اوریا مقبول جان ایکسپریس میں کالم لکھتے ہیں ۔ اور جو چاہتے ہیں لکھتے ہیں۔ اس کے لئے تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ نہ ہی سچ جاننے کی۔ سنی سنائ بات کو آگے بڑھانے والے کے لئے تاریخ میں کچھ زیادہ اچھے الفاظ نہیں۔اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے بد دعائیں دینے والے کے لئے اس سے زیادہ برے الفاظ ہیں۔ انکے ایک کالم کو ہمارے ایک کرم فرما شعیب صفدر صاحب نے اپنے بلاگ پہ جگہ دی۔ عنوان تھا اس کا 'ڈر اس کی دیر گیری سے'۔میں نے اس بلاگ پہ اس پہ تبصرہ کیا لیکن میری خواہش ہے کہ یہ تبصرہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے علم میں آجائے۔ معمولی ایڈیٹنگ کے ساتھ یہاں دوبارہ دے رہی ہوں۔ اوریا مقبول جان صاحب سے عقیدت رکھنے والے لوگ، اپنے نکتہء نظر سے ہٹ کر نہ برداشت کرنے والے لوگ براہ مہربانی اسے پڑھنے سے گریز کریں۔۔ باقی خیر ہے۔
اوریا مقبول جان نے روایت کو قائم رکھا یعنی اپنے مطلب کی آدھی بات تو بیان فرما دی اور باقی آدھی بات کا تذکرہ گول کر گئے۔ جہاں انہوں نے اپنے اتنے احسانات گنوائے وہاں اگر وہ کچھ اور باتیں بھی بتا دیتے تو اچھا تھا۔ مثلاً انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب پاکستان بناتو حالات ایسے تھے کہ حکومت پاکستان کے پاس ایک مہینے کی تنخواہ دینے تک کے پیسے نہ تھے۔ ان مہاجریں نے کسطرح اپنی ذاتی املاک سے فنڈز اکٹھے کئے اس کا کوئ تذکرہ نہیں۔
ذرا اس واقعے کا بیان دیتے جس میں نطام دکن نے میر لائق علی کے ہاتھ اس مملکت خداد معاف کیجئے گا آپکی سر زمین کو مدد کے لئے ایک خطیر رقم بھیجی۔ اس کے علاوہ ناموں کی ایک لمبی لسٹ جو اس وقت میرے دماغ سے محو ہو گئے ہیں۔ذرا دو چار نام ان کے بھی گنوا دیتے یا معلوم کر لیتے تو اچھا تھا۔۔
آپنے اس وقت کی وفاقی ملازمتوں میں مہاجرین کی تعداد کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اسوقت مغربی
پاکستان میں تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کا کس قدر قحط الرجال تھا۔ آپ کا یہ خطہ جس میں اس وقت کا پاکستان موجود
ہے یہاں کی تعلیمی زبوں حالی اور ذہنی معاشرتی زبوں حالی کا تذکرہ بھی کر لیتے تو آپ کے الفاظ دھاک بیٹھ جاتی۔اگر وہ
لوگ آکر یہ سب نہ سنبھالتے تو گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی یہ پیشن گوئ کہ یہ ملک تو چند دنوں کے لئے بنا ہے اسے
پورا ہونے سے کون روک سکتا تھا۔ آپ کے جاگیردار یا سردار۔ جن سے اس وقت قائد اعظم کو ڈیل کرنی پڑی تھی کیونکہ وہ
اپنی بات کو ہر صورت پورا کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت ان سے کی گئ ڈیل کے نتیجے میں یہ ملک کبھی جاگیرداری کے آسیب
سے آزاد نہ ہو سکا حالانکہ جواہر لعل نہرو نے آزادی کے فوراً بعد زمینداری نطام کے خاتمے کااعلان کیا۔
مزید اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کو حکومت پاکستان نے اپنی درخواست پر یہاں بلا یا تھا ایسا
نہیں تھا کہ وہ لوگ اس وقت وہاں بغیر کسی ملازمت کے پڑے ہوئے تھے اور آپ نے انہیں یہاں بلا کر روزی روزگار دیا۔۔ اس
سلسلے میں اس وقت فوری طور پہ جو نام مجھے یاد آرہا ہے وہ بھوپال کی ولعیہد شہزادی عابدہ سلطان ہیں۔ شہزادی بھوپال
کا محل چھوڑنے کے بعد کراچی میں ملیر کے ایک سادہ سے گھر میں آکر رہیں انہیں حکومت ہندوستان ہر قسم کی
سہولیات دینے کو تیار تھی مگر انہیں آپ کا احسان اٹھانا مقصود تھا اس لئے وہ یہاں آگئیں۔ کبھی موقع ملے یا دوسروں کے
