Saturday, October 22, 2011

کتے کی موت

ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے,  کیسے؟ یہ نہیں معلوم۔ 
تاریخ بنانے والے کی موت بھی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اکثر متنازع شخصیات کی موت بھی وجہ ء تنازعہ کو جنم دیتی ہے۔ اس لئے کہ مرنے والے کے پیچھے بھی لوگوں کے گروہ بن جاتے ہیں ایک اگر اسکی موت کو کتے کی موت قرار  دیتا ہے تو دوسرا اسے رحمۃ اللہ علیہ بنانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ رکھتا۔
اس وقت اس بات کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں کہ کتے کی موت میں ایسی کیا بات ہے کہ دشمن اگر رسوا کن انداز میں مرے تو اسے کتے کی موت قرار دیا جائے۔ کیونکہ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ کتا بھی ایسے ہی جان دیتا ہے جیسے بلی، گھوڑا یا ہاتھی  حتی کہ انسان۔
کتے کو اتنا حقیر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا کتا اس بات سے واقف ہے کہ  انسان کی نظر میں وہ اتنا حقیر ہے اگر وہ ہے تو سبق سکھانے کے لئے روزانہ انسان کو کاٹنے کی مہم پہ کیوں نہیں نکلتا؟ کیا یہ کوئ ایک کتا ہے یا سب کتے ہیں؟ کیا کتوں میں تعلیمی شرح انسانوں سے بھی گئ گذری ہے؟ کیا کتوں میں بھی امیر اور غریب کے طبقات موجود ہیں اور وہ انکی نفسیات پہ اثر ڈالتے ہیں؟ کیا انسان پہ کتوں کی امارت اور غربت سے فرق پڑتا ہے؟  نہ نہ یہ بات اس وقت نہیں کسی یوم کتا پہ کریں گے۔ 
پاکستان کی تاریخ میں دو پاکستانی شخصیات کو ایسی ہی اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئ۔  حامی آخری وقت منتظر رہے کہ بیرونی طاقتیں اسے رکوا دیں گی لیکن ایک دن منہ اندھیرے جلاد نے تختہ ء دار  کھینچا اور پاکستان کی ایک متنازع شخصیت کو اسکے انجام تک پہنچا دیا۔
ایول جینیئس، میرے ایک عزیز بزرگ کا کہنا تھا، بے حد ذہین آدمی مگر نیت خراب۔ وہ بے حد زیرک انسان تھے لیکن ذہانت کو منفی سطح پہ زیادہ استعمال کیا۔ انہوں نے پاکستانی سیاست میں عوامیت کو داخل کیا۔ لیکن ان پہ پاکستان توڑنے کے الزام لگے انہیں مغرور اور خود پسند شخص کہا گیا۔
مذہبی جماعتوں کے نزدیک وہ فاسق تھے ایک ایسا شخص جو مجمعے میں کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں شراب پیتا ہوں لوگوں کا خون نہیں تو فاسق ہی ہوا ناں۔ لیکن یہ کریڈٹ بھی انکے حصے میں گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ وہی قادیانی جسکے ایک فرد کو قائد اعظم نے اپنی مملکت کا وزیر خارجہ بنایا بغیر یہ سوچے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو پاکستان کے لئے ایٹمی ہتھیار بنانے پہ راضی کرنے والے وزیر اعظم کو کہا گیا کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے اوپر سے پاکستان کو دو لخت کرنے کے داغ کو دھونے کے لئے کیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ بھٹو کا نام  اس سلسلے میں پیچھے چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا نام آگے آگیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں کے دباءو میں آگئے تھے۔ یا یہ کہ وہ اپنے اقتدار کا استحکام ہر قیمت پہ چاہتے تھے۔ یوں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والا رہنما مذہبی جماعتوں سے املا لینے لگا۔ انہوں نے ہی مذہبی جماعتوں کے دباءو پہ پاکستان میں جمعے کی چھٹی متعارف کرائ۔ جو کہ ملکی اقتصا دیات پہ بھاری ثابت ہوئ۔ لیکن مذہبی جماعتوں کو خوش رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ بالآخر تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک چلائ اور فوج نے اس بہانے اقتدار سنبھالا۔
بھٹو کی پھانسی کے دن جہاں ایک طبقے نے خس کم جہاں پاک کا نعرہ بلند کیا وہاں ایسے بھی لوگ تھے جو اس خبر کی تاب نہ لا سکے اور خود کشی کر لی۔ ایک کے نزدیک وہ کتے کی موت مارا گیا دوسرے کے نزدیک شہید کی موت۔
قاتل کی یہی سزا ہونی چاہئیے تھی، قاتل کیسے شہید ہو سکتا ہے؟ لوگوں نے سوال اٹھائے۔ لیکن انکے مزار پہ لوگوں کی ایک تعداد اپنی دعاءووں کی قبولیت کی منتظر رہتی ہے۔ لوگ تو بکھرے ہوئے پھولوں سے بھی کرامتیں جوڑتے ہیں۔ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
پاکستانی تاریخ کی سب سے مضبوط شخصیت جنرل ضیاءالحق ثابت ہوئے۔ اپنے سب سے بڑے ممکنہ دشمن کو پھانسی پہ پہنچا کر مذہبی جماعتوں کو نفاذ شریعت کی لالی پاپ دئے رکھی ادھر فوج کو امریکہ کا حلیف بنا کر روس کے خلاف جنگ میں افغانیوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ جی اُسی امریکہ کا جسکے منہ کالا ہونے کی آج دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ پھر وہی اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
بھٹو اور ضیاءالحق ایک یادگار تصویر

