بچوں کو لکھنا کیسے سکھائیں۔ یہاں میری مراد دستی تحریر سے ہے۔ فکشن، کالم یا علمی تحریر لکھنے سے مراد نہیں۔ اسکا ایک ہی مجرب مگر مشکل نسخہ ہے اور وہ یہ کہ خوب پڑھیں اور مختلف النوع چیزیں پڑھیں۔ پھر خوب لکھیں، اس موضوع کے حق میں بھی اور خلاف میں بھی۔ اپنے نظریات کے حق میں بھی اور خلاف میں بھی۔
چھوٹے بچوں کو لکھائ سکھانا ایک مشکل امر ہے۔ اور مقابلے کے اس دور میں جب آپکے اندر جتنی صلاحیتیں ہوں کم ہے۔ والدین اپنے بچوں کی بہت سی مشکلوں کو اپنی سوجھ بوجھ سے آسان کر سکتے ہیں۔
جب آپکے بچے ڈیڑھ دو سال کی عمر میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں کھیلنے کے لئے ایسی چیزیں دیں جس میں ہاتھ کا پنجہ اور انگلیاں استعمال ہوتی ہوں۔ اس سے انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ اپنی انگلیوں کو کتنی سمت میں گھما سکتے ہیں اور انکی چیزوں پہ گرفت بڑھتی ہے، انکے ہاتھ کے عضلات مضبوط ہونگے۔ لیکن اتنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ خیال رکھنا چاہئیے کہ اس عمر کے بچے زیادہ دیر ایک شے پہ اپنا دھیان نہیں رکھ سکتے اس لئے وہ اگر اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں تو انہیں مجبور نہ کریں۔ کچھ وقفے سے جو کچھ گھنٹوں سے چند دنوں تک ہو سکتا ہے پھر سے تیاری پکڑیں۔
عام طور پہ دوسال سے اوپر کے بچے پینسل پکڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ انہیں رنگوں کی مومی پینسلیں لے دیں۔ خیال رکھیں کہ ڈبے پہ اسکے زہریلے نہ ہونے کے متعلق لکھا ہو۔ جب آپ ان سے ان پینسلوں کے ذریعے کام کرائیں تو انکے ساتھ موجود رہیں۔ مبادا وہ انہیں کھالیں۔ چاہے یہ زہریلے نہ بھی ہوں تب بھی انکا کھانا درست نہیں ہے۔ انہیں اپنی مرضی سے لائینیں لگانے دیں۔ چاہیں تو خود کر کے بتاتے رہیں کہ یہ ایک دائرہ ہے اور یہ ایک سیدھی لائن اور یہ ایک تکون ہے اور یہ ایک چوکور۔ دلچسپی کے لئے ان ساختوں میں آنکھ ناک بنادیں، انہیں کوئ نام دے دیں۔ یا رنگ بھر دیں۔
اب جبکہ وہ ان مومی پینسلوں سے کاغذ پہ آڑھی ترچھی لائینیں بنانے لگیں ہیں تو آپ یہ کر سکتے ہیں کہ ایک ٹرے میں کچھ ریت یا اگر وہ میسر نہ ہو تو خشک آٹا پھیلادیں اور اس پہ انگلی کی مدد سے دائرہ اور سیدھی لائینز بنانے کی مشق کرائیں۔ مٹائیے پھر بنائیے۔ یہ ذہن میں رہنا چاہئیے کہ دائرے اور سیدھی لائینیں ہی تحریر کی طرف پہلا قدم ہیں۔
کچھ دنوں میں ہی وہ بآسانی یہ پینسل پکڑنے لگے تو اب مومی پینسلوں کے ساتھ رنگ کی وہ پینسلیں استعمال کرائیں جو لکڑی سے بنی ہوتی ہیں۔ خیال رکھیں کہ دوران مشق آپ انکے ساتھ موجود رہیں اور جب کام ختم ہو تو ان سے یہ سامان لیکرانکی پہنچ سے دور رکھ دیں۔
چند دن دیجئیے جب وہ ان پینسلوں کو بھی پکڑنے لگیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ پینسل کو اتنا دباءو دے کر نہیں لکھتے۔ تو اب تربیت کے اگلے مرحلے پہ چلتے ہیں۔ آپکے گھر میں ایسے کھلونے یا چھوٹے چھوٹے برتن ہونگے یا پھر اسٹیشنری کی دوکان سے ایسی چیزیں بآسانی مل جائیں گی کہ انکے گرد پینسل گھما کر ڈیزائن بنایا جا سکے یا انکے اندر سطح کے ساتھ پینسل سے نشان لگایا جا سکے۔ اور کچھ نہیں تو انکے ہاتھوں اور پیروں کے گرد پینسل سے نشان لگا کر ڈیزائین بنایا جا سکتا ہے۔ پینسل انکے ہاتھ میں دیکر یہ کام کروائیں۔ خیال رکھیں کہ یہ ساختیں مختلف شکل کی ہوں۔ یعنی گول، چوکور، مستطیل، تکونی، اس طرح انکا ہاتھ مختلف زاویوں پہ گھومے گا۔ بناتے وقت ان ساختوں کے نام بھی لیتے رہیں کچھ دنوں میں وہ اسکے ماہر ہو جائیں گے۔ اور اس سے انکی انگلیاں اور کلائیاں مضبوط ہونگیں اور وہ پپینسل پہ زیادہ دباءو ڈالنے کے قابل ہو جائیں گے۔