احسانات جاننے کا دل چاہے تو ان کی خود نوشت سوانح حیات ضرور پڑھئے گا۔ جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے آپکی
سرزمین پہ ان کے ساتھ کیا گذری بیان کیا ہے۔ ایسے لوگوں کے ناموں کی ایک لمبی لسٹ ہے بیشتر تو گمنامی کے
اندھیروں مییں ڈوب گئے۔
پھر جناب آپ نے کلیمز کا تذکرہ کیا ہے ان کلیمز سے پنجابی مہاجرین نے فائدہ اٹھایا ہو تو ہو۔ لیکن اگر کراچی میں رہنے والوں
نے اسی رفتار سے فائدہ اٹھایا ہوتا تو آج اس شہر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ان کلیمز کے بارے میں بھی آپ ان کی کتاب
میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ کہ کسطرح مقامی لوگوں نے یہ کلیمز ہتھیائے۔ حتی کہ آپ کے پسندیدہ حکمراں ایوب خان
نے اپنے وقت میں ایک آڈر جاری کیا جس کی رو سے کلیمز کے صحیح حقدار صرف وہ لوگ تھے جن کی چھوڑی ہوئ جگہوں
کی سرحدیں موجودہ پاکستان سے ملتی ہوں۔ یعنی صرف پنجابی مہاجرین کے کلیمز کے مطابق انہیں واجبات دئے جائیں
گے اور اندرون انڈیا سے آنے والوں کے کلیمز زیادہ سے زیداہ تین لاکھ کی حد تک ادا کئے جائیں گے۔ یہ کھلی تعصبیت
پسندی تھی۔ مگر جناب ہم تو آپ کے احسان مند تھے اس لئے بغیر کسی چوں چرا کے اس فیصلے کو قبول کر لیا۔
آپ نے ان بیس لاکھ جانوں کی قربانی کا تذکرہ نہیں کیا اور انکی جو نہ یہاں کبھی آئے نہ یہاں کے وسائل سے کوئ فائدہ لیا
مگر اپنا سب کچھ اس نعرے کے پیچھے گنوا دیا۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہیگا پاکستان۔ ان کی نسلوں کو آپ کی
عیاشیوں کا بھگتان بھگتنا پڑا۔ اگر یہ لاکھوں قربان نہ ہوتے تو آج آُ پ ہندو مہاجنوں کے قرضدار ہوتے جو قیام پاکستان کے وقت
یہاں سے چلے گئے اور آپ کو برسوں کے قرضوں سے نجات ملی۔ پاکستان تو آپ کو ان کی بے غرض اور بے لوث قربانیوں کے
انعام میں ملا۔ جس کی آپ کو کوئ قدر نہیں۔ قدر بھی کیسے ہو، مال مفت دل بے رحم۔ آپ کے خطے کا تو یہ علم تھا کہ ایک
صبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پاکستان بنا ہے اور ایک اورصبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے۔ بن گیا تو ہمارا ہے اور ٹوٹ گیا
تو چلو اچھا ہوا جان چھوٹی۔ یہ تو ان لوگوں سے پوچھیں جنہوں نے اپنے رشتے ناطے، زمین مال متاع ، جاہ و حشمت یہ
جاننے کے لئے چھوڑی کہ ان کے کتنے محسنین ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ایسے ایسے ہوگئے، ایسے ایسے لوگ کیسے
کیسے ہوگئے۔
اگر اسوقت آپ نے لیاقت علی خان سے آپ کے بقول محبت کا اظہار کیا جس کا ثبوت ان کے سینے کو پھاڑنے والی گولی ہے
تو انہیں یہی زیبا تھا۔ ایک شخص جو کہیں کا نواب ہو، اپنا سب فخر چھوڑ کر آپکی زمین کو آزاد کرانے والے لوگوں میں شامل
ہو اور ایک بھرے پرے مجمعے میں پاکستان کے قیام کے صرف تین سال بعد اپنے سینے کا خون روکنے کی ناکام کوشش کرتے
ہوئے یعنی مرتے وقت بھی پاکستان کا نام لے اور مرنے کے بعد اس کی شیروانی کے نیچے پھٹی بنیان موجود ہو۔ کیا آپ
اپنی تاریخ سے ایسی کوئ دوسری مثال ڈھونڈ کر لا سکتے ہیں۔ افسوس آپ کے پاس صرف احسانات کی تاریخ ہے۔
اگر ان مہاجرین نے جس وقت وہ پاور میں تھے آپ جیسی دور اندیشی دکھائ ہوتی یعنی ہر جگہ اپنے نا اہل رشتے دار یا
برادری کے بندے کو ڈالا ہوتا تو آج بھی ان جگہوں پہ وہی ہوتے یا ان کی آل اولاد۔نجانے کیوں ان بیوقوفوں نے نے نئے وطن سے
اتنی محبت اور اصول پسندی دکھائ۔ انہوں نے اپنی روشن خیالی ، وسیع النظری سے آپ لوگوں کے لئَے جگہ خالی کی آپ
کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے ان کا صفایا اس طرح کیا کہ دامن پہ کوئ داغ نہ خنجر پہ کوئ چھینٹ۔ ان کے
پاکستان میں ہر کسی کے لئے احترام تھا محبت تھی ۔ ترقی کے آثار تھے۔ آپ کے پاکستان میں تنگ نظری ہے، شدت پسندی
ہے اور آپ کی بات سے اختلاف کرنے والے کے لئے ذلت، خواری اور خاتمہ بالخیر ہے۔ یہاں ہر چیز تنزلی کی طرف ہے۔ صرف
تنگ نظری ہے جو ماشاللہ خوب پھل پھول رہی ہے۔
اس پر بھی جب آپ نے دیکھا کہ یہ احساس ندامت سے عاری لوگ اپنے لئے نئ منزلوں کے سراغ نکالنے میں لگے ہوئے
ہیں۔تو آپ نے انہیں کوٹہ سسٹم کی کند چھری سے ذبح کرنا شروع کیا۔ تاکہ تکلیف زیادہ ہو۔ ہم نے اس تحفے کو بھی ہنس
کے سہا۔اور اپنے لئے دوسری راہیں تلاش کیں۔ لیکن جناب ابھی ہماری سزا پوری کہاں ہوئ۔
مہاجروں کےطرے کا خم نکالنے کے لئے چودہ دسمبر ۱۹۸۶ کو پٹھانوں کے لشکر بھیج کر ان کے نہتے لوگوں کو وہ سبق
سکھایا کہ اس نسل کے لوگ کے سینوں پہ نقش ہوگیا۔ نہ نہ آپ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا نام نہ لیں یہ جماعت تو
اس وقت عملی طور پہ تھی ہی نہیں۔ اس وقت تو اس شہر پہ آپ کا راج تھا۔ موجودہ نسل کو یہ تاثر دیا جات ہے کہ بشری
زیدی کے حادثے کے بعد ایم کیو ایم نے فسادات شروع کروائے چونکہ یہ واقعہ اتنا پرانا نہیں تو اس کی عینی شہادت میں
دینے کو تیار ہوں۔ ایک علاقے کے مظلوم اور نہتے لوگوں پر جو اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے ان پر پٹھانوںکے
لشکروں نے جو راکٹ لانچر سمیت ہر جدید ہتھیار سے لیس تھے انہوں نے حملہ کرکے مہاجروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اس کی وجہ میں اپنے فاضل کالم نگار کو ضرور بتانا چاہوںگی اور وہ یہ تھی کہ اس سے پچھلی رات سہراب گوٹھ پر ہیروئن اور
اسلحے کی بازیافت کے لئے چھاپا پڑا تھا۔۔ یہ جگہ اس وقت بھی پٹھانوں کے بیشتر جرائم کا اڈہ تھی اور آج بھی اس کی
شہرت اچھی نہیں ہے۔ آپ کی ساری انتطامیہ چھ گھنٹوں کے لئے خاموش کھڑی تھی۔ اوپر سے آڈر نہیں تھا۔۔ اور پولیس کا
کام صرف یہ تھا کہ علاقے سے باہر کے لوگ ان مطلوموں کی مدد کو نہ پہنچ جائیں۔ ان لوگوں کو باہر روک دیا جائے۔ اس کا انہیں
آڈر تھا۔ جب کئ سو لوگوں کو قتل کر ڈالا گیا اور ہر گھر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے تو وہ لوگ واپس ہوئے لال مسجد کے
لئے آنسو بہانے والوں کو شاید یہ واقعہ معلوم ہی نہیں۔یہ وہ منحوس دن تھا جس دن آپ کے احسانات کی حدوں سے نکلنے
کی خواہش پیدا ہوئ۔
آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں کچھ اور سوچنے پہ مجبور کیا۔ ہمیں بتایا کہ الطاف حسین نامی شخص بھی اس شہر میں
موجود ہے۔ آپ کا شکریہ کے ہمارے نوجوانوں کے دلوں سے ہتھیار کا خوف نکالا۔ انہیں بتایا کہ طاقت ہتھیار سے حاصل کی
جاتی ہے قلم اور علم تو بیوقوفوں کے لئے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تو حضور ، اب آپ پھر ناراض ہیں۔ آپ نے اپنے احسان
فراموشوں کی ایک نسل کو تباہ و برباد کر دیا۔ ایسوں کے ساتھ تو ایسا ہی کرنا چاہئیے۔ جناب ہم تو آپ کے احسانات کے بوجھ
تلے کچلے ہوئے ہیں ہمیں تو ہر لحظہ جناب کے ماتھے کے بل گنتے رہنا چاہئیں۔ اور کسی بھی احسان فراموشی کا تصور
بھی ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ لیکن حضور ایسا ہے کہ ہم آپ سے ابھی تک ڈرے ہوئے ہیں۔ کیا عالی مرتبت اس خوف کو
