Sunday, October 16, 2011

جنوبی پنجاب سے ایک کہانی

ادب دنیا کی کسی بھی زبان میں تخلیق ہو اسکی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے یا ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے عہد کی نمائیندگی کرتا ہے اسکے بغیر ادب مردہ ہے، بے جان ہے، بے اثر ہے اور محض تفریح ہے۔
آجکا پاکستان ، بم، بارود،  بے حسی، افلاس اور شدت پسندی کے دھند میں کچھ اس طرح چھپ گیا ہے کہ یہ دھند اب لکھنے والے ہی ہٹا سکتے ہیں۔ وہ لکھنے والے جو خوفزدہ ہیں۔  لکھنے والا اگر خوف زدہ ہو تو وہ کیا نوید دے سکتا ہے، وہ کیا جدو جہد پیدا کر سکتا ہے، وہ کیا انقلاب لا سکتا ہے، وہ کیا سوچ پیدا کر سکتا ہے۔  لیکن ہم اب بھی پر امید ہے، ہر خوف اپنی انتہا پہ بے خوفی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ فضا میں ، پنجاب  میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جو پاکستان کی ساٹھ فی صد آبادی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ وراث شاہ، بلھے شاہ، اقبال، فیض، عدم، ثریا ملتانیکر، اقبال بانو، نورجہاں، ملکہ ء پکھراج، احمد ندیم قاسمی، منشا یاد اور نجانے کتنے ہی تخلیق کاروں کو، فنکاروں کو جنم دینے والی یہ زمین تمام تر نا مساعد حالات اور بڑھتی ہوئ شدت پسندی کے باوجود ابھی بھی بنجر نہیں ہوئ۔ اس زمین میں اب بھی ہیر کی بغاوت موجود ہے اور سوہنی کی استقامت۔
گذشتہ دنوں، میری نظر سے محمد اقبال دیوان کی لکھی ہوئ کہانی 'شہر کو سیلاب لے گیا' گذری۔ کہانی جنوبی پنجاب کی معیشت اور معاشرت دونوں سے تعلق رکھتی ہے۔ کہانی انقلاب کے ان نعروں سے تعلق رکھتی ہے جو کبھی مذہبی شدت پسند لگاتے ہیں، کبھی انکے مخالفین لگاتے ہیں، کبھی سیاستدان لگاتے ہیں۔ سب اپنے مفاد کے وقت ان نعروں میں پناہ لیتے ہیں۔ کیا انقلاب نعروں پہ سوار ہو کر آتا ہے؟ جنوبی پنجاب میں انقلاب کے ان نعروں کا پس منظر کیا ہے؟
کہتے ہیں ہر جھگڑے کی بنیاد زر ، زمین یا زن ہوتی ہے۔ اقبال دیوان کی یہ کہانی موجودہ پاکستان میں ان تینوں عوامل کو کس طرح اکٹھا کرتی ہے اسکے لئے آپکو یہ طویل کہانی پڑھنی پڑے گی ۔ جو کہ آصف فرخی صاحب کے مرتب کردہ ادبی پرچے دنیا زاد میں شائع ہوئ ہے۔ اسکے پبلشر ہیں شہرزاد۔ دنیا زاد کے اس حصے کا نام ہے جل دھارا، حصے کا نمبر ہے انتیس۔
کہانی کے کچھ صفحات آپکی دلچسپی کے لئے اسکین کئے ہیں۔  تو آئیے پڑھتے ہیں۔  اس زمین کے نام جس کے باسیوں کے لئے ایک ہی پیغام ہے۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔











نوٹ؛ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کریں۔

اس بلاگ پہ دنیا زاد میں شائع شدہ مزید تحاریر کے لئے یہ لنکس دیکھ سکتے ہیں۔

نیا پاکستان، آدھا طالبان
زر، زمین، زن
خدا، انسان کا ہتھوڑا
ایک ادیب کے مشورے

12 comments:

  1. Aniqa ji ap k ander taasub ka keeraa kab se parvarish paa rahA hai zra roshni dalein gi is pr

    ReplyDelete
  2. اوجی وار اینڈ پیس میں اتنے کردار نہ ہونگے جتنے اس نامکمل افسانے میں موجود ہیں۔ یعنی توجہ رکھنا مشکل ہے۔
    مزا نئیں آیا۔

    ReplyDelete
  3. گمنام، یہ آپکا اس کہانی کے متعلق تبصرہ ہے۔ اسکے لکھاری نہ صرف پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ بیوروکریسی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
    اگر میرے بارے میں سوال ہے تو ٹھیک اس لممحے سے جب آپکو پتہ چلا۔

    ReplyDelete
  4. انقلاب ایک سست رو عمل ہے جس کا پس منظر کافی طویل ہوتا ہے۔ بس تبدیلی کا ایک مرحلہ ہوتا ہے جو اچانک ہوتا ہے۔ پھر کیا یہ تبدیلی دیر پا ہوگی ؟ یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ علاوہ ازیں ہر زمانے اور علاقے کے انقلاب کی اپنی ایک منفرد کیمسٹری ہوتی ہے۔ آپ کسی دوسرے دور اور مقام کے انقلاب سے ذیادہ سے ذیادہ انسپائریشن لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور مستعار لیا بھی کیا جاسکتا ہے ؟

    ReplyDelete
  5. کیا اس جریدے کی کوئ ویب سائٹ ہے؟

    اگر ممکن ہو تو ایک پوسٹ عصر حاضر کے اردو ادبی جرائد پر بھی کریں۔

    ReplyDelete
  6. ان تحاریر میں
    فحاشی بہت هے
    پیمانه جنرل ضیاع سرمے والی سرکار کے مطابق

    ReplyDelete
  7. یہ کتاب کہاں سے مل سکتی ہے

    ReplyDelete
  8. Punjab say aik aur kahani;

    Aalu Anday | Beygairat Brigade
    http://www.youtube.com/watch?v=ZEpnwCPgH7g

    ReplyDelete
  9. kia ye kahani mukamil post nahin ki ja sakti

    ReplyDelete
  10. مجھے تو بس اس بات کا جواب چاہیئے کہ اس میں وہ تعصب کہاں ہے جس کا اوپرتبصرے میں گمنام نے اپنا تعارف الو کے نام سے کروانے کے بعد بڑے زور و شور سے تزکرہ فرمایا ہے تاکہ میں اسے ڈھونڈ کر اس حوالے سے اس تحریر پر کچھ روشنی ڈال سکوں!

    Abdullah

    ReplyDelete
  11. عثمان، چالیس صفحوں کی کہانی میں سے چند صفحات، مزہ کہاں سے آئے گا۔
    گمنام، ایک پوسٹ عصری ادبی جرائد پہ یہ خاصہ بڑا سبجیکٹ ہے۔ میں تو بہت تیر ماروں تو کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جرائد کو ہی لے سکتی ہوں۔ ادبی جرائد کی ایک بڑی تعداد لاہور اور دیگر شہروں سے بھی نکلتی ہے۔ جن کے متعلق میری معلومات بہت محدود ہیں۔
    خاور صاحب، ہمم یہ تو ہے۔ ادیب آخر اپنی تحاریر میں فحاشی کیوں ڈالتے ہیں؟ جنرل ضیاء کے نکتے سے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