹی وی پہ بیٹھے تھے یا صفدر صاحب جو خوشبو لگا کر نکلنے والی عورت کو زانیہ قرار دے رہے ہیں۔ برسبیل تذکرہ زانی مرد کی تعریف بھی ضرور بتائے گا۔
اس ساری بات کو پڑھ کر ہمارا قاری ایک دفعہ پھر الجھن میں ہوگا کہ خود سے نتائج اخذ کرے یا عالموں سے رجوع کرے۔
ویسے اس سارے جرم کے قصوروار جو چار مرد ہیں ان سے رابطہ کریں۔ اسلامی طریقہ یہی ہے۔ عورتوں کے ساتھ آپ جیسے متقی مردوں کا وقت ضائع کرنا درست نہیں۔
سَچا پاکستانی: کاپی پیسٹ اچھا کرلیتے ہو۔ ویسے یہ سب کچھ محمد حنیف کے بلاگ پر پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں۔ کچھ اپنے خیالات عالیہ سے آگاہ کردیتے۔۔۔۔۔
ReplyDeleteعنیقہ ناز: میں نے کچھ عرصہ پہلے بھائی کا لکھا ہوا ایک کتابچہ پڑھا تھا جس میں انھوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں پاکستانی حدود قوانین کا جائزہ لیا تھا۔ اس کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ بھائی لونڈیوں کے معاملے ملا سے بہتر بول سکتے ہیں۔ بس اتنی سی بات تھی آپ نے نجانے کیوں دل پہ لے لیا۔۔۔۔۔
ایک سے زیادہ بیوی ہونا برا نہیں ہے۔۔۔آپ مجھے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ تعالی اجمعین میں سے کسی ایک کا بھی بتا دیں کے ان کی لونڈیاں ہوں۔۔۔
ReplyDeleteاوپر عبداللہ نے بھی حضرت عمر کا فرمان نقل کیا ہے ناں جسمیں غلام یا لونڈی بنانے کی واضح ممانعت ہے۔۔۔ ہے ناں؟
اور قرآن کو سمجھنے کےلئے پھر ملا کی بات۔۔۔ دیکھئے اللہ نےسورۃ القمر کی آیت نمبر سترہ میں کیا کہا ہے
"اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ {۱۷}"
باقی قرآن کا بھی مطالعہ کیجئے انشائا للہ دیگر سوالات کے بھی جواب مل جائیں گے۔۔۔
یہ بھائی صاحب کون ہیں؟
ReplyDeleteمحمد وقار اعظم
ReplyDeleteسَچا پاکستانی: کاپی پیسٹ اچھا کرلیتے ہو۔ ویسے یہ سب کچھ محمد حنیف کے بلاگ پر پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں۔ کچھ اپنے خیالات عالیہ سے آگاہ کردیتے۔۔۔۔۔
اتنی جلدی غصہ کرگئے
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جناب میرے خیالات عالیہ و سارے پاکستان کے خیالات عالیہ یہ ، جماعت نے پاکستان کی کافر تاریخ کو مشرف بہ اسلام کیا، پھر سکولوں کے استادوں کو سکھایا کہ یہ تاریخ پڑھائی کیسے جاتی ہے۔ جماعت نے ہمارے پہلے سے ہی مسلمان آئین کو اور مسلمان کیا پھر ججوں کو سکھایا کہ اس آئین کی تشریح کیسے کی جانی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے کمیونزم کو شکست دی، سویت یونین کے حصے بخرے کیے، کتنی ہی وسط ایشیائی ریاستوں کو آزاد کرایا، افغانستان کو تو اتنی دفعہ آزاد کرایا کہ خود افغانی پناہ مانگ اٹھے۔ کشمیر کو بھی تقریباً آزاد کروا ہی لیا تھا لیکن کشمیری نہیں مان کے دیے۔ تجزیہ نگاروں کو بھی یہ ہنر سکھایا کہ اگر کوئی دلیل نہ بن پڑے تو کوئی آیت اور حدیث پڑھ دو مخالف کا منہ بند ہو جائے گا۔
یاسر صاحب،
ReplyDelete:)