پاکستانی معاشرے میں ہیروئین، کلاشنکوف اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آئے جو اپنے ساتھ اپنی ثقافت لے کر آئے، وہ آئے اور چھا گئے۔ ضیاءالحق نے پاکستانی طاقت کے کھیل میں بڑا جم کر کھیلا۔ اگر طیارہ نہ پھٹتا یا پھاڑا نہ جاتا تو شاید آج وہ کرنل  قذافی کی ٹکر پہ ہوتے۔
ہر عروج کو زوال دیکھنا ہوتا ہے۔ بالآخر وہ دن بھی آیا جب پاکستانی عوام نے ٹی  وی پہ غلام اسحق خاں کی زبانی یہ اعلان سنا کہ ہمارے ملک پہ گیارہ سال سے قابض ہمارے محبوب صدر ہوا میں طیارہ پھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔  جائے حادثہ سے ایک جبڑا ملا جسکی شناخت محبوب صدر کے جبڑے کے طور پہ کی گئ۔ اور اس جبڑے کی آخری رسومات عمل میں لائیں گئیں۔
مجھے یاد ہے کہ محلے میں کچھ لوگ ٹی وی پہ جاری تدفین کی لائیو ٹرانسمیشن پہ آنسوءووں سے رو رہے تھے۔ تقریب کی کمنٹری کرنے والے صاحب اظہر لودھی بار بار رقّت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ٹی وی پہ جاری ٹرانسمیشن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جائے تدفین پہ آئے ہوئے تھے۔ کچھ کے نزدیک میلے میں شرکت کرنے آئے تھے کیونکہ اس دن پاکستان میں چھٹی تھی، کچھ کے نزدیک عقیدت اور صدمے میں آئے تھے۔
  عین اسی وقت کچھ لوگ خوش تھے ایک مکار ڈریکولا صفت شخص سے جان چھوٹی۔ وہ شخص جس نےذاتی اقتدار کے لئے پاکستان کو مذہب کی انتہا پسندی میں جھونک دیا ایک آسیبی دور جسکے ختم ہونے پہ خیر کی کچھ امید تھی۔ وہ جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کو بری طرح استعمال کیا۔ جس نے پاکستان کو جہاد کا مرکز بنا دیا اور اپنی نوجوان نسل کو ہیروئین اور اسلحے کا نشہ دیا یا پھر جنگی جنون۔
اس نے پاکستان کو روشن مستقبل دینے کے بجائے ایک دہشت گرد ملک بنانے کی بنیاد رکھی۔ اس نے پاکستانی معاشرے کو ایک منجمد اور بند معاشرے میں تبدیل کیا۔ اس نے پاکستانی فوج کو ڈالرز کا چسکا دیا او معاشرے میں کرپشن کو بڑھاوا۔ جنرل ضیاء الحق پہ ملکی تباہی کے سنگین الزامات ہیں۔
سو ایک طبقے کے نزدیک وہ کتے کی موت مارے گئے۔ خدا نے انکا دنیا میں ہی انجام دکھلا دیا۔ بہادر شاہ ظفر کو تو دو گز زمین وطن میں نہ ملی۔ ضیاءالحق کے لئے زمین موجود تھی مگر جسم نہ مل رہا تھا نامعلوم کس کے جبڑے پہ اکتفا کرنا پڑا۔ انکی قبر اگرچہ کہ شاہ فیصل مسجد کے ساتھ موجود ہے مگر اس پہ کوئ شاذ ہی جاتا ہے۔ مر گئے مردود نہ فاتحہ نہ درود۔ لیکن اپنے حامیوں کے لئے انکی موت ایک شہید کی موت تھی۔ ایک فوجی جو دوران ملازمت جان دے وہ ایک شہید کی موت مرا۔ ہم کیا کہیں، اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
زندگی نے ہمیں ایک دفعہ پھر واقعات کا چشم دید گواہ بنایا۔  اتنا کہ ہم نے دیکھا، کس طرح رات کے اندھیرے میں امریکن طیارے پاکستان کی حدود میں اتنی احتیاط سے داخل ہوئے جسکے لئے کہتے ہیں کسی کوکانوں کان خبر نہ ہونا۔  اور ایک ایسے شخص کو موت کی نیند سلا گئے بلکہ اسکی لاش بھی ساتھ لے گئے، جو ایک عرصے سے روپوش تھا مگر دنیا ہلائے ہوئے تھا۔

