Sunday, November 1, 2009

کچھ اور سیکولر لوگ اسلام پسندوں کے لئیے

آج جنگ اخبار پڑھ رہی تھی تو جناب ہارون رشید کے کالم پہ بھی گذر ہوا ابھی کچھ عرصے پہلے بھی ایک اردو بلاگ پہ کسی تبصرہ نگار کے طفیل انکا ایک اور کالم دیکھا تھا اور انکے چند ایک نکات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسی تحریروں کو اس وقت کتنی زیادہ ضرورت ہے۔ انکی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ طعنہ بھی کسی کو دینے کی جراءت نہیں ہو سکتی کہ ہونہہ یہ سیکولر اور روشن خیال لوگ ایسا کہتے ہیں۔ آئیے، انکی یہ تحریرآپ سب کی نذر۔ امید ہے آپ میں سے جو لوگ اخبار پڑھنے کی لت میں مبتلا ہونگے وہ اس پہ سے گذر چکے ہونگے۔ لیکن ایک دفعہ پھر سہی۔ انکے ساتھ پڑھئیےجنہیں دوسروں کے ساتھ پڑھنے کی عادت ہے۔



 نوٹ؛
اس مضمون کے چھوٹا نظر آنے کی صورت میں اس پہ کلک کجئیے۔


اس تمام مضمون میں انہوں نے امریکہ  کی واپسی کا تذکرہ کیا ہے۔ یقیناً امریکہ کو واپس جانا ہے۔ لیکن اس صورت میں پاکستان کو طالبان کے جن کو قابو میں کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ چاہے وہ تحریک طالبان ہو ں یا افغانی طالبان۔ ہم سب کو یقیناً اس بات پہ سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اس ریاست کو جسکے مکین ہم سب ہیں کسطرح یہاں کے رہنے والوں کے لئیے ایک فلاحی مملکت میں بدلنا ہوگا ۔ جہاں حریت فکر موجود ہو۔

22 comments:

  1. پہلے بھی ایسا ہوا، امریکہ سوویت یونین کو توڑ دینے کے بعد بھاگ کھڑا ہوا جس کے نتیجے میں یہی طالبان کا جن بے قابو ہوا اور یہ پاکستان کے لوگوں میں گھل مل گئے، پھر انہی جنوں نے دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کے سائے تلے پلنا شروع کر دیا اور آستین کے سانپ بن گئے۔ ٹھیک فرما رہی ہیں، انہیں قابو کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے

    ReplyDelete
  2. طالبان کا جن امریکہ نے بوتل سے نکالا، اب وہی اسے قابو کرے۔ ہم کیوں؟

    ReplyDelete
  3. عارف کریم بھولے بادشاہ، امریکہ کو طالبان سے کیا نقصان۔ وہ اسکے اسلحے کے کاروبار کو مستحکم کر رہے ہیں، اس بہانے انکا پاکستان کے اندرونی معاملات کے اندر بھی عمل دخل رہتا ہے۔ کیونکہ انکی تخلیق کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا۔ یعنی پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا۔ انہیں کیا ضرورت کے وہ اسے قابو میں کرین۔ انکی تعداد میں اضافہ انکے لئیے خوش آئند بات ہے۔ جبکہ نقصان تو ہمیں پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ ہمارے بیگناہوں کی جانیں جاتی ہیں۔ ہماری قوم کے نازک مقام یعنی مذہب پہ ہاتھ رکھ کر انہیں افراتفری میں مبتلا کر دیا ہے۔ اور ہمیں ہر طرح کے دنیاوی اور دینی فائدے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بجائے اسکے کہ ہم اپنی زندگی کی توانائیوں کو اپنی قوم کے لئے دنیاوی آسانیاں پیدا کرنے اور انکی فلاح پہ خرچ کریں۔ ہمیں جاہل بنا کر یہ سبق پڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم تو بنیادی طور پہ جان دینے یا لینے کے لئیے پیدا ہوئے ہیں۔
    طالبان سے امریکہ کو نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ وہ ہمارے لئیے تاریکی کا نشان ہیں اور اگر ہمیں روشنی کی طرف جانا ہے تو ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑیگا۔
    اور اگر آپ ان معصوموں کی طرح سوچتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانون نے سوویت یونین کو اڑادیا اور اب وہ امریکہ کوتخت و تاراج کر دیں گے اور یہ سب کچھ طالبان نے کیا ہے اور انکی وجہ سے دوبارہ یہی ہوگا تو پھر ایسی قوم کو اس ذلت کے گرھے سے کون نکال سکتا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے مناسب جگہ وہی ہے۔

