اپنے بچپن میں میں ہم ایک کھیل کھیلتے تھے جس میں ہم بچے ایک تخت پہ چڑھ کر بیٹھ جاتے اور ایک فرضیہ بھوت کو تخت کے نیچے محسوس کرتے اور زور زور سے چیختے تھے ایک فرض کئے ہوئے خوف کے زیر اثر۔چیخنے کے بعد بڑا مزہ آتا۔ اور ہر تھوڑی دیر بعد یہ سیشن ہوتا۔ میری نانی کے گھر میں ایک کونے میں پڑا ہوا تخت بس اسی مقصد کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اسے اڈرینالن ہائپ کہتے ہیں۔ ایک سنسنی سے گذرنا اور پھر اس سے لطف اندوز ہونا کیونکہ کافی دیر تک خون رگوں میں پارہ بن کر بھڑکتا اور دوڑتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں،
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
لیکن بات پلٹنے جھپٹنے سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ اب میدانوں میں شمشیر کے کمال دکھا نے والے شمشیر زن نہیں رہےبلکہ کسی لیبارٹری میں ایک میز پہ جھکا وہ خود غرض شخص ہے جو طاقت کے کھیل میں شامل فریقین کے اڈرینالن ہائپ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کیوں اسے بھی تو ناموری کا شوق ہے۔ بد نام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔ لاکھوں انسانوں کو بیک جنبش انگلی اس صفحہء ہستی سے مٹا دینا اب ہوا کتنا آسان۔ ایٹم بم کی بدولت۔ اب ہمیں کس کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے۔اڈرینالن ہائپ کے شکار حکمرانوں اور انہیں شہہ دینے والی قوتوں کا۔ فوجی ھتھیاروں کی سپلائ کرنے والی صنعتوں کا۔ یا انسانیت کے دشمنوں کاجو انسان نامی مخلوق کو اس دنیا سے مٹانے کی کوششوں میں رات دن مصروف ہیں اور اسی تندہی سے مصنوعی طریقوں انسان پیدا کرنے کی کوششوں میں بھی۔
آئنسٹائن کے نظریہء اضافت کو استعمال کرکے امریکہ نے ایک پروجیکٹ کی بنیاد رکھی۔ جس کا نام رکھا گیا۔ پروجیکٹ مین ہیٹٹن۔اس پروجیکٹ کو جناب آءنسٹائن کی تائید حاصل تھی۔ اس پروجیکٹ میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپ کے طبعیات دان، انجینیئرز اور حساب دان شامل تھے۔ اسکے نتیجے میں بننے والے پہلے ایٹم بم کو دی گڈگت کا نام دیا گیا۔ ۱۹۳۹ ء میں بم بنانے کے کام کا آغاز ہوا۔ اور ۱۹۴۵ میں اسمیں کامیابی حاصل ہوئ۔ اس وقت ان چھ سالوں ،میں اسپروجیکٹ پردو بلین ڈالر کا خرچہ آیا۔ پہلا دھماکہ ا۱۹۴۵ کی جولائ میں میں نیو میکسیکو میں امریکہ صاحب بہادر نے کیا۔
پروجیکٹ مین ہیٹن کے نگراں رابرٹ اوپنار نے پہلے دھماکے کے بعد سر خوشی کے عالم میں کہا۔
'I am become death, the destroyers of world.