آرام سے اور شانت رہئیے۔ اور ہر کام کو جلدی کرنے کے چکر میں اپنے بچے پہ غیر ضروری دباءو نہ ڈالیں ورنہ وہ اس سے بے زار ہو جائے گا۔ اپنے ان سیشنز کا وقت مقرر کریں اور کوشش کر کے روزانہ اسی وقت کریں۔ اس طرح آپکے بچے کو اسکا انتظار رہے گا۔ بچے رنگوں کو پسند کرتے ہیں اانہیں حق انتخاب دیں کہ وہ آج کس رنگ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اوپر والی تصویر جو ساختیں دی ہیں انکی مشق کروائیں۔ پہلی دفعہ نکتہ دار ساختیں استعمال کر سکتے ہیں مگر بچے کو انکی عادت نہ ڈالیں۔ ورنہ اس میں خود سے لکھنے کا اعتماد دیر سے پیدا ہوگا۔ میں نے ایک آسان سا طریقہ اور نکالا ہے۔ ایک میز پہ شیشہ بچھا دیا ہے جس سے آرپار دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکے نیچے مختلف حروف اور نمبر کے پرنٹ نکال کر لگا دئیے ہیں اور اس طرح شیشے کے اوپر سے وائٹ بورڈ مارکر یا ایسے مارکر جو پانی سے صاف ہوجاتے ہیں ان پہ لکھنے سے تحریر میں روانی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کے لئے آسانی ہو تو آپ بھی یہ کر سکتے ہیں۔ اگر گھر میں شیشہ نہیں ہے تو ایک چھوٹا سا شیشے کا ٹکڑا لیکر کہیں بھی لگا لیں۔ اور ایک لمبے عرصے تک چلنے والی سلیٹ تیار ہے۔
مونٹیسوری تربیت میں پہلے لوئر کیس کے یعنی انگریزی کے اسمال لیٹرز پہلے سکھائے جاتے ہیں اور اپر کیس یعنی کیپیٹل لیٹرز بعد میں۔ درج ذیل تصویروں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان حروف کو بنانے میں انکے گھماءو کے لئے تیر کے نشان دکھائے گئے ہیں انہیں یاد کر لیجئیے۔ آپ دیکھیں گے زیادہ تر گولائیاں کو ضد گھڑی وار طریقے سے بنایا گیا ہے۔ اردو حروف کو بناتے ہوئے یہ عمل عام طور پہ الٹا ہو جاتا ہے اور زیادہ تر گولائیاں گھڑی وار طریقے سے بنائ جاتی ہیں۔ تمام سیدھی لائنیں اوپر سے نیچے کی طرف بنائ جاتی ہیں۔ یہ اصول بچوں کو تحریر کے راز سمجھنے میں آسانی دیتے ہیں اور تھوڑی مشق سے خود سے چیزیں کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ شروع میں انہیں انہی آصولوں کا پابند بنائیے تاکہ وہ بنیادی تحریر سیکھ لیں۔ اس مرحلے پہ انہیں لائینوں والی کاپی استعمال کروائیں تاکہ حرف کا سائز انکے ذہن میں پختہ ہو۔ ہر حرف کو لکھتے وقت اسکا نام لیں تاکہ وہ اسے پہچان لیں۔
بچے جب بنیادی تحریر سیکھ لیتے ہیں تو آپ انکو تحریر کو مزید خوبصرت کرنے کے لئے خوشخطی کی مشقیں کروا سکتے ہیں۔ جیسے انگریزی حروف کو لکھنے کے لئیے ایک طریقہ کرسو تحریر کا کہلاتا ہے اس میں حروف نیچے دی گئ تصویر کی طرح لکھے جاتے ہیں۔
اردو میں بھی خوشخطی کے مختلف قاعدے دستیاب ہیں۔ جو اگر ممکن ہوا تو ہم بعد میں اسکین کرکے ڈال پائیں۔ سر دست وہ میسر نہیں ہیں۔
آخیر میں یہ کہ اپنے بچوں کے سیکھنے کے عمل کو دلچسپ بنائیے، اور انکے اوپر بوجھ نہ بنائیں۔ زندگی کو ایک دفعہ پھر ایک بچے کی حیثیت سے انکے ساتھ گذاریں۔ یہ آپکی تخلیقی صلاحیتوں کو آب حیات دے گا۔
انگلش حروف کے لئے یہ ویڈیو بھی حاضر ہیں۔
مزید معلومات کے لئے اس لنک پہ جائیں۔
شائد آپ کو اندازہ نہیں کہ زمانہ کتنی ترقی کر گیا ہے۔ آج کل کے بچے کاغذ پر بعد میں اور کمپیوٹر پر پہلے لکھنا سیکھ لیتے ہیں۔
ReplyDeleteمیرا بھانجا۔۔۔سکول ابھی گیا نہیں۔۔۔لیکن کمپیوٹر پر گیمز کھیلنے میں شیر ہے۔
ہاں لیکن تحریر ابھی بھی بہت ضروری ہے۔ وہ بچے جو ایک حد سے زیادہ کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں یہ انکی ارتکاز کی قوت کو متائثر کرتا ہے۔ وہ بچے جو ابھی اسکول جانا نہیں شروع کر چکے انہیں کمپیوٹر گیمز سے روشناس نہیں کرانا چاہئیے یہ انکی تخلیقی قوتوں کو بہت متائثر کرتا ہے۔ اور بعظ صورتوں میں وہ اسکے عادی ہوجاتے ہیں اور انکی ٹائم مینیج کرنے کی صلاحیت متائثر ہوتی ہے۔
