Wednesday, October 7, 2009

ایک ثقافت، ایک جواب

میرے ایک سینئیر بلاگر نے اپنے بلاگ پر میری ایک تحریر کے حوالے سے اپنے تائثرات تحریر کئے۔ میں نے اپنا تبصرہ وہاں ڈالا تو سوچا کہ آپ سب کو بھی اس میں شامل کر لوں۔
میرا تبصرہ؛
اب چونکہ آپ نے میرا نام لیکر یہ سب لکھ ڈالا ہے تو لازمی ہے کہ میں کچھ تحریر کروں۔ شاید آپکے علم میں نہ ہو کہ میں ذات کے حساب سے پٹھان ہوں۔ میرے والد صاحب کو شیر شاہ سوری سے بڑی عقیدت تھی اسکی ایک وجہ انکا پٹھان ہونا بھی تھا۔ وہ جب تک زندہ رہے انہیں اس بات پہ فخر رہا اور ہماری تربیت کے دوران بھی انہوں نے اس چیز کو ہمارے اندر داخل کرنے کی کوشش کی کہ ہم کتنی اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم میں سے بیشتر اس سحر سے باہر نکل آئے۔ البتہ اس جینز کے جنگجویانہ عناصر کبھی کبھی سر اٹھا لیتے ہیں۔ اتنی تفصیل میں جا کر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے دس سال کی عمر میں پہلی اور آخری دفعہ انڈیا کا رخ کیا۔ کیونکہ میرے والد صاھب کی خواہش تھی کہ ہمیں اپنے اجداد اور اپنے ماضی کے بارے میں ضرور پتہ ہونا چاہئیے۔ انکے علاقے کا نام پٹھان کبئ ہے۔ کیونکہ خدا جانے کئ نسلوں سے یہ علاقہ پٹھانوں سے آباد رہا ہے۔ یہ سارا قصہ اس لفظ ڈیرے کی وجہ سے اٹھانا پرا۔ تو میرے ابو کے گائووں میں انکے رہائشی گھر سے ہٹ کر ایک اور تھوڑا چھوٹا گھر تھا اسے وہاں ڈیرہ کہتے تھے۔ اس گھر میں وہ لوگ ٹہرا کرتے تھے جن سے کوئ رشتہ داری نہ ہوتی تھی۔ وہاں روزانہ رات کو گھر کے مردوں میں سے کوئ ضرور رکتا تھا۔ میرے دادا وہیں قیام کرتے تھے اسکی وجہ میری دادی سے کوئ جھگڑا نہ تھا۔ کیونکہ دن میں قیام اور کھانا وہ عام طور پر گھر پر کھاتے تھے۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ علاقہ یا گھر عملی طور پر میری دادی کی سلطنت تھا۔ تمام رشتے دار مرد اور عورت وہیں رکتے تھے اور رات گئے خوب گپ لگا کرتی تھی۔ جس میں سب دور پرے کے رشتے دار مرد خواتین موجود ہوتے تھے۔
وہ لوگ جو شہر میں اپنی ملازمتوں کی وجہ سے رہتے تھے جن میں میرے تایا اور چچا بھی شامل ہیں انکے یہاں ڈیرہ نہیں تھا۔ معاشی حالات بہتر ہونے کی وجہ سے گھر بڑے تھے اور ان میں ڈرائنگ و ڈائننگ روم ہونے کے ساتھ ایک مہمان خانہ بھی تھا۔ اس مہمان خانے میں ہم بھی ایک مہینہ تک قیام پذیر رہے۔ اکثر گائووں سے آنیوالے رشتےدار بھی وہیں قیام پذیر ہوتے تھے۔ یہ مہمان خانہ گھر کا ہی حصہ تھا اور اس میں بیرونی طرف اور گھر کے اندرونی طرف کھلنے والے دروازے موجود تھے۔ چونکہ میرے تایا وہاں کے میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے اس لئے لوگوں کی ایک معقول تعداد ان سے ملنے آتی تھی۔ خاص طور پر تہواروں کے موقع پر خاصے لوگ ہوا کرتے تھے۔ وہ سب لوگ جنہیں گھر میں رات نہ گذارنی ہو انکے لئے ڈراءنگ روم تھا جہاں وہ کچھ وقت بیٹھکر گپ شپ یا ملنا جلنا کرلیں۔
