Monday, October 10, 2011

اف جوئیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکول جانے والوں بچوں کے والدین کے جہاں دیگر مسائل ہوتے ہیں وہاں سب سے خوفناک ، دل دھڑکا دینے والی وجہ  جس سے انہیں اور انکے بچوں دونوں کو سخت شرمندگی ہوتی ہے وہ سر کی جوئیں ہیں۔


ویسے تو جوئیں ساری دنیا میں لوگوں کے ہوتی ہیں لیکن گرم ممالک کی آب و ہوا انہیں خوب راس آتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ گھریلو سطح پہ جتنی چاہے احتیاط کی جائے ایسا ہو ہی جاتا ہے کہ ہم کسی دن دیکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ بری طرح سے اپنا سر کھجا رہا ہے۔ یہ ایک اہم علامت ہے کہ سر میں جوءووں نے جگہ بنا لی ہے۔ اگر اب بھی نظر انداز کریں تو یہ جوئیں گرمی کی وجہ سے کسی دن سر کے اوپر مٹر گشت کرتی نظر آئیں گی۔ اور ہلکی سی ہوا بھی بالوں میں چپکے انکے  سفید انڈوں کی ایسی نمائیش کرے گی کہ لوگ گھبرا کر آپکے بچے کو خود سے دور کر دیں گے۔
یہاں کراچی میں کچھ پرائیویٹ اسکولوں نے یہ پالیسی بنا لی ہے کہ سر میں جوءووں کی موجودگی کے شک کی بناء پہ اسی وقت بچے کو گھر واپس بھیج دیتے ہیں۔ جو نہ صرف بے جا سختی ہے، بلکہ بچے کی سبکی اور دیگر بچوں کی طرف سے اسکی چھیڑ کا باعث بن جاتی ہے۔
یہاں میں فی الوقت ان اسکولوں کے تذکرے میں نہیں جانا چاہتی جو کہ اس قسم کے قوانین کا نفاذ کر کے یہ تائثر دینا چاہتے ہیں کہ انکا اسکول ڈسپلن اور قواعد کے لحاظ سے کس قدر بہترین ہے۔ انسانی قدر و قیمت بھی کوئ چیز ہے۔ لیکن یہ ضرور کہنا چاہونگی کہ کسی اسکول انتظامیہ کو یہ حق نہیں ہونا چاہئیے کہ وہ محض اس وجہ سے بچے کو کلاس سے نکال کر گھر واپس بھیج دیں۔ بچہ بہرحال وہاں تعلیم کے لئے ہے اور اس طرح سے اسکی تدریس کا جو نقصان ہوتا ہے اسکی ذمہ داری اسکول پہ عائد ہوتی ہے اور محکمہ ء تعلیم کو اس سلسلے میں نوٹس لینا چاہئیے کہ وہ کون سی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں جنکی بناء پہ ایک اسکول اپنے کسی صحت مند طالب علم کو کمرہ ءجماعت میں بیٹھنے سے روک دے۔
جوئیں، کسی کی جمالیاتی حس کو ناگوار گذر سکتی ہیں، صفائ پسند طبیعت کو بری لگ سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مچھر،  یا کچھ اور حشرات کی طرح کوئ بیماری نہیں پھیلاتیں۔
اگر اسکول انتظامیہ چاہے تو وہ پہلے سے احتیاطی تدابیر کروا سکتی ہیں مثلاً وہ والدین کو یہ نوٹس بھیج سکتی ہے کہ  ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران بچے کے سر کو کسی جوئیں مار شیمپو سے دھویا جائے اور گیلے بالوں میں باریک کنگھی پھیری جائے۔ اس طرح سے اگر کوئ جوں اتفاقاً چڑھ جائے تو وہ نکل جائے گی۔  پوری جماعت ایکدن اس طرح کے عمل سے گذرے گی تو جوءوں کے پھلنے کے امکانات خاصے کم ہو جائیں گے۔
بچیوں کے لئے یہ لازمی کیا جائے کہ اگر انکے بال بڑے ہیں تو وہ انہیں باندھ کر رکھیں اس طرح بندھے ہوئے بالوں سے جوءوں کی منتقلی مشکل ہو جاتی ہے۔ بچوں کو آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنے سے منع کریں۔
والدین کو بتایا جائے کہ ہفتے کے آخری دن جو کہ پاکستان کے زیادہ تر اسکولوں میں جمعہ کا دن ہوتا ہے بچوں کی صفائ کے سلسلے میں معائنہ ہوگا۔ اس طرح ان پہ دباءو رہے گا کہ وہ اپنے بچوں کی صفائ کا خیال رکھیں۔ یہ نوٹس انہیں تعلیمی سال شروع ہونے کے ساتھ ہی دیا جائے نہ کہ معائنہ ہونے سے ایک دن پہلے۔
بچوں کو وقتاً فوقتاً جسمانی صفائ کے متعلق بتانے کے لئے استاد کو اہتمام کرنا چاہئیے۔

