Thursday, October 13, 2011

حجاب، جزاک اللہ

جب ہم نے کینیڈا کےحسین شہر کیوبک سٹی میں سیاحوں کی رہنمائ کرنے والے ادارے سے معلوم کیا کہ  شہر میں جاری میلے کی کیا نوعیت ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئیے تو اس نے بتایا کہ میلہ شہر کے پرانے حصے میں ہو رہا ہے۔ کیوبک سٹی کی مشہور آبشار پہ آج رات سالانہ آتشبازی کا خوبصورت مظاہرہ ہونے والا ہے لیکن گاڑی پارک کرنے کے لئے آپکو وہاں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوگا۔ اسکے علاوہ پرانے شہر میں آج ایک سرکس بھی ہو رہا ہے ہر سال ہوتا ہے اور یہ نہ صرف مفت ہوتا ہے بلکہ بہت شاندار۔
ہم نے آتشبازی پہ سرکس کو ترجیح دی، اسکی وجہ پھر کسی تحریر میں۔ ہم وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے وہاں موجود تھے۔ لوگوں کا ایک جم غفیر۔ جہاں تک نظر اٹھائیں لوگ نظر آرہے تھے۔ اسکا انتظام ایک فلائ اوور کے نیچے کیا گیا تھا۔ ہر عمر کے عورت مرد اور بچے موجود۔
میں ایک پاکستانی خاتون دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں موجود کہ یا الہی کہاں پھنس گئے۔ عورتوں کے لئے کوئ الگ انتظام نہیں۔ سب لوگ کھڑے ہیں، بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں۔
مگر پھر غور کیا، میرے اردگرد کوئ بھی عورت ہراساں نہیں تھی۔ ہر طرح کی سیاح عورتیں، مقامی فرانسیسی نسل کی حسین عورتیں، مختصر ترین کپڑوں میں اوراٹھارہویں صدی کے طویل عریض کپڑوں میں۔ سب خوش، بے فکر۔ پھر میرا دل کیوں دھڑک رہا تھا کہ ابھی کوئ چلتے چلتے ہاتھ نہ مار دے، چٹکی نہ لے لے، کوئ فحش بات کہتا ہوا نہ گذر جائے اور نہیں تو یہ ہی نہ کہہ ڈالے کہ دوپٹہ سر سے اوڑھو۔
شو شروع ہونے سے پہلے گھپ اندھیرا کر دیا گیا اب صرف سرکس والوں کی روشنیاں دائرے میں گھوم رہی تھیں۔ لیکن سب لوگ اب بھی مطمئن، میرے علاوہ کوئ بھی بے چین نہ تھا۔ اوہ خدا، اندھیرا، اتنے مرد و عورت ایک جگہ پہ۔ آخر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایک گھنٹے بعد یہ واقعی شاندار سرکس ختم ہوا۔ سوائے جانوروں کی پرفارمنس کے اس میں سب کچھ تھا اور پرفارمرز کی شاندار پرفارمنس وہ بھی مفت۔ کوئ نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آیا کوئ عورت کسی مرد کو ڈانٹتی پھٹکارتی نظر نہ آئ اور نہ خواتین نےخود بخود اپنا ایک الگ گروہ قائم کیا۔ ہلکی سی روشنی ہوئ۔
اب یقیناً نکلتے ہوئے دھکے لگیں گے۔ یا اللہ اب کیا ہوگا۔ اس ہجوم میں تو میرے ساتھی بھی نجانے کہاں گم ہو گئے، میرے ہمراہ نہیں۔ میں ہجوم کے ساتھ اپنی بچی کے اسٹرولر کو آہستہ آہستہ دھکا دیتی، محتاط انداز میں باہر روڈ پہ نکل آئ۔ درحقیقت کچھ بھی نہ ہوا۔ کوئ عورت گھبرائ ہوئ، سراسمیہ نہ تھی۔ دس منٹ بعد وہ جگہ ایسے صاف تھی جیسے یہاں کچھ  ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن شاید خوف پاکستانی عورت کے اندر گوندھ دیا جاتا ہے۔
اسکے کچھ عرصے بعد میں پاکستان روانہ ہوئ۔ جہاز میں میری پڑوسی خاتون ، اپنے تین بچوں  اور شوہر کے ساتھ پشاور جا رہی تھیں۔ لگ بھگ پینتالیس کی پر کشش خاتون۔ ریشم کے نفیس کپڑوں اور گلے میں شیفون کا دوپٹہ ڈالے ہوئے۔ سفیدی مائل ہاتھوں پہ عنابی نیل پالش لگی ہوئ۔ بال تراشے ہوئے۔ کینیڈا میں گذشتہ دس سال سے مقیم، روزانہ اپنے بچوں کو خود ہائ وے کی پندرہ منٹ ڈرائیو کر کے اسکول پہنچانے والی خاتون۔ وہ تین سال بعد اپنی بیمار والدہ کو دیکھنے جا رہی تھیں۔  انہیں ایک دن اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں رکنا تھا اور پھر وہاں سے پشاور روانگی تھی۔
