Monday, May 18, 2009

کراچی کے طالبان


لکھنا تو کچھ اور تھا مگر اخبار ڈان میں چھپنے والے ایک مضمون جسے ندیم ایف پراچہ صاحب نے لکھا ہے ساری توجہ اپنی طرف لے لی۔ اسکی سرخی ہے،

'More and more does one now hear about incidents and tales where young urban
women are being asked by total strangers to ‘dress properly’ or more so, wear a dupatta over their heads or observe hijab.'
یعنی اب ہم آئے دن اسطرح کے واقعات نوجوان شہری خواتین سے سنتے ہیں جہاں انہیں کوئ بالکل اجنبی شخص مناسب طریقے سے کپڑے پہننے خاص طور پردوپٹہ سر پر رکھنے یا حجاب پہننے کو کہتا ہے۔

اب ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ان رونما ہونے واقعات سے انکار کر دیں جیسا اس ویڈیو کے ساتھ ہوا جس میں سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگائے جا رہے تھے۔یہ انکار اس لئے ہوگا کہ یہ واقعہ ان کے ساتھ پیش نہیں آیایا ابھی تک ان کے کسی جاننے والے کے ساتھ نہیں ہوا۔یا کچھ لوگ کہیں گے کہ آخر خواتین عزت اور شرافت سے کیوں نہیں رہتیں۔ گویا سر پہ دوپٹہ رکھنا شریف ہونے کی پہچان ہے۔اور صرف اس عورت کی عزت کی جائے جو دوپٹہ سر سے آوڑھے ہو۔اور اگر ایک لمحے کے لئے سوچ لیں کہ آپ صحیح سوچ رہے ہیں تو اب آپ کو حق حاصل ہو گیا ہے کہ جس کے پیچھے چاہیں لٹھ لیکر پڑ جائیں-مجھے اپنی قبر
میں جانا ہے اور میرے ساتھ شاید آپ کی بھی تدفین ہونے والی ہے۔ بلکہ یہ بھی میں غلط سوچتی ہوں
ْآپ تو اب مجھے قبر میں پہنچا کر دم لیں گے کیونکہ خدا کو چاہے اس کی پرواہ ہو یا نہ لیکن آپ اس دنیا کو
اپنے تئیں ہر برائ سے پاک کر دیںگے اور وہ برائ صحیح نہ ہوئ تو آپ اسکے کرنے والے کو اپنی نگرانی
میں جہنم رسید کردیں گے۔غالب اس زمانے میں ہوتے تو کیوں شکوہ کرتے کہ

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ نا حق
آدمی کوئ ہمارا دم تحریر بھی تھا
آپ ہونگے خدا ئ فوجدار، عقل سے نادار۔

اب ہوا یوں کہ اسی قسم کا واقعہ میری ایک عزیزہ کے ساتھ پیش آیا۔ کراچی میں ڈیفنس سے نارتھ ناظم آباد بس میں آتے ہوئے۔ ایک پٹھان بڑے میاں اچانک اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور پشتو میں مغلظات بولنا شروع ہو گئے۔ وہ صرف ان کی گالیاں کسی حد تک سمجھ سکتی تھی اور حیران تھی کہ آخر اس نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ وہ اسقدر چراغ پا ہے۔ پھر ان کے جسمانی حرکات و سکنات سے اندازہ ہوا کہ وہ اسے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے کو کہ رہا ہے۔ اس نے بالکل نرم آواز میں اس سے کہا کہ وہ جا کر اپنی سیٹ پہ بیٹھے۔ اس پر وہ صاحب اسے مارنے کے لئے دوڑے اتنے میں کنڈیکٹر بیچ میں آگیا اور معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لئے اسے سر پہ دوپٹہ اوڑھنا پڑا اس وقت تک کے لئے جب تک وہ اس بس میں تھی۔ اگرچہ کہ میرا خدا سے کوئ وحی کے ذریعے تعلق نہیں لیکن اتنا جانتی ہوں کہ اس سے ان صاحب کو خدا کے حضور کوئ فائدہ نہیں ہوا، سر پہ دوپٹہ رکھنے سے ان خاتون کی ذاتی اخلاقیات میں بھی کوئ فرق نہیں آیا۔اور سوائے اس کے کہ وہ خاتون ہراس ہوئیں اور کچھ مزید خواتیں یہ سن کرہراس بھی ہوئ اور انہیں اس بات پہ شرمندگی ہوئ کہ ہم اس وقت دنیا کے کس حصے میں موجود ہیں جہاں ایک اجنبی مرد ہمیں اس لئے مارنے کو دوڑے کہ ہم اس کَے سوچے ہوئے طریقے کے مطابق کپڑے نہیں پہنے ہوئے ۔

