میرا پٹھان ڈرائیور چلا گیا۔ میں نے اسے قطعاً جانے کے لئے نہیں کہا۔ میں نے اس کے سامنے ہمیشہ اپنی کم علمی کا اعتراف کیا۔ اس نے بھی کبھی مجھے با خبر رکھنے میں بخیلی سے کام نہیں لیا۔ وہ اکثر خود اندازہ کر لیتا تھاکہ یہ بات مجھے معلوم نہیں یا صحیح طریقے سے معلوم نہیں۔ ایکدن جب دوران سفر اسے اندازہ ہوا کہ میں شاید کبھی سینماہال کے اندر نہیں گئ اور میں یہ بات نہیں سمجھ سکتی کہ وہاں اتنے سارے لوگ کسی مشکل کے بغیر فلم دیکھ لیتے ہیں اور کسی کا سر کسی کے دیکھنے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا تو اس نے مجھے اس بارے میہں کافی اطلاعات دیں۔پھر مجھ کوڑھ مغز کو مزید سمجھانے کے لئے اس نے ہاتھوں کی مدد سے نشستوں کی ڈھلواں ترتیب بھی سمجھائ۔ آخر میں اسے خاصی خوشی ہوئ کہ کس طرح اس نے مجھے وہاں کا معاملات سمجھا دئے۔ کسی کویہ جان کر اگر خوشی ہوتی پہے کہ ہماری جہالت کو وہ کم کر سکتا ہے تو کچھ وقت کے لئے جاہل بنے رہنے میں کیا مضائقہ ہے۔کم از کم میں اسے کوئ برائ نہیں سمجھتی۔ چھوٹے بچے تو اس طرح بڑے خوش ہوتے ہیں۔ویسے بھی عورتوں کو عقل دیکر سب مرد خوش ہوتے ہیں اور عورتِں مردوںکو خوش دیکھ کر خوش ہوتی ہیں۔
میں جب اس کے ساتھ سفر میں ہوتی تو وہ اکثر کچھ نہ کچھ بتاتا رہتا۔ اسی نے ایکدن بتایا کہ عباسی شہید ہسپتال اب بہت اچھا ہو گیا ہے۔ ایسا کیسے ہوگیا میں نے پھر معصوم حیرانی کا اظہار کیا۔ 'باجی، جب سے پیپلز کا حکومت آیا ہےہسپتال کا انتظام بہت اچھا ہو گیا ہے۔' چلو کسی نے تو پیپلز حکومت کی تعریف کی۔ لیکن پہلے کیسا تھا۔ 'باجی پہلے جب ایم کیو ایم کی حکومت تھا تو بڑا برا حال تھا۔ ہر جگہ اندھیرا رہتا تھا۔ اور پٹھانوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا تھا'۔ کسی کے ساتھ زبان کی بنیاد پر ظلم ہو یہ بڑی غلط بات ہے ۔ کون کرتا ظلم اور کیسے۔ میں نے ہمدردی کی۔ 'باجی جب پٹھان علاج کے لئے آتا تو وہ لوگ اسے زہر دے دیتے تھے۔ مگر تمہیں کیسے پتہ چلا میں نے اسے کریدا۔لوگ بتاتے تھے باجی اچھا بھلا آدمی لیکر ہسپتال جاتے اور وہ مر کر واپس آتا تھا'۔ میرے خدا اچھے بھلے آدمی کو لیکر ہسپتال کیوں جاتے تھے۔' میں نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے بھی حیرت سے میری طرف دیکھا۔اور پھر جیسے سوچا۔ لوگ ٹھیک کہتا ہے یہ عورت لوگ کے پاس عقل نہیں ہوتی۔ سامنے سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے طور پہ بات کو سنبھالا اور ڈرائیور کو سمجھایا۔ 'تم اب بھی وہاں جانے میںاحتیاط کیا کرو۔ تمہیں معلوم نہیں کراچی میں اب بھی ایم کیو ایم کا کنٹرول ہے۔ اس پر اس نے مجھے پھر سمجھایااللہ سب کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور پرائویٹ ہسپتال عوام کے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا، اختلاف کر کے میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔آخر اس کی وجہ سے میں اتنی باخبر رہتی تھی۔
لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ سوئے اتفاق کہ ہم سب گھر والوں کو شہر سے باہر جانا پڑا۔ ڈرائیور کی ذمہداری یہ لگائ گئی کہ وہ ہماری غیر موجودگی میں آئے گا۔ اس طرح صفائ کرنے والی ماسی آکر ڈرائیو وے صاف کر دے گی اور درفتوں کے پتوں کا ڈھیر نہیں جمع پو پائے گا۔ وضاحت کے لئے یہ بھی بتادوں کہ اس سرائیکی ماسی کی بہن بھی ہمارے اوپر والے حصے میں کام کرتی تھی۔
