Saturday, October 10, 2009

جوتوں کے بھوت

لجئیے جناب ایک کے بعد ایک تواتر سے اتنی ساری چیزیں سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔ ابھی تو بلیک

واٹر اپنی جگہیں سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ کیری لوگر بل سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔۔ خیال کیا جا

رہا تھا کہ اس میں کچھ امریکن نواز عناصر نے سیکیورٹی فورسز کو لگامیں ڈالنے کے لئیے ایسی شقیں ڈالدی ہیں جن سے پاکستانی افواج کو اپنی حدیں پتہ رہیں۔ہم نے سوچا کہ چلیں اب قوم اس مسئلے میں کافی دن لگی رہے گی۔ اور دیکھیں یہ معاملہ کیسے نبٹتا ہے کہ امریکہ میں ایکدفعہ جو بل پاس ہو گیا وہ اسی طرح نافذالعمل ہوتا ہے۔ یہ شقیں ڈالنے کے ضمن میں رحمان ملک کا نام لینے کی بھی کچھ لوگوں نے جرءات کر ڈالی۔ اب ہمیں خیال آیا کہ ایک کے بعد ایک صدر صاحب کے عزیز رفقاء کی باری آرہی ہے۔ شاید اس طرح انکو ایک کونے میں نمائشی طور پر رکھنے میں کامیابی ہو۔
لیکن ابھی ہم اس بل کے مطالعے میں مصروف ہی تھے کہ پتہ چلا کہ ہماری یونیورسٹی کہ محمد حسین نامی طالب علم نے ایک امریکی اسکالر کو جو پاکستان اور دہشتگردی سے متعلق کسی تعلق پر لیکچر دے رہے تھے انہیں ایک جوتا دے مارا۔ نہیں معلوم کہ یہ محمد حسین کا اپنا جوتا تھا یا کسی کا فراہم کردہ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس لیکچر کی یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے منظوری نہ تھی۔ پھر بھی کچھ سر پھروں نے انکی بابرکت شخصیت سے یونیورسٹی کو متعارف کرانے کی ٹھان لی۔ اگرچہ ڈپارٹمنٹ کا دیگر اسٹاف اس سے الگ رہا لیکن پھر بھی یہ تقریب منعقد ہوئ۔
جوتا مارنے والے طالبعلم کے بقول انہوں نے پاکستانیوں کو شدت پسند کہا تو انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ غصہ اسوقت عروج پر پہنچ گیا جب اس میں ایران کا نام آیا۔ پاکستانیوں کو ہمیشہ اپنے برادر ممالک کی عزت اور وقار پہ حرف اٹھانے پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ محمد حسین سے یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ برادر خورد اتنے سالوں میں پاکستان میں رہتے ہوئے کسی اور پاکستانی کو جوتا مارنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس بات پہ ایک اور ناراض صاحب کا کہنا ہے کہ  یہ بات کسی امریکی کو کہنے کا حق حاصل نہیں۔وہ بھی ہمارے یہاں آکر۔ اور اس سینہ زوری پہ وہ اسی قابل ہیں کہ انہیں جوتا مارا جائے۔ حالانکہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ سینے اور جوتے کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ امید ہے امریکی بہت جلد یہ تعلق معلوم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ابھی ہم اس پہیلی کی سلجھن دور کر رہے تھے کہ آخر یہ کون لوگ تھے جو اسکالر موصوف کو گھسیٹ کر جامعہ کراچی تک لے گئے اور زبردستی انکا لیکچر رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر وہ کون لوگ تھے جو محمد حسین جیسے قابل طالب علم کو اس سیمینار میں شرکت کر کے وقت ضائع کرنے پر اکسا سکے۔ کہ پشاور میں دھماکے کی اطلاع آگئ جس میں چالیس کے قریب لوگ مارے گئے۔ اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ یہ چالیس لوگ بس ایسے ہی عام سے لوگ تھے اور انکی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ آٹے کی لائنوں یا کسی اور خود کش حملہ آور کے دھماکے میں مرنے سے بچ گئے تھے۔
  آج پتہ چلا کہ جناب، اسلام آباد میں جی ایچ کیو پر مسلح حملہ ہو گیا۔ حملے کی تفصیلات تو نہیں معلوم لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ اس حملے میں دہشت گردوں سمیت مسلح افواج کے لوگ بھی مارے گئےجبکہ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ وہ دو افراد کو اغوا کر کے بھی لے گئے ہیں۔ یہ وہ خبر ہے جسکا کافی دنوں سے لوگ انتظار کر رہے تھے۔ حالات جس نہج پہ جا رہے ہیں اس سے اس قسم کے واقعات کا پیش آنا قرین از قیاس تو نہیں۔
اندازہ لگانے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستانی فوج وزیرستان میں کارروائ نہیں کرنا چاہ رہی اس لئیے یہ سب کچھ فوج کو دباءو میں لانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ کیا یہ واقعی صحیح ہے اور کیا واقعی پاکستان کے خلاف کچھ برا ہونے جا رہا ہے۔ اور کیا ہم یہ جنگ جوتوں سے جیت لیں گے۔ میں نے یہ سوچ کر اپنے پرانے جوتے روک لئے ہیں کہ کیا جانے کب انکی ضرورت پڑ جائے۔ اتنے امریکی جو دھڑا دھڑ ہمارے یہاں گھسے چلے آرہے ہیں انکے لئیے ایک جوتا تو کافی نہ ہوگا یا ہوگا۔