اب جناب ندیم ایف پراچہ کہتے ہیں کہ آخر شہری خواتین اس قسم کے لوگوں کو تھپڑ کیوں نہیں رسید کرتیں۔ پراچہ صاحب یہ بات تو خود مجھے حیران کرتی ہے کہ خواتین اس قسم کے لوگوں کو پلٹ کر تھپڑ کیوں نہیں مارتیں۔ جو صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اس طرح خواتین کو تنگ کر رہے ہیں۔ یہ وہ مرد ہیں جو عام حالات میں اان سے بات کرنے کی جرءات بھی نہ کریں۔

میں سمجھتی ہوں کہ یہ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ اور انسانی معاشرے کواپنی ایک ذہنی حد سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ آخر خواتین اور وہ بھی اس دور اور اس شہر کی خواتین کیوں اس انتظار میں ہے کہ کوئ مرد آئے اور انہیں اس مصیبت اور ان بیمار لوگوں سے نجات دلائے۔ یہ بیمار لوگ جو اپنے حالات، ثقافت اور تربیت کی پیداوار ہیں۔

اب دو دن پہلے ایک دوست نے بتایا کہ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھیں کہ ایک افغانی ڈرائیور نےانہیں سگنل پہ آلیا وہ اس چکر میں گاڑی سے اتریں کہ گاڑی میں کچھ خرابی ہو گئ ہے اور وہ اسے کچھ بتانا چاہ رہا ہے۔ تو اس افغانی نے اسے گالیاں دینی شروع کر دیں کہ وہ کتنی بے غیرت ہے جو گاڑی چلا رہی ہے۔ لیجئے اب گاڑی چلانا بے غیرتی کی بات ہے۔ وہ گاڑی میں خاموشی سے بیٹھیں اور اسے نظر انداز کر کے گاڑی چلانی شروع کی تو اس نے اپنی یلو کیب سے اسے ٹکریں مارنا شروع کردیں۔قصہ اس وقت مختصر ہوا جب وہ ایک ٹریفک سارجنٹ کے پاس جا کر رکیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو اس میں مزہ آئے۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہیں خواتین کو تکلیف دہ حالات میں دیکھ کر مزہ آتا ہے۔ لیکن اس قسم کے حالات سے گذرنا کافی شاکنگ ہوتا ہے۔

اب یہ واقعہ سننے کے بعدایک اور دوست پریشان ہیں کہ انکی بوڑھی نانی ایک ایسے علاقے میں رہتی
ہیں جہاں جانے کے لئے انہیں ایک مخصوص علاقے سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ وہاں انہیں اس قسم کے بیماروں سے ملنے کا اتفاق ہو سکتا ہے ۔ اب وہ اکیلے گاڑی ڈرائیو کرکے ان سے ملنے جانے کے لئَے
ہچکچا رہی ہیں حالانکہ پہلے وہ وہاں سے آدھی رات کو بھی مزے سے آجاتی تھیِں۔ نہ جانے کون ان کی
گاڑی کو ٹکر مار دے جان بوجھ کر۔

اب میں پھر وہی بات سوچتی ہوں کہ خواتین کس کا انتظار کر رہی ہیں۔ کم از کم ایک بات کا میں نے تہیہ کیا ہوا ہے اور وہ بھی پراچہ صاحب کے مشورے سے پہلے کہ مجھ سے اگر کسی نے راہ چلتے یہ کہا تو میں اسے ماروں گی ہر اس چیز سے جو میرے ہاتھ میں ہو گی یا میری پہنچ میں۔
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ کوئ مرد اس قسم کی شکایت کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ اسے کسی نے کہیں روک کر داڑھی نہ رکھنے پہ ، یا شلوار ٹخنوں سے اوپر نہ پہننے پہ پٹائ لگا دی ہو۔
یہ کھلی علامت ہے اس بات کی کہ یہ بیمار مردوں کا ایک ٹولہ ہے۔