ہم جب پندرہ دن بعد لوٹے تو کراچی میں فسادات کے بعد بظاہر سب ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔ فسادات کے نتیجے میں اطلاع یہ تھی کہ پٹھانوں کا کافی نقصان ہوا۔ڈرائیور نے بتایا کہ ماسی اس دوران بالکل نہیں آئ اور صحن کی صفائ کا کام اس نے خود انجام دیا۔ ہم نے اس کی تعریف کی اور ماسی کو برا بھلا کہا۔اور اسے تسلی دی کہ ماسی جب آئے گی تو اس کی خوب سرزنش کی جائے گی۔اگلے دن ماسی کی آمد کسی نے اس ڈانٹ بھی دیا۔ اور کیا کرتے۔ اگلے دن اس کے پٹھان مالی دوست نے ہم مجھ سے کہا کہ وہ مجھسے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ 'کیا ہوا ؟' مجھے اس کے پراسرار انداز پہ حیرت تھی۔ ''وہ باجی، وہ جو ماسی ہے اس نے ڈرائیور کی بڑی بےعزتی کی۔' کس بات پر ' میری حیرانی اور بڑھی۔ "وہ باجی، ماسی کی بہن گلی میں سے جا رہی تھی ڈرائیور نے اسے روک کر پوچھا کہ اس کی بہن کیوں نہیں آرہی۔ تو اس نے اس کی بےعزتی کر دی۔' کیا کہا اسنے.' میں نے دلچسپی سے پوچھا۔'باجی وہ کہنے لگی کہ وہ آءندہ اس چرھ اس سے راستے میں کھڑے ہو کر نہ پوچھےورنہ وہ اس کا منہ بگاڑ دے گی۔ جو کچھ پوچھنا ہے میری بہن سے پوچھو۔ باجی سامنے والوں کا ڈرائیور بھی کھڑا تھا۔ اس کی بڑی بے عزتی ہوئ۔ وہ کہتا ہے جی کہ ماسی اس سے معافی مانگے۔ ' میرے خدا۔ اب میں کیا کروں۔ اب سوال یہ تھا کہ ان موصوف اتنی کارکردگی کیوں دکھائ اور دوسرا سوال یہ تھاکہ اگر وہ ماسی سے کھڑے ہو کر نہ پوچھتا تو کیا لیٹ کر پوچھتا۔ یہ ماسی بھی بس یایک اکھڑ دماغ کی ہے۔ مالی کو تسلی دی۔ اس ماسی کو بات کرنے کی تمیز نہیں۔ میں نے اسے بہلانے کی کوشش کی۔ بہرحال میں اسے سمجھا دونگی۔
اگلے دن ماسی آئ تو میں نے ڈرائیور کو بلوالیا۔ اب جناب پہلے تو بضد ہوءے کہ سامنے والے ڈرائیور کو بھی بلوا لیا جائے۔ ان کی اس بات پر توجہ نہ کی گئ۔ اور ماسی سے پوچھ شروع ہوئ۔تو ماسی نے منہ بگاڑنے والی دھمکی سے صریح انکار کیا۔ لو کر لو بات۔ 'باجی اس طرح روک کرکوئ بھی ہم سے بیچ راستے میں بات کرنے لگ جائے تو دیکھنے والے کیا سمجھیں گے۔ اب کسی کو کیا پتہ یہ مجھ سے کیا بات کر رہا ہے'۔ بہرحال میں نے پھر بھی ڈرائیور کا دل رکھنے کو ماسی سے کہا کہ بات احتیاط سے کیا کرو۔ اب میں ناقص العقل تو یہ سمجھی کہ معاملہ نمٹ گیا۔ لیکن عین اس وقت جب کوئ مولانا صاحب ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ خواتین کا نا محرم کے ساتھ نکلنا کس قدر نقص امن کا باعث ہے اور اس کی ممکنہ اسلامی سزا کیا ہے اور کس طرح اس مسئلہ کے حل ہونے سے عالم اسلام کے دیگر معاشی و معاملاتی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ڈرائیور آیا۔ گاڑی کی چابی میرے سامنے میز پہ رکھی اور ہمیشہ کے لئے جانے کی اجازت مانگی۔ میں تو ویسے ہی اس پروگرام کو سن کر دہشت زدہ تھی کہ کس طرح ایک نا محرم ڈرائیور کے ساتھ سارے شہر میں پھرتی رہی۔ کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ اب سوچتی ہوں کہ اس میں صوفی محمد کی کارستانی تو نہیں یا میرا اردو اسپیکنگ ہونا حالانکہ میںنے ہمیشہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔ کوئ بتلائے۔
Friday, May 8, 2009
5 comments:
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
lol...very nice.
ReplyDeleteMuslim ko pehele fiqa wariyat mia phansaya
ReplyDeleteab paksitan ban gaya hai to b zaatiyat mia phansaya ja raha hai
tom pathan
mai mahajir wo balochi wo punjabi koi b pakistani jo nai hai abhi to bht kuch baqi hai
Allah reham farmay
یہ سوال تو ہمیں خود سے پوچھنا چاہئیے۔ کیا ہم اس قابل ہیں کہ خدا ہم پہ رحم فرمائیں۔
ReplyDeleteخیر خبر لینی تھی اس کی کہیں جہاد پر تو نہیں نکل کھڑا ہوا؟
ReplyDeleteمیرا خیال ہے اس کا آغاز تو وہ ہم سے ہی کر دیتا۔ شروع میں ہی کامیابی ہو جاتی۔
ReplyDelete