Thursday, November 12, 2009

ایک تقریب، ایک خیال

اگرچہ کہ کسی کو اس چیز کی بھنک بھی نہ پڑی ہوگی کہ ہم ٹہرے عوام الناس، اپنے ملک کے صدر نہیں۔ لیکن انکی دیکھا دیکھی، کچھ لوگوں کی شدیدخواہش، اور ایک خدائ ذریعے سے فنڈز کی فراہمی نے جس میں کچھ شائبہ ء خوبی ء تقدیر بھی ہے، ہمیں اس قابل بنادیا کہ ہم چند دنوں کا فوری دورہ جزیرہ آسٹریلیا کا بھی کر آئے۔ اب واپس تھائ لینڈ میں بیٹھے سواردیکا یعنی خوش آمدید اور کپن کا یعنی شکریہ کر رہے ہیں۔
اس سے کچھ لوگ یہ اندازہ لگانے نہ بیٹھ جائیں کہ یہ ہم پہ حکومتی ذرائع کی کوئ خفیہ مہربانی، امریکی متوقع امداد میں سے کسی حصے کی پیش کش  یاہماری کوئ لاٹری کھل گئ ہے۔ احوال یہ ہے کہ اس سب خرچے کے بعد یقیناً کافی عرصےتک پیسوں کو دانتوں سے پکڑنا پڑیگا۔

آسٹریلیا کا ہمارا یہ مختصر دورہ کیری لوگر بل کے سلسلے میں نہیں، ایک شادی میں شرکت کا بہانہ تھا۔ یہ شادی دو مختلف قومیت رکھنے اور شاید دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان تھی۔ اگرچہ کہ یہ ہوئ وہاںاکثریتی رائج الوقت طریقے کے مطابق۔
دن کے ایک بجے ایک سرکاری خاتون نے ایجاب وقبول کروایا۔  اس سے پہلے دونوں ہونے والے میاں بیوی کی ایک دوسرے کو پسند کرنے والی وجوہات کو بیان کر کے آنیوالے مستقبل کے لئے انکی ذمہ داریوں سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے۔انکے میاں بیوی ہونے کا اعلان کیا گیا۔ شادی میں ایک فریق چونکہ پاکستان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لئے پاکستانی خاندان کی خواتین نے اپنے روائیتی شادی کے  ملبوسات اور سج دھج سے مقامی لوگوں کے لئے کافی دلچسپی پیدا کر دی تھی۔ دولہا اور دولہن کے ساتھ وہاں کے قواعد کے مظابق بیسٹ مین اور بیسٹ وومین موجود تھے۔جو سارا دن انکایعنی دولہا دولہن کا دل بہلاتے رہے۔