    ReplyDelete
  4. دیکھئے ذرا احتیاط کیجئے، یہ صاحب بھائی کے بھی بہت خلاف ہیں، ان کی پروجیکشن کرنے پر کہیں آپ کوتنبیہی خط جاری نہ ہوجائے۔۔۔ مذاق ہے، اب کہیں میری وکھیاں نہ سیک دیجئے گا۔۔۔
    :grin:
    سنجیدہ بات یہ کہ حریت فکر ہی وہ چیز ہے جو اقوام کو آگے لے کے جاتی ہے۔ سوچ پر پابندی لگانے کے نتیجہ میں‌فکری دولے شاہ کے چوہے ہی راج کرتے ہیں۔۔۔

    ReplyDelete
  5. جعفر، مجھے ان صاحب کی ساری باتوں سے اتفاق نہین ہے۔ آج ہی میں نے انکا ایک اور مضمون پڑھا جس مین انہوں نے پروفیسر احمد رفیق اختر کی خاصی تعریف کی ہوئ تھی۔ منیر عباسی نے اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں ان پروفیسر کے متعلق بتایا تھا جسے میں نے بعد میں دوسری اور ویب سائٹس پہ بھی چیک کیا۔ تو انکے کالم میں انکے بارے میں عقیدتمندانہ رائے پڑھ کر افسو س ہوا۔
    جہاں تک بھائ کا تعلق ہے۔ میں شخصیت پرستی کی قائل نہیں۔ اگر ہمیں جمہوریت لانے کا شوق ہے تو اپنی سیاسی پارٹیز کو اس سحر سے باہر نکالنا ہوگا۔ فی الوقت ہمارے پاس کوئ بھی سیاسی پارٹی اس سے مستثنی نہیں۔
    ویسے بھی اپنے سگے بھائیوں، اور کچھ کزنز کے علاوہ آج تک کسی کو سوائے مذاق یا ڈانَٹ کے دوران بھائ نہیں کہا۔ کیا سمجھے بھائ صاحب۔

    ReplyDelete
  6. ہمیں بھی طالبان سے کوئی خطرہ نہیں۔ میرا مطلب ہے افغانی طالبان سے ۔ ان کو آنا یقینی ہے۔ لیکن اب والے طالبان ۱۹۹۸والے طالبان سے مختلف ہوں گے۔ جہاں تک ہارون رشید صاحب کا تعلق ہے تو محترم کے خلوص شک وشبہ سے بالاتر لیکن ان کے اور نزید ناجی کے پلٹنے کے فن کی داد نہ دی جائے تو زیادتی ہوگی۔

    ReplyDelete
  7. اگر وقت ملے تو نیچے دیئے ہوئے ربط پر بھی ایک مضمون پڑھ لیجئے
    http://talkhaabau.wordpress.com/2009/10/31/%D8%B1%D8%AD%D9%85%D9%86-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D8%A2%D8%B4%DB%8C%D8%B1-%D9%88%D8%A7%D8%AF-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%D9%84%DB%8C%DA%A9-%D9%88%D8%A7%D9%B9%D8%B1-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7/

    ReplyDelete
  8. اقتباس
    ہمیں بھی طالبان سے کوئی خطرہ نہیں۔ میرا مطلب ہے افغانی طالبان سے ۔ ان کو آنا یقینی ہے۔ لیکن اب والے طالبان ۱۹۹۸والے طالبان سے مختلف ہوں گے۔