19 comments:

  1. اب بات جوتوں سے آگے بڑھ گءی ہے ۔ یہ سب اوگر بل سے توجہ ہٹانے اور امریکہ سے جلد از جلد امداد وصول کرنے کے لیے ہو رھا ہے ۔ کامرا اصغر کامی

    ReplyDelete
  2. سب کو اپنے اپنے جوتے سنبھال لینے چاہیں، کیا پتہ کب ضرورت پڑ جائے، ویسے میں محمد حسین کے موقف کی حمایت کرتا ہوں

    ReplyDelete
  3. اصل اصل اور نقل نقل ہی ہوتی ہے بش کو جوتا مارنے والا زيدی اصل ہے باقی ايسی نقل جيسا ہالی ووڈ کی نقالی بالی ووڈ کرے ابھی تک بات جوتوں پر رکی ہوئی ہے اب کوئی نيا پروڈکٹ متعارف کروانا چائيے

    ReplyDelete
  4. بی بی جی ۔ باقی باتیں چھوڑیئے ۔ اللہ آپ کا بھلا کرے ۔ آپ کے تبصرہ کے خانے میں کیڑے مکوڑے لکھے جاتے تھے اور کسی اور جگہ لکھ کر نقل بھی نہیں ہوتا تھا ۔ آج بے خیالی میں کیا تو ہو گیا ۔ اب املا کی غلطیاں نہیں ہوں گی ۔

    بی بی جی ۔ ایک اور مہربانی کيجئے کہ یہ انٹ شنٹ لوگوں کی پھیلائی ہوئی انٹ شنٹ خبریں نہ چھاپہ کيجئے ۔ کوئی بندہ اغواء نہیں ہوا جی ایچ کیو کے حملہ میں
    جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے باقاعدہ تربیت یافتہ کمانڈو ہی ہو سکتے ہیں قبائلی اس طرح کی لڑائی نہیں لڑتے

    ReplyDelete
  5. بی بی سی کے مطابق
    ---------------------------------------------
    پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو پر ہفتے کو ہونےوالے حملے کے بعد دو دہشتگردوں نے سکیورٹی کی ایک عمارت میں کئی اہلکاروں کو یرغمال بنا رکھا ہے جن کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ قبل ازیں حملے میں ایک بریگیڈیئر اور کرنل سمیت گیارہ افراد ہلاک ہو گئِے تھے۔
    ---------------------------------------------
    فوج کے ارکان کا فوج کے ھیڈ کوارٹر میں یرغمال بنا لیا جانا، انتہائی تربیت یافتہ اور فوج سے بھی اعلی درجے کی تربیت رکھنے والے افراد کا کام ہی ہو سکتا ہے۔ خیر جس کسی نے بھی فوج سے پنگا لیا، چاہے حکومت نے، چاہے بلیک واٹر نے، چاہے طالبان نے اس کو یہ پنگا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے، ایک اور خیال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس نے پنگا لیا ہے یا تو اسے موت کا کوئی خوف نہیں اور اسکا مقصد صرف میڈیا کا دھیان بٹانا ہے، یا پھر اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ اسے فوج کا بھی کوئی خوف نہیں۔

