Monday, May 25, 2009

کراچی میں آم

شہر میں آم ہیں، اور کوڑیوں کے دام ہیں۔ سب کہیں گے بک رہی ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ۔ حالانکہ میں شاعری کرنے کی کوششش کر رہی ہوں اس لئے آموں کے دام میں غلط بیانی کرنی پڑی ورنہ قافیہ کیسے ملتا۔ اچھا چلیں یوں کرلیتی ہوں شہر میں آم ہیں، شہد کے جام ہیں۔ اب ہر ایک مجھے لعن طعن کریگاخاتون اورجاموں کا تذکرہ۔ یہ ہے مشرف کے زمانے کی بے حیائ۔ میری توبہ۔ چلیں یہ تو ممکن ہے کہ شہر میں آم ہیں سب تمہارے نام ہیں۔ اب آم بیچنے والے میری شامت لائیں گے۔ ایسے کس کا نام ہے ہر ایک کا دام ہے ۔ لیجئیے بات پھر دام پر آگئ۔ چلیں خواب دیکھتے ہیں، شہر میں آم ہیں کوڑیوں کے دام ہیں۔

غالب کا آموں سے عشق کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نہیں معلوم کہ یہ ان کا پہلا عشق تھا یا دوسرا لیکن راوی لکھتا ہے کہ انکی آم کے متعلق دو خواہشات تھیں۔ اول یہ کہ میٹھے ہوں اور دوئم یہ کہ بہت ہوں۔کراچی کے راوی کا کہنا ہے کہ اگر سب کے سب انورٹول ہوں تو کون پاجی امریکہ اور کینیڈا کی شہریت اختیار کرے گا۔

یہ غالب کے قصائد میں سے لئے گئے کچھ شعر ہیں۔ آم کھانے کے بعد پڑھئے۔ آم کھا کر پیدا ہونے والی غنودگی ختم ہو جائے گی۔ آزمائ ہوئ بات تو نہیں پر آپ پہ آزما لینے میں کیا نْقصان ہے۔

بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے
خامہ نخل رطب فشاں ہوجائے
آم کا کون مرد میداں ہے؟
ثمروشاخ، گوئے چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں آئے،
یہ گوئے اور یہ میداں
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادہء ناب بن گیا انگور
یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو ، تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
نہ گل اس میںنہ شاخ و برگ، نہ بار
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار
اور دوڑائیے قیاس کہاں
جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں
جان میں ہوتی گر یہ شیرینی کوہکن باوجود غمگینی
جان دینے میں اس کو یکتا جان پر
وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دواخانء ازل میں مگر
آتش گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام
یا یہ ہوگا کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغ جنت سے
انگبیں کے بحکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخ نبات
مدتوں تک دیا ہے آب حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاںورنہ، اور کہاں یہ نخل
تھا ترنج زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد، پر کہاں بو باس
آم کو دیکھتا، اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار
رونق کارگاہ برگ ونوا
نازش دودمان آب و ہوا
رہرو راہ خلد کا توشہ
طوبی و سدرہ کا جگرگوشہ
صاحب شاخ برگ و بار ہےآم
ناز پروردہء بہار ہے آم

ریفرنس؛
یہ اس دیوان غالب سے لیا گیا ہے جس کے ناشر و طابع ہیں۔ فضلی سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اردو بازار، کراچی
fazlee@cyber.net.pk

No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