    جاننا یہ چاہ رہا تھا كہ كیا مختلف ہوگا؟ سامنے كی بات تو یہ نظر آتی ہے كہ اگر طالبان دوبارہ برسر اقتدار آتے ہیں تو پاكستان كی فوجی انتظامیہ سے ان كے تعلقات كچھ ایسے خوشگوار نا ہوں گے اگر یہ دونوں نورا كشتی نہیں كررہے تو۔ اس كے علاہ كیا چیزیں آپ مختلف دیكھ رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  9. "نیچے دیا گیا لنک خود کش حملہ آوروں کی تاریخ سے متعلق اوریامقبول جان کا کالم ہے:

    http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100757176&Issue=NP_LHE&Date=20091102

    بہت سے نام نہاد سکیولر دانشوروں کو اس سے اختلاف ہوگا۔ یہ لوگ خود تو تھائی لینڈ اور اٹلی کے ساحلوں کی نرم ریت پر سن باتھ لیتے ہوئے وطن عزیز سے شدت پسندی کے خاتمے کے لئے بہت مضطرب رہتے ہیں اور پھر یہاں آکر مار دو، کاٹ دو، ختم کردو کی گردان لگاتے ہیں۔ کسی بم دھماکے یا خودکش حملہ کے بعدتو اس میں اور اضافہ ہوجاتاہے۔ خود ان کے بچے تو ایسے اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن کی سکیورٹی کا معقول بندوبست ہوتا ہے۔ مارا تو بیچارا غریب کا بچہ جاتا ہے انھیں اس کا کیا غم یہ خود تو محفوظ ہوتے ہیں لہذا مذید زوروشور سے طا لبانئیزیشن کی گردان شروع کردیتے ہیں۔

    مجھے افغان طالبان کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف رہا ہے لیکن میں پھر بھی یہی چاہتا ہوں کے افغانستان کی جنگ آزادی میں طالبان غالب رہیں۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی و ارتقا کے لیے سب سے اہم چیز امن ہے جو کہ طالبان نے فراہم کیا تھا۔ نام نہاد سکیولر دانشورحغرات حوصلہ رکھیں طالبان آرہے ہیں۔ افغانستان میں، کہیں یہ نہ سمجھ جائیں کے پاکستان میں اور پھر طالبائزیشن کا شور و غوغا بلندکردیں۔

    محترمہ انیقہ صاحبہ مجھ سے ایک بار پھر گستاخی سرزد ہوگئی ہے، اس کے لئے معزرت۔ آپ چشم تصور سے دیکھ سکتی ہیں کہ میں نے اپنے کان پکٹرے ہوئے ہیں۔"