پائلٹ نے اعلان کیا کہ آئیندہ دس منٹ میں ہم اسلام آباد ائیر پورٹ پہ اترنے والے ہیں۔ انہوں نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا شیفون کا دوپٹہ لپیٹ کر اس میں رکھا اور ایک بڑی سی چادر نکال  کر اسے اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا۔
کفار کے مردوں کے درمیان گلے میں دوپٹہ ڈال کر پھرنے والی خاتون نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک بڑی سی چادر نکال لی۔  حالانکہ ہمارے ملک میں سرکاری طور پہ اسکی کوئ پابندی نہیں۔ اور اسلام آباد ملک کا دارالخلافہ بھی ایسی کوئ ثقافت نہیں رکھتا۔
میں کراچی ایئر پورٹ پہ اترتی ہوں۔  میں نوٹ کرتی ہوں کہ اکثرمردوں کی نظریں خواتین کا بڑی دور تک تعاقب کرتی ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ اسکارف لئے ہوئے ہیں یا جینز شرٹ میں ہیں۔ میری بچی بھاگ کر اپنے باپ سے لپٹ جاتی ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور میرا ماتھا چومتے ہیں۔ لوگ اس منظر میں بھی بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ میں ہمیشہ اس پہ خجل ہو جاتی ہوں۔ حالانکہ وہ اسی طرح اپنی ماں اور بہنوں کا بھی استقبال کرتے ہیں۔ کیونکہ انکی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر گذرا ہے۔
شہر میں داخل ہوتی ہوں۔  روڈ پہ بڑے بڑے بینرز لہرا رہے ہیں۔ عالمی یوم حجاب، چار ستمبر۔ اسکے چند دن بعد جب ملک میں عافیہ ڈے منایا جا رہا تھا۔ کراچی سے محض چند سومیل کے فاصلے پہ لاکھوں افراد سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے تھے۔ سیلاب جس نے انکی عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے باہر لا کھڑا کیا تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے پانی سے پناہ تلاش کرتی عورتیں، اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستانی عوام سے حجاب کی نہیں کھانے کی طلبگار ہیں۔ یاد رہے یہ وہ ملک ہے جہاں پچھلے سال بھی سیلاب آیا تھا اور اگلے سال بھی آنے کی توقع ہے۔ اب وہی عالمی یوم حجاب منانے والے عوام سے اس آفت کے شکار لوگوں کے لئے صدقہ خیرات مانگ رہے تھے۔ انہوں نے پچھلے سال بھی مانگا اور امید ہے اگلے سال بھی مانگیں گے۔
ادھر نیٹ کی دنیا میں مختلف فورمز پہ مرد حضرات اس بات پہ اتنے متفکر نہیں کہ آخر سیلاب جیسی قدرتی آفات سے لڑنے کے لئے بھیک مانگنے، لوگوں کو بھیک کا عادی بنانے  اور بھیک بانٹنے کے بجائے کوئ باوقار منصوبہ بندی کی جائے۔ مردوں کی ایک بڑی تعداد جن ویڈیوز اور تصویروں کو ایکدوسرے سے شیئر کررہی ہے، پسندیدگی کے لئے کلک کر رہی ہے، جزاک اللہ کے نعرے بلند کر رہی ہے وہ خواتین کے حجاب کے متعلق ہے۔ مردوں کا یہ جوش و خروش دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے، ہنسی بھی آتی ہے اور تشویش بھی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں جب روم جل رہا تھا تو نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔


 

ایک ایسی ہی ویڈیو پہ جس میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئ تھی کہ جینز اور شرٹ میں ملبوس خواتین کی مرد عزت نہیں کرتے بلکہ اسکارف اور عبایہ پہننے والی خواتین کی عزت کرتے ہیں اور اس طرح حجاب کرنے والی خواتین مردانہ دسترس سے محفوظ ہوتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں جہاں خواتین مختصر ترین کپڑوں میں پھر رہی ہوتی ہیں  وہاں کے مرد ایسی نظریں جمائے نہیں بیٹھے ہوتے ہیں جیسی ہمارے یہاں اچھے خاصے کپڑے پہنے ہوئے خاتون پہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ جواب ملتا ہے اس لئے کہ وہاں  مرد اتنی پھیلی ہوئ فحاشی کی وجہ سے اسکے عادی ہو گئے ہیں۔ میں نے وہاں یہ جواب دینے سے گریز کیا کہ پھر کیا حرج ہے کہ یہاں  بھی مردوں کو عادی بنانے کے لئے فحاشی پھیلا دی جائے۔ تاکہ وہ کچھ دوسرے مسائل پہ بھی یکسو ہو کر توجہ کر سکیں۔
خواتین کی بے حیائ اور حجاب کے ان نعروں پہ تقاریر لکھنے والے مرد حضرات اکثر سب کے سب مغرب کی عورت کی تصویریں دیتے ہیں اور انکے معاشرے کا رونا روتے ہیں مگر یہی مرد حضرات اپنے ملک کی عورت کی تصاویر دیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ اور مسلسل اس عالم تبلیغ میں یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں دنیا کی بے حیا ترین خواتین پائ جاتی ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ غیرت مند مرد۔ ایک ناقابل یقین، مگر کلنگ کامبینیشن۔
یہ سب چیزیں تو اب روز کے قصے ہیں۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک جرمن سے اپنی گفگتو یاد آتی ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دنیا کے حقائق سے ناآشنا ایک ٹین ایجر ہی تھی اور میں نے اس سے بڑے فخر سے کہا تھا ہمارے یہاں عورت کو عزت حاصل کرنے کے لئے اپنی صلاحیت اور علم کا زور نہیں دکھانا ہوتا اسے عزت ملتی ہے کیونکہ وہ ایک عورت ہے۔ مجھے لگا تھا کہ اس نے حیرانی سے میری بات سنی۔ مگر اب احساس ہوتا ہے اس نے سوچا ہوگا، اونہہ کنوئیں کے مینڈک۔
حقیقت یہ ہے کہ اس پاکستان میں عورت کو صرف دوپٹے، اسکارف اور عبایہ کی وجہ سے عزت ملتی ہے۔ اگر ایک عورت رات کو محفل شراب میں مصروف رہے لیکن صبح اپنے سر پہ دوپٹہ جما کر نکلے تو اس سے زیادہ قابل عزت عورت کوئ اور نہیں وہ بھی نہیں  جو آپکے بچوں کا علاج کرتی ہو، انہیں تعلیم دیتی ہو آپکے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہو بس دوپٹہ سر پہ نہ لیتی ہو۔ یہی وجہ ہے ہماری پارلیمنٹ میں موجود خواتین ارکان کی اکثریت ملکی مسائل پہ کام کرنے کے بجائے ہمہ وقت اپنے دوپٹے صحیح  کرتی نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب پنجاب کی ایک تعلیمی درسگاہ میں نقاب پوش مرد لوہے کے  سرئیے لے کر اندر گھس جاتے ہیں تو قابل تشویش بات ان مردوں کا اندر گھس کر ان بچیوں کو ہراساں کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس خبر پہ پنجاب کے رہنے مرد کا یہ تبصرہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا اگر کچھ مردوں نے بے حیائ روکنے کے لئے یہ حرکت کر ڈالی۔
ویسے یہ بھی بڑا عجیب مشاہدہ ہے کہ خواتین کے حجاب کے سلسلے میں جس صوبے کے لوگ سب سے زیادہ چست نظر آتے ہیں وہ پاکستان کا صوبہ  پنجاب ہے۔
آئیے آج میں آپکو حقیقی پاکستانی خواتین کی تصویریں بھی دکھاتی ہوں۔ جنہیں دیکھنے سے حجاب کی مہم میں پیش پیش افراد شاید محروم ہیں۔ انہیں دیکھیئے اور بتائیے کہ کیا اس ملک کی عورت کو عالمی یوم حجاب کی ضرورت ہے۔ کیا اسے یہ چاہئیے کہ فرزند زمین حجاب کی ویڈیوز کو شیئر کریں ، فارورڈ کریں اور ان پہ جزاک اللہ کہیں۔
















24 comments:

  1. صرف دو باتیں عرض کرنی ہیں ۔
    ۱= یہ اللہ سبحانہ تعالیِ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
    ۲= ضروری نہیں کہ آپ کے مشاہدات اور تجربات کسی غلطی سے پاک ہوں۔ آپکے مشاہدات میں دو بنیادی سقم ہیں۔ ایک یہ کہ بدقسمتی سے آپ پردہ کی روحانی برکات سمیٹنے کے قابل نہیں ہیں اور دوسرا آپکے مشاہدات واضع طور پر اس خوف کا مظہر ہیں جو اس جدید تہذیب اپنے ماننے والوں میں پیدا کرتی ہے یعنی آپکے پاس صرف اور صرف مغربی تہذیب کی عینک سے کیا گیا مشاہدہ ہے ، حقیقی تجربہ نہیں۔ جو ہمارے مشاہدات ہیں وہ اس سے یکسر مختلف ہیں۔ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد پردہ میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔ اسکی اہمیت اور فوائد کو مغرب کی نو مسلم خواتیں تک نے محسوس کیا ہے۔ مردوں کی ایک بڑی تعداد پردہ والی خواتین سے تعرض نہیں کرتی۔ اب اگر کوئی بدبخت ڈنڈا لیکر پنجاب کے کسی تعلیمی مرکزمیں گھس گیا ہے تو اس کا ملبہ آپ اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر نہیں ڈال سکتیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. محترم اگر انہی پردے میں محفوظ خواتین کو مردوں کی نظر بد سے بچا دیا جائے تو شاید ہی وہ پردے میں بیٹھنا پسند کریں :) ہے نا لطیفہ کہ مسلمان عورت کو مسلمان مرد کی نگاہ اور اس کے ہاتھ سے بچانے کے لئے اسلامی پردہ ہی واحد حل ہے :)

