میری ماسی کا نام ریحانہ ہے۔ وہ میرے گھر کے قریب کچی آبادی میں نالے کے کنارے پہ رہتی ہے۔ اس کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ یہ تعلق میں اکثر اس لئے بتاتی ہوں کہ ہر انسان اپنی ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ماحول سے ہٹ کر سوچنے سمجھنے اور عمل کرنےکی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہی لوگ وقت سے آگے اور اس سے الگ ہو کر دیکھ سکتے ہیں۔ اور نا محسوس طریقے پہ انہی لوگوں سے دنیا کا مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے اسی روائتی نظام سے جڑی رہتی ہے اور بلآخر وہ اس نظام کی اور وہ نظام ان کی شناخت بن جاتا ہے۔
ہاں تو میں اپنی علامیت ایک طرف رکھ دیتی ہوں کیونکہ اس قصے میں جو بہت سادہ سا ہے اور اس میں نہ کوئ گہرئ اہے، نہ سنسنی نہ نیاپن اور نہ کوئ سبق۔ لیکن بات یہ ہے کہ دنیا کی کتاب بس ایسے ہی بھرتی کے صفحات سے زیادہ بھری ہوئ ہے۔اب جو لوگ کچھ نئے کے لئے یہاں آئے ہیں وہ برائے مہربانی یہیں سے پلٹ جائیں۔ اس سے ان کا وقت کم ضائع ہوگا۔
ہاں تو مجھے اسکا گھر صحیح سے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہےیعنی اختر شیرانی کی طرح میں انگلی آٹھا کہ یہ نہیں کہ سکتی کہ یہی ہے وہ گلی ہمدم جہاں ریحانہ رہتی ہے۔ کچھ لوگ اگر اختر شیرانی سے میرا رشتہ جاننا چاہتے ہیں تو بتا دوں کہ وہ عرصہ دراز ہوا اس دار فان سے کوچ کر چکے ہیں شاعر تھے خواتین کا نام اپنی شاعری میں خوب استعمال کرتے تھے لیکن افسوس میرا نام کبھی استعمال نہیں کیا۔ ایک طرح میری بچت ہو گئ وگرنہ کراچی سے باہر کے ہر ایک شخص کو یقین دلانا پڑتا کہ وہ عالم بالا سے افیئر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتےاور نہ ہی مجھے روحوں سے کوئ دلچسپی ہے۔
خیر بات کسی اور طرف چلی گئ۔ میں واپس ریحانہ کیطرف آتی ہوں۔ وہ پچھلے دو سال سے میرے پاس ہے۔ اس کے پانچ بچے ہیں اور چھٹا آنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ایک زمانہ ایسا گذرا کہ جھاڑو ایک ماسی لگاتی اس اثناء میں وہ ڈس مس ہوجاتی اور پھر پونچھا لگانے دوسری عورت آتی۔کبھی کبھی میں ہی صبح سے رات تک گھر کے کاموں مین گھن چکری بنی رہتی۔ ریحانہ صفائ کے معاملے میں جیسی بھی ہو۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتی رہتی اور میں اپنا۔ اگر میں اسے کسی غلطی سے آگاہ کروں تو بغیر کسی جھک جھک کے اسے صحیح کر دیتی ہے۔ مجھے سرائکی لوگوں کی طبیعیت کا یہ ٹھنڈا پن پسند ہے۔
ابھی دو دنوں سے وہ نہیں آرہی تھی تو میں نے اس کی نند سے جو اتفاق سے گھر میں کچھ اور اور کام انجام دیتی ہے اس کے بارے میں دریافت کیا۔