    ReplyDelete
  10. جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانی طالبان سے ہمیں کوئ خطرہ نہیں وہ ایک اور دنیا میں رہتے ہیں جس کی جہت کا مجھے اندازہ نہیں۔ حقیقیت یہ ہے کہ یہ افغانی طالبان یا طالبنائزیشن بھی افغانستان کا اپنا کلچر نہیں ہے بلکہ متعارف کرایا گیا ہے۔ جس میں پاکستان اور امریکہ شامل ہیں۔ افغانستان کا اپنا تاریخی کلچر وار لارڈز کا کلچر ہے۔ یہ قبائلی کلچر ہمارے ان علاقوں میں بھی موجود ہیں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان علاقوں کے درمیان کوئ سرحد نہیں۔ اب طالبان نے جو اسلام اپنے کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے اور اسے ترجیح دیتے ہوئے بنایا ہے وہی فارم ڈیورنڈ لائن کے اس پار بھی نظر آنے لگی۔ اور اسی کے نفاذ پہ زور دیا جانے لگا اور تقریباً وہی اسٹریٹجی اپنا لی گئ۔ اب اگر امریکہ واپس جاتا ہے افغانستان سے۔ تو یقیناً ان طالبان کے حوصلے بلند ہونگے اور وہ اپنے نظریات کو بزور قوت پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کرین گے۔ جبکہ مقامی طالبان بھی ان سے مل کر ایک نئ مصیبت کھڑی کر سکتے ہیں۔ بزور ہتھیار طاقت حاصل کرنا اور اسکا شو آف کرنا متشدد لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔
    وقار اعظم، آگر پاکستان کی آدھی آبادی کو گھر میں بند کر دیا جائے اس طرح کیہ انکو پڑھنے لکھنے، بازار جانے اور اپنے بچوں کو اسپتال لے جانے کی اجازت نہ ہو، تو اس سے لڑکیوں کے اسکول بند ہو جائیں گے، ان کی نوکریوں پہ جانے کا مسئلہ ختم ہو جائے گا اور ٹریفک میں انکی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ ختم ہوجائیںگے۔ مسائل کی ایک فہرست تو اس طرح ختم ہو گئ۔
    کمپیوٹر اور ٹی وی کی وجہ سے جو بےحیائ اور ساتھ میں بیجا معلومات پھیلتی ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں مختلف بیکار کے سوالات پیدا ہوتے ہیں، دنیا کی ادھر ادھر کی خبریں حاصل ہونے کی وجہ سے جو خیالات آتے ہیں کہ فلاں ہم سے کتنا آگے نکل گیا ہے فلاں جگہ عوام کی فلاح اور بہبود کے لئے کتنےب کام کئے جا رہے ہیں ان سب سے آگہی نہ ہونے سے ان سے مسائل کی ایک بڑی تعداد میں کمی ہوگی۔ اور اس سے مختلف نظریات رکھنے والے جو گروہ پیدا ہوتے ہیں انکی پیدائش بھی رک جائگی۔ تو اس طرح سے معاشرہ کافی حد تک پر سکون ہو جائیگا۔
    میرے پاس بھی کچھ انتہائ انقلابی قسم کے آیڈیاز ہیں اگر آپ میرا ساتھ دیں۔ اس میں کرنا یہ ہوگا کہ آبادی کی ایک بڑی تعداد کو انکے گھروں میں بند کر دیا جائے، انہیں باقی کی دنیا سے کاٹ دیا جائے اور وہ صرف کھان ا کھانے اور اپنی آبادی بڑھانے کے علاوہ کسی کام کے نہ رہیں۔ نئے پیدا ہونے والے انسانوں کو کسی جنگ میں الجھا کر رکھیں تاکہ آپکی ریاست میں موجود لوگوں کی تعداد ایک خاص حد سے نہ بڑھ پائے۔ یہ آبادی کو قابو میں رکھنے کا ایک آسان نسخہ ہوگا۔ تو پھر کیا خیال ہے ہم بھی اس پلان پہ نہ لگ جائیں۔ اس میں احتیاط یہ کرنی ہوگی کہ بس ہماری جان کو کم ازکم کوئ خطرہ نہ ہو۔ لیکن اگر آپ کو اپنا ایڈرینالن ہائ رکھنے کا شوق ہے اور اس میں مزہ آتا ہے تو یہ بھی آپکے لئے کوئ مسئلہ نہ ہوگا۔
    تو جناب یہ امن چاہئیے آپکو ۔ یہ آپکو ہی مبارک ہو۔ اگر آپنے ایسا کیا تو میں اسکے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان دینا پسند کرونگی۔