    ReplyDelete
  6. افتخار صاحب، بالکل عام لوگ بھی جب ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھیں کب جی ایچ کیو پہ حملہ ہوتا ہے تو کیا ہماری خفیہ ایجنسیز کو اسکا اندازہ نہ ہوگا۔ اچھااغوا ہونے کی آپ نے کہی، پہلی دفعہ یہ خبر رائٹر کے حوالے سے آئ جسے انہوں نے دہرایا نہیں۔ لیکن اب جو اسوقت یعنی رات کو دس بجے مین جیو دیکھ رہی ہوں تو پتہ چلا کہ دس سے پندرہ لوگوں کو یرغمالی بنا لیا گیا ہے۔ یہ خبر ڈان سے بھی آرہی ہے۔ مزید ایہ کہ ایک بریگیڈیئر، ایک لیفٹیننٹ جنرل اور چار جوان شہید ہوئے۔
    میں کسی بھی سطح پہ انٹ شنٹ خبریں دینے سے پر ہیز کرتی ہوں۔ جبتک کہ میرے پاس ان ذرائع سے حاصل شدہ خبر نہ ہو، جنہیں قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے۔
    نہ وہ قبائلی نظام رہا ہے نہ وہ قبائلی۔ آپکو دل کڑا کر کے ایک دفعہ یہ کڑوی گولی حلق کے نیچے اتار لینی چاہئیے۔ زمانہ دراز سے یعنی کچھ لوگوں کے بقول قبائیلیوں میں کرپشن کے بیج انگریزوں نے بوئے تھے۔ وہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ بھٹک جانیوالے، لالچ میں مبتلا ہو جانے والے، کسی اور کے ایجنٹ بن جانیوالے۔ انسان تو بس ایسے ہی ہوتے ہے ناں۔ کمانڈوز بھی تربیت کے بعد ہی کمانڈوز بنتے ہیں اور اگر اس تربیت سے کوئ اور گذرے تو وہ بھی ان جیسی صلاحیت حاصل کر لیگا۔ کمانڈوز کو نبوت تو نہیں حاصل ہوتی کہ وہ خدا جسے چاہے اسے ملے گی۔

    ReplyDelete
  7. یاسر، اگر میں سوچوں تو خیال آتا ہے کہ یہ صرف میڈیا کا دھیان بٹانے کے لئے نہیں ہو سکتا۔ شاید اسکے دور رس نتائج ہونگے اور مقاصد بھی۔ آپکی فوج کے بریگیڈیئر کا اپنے ہیڈ کوارٹر میں مارا جانا، بمعہ ایک لیفٹیننٹ کرنل اور دوسرے جوانوں کے ساتھ، یہ کوئ معمولی خبر نہیں۔

    افتخار صاحب کے تبصرے میں بھی اسے لیفٹیننٹ کرنل پڑھا جائے۔ بے دھیانی میں جنرل لکھ دیا ہے۔

    ReplyDelete
  8. بی بی!

    ہم شروع سے ہی جوتم پیزار لوگ ہیں۔ لگتا ہے اپنے زیدی صاھب نے بھی بش کو جوتا مارنے کے لئیے پاکستان سے سیکھا ہے۔

