Tuesday, October 11, 2011

متفق علیہ

تحقیق کی بازی میں کچھ لوگوں نے بالآخر شرکت کر ہی لی اور وہ سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں کہ ڈینگی نے صرف لاہور کو ہی نشانہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ صاف پانی کا ذخیرہ اسلام آباد میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہم نے بھی لوگوں سے یہ سوال شیئر کیا۔ اسکے مختلف طبقہء فکر نے مختلف جواب دئیے۔

امریکہ مخالفین  کا خیال ہے کہ  امریکہ نے ابھی پاکستان کے خلاف خاموش جراثیمی جنگ کا آغاز کیا ہے۔ سپہ سالار اور حاکم وقت اس سے آگاہ ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اس حملے کا تابڑ توڑ جواب کیسے دئیے جائے۔ کھل کر اس لئے نہیں بتاتے کہ کہیں عوام گھٹنے نہ ٹیک دیں۔
میرا خیال ہے کہ سپہ سالار اور حاکم وقت کو پتہ نہیں ہے ہو سکتا ہے آئ ایس آئ اس سے آگاہ ہو۔ لیکن ابھی انکے بولنے کا وقت نہیں آیا۔ جب پیسے ختم ہو جاویں گے تب بولیں گے۔ ویسے اگر ہم اس حملے کا منہ توڑ جواب دیں تو کس مرض کے جراثیم امریکہ بھیجیں گے؟

بائیں جماعت والوں کا کہنا ہے کہ طالبان کا جراثیمی حملہ ہے۔ انہیں ڈینگی وائرس اگانا آگئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں وہ چاہتے ہیں کہ خواتین حیادار کپڑے پہنیں۔ مچھر کو حکم ہے کہ چہرے اور ننگے بازءووں پہ جم کر کاٹے تاکہ لگ پتہ جائے۔
ابھی ایسے وائرس کاشت کے مرحلوں سے گذر رہے ہیں جن کے علاج میں مردوں کو داڑھی رکھنا پڑے گی۔ خواتین کو گھر کی چار دیواری میں بیٹھنا ہوگا۔  مردوں کو چار شادیاں کرنی پڑیں گی۔ موسیقی  ختم کرنا ہوگی اسکول مٹانے ہونگےوغیرہ وغیرہ۔ وہ بھی جان گئے ہیں کہ جو وائرس سے مر رہا ہو اسے خودکش حملہ آور سے کیوں مروائیں. اور وزیر اعلی پنجاب کے اس بیان کے بعد کہ ہم تو طالبان کے نظریاتی ساتھی ہیں ہمارے سوبے میں تو دھماکے نہ کریں۔ انہیں لوگوں بالخصوص خواتین کو راہ راست پہ لانے کا یہ مناسب طریقہ نظر آیا ہے۔
میرا کہنا ہے کہ طالبان ایسی غیر اسلامی کارروائ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اسکی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی ہے۔ انکی یہی خوبی تو مجھے بے حد پسند ہے جو کرتے ہیں اسکی ذ٘مہ داری لیتے ہیں۔

جماعت اسلامی کا نعرہ ہے کہ یہ عذاب الہی ہے۔  اندرون خانہ کی اطلاع ہے کہ لاہور میں اس وجہ سے ہے کہ ریمنڈ ڈیوس وہیں سے رہا ہوا تھا اور شریف برادران کی رضامندی سے ہوا۔ اس لئے لاہور کے حصے میں یہ بلا آئ۔
میرا نعرہ ہے کہ یہ عذاب الہی ہے۔ پہلے ریمنڈ کی شکل میں آیا اب مچھر کی شکل میں۔ اس سے پہلے نمرود کا خاتمہ بھی ایک مچھر نے کیا تھا۔ نمرود غیرت مند  تھا ایک مچھر سے مر گیا۔ سو اس وباء میں مرنے والے غیرتمند ہونگے اور بچ جانے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب الہی کا شکار۔ ان حالات میں زندہ رہنے والے بے غیرت نہیں تو اور کیا ہیں۔
ویسے ان عذابی مچھروں کا نشانہ کچھ صحیح نہیں اب تک شریف برادران بچے ہوئے ہیں۔

پنجاب سے کچھ آوازیں اس طرح آئیں کہ کراچی میں ایک دہشت گرد پارٹی کو بین ہونا چاہئیے۔ انکی دہشت کی وجہ سے کراچی کے ڈینگی مچھر لاہور کی طرف نکل گئے۔
میرآواز ہے کہ یہ دراصل مچھر نہیں ہیں بلکہ کراچی کے تلنگے ہیں۔ کسی زولوجسٹ سے مدد لے کر انکی صحیح شناخت کی جائے تاکہ ہم کراچی سے انکو قابو میں رکھنے کے طریقے بھیج سکیں۔ ویسے وہ چاہیں تو مختلف مافیاز سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ جو انہیں کراچی میں پسند ہوں۔
 
کپڑوں کے تاجر، ڈینگی کی ادویات اور ٹیسٹ کرنے والے، ڈاکٹر، حکیم اور عطائ، مچھر مار اسپرے کرنے والے،  دعا تعویذ کرنے والے، ان سب  کا خیال ہے کہ انکی کوئ نیکی کام آگئ۔ آجکل کاروبار زوروں میں ہے۔ خواتین پوری آستین کے کپڑے پہن رہی ہیں زیادہ کپڑا خرچ ہو رہا ہے۔ ادھر مچھر کو کنٹرول کرنے اور علاج معالجے کے ضمن میں وہ کون سا طریقہ ہے جسے لوگ نہیں آزما رہے ہیں۔ اللہ تیرا شکر ہے، مالک جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔
میں بھی سوچتی ہوں میری کوئ نیکی کام آگئ۔ لاہور میں نہیں کراچی میں موجود ہوں۔ اچھا ہوا لاہور والوں کو اچھے وقتوں میں رشتے سے انکار کر دیا۔ بچت ہو گئ۔ یا اللہ تیرے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے ہم ہی عقل کے کورے سمجھ نہیں پاتے۔

میں ان میں سے ہر ایک سے متفق ہوں۔ جب انسان سب سے اتفاق کر لے تو اسے خود زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ جو کرتے ہیں دوسرے کرتے ہیں۔ یا عذاب کرتے ہیں۔ اس سال میں نے یہ سب سے قیمتی بات سیکھی ہے۔
میں ان میں سے ہر ایک سے متفق ہوں۔ اور آرام کر رہی ہوں۔

Just chill, 
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اسکے بعد آئے جو عذاب آئے



1 comment:

  1. عنیقہ آپ کی ان ہی باتوں کی وجہ سے تمام تر مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر آپکا بلاگ پڑھنا لازم و ملزوم ہوجاتا ہے،

    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