ہمارے سینوں سے نکالنے کا نیک کام کریں گے۔ یا اس شہر میں مزید پٹھانو ں کی مافیاز قائم کرنے کے منصوبے بناتے رہیں
گے۔ کیا اس دفعہ آپ ہمیں طالبانوں کے ہاتھوں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ وہ سبق جو آپ نے اپنے معصوم ہموطنوں کو رٹوادیا
ہے اور جس سے ماشاللہ آپ کے درو دیوار سرخ ہو رہے ہیں۔ عالی قدر سر میں تو اتنی خوفزدہ ہوں کہ سوچتی ہوں کہ کسی
اور ملک کی شہریت اختیار کرلوں میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے کہ میرے بچوں کے، میری آنیوالی نسلوں کے دل نارمل
انداز میں دھڑکیں۔اور ان کے سینوں میں کوئ خوف نہ ہو۔اور نہ احسان کا بوجھ ۔ یہ بہت بھاری ہوتا ہے جناب۔
ریفرنس؛
عابدہ سلطان، یہ شہزادی صاحبہ کی خود نوشت سوانح عمری ہے جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔ پاکستان کی پڑھی لکھی خواتین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے یہ کتاب ایک عورت کی جہد مسلسل کی داستان ہے وہ بھی مسلمان عورت کی۔
شہزادی عابدہ سلطان
عابدہ سلطان
اوریا مقبول جان نے روایت کو قائم رکھا یعنی اپنے مطلب کی آدھی بات تو بیان فرما دی اور باقی آدھی بات کا تذکرہ گول کر گئے۔ جہاں انہوں نے اپنے اتنے احسانات گنوائے وہاں اگر وہ کچھ اور باتیں بھی بتا دیتے تو اچھا تھا۔ مثلاً انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب پاکستان بناتو حالات ایسے تھے کہ حکومت پاکستان کے پاس ایک مہینے کی تنخواہ دینے تک کے پیسے نہ تھے۔ ان مہاجریں نے کسطرح اپنی ذاتی املاک سے فنڈز اکٹھے کئے اس کا کوئ تذکرہ نہیں۔
ذرا اس واقعے کا بیان دیتے جس میں نطام دکن نے میر لائق علی کے ہاتھ اس مملکت خداد معاف کیجئے گا آپکی سر زمین کو مدد کے لئے ایک خطیر رقم بھیجی۔ اس کے علاوہ ناموں کی ایک لمبی لسٹ جو اس وقت میرے دماغ سے محو ہو گئے ہیں۔ذرا دو چار نام ان کے بھی گنوا دیتے یا معلوم کر لیتے تو اچھا تھا۔۔
آپنے اس وقت کی وفاقی ملازمتوں میں مہاجرین کی تعداد کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اسوقت مغربی
پاکستان میں تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کا کس قدر قحط الرجال تھا۔ آپ کا یہ خطہ جس میں اس وقت کا پاکستان موجود
ہے یہاں کی تعلیمی زبوں حالی اور ذہنی معاشرتی زبوں حالی کا تذکرہ بھی کر لیتے تو آپ کے الفاظ دھاک بیٹھ جاتی۔اگر وہ
لوگ آکر یہ سب نہ سنبھالتے تو گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی یہ پیشن گوئ کہ یہ ملک تو چند دنوں کے لئے بنا ہے اسے
پورا ہونے سے کون روک سکتا تھا۔ آپ کے جاگیردار یا سردار۔ جن سے اس وقت قائد اعظم کو ڈیل کرنی پڑی تھی کیونکہ وہ
اپنی بات کو ہر صورت پورا کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت ان سے کی گئ ڈیل کے نتیجے میں یہ ملک کبھی جاگیرداری کے آسیب
سے آزاد نہ ہو سکا حالانکہ جواہر لعل نہرو نے آزادی کے فوراً بعد زمینداری نطام کے خاتمے کااعلان کیا۔
مزید اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کو حکومت پاکستان نے اپنی درخواست پر یہاں بلا یا تھا ایسا
نہیں تھا کہ وہ لوگ اس وقت وہاں بغیر کسی ملازمت کے پڑے ہوئے تھے اور آپ نے انہیں یہاں بلا کر روزی روزگار دیا۔۔ اس
سلسلے میں اس وقت فوری طور پہ جو نام مجھے یاد آرہا ہے وہ بھوپال کی ولعیہد شہزادی عابدہ سلطان ہیں۔ شہزادی بھوپال
کا محل چھوڑنے کے بعد کراچی میں ملیر کے ایک سادہ سے گھر میں آکر رہیں انہیں حکومت ہندوستان ہر قسم کی
سہولیات دینے کو تیار تھی مگر انہیں آپ کا احسان اٹھانا مقصود تھا اس لئے وہ یہاں آگئیں۔ کبھی موقع ملے یا دوسروں کے