ایک غیر پاکستانی جس پہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد فدا تھی۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا پسندیدہ مجاہد جس مکان میں کئ سال سے اپنے لمبے چوڑے خاندان سمیت چھپا ہوا تھا اسی میں مارا گیا۔ مخالفین خوش کہ کتے کی موت مارا گیا۔ وہاں بیٹھا دوسروں کے بچے مروا رہا تھا اور اپنے تین بیویوں سے پیدا کر رہا تھا۔  حامیوں نے اسے شہید کی موت قرار دیا۔ مجاہد اگر کفّار کے ہاتھوں مارا جائے تو شہید ہے۔ کئ سوالات پیدا ہوئے۔ بڑی گرما گرمی رہی۔ سب سے اہم بات یہی رہی کہ کیا فرزند زمین نے اسامہ کو شہادت کے رتبے تک پہنچانے میں اپنا خاموش کردار ادا کیا؟ کیونکہ انکے ہاتھوں مرتا تو شہادت مشکوک ٹہرتی۔ ایک دفعہ پھر، اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
لیبیا کے صدر کرنل قذافی کوایک عرصے تک پاکستان میں سرکاری سطح پہ ہی نہیں عوامی سطح پہ بھی خاصی مقبولیت  حاصل رہی۔
یاسر عرفات، بھٹو اور کرنل قذافی
کہتے ہیں انیس سو چوہتّر میں بھٹو صاحب نے سرزمین پاکستان پر ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر، انکی اس بات سے خوش ہو کر کہ پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت بننا چاہئیے انکے نام پہ لاہور اسٹیڈیئم کا نام قذافی اسٹیڈیئم رکھ دیا تھا۔ جو آج تک یونہی چلا آرہا ہے۔  حالانکہ قذافی سوشلسٹ قوتوں سے انسیت رکھتے تھے لیکن انکے امریکہ مخالف جذبات کو ہم سب بڑی اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہم پاکستانی بس ایسے ہی ہوتے ہیں،  جس پہ ایک دفعہ صدقے واری ہو جائیں، پھر وہی بھاگ جائے تو بھاگ جائے ہم پیچھے نہیں ہٹتے۔ جس سے زیادہ محبت ہو اسے شہید کروانے میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ ہماری طرف سے محبت کا آخری ایوارڈ ہے۔
خیر جناب، ٹرکوں کے پیچھے قذافی صاحب کی تصاویر ہم نے بھی دیکھی ہیں۔ دو ہزار نو میں افریقیوں کی طرف سے 'شاہوں کے شاہ' کا لقب ملنے میں ہم نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔  اسکی وجہ قذافی کا اپنی حفاظت کے لئے خواتین دستوں کو رکھنا تھا۔  خواتین محافظ دستے توبہ توبہ، سٹھیا ہی گئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک وہ ساٹھ سال کے بھی نہ ہوئے تھے۔ مگر انکی اس حرکت کی وجہ سے ایک پھٹکار لوگوں کو انکے چہرے پہ نظر آتی تھی۔
یہ بھی بڑی عجیب بات سنی کہ قذافی نے لیبیا میں اسلامی قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، شادی شدہ جوڑوں کا شادی کرنے تک کنوارہ ہونا ضروری تھا، ملک کے ایک بہت محدود علاقے سے ہٹ کر باقی ماندہ ملک میں خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع تھا۔ خواتین کا بغیر گھر کے مردوں کے گھر سے نکلنا ممنوع تھا۔ یہ سب روائیتی پاکستانی نکتہ ء نگاہ سے کافی پسندیدہ چیزیں ہیں لیکن خواتین محافظین کا اپنی حفاظت کے لئے رکھنا کافی عجیب نفسیات کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ چاہے روائیتی پاکستانی ہوں یا غیر روائیتی پاکستانی۔ ان خواتین محافظین نے انکی یہاں مقبولیت کو متائثر کیا۔
مغرب نے انکے خلاف پروپیگینڈے میں، میں اسے پروپیگینڈہ ہی کہونگی۔ کیونکہ میں بھی اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہوں جو جنگی ترانے یاد کرتے ہوئے عمر کے اس حصے میں پہنچا ہے اور صرف جنگ سے وابستہ افراد کو ہی ہیرو سمجھتے ہیں اور اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر انکی ماورائ حیثیت پہ صدق دل سے ایمان لاتے ہیں۔
ہاں تو ان پہ الزام ہے کہ انہوں نے کیمیائ ہتھیار رکھے ہوئے تھے۔ اگرچہ عراق پہ حملے کے بعد مغرب کی نظر میں انکا دماغ کافی سیدھا ہوا لیکن بہرحال ملک پہ بیالیس سال تک حکومت رکھنا اچھی بات نہیں سمجھی گئ۔ شاید بنیادی حسد کی وجہ یہی تھی کہ تمام مغربی ممالک ایک ہو گئے۔ اب اگر انہوں نے اپنے قوانین ایسے بنا لئے ہیں کہ کوئ شخص چند سال سے زیادہ نہ ٹک سکے تو اس میں قذافی جیسے آمروں کا کیا قصور۔ آج امریکہ میں ہونے والے احتجاجی مطاہروں کے بعد ہم سوچتے ہیں کہ ایک کی جمہوریت اور دوسرے کی آمریت میں آخر فرق ہی کیا ہے ؟