'اب میں موت ہوں، دنیاءووں کو نیست ونابود کرنے والا۔
اور اگلے دو دھماکے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں بالترتیب چھ اور نو اگست کو کئے گئے۔انسانی تاریخ میں یہ ایک گھناءونے دن کے طور پہ یاد رکھا جائے گا۔ لاکھوں انسان ، زندہ انسان چشم زدن میں صفحہء ہستی سے نابود ہو گئے۔اور جو بچ گئے وہ نشان عبرت بن گئے ان کی ان نسلوں نے بھی اسے بھگتا جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئ تھیں۔ دھماکے کے فوراً بعد ہیروشیما میں بم گرنے کے مرکز سے لیکر ڈھائ میل کے علاقے میں ہر جلنے والی چیز جل کر ختم ہو گئ۔ آپ کو پتہ تو ہوگا کہ انسان بھی آگ سے مامون نہیں۔ باقی بچ جانے والے لوگ ایٹم بم سے نکلنے والی تابکار شعاعوں کے شکار ہوئے اور مختلف لاعلاج قسم کے امراض میں مبتلا ہوئے۔ ان کی آنے والی نسلوں میں خون کا کینسر عام تھا۔ اور آج بھی وہ مکمل طور پر اس سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ یہ عذاب خدا نے ان پہ نہیں اتارا تھا۔ یہ بہت سارے انسانوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ قدرت نے تو بس ہمیں اشارہ دیا کہایٹم بم کی تابکار شعاعیں اگر ہمارے دشمن کی نہیں تو ہماری بھی نہیں ہیں۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں جاپان نے دس اگست ۱۹۴۵ کو ہتھیار ڈال دئیے۔ یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ جاپانیوں نے بعد میں ایٹم بم تیار کرنے کی کوشش نہیں کی انہوں نے اپنی تعلیم اور ہنر مندی میں اضافہ کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ خود امریکہ کے اندر امریکی مصنوعات کے بجائے جاپانی مصنوعات کو ترجیح دی جانے لگی۔یوں آج جاپانی دنیاکی سب سے محنتی قوم ہے۔
پاکستان نے۲۸ اور ۳۰ مئ ۱۹۹۸ میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ یہ دھماکے ان دھماکو ں کے جواب میں کئے گئے جو انڈیا نے اسی مہینے کی گیارہ اور تیرہ تاریخ کو کئے گئےتھے۔خیال تھا کہ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تناءو کم ہوگا اور دونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ کو کم کر کے اپنے عوام کی بہتری کے لئے کچھ کام کریں گے۔ اب تک تو ایسا ہونے کے کوئ آثار نہیں۔
انڈیا اس سے پہلے بھی ۱۹۷۴ میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ اگر آپ ہنسنا چاہیں تو اس پروجیکٹ کا نام بھی سن لیجئے اس کا نام تھا 'مسکراتا ہوا بدھا۔' یہ کسی بڈھے یا بدھ کے نام پر نہیں۔ بلکہ گوتم بدھ کے نام پہ تھا۔ جنہوں نے راج پاٹ چھورا اور نروان حاصل کرنے کے جنگلوں کا رخ کیا۔ اورایک لمبا عرصہ کی تپسیا کے بعد یہ عقدہ کھولا کہ انسان ہر جاندار سے محبت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