احسانات جاننے کا دل چاہے تو ان کی خود نوشت سوانح حیات ضرور پڑھئے گا۔ جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے آپکی
سرزمین پہ ان کے ساتھ کیا گذری بیان کیا ہے۔ ایسے لوگوں کے ناموں کی ایک لمبی لسٹ ہے بیشتر تو گمنامی کے
اندھیروں مییں ڈوب گئے۔
پھر جناب آپ نے کلیمز کا تذکرہ کیا ہے ان کلیمز سے پنجابی مہاجرین نے فائدہ اٹھایا ہو تو ہو۔ لیکن اگر کراچی میں رہنے والوں
نے اسی رفتار سے فائدہ اٹھایا ہوتا تو آج اس شہر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ان کلیمز کے بارے میں بھی آپ ان کی کتاب
میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ کہ کسطرح مقامی لوگوں نے یہ کلیمز ہتھیائے۔ حتی کہ آپ کے پسندیدہ حکمراں ایوب خان
نے اپنے وقت میں ایک آڈر جاری کیا جس کی رو سے کلیمز کے صحیح حقدار صرف وہ لوگ تھے جن کی چھوڑی ہوئ جگہوں
کی سرحدیں موجودہ پاکستان سے ملتی ہوں۔ یعنی صرف پنجابی مہاجرین کے کلیمز کے مطابق انہیں واجبات دئے جائیں
گے اور اندرون انڈیا سے آنے والوں کے کلیمز زیادہ سے زیداہ تین لاکھ کی حد تک ادا کئے جائیں گے۔ یہ کھلی تعصبیت
پسندی تھی۔ مگر جناب ہم تو آپ کے احسان مند تھے اس لئے بغیر کسی چوں چرا کے اس فیصلے کو قبول کر لیا۔
آپ نے ان بیس لاکھ جانوں کی قربانی کا تذکرہ نہیں کیا اور انکی جو نہ یہاں کبھی آئے نہ یہاں کے وسائل سے کوئ فائدہ لیا
مگر اپنا سب کچھ اس نعرے کے پیچھے گنوا دیا۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہیگا پاکستان۔ ان کی نسلوں کو آپ کی
عیاشیوں کا بھگتان بھگتنا پڑا۔ اگر یہ لاکھوں قربان نہ ہوتے تو آج آُ پ ہندو مہاجنوں کے قرضدار ہوتے جو قیام پاکستان کے وقت
یہاں سے چلے گئے اور آپ کو برسوں کے قرضوں سے نجات ملی۔ پاکستان تو آپ کو ان کی بے غرض اور بے لوث قربانیوں کے
انعام میں ملا۔ جس کی آپ کو کوئ قدر نہیں۔ قدر بھی کیسے ہو، مال مفت دل بے رحم۔ آپ کے خطے کا تو یہ علم تھا کہ ایک
صبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پاکستان بنا ہے اور ایک اورصبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے۔ بن گیا تو ہمارا ہے اور ٹوٹ گیا
تو چلو اچھا ہوا جان چھوٹی۔ یہ تو ان لوگوں سے پوچھیں جنہوں نے اپنے رشتے ناطے، زمین مال متاع ، جاہ و حشمت یہ
جاننے کے لئے چھوڑی کہ ان کے کتنے محسنین ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ایسے ایسے ہوگئے، ایسے ایسے لوگ کیسے
کیسے ہوگئے۔
اگر اسوقت آپ نے لیاقت علی خان سے آپ کے بقول محبت کا اظہار کیا جس کا ثبوت ان کے سینے کو پھاڑنے والی گولی ہے
تو انہیں یہی زیبا تھا۔ ایک شخص جو کہیں کا نواب ہو، اپنا سب فخر چھوڑ کر آپکی زمین کو آزاد کرانے والے لوگوں میں شامل
ہو اور ایک بھرے پرے مجمعے میں پاکستان کے قیام کے صرف تین سال بعد اپنے سینے کا خون روکنے کی ناکام کوشش کرتے
ہوئے یعنی مرتے وقت بھی پاکستان کا نام لے اور مرنے کے بعد اس کی شیروانی کے نیچے پھٹی بنیان موجود ہو۔ کیا آپ
اپنی تاریخ سے ایسی کوئ دوسری مثال ڈھونڈ کر لا سکتے ہیں۔ افسوس آپ کے پاس صرف احسانات کی تاریخ ہے۔
اگر ان مہاجرین نے جس وقت وہ پاور میں تھے آپ جیسی دور اندیشی دکھائ ہوتی یعنی ہر جگہ اپنے نا اہل رشتے دار یا
برادری کے بندے کو ڈالا ہوتا تو آج بھی ان جگہوں پہ وہی ہوتے یا ان کی آل اولاد۔نجانے کیوں ان بیوقوفوں نے نے نئے وطن سے