    البتہ جامعہ کراچی کے طالب علم کی جُوتم باری کی حمایت صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے۔ اگر واقعی وہ معروف اسکالر جو بش کے مشیر بھی رہے ہیں۔ نے واقعی پاکستانی قوم کے لئیے تحضیک آمیز رویہ اور الفاظ استعمال کئیے ہوں، ایسی صورت میں یہ پتہ کروانا بھی ضروری ہے۔ کہ آخر وہ کونسے لوگ ہیں جو ایسے اسکالر کو پکڑ لائے اور انتضامیہ سے بالا بالا ایک عدد لیکچر بھی موصوف اسکالر کا رکھ دیا۔ اور وہ کونسی سی ایسی مجبوری تھی جس نے موصوف اسکالر کو جامعہ کی اجازت کے بغیر موجودہ حالات میں سر پھرے لوگوں کے سامنے ایک عدد لیکچر پھڑکانے میں پھرتی دکھائی۔ ہم جب بھی امریکہ جاتے ہیں ۔ بڑے دروازے سے جاتے ہیں اور امریکہ کے دروازے پہ ہی امریکہ کی سلامتی کی خاطر امریکیوں کی بے ہودگی سوالات کی شکل میں گھنٹوں کے حساب سے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں ۔ جن میں ہمارے عوام اور خاص دونوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے ۔ بلکہ کچھ وزراء وغیرہ کے تو زیر جامے تک چھانے پھٹکے جاتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں امریکیوں کی یہ عادت ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ وہ پاکستان کو اپنی مرغوب چراہ گاہ سمجھتے ہوئے جب چاہے جہاں چاہیں گھُسے چلے جائیں ۔ اور اسکے لئیے یہ عموما پچھلے دروازے استمال کرتے ہیں۔ رہ گئی ہماری حکومت وہ تو بے چاری ہماری کب تھی کہ اس کا کوئی گلہ کریں۔ وہ تو اپنے آپ کو امریکہ کے مقرر کردہ سمجھتے ہوئے مقرر کرنے والوں کے مفادات دیکھیں گے۔ ان سے پنگا تو نہیں نہ لیں گے۔؟ تو دیانتداری سے آپ ہی بتائیں ایسے میں دل جلوں کے لئیے کچھ تو بندوبست ہونا چاہئیے ۔ خواہ وہ جوُتا باری ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے ضوتوں کے ہاروں سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔

    میری رائے میں ایک ایک جوتا انھین بھی عنائیت کیا جاتا خواہ گلے کا ہار بنا کر ہی کیوں نہ ، جنہوں نے اس زہریلے لیکچر کا اہتمام کیا تاتھا۔

    کیری، لُوگر بل بہت سمجھنے کی "شئے" ہے یہ صرف لفظوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ امریکی مہاجن اور مہاجن کے دیسی گرگوں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ غالب نے کہاتھا
    قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
    رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
    قرض کی مے لیکر پیتے تھے تو ایک دن یہ دن تو دیکھنا تھا۔ جب ہر قسم کے کسبِ کمال سے عاری لوگ کسی قوم کے بے تاج بادشاہ بن جائیں تو پھر ایسی قوم کی خود مختاری کو نچوڑ لینے کے لئیے کسی کیری یا لُوگر کے بنائے بل ی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ خود ہی اپنے کسبوں سے سب کچھ ہار دیتی ہے۔ یہ بل آج نہیں بنا ۔ اسکا مضمون ہم پچھلے ساٹھ سالوں سے لکھتے آئے ہیں۔

    جی ایچ کیو کا واقعہ بہت سنگین ہے۔ یہ خالص طالبانی طرز نہیں۔ اسمیں پاکستان کے شمال میں افغانستان میں بھارتی اینجنسیوں کے پاکستان کے خلاف خریب کاری کی تربیتی کیمپوں اور پاکستان کے خلاف ٹرائیکا کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئیے۔