      Delete
  2. عزت افزائی کا بہت شکریہ عنیقہ۔۔۔

    قارئین کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ مشہور و معروف جملہ"کیا ہوا اگر کچھ مردوں نے بے حیائ روکنے کے لئے یہ حرکت کر ڈالی" مجھ ناچیز کا ہی ہے۔۔۔

    باقی تحریر کے رویو اور تعریفوں کے قلابے ملانے کے لیے دو عدد آپ کے ہمراہی ہیں ہی۔۔۔ کیونکہ حسب معمول، آپ کی اس تحریر سے ناچیز زیادہ اتفاق نہیں کرتا۔۔۔

    ReplyDelete
  3. بہت ہی خوبصورت طریقے سے آپ نے ہماری گھٹیا ذہنیت کی عکاسی کی ہے، یہاں شہروں کی خواتین کی سبکو فکر رہتی ہے لیکن کبھی کسی نے گاوں دیہات میں جاکر دیکھا کے کیسے وہاں کی مظلوم خواتین دو وقت کی روٹی کے لئیے زندگی سے لڑ رہی ہوتی ہیں، شریعت نے جو پردہ معین کیا ہے اسکی پاسداری بلکل ہونی چاہئیے لیکن ان ووٹوں کے بھکاریوں اور نام نہاد ہمدردوں کو گاوں دیہات کی خواتین کے مسائل پر بھی توجہ دینی چاہئیے کبھی وہاں بھی لیبر چائلڈ کے خلاف دھرنے ہونے چاہیے، کبھی وہاں بھی عورتوں کے حقوق کے لئیے ریلی نکلنی چائیے، کبھی وہاں بھی نجی جیلوں میں حوا کی بیٹی کی لٹی عظمت پر بھی احتجاج ہونا چائیے، لیکن یہ سب کبھی نہیں ہوگا کیوں کے ان بے چاورں کے تو یہ لوگ انسان ہی نہیں سمجھتے۔

    ReplyDelete
  4. مسئلہ زنانیوں کا ، وخت مردوں کا۔
    اور یہ جرمنوں سے آپ کا ٹاکرا کہاں کب کیسے اور کیوں پیش آیا۔ تفصیل سے بیان کیا جائے۔

    ReplyDelete
  5. کیا آپ نے کم بارکر کی کتاب
    The Taliban Shuffle
    پڑھی ہے ؟
    مصنفہ کو چیف جسٹس کے جلوس میں شکایت کا سامنا رہا ہے۔ بقول اس کے لوگوں نے بینظر کے جنازے پر بھی نہیں بخشا۔ کتاب پڑھتے میں نے کافی پیچ و تاب کھائے کہ مغربی مصنفہ یقیناً مسلم معاشرے کا خلاف اپنا بغض نکال رہی ہیں۔ لیکن پھر اس نے وہیں افغان معاشرے کا تذکرہ اچھے الفاط میں کیا ہے کہ یہ شکایت اسے وہاں پیش نہیں آئی۔
    بہرحال کتاب کے متعلقہ اقتباسات کافی دلچسپ ہیں۔