اتنی محبت اور اصول پسندی دکھائ۔ انہوں نے اپنی روشن خیالی ، وسیع النظری سے آپ لوگوں کے لئَے جگہ خالی کی آپ
کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے ان کا صفایا اس طرح کیا کہ دامن پہ کوئ داغ نہ خنجر پہ کوئ چھینٹ۔ ان کے
پاکستان میں ہر کسی کے لئے احترام تھا محبت تھی ۔ ترقی کے آثار تھے۔ آپ کے پاکستان میں تنگ نظری ہے، شدت پسندی
ہے اور آپ کی بات سے اختلاف کرنے والے کے لئے ذلت، خواری اور خاتمہ بالخیر ہے۔ یہاں ہر چیز تنزلی کی طرف ہے۔ صرف
تنگ نظری ہے جو ماشاللہ خوب پھل پھول رہی ہے۔
اس پر بھی جب آپ نے دیکھا کہ یہ احساس ندامت سے عاری لوگ اپنے لئے نئ منزلوں کے سراغ نکالنے میں لگے ہوئے
ہیں۔تو آپ نے انہیں کوٹہ سسٹم کی کند چھری سے ذبح کرنا شروع کیا۔ تاکہ تکلیف زیادہ ہو۔ ہم نے اس تحفے کو بھی ہنس
کے سہا۔اور اپنے لئے دوسری راہیں تلاش کیں۔ لیکن جناب ابھی ہماری سزا پوری کہاں ہوئ۔
مہاجروں کےطرے کا خم نکالنے کے لئے چودہ دسمبر ۱۹۸۶ کو پٹھانوں کے لشکر بھیج کر ان کے نہتے لوگوں کو وہ سبق
سکھایا کہ اس نسل کے لوگ کے سینوں پہ نقش ہوگیا۔ نہ نہ آپ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا نام نہ لیں یہ جماعت تو
اس وقت عملی طور پہ تھی ہی نہیں۔ اس وقت تو اس شہر پہ آپ کا راج تھا۔ موجودہ نسل کو یہ تاثر دیا جات ہے کہ بشری
زیدی کے حادثے کے بعد ایم کیو ایم نے فسادات شروع کروائے چونکہ یہ واقعہ اتنا پرانا نہیں تو اس کی عینی شہادت میں
دینے کو تیار ہوں۔ ایک علاقے کے مظلوم اور نہتے لوگوں پر جو اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے ان پر پٹھانوںکے
لشکروں نے جو راکٹ لانچر سمیت ہر جدید ہتھیار سے لیس تھے انہوں نے حملہ کرکے مہاجروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اس کی وجہ میں اپنے فاضل کالم نگار کو ضرور بتانا چاہوںگی اور وہ یہ تھی کہ اس سے پچھلی رات سہراب گوٹھ پر ہیروئن اور
اسلحے کی بازیافت کے لئے چھاپا پڑا تھا۔۔ یہ جگہ اس وقت بھی پٹھانوں کے بیشتر جرائم کا اڈہ تھی اور آج بھی اس کی
شہرت اچھی نہیں ہے۔ آپ کی ساری انتطامیہ چھ گھنٹوں کے لئے خاموش کھڑی تھی۔ اوپر سے آڈر نہیں تھا۔۔ اور پولیس کا
کام صرف یہ تھا کہ علاقے سے باہر کے لوگ ان مطلوموں کی مدد کو نہ پہنچ جائیں۔ ان لوگوں کو باہر روک دیا جائے۔ اس کا انہیں
آڈر تھا۔ جب کئ سو لوگوں کو قتل کر ڈالا گیا اور ہر گھر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے تو وہ لوگ واپس ہوئے لال مسجد کے
لئے آنسو بہانے والوں کو شاید یہ واقعہ معلوم ہی نہیں۔یہ وہ منحوس دن تھا جس دن آپ کے احسانات کی حدوں سے نکلنے
کی خواہش پیدا ہوئ۔
آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں کچھ اور سوچنے پہ مجبور کیا۔ ہمیں بتایا کہ الطاف حسین نامی شخص بھی اس شہر میں
موجود ہے۔ آپ کا شکریہ کے ہمارے نوجوانوں کے دلوں سے ہتھیار کا خوف نکالا۔ انہیں بتایا کہ طاقت ہتھیار سے حاصل کی
جاتی ہے قلم اور علم تو بیوقوفوں کے لئے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تو حضور ، اب آپ پھر ناراض ہیں۔ آپ نے اپنے احسان
فراموشوں کی ایک نسل کو تباہ و برباد کر دیا۔ ایسوں کے ساتھ تو ایسا ہی کرنا چاہئیے۔ جناب ہم تو آپ کے احسانات کے بوجھ
تلے کچلے ہوئے ہیں ہمیں تو ہر لحظہ جناب کے ماتھے کے بل گنتے رہنا چاہئیں۔ اور کسی بھی احسان فراموشی کا تصور
بھی ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ لیکن حضور ایسا ہے کہ ہم آپ سے ابھی تک ڈرے ہوئے ہیں۔ کیا عالی مرتبت اس خوف کو
