Friday, June 11, 2010

پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول کی تاریخ-۲

 گذشتہ سے پیوستہ
مینڈیلیف سترہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا، ایک روسی استاد کا بیٹا تھا۔ اس زمانے کے مروّجہ علوم یعنی کلاسیکی زبانوں میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک اچھا طالب علم خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اسکا دماغ حساب اور سائینس میں کافی زرخیز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت کافی آزمائش سے گذرنا پڑا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد جرمنی میں اس نے کیمیاء کے مطالعے میں دو سال گذاارے اور پھر سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ یہ وہی یونیورسٹی تھی جہاں اسے گریجوایشن میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
اپنی ایک کتاب پرنسپلز آف کیمسٹری کے لئے مواد جمع کرنے کے دوران اسے خیال آیا کہ عناصر کے خاندان بنانے چاہئیں جو ایک جیسے خواص رکھتے ہیں۔ اور اس پہ غورو فکر کرتے ہوئے اس نے  مختلف عناصر کے درمیان خصوصیات کی ہم آہنگی کو نوٹ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مینڈیلیف تاش کھیلنے کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اس وقت تک کے معلوم عناصر کے کارڈز تیار کئے اور اپنے لمبے سفروں کے دوران ان سے سولیٹیئر تاش کا کھیل 'پیشنس' کھیلتا تھا۔ ہر کارڈ پہ عنصر کی علامت، ایٹمی وزن، اور نمایاں طبعی و کیمیائ خصوصیات لکھی ہوئ تھیں۔ جب اس نے ایک میز پہ ان کارڈز کو پھیلایا اور انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا تو پیریاڈک ٹیبل وجود میں آگیا۔ اٹھارہ سو انہتر میں مینڈیلیف نے اپنا کام پیریاڈک ٹیبل کے حوالے سے شائع کروایا ۔
اسکے پیش کردہ ٹیبل کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عمودی، افقی اور وتری ہر طریقے سے ہم آہنگیت موجود تھی۔ انیس سو چھ میں اسے اس سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔
حالانکہ اس وقت اتنی سہولیات موجود نہ تھیں کہ وہ عناصر کے بالکل صحیح اوزان معلوم کر پاتا۔ اسکے باوجود اس نے کئ عناصر کے وزن میں غلطیاں درست کیں ۔ مثلاً بریلیئم کے وزن چودہ کو صحیح کر کے نو کیا۔ اس وجہ سے بریلیئم دوسرے گروپ میں میگنیشیئم سے پہلے آگیا۔  کیوں کہ اسکی خصوصیات اس گروپ سے ہم آہنگیت دکھاتی تھِں۔   اس نے کل سترہ عناصر کو نئ جگہیں دیں اسکے پیش کردہ ٹیبل میں نامعلوم عناصر کے لئےخالی جگہیں موجود تھیں۔  اس طرح نامعلوم عناصر کے وزن اور خصوصیات کی بھی پیشن گوئ کر دی جیسے بعد میں دریافت ہونے والے عناصر گیلیئم، اسکینڈیئم اور جرمینیئم کے لئے اس نے ٹیبل میں جو جگہیں چھوڑی تھیں وہاں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان متوقع عناصر کی متوقع خصوصیات کیا ہونگیں۔ جب یہ بعد میں دریافت ہوئے تو انکی خصوصیات وہی تھیں جو مینڈلیو نے بیان کی تھیں۔
اس طرح مینڈیلیف نے دس نئے عناصر کی موجودگی کی پیشن گوئ کی۔ اسکے ٹیبل میں کچھ ٹیکنیکل خرابیاں تھیں۔ جنکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اس ٹیبل کو بنانے کے لئے ایٹمی وزن ہی کو معیار بنایا جاتا تھا۔
اسکے بنائے ہوئے ٹیبل میں کچھ خامیاں تھیں۔ ایک تو اس میں نوبل گیسز کا کوئ تصور نہ تھا اور دوسرے آئیسو ٹوپس کے بارے میں کچھ معلومات نہ تھیں۔