اسکولوں سے ہٹ کر والدین اکثر پریشان نظر آتے ہیں کہ وہ  جوءوں سے نجات پانے کے لئے کیا کریں؟

اس سلسلے میں، میں نے انٹر نیٹ سے مدد لی ۔ مزید یہ کہ اس میں میرے ذاتی تجربات بھی شامل ہیں کیونکہ میں خود ایک بچی کی ماں ہوں۔ اس لئے امید ہے کہ یہ طریقے کارآمد ہونگے۔
شیمپو سے؛
سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ ایک دفعہ جوئیں سر میں داخل ہو جائیں تو ماں کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ جوئیں مارنے والے شیمپو چاہے وہ کتنا ہی دعوی کریں کہ لیکھوں اور جوءوں سے مکمل نجات وہ مکمل صفائ نہیں کرتے۔
جوئیں مارنے والے شیمپو میں عموماً میلاتھائیاون، کیڑے مار دوا ایک مخصوص مقدار میں شامل ہوتی ہے۔ تاکہ وہ سر کے بالوں یا جلد کو زیادہ نقصان نہ پہنچائے۔ یہ دوا لیکھوں یعنی جوءوں کے انڈوں کا خاتمہ نہیں کرتی۔ جوءوں کا خاتمہ بھی صرف چھتیس فی صد تک کرتی ہے۔ بعض جوءوں میں ان دواءوں کے لئے مزاحمت بھی ہوتی ہے اور وہ اس سے نہیں مرتیں۔ اگر مر جائیں تو کچھ عرصہ بعد باقی رہ جانے والے انڈوں سے نئ جوئیں پیدا ہوجاتی ہیں اور ایک دفعہ پھر بچہ سر کھجا رہا ہوگا۔
اسلئے جوئیں مارنے کے لئے کوئ بھی طریقہ استعمال کریں ایک روائیتی طریقہ ہر صورت استعمال کرنا پڑے گا اور وہ ہے باریک کنگھی کا استعمال۔