یہاں میں یہ واضح کردوں کہ ایک ایسے پس منظر سے تعلق رکھنے کے باوجود جہاں ڈیرہ موجود تھا۔ میں انہیں انتہا پسند اور شدت پسند نہیں کہہ سکتی۔ کیوں؟ کیا میں ایسے لوگوں کو انتہا پسند کہہ سکتی ہوں جن کی لڑکیاں آج سے چالیس سال پہلے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھا کرتی تھیں اور جنہیں آج سے چالیس سال پہلے بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی پسند کی شادی کر سکتی ہوں۔ جن کے گائووں میں تعلیمی استطاعت ستر فیصد سے زیادہ ہو۔ جہاں تعلیمی ادروں کو بم سے نہ اڑایا جا رہا ہو، جہاں لوگوں کو اپنی پسند کے اسلام پہ عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ذبح نہ کیا جارہا ہو، جہاں پولیو کے قطرے غیر اسلامی نہ قرار پاتے ہوں، جہاں آپکو یہ آزادی حاصل ہو کہ آپ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں، جہاں عورتوں کو بھی انسان ہی سمجھا جاتا ہو، کیا مجھے ان لوگوں کو انتہا پسند، شدت پسند اور دہشت گرد کہنا چاہئیے۔ وہاں پر بھی ڈیرہ ہے اور جینیاتی طور پر وہ انہی لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جن سے یہ انتہا پسند جنکے یہاں ڈیرے ہوتے ہیں۔ مگر معاشرتی سطح پر انکے درمیان کتنا فرق ہے اسکی ایک مثال میں خود ہوں۔
قدامت پسندی یا روایت پسندی بہت محدود حد تک ہی بہتر کہی جا سکتی ہے۔ جب ساری کائنات آگے کی طرف بڑھ رہی ہے تو آپ قدامت پسندی کے کمزور بند سے اسے نہیں باندھ سکتے۔ اب بہتر طرز عمل یہ ہے کہ آنیوالی تبدیلیوں کی جگہ بناتے ہوئے نئ نسل کو اپنے ساتھ لیکر چلیں۔ یا پھر ایسے وقت کے لئے افسوس کرتے رہیں جو اب پلٹ کر نہیں آئیگا۔ چونکہ میں خود بھی اور دیگر افراد بھی عمر کے سفر میں آگے کی طرف رواں ہیں تو ایک حقیقت ہم سب کو قبول کرنی ہے اور وہ یہ کہ تبدیلی آ کر رہیگی ایسا نہیں ہو سکتا کہ باہر کی دنیا میں لوگ چاند پر جا کر تازہ بستیاں آباد کر رہے ہوں یا اپنےآپ کو ایڈز کے ٹیکے لگا رہے ہوں اور ہم حدود پاکستان کے اندر بیٹھے اس فتوی کا انتظار کر رہے ہوں کہ کیا چاند پر جا کر رہنا جائز ہے اور کیا اس سفر میں خواتین بھی ساتھ جا سکتی ہیں یا یہ کہ کیا ایڈز کے ٹیکے لگوانا جائز ہے جبکہ اس مرض کے پھیلنے میں کچھ غیر اسلامی عوامل بھی موجود ہوتے ہیں۔ فیصلہ اس بات کا کرنا ہے کہ اس تبدیلی کو آپ بردباری سے اپنی مرضی شامل کرتے ہوئے آنے دیں گے یا یہ کسی زلزلے کی طرح ہر اقدار اور روایت کو ختم کر کے آئیگی۔ اگر یہ دوسرے راستے سے آئ تو ظاہر ہے کہ اس میں معاشرے کو بہت شدید المیوں سے دوچار ہونا پڑیگا۔ اور اگر آپ اس میں اپنی مرضی اور مشوروں کو شامل رکھیں گے تو یہ ہر ایک کو اپنے اندر سمو لے گی۔