لوتھر میئر نے بھی عین اس وقت  اپنے نتائج  پیش کئے جب مینڈلیو نے کئے۔ یہ نتائج مینڈیلیف کے نتائج سے ملتے جلتے تھے۔ کچھ مئورخین کے نزدیک وہ اور مینڈیلیف اس سلسلے میں ہم پلّہ ہیں اور دونوں ہی کو بابائے پیریاڈک ٹیبل کہنا چاہئیے لیکن یہاں مینڈیلیف کو ایک برتری حاصل ہے۔ اس نے میئر کے مقابلے میں زیادہ عناصر اپنے ٹیبل میں پیش کئے اور نئے عناصر کے دریافت کی پیشن گوئ بھی کی۔ میئر اس خیال کو نہیں پا سکا۔ میئر کے علاوہ ایک اور کیمیاداں ویلیئم اوڈلنگ نے بھی مینڈلیو سے ملتا جلتا ٹیبل سن اٹھارہ سو چونسٹھ میں پیش کیا۔ 
اسکے بعد لارڈ ریلے کی نوبل گیسز کی دریافت نے پیریاڈک ٹیبل میں مزید تبدیلیاں پیدا کیں۔ ویلیئم رامسے نے نئے دریافت شدہ عنصر آرگن کو ہیلیئم کے ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا۔ ان عناصر کی ویلینسی صفر تھی اس لئے اسے زیرو گروپ کا نام دیا گیا۔
بیسویں صدی کے سائنسدانوں کے اعزاز میں یہ آیا کہ وہ مینڈلیو کے ترتیب کردہ ٹیبل کی وجوہات بیان کر سکیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ عناصر ایک جیسی کیمیائ خصوصیات رکھتے ہیں۔
ردر فورڈ نے مرکزے کا چارج معلوم کر کے اطلاع دی کہ نیوکیئر چارج اور ایٹمی وزن کے درمیان ایک راست تعلق ہوتا ہے۔ یعنی ایٹمی وزن کے بڑھنے سے ایٹمی چارج بڑھے گا اور کم ہونے سے کم ہوگا۔
ہنری موزلے نے انیس سو تیرہ میں ایک تجربے کے نتیجے میں بتایا کہ ایٹمی نمبر اور عناصرایکس رے طول موج کے درمیان  تعلق ہے۔ اور اس طرح یہ ہوا  کہ ایٹمی چارج کو ناپا جا سکتا ہے۔ یعنی ایٹمی نمبر معلوم کیا جا سکتا ہے۔  اسکے ساتھ ہی آئسوٹوپ کی دریافت ہوتی ہے اور یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ دراصل ایٹمی وزن نہیں ہے جو عناصر کی کیمیائ خواص کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس میں ایٹمی نمبر کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ آئیسو ٹوپ ایک ہی عنصر کے ایٹم ہوتے ہیں جنکا ایٹمی نمبر ایک جیسا ہوتا ہے مگر ایٹمی وزن مختلف ہوتا ہے۔
یہ تو آپکو یاد ہوگا کہ مینڈلیو تک جتنے بھی سائنسداں تھے سب ایٹمی وزن کے حساب سے پیریاڈک ٹیبل میں عناصر کو ترتیب دے رہے تھے تو اس موڑ پہ پیریاڈک ٹیبل کی ترتیب میں ایک بڑی تبدیلی آئ۔
یہ سوال کہ کیوں عناصر خصوصیات کو دوہراتے ہیں اسکا جواب اس وقت ملا جب عناصر کی الیکٹرونی تشکیل کرنا ممکن ہوئ یعنی مختلف آربٹلز میں یا مداروں میں الیکٹرون کی موجودگی اور انکی تقسیم۔ اور یہ سب ممکن بنایا نیلس بوہر نے جس نے جی این لیوس کی دریافت الیکٹرونی جوڑوں کی تشکیل سے مدد لی۔ اسے اس وجہ سے نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ نیچے دی گئ تصویر میں کچھ عناصر کی الیکٹرونی تشکیل دی گئ ہے۔


