Wednesday, August 10, 2011

چوہے کا سوال

چوہوں کے ساتھ ریس میں ایک نقصان ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ فاتح ہوں تو بھی ایک چوہے ہی ہوتے ہیں۔
یہ جملہ کہنے والا لگتا ہے کہ چوہوں کے ساتھ ریس لگانے سے منع کرنا چاہتا ہے۔ سو اب چوہوں کے ساتھ ریس لگانا ضروری ٹہرا۔ سوال یہاں اس منادی کی وجہ معلوم کرنا نہیں۔ اگر ہم یہ کریں گے تو نتیجتاً ایک دفعہ پھر معتوب ٹہریں گے کہ مخلوقات میں سے کچھ کو اعلی اور کچھ کو کمتر جانتے ہیں۔  اس لئے ہم ایک براہ راست سوال رکھتے ہیں آخر چوہا اتنا حقیر کیوں جانا جاتا ہے؟
  کچھ لوگ سادہ سا جواب دیں گے اس لئے کہ اسکا دل اتنا سا ہوتا ہے ذرا سا ہش کرو اور بھاگ جاتا ہے, ہونہہ چوہے کا سا دل۔ لیکن یہ کہتے وقت لوگ اسکی پھرتی کو مد نظر نہیں رکھتے۔  داد دینے سے مت چوکیں۔ اتنی پھرتی تو بس آپکی حرکات منعکسہ میں ہی ہو سکتی ہے آپ میں نہیں۔ 
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ چوہا بھاگتا نہیں ہے بلکہ چھپ جاتا ہے اور جیسے ہی آپکی توجہ ہٹتی دیکھتا ہے فورا آموجود ہوتا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ چوہے کے اندر ایک دفاعی ذہانت پائ جاتی ہے۔ وہ گوریلا جنگ لڑنے کے فن سے واقف ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انسان نے گوریلا جنگ کا فن چوہے سے سیکھا ہو مگر چوہوں کو ادنی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کا کریڈٹ اسے دینے کے بجائے گوریلے کو دے دیا۔ اس سے انسانی ذہن کی چلتر بازی سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنی ہم شکل مخلوق کو ترجیح دی۔ اس انسانی ادا پہ ہم واہ واہ کریں گے مگر اس سے چوہوں کی جو حق تلفی ہوئ ہے اس پہ ہم نالاں بھی ہیں۔