ReplyDeleteکیا هی اچھا هوتا که اپ انگریزی کی بجائے اردو میں لکھنا سکھاتی
ReplyDeleteلیکن غالباً مرکزی خیال انگریزی سے ایا هو گا
پاکستان میں امداد ، تکنیک ، حکمران ، تعلیم بہت کچھ انگریزی سے اتا ہے
الله ای خیر کرے ساڈے دیسیاں تے
خاور صاحب، کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ جانتے کہ اس وقت انگریزی نہ صرف دنیا میں رابطے کی بڑی زبان ہے بلکہ پاکستان میں بھی بیشتر دفتری کام اسی زبان میں ہوتا ہے اور سوائے مدرسوں کے پاکستان میں تمام اسکولوں میں انگریزی زبان سکھائ جاتی ہے۔
ReplyDeleteدوسری اہم بات آپ نے اس تحریر کو غور سے نہیں پڑھا کہ اس میں موجود تصاویر نیٹ سے لی گئ ہیں اور اردو میں کوئ تصویر نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال ہم نے اسے نہیں ڈالا۔
یہ خیال مجھے اس لئے آیا کہ آجکل میں اپنی ساڑھے تین سالہ بیٹی کو لکھنا سکھا رہی ہوں اور وہ والدین جو اس مرحلے سے گذر رہے ہیں وہ چاہیں تو اس سے مستفید ہو لیں ورنہ رگڑا کھا کر، بے زار ہو کر، پٹ پٹا کر بھی بچے لکھنا سیکھ ہی لیتے ہیں۔ اسکی کوئ خآص ضرورت نہیں ہے۔
اپنی فہرست میں آپ ایک بات بھول گئے کہ خود کش بمبار ہماری فخریہ، ذاتی پروڈکٹ ہیں جو انگریزی سے نہیں آتیں۔
اب آپ اردو حروف تہجی نکال کر انکے اوپر تیر کے نشان بنا کر اسکی تصویر اسکین کر کے مجھے فوراً بھیج دیجئیے۔ میں اسے فی الفور اس تحریر میں ڈالدونگی آپکے نام کے حوالے کے ساتھ۔ اور اگر آپکو شبہ ہے اس سے میری یہ پوسٹ خوامخواہ کی شہرت حاصل کر لے گی تو اس تصویر کو اپنے بلاگ پہ ڈالدیں میں بھی اپنی اس تحریر میں اسکا حوالہ ڈالدونگی۔
اس طرح ہم انگریزی میں آنے والی کچھ چیزوں کے خلاف بند باندھ بن سکیں گے۔
جزاک اللہ عنیقہ۔ بہت ابھی معلومات فراہم کی ہیں آپ نے۔ بچوں کو قلم اور کتاب سے رغبت دلانا بہت ضروری ہے۔ چھوٹے بچوں کو کمپیوٹر گیمز کی لت ضرور لگ جاتی ہے لیکن اس سے ان کی نشوونما پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
ReplyDeleteاچھا تو یہاں بھی کلاس شروع ہو گئی، استانی جی جو ہوئیں۔
ReplyDelete:-D
اچھی تحریر ہے ۔جہاں تک اردو کے بجائے انگریزی میں لکھنا سکھانے کا اعتراض ہے ۔یہ بے جا ہے۔
ReplyDeleteمیں نے چھوٹے بچوں کے لئے کتابیں ڈیزائن کی تھیں۔ اس میں سے اُردو والے صفحے کا ربط دے رہے ہوں۔
ReplyDeletehttp://www.brain.com.pk/~sabir786/pictures/UrduAlphabet.jpg
بچوں کی کلاس میں بھی خودکش بمبار کا ذکر؟؟؟
ReplyDeleteیہ فیصل شہزاد بھی اردو میں تعلیم پانے والے مدرسے سے پڑتھا تھا؟؟؟؟
اورآپ بھی اردو میں بلاگنگ بند کرکے انگریزی میں شروع کرلیں۔۔۔
محمد صابر، آپکے دئیے گئے لنک کا بے حد شکریہ۔ یہ خاصہ کار آمد ہے۔ لیکن آپ نے سب حروف میں تیر کا نشان کیں استعمال نہیں کیا۔ کچھ میں نکتے ڈالدئیے ہیں اور کچھ میں تیر کا نشان، میرا خیال ہے کہ اگر سب تیر کے نشان کے ساتھ ہوں تو یہ زیادہ بہتر ہو جائے گا دوسرے ایک شکل میں اگر ہدایات کی علامات ایک جیسی ہوں تو سمجھنے والے کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔ یہ بہر حال میری ایک تجویز ہے۔
ReplyDeleteیاسر صاحب، کسی نے کہا کہ جو ایک دفعی استاد ہو جائے، ہمیشہ کے لئے استاد ہو جاتا ہے کہ چھٹتی نہیں یہ کافر منہ سے لگی ہوئ۔
جعفر صاحب، آپ نے غور نہیں کیا یہ بچوں کے والدین کی کلاس ہے، بچوں کی نہیں۔ اردو کا خود کش بمبار سے تعلق نہیں ورنہ پاکستان بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کی آدھی آبادی تو اسی بہانے صاف ہو جاتی، کہقیام پاکستان کے لئے اٹھائے گئے پوائینٹس میں اردو کی بقاء بھی شامل ہے۔