خیر اس قسم کے مذاق ہمارے پڑوسی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ان پہ کیا دل جلانا۔ دل تو اس بات پہ جلائیے کہ ان پانچ ٹیسٹوں پہ جو پاکستان نے کئے قریباً ۱۰۰ملین ڈالر کا خرچہ آیا۔ یقیناً انڈیا کا بھی اتنا ہی خرچ ہوا ہوگا۔ پاکستان اپنے بجٹ کا ایک چوتھائ حصہ دفاع پہ خرچ کرتا ہے یہی حال انڈیا کا بھی ہے۔ دونوں ملکوں کی کل آبادی ساری دنیا کی آآبادی کا پانچواں حصہ ہے اور دونوں ملکوں کے غریبوں کی کل تعداد دنیا بھر کے غریب لوگوں کا چھٹا حصہ ہے۔آنڈیا میں کل آبادی کا ۲۰فی صد حصہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہا ہے۔ پاکستانابھی غربت کے اس اسکیل پہ تو نہیں پہنچا مگر خودکشی کرنے والوں کی شرح میں اضافہ ہے جو گھریلو مسائل سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں۔ معاشرے کےاندر بڑھتی ہوئَ شدت پسندی کا رحجان بھی پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بھوکے کو تو چاند سورج بھی روٹیاں نظر آتے ہیں۔اور جب یہ صحیح طریقے سے حاصل نہ ہو تو محبت اور جنگ کی طرح اس کے حصول میں بھی ہر چیز جائز ہو جاتی ہے۔
جنگ میں، ایکدوسرے کو مار ڈالنے کا جذبہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ ہابیل اور قابیل کی تاریخ۔ ایک زمانے میں جنگیں اپنی بقاء، جذبہء انتقام یا حکمرانی کے دائرے کو بڑھانے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ فی زمانہ اپنا ابنایا ہوا اسلحہ بیچنے کے لئے بھی جنگیں کرائ جاتی ہیں یا ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں جن میں متعلقہ فریق احساس خوف کا شکار ہو کر ان لوگوں سے ان کی شرائط پہ اسلحہ خریدنے کے لئے مجبور ہو۔ نتیجتاً مختلف ممالک کے اندر شورشیں برپا کی جاتی ہیں ۔ پھر شورش برپا کرنے والے کو بھی اسلحہ ملتا ہے اور ان کو روکنے والوں کو بھی۔ یوں اسلحے کے بازار میں کساد مندی نہیں پیدا ہو پاتی۔
دنیا بھر کے جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ اسلحے کی تیاری پہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے بڑے سپلائرز میں امریکہ، روس ، برطانیہ، جرمنی اور چین شامل ہیں۔ امریکہ چھتیس فیصد اسلھہ سپلائ کرتا ہے۔ سوچیں ذرا اگر آج دنیا بھر کے انسان تہیا کرلیں کہ وہ جنگ میں شامل ہونے کے بجائے اپنے عوام کی فلاح کو ترجیح دیں گے تو ان ممالک کو کتنا نقصان ہو۔اس لئےفوج، معاشیات اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کے عوام ہوتے ہیں۔وہ اس کا اسلحہ ہوتے ہیںاور بلڈنگ میٹیریل بھی، اسکو تعمیر کرنے والے بھی اور اسے ختم کرنے والے بھی۔ اگر کسی ملک کے لوگ ایک اکائ بن کر نہیں سوچتے تو کوئ ایٹم بم انہیں جوڑ کر نہیں رکھ سکتا۔اپنے پڑوسی انڈیا کی ہمیں تعریف کرنی چاہئیے کہ وہ ہم سے زیادہ مخلص ہو کر اپنے ملک کے لئے سوچتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں۔ کہنے کو ہماری زبانیں اسلام کا نام لیتےنہیں
تھکتیں۔
لیکن جب بھی ہمارے یہاں کوئ شورش برپا ہوتی ہے اس میں ہمارے ہی مسلمان بھائ ان سے پیسہ اور اسلحہ
لیکر ہماری جڑیں کاٹتے ہیں۔ دو فریقین ایکدوسرے پہ اللہ اکبر کہ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہیں۔آفریں ہے ہماری منافقت پہ۔