حوالہ؛
افتخار اجمل صاحب کا بلاگ


میری پوسٹ جس کے لئے انہوں نے اپنے قلم کو زحمت دی یہ ہے۔


گھر کی جڑیں

10 comments:

  1. ہوں، مجھے بھی سوچ میں ڈالدیا۔ پولیو ویکسین کو پولیو کے ٹیکے کہتے ہیں تو ایڈز ویکسین کو ایڈز کے ٹیکے نہیں کہیں گے۔ بھئ کوئ اور بھی اس پہ اظہار خیال کرے۔

    ReplyDelete
  2. سلام علیکم
    آپ کی دونوں تحاریر بہت اچھی ہیں۔
    ترقی پسندی اسلام کا جزء لاینفک ہے۔ اور اسلام میں ہر چیز کی طرح اس کے لیے بھی حدود معین کی گئی ہیں۔ ہر دور میں اگر دیکھا جائے تو مسلمان ترقی کے حامی رہیں ہیں۔ جب یورپ میں چرچ ہر علمی تحریک کو کفر قلمداد کرکے بند کرادیتا تھا، یہاں مسلمان علما، علمی تحقیقات میں مصروف تھے اور ان کی حمایت ہوتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں ھی منفی قدامت پسند تھے لیکن کم تھے۔ کچھ عرصے سے نہ جانے کیوں ان منفی قدامت پرستوں کی تعداد غالب آگئی ہے۔ یہ کیوں ہو رہا ہے، اس کی ایک وجہ سیاست دانوں کی جیبیں ہیں، اور دوسری وجوہات رہنے دیں۔ مختصر یہ کہ اسلام ایک ترقی پسند دین ہے، بس اس کو صحیح طور پہ پیش کرنا چاہیے۔ یعنی بعض قومی اور ذاتی چیزیں جن کو اسلام کا رنگ لگا دیا ہے، الگ کردینا ہوگا۔ واضح کردوں کہ میرا مطلب قطعا یہ نہیں کہ قدامت پسندی غلط ہے، نہیں۔ ہر چیز اپنی حد میں، کچھ قدیم اصول ایسے ہیں جو انسانی معاشرے میں ضروری ہیں، لیکن بعض ایسی رسومات ہیں جن سے اب گذر جانا چاہیے۔
    شاید یہ تبصرہ بے ربط ہے، مراسلے کے موضوع سے۔
    لیکن یہ سب اس لیے لکھ دیا کہ بتا دوں ، مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کا تعلق اس فکر اور طبقے سے ہے۔ اور میں ان سب کا مشکور ہوں جو غلط اسلام کی جگہ اپنی اولاد اور نسل کو صحیح اسلام پر گامزن کرتے ہیں۔

    ایک بات یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ان باتوں میں قطعا کوئی اشارہ کسی خاص شخص کی طرف نہیں، ایک کلی بات عرض کی ہے۔

    شکریہ

    ReplyDelete
  3. ابھی بھی پاکستان کے بہت بڑے علاقے میں ڈیرہ او رڈیرے داری عین مین واقع ہے۔ اور پاکستان کے جن علاقوں میں اسے "ڈیرہ" نہیں کہا جاتا اسے وہاں کی مقامی زبانوں میں دوسرے لفظ استعمال کئیے جاتے یں۔ پنجاب میں "دارا" اور " ڈیرہ" کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ بعض علاقوں میں ڈیرے اور دارے کے بغیر علاقے کا تصور ممکن نہیں۔

    میری ذاتی رائے میں، زندگی کی دوڑ میں تگ و دو کرنے کے لئیے ڈیرے داری اور جنیاتی خلیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔ نہ ہی اس میں پٹھان پنجابی کی تمیز ہے۔ بلکہ یہ ہر مخصوص طبقے کے معروضی حالات ہوتے ہیں جو اسمیں بتدریج یا دہماکے کی صورت میں تبدیلی کرتے ہیں۔یہ انکے حالات پہ منحصر ہوتا ہے کہ انھیں کس وقت کونسی تبدیلی سود مند نظر آتی ہے۔جن کے حالات اور کچھ اتفاقات(قسمت)بھی ساتھ دیتے ہیں ۔ وہ مثبت تبدیلی میں کامیاب رہتے ہیں۔ وگرنہ کچھ لوگ ناکامیوں کے ہاتھوں زندگی کی بھیڑ میں گُم ہوجاتے ہیں ۔ کہ نہ ڈیرے رہتے ہیں اور نہ ڈیرے داریاں۔