وال اسٹریٹ پہ قبضہ کرو، امریکیوں کا احتجاج

ان پہ الزام رہا کہ اگرچہ تیل کی آمدنی سے انہوں نے لیبیا کے عوام کی معاشی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن سب سے زیادہ دلچسپی انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی مالی حالت کو مستحکم اور سدا قائم رکھنے کے لئے کی۔
قذافی کی سوانح حیات اپنے اندر بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔ لیبیا کے علاقے سرت میں ایک چھوٹے سے قبیلے جو کہ گدڑیوں کا پس منظر رکھتا ہے اس میں جنم لینے والے اس شخص نے انیس اکسٹھ میں فوجی اکیڈمی جوائین کی  یہاں سے گریجوایٹ کیا۔ اور حیران کن طور پہ انیس سو انہتّر میں صرف آٹھ سال بعد عین عالم نوجوانی  یعنی انتیس سال کی عمر میں لیبیا کی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پہ قابض ہو گئے ، پھر اسکے بعد بیالیس سال تک اس ملک کے سیاہ اور سفید کے مالک بنے رہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ملک میں ایسا کوئ منصوبہ نہ تھا جس میں قذافی یا انکے خاندان کو مالی منفعت نہ پہنچتی ہو۔
انکے شاہانہ طرز زندگی پہ بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ یہ تنقید کرتے ہوئے لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ شاہوں کے شاہ تھے  انہیں اپنے لئے یہ خطاب پسند تھا۔ بہرحال، انہوں نے اپنے عوام کو کچھ تو دیا۔  ہماری طرح اپنے آپکو سجدے کروا کر کیڑے مکوڑوں کی طرح تو نہیں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن بہر حال ملک کے مشرقی حصے کی معاشی حالت انتہائ دگرگوں بتائ جاتی ہے اور اس وجہ سے عوامی سطح پہ انکے خلاف مہم چلانے کی گنجائیش موجود تھی۔ ہم ابھی اس عوامی شعور سے محروم ہیں جو ملک پہ اپنا حق سمجھتا ہو۔ عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ملک دراصل زرداروں اور شریفوں کا ہے اور انکا شکریہ کہ وہ انکا نام یاد رکھتے ہیں۔
قذافی اپنے آپکو خبروں میں رکھنے کا ہنر جانتے تھے یا یہ کہ ایک طبقے کے مطابق انہیں اپنے آپکو خبروں میں رکھنے کا جنون تھا۔ اپنی ذات کے لئے، وہ ایک جنونی تھے۔
سوڈان میں جب مسلم حکمراں ، حکومت میں آئے تو قذافی نے سوڈان کو پیش کش کی وہ لیبیا میں ضم ہو جائے۔ سوڈان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور اپنے ملک کے عیسائیوں سے امن کا معاہدہ کر لیا۔ یہ بات انہیں بہت ناگوار گذری۔ اسکے بعد انہوں نے دیگر ملکوں کے ساتھ یہ کوشش کی کہ ایک عظیم اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی جائے۔ کہنے والے اسے بھی انکے اس دماغی فتور سے جوڑتے ہیں کہ ان میں ایک بڑے رقبے پہ حکمرانی کا جذبہ تھا اور اسی لئے وہ اسکے لئے اتنے کوشاں تھے۔