    ReplyDelete
  6. ڈاکٹر جواد صاحب، آپکے لئے یہ بات حیرانی کا باعث ہوگی کہ میں نے نہ صرف پاکستان میں جنم لیا ہے۔ بلکہ میری زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ اسی ملک میں گذرا ہے۔ جو حصہ باہر گذرا وپہ برائے نام ہے۔ اس لئے آپکی یہ بات خاصِ حقیقت سے دور لگتی ہے کہ مجھے صرف مغربی معاشرے کا مشاہدہ ہے۔
    میں کسی لینڈ لارڈ گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس لئے ایک با شعور شخص کو یہ اندازہ لگانا چاہئیے کہ میرا مشاہدہ پاکستان کے ایک عام شخص کا عام لوگوں کے بارے میں مشاہدہ ہے۔ خوش قسمتی سے مجھے بعض پروجیکٹس کی وجہ سے پاکستان کے شہروں کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملا ہے جو آپکے مشاہدے سے قطعاً مختلف ہے۔
    آپ شاید ایسی خواتین سے نہیں ملے جنکے برقعے مرد حضرات سر عام کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا ایسا وہ انہیں مزید تحفظ دینے کے لئے کرتے ہیں؟
    نہ شاید آپ ایسی خواتین سے ملے ہیں جو جب تک اپنے آبائ علاقوں میں رہتی ہیں حجاب والا برقعہ پہنے رہتی ہیں اور جب ٹرین شہروں کی حد میں داخل ہوتی ہے یہ عورتیں اپنے برقعے لپیٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ کیا برقعہ انہیں اپنے آبائ علاقوں میں تحفظ دیتا ہے اورباہر نہیں دیتا؟
    یہ ساری تصاویر جو میں نے دی ہیں ان میں کوئ ایک خاتون بھی عریاں نہیں تقریباً سب کے سر پہ دوپٹہ ہے۔ پاکستان کی اکثریت یہی عورت ہے اور یہی عورت جنسی سے لے کر معاشی استحصال کا اچھی طرح نشانہ بنتی ہے اس وقت ڈھائ گز کی چادر اسے کیا تحفظ دیتی ہے۔
    روحانی برکات کے لئے آپ شہر کے پارکس دیکھ سکتے ہیں۔
    در حقیقت آپ اس چیز کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ اس ملک کے مسائل کچھ اور ہیں۔
    اصل مسائل کو حل کرنے میں عدم دلچسپی، اپنی نالائقی اور اپنے خوف کی بناء اس مہم کو چلانے والے افراد اسے تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ انہیں نمونیہ کا علاج آتا ہے ٹائ فائیڈ کا نہیں۔ اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ مریض جب نمونیہ کا شکار ہو جاَئے تو وہ علاج تشخیص کریں۔ بھلا بتائیے کہ جب ٹائفائیڈ کے مریض کا نمونیہ کا علاج ہوگا تو کیو وہ ٹھیک ہوگا۔
    میرا ملبہ ڈنڈا بردار لوگوں پہ نہیں انکے حمائیتیوں پہ ہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کی اصل قوت وہ نہیں جو ڈنڈے لے کر گھوم رہے ہیں انہیں قابو کیا جا سکتا ہے ہمارے معاشرے کی اصل قوت وہ ہیں جو ساری سوچ سمجھ رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا ہوا اگر کسی نے بے حیائ روکنے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔
    مغل بادشاہ شاہجہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسکے حرم میں آگ لگ گئ تو خواتین کے لئے پردے اور پالکیوں کا انتظام کرنے میں اتنا وقت خرچ ہوا کہ اسی خواتین جل کر مر گئیں۔ پردے کی روحانی برکات؟ یا اس وقت کے منتظم کی ذہنی قید اور کوتاہ اندیشی۔ یہاں کراچی میں ابھی دو تین سال پہلے ایک مسجدمیں گھٹن کے باعث خواتین کے حصے میں اتنی بھگدڑ مچی کہ نجانے کتنی خواتین کچلی گئیں۔ لیکن ان تک بر وقت طبی امداد نہیں پہنچائ جا سکی کہ محرم رشتے دار موجود نہ تھے۔ کیا اسلام میں اس پردے کی اہمیت بیان کی گئ ہے۔ یہاں میں وقعتاً دو تین سال کی بچیوں کو بڑے اسکارف پہمتے دیکھتی ہوں، بیلایس ڈگری درجہ ء حرارت پہ چھ مہینوں کی بچیوں کو موٹے پاجامے اور پوری آستین کی فراکیں یا قمیضیں پہنائ ہوتی ہیں ۔ کیا یہ پردے کی روحانی برکات ہیں۔ اسکے باوجود ہمارے ملک میں جس حصے سے سب سے زیادہ زنا بالجبر اور اسی قماش کے واقعات سننے میں آتے ہیں یہ وہ حصے ہیں جہاں پردے کا سب سے زیادہ اہتمام ہوتا ہے۔ کیا یہ پردے کی روحانی برکات ہیں یا ایک غیر منژف معاشرے کا زخم؟ یہاں سیلاب سے لاکھوں لوگ متائثر ہیں، جرائم پیشہ افراد خواتین کو ہراساں کرنے کے لئے گٹھ جوڑ کر چکے ہیں یہاں آپ انکے خلاف نبرد آزما ہونے کے بجائے حجاب کی مہم چلا رہے ہیں۔ ذرا اس عورت کو پانی کمیں تین بچے لے کر ٹہل رہی ہے یا وہ عورت جو دیوار پہ مٹی لیپ رہی ہے یءا وہ عورت جو سر پہ دوہٹہ رکھ کر کش لگا رہی آپ بتائیے ناں کہ چہرے کا حجاب کیا کرے اور اسکے روحانی فوائد یہن ہیں تو وہ آپکی روحانیت اسی وقت ایک سو اسی کی ڈگری پہ لے آئے گی۔
    یہی سعودی عرب ہے ناں جہاں آج اس دور میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق ملا ہے وہاں بھی پچھلے ساک تک یہ روحانیت کے خلاف تھا۔ اور ابھی بھی وہاں خواتین کا گاڑی چلانا روحانیت کے خلاف ہے۔ کیا کہتے ہیں آپ اس بیچ۔ تھورَ دن بعد یہ ڈنڈا بردار لوگ روڈ پہ کھڑے ہونگے کہ کوئ عورت گاڑی نہیں چلا سکتی۔ اور مرد کہہ رہے ہونگے تو کیا ہوا اگر انہوں نے ایسا کہا اگر کوئ بے حیائ کے خلاف بولا۔
    دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مسلم فقہ حجاب کے بارے میں ایک رائے نہیں۔ رکھتے، تو ایک ایسے وقت میں جب ہمیں لوگ اتنے مسائل کا شکار ہیں یہ ڈرامہ کس لئے؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. بی بی سی اردو پر ایک خبر پڑھی تھی کہ دو یا تین سال قبل سعودی عرب میں کسی زنانہ تعلیمی ادارے میں آگ لگی تو فائر برگیڈ والوں نے جلتی عمارت کی کھڑکیون سے چھلانگ لگا کر جان بچانے والی لڑکیوں کو اپنی "مسلم" آغوش میں بھر کر کھڑکیوں سے واپس اندر ڈالا کہ جا کر عبایہ وغیرہ پہن کر آؤ۔ یاد نہیں کہ کتنی لڑکیاں جل کر مر گئیں لیکن شکر ہے کہ کسی "سعودی نامحرم" کی نگاہ ان کے جسم پر نہیں پڑی