    بہرحال تبدیلی ایک متواتر اور عمل ہے۔ جس کی تیزی کبھی کبھار اسقدر تیز ہوتی ہے کہ ہماری بصارت اور فہم اسکا ادراک فورا کر لیتا ہے۔ کبھی اسقدر غیر محسوس طریقے سے ہوتی ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ مگر ایک بات طے ہے کہ جب سے دنیا ہے، اسمیں ہر لحظہ ہر آن تبدیلی کا عمل متواترجاری و ساری ہے ۔ تبدیلی کا عمل نہ صرف جاری ہے بلکہ یہ نسل انسانی جن میں ہم بھی شامل ہیں ان پہ اثرانداز ہوتی ہے۔

    بی بی! آپ نے یہاں انتہاء پسندی کا ذکر کیا ہے اور غالبا طالبان کی بات بھی کی ہے۔ ذیل میں ۔ چند باتیں کہنا چاہ رہا ہوں ۔اسے ذاتی مت لی جئیے گا بلکہ یہ ہم سب کے لئیے ہیں اور انھیں پاکستان کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے۔
    انتہا پسندی صرف وہ نہیں ہوتی جسے ہم انتہاء پسندی کہہ کر اپنا دل خوش کرتے ہیں یا ہر وہ کوئی جسے ہم اپنے مخصوص پس منظر یا گروہی مفادات کےٹکراؤ کی وجہ سے سمجھ نہیں پاتے یا پھر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے نقطعہ نظر اور دوسروں کے نقطعہ نظر میں وسیع خلیج ہونےکی وجہ سے اور پدوسروں کا نقطعہ نظر جان لینے کے بعد انھیں انکے حقوق لوٹاتے ہوئے چونکہ ہمیں اپنے مفادات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ تو ہم عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو انتہاء پسند قرار دے کر ان سے جان چھڑوا لی جائے ۔اور اگر فریق مخالف میں اپنا حق مانگنے کی یا آواز اٹھانے کی سکت نہ ہو تو اسے درخود اعتناء نہ سمجھا جائے۔

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے ۔ جس خطے میں عوام پہ مسلط اور انکا خون چوسنے والے حکمرانوں اور بورژوائی طبقے کا تعلق جس قبیل سے ہوا ، عوام نے انکے خلاف جد وجہد کرنے کے لئیے انتہائی ضد اور مخالف افکار اور وسائل کو اپنایا ۔اگر حکمران مطلق العنان شہنشاہ تھے اور اسی مطلق العنانی شہنشاہیت کی انتہاء پسندی کی وجہ سے عوام کو پیسنا ، اور روندنا اپنا حق سمجھا تو اس ملک کے عوام نے شہنشاہیت کی ضد جمہوریت کے افکار اور فلسفےکی انتہاء کو انقلاب ِ فرانس کے لئیے اپنی جد و جہد کا مرکز بنایا۔ اگر ریاست مذھبی انتہا کی وجہ سے پورے ملک کو زار کی ملکیت سمجھتی تھی اور مذھبی انتہاء پسندی سے جب دل کرتا مظلوم کسانوں اور کھیت مزدوروں سے انکے جینے کا حق چھین لیا جاتا ۔ تو عوام نے دوسرے انتہاء پہ جاکر مذھب کی ضد لحد اور اشتراکیت کے فلسفے کو انقلاب روس کے لئیے اپنی جدہ جہد کا مرکز بنیایا۔ پچھلی صدی میں وسطی اور جنوبی امریکہ کی تحریکوں میں مختلف انتہائے" میس موو" کرتی رہی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں یہ انتہائیں نسلی تھیں یعنی رنگ سے مشروط تھیں۔ رونڈا اور برونڈی کی قتل و غارت کیووہ یہ انتہائیں ہی بنیں۔ وجہ ایک اقلیتی قبیلے کی حکومتی انتہائ پسندی اور اکژیتی قبیلے کا بغیر کسی حقوق کے محکوم و محروم ہونا تھا۔ پاکستان میں فوجی حکومتوں کے آنے پہ عوام کا خوشیاں منانا اور مٹھیائیاں بانٹنے کے پیچھے بھی عوام کا احساسِ محرومی ( جو فوجی حکومتوں میں اور بڑھ جاتا رہا ہے)اور تبدیلی کی کرن کا نظر آنا ہوتا رہا ہے۔