اب یہ بات بھی بڑی عجیب لگتی ہے کہ کہاں وہ اسلامی مملکت کے قیام کا خواب دیکھتے ہوں اور کہاں وہ نظریاتی طور پہ سوشلسٹ ہوں اور علاقے کی سوشلسٹ قوتوں سے انکے اچھے مراسم رہے ہوں۔
آٹھ مہینے پہلے جب لیبیا میں جمہوریت لانے کے بہانے انکے خلاف باغیوں کو کمک دی گئ تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ اس بہانے لیبیا کا تیل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ دنیا کی سلامتی کو کرنل قذافی کی دیوانگی سے لاحق خطرات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔  لیکن بعد کے حالات نے دکھایا کہ اقتدار کا جنون قذافی میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں پہ حملہ کر ڈالا۔ پھر یوں ہوا کہ دیوانہ مارا گیا۔
آج جب ٹی و ی پہ ویڈیوز اور خبریں آرہی ہیں تو لیبیا کے عوام قذافی کی موت پہ خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ جس باغی کے کپڑوں پہ انکے خون کے نشان ہیں وہ کہتا ہے کہ میں اسے زندگی بھر نہیں دھوءونگا اور اسے سنبھال کر رکھونگا۔ عوام پہ جب جنون طاری ہوتا ہے تو تخت اور تختے میں زیادہ فرق نہیں رہتا۔
بہرحال، میں بحیثیت پاکستانی کچھ الجھن میں ہوں۔ آیا امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے والے مسلم جنگجو کی موت پہ افسوس کرنا چاہئیے۔ افسوس کرنا چاہئیے کہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست ایک دفعہ پھر اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئ۔ ایک دفعہ پھر ایک مسلم اکثریتی ملک کا مسلم حکمراں ہار گیا۔ یا بحیثیت ایک انسان یہ سوچ کر خوش ہوجاءوں کہ ایک خود پسند بادشاہ اپنی طبیعت کے جبر کا شکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اب اسکے عوام اپنی زندگیوں کو اس دھارے میں لانے میں کامیاب ہونگے جو وہ چاہتے تھے۔ جسکے لئے انہوں نے تن من دھن کی بازی لگادی۔ میری یہ الجھن کیسے رفع ہوگی؟ کیا کہوں کیا یہ کہ مجنوں قذافی کتے کی موت مارا گیا۔  یا پھر یہ کہ قذافی کو مرتبہ ء شہادت دوں۔ کیا اللہ کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے۔
آخر مخلوق کو خدا یہ حق کیوں نہیں دیتا کہ وہ بھی اسے جان لیں؟ کیا خدا کے یہاں جمہوریت نہیں ، آمریت ہے؟ پھر آمر سے جھگڑا کیوں؟ پھر اس بات کا رولا کیوں کہ انسان خدا بننا چاہتا ہے۔ آخر انسان کے سامنے ایک پسندیدہ مکمل ماڈل خدا ہی کا تو ہے۔
اُف اتنے سوالات، سوال کرنے سے انسان ہونا ثابت ہوتا ہے کبھی خدا سوال نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔ 