کیا ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں انسان چوہے کے حق میں آواز بلند کر سکے اس کے ساتھ جو نا انصافی ہوئ ہے اسے سامنے لا سکیں۔ شاید نہیں، کیونکہ خود چوہوں کو اس سے کوئ دلچسپی نہیں۔ انسان اگر انکے لئے لڑ لڑ کر مر جائے تو بھی چوہے اسے در خور اعتناء نہیں سمجھیں گے۔ آیا یہ انکا طرز تغافل ہے یا ادائے بے نیازی۔ یہ جاننے کے لئے دو قسم کے شاعر چاہئیے ہونگے ایک انقلابی اور دوسرے رومانی۔
کیا چوہوں کو شاعری سے دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم لیکن چوہوں کو موسیقی سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت وہ کہانی ہے جس میں جادوگر اپنی بانسری بجاتا چلا جاتا ہے اور چوہے اسکے پیچھے ناچتے، کودتے، اچھلتے اتنے مست جاتے ہیں کہ انہیں اپنا انجام تک نظر نہیں آتا۔ موسیقی کے لئے چوہوں کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 
یہاں پہ کچھ ذہن یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ بانسری دراصل جادگر کی بانسری تھی۔ تو کیا ہوا، ہوا کرے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ چوہوں نے اس پہ ایک شاندار رقص درویشاں کا مظاہرہ کیا۔ جو جادوگر خود نہیں کر سکتا تھا۔ جس سے متائثر ہو کر ایک شہر کے لوگوں نے اپنے بچے بھی اسی جادوگر کے حوالے کر دئیے۔ جادو گر نے کبھی ایک لفظ شکرئیے کا بھی نہیں پھُوٹا، انسان ایسا ہی بلا کا احسان فراموش ہوتا ہے اور پھر دوسروں پہ نام دھرتا ہے۔
سو چوہے پپو سالے سے بہتر ہیں وہ ڈانس کر سکتے ہیں۔ پھر بھی انسان انہیں حقیر کیوں سمجھتا ہے۔ شاید اس لئے کہ چوہے خوبصورت نہیں ہوتے۔  کسی انسان نے اس بد صورت بات سے بچنے کے لئے ایک خوبصورت بات کہی کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔
کیا چوہوں کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہیں۔ چوہوں کو کبھی بھی فیئر اینڈ لولی قسم کی کریموں کو استعمال کرتے نہیں دیکھا وہ تو اسے سونگھتے تک نہیں۔ اپنا ایک شریک حیات ڈھونڈھنے کے لئے ہزاروں کو نہیں دیکھتے پھرتے۔ پھر دیکھیں کہ چوہے ایک ایک جھول میں آٹھ آٹھ بچے دیتے ہیں چند مہینوں میں وہ اپنے بچوں کے پر دادا بن جاتے ہیں اور اگر وہ حکمرانی کی طرف توجہ دیں تو چند سال میں انسان کونکال باہر کریں۔  یہ ان کا فقیری انداز ہے جس کی بناء پہ انسان اپنی بھونڈی حکمرانی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ وہ خوبصورت نہیں۔
چوہے احسان فراموش ہوتے ہیں اور جس چھلنی میں کھاتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔ یہ ان پہ ایک سنگین الزام ہے۔ در اصل چوہے کترنے کے معاملے میں ذرا جزباتی واقع ہوئے ہیں۔ کترنے کے عمل کو وہ چیلینج سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ ہر چھلنی انہیں یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ہزار دانت سے نکلا ہوں اپنی سختی سے، جسے ہو زعم آئے کتر لے مجھے۔ 
انکی نفسیات کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جنگل کے بادشاہ شیر کو بھی اسکا جال کتر کر آزاد کروالیتے ہیں مگر اس پہ احسان نہیں دھرتے۔ کبھی آپ نے سنا کہ چوہوں نے شیر کے اوپر بموں سے حملہ کیا ہو کہ ابے سالے تجھے آزاد کرایا تھا اور آج ہم پہ دھاڑ رہا ہے۔ چوہے سالے کی حقیقت سے واقف ہیں۔
دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں شاید ہی چوہوں کے بارے میں کوئ تذکرہ موجود ہو۔ دنیا کا کوئ مذہب چوہوں کے بارے میں فکر مند نہیں اسی لئے چوہے بھی اپنے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں انہیں مل جائے تو ریشم کے کپڑوں میں اور بیکریوں کے من و سلوی میں بھی رہ لیتے ہیں نہیں تو غلاظت کے گٹر بھی کوئ بری جگہ نہیں۔ دما دم مست قلندر۔
لیکن انسانی زبانی اور سینہ بہ سینہ چلی آنے والی تاریخ میں چوہوں کے متعلق کچھ واقعات موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر میں انکی توہین کی گئ ہے۔ یہ بڑی زیادتی ہے کہ کسی کے دانتوں کا بدلہ اسکی عزت سے لیا جائے۔ چوہوں نے اس توہین کا بدلہ لیا  اور ہیضے کے جراثیمی ہتھیار کے ساتھ انسانوں پہ حملہ آور ہوئے۔ پوری پوری آبادیوں کو نگل لیا۔ اور انسان کچھ نہ کر سکا۔ بقاء کی جنگ میں چوہا انسان پہ بھاری رہا مگر پھر بھی چوہا کہلایا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام ہی چوہا ہے۔
تاریخ کے اس مرحلے پہ انسان نے چوہوں سے کثیر الہلاکتی ہتھیاروں کا تصور لیا لیکن چوہوں کی نفسیاتی برتری دیکھئیے کہ انسان یہ ہتھیار انسان کے خلاف تو استعمال کر سکا مگر کبھی چوہوں کے خلاف نہیں کر سکا، انہیں مارنے کے لئے اسے وہی روٹی کا لالچ دینا پڑتا ہے۔ روٹی چوہوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اگر روٹی نہ ہو تو وہ کیک بھی شوق سے کھالیتے ہیں لیکن کبھی کیک دینے والے ہاتھوں کو چاٹتے نہیں ہمیشہ کترتے ہیں۔
بعض خواتین چوہوں سے بڑا ڈرتی ہیں۔ چوہے بھی ایسی خواتین سے بہت ڈرتے ہیں۔ سو جب وہ ڈر کر ایک نعرہ ء خوف ہائے اللہ لگا کر ریس لگاتی ہیں  تو چوہے استغفراللہ کہہ کر ریس لگا دیتے ہیں۔ یہ ریس عام طور پہ مخالف سمتوں میں ہوتی ہے اس لئے اسکا صحیح فیصلہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کبھی کبھی چوہے اس آسمانی مصیبت سے اتنا گھبرا جاتے ہیں کہ بجائے مخالف سمت بھاگنے کے خاتون پہ ہی چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ اس اقدام قتل میں اگر وہ بچ بھی جائیں تو گھر کی کچھ چیزیں دو چوہوں کے درمیان کچومر بن جاتی ہیں۔ محلے والے الگ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب ، بیگم صاحبہ کی کُٹ لگا رہے ہیں۔ یوں میاں صاحب کو ہتک عزت اور مختلف این جی اوز سے بچنے کے لئے میدان میں کودنا پڑتا ہے۔ کچھ شوہر حضرات اس موقع کو محلے والوں پہ اپنی دھاک جمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور شام کے وقت ہجوم دوستاں میں بیگم کی حد سے پرے پرے  چپکے چپکے کہتے ہیں باتوں کے بھوت چوہوں سے مانتے ہیں۔ 
خیر، ایک خاتون نے چار چوہے مارے اور خاندان بھر نے انکی پیٹھ ٹھونکی۔ جب چوہے سمجھتے ہیں کہ وہ  کسی انسان کا قلع قمع کرچکے تو وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟  سوچیں، لیکن یہ سوچنے سے پہلے آپکو روحانی طور پہ چوہا بننا پڑے گا اسکے بغیر آپ سمجھ نہیں سکتے کہ چوہا آخر کیا کرے گا۔ کیا کہا، لعنت ہو چوہے کے بارے میں ہم کیوں سوچیں۔ چوہے نے بھی یہی کہا تھا  کہ میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔ ششش،  ہشیار باش، چوہا آپکے سیدھے ہاتھ پر موجود ہے اور چوہے نہ صرف ڈھیٹ ہوتے ہیں بلکہ بڑے متجسس بھی۔