    لاتوں کے بھوت ، جوتوں سے نہیں مانتے

    ReplyDelete
  9. اسماء، یہ آپ نے خوب کہی کہ نیا پروڈکٹ آنا چاہئیے۔ اسکے لئیے تخلیقی ذہن بھی تو ہونا چاہئیے۔ جسکا ہمارے یہاں فقدان پایا جاتا ہے۔ ہم تو باہر سے ہی آئیڈیاز لے سکتے ہیں اور بس۔
    اگر اس حملے کے بہانے یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ اپنے نیوکلیئر اثاثوں کو سنبھالنے کے اہل نہیں تو آپ کیا کریں گے، جاوید صاحب۔ تو کیا اسی لئیے زرداری صاحب لائے گئے ہیں۔ مشرف شاید اپنے بریگیڈیئر کو نہ مرواتے اپنے ہیڈ کوارٹر میں۔ خیر اس وقت انہیں یاد دلانے کا کیا فائدہ۔ اب مارے جانیوالے دہشت گردوں کی شناخت سے اندازہ لگائیں گے کہ وہ کون ہو سکتے ہیں۔ طالبان تو ایک ذریعہ ہیں جنہیں وہی لوگ استعمال کر رہے ہیں جو پاکستان کا استحکام نہیں چاہتے۔ میں یہ سوچنے سے معذور ہوں کہ طالبان کسی ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں پیدا کیا گیا ہے اور جن مقاصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ اسے بدرجہ ءاتم پورا کر رہے ہیں۔ کسی ایک سطح پر بھی ایک ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ وہ کسی بہتر مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے لڑ رہے ہوں۔ بیت اللہ محسود کے مرنے پہ بائیس ارب پاکستانی کیش روپوں کا اسکے پا موجود ہونا کس کھاتے میں آتا ہے۔ کونسی ملیں فیکٹریاں انکی چل رہی تھیں یا زرعی زمینوں پہ کاشتکاری ہو رہی تھی۔ کیوں انہیں کچھ قوتیں اتنا پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتی ہیں۔ میں تو یہ جانتی ہوں کہ جب کسی انسان کو چھوٹی موٹی بازاری حرکتیں کرنے کا چسکہ پڑ جائے تو شاید ہی جاتا ہے۔ جنہیں جوتا چلانے کی عادت ہو جائے وہ کسی بھی کام کو بہتر طور پر کرنے یا اس میں سے اپنے مفادات کی چھان پھٹک کر نکالنے کے شوق میں نہیں رہتے۔
    ہمارے لوگوں کوجس چیز میں مزہ آتا ہے وہ سطحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹار پلس کے ڈرامے ہمارے یہاں ہٹ جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. واہ جی واہ ۔ آپ سمجھنے کی بجائے مجھے سمجھانا شروع کر دیتی ہیں ۔ زیادہ تر ذرائع ابلاغ مرچ مصالحہ لگاتے ہیں ۔
    واہ جی واہ ۔ آپ سمجھنے کی بجائے مجھے سمجھانا شروع کر دیتی ہیں ۔ زیادہ تر ذرائع ابلاغ مرچ مصالحہ لگاتے ہیں ۔
    پھر وہی بات یہ جنرل کہاں سے آ گیا ۔ دو دنوں میں نو دہشتگرد ہلاک ہوئے ۔ ایک بریگیڈیئر ۔ ایک لیفٹننٹ کرنل ۔ چھ دیگر فوجی اور تین دوسرے اہلکار شہید ہوئے ۔ دہشتگردوں کا سرغنہ پکڑا گیا ۔ اُنتالیس يرغمالی بچا لئے گئے ۔
    کوئی دہشت گرد قبائلی نہیں تھا ۔ اچھی بچی بن جایئے اور اپنے خاندان کا پیچھا چھوڑ دیجئے ۔ وہ اتنے بُرے لوگ نہ تھے اور نہ ہیں ۔ اچھے بُرے لوگ ہر نسل میں ہوتے ہیں

    ReplyDelete
  11. :)
    افتخار اجمل صاحب، جنرل والی غلطی کو میں اوپر کسی تبصرے میں صحیح کر چکی ہوں۔ برائے مہربانی اسے دیکھ لیجئیے گا۔ بالکل بے دھیانی میں لکھ دیا تھا۔
    میں نے تو اپنی پوری تحریر میں کہیں بھی کسی قبائلی کا حوالہ نہیں دیا۔ آپکی قبائیلیوں والی بات پہ کچھ کہا تھا، اسلئیے کہ میں کیا کروں میرا انکا کوئ جذباتی تعلق جو نہیں ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  12. اجمل صاحب، اب تک کسی ذریعے سے بھی انکے غیر پاکستانی ہونے کا کوئ اعلان نہیں کی گیا۔ امکان غالب یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہیں۔ اب ذرا اندازہ لگائیے کہ پاکستانی ہونے کی صورت میں وہ کون ہو سکتے ہیں۔ اور اگر ہم اس قسم کے جملوں سے پرہیز کریں کہ ایسا کرنیوالے مسلمان نہیں ہو سکتے یا ایسا کرنے والے پاکستانی نہیں ہو سکتے تو بہتر نہ ہوگا۔ بھلا بتائیں کہ اگر وہ غیر ملکی نہیں اور پاکستانی بھی نہیں تو پھر وہ کون سی مخلوق ہیں۔