یہ باریک کنگھی ذرا دیکھ بھال کر لیں عام پلاسٹک کی کنگھیاں جو نرم دانتوں کی ہوتی ہیں اور دانتوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا ہے آپکا مسئلہ حل نہیں کریں گی۔ دانتوں کے درمیان کم سے کم فاصلہ ہونا چاہئیے اور پلاسٹک کو سخت ہونا چاہئیے۔ پلاسٹک کے علاوہ، یہ کنگھیاں لکڑی اور دھات کی بھی مل جاتی ہیں۔ مسلسل استعمال سے دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے انہیں پھینک کر دوسری لے لیں۔ یہاں کراچی میں انڈیئن باریک کنگھیاں مل جاتی ہیں یہ پاکستانی کنگھی سے مہنگی ہوتی ہیں مگر کام میں بہت بہتر ہوتی ہے۔ 
اگرچہ میں پاکستانی مصنوعات کو ترجیح دیتی ہوں لیکن اس نکتے پہ انڈیئن کنگھی ہی لینا پسند کرتی ہوں۔ اس کنگھی کے سلسلے میں ایک بات اور بتادوں کے جب بھی دور دراز کے سفر کو نکلیں اپنے سامان میں یہ کنگھی رکھنا مت بھولیں۔
اب طریقہ ء استعمال دیکھ لیں۔ بچے کو نہلانے سے پہلے بالوں میں ہلکا سا تیل لگا کر کنگھا کر کے بال اچھی طرح سلجھا لیں۔ اب شیمپو کو  بالوں میں لگا لیں۔ بالوں کو سر کے آگے نہ لٹکائیں۔ بلکہ جس طرح آپ نے کنگھا کیا تھا اسی سمت رہنے دیں۔ دی ہوئ ہدایات کے مطابق اتنی دیر رہنے دیں۔ اب اسی طرح بالوں کو پریشان کئے بغیرپیچھے کی سمت رکھے ہوئے بالوں کو نرمی سے پانی سے دھو ڈالیں۔ اب دوبارہ بالوں میں پہلے موٹا کنگھا یا برش پھیر کر انہیں سلجھا لیں۔ اگر آپ نے ان ہدایات پہ عل کیا تو بال بہت زیادہ الجھے ہوئے نہیں ہونگے۔
جب بال خوب اچھی طرح سلجھ جائیں اور کنگھے کو ان میں چلنے میں ذرا دشواری نہ ہو تو سر کےحصے کر لیجئیے اور ہر سمت سےباریک کنگھی کوسر کی جلد سے لے کر بالوں کے آخری سرے تک  پھیرتے چلے جائیں۔ ہر دفعہ کنگھی پھیرنے کے بعد اسے اچھی طرح اپنے سنک پہ جھٹک لیں تاکہ اگر دانتوں کے درمیان کوئ جوں پھنس گئ ہو تو وہ نکل جائے۔ یہ عمل تین سے چار بار کریں، کانوں کے اوپری حصے کی طرف خاص طور پہ کہ جوئیں زیادہ تر یہاں پہ یا گدی کے پاس جمع ہو جاتی ہیں۔
شیمپو دو تین دن کے وقفے سے استعمال کریں لیکن کنگھی آپ ہر روز نہلانے کے دوران پھیر سکتی ہیں۔ بچہ لازمی طور پہ چیخے چلائیں گا۔ لیکن اپنا دل کڑا رکھیں۔ بعد میں ہیئر ڈرائیر کی گرم ہوا سے بال خشک کر لیجئیے۔ یہ گرم ہوا امید ہے بچ جانے والی جوءوں کا کاتمہ کر دے گی مگر اسے اتنا زیادہ استعمال نہ کریں کے بالوں کو مردہ ہی کر دے۔ ایک خاص فاصلے پہ رکھ کر استعمال کیجئیے۔
قدرتی طریقہ؛
جو لوگ بالوں کے معاملے میں حساس ہیں وہ پوچھتے ہیں شیمپو کے علاوہ کوئ قدرتی طریقہ نہیں۔ بالکل ہے۔  ہمارے ملک میں کچھ لوگ تارا میرا کا تیل استعمال کرتے ہیں۔ باہر کے ممالک میں ٹی ٹری آئل یا اس میں زیتون کا تیل ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے ان طریقوں کی افادیت کے متعلق نہیں پتہ۔
لیکن تیل کے علاوہ بھی طریقے ہیں۔
عام شیمپو سے بال شیمپو کرنے کے بعد بالوں میں تھوڑا سا منہ صاف کرنے والا لسٹرین جروں سے سارے بالوں میں لگا لیں چند منٹ لگا رہنے دیں بالوں کو ہلکے سے پانی سے دھوئیں اور باریک کنگھی پھیر لیں۔ لسٹرین سے جوئیں نیم بے ہوش ہو جاتی ہیں۔
ایک اور طریقہ ہے میونیز بالوں میں اچھی طرح لگا کر چھوڑ دیں۔ جی وہی میونیز جو کھانوں میں استعمال کرتے ہیں۔اس سے بھی جوئیں گھٹن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن  میونیز کو صاف کرنے کے لئے بالوں کو اچھی طرح شیمپو کرنا پڑے گا۔  گیلے بالوں میں باریک کنگھی پھیرنا مت بھولیں۔
اگر بال روکھے ہیں تو شیمپو کرنے کے بعد بالوں کے سرے پہ کنڈیشنر لگا لیں ۔ یاد رکھیں کنڈیشنر کو کبھی بھی بالوں کی جڑوں میں نہ لگائیں۔ نہ وہ شیمپو استعمال کریں جن میں کنڈیشنر بھی ہوتا ہے۔ کنڈیشنر آپکے بالوں کی جڑوں کو کمزور کرتا ہے۔
ایک دفعہ یہ یقین ہونے کے بعد کہ اب بالوں میں جوئیں نہیں رہیں۔ آرام سے نہ بیٹھ جائیں دس دن کے بعد دوبارہ اس عمل کو دوہرائیں اور کنگھی کو چیک کریں اگر اس میں کوئ جُوں آتی ہے تو اسے پھر دوہرائیں تاکہ اسکے دئے ہوئے انڈوں سے جو نئ جوئیں بنی ہیں وہ نکل جائیں۔ ایک جوں روزانہ دس انڈے دے سکتی ہے۔  انڈے سے جوئیں نکلنے میں تقریباً ایک ہفتہ اور ان جوءوں کو انڈے دینے کے قابل بننے میں دس دن لگتے ہیں۔ 
بچے کے سر میں جوئیں ہونے کا مطلب یہ کہ گھر کے ہر فرد کو جوئیں ہو سکتی ہیں۔ احتیاظاً گھر کے سب افراد اس عمل کو کریں۔ تاکہ ایک دفعہ سارا گھر صاف ہو جائے ورنہ پھر کسی شخص کی جوئیں نا پسندیدہ پھیلاءو کا باعث بن جائیں گی۔  اسکے لئے آپکو گھر والوں کو مطلع کرنا پڑے گا کہ گھر پہ کس طرح کا حملہ ہو چکا ہے۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بری اطلاع دینا آسان کام نہیں۔ لیکن  زندگی میں مسائل کم رکھنے کے لئے اس سے مفر ممکن نہیں۔ اب آپکے سر میں کھجلی شروع ہو چکی ہے تو سب سے پہلے ایک باریک کنگھی خریدئیے، وہی دشمنوں کی بنی ہوئ۔
 :)
 Malathion
Antilice shampoo

