Wednesday, August 24, 2011

تکلف بر طرف

کراچی میں حالات اتنے خراب ہیں۔ میں اپنے شوہر صاحب سے  بات کرنا چاہ رہی تھی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ انہیں ای میلز بھیجیں ، جواب ندارد۔ دو دن بعد تنگ آکر  دوبارہ انہیں فون کیا۔
یہاں کینیڈا کی وسعت اتنی ہے کہ ایک ملک میں کئ ٹائم زون ہیں۔ پہلے ہم ٹورنٹو میں تھے تو ٹائم زون الگ تھا۔ جب ہم سسکاچوین پہنچے تو ٹائم زون تبدیل ہو گیا۔ یہ ٹورنٹو سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ جب میں نے فون کیا تو اس وقت یہاں اگرچہ عین دو پہر کا وقت تھا مگر کراچی میں رات کا ایک بج رہا تھا۔
موصوف نے فون اٹھایا تو آواز سے لگ رہا تھا کہ سوتے ہوئے اٹھے ہیں۔ خیریت کے چند جملوں کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔  میزبان پاکستانی خاتون وہیں موجود تھیں۔ کہنے لگیں بڑی جلدی بند کر دیا آپ نے۔ میں نے کہا ہاں، جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تین دن سے پریشان کیا ہوا ہے۔ ادھر شہر کے حالات اتنے خراب ہیں۔ کم از کم انٹر نیٹ تو جاری حالت میں رکھیں۔ فرمانے لگے، انٹر نیٹ کی لائن خراب ہے۔  آپ نے مجھے رات کو ایک بجے نیند سے جگا کر پریشان کر دیا۔ بس میں نے انکی نیند کا خیال کرتے ہوئے خدا حافظ کر دیا۔
میری میزبان خاتون کہنے لگیں۔ یہ آپ دونوں ایکدوسرے سے کچھ زیادہ ریزروڈ نہیں رہتے۔ میں نے حیران ہو کر انکی طرف دیکھا۔ آپکو یہ شبہ کیوں ہوا؟  جواب ملا، کیونکہ آپ دونوں ایکدوسرے سے آپ کر کے بات کرتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟ میں نے حیرانی سے دریافت کیا۔
دیکھیں ناں، میں اپنے شوہر کو آپ کہتی ہوں اور وہ مجھے تم کہتے ہیں۔ لیکن آپ دونوں ایکدوسرے کو آپ کہتے ہیں۔ اوہ، مجھے ہنسی آئ۔ ہم نے اپنی شادی کی ابتداء میں کچھ چیزیں طے کی تھیں۔ مثلاً یہ کہ ایکدوسرے کو بہتر ین  اور برابر کے طریقے پہ مخاطب کریں گے اور یہ کہ ایکدوسرے کو ایکدوسرے کے خاندان کے طعنے نہیں دیں گے اور نہ اپنے رشتے داروں کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑائیاں کریں گے۔ ہمیں جب بھی لڑنے کی خواہش ہوئ تو اپنے زور بازو پہ لڑیں گے۔  بس اس وجہ سے لڑنے کی نوبت نہیں آ سکی۔
اب انہیں لازماً ایک اور سوال کرنا چاہئیے تھا کہ پھر آپ دونوں ایکدوسرے سے کیا باتیں کرتے ہیں۔ اور اس طرح تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ لوگ ایک دوسرے سے کافی ریزروڈ ہونگے۔ کیونکہ ایک  مشاہدہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان زیادہ گہرا رشتہ اور تعلق ہوتا ہے جنکے درمیان کی جانے والی غیبت کسی مشترکہ شخص کے بارے میں ہو۔ اپنے اس مشاہدے سے میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
اگر بات سمجھ نہیں آ رہی ہو تو آزما لیجئیے۔ کوئ شخص، جس سے آپکے تعلقات بس یونہی سے چل رہے ہوں۔ اسکے ساتھ کسی دن گپ شپ کریں اور جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کی برائیاں شروع کر دیں جو اسے نا پسند ہو۔ بس چند دنوں میں ہی اسکے اور آپکے درمیان تکلفات کی بڑی دیواریں گر جائِں گی۔
 یہ بھی ایک عام سا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں اکثر شوہر حضرات اپنی بیویوں کو تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جبکہ بیویاں اپنے شوہروں کو آپ کہتی ہیں یا کسی احترام کے نام سے مخاطب کرتی ہیں مثلاً شوہر اگر پی ایچ ڈی ہے یا طب سے تعلق رکھتا ہے تو ڈاکٹر صاحب، انجینیئر ہے تو انجینیئر صاحب جیلر ہے تو جیلر صاحب۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ شوہر کی طرف سے زیادہ قربت اور محبت کی وجہ سے ہے یا بیوی کی طرف سے جھجھک ہے  یا  روایت اور رواج یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف نئ نسل کے بیشتر شادی شدہ جوڑے ایسے بھی ہیں۔ جو ایکدوسرے کو تم سے مخاطب کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔ کیا یہ انکے درمیاں زیادہ قربت کی نشانی ہے۔ ہمم شاید نہیں، کیونکہ لڑتے ہوئے بھی وہ ایکدوسرے کو تم ہی کہتے ہیں بلکہ بعض دفعہ حقارت کے لئے تو سے بھی مخاطب کرتے ہیں۔
میاں بیوی سے ہٹ کر آجکل میں دیکھتی ہوں کہ ہم عمر ٹین ایجر دوست چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں جب اپنی قربت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ایکدوسرے کو تُو سے مخاطب کر کے بڑا خوش ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو بے تکلفی میں گالیاں بھی استعمال ہوتی ہیں کہ جیسے گالیاں چاٹ مصالحہ ہیں۔ اور یوں وہ زمانے گئے جب شاعر اپنے محبوب سے شکوہ کرتا نظر اتا تھا کہ یوں ہر بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے، تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے۔ آج کا شاعر مسکراتا ہے اور بتاتا ہے کہ پہلے آپ پھر تم ہوئے پھر تُو کا عنواں ہو گئے۔ 
سو، کیا انداز تخاطب سے لوگوں کے درمیان تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یا یہ طرز معاشرت اور انسان کے ماحولیاتی رکھ رکھاءو کو ظاہر کرتا ہے۔ ایکدوسرے کو اچھے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے کیا ہم ایکدوسرے کے قریب نہیں ہو سکتے؟
قومیں آپس میں جب ملتی ہیں تو زبان میں نئے انداز آتے ہیں۔ لیکن زبان کی تہذیب سے ایک قوم کی ذہنی سطح بھی سامنے آتی ہے۔ حضرت علی نے کہا تھا کہ ہر شخص اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے بولو تاکہ پہچانے جاءو۔ جس لمحے ہم بولنا شروع کرتے ہیں چاہے وہ دنیا کا کوئ اعلی ترین موضوع ہو یا گھٹیا ترین۔ ہماری زبان ہمارے پس منظر کو کھول دیتی ہے۔
لیکن اتنی سنجیدہ اور بھاری  بات سے الگ یہاں اصل بات تو یہ پوچھنی تھی کہ کیا ایکدوسرے کو احترام کے الفاظ سے مخاطب کرنے سے اجنبیت پیدا ہوتی ہے، برقرار ہتی ہے  یا بے تکلف الفاظ استعمال کرنے سے قربت جنم لیتی ہے دل کھل جاتے ہیں۔