آپ سے بھی یہی بات کہونگی کہ آپ اردو زبان کی بقاء میں دلچسپ رکھتے ہیں تو محمد صابر صاحب کے لنک کو دیکھیں جا کر اور اسے بہتر بنا کر دکھادیں۔ منہ زبانی باتیں ، محض اپنے مءوقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کرنا یہ تو مجھے بھی آتی ہیں۔ آپ مجھ سے بہتر بن جائیں۔
آپ تو وہ بھی نہیں کریں گے جو فیصل شہزاد نے کیا اور وہ بھی نہیں کریں گے جو عنیقہ ناز کرتی ہیں۔ پھر آپکی ان باتوں کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔
عمدہ اور تعمیری تحریری ہے
ReplyDeleteآج تو آپ مونٹیسری کی استاد معلوم ہورہی ہیں۔ آپ کی تحریر کو میں نے محفوظ کرلیا لیکن اس پر عمل کے لئے مجھے کچھ برس انتظار کرنا پڑے گا، شادی اور بچوں کی پیدائش اور اتنے بڑے ہونے کا کہ انہیں یہ سب کچھ سیکھایا جاسکے۔ ویسے میری ہونے والی ایم بی بی ایس کے چوہتے سال میں ہیں اور ہاوس جاب کے بعد وہ چالڈ اسپیشلسٹ بننا چاہتی ہیں اسلئے ممکن ہے کہ میرا یہ خواب پورا ہوتے ہوتے دو چار نہیں چھ سات سال لگ جائیں۔
ReplyDeleteویسے عنیقہ صاحبہ قابل قدر اور یونیک پوسٹ ہے۔ اللہ آپکو بچو کی اور فکر دے۔ کیونکہ بچو کی تعمیر قوم کی تعمیر اور اس مقصد کے لئے بچوں کے والدین کی، استاتزہ اور سرپرستوں کی تربیت ایک نیک اور عمدہ کام ہے۔
آپ نے غور سے نہیں دیکھا کہ میں نے ہر حرف کو شروع کرنے کے لئے نقطہ دیا ہے۔ شروع کرنے کے بعد دی ہوئی لکیر پر ہی چلنا ہے اس لئے وہاں کوئی تیر کا نشان نہیں ہے۔ تیر کا نشان وہاں دیا ہے جہاں شروع کرنے کے بعد دو راستے بن جائیں تو صحیح راستے کی طرف تیر کا نشان دیا ہے۔ اگر حرف دو حصوں پر ہے تو وہاں نمبر بھی لگا دیئے ہیں تاکہ جو حرف پہلے بننا ہے وہاں والدین اس پر توجہ دیں۔ میرا خیال ہے کہ میری بات سمجھ میں آگئی ہو گی۔
ReplyDeleteعنیقہ ان کی باتوں کو بک بک،بک بک اور صرف بک بک کے کھاتے میں ڈالاکیجیئے،کہ ایک یہی کام ہے جو یہ صاحب بہترین کرتے ہیں! :razz:
ReplyDelete:cool:
انکا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ تو ہوتے ہیں جنوں کے آثار اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں! ;-)
ایک اور قابل قدر پوسٹ کے لیئے جزاک اللہ، :smile:
ReplyDeleteميں نے ايک عرصہ تک بچوں کو فارغ ہونے کے باوجود گھر ميں لکھنا نہيں سکھايا وجہ يہ تھی کہ مجھے اسطرح ايکسپرٹ لکھنا سکھانا نہيں آتا تھا سوچتی تھی کہ غلط سکھانے سے بہتر ہے نہ سکھاؤں خود ہی ٹيچر درست لکھنا سکھائيں گے مگر بہت نا اميدی ہوئی مجھے جو ٹيڑھا ميڑھا لکھنا انہوں نے سکھايا ميرے تو خواب چکنا چور ہو گئے ، اردو والا لکھنے کا کيا طريقہ ہے کچھ لفظ لائن سے اوپر کچھ نيچے لکھے جاتے ہيں محمد صابر والا ربط ديکھتی ہوں شايد ادھر مل جائے
ReplyDeleteکاشف نصیر صاحب، ابھی تو وہ چوتھے سال میں ہیں۔ ابھی تو لمباعرصہ ہے اتنا کیا محفوظ رکھیں گے۔ کسی مسجد کے باہر کھڑے ہو جائیں۔ سنا ہے کہ وہاں لوگ اسی امید پہ نماز پڑھنے آتے ہیں کہ کوئ پمفلٹ ملے گا۔ ایسے تو کوئ پڑھنے لکھنے پپہ راضی نہیں ہوتا۔ اسی بہانے سہی آپکو ثواب دارین ملے گا اور اس بہانے شاید انکی عقل کا تالا کھلے اور باقیوں کے بھاگ جاگیں
ReplyDeleteعبداللہ۔ شکریہ آپکا۔ مجھے معلوم ہے میں تو انکے منہ سے سننا چاہتی تھی ۔ لیکن وہ بے چارے پھر بھی کوئ بہتر کام کرنے کے بجائے پھر سے اپنے طور پہ علامہ بنے اور تازی کراری اپنے رفقاء کے سامنے حاضر کر دی۔ انکے لئے اور انکے رفقاء کے لئے نعرہ ء افسوس۔