    ReplyDelete
  13. ۔۔۔۔ مشرف شاید اپنے بریگیڈیئر کو نہ مرواتے اپنے ہیڈ کوارٹر میں۔۔۔۔
    بی بی! یہ سب مشرف کا ہی کیا دھرا ہے اور بیج بویا ہوا جس کی پہلی فصک ہم کاٹ رہے ہیں۔ اگر جنرل موصوف جب چیف آف آرمی بھی تھا۔ اور صدر مملکت بھی اور چیف آف اسٹیٹ بھی تو اسے امریکہ کو پاکستان حوالے کرتے ہوئے کچھ شرائط پیشگی منوانی چاہئیں تھیں۔ جن بھارت سے معاملہ اور افغانستان میں پاکستان مخالف شمالی اتحاد کی حکومت بننے میں پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے تمام خدشات پہ ضمانتیں مانگنی چاہئیں تھیں۔
    مگر جنرل بزدل نکلا۔ اسنے جھوٹ اور مکر سے اپنے مفاد کوسب سے پہلے پاکستان کا مفاد کا نام دیا ۔ اپنی سلامتی کو پاکستان کی سلامتی پہ ترجیج دی۔ کیا تھا زیادہ سے زیادہ امریکن جنرل کو صدام حسین کی طرح پھانسی پہ لٹکا دیتے ۔ مگر تاریخ میں اپنا نام روشن کر جاتا ۔ کیا اب جنرل تا قیامت زندہ رہے گا۔؟ جنرل بزدلی نہ دکھاتا اوراپنے کچھ مطالبات منواتا تو بھی پاکستان کو کچھ نہیں ہونے والا تھا۔ پاکستان تر نوالہ کبھی بھی نہیں رہا اگر خود جرنیلین چاھین تو۔ اگر امریکہ عراق کے بوری نشینوں اور افغانستان کے کوہستانیوں سے باوجود ایڑیاں رگڑنے کے جان نہیں چھڑوا پا رہا تو اس نے پاکستان کا کیا بگاڑ لینا تھاـ؟ جان کے خوف میں مبتلا ، سیاسی بصریت سے عاری اور پاکستان کے اقدتدار اعلٰی پہ شب خون مار کر قبضہ کرنے کے کے نتیجے میں ڈرا سہما جرنیل مذید ڈر گیا۔ ورنہ امریکن مہاجن کی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی ساب شرائط ماننتے ہی امریکہ کو بنتی۔ مگر یوں ہو نہ سکا اگر اس وقت امریکن اسلام آباد کی چابیاں مانگ لیتے تو ڈرپوک جرنیل وہ بگی طشتری میں رکھ کر پیش کر دیتا۔
    ایک بات کی وضاحت کر دوں یہ پاکستانی طالبان تحریک امریکہ ، بھارت اسرائیل کے شیاطانی دماغوں کی کارستانی ہے جیسے کسی زمانے میں فقیر ایپی کا فتنئی اٹھا تھا ۔ بہت ممکن ہے شروع میں اس تحریک کے مقاصد مختلف ہونگے مگر امریکہ نے اسے کب کا ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ اسکا ایک مقصد عام پاکستانی عوام کو افغانستان کے اندر اپنی آزادی کے لئیے جنگ لڑتے مزاحمتی گروپوں سے بدظن بھی کرنا ہے۔ یہاں سے بھارت کے اس سے مفادات بھی شامل ہوجاتے ہیں کہ وہ کشمیر میں مزاحمت کا بدلہ لینے کی ایک گھٹیا کوشش اور پاکستان آرمی کو مصروف رکھنے کا آسان اور آپس میں سر پھٹول کرنے کا آسان نسخہ ہے۔ اب یہ تحریک لالہ لبھو رام کی گودی میں کھیل رہی ہے۔ اور اسرائیل اور یہودی دانشور اور پوری دنیا خاصکر امریکہ اور یوروپ میں بستے اور میڈیا پہ قابض یہود اور یہود نواز رائٹر اور تجزیہ نگار صبح شام ہر واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کو ایک ناکام اور جوہری تنصیبات کی حفاظت میں ناکام ریاست ثابت کرنے کے لئیے یڑی چوٹی کا زور لگا کر مغربی عوام میں پاکستان کے خلاف اسلامی ایٹمی ہسٹریا پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تا نکہ اپنے پس پردہ مفادات حاصل کر سکیں ۔ جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پاکستان کی جگہ کوئی مسلم ملک ہوتا وہ اس کے خلاف ہوتے ۔ کیونکہ جن لوگں نے اسرائیی مزھبی اور ریاستی لازم و ملزوم فلسفے کا بغور مطالعہ کیا ہے وہ بہتر جانتے ہیں۔ کہ اسرئیل کے مسستقل کے حوالے سے عالمگیر عزائم کیا ہیں۔ اور وہ کیونکر پوری دنیا کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو اشرف النسل قرار دیتے ہیں اور اپنی ملکیت کو ایک دن یہود کو واپس ملنے کا یقین رکھتے ہیں۔ اور اس امر میں مانع فی الحال مسلمان ممالک ہیں۔ خیر یہ ایک لمبا موضوع ہے۔ مختصرا اس شیطانی ٹرائیکا کے مفادات کو خطے میس اس قدر زور شور سے کرنے کے حوصلے کو مشرف کی بزدلی اور عدم سیاسی بصیرت سے مہمیز لگی کہ اب بھگت رہے ہیں اور اللہ جانے کب تک بھگتیں گے۔ اسلئیے بی بی! اگر آپ تاریخ سے شعف رکھتی ہیں تو لازمی طور پہ جانتی ہونگی کہ کہ کسی ایک حکمران کی غلطی کا خمیازہ بعض اوقات پوری قوم سالوں بھگتی ہے۔
    بی بی ! اسلئیے پاکستانی عوام مشرف کو دودھ کا نہلا ہوا معصوم شہزادہ نہیں سمجھتے۔