5 comments:

  1. سلام
    دراصل ہمارے معاشرے میں ابھی تک شوہر کی حیثیت بیوی سے ایک درجہ اوپر ہی ہے
    اور یہ بہت اچھی بات ہے
    بیوی اور شوہر میں بے تکلفی او پیار ہوتا ہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں لیکن لیکن بطور خاندان کے سربراہ کے بیوی کو شوہر کو احترام سے مخاطب کرنا خاندان کے دیگر ممبران کے لئے ایک نکتہ ہدایت ہے
    اس مثال کو کچھ اس طرح سے واضح کرلیں کے میرے بچے کو میں “تو “ یا“ تم “ کچھ بھی کہہ کر بلالیتا ہوں
    لیکن میرا بچہ مجھے ہمیشہ مجھے “آپ “ کہہ کر مخاطب کرتا ہے
    اور نو ڈاؤٹ میں اور میرا بچہ آپس میں بہت محبت رکھتے ہیں

    یہ سب عرض کرنے ایک مقصد یہ بھی ہے کے آجکل یہ جو شوہر اور بیوی کی برابری کا فیشن نکلا ہوا ہے اس پر بھی خواتین کو غور کرنے کی ضرورت ہے کے کیا واقعی شوہر اور بیوی کا درجہ برابر ہونا چاہئے

    ایک وضاحت پہلے سے ہی کردوں کے میں یہاں عورت اور مرد کی برابری پر نہیں بلکہ شوہر اور بیوی کے رشتہ پر رائے دے رہا ہوں

    ReplyDelete
  2. اوجی ایک دوسرے کو تو جو مرضی کہہ دیں۔ جو اچھا لگے۔
    بس اپنے آپ کو کوشش کرکے “ میں “ ہی کہیں ، کہ “ ہم “ کہنے سے بعض لوگ کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ کتنے
    لوگوں کی بات ہورہی ہے
    :)

    ReplyDelete
  3. تکلف بر طرف۔
    دوستی کی ابتدا تو آپ جناب سے ہی ہوتی ہے پر رفتہ رفتہ تو تک پھنح جاتی ہے ۔ حیرت انگیز طور پہ لڑائی کی ابتدا بھی آپ سے تو تک پھنچتی ہے اور اگر لڑائی شدت سے شروع ہو تو ڈائریکٹ تو سے ہی اسٹارٹ لیتی ہے۔مختصرا آپ کے آخری سوال کا جواب رشتے کی نوعیت پر منحصر ہے۔

    ReplyDelete
  4. فیصل ناصر صاحب، بیوی اور بچوں میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ میاں بیوی کو ایکدوسرے کا لباس کہا گیا ہے اور اس میں بچے نہیں آتے۔ ہمارے قبائلی سماج میں اگر آپ جائیں تو مرد اپنی بیویوں کا سرے سے تذکرہ نہیں کرتے بلکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ بچہ لوگ کی طبیعت خراب ہے حالانکہ بیوی صاحبہ کی طبیعت خراب ہوتی ہے۔ میاں بیوی کی ذہم داریوں میں فرق ہے اور باقی ایسا کوئ فرق نہیں۔ اس کی وجہ سے احترام کی زبان ختم نہیں ہوجاتی۔ اس کا برابری سے تعلق نہیں۔ ایک بنیادی نفسیاتی تربیت سے تعلق ہے۔
    عثمان،
    :)
    یہ تو قریب سے دور کی کوڑی لے آئے آپ۔
    کاشف نظامی صاحب، تکلف برطرف۔ یہ آپ پہلے کاشف نصیر کے نام سے تو تبصرے نہیں کرتے تھے۔

    ReplyDelete
  5. عثمان صاحب ، مست کامیڈی کر گئے ہیں آپ۔

    عنیقہ صاحبہ کاشف نصیر کامیں نے صرف نام ہی پڑھا ھے ، ویسے اللہ رحم کرے کیا مماثلت نظر آئی آپ کو
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