اس وقت دنیا میں کم از کم نو ممالک کے پاس یہ مہلک ہتھیار موجود ہے۔ایٹم بم اس توانائ سے حاصل کیا جاتا ہے جو ایٹم کے مرکز کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ ہم مرکز توڑتے ہیں اور یہ توانائ ہمیں مل جاتی ہے۔ اس توانائ کا حصول دیگر بہت ساری ماحولیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میںپیدا ہونے والے تابکارفضلے کو اسی دنیا میں جمع کرتے ہیں جس میں آپ اور میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے خواب بنتے ہیں۔ اگر دنیا میں اتنی ہی تیزی سے ایٹمی تابکاری پھیلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہ آلودہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہے گی۔ ہم تو اس وقت نہ ہونگے لیکن آنے والی انسانی نسل ہم سب سے شدید نفرت کریگی۔
خیر ہمیں اس سے کیا، ہمارے گذر جانے کے بعد کوئ ہم سے نفرت کرے یا محبت۔
اس وقت ایک بس کا شعر یاد آرہا ہے
قتل کرنا ہے تو نظروں سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے
سفر کرنا ہے تو ون ڈی سے کر ، کار میں کیا رکھا ہے
ہائے یہ سادہ دل بس والے اور میں، یہ میری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو۔
ریفرنس؛
ایٹم بم کی ایجاد
پہلا ایٹمی دھماکہ
پاکستانی فوج
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
لیکن بات پلٹنے جھپٹنے سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ اب میدانوں میں شمشیر کے کمال دکھا نے والے شمشیر زن نہیں رہےبلکہ کسی لیبارٹری میں ایک میز پہ جھکا وہ خود غرض شخص ہے جو طاقت کے کھیل میں شامل فریقین کے اڈرینالن ہائپ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کیوں اسے بھی تو ناموری کا شوق ہے۔ بد نام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔ لاکھوں انسانوں کو بیک جنبش انگلی اس صفحہء ہستی سے مٹا دینا اب ہوا کتنا آسان۔ ایٹم بم کی بدولت۔ اب ہمیں کس کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے۔اڈرینالن ہائپ کے شکار حکمرانوں اور انہیں شہہ دینے والی قوتوں کا۔ فوجی ھتھیاروں کی سپلائ کرنے والی صنعتوں کا۔ یا انسانیت کے دشمنوں کاجو انسان نامی مخلوق کو اس دنیا سے مٹانے کی کوششوں میں رات دن مصروف ہیں اور اسی تندہی سے مصنوعی طریقوں انسان پیدا کرنے کی کوششوں میں بھی۔
آئنسٹائن کے نظریہء اضافت کو استعمال کرکے امریکہ نے ایک پروجیکٹ کی بنیاد رکھی۔ جس کا نام رکھا گیا۔ پروجیکٹ مین ہیٹٹن۔اس پروجیکٹ کو جناب آءنسٹائن کی تائید حاصل تھی۔ اس پروجیکٹ میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپ کے طبعیات دان، انجینیئرز اور حساب دان شامل تھے۔ اسکے نتیجے میں بننے والے پہلے ایٹم بم کو دی گڈگت کا نام دیا گیا۔ ۱۹۳۹ ء میں بم بنانے کے کام کا آغاز ہوا۔ اور ۱۹۴۵ میں اسمیں کامیابی حاصل ہوئ۔ اس وقت ان چھ سالوں ،میں اسپروجیکٹ پردو بلین ڈالر کا خرچہ آیا۔ پہلا دھماکہ ا۱۹۴۵ کی جولائ میں میں نیو میکسیکو میں امریکہ صاحب بہادر نے کیا۔
پروجیکٹ مین ہیٹن کے نگراں رابرٹ اوپنار نے پہلے دھماکے کے بعد سر خوشی کے عالم میں کہا۔
'I am become death, the destroyers of world.