پیریاڈک ٹیبل میں آخری اہم تبدیلیاں بیسویں صدی کے وسط میں پلوٹونیئم کی دریافت کے بعد ہوئیں جو گلین سیبورگ نے انیس سو چالیس میں کی۔ اس نے مینڈلیو کے ٹیبل میں تبدیلی کر کے ایکٹینائیڈ سیریز کو لینتھینائیڈ سیریز کے نیچے جگہ دی۔ انیس سو اکیاون میں اسے نوبل پرائز دیا گیا۔ اور ایک سو چھواں عنصر کو اسکا نام دیا گیا یعنی سی بورگیئم جسکی علامت ہے ایس جی۔
  Seaborgium (Sg)


نوٹ؛ اس تحریر میں دئیے گئے سائنسدانوں کے پورے نام انگریزی ہجوں میں ذیل میں درج ہیں۔ آپکا ہوم ورک یہ ہے کہ انکا صحیح تلفظ معلوم کریں۔

Dmitri Mendeleev
نام کا صحیح تلفظ سننے کے لیئے اس لنک پہ جائیں۔

ہنری موزلے
Henry Moseley
 
ویلیئم اوڈلنگ 
William Odling

 لوتھر میئر
Lothar Meyer

ردر فورڈ
Ernest Rutherford

نیلس بوہر 
Niels Bohr

جی این لیوس 
Gilbert N. Lewis


 گلین سیبورگ
 Glenn T. Seaborg

26 comments:

  1. ہوم ورک: ۱۔دمتری مینڈیلیف ۲۔ ہنری موزلے ۳۔ ولیم آڈلنگ ۳۔ لوتھر میئر ۵۔ ارنسٹ ردرفورڈ ۶۔
    نیلس بوہر ۷۔ گلبرٹ این لیوس ۸۔ گلین ٹی سیبورگ


    سوال: کیا دوری جدول اب مکمل ہو چکا ہو چکا ہے؟
    جس وقت میں کیمسٹری پڑھتا تھا اس وقت اس میں کچھ نامعلوم اور کچھ مصنوعی عناصر تھے اور ہمیں بتایا یہ گیا تھا کہ یہ ابھی مکمل نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  2. جواب نا مکمل ہے۔ اسکی پہلی قسط اس میں نہیں آئ۔
    جہاں تک مکمل ہونے کا سوال ہے اس بارے مین اقبال کہہ کے جا چکے ہیں کہ یہ کاءنات ابھی نا تمام ہے شاید، کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون۔
    اس سلسلے می مزید دو تحریریں آپکو بشرط زندگی کل تک مل جائیں گی۔ اسکا مزید جواب آپکو وہاں ملے گا۔

    ReplyDelete
  3. محنت سے لکھا گیا ھے اسلئے بہت اچھا ھے-

    ReplyDelete
  4. اب بڑے سے بڑا ایٹم یا چھوٹے سے چھوٹا سب ایٹامک پارٹیکل دریافت کرکے چھوڑنا اتنا بھی ضروری نہیں رہا ۔ جہاں گاڈ پارٹیکل کی باتیں چل رہی ہوں، سب ایٹامک پارٹیکل کی نون (کے این او ڈبلیو این) انٹرایکشنز کی بیس پر کونسا نیا ایلیمنٹ نہیں بنایا جاسکتا جی ؟ ایٹم کے جینز تو دریافت ہی ہوگئے ہیں کچھ دنوں میں سول کے جینز بھی سامنے آجائیں گے ۔