    ReplyDelete
  4. (نوٹ۔، یہ رائے پچھلی رائے سے ملا کر پڑھی جائے)
    بحث کو مختصر کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوںگا کہ پاکستان میں حکمران اور بورژوائی طبقے کا اپنے آپ کو لبرل ، آزادی پسند، دانشور ، اعلٰی تعلیم یافتہ ، تہذیب یافتہ ،روشن خیال، اشرافیہ اور پتہ نہیں کیا کیا کہلوا کر اور اسےانتہائی بنیاد بنا کر پاکستان کے وسیع تر وسائل پہ قبضہ کئیے ہوئے ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے ستر فیصد وسائل پہ دس فیصد آبادی کا قبضہ ہے۔ اور یہ طبقہ یا اس طبقے کی اکژیت پاکستان کی وسیع تر آبادی کے مسلمان ہونے کے باوجود اپنے اس قبضے (اسٹیٹس) کو مذید مظبوط کرنے کے لئیے مظلوم اور پسے ہوئے عوام کے وسائل کو مزید اپنے تصرف میں لانے کے لئیے ہر قسم کے ھتکنڈے متواتر استعمال کرتی ہے جن سے اسلام نے منع کیا ہے۔ اور سر عام ناجائز طور قبضے میں لیے گئے وسائل کی وجہ سے اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے عام عوام کو مسلمان تو کُجا انسان سمجھنا بھی گوارہ نہیں کرتی۔ اپنے طور طریقوں اور مشاغل سے سر عام لطف اندوز ہوتی ہے۔ جس میں شراب و شباب کی محفلوں سے لیکر اپنے پالتو کتے ،بلیوں اور گدھے گھوڑوں کے لیے سونے کے کُشتے اور سیبوں کے مربعے ، امریکہ و یوروپ کی مہنگی ترین یونیورسٹیز اور انسٹیٹوٹز کی تعلیم ۔ چھینک کا علاج بھی لندن امریکہ کے ہاسپیٹلز سے ۔ جبکہ عوام ے چارے ہر کام چھوڑ کر مصنوعی مہنگائی کا ہاتھوں صبح و شام اپنے اور اپنے بچوں کے لئیے روٹی بُو، روٹی بُو کرتے مارے مارے پھرتے ہیں اور جان جیسی متاعِ عزیز اور عصمت جیسا گوہر لٹانی پہ مجبور ہیں۔ ایسے میں جب عام مسلمان دیکھتے ہیں کہ حکومت اور پاکستان کے وسائل پہ قابض بورژوائی طبقہ پاکستان کے ہونے کو ، پاکستان کے وجود کو تو اسلام سے جوڑتا ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے لئیے قائم کیا گیا ۔ مگر یہ طبقہ پاکستان پہ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئیے اور اس گرفت کے ذرئیعے پاکستان کی اکثریتی آبادی جو ،مسلمان ہے کو اپنی رعایا بنائے رکھنے کے لئیے ہر وہ ھتکنڈہ استعمال کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی غیر اسلامی اور انتہاء پسندی پہ مبنی ہی کیوں نہ ہو۔