'اب میں موت ہوں، دنیاءووں کو نیست ونابود کرنے والا۔
اور اگلے دو دھماکے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں بالترتیب چھ اور نو اگست کو کئے گئے۔انسانی تاریخ میں یہ ایک گھناءونے دن کے طور پہ یاد رکھا جائے گا۔ لاکھوں انسان ، زندہ انسان چشم زدن میں صفحہء ہستی سے نابود ہو گئے۔اور جو بچ گئے وہ نشان عبرت بن گئے ان کی ان نسلوں نے بھی اسے بھگتا جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئ تھیں۔ دھماکے کے فوراً بعد ہیروشیما میں بم گرنے کے مرکز سے لیکر ڈھائ میل کے علاقے میں ہر جلنے والی چیز جل کر ختم ہو گئ۔ آپ کو پتہ تو ہوگا کہ انسان بھی آگ سے مامون نہیں۔ باقی بچ جانے والے لوگ ایٹم بم سے نکلنے والی تابکار شعاعوں کے شکار ہوئے اور مختلف لاعلاج قسم کے امراض میں مبتلا ہوئے۔ ان کی آنے والی نسلوں میں خون کا کینسر عام تھا۔ اور آج بھی وہ مکمل طور پر اس سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ یہ عذاب خدا نے ان پہ نہیں اتارا تھا۔ یہ بہت سارے انسانوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ قدرت نے تو بس ہمیں اشارہ دیا کہایٹم بم کی تابکار شعاعیں اگر ہمارے دشمن کی نہیں تو ہماری بھی نہیں ہیں۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں جاپان نے دس اگست ۱۹۴۵ کو ہتھیار ڈال دئیے۔ یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ جاپانیوں نے بعد میں ایٹم بم تیار کرنے کی کوشش نہیں کی انہوں نے اپنی تعلیم اور ہنر مندی میں اضافہ کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ خود امریکہ کے اندر امریکی مصنوعات کے بجائے جاپانی مصنوعات کو ترجیح دی جانے لگی۔یوں آج جاپانی دنیاکی سب سے محنتی قوم ہے۔
پاکستان نے۲۸ اور ۳۰ مئ ۱۹۹۸ میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ یہ دھماکے ان دھماکو ں کے جواب میں کئے گئے جو انڈیا نے اسی مہینے کی گیارہ اور تیرہ تاریخ کو کئے گئےتھے۔خیال تھا کہ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تناءو کم ہوگا اور دونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ کو کم کر کے اپنے عوام کی بہتری کے لئے کچھ کام کریں گے۔ اب تک تو ایسا ہونے کے کوئ آثار نہیں۔
انڈیا اس سے پہلے بھی ۱۹۷۴ میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ اگر آپ ہنسنا چاہیں تو اس پروجیکٹ کا نام بھی سن لیجئے اس کا نام تھا 'مسکراتا ہوا بدھا۔' یہ کسی بڈھے یا بدھ کے نام پر نہیں۔ بلکہ گوتم بدھ کے نام پہ تھا۔ جنہوں نے راج پاٹ چھورا اور نروان حاصل کرنے کے جنگلوں کا رخ کیا۔ اورایک لمبا عرصہ کی تپسیا کے بعد یہ عقدہ کھولا کہ انسان ہر جاندار سے محبت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
خیر اس قسم کے مذاق ہمارے پڑوسی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ان پہ کیا دل جلانا۔ دل تو اس بات پہ جلائیے کہ ان پانچ ٹیسٹوں پہ جو پاکستان نے کئے قریباً ۱۰۰ملین ڈالر کا خرچہ آیا۔ یقیناً انڈیا کا بھی اتنا ہی خرچ ہوا ہوگا۔ پاکستان اپنے بجٹ کا ایک چوتھائ حصہ دفاع پہ خرچ کرتا ہے یہی حال انڈیا کا بھی ہے۔ دونوں ملکوں کی کل آبادی ساری دنیا کی آآبادی کا پانچواں حصہ ہے اور دونوں ملکوں کے غریبوں کی کل تعداد دنیا بھر کے غریب لوگوں کا چھٹا حصہ ہے۔آنڈیا میں کل آبادی کا ۲۰فی صد حصہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہا ہے۔ پاکستانابھی غربت کے اس اسکیل پہ تو نہیں پہنچا مگر خودکشی کرنے والوں کی شرح میں اضافہ ہے جو گھریلو مسائل سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں۔ معاشرے کےاندر بڑھتی ہوئَ شدت پسندی کا رحجان بھی پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بھوکے کو تو چاند سورج بھی روٹیاں نظر آتے ہیں۔اور جب یہ صحیح طریقے سے حاصل نہ ہو تو محبت اور جنگ کی طرح اس کے حصول میں بھی ہر چیز جائز ہو جاتی ہے۔
جنگ میں، ایکدوسرے کو مار ڈالنے کا جذبہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ ہابیل اور قابیل کی تاریخ۔ ایک زمانے میں جنگیں اپنی بقاء، جذبہء انتقام یا حکمرانی کے دائرے کو بڑھانے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ فی زمانہ اپنا ابنایا ہوا اسلحہ بیچنے کے لئے بھی جنگیں کرائ جاتی ہیں یا ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں جن میں متعلقہ فریق احساس خوف کا شکار ہو کر ان لوگوں سے ان کی شرائط پہ اسلحہ خریدنے کے لئے مجبور ہو۔ نتیجتاً مختلف ممالک کے اندر شورشیں برپا کی جاتی ہیں ۔ پھر شورش برپا کرنے والے کو بھی اسلحہ ملتا ہے اور ان کو روکنے والوں کو بھی۔ یوں اسلحے کے بازار میں کساد مندی نہیں پیدا ہو پاتی۔
دنیا بھر کے جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ اسلحے کی تیاری پہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے بڑے سپلائرز میں امریکہ، روس ، برطانیہ، جرمنی اور چین شامل ہیں۔ امریکہ چھتیس فیصد اسلھہ سپلائ کرتا ہے۔ سوچیں ذرا اگر آج دنیا بھر کے انسان تہیا کرلیں کہ وہ جنگ میں شامل ہونے کے بجائے اپنے عوام کی فلاح کو ترجیح دیں گے تو ان ممالک کو کتنا نقصان ہو۔اس لئےفوج، معاشیات اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کے عوام ہوتے ہیں۔وہ اس کا اسلحہ ہوتے ہیںاور بلڈنگ میٹیریل بھی، اسکو تعمیر کرنے والے بھی اور اسے ختم کرنے والے بھی۔ اگر کسی ملک کے لوگ ایک اکائ بن کر نہیں سوچتے تو کوئ ایٹم بم انہیں جوڑ کر نہیں رکھ سکتا۔اپنے پڑوسی انڈیا کی ہمیں تعریف کرنی چاہئیے کہ وہ ہم سے زیادہ مخلص ہو کر اپنے ملک کے لئے سوچتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں۔ کہنے کو ہماری زبانیں اسلام کا نام لیتےنہیں
تھکتیں۔
لیکن جب بھی ہمارے یہاں کوئ شورش برپا ہوتی ہے اس میں ہمارے ہی مسلمان بھائ ان سے پیسہ اور اسلحہ
لیکر ہماری جڑیں کاٹتے ہیں۔ دو فریقین ایکدوسرے پہ اللہ اکبر کہ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہیں۔آفریں ہے ہماری منافقت پہ۔
اس وقت دنیا میں کم از کم نو ممالک کے پاس یہ مہلک ہتھیار موجود ہے۔ایٹم بم اس توانائ سے حاصل کیا جاتا ہے جو ایٹم کے مرکز کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ ہم مرکز توڑتے ہیں اور یہ توانائ ہمیں مل جاتی ہے۔ اس توانائ کا حصول دیگر بہت ساری ماحولیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میںپیدا ہونے والے تابکارفضلے کو اسی دنیا میں جمع کرتے ہیں جس میں آپ اور میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے خواب بنتے ہیں۔ اگر دنیا میں اتنی ہی تیزی سے ایٹمی تابکاری پھیلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہ آلودہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہے گی۔ ہم تو اس وقت نہ ہونگے لیکن آنے والی انسانی نسل ہم سب سے شدید نفرت کریگی۔
