Tuesday, October 4, 2011

حال کا قال

محبت ایک معمہ ہے۔ جو سمجھ کر بھی سمجھایا نہیں جا سکتا۔ دنیا میں  کتنے ہی لوگوں نے اسکی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھی کوئ انسان اس جذبے کی شدت سے گذرتا ہے وہ اسے ناکافی خیال کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکا علم کسی کو نہیں کہ یہ کس ساز پہ گایا جا سکتا ہے اور کس پہ نہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ محبت اپنا اپنا تجربہ ہے مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئ اپنے پیارے کو یاد کرتا ہے تو باقی سب اپنے پیاروں کی یاد میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں کیوں ہوتا ہے کہ کسی ایک سے محبت کرتے ہیں مگر پھر خود پوچھتے ہیں کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے کی ہے محبت میں نے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک محبت میں ہیر رانجھن رانجھن کرتے خود ہی رانجھن ہو جاتی ہے اور یہی محبت انسان  میں ایسا غرور پیدا کر دیتی ہے کہ شعلہ خاک ہوجاتا ہے مگربکھرتا نہیں۔ نہ تپش ، نہ دھواں یوں جیسے کچھ ہوا نہیں۔
میں جب پندرہ سولہ سال کی تھی تو سسّی پنہوں اور سوہنی مہینوال کی عشق کی داستانوں سے بڑا متائثر تھی۔  اب بھی ہوں، اسکی وجہ مجھے یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان داستانوں میں عورت عزم واستقلال کی تصویر نظر آتی ہے۔ میں بہادر اور پر عزم خواتین سے اُنسیت رکھتی ہوں۔
خیر، اگر ان داستانوں میں سے انتخاب کو کہیں تو میرے لئے شاید سسّی، سوہنی پہ فوقیت رکھتی ہوگی۔ اسکی وجہ شاید یہ ہوگی کہ میں نے بلوچستان کے بیکراں دہشت بھرے دشت دیکھے ہیں جہاں سوہنی، پنہوں کی تلاش میں نکلی تھی لیکن چڑھا ہوا چناب نہیں دیکھا۔ مگر یہ کہ میں سمندر کے کنارے رہتی ہوں مجھے تو دریا بھی وہی سمجھ آتا ہے جو پہاڑوں کو کاٹ کر ریزہ کر رہا ہو۔ پتھروں سے ٹکرانے کی جراءت کررہا ہو۔ 
 محبت کے ان تمام قصوں پہ جو قصہ راج کرتا ہے۔ وہ واقعہ ء معراج ہے۔ یاد نہیں آرہا کس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آسمان تک گئے اور واپس آگئے۔ خد ا کی قسم اگر میں ہوتا تو اس بلندی سے کبھی واپس نہ آتا۔
اس کیفیت کے لئے ناصر کاظمی نے کہا کہ
بس ایک منزل ہے ابولہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو فرق ہے مجھ میں اس میں گذر گیا میں، ٹہر گیا وہ
محبت ایک مقام پہ نہیں رکتی اسلئے یہ کائینات اور اس میں موجود ہر ذرہ گردش میں ہے۔ واقعہ ء معراج سے متعلق صابری برادران کی ایک قوالی ہے۔ جو میری پسندیدہ ہے۔ اپنے بچپن سے لیکر آج تک اسکی پسندیدگی میں کوئ کمی نہیں آئ۔  محفل سماع کے متعلق جو بھی نظریات ہوں ان سے قطع نظر، نجانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اس قوالی کو سن کر میرے روئیں بھی سنسنانے لگتے ہیں۔  خدا بہتر جانتا ہے یہ عقیدت ہے، محبت ہے، اسرار کی انتہا ہے، شاعری کی خوبی ہے یا انتہائے وصل کا تصور۔ لیکن اس  کیفیت سے گذرتے ہوئے مجھے ان لوگوں کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو مست ہو کر ناچنے لگتے ہیں۔ جسے حال کہتے ہیں۔
کیفیت چشم اسکی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیجیئو کہ میں چلا



No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