    ReplyDelete
  11. وقار اعظم، آپ نے کچھ دانشورووں کا اٹلی اور تھائ لینڈ کے ساحلوں پہ جا کر نرم ریت پہ مزے لوٹنے کا ذکر کیا ہے۔ ویسے تو میں نے فلم انڈسٹری سے متعلق لوگوں کے متعلق ہی سنا تھا کہ وہ ان جگہوں پہ بلکہ ان سے کہیں زیادہ بہترین جگہوں پہ جا کر عیاشی کرتے ہیں۔ مگر حلقہء دانشوراں کو اس میں شامل کر کے یقیناً ہم سب لوگوں کو حوصلہ دیا ہے کہ ہم اگر دانشور بن جائیں تو یہ منزلیں ہم سے بھی دور نہیں۔ باقی بلاگرز میں بھی بلاگنگ سے جڑے رہنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
    اگر آپ کا اشارہ مجھ غریب کی طرف ہے جو اس وقت اتفاق سے اپنی روزی روزگار کے سلسلے میں اس وقت تھائلینڈ میں موجود ہے تو ایک تو میں کل وقتی دانشور نہیں۔ یہ کیفیت جیسا کہ آپ میری ماضی کی پوسٹوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے اوپر کبھی کبھی طاری ہوتی ہے تو مجھے اس مستثنی کیا جائے دوسرے یہ کہ میں یہاں پچھلے شاید سولہ دنوں سے موجود ہوں اور ابھی تک نرم ریت پہ لیٹنے، بیٹھنے یا چلنے کا کوئ وقت نہیں مل سکا۔ تیسرے یہ کہ میری اکلوتی بیٹی بھی ابھی تک اسکول میں داخل نہیں ہوئ۔ میں ہی اسکو پٹیاں پڑھاتی رہتی ہوں۔ چھوٹی ہے اور ان پٹیوں سے خوش رہتی ہے۔ اگر آپ اپنے آپکو غریب سمجھتے ہیں تو پھر غریبوں کے لئیے کام کرنا شروع کر دیں انہیں طالبان کے ہاتھوں مروا کر شہید بنانے پہ کیوں تلے ہوئے ہیں۔ وہ تو جینا چاہتے ہیں انہیں کیوں شہادت کے مرتبے پہ فائز کر رہے ہیں بزور قوت۔

    ReplyDelete
  12. محترمہ میں نے تو ایک جنرل بات کی ہے۔ آپ کو کھمبا نوچنے میں کمال حاصل ہے۔

    دوسری بات یہ کہ افغانستان میں مجاہدین قابضین کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انھیں اس کا حق حاصل ہے۔ وہ تمام افراد یا گروہ جو طالبان ہوں یا کوئی اوراگر اس ایجنڈے پر متفق ہیں تو وہی راہ راست پر ہیں۔
    افغانستان کے کلچر اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کے کلچر کو میں بھی جانتا ہوں مجھے امید ہے کہ اس کے لئے شبلی اور طبری کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غیر ملکی افوج کے انخلا کے بعد وہاں کے عوام کو اس کا حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے لیے جو نظام بہتر سمجھیں اسے اختیار کرلیں۔

    تیسری بات یہ کہ طالبان کو نام نہاد سکیولر دانشوروں کے پیشرو محترمہ بنظیر بھٹو کے دور حکومت میں کھڑا کیا گیا گلبدین حکمت یار کا راستہ روکنے کے لئے۔ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ : I am the mother of Taliban. اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر صاحب کہا کرتے تھے کہ "اپنے ہی بچے ہیں جی"۔۔۔۔۔ ذرا اس طرف نظر کریں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں بہت اچھا مسلمان ہوںاورمیری ڈاڑھی بھی نہیں ہے لیکن طالبان کی مخالفت کے پردے میں جہاد، ڈاڑھی، پردہ اور دوسری اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    ایک بار بھر گستاخی معاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  13. parayshan mat hoo abhi nahi aa rahh ham log!!!!

    Talban

    ReplyDelete
  14. مبارک ہو جی
    طالبان پہنچ گئے ہیں آپ کے بلاگ پر
    :mrgreen:

    ReplyDelete
  15. حکمتیار گلبدین کا نام آپ نے شاید اسی جذبے میں لے لیا ہے جس
    جذبے سے آپ نے بلی کو کھمبے نچوائے ہیں۔ آپ کی جذباتی کیفیت

    کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف آپ عزت دینتے ہیں تو آنٹی بنادیتے ہیں اور
    دوسری طرف بلی۔ خیر گلبدین ایک زمانے میں کمیونسٹ نظریات کی
    رکھوالی کرنے والوں میں سے تھے۔ اسکے بعد انہیں روس کیخلاف لڑنے میں کوئ قباحت نہیں ہوئ کیونکہ وہ مسلمان ہو گئے تھے اور مجاہدین کے لیڈر بنا دئیے گئے تھے معاف کیجئیے گا اس سے آپکو تکلیف ہوگی۔ وہ انکے لیڈر بن گئے تھے۔ اسکے بعد جن وجوہات کی بناء پر اس وقت کے مجاہدین میں دو گروپ بن گئے تھے اسکی وجوہات آپ تلاش کریں اتنی معلومات دینا میری ذمہ داری نہیں۔ مجاہدین کے یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے تھے جس میں مخالف گرہو کو گلبدین نے بہت مارا، ذبح کیا اور اڑآیا۔ اس وقت انکے لئیے یہ جائز تھا۔
    نصیر اللہ بابر کی ان خدمات سے کسے انکار ہے۔ حیرت یہ ہے ان جیسے سیکولر رہنماءووں نے کیسے جہاد جیسا اسلامی جذبہ آپ جیسے لوگوں میں بھر دیا۔
    اسلام صرف جہاد، داڑھی اور پردے میں نہیں چھپا ہوا۔ آپکو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ کٹر یہودی خواتین بھی پردہ کرتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں ہندو خواتین بھی اتنا شدید پردہ کیا کرتی تھیں۔ جتنا کہ آپ جیسے لوگوں کی ڈیمانڈ ہے۔ اور ہر مذہب کے اندر مذہب کی طرف سے لڑنے کو مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس میں جہاد کے لئیے شرائط ہیں۔
    مسٹر گمنام، جی ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں میں اس میں اتنا اضافہ کرونگی کہ وہ اس وقت تک نہیں آسکتے جب تک آپ جیسے لوگ اپنا نام لکھنے کی جراءت اپنے اندر پیدا نہیں کرتے۔

    ReplyDelete
  16. جعفر، اب آپکا کام یہ ہے کہ انکے نام سے اور ای میل کنکشن سے انکے ٹھکانے معلوم کریں۔ تاکہ ہلیری کلنٹن کی حرت دور کی جاسکے کہ پاکستانیوں کو انکے ٹھکانے نہیں معلوم۔ جنکا نام موجود نہیں ہے انکے کنکشن کو تو ڈھوندا جا سکتا ہے۔ ہے ناں، تو لگ جائیں کام سے۔
    :)

    ReplyDelete
  17. وقار اعظم، اور ہاں، جب آپ قبائلیوں کو اور افغانیوں کو انکی من پسند زندگی گذارنے کی اجازت دیتے ہیں تو پاکستانیوں کی ایک بڑی باقی تعداد کو اس حق سے کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ انکا کیا قصور ہے، یہ بھی بتا دیجئیے۔ ورنہ کہیں کھمبا نہ ختم ہو جائے۔

    ReplyDelete
  18. محترمہ آپ نے اپنے بلاگ کا عنوان "شوخیءتحریر" رکھا ہے لیکن یہاں تنز و تشنیع کے تیروں کے سوا کچھ نہیں تو جوابا آپ کو پھول تو پیش کرنے سے رہا۔ میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو اس کے لئے معافی کا طلب گار ہوں۔

    میں نے یہ کب کہا ہے کہ اسلام جہاد، داڑھی اور پردے میں چھپا ہے، میں تو روشن خیالوں کی نفسیات کی بات کررہا ہوں۔ تاریخ بھری پڑی ہے اسلام کو اپنے من پسند طریقے کے تابع کرنے سے۔ فیضی اور ابوالفضل جیسے لوگوں کا تعلق اسی قبیلے سے رہا ہے۔

    گلبدین حکمت یارروس کے افغانستان میں آنے سے بہت پہلے کمونزم کو خیرباد کہ چکے تھے اور وہ ان سے تو بہت بہتر ہے جو پہلے روس کے گن گاتے تھے اور اب امریکہ کی چاکری کرتے ہیں۔ آپ نے آپس کی لڑائیوں کا ذکر کیا ہے جوکہ ایک بڑا موضوع بحث ہے۔ اس کے پیچھے کون تھے، خون ریزی کس نے کیی، کس نے لڑایا اور کس نے لڑنے سے انگا کیا اس کے لئے صرف وکی پیڈیا کی معلومات پر بھروسا کرنا ٹھیک نہیں۔