عصر کے وقت سے رات کے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا میں رات کا کھانا جلد کھالیا جاتا ہے۔ یعنی پانچ چھ بجے کے قریب۔ لوگ عام طور پہ نو دس بجے تک سونے چلے جاتے ہیں۔ زیادہ تر مارکٹس شام کو پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں۔
  اس دعوت میں ہمارے سمیت تقریباً ستر افراد شامل تھے ۔ پنڈال میں داخل ہونے کی جگہ پہ آنیوالے افراد کے بیٹھنے کی نشت اور میز کا نمبر لکھا ہوا تھا۔۔ پہلے کھانے کے ابتدائ ہلکے پھلکے لوازمات آنا شروع ہوئے جنکا مقصد صرف کچھ چگتے رہنا تھا اور پھر اصل کھانا اور آخیر میں میٹھا۔ ساتھ میں محفل ناءو نوش تو جاری ہی تھی۔
 حلال کھانے کی عدم دستیابی کی بناء پر ہم نے سبزی خوروں کا کھانا کھانا چاہا۔ لیکن وہ صرف ابلے ہوئے کاجوءوں پہ مشتمل تھا۔ خدا کی ماضی میں دی ہوئ نعمتوں کا شکر کرتے ہوئے سوچا کہ ایک وقت نہ کھانے سے کوئ فرق تو نہیں پڑتا۔ اور اپنا اورنج جوس کا گلاس پکڑے تماشائے اہل کرم دیکھتے رہے رہے۔
زندگی اپنے بہاءو میں کتنی نئ چیزوں سے آشنا کراتی ہے۔ میٹھے کے بعد محفل میں موجود ہر شخص کو ایک گلاس شیمپیئن کا پیش کیا گیا۔ ہمارے استفسار پہ بتایا گیا کہ یہ صرف کھانے کے اختتام پہ دولہا دولہن کے ساتھ خوشی میں اٹھانے کے لئے ہے اسے پینا لازمی نہیں۔ چلیں جناب اس بہانے ہمیں شیمپین کا رنگ دیکھنے کو ملا کہ اس رنگ کی لپ اسٹک ہمیں خاصی پسند رہی ہے۔ لیکن اسکو اٹھانے سے ہم معذور رہے کہ یہ ہمارے بنیادی اصولوں میں شامل نہیں۔
کھانے کے بعد اس جوڑے کے والدین اور دیگر احباب نے کچھ مختصر ہلکی پھلکی تقاریر کیں، اور پھر ڈانس فلور پہ دولہا دولہن کے رقص کے ساتھ لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کیا۔ اور تھوڑی دیر میں تقریباً تمام حاضرین محفل نے اس میں شرکت کی۔ یہ سلسلہ بھی کوئ ڈیڑھ گھنٹے چلا۔ یہاں بھی میری نالائقی شرکت حال رہی کہ ایسا کچھ آتا نہیں تھا۔
محفل کے اختتام پہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں کے قواعد کے مطابق گاڑی چلانے کے قابل نہ رہی۔ جی پی ایس بنانے والوں کا شکریہ کہ اسکے طفیل ہم اس نئ جگہ پہ رستہ ٹٹولتے ٹٹولتے واپس منزل مقصود تک جا پہنچے۔
غالب نے کہا کہ
مئے سے نشاط کار کس روسیاہ کو ہے
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئیے
رات کو کمبل میں گھسے گھسے مجھے خیال آیا کہ کیا سر خوشی، سر مستی اور کیف وسرور، ہوش و خرد سے نجات پالینے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔

7 comments:

  1. اصل بات تو آپنے بتائی ہی نہیں کہ وہ دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے کن مذاہب سے تعلق رکھتے تھے! تب ہی تو بات آگے بڑھے گی:)

    ReplyDelete
  2. ارے کونسے آسٹرلیا چلی گئیں آپ
    جہاں ڈنر رات سے پہلے ہی ہو جاتا ہے؟

    ReplyDelete
  3. عبداللہ، اس باب میں راوی خاموش رہنا چاہتا ہے کہ بات اصل موضوع سے کہیں اور جا نکلے گی۔ میں تو صرف یہ سوچتی ہوں کہ خوشی کی انتہا کیا ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ممکن نہیں، چلیں اب بات آگے بڑھائیں۔
    ڈفر، یہ سڈنی کا پڑوسی شہر وولنگانگ ہے۔ لیکن خود سڈنی میں بھی رات دس بجے کے بعد مخصوص جگہیں ہی کھلی مل سکتی ہیں۔ شام پانچ چھ بجے ہونے والا ڈنر سپر کہلاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں سپر کا رواج زیادہ عام ہے۔ جہاں تک میں نے دیکھا یا سنا ہے۔ ویسے شادی کی یہ تقریب رات کو ساڑھے دس بجے تک اپنے اختتام پہ پہنچ چکی تھی۔ ہے ناں، یہ بھی حیرانی کی بات۔

    ReplyDelete
  4. ڈفر، یہ پھر غلط لکھ دیا ہے میں نے۔ اب تک نیند کا اثر باقی ہے۔ یہ وولنگانگ ہے۔

    ReplyDelete
  5. نہیں کچھ اور مسئلہ ہے۔ یہ واءو کے بعد لام کیوں غائب ہورہا ہے۔ میں تو اسے وولنگانگ لکھنا چاہتی ہوں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