    تو ایسے میں کچھ مفاد پرستوں کا طالبان کے نام پہ بھارت اور عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہوئے اسلام کے نام کو استعمال کرنا، معصوم ذہنوں کو ورغلانا ، محروم اور مایوس طبقے کو اسلام کی جنتی راہداری کی ضمانت دے کر فوج اور ریاست سے بھڑوا دینا ۔ معصوم اور نو عمر ذہنوں کو خود کش جیکٹیں پہنوا کر لوگوں کے چھیتھڑے اڑاا دینے کے لئیے تیار کرنا ۔ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے ۔؟ تعجب تو اس بات پہ ہوتا ہے کہ یہ بوروژائی اور جعلی اشرافیہ کے کانوں پہ ابھی تک جوں نہیں رینگی بلکہ شرم ان کو نہیں اتی کے مصداق یہ ان لاکھوں ناجائز ھتکنڈوں میں سے ایک ھتکنڈہ جسے ناجائز منافع خوری کہتے ہیں بر سرعام عوام کا خون چُوس رہے ہیں ۔ ستم ظریفی اور پاکستان کی جگ ھنسائی یہ ہے کہ ایک ایٹمی طاقت پاکستان کی سپریم کورٹ پاکستان میں موجود طرح طرح کی انتظامیہ کی مکمل ناکامی یا خودغرضی کے بعد چینی یا دالوں کا ریٹ مقرر کرے گی ؟ جبکہ عدلیہ کے فیصلوں کو ہمارے وزیر شزیر ٹھٹھے میں اڑا رہے ہیں اور انکا انداز عجیب تمساخر لئیے ہوتا ہے ۔ کیونکہ ایسے فیصلوں پہ وہ عملدرآمد کروانے کے اہل ہیں مگر انکی نیت میں فتور ہے کہ انکے اپنے مفادات جب اسیے فیصلوں کے زد میں آتے ہیں تو وہ عم دآمد کروانے سے معذرت کر دیتے ہیں ۔آج اگر طالبان تو ایک وقتی شورش ہے اس پہ قابو بھی پالیا جائے گا ۔ مگرخدشہ ہے اس بڑھتی ہوئی مایوسی اورمحرومی سے پیدا ہونے والے رد عمل سے جو طوفان اٹھے گا وہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ایسے طوفانوں کو بسا اوقات مذاھب بھی نہیں روک سکتے کہ بھوک اور کفر میں بہت پتلی سی حد ہوتی ہے۔

    ReplyDelete
  5. (نوٹ۔، یہ رائے پچھلی رائے سے ملا کر پڑھی جائے
    ی بی!
    یہ وہ کم ظرفی اور منافقت ہے جو ہماری سوسائٹی میں ہر قدم ہر جگہ پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں لوگوں کا طالبان یا کسی بھی ایسی تحریکوں کی طرف دیکھنا سمجھ میں آتا ہے جن سے انھیں کوئی نظر آتی ہے۔ ۔ اس انتہاء پسندی میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے ۔؟ کیونکہ جن کے پاس کچھ نہ ہو انھیں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ تعجب تو اس انتہاء ہوتا ہے کہ جو پاکستان کی رزیل ترین اور کم ظرف اشرافیہ نے پاکستان کی پسی ہوئی عوام پہ روا رکھا ہوا ہے۔جس میں عام آدمی کا سانس لینا بھی دوبھر کہ جس دن یہ آتش فشاں پھٹا تو کسی اور کا کچھ بچے یا نہ بچے اس رزیل اشرافیہ کے چیھتڑے ار جائیں گے۔ ۔ بی بی! آپ اس طبقے کی انتہاء پسندی پہ بھی لکھیں جو پوری ایک قوم کو خودکش بمبار بنا رہی ہے۔ ورنہ تاریخ کا ایک درس یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، کبھی انقلابِ فرانس کی طرح اور کبھی روس میں اور کبھی ایران میں۔

    نوٹ۔،ازراہِ کرم میرے الفاظ کو سیاسی معانی نہ اپنائیں جائیں اسے قسم کی سیاسی وابستگی سے مبرا سوچ سے پڑھا جائے۔ نہ ہی طالبان کو درست سمجھا جائے ۔ نیزنہ ہی اسے کسی پہ بھی ذاتی یا طبقاتی تنقید سمجھاجائے۔

    ReplyDelete
  6. میرا تو جی کہنا ہے کہ ثقافت ایک بہت اضافی اصطلاح ہے اس کے بجائے مزاج کہہ لیا جائے تو بات زیادہ نکھر جاتی ہے اور شہری اور دیہی زندگی کا مزاج دنیا کے ہر ملک میں جدا جدا ہے چاہے وہ ایک ہی ثقافت کو اپنی ثقاوت سمجتے ہوں‌اور یہی بات میں‌نے اجمل صاحب کے بلاگ میں‌بھی لکھی۔ آپ کی وہ پوسٹ جو تمام قضیے کا باعث بنی میری نظر میں تو معمولی تمثیل کے ساتھ اصراف اور نمودو نمائش کے خلاف تھی اور بات گھوم پھر کر طالبان تک کیسے پہنچی یہ ایک عجیب داستان ہے اور میں فی الحال حیران ہوں۔ کم از کم پاکستان میں کسی کے رہن سہن اور "بیٹھک" کی وجہ سے کسی کو شدت پسند نہیں‌ کہا جاتا؛ دہشت گرد چاہے الیکٹرانک کاؤچ بھی استعمال کرتا ہو تو اپنے رویے اور عمل کے باعث دہشت گرد ہی رہے گا۔