    ReplyDelete
  5. کیوں۔نہیں۔جیJune 11, 2010 at 6:58 PM

    پلس انفنٹ سائز یا ماس والا ایٹم تو نہ اٹھانے کے قابل پتھر ہے اور ملے گا بھی کہاں ۔ممکن ہے کہ پلس انفنٹ فاصلے پر مل ہی جائے ۔ابھی تک تو ذیادہ دور بھی نظر نہیں آرہا، کیا کریں جی ۔ پلس انفنٹ فاصلے پر دیکھنے والی سکوپ بناتے ہیں ۔اب سگنل پہنچے گا تو واپس آئیگا نا ۔اب کون پلس انفنٹ ٹائم اور پلس انفنٹ سپیڈ والی ایکویشن ڈیرائو کرے جی ۔
    چلیں قریب ترین فاصلے یعنی مائنس انفنٹ سائز فاصلے پر مائنس انفنٹ سائز یا ماس والا سب ایٹامک پارٹیکل ڈھونڈتے ہیں ۔نیا مسئلہ ہو گیا جی ۔اب مائنس انفنٹ سائز یا ماس والے سب ایٹامک پارٹیکل سے اگلوائے گا کون کہ ہاں میں ہوں مائنس انفنٹ سائز یا ماس والا سب ایٹامک پارٹیکل ۔ اب اس مصیبت میں اس سے چھوٹا کیسٹ پلیئر بنا کے کون لگائے گا جی ۔
    ہوا بھریں آئنشٹائن کے فروزن دماغ میں اور یہ پرچی ڈال کر شیک کريں ۔ امید رکھیں کہ پلس انفنٹ ٹائم میں جواب آیا ہی آیا ۔
    سائنس نہ ہو گئی کوئی مزاق ہو گیا ۔

    ReplyDelete
  6. پلس انفنٹ سائز یا ماس والا ایٹم ہونا تو پاس ہی چاہیے پر نظر کیوں نہیں آرہا اور مائنس انفنٹ سائز یا ماس والے سب ایٹامک پارٹیکل کو ماننا کسنے ہے ۔

    ReplyDelete
  7. صبر کرو اگلی قسط میں بتائینگے ۔

    ReplyDelete
  8. کیوں۔نہیں۔جیJune 11, 2010 at 7:51 PM

    اگر کسی صاحب یا صاحبہ کو مائنس انفنٹ سے بوجہ میگنیٹیوڈ اختلاف ہے تو وہ صاحب یا صاحبہ مائنس انفنٹ کو ون اوور پلس انفنٹ سے ریپلیس کرلیں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو آئیوٹا بھی مکس کرلیں ۔

    ReplyDelete
  9. پلس انفنٹ سائز یا ماس والا ایٹم ابھی پلس انفنٹ فاصلے پر ہے اور ابھی اسکے پلس انفنٹ سائز یا ماس ہونے میں پلس انفنٹ ٹائم باقی ہے ۔ مائنس انفنٹ سائز یا ماس والا سب ایٹامک پارٹیکل بھی ابھی مائنس انفنٹ فاصلے پر ہے اور ابھی اسکے مائنس انفنٹ سائز یا ماس ہونے میں بھی پلس انفنٹ ٹائم باقی ہے ۔

    ReplyDelete
  10. کیوں نہیں جی، کیوں نہیں جی، اور تمام ممکنہ جی، کیا یہ تحریر اتنی پیچیدہ تھی کہ آپ اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ حالانکہ میں نے تو اسے انٹر کے لیول کا رکھا تھا اور اگر کوئ میٹرک والا محنت کر ے تو اسے بھی پلے پڑ جائے۔ مگر نتیجہ کچھ اچھا نکلتا دکھائ نہیں دے رہا۔ آہ جی، اب کیا ہوگا۔

    ReplyDelete
  11. واہ جی اگر ہمارے سکول کے اساتاتذہ اتنی محنت سے ہمیں سمجھاتے تو آج ہماری کیمسٹری سے دلچسپی دو چند ہوتی ۔ بہت اچھا لکھا ہے ۔ ہیں جی

    ReplyDelete
  12. الحمد للہ۔
    اللہ کے فضل و کرم سے آخر کار آپ اپنی مہارت کے موضوع کی طرف آ ہی گئیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ اس میں ڈفر کی حالیہ تحریر کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ :D
    بہرحال، وجہ جو بھی ہو، مجھے آپ کو سائنسی علوم کی طرف واپس آتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
    اگر کسی دن آپ کے پی ایچ ڈی والے مقالے کا اردو ترجمہ بھی پڑھنے کو مل گیا تو موج ہو جائے گی۔