      Delete
  7. عثمان، میں نہ صرف جرمن، بلکہ کیمرونیئن، سوڈانی، جاپانی، چینی، آسٹریلیئن، ترکش، ایرانی، قازق، ازبک، تاجک،بنگالی، سری لنکن، انڈیئن، نیپالی، آسٹریلین، فرنچ،انگلش، آئرش، اسکاچ، اسپینش اور یاد نہیں آرہا کےنے لوگوں سے مل چکی ہوں
    کیسے ملی لکھنے بیٹھوں تو ایک وار اینڈ پیس تیار ہو جائے گی۔
    عمران اقبال صاحب، آپکو نوید ہو کہ آپ اس میدان میں اکیلے نہیں۔ میں نے تو آپکا جملہ اس لئے ڈالا کہ اگر آپ نے نہیں کہا ہوتا تو آپ اسکو بھی کہہ دیتے کہ یہ جھوٹ ہے اور میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ تصویر جنکے پاس سے اٹھائ ہے وہ بھی اس بارے میں آپکی طرح فکرمند ہیں۔ جنکے پاس ویڈیو دیکھی تھی، وہ بھی پریشان ہیں اور ان تمام تبصروں، تصویروں اور ویڈیوز کو شیئر کرنے اور پسند کرنے والے آپ اکیلے تو نہیں۔ یہ تو ایک ذہنی کیفیت ہے جسکی نمائیندگی آپ اور دیگران کر رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. She works at a medical training environment so it is mixed gender. The men were performing afternoon prayer when a woman colleague walked by. She was wearing loose formal pants, a knee length lab-coat and her hair and face were covered in black except for the eyes. After the prayer, the director of the facility called a female manager to his office and demanded to know who the woman who walked by was. He was outraged because he claimed that her walking by them during prayer caused them all to be sexually aroused!


    http://saudiwoman.wordpress.com/2009/02/15/the-saudi-obsession/

    ReplyDelete
  9. http://www.freeimagehosting.net/0f178

    http://www.freeimagehosting.net/a9b60

    ReplyDelete
  10. آپ سے کس نے کہا ہے کہ کپڑے پہن کے گھومیں، شوق سے کپڑے اتار کہ گھومیں۔

    ReplyDelete
  11. مکی صاحب، بظاہر تو دونوں تصویریں ہنساتی ہوئ لگتی ہیں۔ لیکن انکے پیچھے چھوٹی چھوٹی خواہشات کی کہانیاں نظر آتی ہیں۔ وہ خواہشات جو کسی انسانی معاشرے کو کسی کوئ نْصان نہیں پہنچاتیں، لیکن معاشرے کے کچھ افراد، دوسرے افراد پہ اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے نافذ کرتے ہیں۔
    گمنام، کیا یہ آپ انکی اجازت سے کہہ رہے ہیں جو ڈنڈے لے کر خواتین کے پیچھے گھومتے ہیں۔ حجاب کی اس مہم سے پہلے اور پاکستان میں اسلامی جہاد سے پہلے بھی میرے علم میں کبھی کسی خاتون نے خود سے کپڑے اتار کر شوق سے گھومنے کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ البتہ یہ کہ مرد اپنی غیرت اور طاقت کے مظاہرے کے لئے انہیں برہنہ بازاروں میں گھماتے ہیں اور آپ چاہیں تو ان مردوں سے فرمائیش کر سکتے ہیں کہ ایسے کسی واقعے کے کرنے سے پیشتر آپ کو دعوت دے دی جائے۔
    مزے کی بات یہ بھی لگتی ہے کہ جب کواتین کو برہنہ بازاروں میں پھرایا جاتا ہے تو حجاب کے کسی حامی میں اتنی جراءت نہیں ہوتی کہ اپنا احتجاج بلند کر سکے کیونکہ وہ اسکو بھی درست سمجھتا ہے۔

    ReplyDelete
  12. بس اتنا کہوں گا کہ :

    سکون جہاں تم کہاں ڈھونڈتے ہو
    سکون جہاں ہے نظام مدینہ

    جب یہ نظام آئے گا تو سب مسئلے حل ہونگے .