    باقی جی یہ جینز وینز کے مسئلے تو سائنس نے حل کردیے ہیں کلی طور پر اور اب تو یقین کی حد تک کہا جاتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی افریقی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور جین کی سطح پر تقریبا ایک جیسے ہیں‌۔ ملاحظہ کریں پراجیکٹ جینوگرافکس

    ReplyDelete
  7. راشد کامران صاحب، مجھے لفظ ڈیرے اور پھر اس سے نکلنے والے اگلے نتائج نے حیران کیا ۔ اپنی تمامتر ناپسندیدگی کے باوجود مجھے اس چیز کا حوالہ دینا پڑا کہ میں قومیت کے اس طعنے اور ثقافت کے اس علم سے اتنا نا واقف نہیں۔ پیدائش ایک اختیاری عمل نہیں ورنہ تمام لوگ ملکہ ء الزبتھ کے پاس پیدا ہونا پسند کرتے۔ اور قبائل یا نسل صرف شناخت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اب جبکہ میں نان پٹھان سے شادی کر چکی تو اب میرے بچے نان پٹھان ہو گئے اب میرے کسی بھی فخر کا باعث میرے بچے ہی ہو سکتے ہیں اور وہ مروجہ روایات کے تحت پٹھان نہیں۔ گو کہ ترقی پسند ہونے کے ناطے مجھے اس چیز سے بھی بے حد اختلاف رہتا ہے۔ میں تو سچتی ہوں کہ خدا نے اگر مجھے بیٹا دیا ہوتا اور اسکی شادی تک مجھے حیات دی ہوتی تو میں اس سے کہتی کہ اپنے بچوں کے نام کے ساتھ صرف اپنا اور اپنی بیوی کا نام لگانا۔ باقی سب بیکار ہے۔
    ابھی کچھ عرصے پہلے ہی میں یہ رپورٹ پڑھ رہی تھی کہ تمام انسان افریقی النسل ہیں۔ اس سے کافی عرصے پہلے یہ بھی خیال ظاہر کیا جا چکا تھا کہ گورے یا بلونڈ ہونا ایبنارمل انسان کی وجہ سے ظہور میں آیا۔ چونکہ وہ لوگ دیکھنے میں اچھے لگتے تھے۔ اس لئیے خاص طور پر یورپ میں ایک زمانے میں ان سے شادی کو ترجیح دی جانے لگی اس طرح آہستہ آہستہ گوروں کی قوم تیار ہو گئ۔ اب بھی یہ مسئلہ متنازعہ ہے کہ حضرت عیسی گورے تھے یا کالے۔
    فاضل صاحب، امید ہے کہ ہم اور اپ ایک روایت پسند معاشرے کے باہر بھی جھانکنے کے قابل ہو سکیں گے تاکہ ہماری آنیوالی نسلیں اپنے بنیادی انسانی مسائل سے ہٹ کر بھی کچھ سوچنے کے قابل ہو سکیں۔ آپکا شکریہ۔
    جاوید صاحب آپ نے خاصہ وقت صرف کیا۔ میں سوچتی ہوں کہ اب دنیا میں آنیوالے انقلابات کی تاریخ کو تفصیل سے پڑھنا چاہئیے۔ کیونکہ اس وقت بھی تمام تر مصائب سے گذرنے کے بعد بھی میں اس قوم کو انقلاب کی راہ پہ جاتا نہیں محسوس کرتی۔ اس میں شاید میری لا علمی بھی شامل ہو۔لیکن ایک قوم انقلاب کی طرف کیسے جا سکتی ہے جب انکے مسائل اور انکے حل مشترکہ نہ ہوں۔ بٹے ہوئے لوگ جو حالات پیدا کرتے ہیں وہیں حالات ہمارے اردگرد ہیں۔جہاں تک طبقہ ء اشرافیہ کا تعلق ہے انکی دنیا یہ نہیں ہے۔وہ صرف وسائل کے لئے اس طرف آتے ہیں۔ یہ بٹوارا اتنا زیادہ ہے کہ میں جب اتوار کے دن کا اخبار اٹھاتی ہوں تو اردو اخبار کسی اور دنیا کا نقشہ پیش کر رہے ہوتے ہیں اور انگریزی اخبار کسی اور سماج کا۔میرا خیال ہے کہ ہمیں اب نوحہ پڑھنے کے بجائے کوئ حل سوچنا چاہئیے کوئ ایسا حل جو اپنی اپنی سطح پر رہ کر ہم سب کر سکیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ جیسے ہی کسی تحریر میں سے مجھے نوحے کی بو اتی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اسے نہ پڑھوں۔ کیا ہم سب جو مختلف جگہوں پہ رہتے ہیں اپنے طور پر کچھ ایسا نہیں سوچ سکتے جو ہمارے اندر تحریک پیدا کردے اور امید کی کرن روشن کر دے۔ کیا ہم سب اپنے اپنے محدود علم کو ملا کر ایک بڑا دریا نہِں بنا سکتے۔ ہمیں کچھ مثبت اور بہتر سوچنا پڑیگا۔