    ReplyDelete
  13. محمد سعد صاحب، ڈفر صاحب کو خوامخواہ خوش کرنے کا نئیں۔ میری یہ پہلی سائینسی تحریر نہیں۔
    میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ تقریباً پونے دو سو صفحات کا ہے۔ جو انٹرنیٹ پہ بآسانی دستیاب ہے۔ اسکا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ شروع کے دو چیپٹرز چھوڑ کر خاصہ ٹیکنیکل ہے۔ عام آدمی کے کسی کام کا نہیں۔

    ReplyDelete
  14. میرا ابتداً ارادہ اسی کا تھا۔ مگر بعض وجوہات کی بناء پہ جو میں پہلے کسی پوسٹ میں بتا چکی ہوں میں نے ایسا کیا نہیں تھا۔ اس میں ایک وجہ میرے ارادوں کا کچھ زیادہ بلند ہونا بھی تھا۔ بہر حال آپکے ہم نام سعد صاحب کی وجہ سے میں نے سوچا کہ مختلف مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔
    تو یہ نتیجہ نکلا۔
    ابھی بھی اشکال میں نیٹ سے کاپی کر رہی ہوں۔ مستقبل میں سوچتی ہوں انہیں ذاتی بنیادوں پہ تیار کیا جائے۔ فی الحال اسی پہ گذارا کرنا پڑے گا۔

    ReplyDelete
  15. Good Work.
    A suggestion
    If you can, watch this documentary http://www.shapeshift.net/2010/04/bbc-chemistry-a-volatile-history/
    and if not possible. and you know how to use utorrent for downloading. i can send u the torrent file.

    ReplyDelete
  16. کیا کیمسٹری کے معلوم‌ اصول و قوانین پیریاڈک ٹیبل پر کوئی نظریاتی حد مقرر کرتے ہیں؟۔۔۔یعنی نظریاتی طور پر ہی سہی۔۔۔کیا ایسے حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں کہ لا محدود کیمائی عناصر دریافت ہوتے رہیں۔ یا کوئی hypothetical or theoretical bound وجود رکھتا ہے جو اس عمل کو اس حد پر پہنچنے سے پہلے ہی ناممکن بنا دے؟

    ReplyDelete
  17. اوپر والا سوال چھپائی کے بعد کچھ بے ترتیب ہو گیا۔ پھر کوشش کر رہا ہوں:-

    کیا کیمسٹری کے معلوم‌ اصول و قوانین پیریاڈک ٹیبل پر کوئی نظریاتی حد مقرر کرتے ہیں؟۔۔۔یعنی نظریاتی طور پر ہی سہی۔۔۔کیا ایسے حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں کہ لا محدود کیمائی عناصر دریافت ہوتے رہیں۔ یا کوئی نظریاتی حد وجود رکھتا ہے جو اس عمل کو اس حد پر پہنچنے سے پہلے ہی ناممکن بنا دے؟

    ReplyDelete
  18. ایک اور سوال۔۔۔
    کیا میں آپ کے بلاگ پر سائنسی موضوعات پر بات کرتے وقت اگر ضرورت پڑے تو انگریزی کا سہارا لے سکتا ہوں؟ اردو میں سائنس پر بات کرنا میرے لئے کافی مشکل ہے۔

    آپ پلیز اپنے بلاگ پر کوئی ٹیگ لگائیں۔ پرانی پوسٹ ڈھونڈنے میں‌دقت ہوتی ہے۔
    پی ایچ ڈی مقالہ پڑھنا تو خیر میرے بس کی بات نہیں لیکن کیا آپ نے عام قارئین کے لئے پاپولر سائنس کی مد میں‌ کچھ لکھا ہے؟اگر ہے تو وہ کہاں مل سکے گا۔ انگریزی میں‌ہونا چاہیے۔

    آپ کا غائیبانہ سٹوڈنٹ جو آپ کو وقتاً فوقتاً تنگ کرتا رہے گا۔

    ReplyDelete
  19. جی بڑی معلوماتی پوسٹ ھے ،مگر یہ تؤ سب کافرانہ ھے جی ہماری قوم کا کیا تعلق اس سے،،،