    ReplyDelete
  14. تو آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ صدام حسین کی طرح زیادہ سے زیادہ مشرف کو پھانسی چڑحا دیتا۔ یعنی تئیس سال تک عراق پہ حکومت کرنے والے کی طرح محض دو سال اقتدار پر رہنے والے جنرل کو پھانسی دے دی جاتی۔ اور باقی لوگ عراقیوں اور افغانیوں کی طرح سکھ چین کی زندگی بسر کرتے رہتے۔ باقی امیر المومنین کو اجازت ہونی چاہئیے تھی کہ انکے عہد میں ایک آرمی چیف کو زہر دیکر قتل کر دیا جاتا، دوسرے آرمی چیف کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا جاتا۔ایک صدر کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا جاتا اور سپریم کورٹ کے اوپر حملہ کر دیا جاتا۔ تیسرے آرمی چیف کو بھی اس حالت تک پہنچایا جاتا کہ وہ بھی مستعفی ہو۔ کیا آپ اب بحی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئ آرمی چیف تن تنہا بغاوت کا علم بلند کر سکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو اسلم بیگ بھی صدر بننے کے مرحلے سے ضرور گذرے ہوتے۔ کیا ضیا الحق تن تنہا گیارہ سال تک حکومت کر سکتے تھے یا مشرف آٹھ سال تک۔ تو جناب ایسا کسی زمانے میں بھی نہیں ہوا۔ یقیناً طاقت میں لانے والے کچھ اور عناصر بھی ہوتے ہیں۔ ضیا الحق اگر ایک نظام کے نمائندہ تھے تو مشرف دوسرے نظام کے نمائندہ۔۔ دونوں اکیلے یا بیس تیس لوگوں کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
    آپ بد ظن ہونے کی بات کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ افغانستان کے اندر لڑے جانیوالی جنگ سے ایک بھوکے پاکستانی کو جو اپنے چار بچوں کو لیکر خود کشی کرنے کا ارادہ باندھے بیٹھا ہو ، کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔
    اگر کوئ نفسیات کے موضوع سے تعلق رکھنے والا شخص ان تحریروں پر سے گذرے تو میں اس سے درخواست کرونگی کہ ان علامات سے منسلکہ ذہنی کیفیت کو نفسیات کی زبان میں کیا کہا جاتا ہے جس مین کوء شخص یا قوم اپنے درپیش مسائل کی تشخیص کرنے اور انکے حل تلاش کرنے کے بجائے ہر وقت اس میں کچھ اور لوگوں کی کارستانی دیکھتا ہے اور جسے ہر وقت یہ وہم رہتا ہے کہ تمام لوگ اسکے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں اور اسکے خلاف انتہائ برے خیالات رکھتے ہیں اور وہ کبھی بھی اپنے طرز عمل کی خامیوں کو نہ دیکھتا ہے اور نہ اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ہر وقت اس وہم میں مبتلا رہنے کی وجہ سے وہ اپنی بھلائ کے لئیے کچھ بھی نہیں کرتا۔ آہستہ آہستہ اسکی تمام مثبت خواص ختم ہو جاتے ہیں۔ اسکے اندر سے جینے کی امنگ ختم ہو جاتی ہے حتی کہ وہ دوسروں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ لیکن وہ اس کیفیت سے نکل نہیں پاتا۔ میرے ناقص علم کے مطابق تو اسے اردو میں شیزوفرینیا کہتے ہیں۔ آاور اسکا علاج۔ جب مرض اپنے انتہائ مرحلے پہ ہو تو اسکا کوئ علاج نہیں ہوتا۔
    کیا آپکو نہیں لگتا کہ بحیثیت قوم ہمارے اندر یہ علامتیں خاصی حد تک پائ جاتی ہیں۔

    ReplyDelete
  15. بی بی!