کیا مجھ جیسی صحت مند دماغ اور مثبت سوچ رکھنے والی عورت کو ایک بیمار ذہن کے مرد سے شکست ماننی چاہئیے۔ وہ بیمار مرد جو صلاحیت میں، استعداد میں، علم میں اور عقل میں پیچھے رہ گیا ہے وہ اب مذہب کا ڈنڈا لیکر میرے اوپر حملہ آور ہو گا ۔ جواب یہ ہے کہ نہیں کبھی نہیں۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ بیمار ہے۔ اور ہم نے اسے ابھی ٹھیک نہ کیا تو کل وہ میری بیٹی کو ایک نارمل زندگی نہیں گذارنے دے گا۔ مجھے اس سے آج اور ابھی لڑنا چاہئے اور پوری طاقت سے۔ مجھے اسے بتانا ہو گا کہ وہ اپنے احساس کمتری کو مذہب کی آڑ میں نہیں چھپا سکتا۔۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیسے۔ آئیے میرے ساتھ یہ مسئلہ حل کریں۔

ریفرنس؛ندیم ایف پراچہ کا مضمون مکمل پڑھنے کے لئے اس یو آر ایل پہ جائیں۔

ندیم ایف پراجہ

ڈان اخبار بروز اتوار، بتاریخ۱۷ مئ،۲۰۰۹

6 comments:

  1. کوئی پوچھے زبردستی کس کو دین پر چلایا جا سکا ہے؟
    اگر واقعی ایسے واقعات سچ میں ہو رہے ہیں تو ہم تعلیم سے جہالت کا سفر طے کر رہے ہیں
    اور ثابت کر رہے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو دنیا پیاری نا دین
    دونوں کو برباد کر رہے ہیں

    ReplyDelete
  2. شکریہ ڈفر، میں شاعر تو نہیں کہ ہونی کو انہونی کردوں اور انہونی کو انہونی۔ اس شہر میں رہتی ہوں۔ اور معاشرے کے ہر قسم کے طبقے سے روابط رکھتی ہوں اور آنکھیں اور دماغ کھلے۔ جو مولومات فراہم کی گئ ہیں وہ بلاواسطہ ہیں۔

    ReplyDelete
  3. دیکھیں جی سیدھی سی بات ہے، بیچارے ان مردوں کو جنہیں مُردوں کہنا چاہئے جب ان کے گھر کی عورتیں بھی عزت سے نہ بلائیں گی تو انکی ذھنی حالت یہی ہوگی۔ یہ گروہ اسلام کو دیمک کی طرح چودہ سال سے ہی چمٹا ہوا ہے۔ ان کا جواب یہی ہے کہ جب خواتین ان کو تھپڑ ماریں گی تو شاید انہیں اپنی بھی تذلیل محسوس ہو اور یہ رک جائیں۔ لکھنؤ میں ایک زمانے میں فرقہ وارانہ فسادات تبرا ایجی ٹیشن سے رکے تھے۔ یعنی جس جس کا الزام تھا، اس کو کر کے اور با جماعت کر کے دکھا دو اور کہو کہ اب کر لو جو کرنا ہے۔ اپنی عزت بچانے کو اسلام کے ٹھیکےدار تب بھی چھپ گئے تھے۔ ہمارے سمجھدار مردوں کو اپنی خواتین کے ہمراہ اس طالبانی روش کو روکنا ہوگا۔ تاہم سال گزژتہ جب میں پاکستان میں تھا تو اچھی بھلی خواتین کے یہاں بھی نا چاہتے ہوئے انکی پسلی اور وسیع تر سینہ نظر آ رہے تھے۔ یہ بھی ایک غلط روش ہے اور کھال کی نمائیش سے نہ کوئی حسین لگتا ہے اور عقلمند و سمجھدار۔ دونوں طرف کی شدت نا مناسب ہے۔ مشرف میاں جس طرح عریانی کر گئے اور سٹیج پر اور پرائیویٹ تقریبات میں جو عریاں مجرے آج بھی یوٹیوب پر دستیاب ہیں، وہ بھی بجائے خود کواتین کی تذلیل ہے کہ کہ جنسی تسکین کی خاطر ایک ضرورت مند عورت کو اس منزل پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ اسے خود نہیں پتہ کہ اس کے گوشت کے پجاری تب تک اس گوشت کا چاہیں گے جب تک یہ ہڈیوں کے ساتھ مضبوطی سے پیوست ہے۔ جسم ڈھلکا نہیں اور ان گاہکوں کو نئی عورت فوری دستیاب۔ اسیے مردوں اور عورتوں کا بھی علاج کرنا ہوگا۔