    ReplyDelete
  20. عثمان میرے غائیبانہ اسٹوڈنٹ
    :)
    پہلے سوال کا جواب تو میں کسی اور پوسٹ میں دے چکی ہوں۔ آپ بالکل انگریزی استعمال کر سکتے ہیں۔
    ٹیگ کا چکر ڈالوں، آپ میرے بلاگ پہ کی ورڈ ڈالِن سرچ میں تو آپکو پرانی پوسٹ مل جائے گی اگر اس موضوع پہ ہوئ تو۔
    پاپولر سائینس میں اپنے بلاگ پہ نہ ہونے کے برابر لکھا ہے۔ مگر مزید بھی یہیں لکھنے کا اردہ۔ ہو سکتا ہے کہ کیمسٹری کے لئے ایک الگ بلاگ بنا ڈالوں ۔ لیکن ابھی نہیں۔

    گمنام،جی ہاں یہ سب کافرانہ ہی ہے۔ اس ٹیبل کو بنانے میں کسی ایک مسلمان کا ہاتھ نہیں ہے۔ درحقیقت ، سائینس اپنے جس انقلاب سے گذری اس میں مسلمانوں نے کوئ حصہ نہیں لیا۔ قرن وسطی کے جن مسلمانوں نے کچھ کیا وہ اگر آجی کی تعریف میں رکھے جائیں تو تقریباً سب ہی کافر نکلیں گے۔
    صحیح کہا آپ نے اسکا ہماری قوم سے کیا تعلق، پھر بھی کچھ قوم کے سپوتوں نے مجھ سے فرمائش کی تو یہ میری انسانی اور قومی ذمہداری بنتی ہے کہ جو مجھے آتا ہے اس سے انہیں مایوس نہ کروں۔
    آپ دیکھ سکتے ہیں کسی بھی چیز کے مقابلے میں ، میں نے اسے زیادہ توجہ دی اور بہت کم وقت میں اسے لکھ ڈالا اور ٹالا بھی نہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  21. Lafanga,
    you can send me the torrent file.
    Thanks.

    ReplyDelete
  22. پہلی سائنسی تحریر تو نہیں لیکن ڈفر کی ڈفری کے بعد یہاں سائنسی مضامین کی شرح یکدم بڑھ گئی ہے۔ :D

    مقالے کا ربط مل جائے تو خود ڈھونڈنے کی زحمت سے بچ جاؤں گا۔ عام لوگوں کے کام کا نہ سہی، "ام لوگ" تو کچھ فائدہ اٹھا ہی لیں گے۔ :)

    اور اگر کبھی دل کرے تو ایک دو مضامین میرے سنسان بیابان کی طرف بھی ارسال کر دیجیے گا۔
    http://science.urducoder.com

    ReplyDelete
  23. غلطی سے کہیں اور لکھ دیا تھا۔ صحیح جگہ پہ پیسٹ کر رہی ہوں۔
    سعد، پہلے تو میں یہ جاننا چاہونگی کہ ڈفر کی کون سی ڈفری کے بعد آپکو ایسا لگتا ہے۔
    میں اپنی کچھ تحریریں تاریخ کے حوالے سے لکھ رہی ہوں۔ جنکا نام رکھا ہے نئے افکار، انکا حصول اور ترویج'، ہو سکتا ہے کہ آپکی نظروں سے گذری ہوں۔ میں نے انہیں ذرا گیپ دے کر لکھنا چاہا تو درمیان میں کچھ زیادہ ہی گیپ آگیا۔ اب اگر یہی سلوک میں سائینس کے ساتھ کروں تو تسلسل کے ٹوٹنے کا اس پہ خاصہ برا اثر ہوگا۔ اس لئےایک موضوع کو میں نے ایک ساتھ ختم کر دینے میں ہی بہتری سمجھی۔ اب بہت عرصے کے لئے پیریاڈک ٹیبل کی چھٹی ہو گئ۔ جو لوگ اس سے کچھ سیکھنا چاہیں گے انکے لئے تمام مواد بآسانی دستیاب ہے اور انہیں اسے مختلف جگہ چھاننا نہیں پڑےگا۔