اس نے مجھے بتایا کہ ریحانہ کا اپنے شوہر سے کچھ جھگڑا ہو گیا تھا تو بس اس دوران میں اسے چوٹ لگ گئ اور اس کے ہاتھ کا جوڑ اپنی جگہ سے کھسک گیا۔ ریحانہ نے اپنی جگہ کام کرنے کے لئے ایک اور ماسی کو بھیجا ہے وہ تھوڑی دیر میں آئے گی۔ وہ آئ تو ایک بڑی بی نکلیں، لگ بھگ ساٹھ سال کی۔ میں اسے دیکھ کر خاموش ہو گئ۔ جب وہ جانے لگی تو میں نے اس سے پوچھا کہ میں نے سنا تھا تمہاری بیٹی کام کریگی۔ کہنے لگی وہ کسی اور جگہ جاتی ہے یہاں نہیں آ سکتی۔ اب میں کچھ سوچنے لگی تو اس نے دھیمی آواز میں مجھ سے پوچھا ' کیوں میرا کام پسند نہیں آیا؟' ' آں، نہیں یہ بات نہیں ہے۔ کام کافی زیادہ ہے اور تم خاصی کمزور اور بوڑھی ہو'۔ مجھے بالآخر کہنا پڑا۔ ' کیوں باجی، کیا بوڑھوں کا پیٹ نہیں ہوتا۔ پیٹ تو جوان بوڑھے سب کے ساتھ لگا ہے'۔ اس نے جیسے میرے منہ پہ اسکا چ ٹیپ لگا دیا ۔
اگلے روز ریحانہ مجھ سے ملنے آئ اس کے ہاتھ پہ پلاستر چڑھا ہوا تھا۔ کیا ہو اتھا ریحانہ میں نے اس کے ہاتھ پہ ہمدردی کی نظر ڈالی۔ 'باجی چھوٹی بچی کی طبیعیت خراب تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس اسے لے جاءّو۔ کہنے لگا تم لے جاءو میں تھکا ہو ہوں۔ اب آپ بتائیں کیا میں تھکی ہوئ نہیں تھی۔ میں بھی سارا دن کام کرتی ہوں۔ بس یہ بات میں نے اس سے کہی تو مجھے مارنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ میری ماں بہنوں کو گالیاں دینے لگا۔ اب آپ بتائیں۔ ہمارے جھگڑے میں میری ماں بہنوں کے لئے کیوں گالیاں نکالیں۔ اتنا مارامجھے۔ پھر اسٹیل کے چمچے سے مارنے لگا بس وہ ہاتھ پہ لگ گیا۔ ہڈی میں فریکچر ہو گیا۔ میں تو ناراض ہو گئ تھی اپنی ماں کے پاس چلی گئ۔ پر بعد میں رونے لگا کہتا ہے میرے اوپر کسی نے جادو کردیا ہے۔ مجھے مارتے ہوئے احساس نہیں ہوا میں کتنا مار رہا ہوں۔ بچوں کو بھی مارا۔ میں بالکل پاگل ہو گیا تھا۔ آپ بتائیں کام تو ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پیسوں میں پورا نہیں ہوتا۔ ہم تو ان کی مدد کرتے ہے۔ لیکن یہ سمجھتے نہیں۔ میں واپس گھر آگئ وہ اتنا رو رہا تھا۔' میں خاموشی سے اس کی کہانی سنتی رہی۔ وہ سرائکی انداز میں بہے جا رہی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے پاس کسی جادو کا توڑ نہیں۔ اور میں دریا کے کنارے پڑے پتھر کی طرح اسے تک رہی تھی۔
دیکھا آپ نے یہ کتنی عام سی بات تھی۔ لیکن بس اتنی عام باتوں پہ کوئ اپنے بچوں کے گلے کاٹ کر خود کشی کر لیتا ہے اور کوئ مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا لیتا ہے۔ میں ریحانہ کے ساتھ ملکر ان جادو کرنے والوں کو کوستی ہوں۔ وے تیرا ککھ نہ رہوے۔
Wednesday, May 27, 2009
1 comment:
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
تو یہ جو ناانصافیاں اس معاشرہ میں ناچ رہی ہیں سرعام ان سب کی اصل تو گھر سے ہی شروع ہوتی ہے نا۔ یہی تو ہے ہم سب کا پاکستان۔
ReplyDelete