Sunday, May 17, 2009

نظیر اکبرآبادی کا ایک شعر

نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ انہیں فطری شاعر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نقاد ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس بات سے قطع نظر میں ان کی بے حدطویل بحر کا ایک شعر پیش کرنا چاہتی ہوں۔ مزہ لیں اور زبان پر ان کی قدرت پہ حیران ہوں۔

پہلا مصرع

ایک دن باغ میں جا کر، چشم حیرت زدہ وا کر، جامہء صبر قبا کر، طائر ہوش اڑا کر
شوق کو راہ نما کر، مرغ نظارہ اڑا کر، دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی
شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی،
ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی ہری تھی، خوش نسیم

سحری تھی، سروشمشاد وصنوبر، سنبل و سوسن وعرعر، نخل میوے سے رہے بھر، نفس باد
معنبر، درو دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق، کہیں انگور معلق، نالے بلبل کے مدقق،

کہیں غوغائ کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل غم ہوا کشتہ و بسمل
شادی خاطر سے گئ مل، خرمی ہو گئ حاصل، روح بالیدہ ہو آئ، شان قدرت نے دکھائ
جان سے جان میں آئ، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا

دوسرا مصرع

نا گہاں صحن چمن میں، مجمع سرو و سمن میں، جیسے ہو روح بدن میں، جیسے ہو شمع لگن میں
جیسے خورشید کرن میں، ماہ پرویں وپرن میں، دیکھا اک دل بر رعنا، وطرحدار جفا کار، دل آزار
نمودار، نگہ ہمسر شمشیر، مژہ ترکش پر تیر، سر زلف گرہ گیر، دل خلق کی زنجیر، جبیں نور کی
تصویر، وہ رخ شمس کی تنویر، زباں شہد بیاں شیر، نظر روح کی اکسیر، دہن غنچہء خاموش
سمن برگ بر دوش، سخن بحر گہر جوش، بدن سرو قبا پوش، چھڑی گل کی ہم آغوش، وفا رحم
فراموش، ہر اک آن ستم کوش، عجب حسن دل آرا، نہ کبھی مہر نے دیکھا، نہ کبھی ماہ نے دیکھا، نہ کسی فہم
میں آیا، نہ تصور میں سمایا، وہ نظر مجھکو جو آیا، مجھے حسن اپنا دکھایا، دل نے اک جوش اٹھایا
جی نے سب ہوش اڑایا، سر کو پاءوں پہ جھکایا، اشک آنکھوں سے بہایا، اس نے جب یوں
مجھے پایا، یہ سخن ہنس کے سنایا، کہ'تو ہے عاشق شیدا، لیکن عاشق نہیں پیدا، ہووے تجھ پر
یہ ہویدا، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت کو نباہے، نہ کبھی غم سے کراہے، نہ کسی غیر کو چاہے
نہ کبھی گل کی طرف دیکھ، نہ سنبل کی طرف دیکھ، نہ بلبل کی طرف دیکھ، نہ بستاں پہ نظر کر
نہ گلستاں میں گذر کر، چھوڑدے سب کی مودت، ہم سے رکھ دل کی محبت،
ایسے میں ہم بھی تجھے چاہیں، تجھ سے الفت کو نبا ہیں، ہیں یہی چاہ کی راہیں، گر یہ
مقدور تجھے ہو، اور یہ منظور تجھے ہو، تو نظیر آج سے تو چاہنے والا ہے ہمارا


تو جناب یہ تھے ایک شعر کے دو مصرعے، کہئے کیسی رہی۔

ریفرنس
کلیات نظیر جسے مولانا عبدالباری صاحب نے مرتب و مدون کیا۔ اور چھاپا ہے مکتبہء شعر و ادب، سمن آباد، لاہور نے۔

4 comments:

  1. اس شعر کو پڑھ کر میرے شاعری ذوق کا تو معدہ خراب ہو گیا ہے
    اسے سخت خوراک منع ہے نا!۔

    ReplyDelete
  2. اس شعر کو پڑھ کر میرے شاعری ذوق کا تو معدہ خراب ہو گیا ہے
    اسے سخت خوراک منع ہے نا!۔

    ReplyDelete
  3. نرم غذا حاضر ہے،
    رب کا شکر ادا کر بھائ
    جس نے پیاری گائے بنائ
    امید ہے افاقہ ہوگا

    ReplyDelete
  4. صحیح کہتے ہیں لوگ کہ نظیر کے دربار میں لفظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ۔ اس شعر کو باآواز بنلد پڑھنے سے ہی حرف و صوت کی کئی پرتیں انسان پر کھل جاتی ہیں اور لفظوں کے صحیح تلفظ اور ان کے اوزان کا پتہ چلتا ہے۔
    بہت عمدہ
    محمد کامران عثمانی

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