    نیٹ پہ میرا تھیسس دیکھنے کے لئے ، گوگل سرچ میں میرا نام لکھئیے اور لفظ تھیسس لکھئیے۔ مل جائے گا۔ اسکا لنک تو مجھے بھی یاد نہیں۔ میرے پاس اصل کاپی موجود ہے۔
    :)
    انگریزی میں میرا نام اس طرح لکھا جاتا ہے۔
    Aniqa Naz
    یہ بھی تو آپکا ہی بلاگ ہے۔
    :)
    ممکن ہوا تو ضرور ایسا کرونگی۔ وعدہ نہیں کرتی۔

    ReplyDelete
  24. میں ڈفرِ اعظم کی اس ڈفری کی بات کر رہا تھا جس میں انہوں نے غیر اہم موضوعات میں توانائیاں ضائع کرنے کے متعلق بات کی تھی۔ بہرحال، یہ تو ہو گیا مذاق جسے سنجیدگی سے لینا صحت کے لیے انتہائی مضر ہوگا۔

    سنجیدہ بات یہ ہے کہ یہ میرا بلاگ نہیں فورم ہے۔ اور میں نے سائنس کے لیے بلاگ کے بجائے فورم بنانے کو اسی لیے ترجیح دی تاکہ دیگر لوگ بھی اس میں حصہ ڈالیں اور زیادہ بڑا اور بہتر ذخیرہ تیار ہو سکے۔ :)
    انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے علاوہ مجھے ایک بھی ایسا (یونیکوڈ) اردو فورم نہیں ملا جو خالصتاً سائنسی موضوعات پر بحث کے لیے بنایا گیا ہو۔ اگر ہوتا تو میں اسی کو بہتر بنانے میں شامل ہو جاتا اور مجھے الگ فورم بنانے اور اس کی تنظیم، سافٹ وئیر کے مسائل وغیرہ پر اپنی توانائی خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ کہنے کو تو میرے فورم کو پہلا اردو سائنسی فورم کا اعزاز حاصل ہے لیکن اگر اس سے پہلے بھی دو چار سائنسی فورم اردو میں موجود ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ :(

    ReplyDelete
  25. محمد سعد، یہ بات تو خاصی اچھی ہے کہ آپ نے فورم بنایا ہے۔ کیونکہ سائینس پہ لکھنے سے پہلے میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ ایسے موضوعات بلاگ کے بجائے فورم پہ ہونا چاہئیں۔ لیکن میری سوفٹ ویئر کی استعداد انتہائ محدود اور میرے پاس فالتو وقت بھی خاصہ محدود ہے اس لئے میں نے اپنا وقت اس پہ نہیں لگایا۔ انگریزی میں تو یہ ساری چیزیں آسان ہوتی ہیں مگر کسی فورم کو اردو میں بنانا مجھے خاصہ مشکل لگتا ہے۔
    اب فورم پہ یہ ہو سکتا ہے کہ سوالات ڈالے جائیں تاکہ لوگ اسکے جوابات میں دلچسپی لیں۔ خاص طور پہ طالب علم جو پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ انکی پریشانی کچھ کم ہو۔
    سائینس پہ بحث اس وقت زیادہ کار آمد ہوتی ہے جب مبصرین سوالات کریں یا اگر کسی کو زیادہ باتیں معلوم ہوں تو وہ ان ہیں شامل کرے۔
    جیسے ابھی تک جو میں نے لکھا وہ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ کسی حقدار تک نہیں پہنچا۔ اس لئے بعض سوالات جو اٹھائے جا سکتے تھے وہ بھی نہیں آئے۔
    بہر طور ، دیکھتے ہیں ہم آپکے فورم پہ کیا کر سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  26. http://isohunt.com/torrents/?ihq=BBC.Chemistry.A.Volatile.History
    You can get torrents here

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