ہمارے سینوں سے نکالنے کا نیک کام کریں گے۔ یا اس شہر میں مزید پٹھانو ں کی مافیاز قائم کرنے کے منصوبے بناتے رہیں
گے۔ کیا اس دفعہ آپ ہمیں طالبانوں کے ہاتھوں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ وہ سبق جو آپ نے اپنے معصوم ہموطنوں کو رٹوادیا
ہے اور جس سے ماشاللہ آپ کے درو دیوار سرخ ہو رہے ہیں۔ عالی قدر سر میں تو اتنی خوفزدہ ہوں کہ سوچتی ہوں کہ کسی
اور ملک کی شہریت اختیار کرلوں میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے کہ میرے بچوں کے، میری آنیوالی نسلوں کے دل نارمل
انداز میں دھڑکیں۔اور ان کے سینوں میں کوئ خوف نہ ہو۔اور نہ احسان کا بوجھ ۔ یہ بہت بھاری ہوتا ہے جناب۔
ریفرنس؛
عابدہ سلطان، یہ شہزادی صاحبہ کی خود نوشت سوانح عمری ہے جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔ پاکستان کی پڑھی لکھی خواتین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے یہ کتاب ایک عورت کی جہد مسلسل کی داستان ہے وہ بھی مسلمان عورت کی۔
شہزادی عابدہ سلطان
عابدہ سلطان
اوریا مقبول جان کا مضمون اس بلاگ میں ہے۔ 'ڈر اس کی دیر گیری سے'۔
شعیب صفدر کے بلاگ میں اس کی تاریخ ہے پچیس مئ، ۲۰۰۹
This oriya writer is quite a fool, somebody forwarded me one of his other articles and he did came across as a narrow minded person trying to capture people in the name of Islam :s
ReplyDeleteCan you please also put a link to his article ?
انیقہ بی بی آپکی بڑی مہر بانی کے آپ نے میری گزارش پوری کی،بینش بی بی نے ان جناب کے بارے میں جو لکھا ہے وہ بلکل درست ہے یہ صاحب ن لیگیئے ہیں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کے جتنے تعصبی ہیں ان کا تعلق نون لیگ سے ہی کیوں ہوتا ہے یقین نہ ہو تو اردو سیارہ پر جا کر دیکھ لیجیئے
ReplyDeletewww.urduweb.org/planet/
اور جناب میرا نام عبداللہ ہے،ہاں میں آپ سے ایک اور ریکوئسٹ بھی کروں گا کہ آپ بھی اردو سیارہ میں شامل ہوں،میں بھی اپنا بلاگ بنانے اور اردو سیارہ میں شامل ہونے کا سوچ رہا ہوں،کیوں کہ اس وقت جھوٹوں کا توڑ کرنے کی سخت ضرورت ہے،
کچھ مینے بھی لکھا تھاجو وہاں تو نہ چھپ سکا مگر یہاں لکھ رہا ہوں اور ان حضرت کو بھی بھیجوں گا انشاء اللہ
ReplyDeleteاوریا مقبول جان اگر اس لن ترانی میں اس بات کا اور اضافہ فرمادیتے کہ ان کے آقا حضرت نواز شریف کے برادر خورد حضرت شہباز شریف نے اور ان کے ایک اور لاڈلے جناب مخدوم جاوید ہاشمی صاحب نے سب سے پہلے ان لوگوں کے صو بوں میں داخلے پر اعتراض فرمایا تھا تو مضمون مزید جاندار ہوسکتا تھا اور اگر یہ بھی بتا دیتے کہ خود کو سن آف دی سوائل کہنے والےپنجابی اور پٹھان خاص طورپر آج بھی مہاجروں کی اولاد کو ہندوستانی کے لقب سے یاد فرماتے ہیں اور ملتے ہی سب سے پہلے یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں سے ہیں ؟پاکستان کے جس شہر سے تعلق ہو اس کا نام بتاؤ تو فرماتے ہیں نہیں نہیں پیچھے سے آپ کہاں سے ہیں ،یہ مہربانی خاص اردو بولنے والوں پر ہی کی جاتی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار بیان کرتے ہوے وہ پاکستان میں ان مہاجروں اور ان کی اولادوں پر ہونے والے مظالم کو طاق نسیاں کی نظر کردیتے ہیں،
ہندوستان میں مسلمان اگر برے حالوں ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان میں باہمی اتحاد نہیں اور اب انہیں عقل آرہی ہے تو انشاء اللہ وہاں بھی مسلمان ترقی کریں گے !