لیکن صحیح بات تو یہی ہے کہ جس طرح ہر محلل، منحل کی ایک خاص مقدار کو حل کر سکتا ہے اسی طرح ہر دماغ ایک خاص حد تک ہی سوچ سکتا ہے۔ تو ہر محلل کی طرح ہر انسانی دماغ کی بھی ایک پہنچ ہوتی ہے اور ہمیں یہ سوچ کر بہت ساری چیزوں کو سرسری طور پہ لینا پڑتا ہے۔ نہ وہ ہماری منزل ہیں، نہ راستہ۔ مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
خیر، جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں سے کیا ڈرنا۔ دیکھتے ہیں یہ سب بھی کب تک جاری رہتا ہے۔
ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انگریجی انگریجی۔۔۔۔
ReplyDeleteبی بی آسان سی بات ایک تختی لیں اور گاچی اور قلم دوات کم خرچ آسان کام ۔
ذھنی غلامی ھی کرنی ھے تو پھر اور بات۔
یاسر صاحب، یہ چیز تو میں نے بھی اپنے بچپن میں استعمال نہیں کی، اسکا مشورہ کسی اور کو کیسے دے دوں۔ جو میں اپنے بچے کے ساتھ کر رہی ہوں دوسرے کو وہی بتاءونگی۔ جہاں تک ذہنی غلامی کی بات ہے تو آپ فوراً پاکستان واپس آجائیں۔ اپنے اچھے بھلے دیس کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچانا ہی تو بالکل صحیح کی غلامی ہے۔
ReplyDeleteمجھے نہیں معلوم کہ اس قسم کے سکہ بند روائیتی جملے پم کب دوہرانا بند کریں گے خاص طور پہ وہ پاکستانی جو باہر کے ممالک میں ہمیشہ کے لئے سیٹل ہو چکے ہیں۔ آپ سب لوگ اپنے اپنے نئے میزبان ممالک میں ایک آرام کی زندگی گذارتے ہیں اور پھر وہاں سے ہم سب لوگوں کو جو پاکستان سے باہر کہیں نہ جانے کا سوچ سمجھ کر انتخاب کر چکے ہیں۔ ان سے اس طرح کی طنزیہ باتیں کرتے ہیں۔
انگریزی سیکھنا ضروری ہے کیونکہ اس وقت دنیا میں نیا آنے والا سارا علم انگریزی میں ہے۔ اردو میں تو ہم سب ابھی اس بات پہ متفق نہیں کہ لکھے موسی پڑھے خدا ہے یا لکھے مو سا اور پڑھے خدا ہے۔ حتی کہ عالم یہ ہے کہ ہر شخص اٹھتا ہے اور اردو کو اپنے علاقے کی تخلیق بتا دیتا ہے۔
میری اردو پہ مہارت آپکے سامنے ہے۔ اسے سمجھنے میں تو لوگوں کو مشکل ہوتی ہے۔
میرے بس میں ہوتا تو کم از کم دو زبانیں اور سیکھتی ۔ اپنی بچی کے لئے چاہونگی کہ وہ کم از کم تین زبانیں ضرور سیکھے۔ کسی زبان کو سیکھنا انکی غلامی نہیں۔ لیکن اپنی سوچ کی پرواز کے پر کاٹ دینا ضرور غلامی ہے۔
اسماء، میں نے جرمنز کو دیکھا ہے بہت خراب ہینڈ رائٹنگ ہوتی ہے اور پینسل بھی بڑی محنت سے پکڑتے ہیں۔ ادھر امریکہ میں بھی سنا ہے رائیٹنگ پہ توجہ نہیں دیتےالبتہ اب سنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ رائٹنگ بہتر ہو۔
ReplyDeleteمیں نے تو اپنے بچپن میں تختی نہیں لکھی لیکن خوشخطی کی جو کتابیں ملتی ہیں وہ ضرور استعمال کیں۔ جب تک ہاتھ سے لکھتی رہی میری اردو تحریر اکثر لوگوں کو پسند آتی تھی۔ لیکن کمپیوٹر کے بعد اسکی عادت نہیں رہی۔
لیکن بہر حال بچوں کو تو سکھانی پڑتی ہے اور سکھانی چاہئیے۔ باقی اسے خوبصورت بنانا، اس میں انکی جمالیاتی حس کا بھی تعلق ہوتا ہے۔
یاسر صاحب، جملہ دسرت کر لیں، لکھے موسی پڑھے خدا ہے یا لکھے مو سا اور پڑھے خود آ ہے
ReplyDeleteہا ہا ہا۔۔۔
ReplyDeleteگیدڑ کی جب شامت آتی ہے تو شہر کا رُخ کرتا ہے۔
اپنے پیارے یاسر جاپانی کی شامت آتی ہے تو وہ خوامخواہ اس بلاگ کا رُخ کرتا ہے۔
ہاہاہا۔۔۔۔
ہاہا ہاہاہا
ReplyDeleteویسے عرض کر دوں کہ میں چار زبانیں لکھ پڑھ سکتا ھوں۔عالم آپ جیسا نہیں ھوں۔
اگر آپ اتنی قابل ہیں تو کسی دوسرے ملک جا کر دیکھائیں۔
میرے خیال میں تو لفاظی یا تیزابیت میں جا سکتی ہیں اگر کہیں جھگاڑ لگے تو۔