خیر ہمیں اس سے کیا، ہمارے گذر جانے کے بعد کوئ ہم سے نفرت کرے یا محبت۔
اس وقت ایک بس کا شعر یاد آرہا ہے
قتل کرنا ہے تو نظروں سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے
سفر کرنا ہے تو ون ڈی سے کر ، کار میں کیا رکھا ہے
ہائے یہ سادہ دل بس والے اور میں، یہ میری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو۔
ریفرنس؛
ایٹم بم کی ایجاد
پہلا ایٹمی دھماکہ
پاکستانی فوج
اس تحریر میں مجھے کوئی نئی بات نہیں ملی!۔ عام گفتگو میں اس سے کئی درجہ اونچی دلائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر میں اس بات پر قائل نہیں ہو پاتا کہ ایٹمی دھماکے کرنا پاکستان کی غلطی تھی!!۔
ReplyDeleteدفاع غلطی کب سے ہو گیا؟؟
میں نے یہ دعوی کب کیا کہ میں آپ کو یا کسی بھی شخص کو کسی بھی چیز کے لئے قائل کروں۔ ڈنیا میں نئ باتیں صرف آدم اور حوا کے ساتھ پیش آئیں تھیں۔ باقی سب پرانی ہیں۔ حتی کہ جدید سے جدید سائنسی دریافت بھی انسانی نظروں سے چھپی بیٹھی ہوتی ہے، درحقیقت بہت پرانی ہوتی ہے۔ غالب نے کہا کہ
ReplyDeleteایسی جنت کا کیا کرے کوئ
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
تو بے وجہ تو نہیں کہا۔ اب بات یہ ہے کہ چلیں آپ نے دشمن پہ اپنی دھاک بٹھانے کے لئیے دھماکہ کیا ۔ کیا ایک کافی نہیں تھا۔ چار کس خوشی میں کئے۔ انڈیا ۱۹۷۴ میں دھماکہ کر چکا تھا۔ سب کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایٹمی طاقت ہیں۔ انہوں نے کس خوشی میں ۱۹۹۸ میں دھماکے کئے۔ عوام کے پیسوں کو اپنی پسند کے کھیل کھیلنے کے ضائیع کران کس دفاع کا حصہ ہے۔عوام بھی ایسے جن کی زندگی غربت کی دلدوز کہانیوں سے بھری ہو۔ یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے۔
پاکستان اگر جوہری دھماکے نہ کرتا تو پاکستانی غریبوں کی دلدوز کہانیاں آج کہیں زیادہ سنگین ہوتیں۔
ReplyDelete2002ء میں پاک بھارت تناؤ کی کیفیت دونوں ملکوں کے تقریباً جنگ کے دہانے پر لے آئی تھی، پھر حالیہ ممبئی حملوں نے بھی جنگ کا ماحول تقریباً بنا دیا تھا بس یہی جوہری قوت تھی جس نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے پر حملے سے باز رکھا۔
میرے خیال میں "اسلحہ برائے امن" ایک اچھی حکمت عملی ہے۔
انیقہ بی بی سب سے پہلے تو آپکو دلی مبارکباد اوریا مقبول جان کے کالم کا منہ توڑ جواب لکھنے کی،مینے بھی اس سلسلے میں کچھ لکھا تھا مگر وہ بھائی کے بلاگ پر وائرس کی وجہ سے کسی طرح پوسٹ نہ ہوسکا اور سچ پوچھیئے تو آپکی تحریر کے سامنے میرا لکھا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے،حالانکہ اس وائرس کی وجہ سے میں آپکی تحریر بھی ٹھیک طرح نہ پڑھ سکا مگر جو پڑھا وہی اتنا زبردست تھا کہ آپکو لکھے بغیر رہا نہ گیا،آپ سے دو درخواست ہیں ایک تو آپ اپنے اس جواب کو اپنے اس بلاگ پر بھی تحریر کریں اور دوسرے آپ اسے اس شخص کو جس کا نام اوریا مقبول جان ہے کو بھی میل کریں اگر اب تک نہیں کیا ہے اس کا ای میل ایڈریس ہے
ReplyDeleteorya_m@yahoo.com
Abdullah
شکریہ گمنام، جی میرا ارادہ ہے کہ اس کی مزید ایڈیٹنگ کر کے اپنے بلاگ پر ڈالوں۔ آپ اسے کچھ دنوں میں دیکھ پائیں گے۔ آپ کا مزید شکریہ کاکہ ان کا پتہ دیا۔ مجھے اس کی تلاش تھی۔ لیکن اگر آپ اپنا کوئ نام دیتے تو مجھے اور خوشی ہوتی۔
ReplyDelete