    ReplyDelete
  13. محترمہ آپ نے بے شک درست تجزیہ پیش کیا ہے لیکن کیا آپ کو نہیں معلوم کے مغربی معاشرے میں پرد اتنے ترسے ہوئے نہیں ہوتے ؟؟ اور کیوں نہیں ہوتے یہ بھی آپ بخوبی جانتی ہیں ۔ اور مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ آپ نے س مضمون سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ؟؟ مردوں کا اتاولا پن یا کچھ اور۔۔ میں آپ کی بات سے کسی حد تک متفق ہوں لیکن کیا بہتر نہیں کہ بجائے خامیوں کی نشاندہی کے کچھ عملی اقدامات کءے جائیں ؟

    ReplyDelete
  14. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  15. زوہیب اکرم صاحب، یہ ایک اور دلچسپ بات ہے کہ حجاب ہی نہیں خواتین کے ساتھ ہر طرح کی بدتمیزی کے واقرات میں جو مرد زیادہ حصہ لیتے ہیں وہ عام طور پہ شادی شدہ ہوتے ہیں۔ ایک غیر شادی شدہ مرد جن چیزوں کو چھپا کر کرنا چاہےا ہے وہ ایک شادی شدہ مرد ببانگ دہل مختلف سماجی رجحانات کو استعمال کرتے ہوئے کرتا ہے۔ اگر یہ صرف ترسے ہوئے ہونا ہوتا تو شاید صرف نوجوان غیر شادی شدہ طبقہ ہی اسکا زکار ہوتا۔ میرا تجزیہ تو یہ کہتا ہے۔
    اسکا حل، مردوں کو دی گئ بے لگام آزادی پہ کسی جانےوالی لگامیں ہیں۔ ایک معاشرہ جہاں عورت کو غیرت کے نام پہ قتل کیا جاتا ہے اسے اتنی ہی کڑی سزا مرد کے لئے بھی رکھنی چاہئیے۔ محض مردوں کو خواتین کے اخلاق کا محاسبہ کرنے کے بجائے انکی تربیت میں یہ بات ڈالنی چاہئیے کہ انکا بھی ایسی باتوں پہ کڑا محاسبہ ہوگا۔ ملکی ہی نہیں معاشرتی رویوں کو جو کہ ایک مرد کے لئے لچکدار جبکہ اسی قصور ایک عورت کے لئے غیر لچکدار ہوتے ہیں انہیں تبدیل کرنا چاہئیے۔
    مذہبی جماعتوں کو محض خواتین کو نشانہ بنانے کے بجائے اورلوگوں کو مذہبی بنیاد پہ اشتعال دلا کر ہمہ وقت بےکار اور مہمل باتوں پہ وقت لگانے کے بجائے کچھ تعمیری کام بھی کرنے چاہئیں۔ ایک ایسا ملک جہاں عورت پہلے ہی ثقافتی نا انصافی کا شکار ہے وہاں اس میں مذہب کا چاٹ مصالحہ ڈال کر مذہبی جماعت اور انکے حامی صرف اپنے منہ کا ذائقہ بہتر کرنے کے اور کیا کرتے ہیں۔
    دوسری طرف خواتین کی تعلیم ہی نہیں انککے معاشی اسرگکام کے لئے بھی کام ہونا چاہئیں۔ ان میں یہ جذبہ پیدا کرنا چاہئیے کہ ایک صحت مند انسان کی طرح انہیں بھی اپنی حالت سدھارنے کے لئے کام کرنا چاہئیے۔ انکا کام صرف بچے پیدا کرنا اور مرد کی خوہاشات پوری کرنا نہیں۔ آخر قیامت کے دن خواتین خدا کے آگے اپنے اعما یہی اعمال نامہ پیش کریں گی کہ ہم نے اتنے بچے پیدا کئے اور اس طرح اپنے مرد کی جنسی رغبت کو پورا کیا۔ اللہ کی کتاب جب انسان سے مخاطب ہوتی ہے تو وہ صرف مرد سے نہیں ہوتی۔ الناس کہتی ہے اور اس طرح اس طرح معاشرتی سرگرمیوں میں خواتین کو حصہ لینا چاہئیے۔
    وہ تمام معاشرے جہاں یہ دونوں عامل حصے دار بنتے ہیں وہی مستحکلم رہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  16. نور محمد بشیر،
    نظام مدینہ آنے میں مشکل کیا ہے،آج خود کو سدھارلو آج نظام مدینہ آجائے گا،
    کیا تم تیار ہو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کو؟
    اپنے دل اورنفس کو شہوت سے پاک رکھنے کو؟
    اپنے ارد گرد موجود لوگوں کا حق ادا کرنے کو؟
    اپنے کاروباری معاملات صحیح طرح سے چلانے کو؟
    علم کو اپنے گھر کی خواتین تک پہنچانے کو اور ان سے خوش خلقی سے پیش آنے کو؟
    ہر معاملے میں حق و انصاف کی پیروی کرنے کو؟
    Abdullah