یاسرصاحب،اچھا تو آپ اپنی قابلیت پہ وہاں موجود ہیں۔ ایک ذرا سا کینیڈیئن اور آسٹریلین شہریت کی درخواست کے لئے علمی اورپیشہ ورانہ تجرباتی قابلیت دیکھ لیں اور اسکے بعد خود فیصلہ کر لیں کہ ان ممالک کو مجھے شہریت دینے میں ذرہ برابر بھی اعتراض نہ ہوگا۔ آپ شاید اس سوال کے تائثر میں یہ بات لکھ گئے جو میں نے بر سبیل تذکرہ پوچھی تھی کہ آپ سب لوگ کیسے ان ممالک کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں جنکے متعلق میں سوچتی ہوں کہ محض تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت پہ شہریت دیتے ہیں۔
ReplyDeleteکینیڈا اور آسٹریلیا کے علاوہ اگر میں کسی گرین کارڈ ہولڈر سے شادی کر لیتی تو کیا امریکہ مجھے شہریت نہ دیتا۔ میں اگر شادی کر کے اپنے گھر کو اپنی پہلی ترجیح نہ سمجھتی تو باہر کا اسکالر شپ لینا بھی ایسا کوئ مشکل امر نہ تھا۔ مگر میں نے یہ آپشن بھی اپنے ہاتھوں ختم کیا۔
محض زبان جاننا کیا ہوتا اگر آپ مشورے میں کسی کو گاچی دوات استعمال دے رہے ہیں اور خود بیٹھ کر کمپیوٹر پہ اپنا فارغ وقت گذارتے ہیں۔ آپ سب لوگ اپنے محدود علم، دناوی مشاہدے اور محدود ذہن کے ساتھ اتنے بڑے نتیجے نکالنے میں اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں۔
میرے گھر میں تو وہ لوگ موجود ہیں جو امریکہ اعلی تعلیم حاص کرنے گئے۔ دس سال وہاں گذارے اور واپس پاکستان میں پچھلے دس سال سے یہاں کے ہر قسم کے حالات میں خوش باش رہ رہے ہیں۔ انہوں نے تو وہاں کا گرین کارڈ تک نہیں لیا جو انہیں اتنا لمبا عرصہ قانوننی طور پہ گذارنے کے بعد بآسانی ملتا۔ مگر آپ نے ایسے لوگ دیکھے نہیں ہیں۔ آپ میں سے بیشتر نے اپنے آپ یا اپنے سے ملتے جلتے لوگوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، اور اگر دیکھا ہے تو اس سے کچھ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ تیزابیت ضروری ہو گئ ہے۔کیونکہ آپ لوگ بیٹھ کر واعظ تو بہت کرتے ہیں مگر عملیت صفر ہے۔
اس ملک کے اس حشر میں اس ساری ذہنیت کا عمل دخل حد سے زیادہ ہے۔ جہاں علم میں پیچھے رہ جانے والے آگے بڑھ جانے والوں کا مذاق اڑائیں، جہاں چار پیسے کمالینے والے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ کامیاب ترین لوگ ہیں اور اب انکا کہا اور سمجھا ہوا درست ہے۔
مجھے اپنے علم کے محدود ہونے کا احساس اتنا رہتا ہے کہ ہر روز جب کوئ نئ اصطلاح میرے کانوں میں پڑتی ہے تو اسے فوراً چیک کرتی ہوں کہ کیا ہے۔ کسی شخص سے ملتی ہوں تو سب سے زیادہ اسکے علم سے متائثر ہوتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ وہی زیادہ بولے میں نہ بولوں۔آپ سب لوگ ماشاءاللہ سے اتنےسیر ہے کہ نہ خود کچھ کسی کو دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ کسی اور کی سننے کے لئے تیار ہیں۔
اگر آپکو میری باتیں اتنی ہی تیزابی لگتی ہیں تو مت آئیں میرے بلاگ پہ۔ یہ بلاگ ہر کس و ناکس کے لئے نہیں ہے۔ وہ تمام لوگ جنہیں میرا بلاگ قطعا پسند نہیں وہ اس سے دور رہیں۔ آپکی دلچسپی کے لئے اور بہت سے دلچسپ بلاگز اور تحریر کار موجود ہیں ، ان سے مستفید ہوں۔
وہ تمام لوگ جو اپنی تعیلم کے بارے میں شدید احساس کمتری کا شکار ہیں انہیں بھی اس سے دور رہنا چاہئیے۔
یہ بلاگ صرف ان لوگوں کے لئے کار آمد ہو سکتا ہے جو زندگی کو شیئر کرنے والی چیز سمجھتے ہیں اور اپنے آپکو شیئر کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وہ کو کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں، انکے لئے خوش آمدید، وہ جو جانتے ہیں کہ یہ کچھ نیا تلخ بھی ہو سکتا ہے اور میٹھا بھی، وہ آئیں اور اپنا حصہ ڈالیں۔
تمام روایت پسند عناصر، کے لئے روائیتی جگہوں کی کوئ کمی نہیں وہ وہاں جا کر لطف اندوز ہوں۔ ہر جگہ ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔
عنیقہ جی (اب آپی کہنے کی اجازت آپ نے دی نہیں)!