    ReplyDelete
  4. درست ہے کہ کسی غیر کو ٹوکنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ پرانے زمانے می بھی یہ ہوتا آیا ہے لیکن بزرگ لوگ سمجھانے کی خاطر کیا کرتے تھے
    از راہِ مہربانی اپنی ہم جنس پر رحم کیلجئے اُنہیں تھپڑ مارنے کی تلقین نہ کیجئے کہ اس کا نتیجہ بہت بُرا ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا بھی فرمان ہے کہ جب شریف لوگوں کے آڑے کوئی غلط چیز آتی ہے تو وہ کہتے ہیں سلام یعنی راستہ بدل لیتے ہیں ۔
    اب آتے ہیں حقیقت کی طرف ۔ میں نے گھومنا پھرنا کئی سال سے بند کر دیا کہ نظر اُٹھا کر چلنا ہی مشکل ہو گیا تھا ۔ اگر میں امریکہ یا یورپ میں ہوتا تو صرف استغفار پڑھ لیتا مگر اپنے ملک میں ہر آن آبدیدہ ہو کر اللہ سے پناہ مانگ کر دعا کنا پڑتی تھی کہ ہماری قوم کو نیک ہدائت دے ۔ ایک بار میں ایف ۔ 7 مرکز المعروف جناح سُپر کچھ لینے گیا تھا وہاں برآمدے میں گذرتے ہوئے ایک مقالمہ سُنا ۔ عورت "کیا دیکھ رہے ہو ؟" مرد "جو آپ دکھاتی پھر رہی ہیں "۔
    میں نے جو نظر اُٹھائی جیسے مجھ پر بجلی گری ۔ اس کے بعد سے میں نے ایسے علاقوں میں جانا بالکل بند کر دیا جہاں ہمارے ملک کی نام نہاد تعلیمیافتہ مگر آزاد خیال نام کی مسلمان عورتیں جاتی ہیں

    ReplyDelete
  5. محترمہ عنیقہ ناز اپنے نہایت حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ میں بھی اس موضوع پر کئی بار اپنے بلاگ پر لکھ چکا ہوں کہ ملک کے شمالی علاقہ جات سے آنے والوں کا سیلاب شہر میں ایک زبردست کلچرل تضاد پیدا کردے گا۔ خصوصا تب جب ایک گروہ اپنے کلچر کو قرآنی اور آفاقی سمجھ کر کسی دوسرے رہن سہن یا طرز زندگی کو برداشت کرنے سے انکار کردے۔