    اور یارلوگو کو پاکستان میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ رات ہوتے ہی رقص و سرور کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں اور کچھ لوگ اپنے رب کے حضور سربسجود بھی ہوتے ہیں۔

    آپ نے تو لوگوں کو کام پر لگادیا۔ بیشک آپ ہیلری کو معلومات فرہم کرکے 5000 ڈالر حاصل کرسکتی ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں میں روشن خیالوں نے اس طرح سے بہت ڈالر کمائے ہیں۔

    ReplyDelete
  19. بس اب مجھے ڈر ہو رہا ہے ايسا نہ ہو عنيقہ ناز کا بلاگ کھولوں اور خود کش حملے کی ذد ميں آ جاؤں يہاں تک پہنچ گئے ہيں يہ لوگ (نہيں نہيں بھائی لوگ نہيں کہا انکی تو ميں بڑی عزت کرتی ہوں عنيقہ ناز اور عبداللہ کی وجہ سے ؛ ويسے يہ عبداللہ ہے کہاں اطلاع دينے والے کو ايک Kiss بھائی صاحب کی طرف سے)

    ReplyDelete
  20. آپ بلاگروں کو پتہ نہيں انگريزی سے کيا چڑ ہے ايک لفظ کا استعمال فقرے کو کہاں سے کہاں پہنچا ديتا ہے ُکس` بھائی صاحب نے کرنا تھا اور کہاں پہنچ گيا

    ReplyDelete
  21. نہیں نہیں وقار اعظم، میں آپکے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی کہ ہلیری کو اطلاع دوں۔ آپ بے فکر رہیں، اسکے لئیے میں نے جعفر کو کام سے لگا دیا ہے۔ لیکن انکی طرف سے بھی پریشان نہ ہوں وہ غریب کفار کی کترینہ کیف اور ثانیہ مرزا کو چھوڑ کر اپنے ملک پہ نظر ڈالے تو کچھ بات بنے۔اس معاملے میں یہاں کی خواتین کو ان سے بڑی شکایت ہے۔
    ویسے مجھے ابھی تک کاغذ کی کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ میں نے بھٹو کی کتاب قرطاس ابیض یا سفید جھوٹ دس سال کی عمر میں پڑھی تھی۔ میرے خاندان میں بھی لوگوں کو سیاست سے بڑی دلچسپی رہی ہے۔ تو ان گرما گرم بحثوں کے دوران رہ جانیوالی باتیں، کتابیں یہ سب وکی پیڈیا پہ بہت بھاری ہیں۔ کوشش تو بڑی کی لیکن ابھی تک ایک ڈالر بھی نہِں مل سکا۔
    اسماء، اردو کا قاعدہ یہ ہے کہ ایسے جذبات کا اظہار حد سے زیادہ مشکل الفاظ اور تراکیب سے کیا جاتا ہے۔ فائدہ یہ ہوتا کہ تمام شیطانی خیالات اس پیچیدگی میں دفن ہو جاتے ہیں۔ جہاندیدیہ لوگ جنہیں اس سے فرق نہیں پڑتا سمجھ جاتے ہیں۔ غیر جہاندیدہ کسی مزے سے مستفید ہونے کے بجائے اس لفظ یا ترکیب کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح معاشرہ کسی بھی قسم کی تباہی سے محفوظ رہتا ہے۔ اب اس لفظ کو مشکل ترین لفظ میں تبدیل کر کے دکھائیے اردو کے۔

    ReplyDelete
  22. اسماء ڈھونڈ آپ رہی ہیں عبداللہ کو اور کس بھائی صاحب کی طرف سے،وہ کیوں؟:)
    عبداللہ آجکل ابوسعد کی پوسٹ ہاں میں ملا ہوں اور فرحان کی پوسٹ این آر او ایک کالا قانون ہے پر اپنا سر پھوڑ رہا ہے شعیب صفدر اور دیگر کے ساتھ :(

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