ReplyDeleteمیں بیچارہ تو پتا نہیں کس کیٹیگری میں آتا ہوں۔ لیکن مجھے اپنے حلقہ شاگردی سے نکالنے کا ظلم نہ کیجئے نہیںتو میںبے علم مارا جاؤں گا۔ میں تو رائے بھی کانپتے کانپتے دیتا ہوں۔ کیا معلوم کب اُلٹا سیدھا بول کر پھنس جاؤں؟
ویسے لوگوں کی حجامت بتے دیکھنے کا جو مزا اس بلاگ پر آتا ہے وہ اور کہیں نہیں
ممنون
عثمان
آپ کا پنکھا!
کینیڈین شہریت کے متعلق آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔
ReplyDeleteوطن کی خدمت کا جزبہ اور دلائل اپنی جگہ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو مسقل قیام نہ سہی لیکن ایک مدت کے لئے یہاں ضرور آنا چاہیے۔ چینی اور جاپانی سکالر کینڈا اور امریکہ آتے ہیں۔ کئی کئی سال تحقیق کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے وطن جاکر اس تحقیق اور تجربے سے فائدہ دیتے ہیں۔ ہندوسنانیوں میں بھی یہ رواج ہے۔ لیکن اپنے مسلمان یہاں کی یونیورسٹیوں کے گریجو ئیٹ سکولز میں بہت کم ہیں۔ ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر کونٹکٹس بنتے ہیں۔
میرا یہ بھی خیال ہے کہ اگر مسلمان بحثیت قوم ترقی نہیں کرسکتے تو بحثیت فر د ضرور کرنی چاہیے۔ یعنی وقتی برین ڈرین میں کوئی حرج نہیں۔
بہرحال میں آپ کے متعلق کچھ ذیادہ نہیں جانتا۔ ویسے بھی ان باتوں کو آپ مجھ سے ذیادہ جانتی ہیں۔ ایک ذاتی خیال آرئی تھی وہ بیش کردی۔
عثمان، ڈرنے کا ڈرامہ کرنے کی کوئ ضرورت نہیں۔ پتہ چل رہا ہے کہ آپ کتنا ڈرتے ہیں۔
ReplyDeleteیہ تو میں سبکو حق انتخاب دے رہی ہوں کہ میرا بلاگ کوئ سورہ فاتحہ نہیں کہ ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہو۔ جسے نہیں پسند، وہ آرام سے چھٹی کر سکتا ہے۔ اتنا دل جلانے کی کیا ضرورت کہ قابلیت نہیں اس لئے ہم باہر بیٹھے ہیں اور آپ اندر۔ اور اسکے باوجود یہ بیان بھی کہ پر دیسیوں سے دیس کے مزے پوچھو۔ ہر باہر جانے والا، غیر ملک کی شہریت اختیار کرنے والا اپنی مرضی سے کرتا ہے ان سب لوگوں میں سے جو اس وقت باہر بہٹھے ہیں اور جنکی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ کسے ان ملکوں کی حکومتوں نے ذاتی درخواست پہ منتیں سماجتیں کر کے بلایا ہے۔ ہر ایک اپنے حالات بہتر کرنے بے شمار کوششوں کے بعد گیا ہے۔اگر آپ ویزے اور شہریت کے قوانین جانتے ہوں تو اپکو مجھ سے یہ پوچھنا چاہئیے کہ اپ یہاں کیوں بیٹھی ہوئ ہیں۔ آپکو تو بآسانی شہریت مل جائے گی۔ مگر آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ کسی قابل ہوں تو ذرا باہر جا کر دکھاءووں۔ یا اللہ، کس دیس میں ہوں، تو ہی بتا۔
مذاق اپنی جگہ۔۔۔
ReplyDeleteمیں اس بات کو بہت قابل تحسین سمجھتا ہوں۔ کہ پاکستان جیسے مشکلات سے پر ملک میں ایک خاتون نہ صرف تحقیق کرکے ملک معاشرے اور اہل علم کی خدمت کررہی ہیں۔۔۔بلکہ گھرداری اور بچے بھی پال رہی ہیں۔ ایسا کام ہر کوئی نہیں کرسکتا۔ میرے نزدیک قوم کو ایسے افراد کا احسان مند ہونا چاہیے۔ کم از کم میں تو ہوں۔
اوہ بھئی۔۔۔آپ تو میری رائے پڑھے بغیر ہی ناراض ہو گئیں۔
ReplyDeleteمیں تو آپ کی بات کی تصدیق کررہا ہوں۔ آپ آج اردہ ظاہر کریں۔۔۔۔درجن ممالک کی شہریت صرف چھ ماہ میں آپ کے ہاتھ میں ہو گی۔
باقی آپ سے بات کرکے صرف سیکھنے کی ہی کوشش کرتا ہوں۔ بحث کرنے کی میری اوقات کہاں۔ سچی۔۔۔مزاق نہیں کر رہا۔
اور ہاں۔۔۔۔میرے مذاق کار برا نا مانئے۔ وہ طنز نئے ہوتے۔۔۔محبت بھرے ہی ہوتے ہیں۔ باقی بڑا ہو رہا ہوں۔ عمر کے ساتھ ساتھ عقل بھی آتی جائے گی۔
عثمان عنیقہ سے بات کرنے کے لیئے دل بڑا اور ذہن کھلا رکھیئے آپکو کبھی مشکل نہ ہوگی!