    آپ اس کلچرل تضاد کا ایک نمونہ اوپر کے تبصرہ جات میں بھی دیکھ سکتی ہیں۔ کسی خاتون کو چاہے اس نے کیسا ہی لباس پہنا ہو گھورنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا معیوب ہی نہیں قانونا جرم بھی ہے۔ مگر لوگ اس معاملے میں بھی خاتون کو ہی گناہ گار ٹہرائیں گے۔ یہ ایسا کلچر ہے جہاں مردوں کو بچپن سے خواتین کو کمتر سمجھنے کی لاشعوری تربیت دی جاتی ہے۔ انہیں بچپن سے یہ بتایا جاتا ہے کہ عورت فساد پیدا کرتی ہے، کم عقل ہے، اور عورت کو دبا کر رکھنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ایک عورت پر اس کا شوہر ہی نہیں باپ، بھائی، سسر دیور سب حاکموں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کے رہن سہن سے لیکر اٹھنے بیٹھنے تک کو اپنی مرضی کے مطابق بناتے ہیں۔ اس کلچر میں اگر کسی عورت کے ساتھ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو لوگ اس عورت کو ہی قصور وار ٹہراتے ہیں کہ وہ خود ہی دعوت گناہ دیتی پھر رہی تھی۔ کراچی کے لوگوں کا کلچر ان سے کافی مختلف ہے۔ یہاں خواتین کو نسبتا زیادہ آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس آزادی کو سمجھنا ان لوگوں کے لئے ناممکن ہے کیونکہ ان کے دماغ میں عورت کے ذہین انسانی مخلوق ہونے کا تصور ہی موجود نہیں ہے۔

    میرے ایک پختون دوست تو یہ کہتے ہیں کہ جو عورت گھر سے نکل گئی وہ خراب عورت ہے۔ جس پر میری ان سے بہت لڑائی بھی ہوئی۔


    تھپڑ مارنے کا مشورہ نامناسب ہے۔ لیکن اگر اردگرد بھیڑ بھڑکا ہو تو خواتین کو ایسے بدتمیز لوگوں کو کنفرنٹ ضرور کرنا چاہئے۔

    ReplyDelete
  6. شکر ہے نومان صاحب کہ آپ نے بات کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ حالانکہ میں نے اپنی پوسٹ میں ان عام خواتین کی بات کی تھی جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ورکنگ کواتین ہیں۔ پھر بھی مجھے ان خواتین کے حوالے دئیے جا رہے ہیں جن کا تعلق بازار حسن سے ہے۔ وہ بالکل ایک الگ موضوع ہے۔ میری ایک دوست جو کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتی ہیں اور مکمل حجاب کرتی ہیں۔ ان کا برقعہ ایک پٹھان نے گھر سے بس اسٹاپ جاتے راستے میں کھینچا۔ صرف اس لئے کہ گلی سنسان تھی۔ اب یہ تمام حضرات یہ بتائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کیا بے حیائ کی۔ صرف اس لئے کہ گھر سے نکل گئ تھیں۔ جی نہیں جناب اس کا تعلق بنیادی نفسیات سے ہے۔ آپ کی تربیت کس ماحول میں ہوئ، آپ کو زندگی میں کتنا تنوع دیکھنے کو ملا، اور آپ کی ذاتی مشاہداتی قوت کتنی ہے۔ مجھے معلوم ہے کچھ لوگ صرف خواتین کے گوشت میں الجھے رہتے ہیں جیسے وہ گوشت کی دوکان ہیں ہیں اور انسان نہیں۔ معلوم نہیں مرد کس چیز سے بنے ہوتے ہیں۔ اور یہ جو آپ نے عورت کے ذہین ہونے کیبات کی ہے تو ایک مخصوص طبقہ تو اس چیز سے انکاری ہے کہ عورت کے پاس ذہن بھی ہوتا ہے۔ یعنی وہ تیر تونے مارا سینے میں کہ ہائے ہائے۔ عورت تو ملکیت ہوتی ہے صرف اسی کے اخلاق کی دیکھ بھال ضروری ہے۔ اور یہ دیکھ بھال معاشرے میں موجود مرد ہی کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ مرد کیا کرتے پھرتے ہیں اس کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ در حقیقت طالبان کو عنان حکومت دے بھی دی جائے اور خواتین ان کے بتائے ہوئے طور طریقوں کو اپنا بھی لیں تو کچھ اور ایشوز کھڑے ہوجائیں گے۔ آج ان کے حق میں بولنے والے لوگ جب کل ان کے ستم کا شکار ہونگے تو کیا ہو گا۔ یہ شاید انہوں نے کبھی نہیں سوچا۔انہیں سوچنا بھی نہیں چاہئیے وہ تو مرد ہیں۔ آپ کا شکریہ، آپ امید کی ایک کرن ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