4 comments:

  1. قرائین بتا رہے ہیں کہ سپر گرل کے سر میں جوئیں پڑ چکی ہیں۔ تمام بچے سپر گرل سے ٹکر لینے سے پرہیز کریں۔
    :)
    اور یہ کیا؟ .. دنیا جہاں کے طریقے بتا دیے۔ اصلی ، آفاقی اور کار آمد ترین طریقہ کا ذکر تک نہیں کیا ؟
    اجی وہی ... بچے کی ٹنڈ کرائیں اور خلاصی کرائیں!

    ReplyDelete
  2. عثمان، جب سے اسکول جانا شروع کیا ہے سپر گرل ہر چند مہینے بعد اس رونے دھونے سے گذرنا پڑتا ہے۔ آپ نے اچھا کیا یہ طریقہ ڈال دیا۔ میں ڈالتے ڈالتے بھول گئ۔ میرا جملہ کس طرح تھا کہ آسان پسند ، کاہل والدین بچوں کو گنجا کراکے جان چھڑاتے ہیں۔ شریف بچوں کے والدین اسے استعمال کریں، باغی بچوں کے والدین اس سے پرہیز کریں۔

    ReplyDelete
  3. آخر میں آپ تڑکا لگانا نہیں بھولیں اب تو ہر جگہ چائنا کا مال نظر اتا ہے اس لئے شاید دشمنوں کی بنی ہوئی مل ہی نہ سکے

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ شاید حالات حاضرہ کی خبر نہیں رکھتیں۔ انڈیا اب پاکستان کے لئے ایک پسندیدہ ملک ہے۔ اسکے علاوہ آپ شاید پاکستان میں نہیں رہتیں۔ ہر چیز چائینا کی مقبول نہیں۔ مثلاً کندن کے زیورات چینی بنانے میں کوئ دلچسپی نہیں رکھتے اسی طرح انکے پاس بالی وڈ جیسی کوئ چیز نہیں۔ یہی حال جوءوں والی کنگھی کا ہے۔ آپ لوگ اپنے عملی مشاہدے کے بغیر ایسے تبصرے کیوں کرتے ہیں۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