    ReplyDelete
  17. عنیقہ یہ ہیرو بٹا زیرو عرف عمران اقبال عرف گمنام،
    کا اپنا بلاگ تو اپنے منہ میاں مٹھو کا منظر نامہ پیش کرتا رہتا ہے،کبھی تہجد کے قصے تو کبھی روزے عمرے کے،
    اور ساتھ ہی ساتھ گھٹیا زبان دوسروں کے لیئے استعمال کرتے ہوئے خواتین کا احترام اپنے تعصب میں بلائے طاق رکھتے ہوئے گھٹیا پوسٹ ایک کے بعد ایک اس کے منافقانہ اسلام کی اچھی طرح نمائش کرتی ہے،
    مگرافسوس یہ ہے کہ اس عظیم ہستی کے بذات خود بجائے ہوئے اپنی عظمت کے ڈنکے اس کے اصل کردار سے رتی بھر بھی میل نہیں کھاتے!

    Abdullah

    ReplyDelete
  18. اسکا حل، مردوں کو دی گئ بے لگام آزادی پہ کسی جانےوالی لگامیں ہیں۔ ایک معاشرہ جہاں عورت کو غیرت کے نام پہ قتل کیا جاتا ہے اسے اتنی ہی کڑی سزا مرد کے لئے بھی رکھنی چاہئیے۔ محض مردوں کو خواتین کے اخلاق کا محاسبہ کرنے کے بجائے انکی تربیت میں یہ بات ڈالنی چاہئیے کہ انکا بھی ایسی باتوں پہ کڑا محاسبہ ہوگا۔ ملکی ہی نہیں معاشرتی رویوں کو جو کہ ایک مرد کے لئے لچکدار جبکہ اسی قصور ایک عورت کے لئے غیر لچکدار ہوتے ہیں انہیں تبدیل کرنا چاہئیے


    میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن میرا خیال ہے اس کے بعد کے پیرا میں جو آپ نے مذہبی جماعتوں کا ذکر کیا ہے اس میں اگار کچح مذید وضاحت فرما دیتں تو مناسب ہوتا۔ اور میرا مشاہدہ آُ سے قدرے مختلف ہے ۔۔ لیکن ہمیں یہاں دیکحنا ہڑے گا کیا جن جماعتوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے کیا وہ مذہبی جماعتیں ہیں یا دینی ؟ تسلی بخش جواب کا شکرئہ

    ReplyDelete
  19. زوہیب اکرم صاحب، مذہبی جماعتیں وہ تمام جماعتیں جو چاہے سیاسی ہوں یا غیر سیاسی مذہب کی بنیاد پہ اپنی بنیاد رکھتی ہیں وہ مذہبی جماعتیں ہیں۔

    ReplyDelete
  20. جی لیکن ہیاں مذہب اور دین میں بہت باریک فرق ہے امید ہے آپ نے اس کو مد نظر رہکھا ہو گا

    ReplyDelete
  21. ایک لطیفہ یاد آیا، پیش نظر ہے

    یری دادی محترمہ بہت پرانے زمانے کے خیالات کی مالک تھیں۔ ایک دن جب وہ ہمارے گھر (شہر) میں مقیم تھیں تو ابو مرحوم ٹی پر ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کُشتیاں یعنی ریسلنگ دیکھ رہے تھے جو ان کا پسندیدہ پروگرام تھا۔ دادی بہت برا بھلا کہہ رہی تھیں کہ یہ ادھ ننگے مرد اور عورتیں موجود ہیں۔ غیرت مر گئی ہے کہ ایسے پروگرام دیکھ رہے ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کچھ دیر بعد ایک ریسلر آیا جسے دیکھتے ہی میری دادی صاحبہ ہاتھ اٹھا اٹھا اس کی جیت کی دعا مانگنے لگیں۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ اس ریسلر کی داڑھی تھی اور ہماری دادی کے خیال میں کافر بھی اگر "نبی پاک ص" کی سنت کی پیروی کر رہا ہے تو وہ اچھا ہے :) اور اس دوران میرے والد کو بھی کافی کچھ سننا پڑ گیا کہ وہ کافر ہو کر داڑھی رکھے ہوئے ہے اور تم مسلمان ہو کر بھی بے داڑھی ہو :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