    لازمی نہیں کہ اگر ایک حکومت (یعنی امیر المومنین غالبا آپ کا اشارہ نواز شریف کی طرف ہے)۔ درست نہ ہو تو دوسری کسی حکومت کی مستیوں کا جواز پیدا ہوجاتا ہے۔

    غصہ مت کیا کریں۔ دنیا میں ہمیں ہر روز بہت سے ایسے لوگوں سے واسظہ پڑتا ہے جو ہماری رائے سے قطعی مختلف رائے رکھتے ہیں۔ بعض اوقات انکی آراء ہماری سوچ سے سو فیصد مختلف ہوتی ہے۔ ایک سو اسی زاویہ پہ مخالف سمت میں ہوتی ہیں۔ جیسے ہماری رائے کی ضد ہوں۔ مگر ضروری نہیں کہ انکی ہر بات غلط ہو۔ اگر غلط بھی ہو تو غصہ حرام ہے۔ :lol:

    مجھے اکثر و بیشتر اسیے لوگوں سے واسظہ پڑتا ہے جو ہر معاملے میں اپنی ایک رائے رکھتے ہیں۔ جو انکے مشاہدے، تجربے اور سالوں کی ریاضت کی کاوش ہوتی ہے۔ باوجو یکہ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا مگر ان سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

    بہت مختلف فورمز پہ ان سے بات چیت رہتی ہے۔ وہ اپنی رائے بیان کرتے ہیں۔ میں اپنی رائے بیان کرتا ہوں۔ کافی کا دور چلتا ہے گپ شپ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتے ۔ میں اپنی رائے ٹھونستا نہیں مگر کسی کی رائے بھی اپنے پہ مسلط نہیں کرتا۔ ایک باہمی احترام کا رشتہ رہتا ہے۔ خواہ اتفاق رائے پیدا ہو یا نہ ہو۔

    خدا نے آپ کے اندر بہت سی صلاحتیں کُوٹ کر بھری ہیں۔ انھیں اختلاف رائے پہ مت ضائع کریں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔

    شیزوفرینیا یا کیسو فرینیا وغیرہ کی بیماری کا بماری قوم شکار نہیں بلکہ ہماری قوم دنیا کے جنگل میں وہ نوپود پنیری ہے جس نے ابھی تناور درخت بننے کا سفر کرنا ہے۔ یہ وہ بچہ ہے جس نے ابھی گھٹنے گھٹنے چلنا بھی نہیں سیکھا، ہم اپنی قوم سے، مستقبل میں بہت سی توقعات رکھتے ہیں۔ توقعات جنہیں شاید ہم نہ دیکھ سکھیں ہماری زندگیوں کے بعد ہماری آنے والی نسلیں دیکھیں ۔ مگر ہم ان اندہیروں سے نکل آئیں گے۔ انشاءاللہ۔

    ReplyDelete
  16. آپ کی پوسٹ‌کا عنوان بہت ہی عمدہ ہے اور مکمل پوسٹ اور تمام تبصرے پڑھنے کے بعد تو معنویت نکھر کر سامنے آگئی ہے۔

    ReplyDelete
  17. شکریہ راشد کامران صاحب، آپ نے صحیح غور کیا۔
    جاوید صاحب، ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب دنیا کے ایک حصے میں پیش ہونیوالا ایک واقعہ چند سیکنڈز میں ساری دنیا میں پھیل جاتا ہےہم نے اگر عمل اور ارادے کی رفتار کو نہ بڑھایا۔ تو پھر ہم پنیری ہی رہ جائیں گے۔ آپکی دلچسپی کا شکریہ۔

    ReplyDelete
  18. بی بی!

    آپ خیریت سے تو ہیں نا۔؟
    کافی دنوں سے آپ کی کوئی تحریر نظر نہیں آئی۔
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