11 comments:

  1. میرا تو خیال تھا کہ آپ لیبیائی ڈوگی کی ڈوگی ڈیتھ کا کچھ انتم سنسکار کریں گی لیکن آپ نے تو تاریخ پاکستان بھر کے ڈوگیوں کے قصہ ڈوگیات چھیڑ دیے۔ تحریر میں اسقدر ڈوگی ہیں کہ مجھے اس تحریر سے خوف آنے لگا ہے۔

    ReplyDelete
  2. " اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے "

    ReplyDelete
  3. دو چیزیں اس کی پروفائل میں مزاحکہ خیز ہیں۔
    ایک اس کے زنانہ لباس
    اور دوسرے زنانہ باڈی گارڈز
    باڈی گارڈز کے قصے مزے کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے اپنی کسی سیکسوئل فینٹسی پورا کرنے کا اچھوتا طریقہ ڈھونڈا تھا۔

    ReplyDelete
  4. بہت اچھی تحریر ہے بہت عمدہ نقشہ کھینچا ہے آپ نے۔ ایک تصحیح کرنا چاہوں گا کہ، ضیاء الحق کی موت کے بعد غلام اسحاق خان نے یہ نہیں کہا تھا کے طیارہ پھٹ جانے کی وجہ سے وہ شیطان کو پیارے ہوگئے انہوں نے کہا تھا کہ طیارہ پٹ جانے کی وجہ سے وہ شیطان کو پیارے ہوگئے۔

    ReplyDelete
  5. فکر پاکستان،
    :):)
    بالکل درست کہا آپ نے۔ انہوں نے یہی کہا تھا اور
    پٹنے میں جو بات ہے وہ پھٹنے میں نہیں۔
    عثمان
    :)

    ReplyDelete
  6. اس قتل کو ایسے سم اپ کرو کہ ، قذافی کے بعد لیبین عوام فقیروں والی زندگی گزاریں گے۔ میں نے جب لیبیا دیکھا تھا وہاں کوئی بھوکا نہیں مرتا تھا بلکہ لوکل عیاشی کی زندگی گزارتے تھے اور ہر ایک کو شرطیہ امن و امان ، صحت و تعلیم اور تمام بنیادی سہولیات میسر تھیں
    اینڈ یس، اب میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ سب قصہ پارینہ ہو گئی ہیں۔ عنقریب یہ لوگ قذافی کو روئیں گے

    ReplyDelete
  7. پاکستانی سیاست کو تو چھوڑیں وہ تو ہے ہی گندی،لیکن آپ کی تحریر بہت جاندار ہے

    ReplyDelete
  8. بھٹو کی پھانسی کے دوسرے دن مشہور مصنف ابن صفی حسب معمول اپنے دوست سے ملنے گئے ۔ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے مگر بھٹو مرحوم کی پھانسی کی خبر کے کے بارے میں کوئی تذکرہ یا تبصرہ نہ کیا ۔ دوست سے آخر کار رہا نہ گیا تو پوچھا کہ ذرا اس خبر کے متعلق بھی کچھ فرمائیے۔
    ابن صفی کہنے لگے میاں اس میں خبر کی کیا بات ہے ۔ ایک بھیڑیا دوسرے بھیڑیے کو کھا گیا ۔ قصہ ختم ۔ اللہ اللہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. اصل شعر کچھ اس طرح تھا

      یہ جنگل ہے پیارے
      بھیڑیئے کو بھیڑیئے نے پھاڑ ڈالا بات ختم

      Delete
  9. بھائ جس کو جانا تھا وہ تو اللہ کے پاس پہنچ گیا اس کے اعمال اللہ جانے اپنی فکر کرو کہ آپ نے کیا گل کھلائیں ہیں کسی کے مرنے پہ خوشیاں منانا کم از کم آپ جیسے سچے مسلمان کو زیب نہیں دیتا
    حدیث نبوی ﷺ : مردوں کو برا بھلا مت کہو اس سے زندوں کو تکلیف دوگے

    ReplyDelete
  10. مزے کی بات یہ کہ اظہر لودھی کے ساتھ جو دوسرا فرد ٹی وی پر کمنٹری کے لئے موجود تھا اور رو رہا تھا وہ ہمارے پیارے حسین حقانی صاحب ہیں :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