نوٹ؛
یہ انٹ شنٹ تحریر ایک چوہے نےای میل کی ہے۔ معمولی ردو بدل کے ساتھ ہم اسے اپنے بلاگ پہ ڈال رہے ہیں یہ دیکھنے کے لئے ہم میں سے کتنے لوگ  چوہوں کی پرواہ کرتے ہیں۔


Reflexive actions
Weapons of mass destruction
Biological weapons
Mouse and rats

5 comments:

  1. بہت اچھی تحریر ہے

    ReplyDelete
  2. بلا عنوان پر کلک کرنے پر معلوم ہوا کہ عنوان چوہا کُتر گیا۔ تحقیق پر معلوم ہُوا کہ یہ کرشمہ درخت کا تھا ۔ اسلام الدین ۔

    ReplyDelete
  3. یہ آپ ایم کیو ایم سے اسقدر الرجک کیوں ہیں؟

    ReplyDelete
  4. جاوید گوندل صاحب، کیا ہوا، آپ اپنی سابقہ رائے سے رجوع کر رہے ہیں یا اس وقت حالت نیند میں ہیں۔
    اسلام الدین صاحب، غلطی درست کر لی گئ ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کا کرشمہ تھا۔ جسے ہاتھ کی جنبش بھی ہلا دیتی ہے۔
    یاسر علی صاحب، آپکا شکریہ۔

    ReplyDelete
  5. @ gondal,
    یہ دوسروں کو اس گلی میں نہ جانے کا مشورہ مفت عنایت کرنےوالے حضرت کا خوداس گلی جائے بغیر دل ہی نہیں لگتا!!!
    :)

    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