    ReplyDelete
  8. آپ کی باتیں بہت حد تک درست ھیں ۔ میں آپ اور دیگر لوگ بلکہ ہمارے معاشرے کی خدا ترس اکثریت توفیق و طاقت سے بڑھ کرکوشش کرتی ہے۔ مگر یہ کام حکومتوں کے کرنے والے ہیں ورنہ ریاست کے اندر ریاست مزید نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہماری حکومتیں تو ہر عوامی مسئلے پہ اپنی مجبوریاں بیان کر کے ہاتھ جھاڑ لیتی ہییں۔ حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی ساتویں اور مسلمان دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت میں خدانخواستہ اگر غیر معمولی حالات پیش آجائیں تو ہماری مجبور حکومت کے پاس اپنی اتنی ایمبلونس ہی نہیں کہ وہ زخمیوں وغیرہ کو ہسپتالوں تک پہنچا سکیں۔ گھسی پٹی وینز اور ٹوٹی پھوٹی بسیں اور دیگر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوجائے تو اپنی شہیریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا کوئی متبادل نظام ہماری حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔

    قدیم یونان میں ریاست کا تصور کا فلسفہ آج بھی دنیا میں ویسا ہی ہے کہ ریاست اپنے باشندوں کے لئیے وہ کچھ کرے گی جو خود نہیں کر سکتے۔ اور اسکے لئیے حکومت بنائی جائے۔ جس کے بدلے عوام اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس وغیرہ دیں گے۔ مگر ہمارے ہاں تو ریاست میں حکومت کے نام پہ ایسی مافیا وجود میں آگئی ہے۔ جو عزتِ نفس سے لیکر منہ کے نوالوں تک وصولی تو پوری سے بھی ذیادہ کرتے ہیں مگر بدلے میں نہ تعلیم صحت امن وامان، حتٰی کہ ہر قسم کی بنایدی سہولتیں جن کا بل تو ماہانہ آتا ہے مگر سہولیات کھیں کھو چکی ہیں۔

    قابل اجمیری صاحب کا ایک شعر
    وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
    بڑھتی ہوئی زبوں حالی اور مایوسی کی انتہاء عموما آتش فشاں کے پھٹنے سی ہوتی ہے، جسے انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  9. بی بی ۔ طوفان اُٹھنے سے قبل کوئی انسان نہیں جانتا کہ طوفان اُٹھنے والا ہے ورنہ وسائل والے لوگ طوفان کو روک لیں ۔ دڎا کریں اللہ ہماری قوم پر رحم کرے ۔ ہم لوگوں کو عقل و فہم عطا کرے اور ایسے طوفان سے بچا لے جو جب آتا ہے تو سب کچھ ملیامیٹ ہو جاتا ہے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