ReplyDelete:)
عثمان، ڈرنے کا ڈرامہ کرنے کی کوئ ضرورت نہیں۔ پتہ چل رہا ہے کہ آپ کتنا ڈرتے ہیں۔
جہاں تک میرا اندازہ ہے یہ جملہ انہوں نے لائٹ وے میں کہا ہے ناراض ہوکر نہیں!
بچپن میں میرے ابو نے چھوٹی اے بی سی گول دائروں سے سیکھائی تھی اور بہت لمبے عرصے تک فارغ وقت میں نوٹس بناتے وقت اس کی مشق فرما کر ٹائم پاس کرنا میرا مشغلہ رہا۔ اب تو قلم ملتا نہیں ملے تو زیادہ سے زیادہ بندہ کسی کا فون نمبر ہی لکھتا ہے۔ میرے دادا نے تختی اپنے تمام بچوں کو سیکھائی شاءد اسی لئی میرے ابو کی لکھائی بے حد خوبصورت ہے۔ ہمارے وقت تک ہمارے ابو نے ایک کاپی بنا لی تھی جس کی مشق کرنا بہت ضروری تھی۔ مگر جلد ہی وہ فتنہ ختم ہو گیا یاد نہٰں کیوں
ReplyDeleteنیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی پرمیننٹ ریزڈینسی میرے پاس آج سے پانچ سال پہلے سے ہے۔
ReplyDeleteمیری تعیمی قابلیت دس جماعت پاس ڈائریکٹ جاپان ھے۔
انگلش میں صرف عام بات چیت کر سکتا ھوں یا اخبار ڈکشنری دیکھ کے پڑھ سکتا ھوں۔
ان ممالک کی شہریت لینا چاہوں تو میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں ھے۔لیکن جاپان کی شہریت چھوڑنی پڑے گی۔وہ میں نہیں چھوڑنا چاہتا۔
با ہر بیٹھ کے طنز نہیں کرتے کہ یہ عادت ہم میں نہیں ھے۔جب آپ تدریسی و تعلیمی پوسٹ میں کہیں نہ کہیں سے طنز لے آتی ہیں تو نیٹی نیٹی مزا مزا کر نے کا دل کرتا ھے۔
آپ بھی یہ بات سمجھیں۔اگر احسن طریقے سے چھیڑ چھاڑ کر نے والوں کو جواب دے دیں تو سب کے دل میں آپ کی عزت مزید بڑے گی۔
عثمان، میرے تبصرے کے خانے میں اسمائیلیز نہیں ہیں۔ اور اکثر اوقات میں اسکی شدید کمی محسوس کرتی ہوں۔ مگر وقت اتنا نہیں کہ انکو ڈالنے کا طریقہ کھوجوں۔ عبداللہ نے صحیح کہا میں اپنی اس بات کے ساتھ اسمائیلی ڈالنا بھول گئ تھی۔ اسمائیلی ڈآلنے کے لئے لینگویج بار میں اردو کو انگریزی میں تبدیل کرنا پرتا ہے۔ پوسٹ کرنے کے بعد خیال آیا تو سوچا کہ جملے کی ساخت ایسی ہے کہ آپکو سمجھ آجائے گا۔ لیکن لگتا ہے مجھے اپنے اس اسٹوڈنٹ پہ خاصی محنت کرنی پڑے گی۔
ReplyDeleteاور تصحیح کر دوں کہ اس وقت میں کوئ تجرباتی تحقیق نہیں کر رہی۔ اپنے میاں جی کے کاموں میں انکی مدد کرتی ہوں۔
لیکن میں اس چیز کو بہت مس کرتی ہوں کہ کافی عرصے سے میں نے نیچر اور سائینس جیسے اعلی تحقیقاتی جرنلز نہیں پڑھے ہیں۔ اسکے لئے مجھے اپنے تحقیقاتی ادارے میں جانا ہوگا۔
بد تمیز، آپکے ابو نے یہ بڑا صحیح کام کیا تھا۔ ایک دفعہ دائرے اور سیدھی لائن بنانا آجائے تو بس لکھنا کوئ مشکل کام نہیں رہتا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اگر چھوٹے بڑے دائروں کاایک کاغذ پہ پرنٹ نکال کر اس پہ ہاتھ پھیرا جائے تو یہ کافی اچھی مشق ہوگی۔ شکریہ آپکا۔
محترمہ عنیقہ صاحبہ بہت زبردست بلاگ ہے اپ کا
ReplyDelete