یہ ہے جاپان میں بیس سال سے رہنے کا نقصان۔
:)
بھائ صاحب، ہماری بلاگنگ کی دنیا میں چٹنی کی بلکہ کیچپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو ذائقہ نہیں پسند تو دسترخوان پہ رنگ پیدا کرنے کے لئے رکھے۔ مگر رکھے ضرور۔ ورنہ گلشن کا کاروبار کچھ پھیکا رہتا ہے۔
صفدر صاحب، میرا تو خیال ہے بات اتنی آسان نہیں۔ ورنہ نواسہ ء رسول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکی ننانوے بیویاں تھیں۔ بیشتر کے نام بھی انہیں یاد نہ تھے۔
غلاموں کے آزاد جننے کے بارے میں ضرور کہا گیا ہے مگر لونڈیوں کے بارے میں مجھے معلوم نہیں۔ آپ اس بارے میں تفصیلی طور پہ بتائیے گا۔
محمد وقار اعظم صاحب، بہتر تو وہ زیادہ بولے گا جسے وہ آئیڈیا پسند آرہا ہو۔ جسے وہ چیز چاہئیے ہو۔ چونکہ میں نے وہ کتابچہ نہیں پڑھا اس لئے کیا کہہ سکتی ہوں کہ وپ انہوں نے اسکے حق میں لکھا تھا یا ٘خالفت میں۔ لیکن بہر حال ایک بات سمجھنی چاہئیے کہ اس پوسٹ کا مقصد لونڈیوں کے معاملے پہ بیان نہیں تھا۔ میں ایسے مزہبی معاملات پہ گفتگو سے پرہیز کرتی ہوں۔ جنکا ہماری عام زندگی سے کوئ تعلق نہ ہو۔ مجھے نئے سرے سے مسلمان نہیں ہونا۔ ان تفصیلات میں وہ جائے جو اسلام قبول کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور اسے پڑھ کر اپنے دل دماغ صاف کر لینا چاہتا ہو۔
سو اس پہ بات کرنے سے پہلے وہ تمام لوگ جو اسکے حق میں تاویلیں لاتے ہیں اور وہ تمام لوگ جو اسے متروک قرار دیتے ہیں ہر ایک کو اپنے دلائل پہ تاریخ کی روشنی میں غور کرنا چاہئیے۔ اس سے پہلے کہ آپکے دلائل کو دوسرے لوگ مذاق کا نشانہ بنائیں، اور آپ کھسیا کر یہ کہیں کہ اسلام کی گستاخی کی گئ۔
ہمارے بہت سارے ساتھی اپنے دلائل میں جذباتیت کا مظاہرہ تو دل کھول کر کرتے ہیں مگر اپنے دلائل کو مظبوط بنانے کی اور خود انپہ ایک تنقیدی نظر ڈالنے کی بالکل کوشش نہیں کرتے۔ اور نتیجے میں جب انکی واٹ لگتی ہے تو پھر ناراض ہوتے ہیں آور آخری تنکے کے طور پہ کسی کے مذہب یا حب الوطنی کو مشکوک بنانے لگتے ہیں۔
سَچا پاکستانی: ارے بھیا غصہ وغیرہ کچھ نہیں ہمیں تو بہت مزہ آتا ہے اس طرح کی تحریریں پڑھ کر۔ اور ہم تو ہیں بھی محمد حنیف کی تحریروں کے عاشق لیکن ہمیں لگتا ہے کہ آپ کو بھائی کا ذکر کچھ زیادہ ہی ناگوار گذرا ہے ایسے ہی جیسے کسی نے دم پہ۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteبہرحال ہور چوپو۔۔۔۔۔۔۔
او خدایا۔۔۔ یہ بھائی صاحب ھیں کون؟
ReplyDeleteیاسر صاحب، اسکے لئے میری نئ پوسٹ دیکھئے گا۔ اور خبردار میرے علاوہ کسی نے بتانے کا ارادہ کیا۔ معلوم ہے کہ کیا ہوگا
ReplyDelete:)
:)
:)
جزاک اللہ
ReplyDeleteالسلام علیکم
اللہ نگہبان
تو فیر اس ساری بحث کا لب لباب کیا ہے؟
ReplyDeleteبھائی پہ ایک پوسٹ؟
جاؤ یار
اس پوسٹ پہ تو اعلٰی کمنٹ ہونے چاہئیں تھے
اتنی اچھی پوٹینشل بحث کا چانس مس کر دیا تم نے
چلو چٹنی آتی ہے تو اس سے ہی دل بہلا لیں گے
نئی پوسٹ کا انتظار ہے جی