اگر پاکستان میں وہاں سے آنے والوں کو ٹھکانہ دیا گیا تو یہ ان پر کوئی احسان نہیں تھا انہوں نے بھی اس ملک کے لیئے بے حساب قربانیاں دی ہیں پاکستان کو مظبوط کرنے والے وہی لوگ ہیں مگر جس قوم کی شناخت ہی احسان فراموشی بن جائے اس سے گلہ کرنا ہی فضول ہے ،آج کراچی جو ہے جسے دیکھ دیکھ کر سب کی رالیں ٹپکی پڑرہی ہیں یہ بھی ان مہاجروں کی اور ان کی اولادوں کی محنت کا ثمرہ ہے ہمیں کراچی کی میئر شپ کسی نے بھیک میں عطا نہیں کی ہے اس شہر کے لیئے اپنا خون پسینہ بہایا ہے تب کہیں اس قابل ہوئے ہیں
جب یحیی خان نے ون یونٹ توڑا تب کراچی اردو بولنے والوں کاصوبہ بنتا اگر ہمارے بڑے سندھیوں کی یہ بات نہ مانتےکہ ہم اور آپ بھائی بھائی ہیں ملکر رہیں گے،
کراچی پہلے بلوچستان میں شامل تھا بعد میں سندھ میں شامل ہواسمجھ نہیں آتا کہ پنجابی اور پٹھان سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی اس پر رال کیوں ٹپکی پڑتی ہے،پنجاب جو کھیل کراچی میں کھیلتا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اے این پی کی سازشوں نے بھی کراچی کے لوگوں کو ہوشیار کردیا ہے اور وہ کسی قسم کا رسک لینا نہیں چاہتے اپنے شہر کا سکون برباد کرنے کے لیئے ،جو پہلے ہی کرمنل بھر دیئے گئے ہیں وہی ہم کراچی والوں کا سکوں غارت کرنے کے لیئے کافی ہیں،باقی جو سوات مالاکنڈ اور بونیرکے معصوم اور مظلوم لوگ ہیں وہ اپنے سیاست دانوں کا کیا ہوا بھگت رہے ہیں اللہ ان کی مشکلات دور فرمائے آمین ،اور ہم کراچی والے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی مدد کررہے ہیں اگر کسی آنکھ کے اندھے کو وہ نظر نہیں آتا تو ہمیں اس کی قطعا" کوئی پرواہ نہیں ہے،
ہندوستان میں مسلمان اگر برے حالوں ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان میں باہمی اتحاد نہیں اور اب انہیں عقل آرہی ہے تو انشاء اللہ وہاں بھی مسلمان ترقی کریں گے !
اور جائدادوں کے بارے میں جو جھوٹ ان صاحب نے گڑھا ہے اس کے لیئے تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت بمشکل ڈھائی سے تین فیصد جائدادیں مہاجروں کے حصے میں آئیں اور باقی تو یہ لوگ خود ہی ہڑپ کر گئے ،مگر مثل مشہور ہے جھوٹے کے آگے سچا روئے
Abdullah
جی ہاں یہ چیز میں نے اردو بلاگرز میں دیکھی ہے کہ انکی اکثریت کچھ مخصوص طبقہء فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ چلیں کوئ بات نہیں ہر ایک اپنے نظریات پال سکتا ہے اور اسے اسکے اظہار کی ازادی ہونی چاہئے۔ لیکن جحوٹ بولنا اور وہ بھی قومی مسائل پہ اور پھر یہ دعوی کرنا کہ قوم کے لئے بہترین سوچ رکھنے والے ہم ہی ہیں۔ ایسے جھوٹوں کو ضرور آئینہ دکھانا چاہئیے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انگریزی بلاگرز میں ہر قسم کے موضوعات موجود ہیں اور ہر طبقہء فکر اپنی بات کرتا ہے وہاں اردو بلاگرز کیوں اتنی تنگ نثری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ زیادہ تر لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس زبان میں جو پروہپیگنڈا کیا جائے گا وہی لوگ زیادہ لیں گے۔ اب جب عوام کی زبان اردو ہے تو جو لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں انہیں اس زبان کو اپنانا ہوگا۔ اور لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانی ہو گی۔ کراچی میں کیا ہوتا ہے ایک ایسا شخص کیسے جان سکتا ہے جو یہاں کبھی نہ آیا ہو۔ اس سلسلے میں بڑے دلچسپ واقعات ہیں جنہیں میں وقتاً فوقتاً شیئر کرونگی۔ یہاں میں یہ کہنا چہاتی ہوں کہ باہر والوں کو جو اپنے ذرائع سے جو کہ زیادہ تر جانبدار ہوتے ہیں ملتے ہیں اور وہ اسے کل سچ سمجھتے ہیں۔ بہت ساری چیزوں کے پس منظر سے ہم آگاہ نہیں ہوتے۔ اور ہمیں بعض اوقات اپنے مخالفین سے بات کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا چیزہے جو ہمارے درمیان دوریوں کا سبب ہے۔ تو اردو بلاگنگ کو ایک مخصوص طبْقے کے لئے نہیں چھوڑنا چاہئیے۔ میری کوشش تو یہی ہے کہ اس بلاگ پر آنے والے اپنے علم سے ہمیں فائدہ پہنچائیں اور جن چیزوں سے میں واقف ہون وہ ان کے علم میںآئیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ' ہماری ترجیحات ہمارا مستقبل بناتی ہیں۔؛ یہی سچ ہے
ReplyDeleteسب سے اچھا اپنا کوریا
ReplyDelete