Friday, July 8, 2011

خدا ، انسان کا ہتھوڑا

پچھلے دنوں بلاگستان کی دنیا میں تصور خدا پہ گفتگو کچھ لوگوں کے دماغ پہ ہتھوڑا بن کر برس پڑی۔ حالانکہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ دل نہ کسی کا توڑو، دل کے اندر رب رہتا ہے۔  دل میں قیام پذیر خدا بڑی مختلف خصوصیات رکھتا ہے۔ یہ رہتا تو دل جیسے مشتبہ مقام پہ ہے ، جہاں ایک آسانی یہ ہے کہ جب ذرا گردن جھکائ دیکھ لیا وہاں یہ خدا انسانی تلون مزاجی سے بھی نبرد آزما رہتا ہے۔  یہ مصروف اور جفاکش خدا تخت دل سے کائینات پہ حکمرانی کرتا ہے اور یہ آسان حکمرانی نہیں ہے۔ 
  لیکن اکثریت کا خدا دماغ میں رہتا ہے۔ ان میں سے وہ الگ ہیں جن پہ عقل پرستوں کا الزام لگتا ہے وہ تصور خدا کی بنیادیں پرکھتے ہیں۔ جو خدا کے وجود کو ڈھونڈھ رہے ہیں ان پہ کوئ قانونی  یا اخلاقی حد جاری کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سو خدا نے بھی اس سلسلے میں کوئ قانون نہیں بنایا۔
لیکن دوسرا گروہ جس کا خدا اسکے دماغ میں رہتا ہے یہ وہ ہیں جو خدا پہ اپنے پختہ یقین کا دعوی کرتے ہیں۔ لیکن یہ وہ خدا ہے جسے استعمال کرنے کے دماغی جواز ڈھونڈھے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اپنی دماغی صلاحیتیں دوسروں کے ایمان کو پرکھنے میں لگاتے ہیں۔  سمجھتے ہیں کہ خدا نے انہیں اس عظیم ذمہ داری کے لئے چن لیا ہے۔ یوں کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔ اسکی جڑیں کافی دور تک پھیل جاتی ہیں۔ 
دماغ میں قید ہو جانے والا یہ خدا، اپنے اوپر ہونے والی گفتگو سے ڈر جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے منسوب مفادات کی ڈور ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لازماً یہ اسی وقت منصب خدا کے لئے نا اہل قرار پا جاتا ہے۔ اور اگرچہ، اظہار آزادی ء رائے اچھی بات لگتی ہے، لیکن کچھ لوگوں کے اوپر پابندی ہونی چاہئیے کہ وہ خدا کی محبت اور اسکی تبلیغ سے اجتناب کریں۔ یہ خدا کے مثبت وجود کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
آہ، اس مرحلے پہ لگتا ہے کہ  آفاقی قوانین کو ترتیب دینا کتنا مشکل ہے۔ جن انسانوں نے ایسے قوانین ترتیب دئیے انہیں سلام۔ اب یہ ایک الگ ہوم ورک ہے کہ ان آفاقی قوانین  کی فہرست بنائیں جو انسانوں نے ترتیب دئیے۔
فہمیدہ ریاض، اردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ ادب کی ترقی پسند صنف کی طرف ان کا جھکاءو ہے۔ انکی تخلیقات، شاعری، افسانوں اور مختلف مضامین کی صورت موجود ہیں۔  تصورخدا اور الہامی نظریات کا پس منظر لئے ہوئے انکی ایک تحریر نظر سے گذری۔ دنیا زاد کے شمارے بعنوان جل دھارا  میں شائع ہوئ۔ اس کہانی کا عنوان میرے ذہن سے اتر گیا۔ اور چونکہ اس وقت میں پاکستان میں موجود نہیں۔اس لئے اسکا عنوان نکالنا ممکن نہیں۔ دنیا زاد کے ایڈیٹر ہیں جناب آصف فرخی اور پبلشر ہیں شہر زاد۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے چند اسکین شدہ صفحات میرے پاس موجود ہیں۔ ان قارئین سے معذرت جو اسکین شدہ صفحات سے گھبراتے ہیں۔ فہمیدہ ریاض کی یہ کہانی بعض ذہنوں پہ ہتھوڑا ثابت ہو سکتی ہے۔ ان سے بھی معذرت۔
بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئِے۔






     

8 comments:

  1. Dear Aniqa
    What's the authenticity of Bible w.r.t to the Sacred Verses bestowed to Hazrat Isa (A.S.)??
    And
    What This story suggests that Allah is injustice to Human Beings for providing them Hunger???
    This story is nothing....
    Mera tau dimagh nahi hilaya is story ney.

    ReplyDelete
  2. اس افسانے میں فہمیدہ ریاض نے عیسائی پیشواوں کی تحریف شدہ بائبل کی ٹٹی کی آڑ کھڑی کرکے دینِ حنیف اسلام کا شکار کھیلنے کی ناکام کوشش کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ قرآن کریم کو ہر تحریف سے پاک اور محفوظ کلام اللہ ماننے والی ایک باعمل مسلمان خاتون ہیں۔ اس کی شہادت آپ کی بعض پوسٹوں سے بھی ملتی ہے۔
    قرآن کریم میں بار بار عیسائی اور یہودی پیشواوں کی جانب سے بائبل کی تحریف کا تذکرہ ہے۔ ہر مسلمان اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے۔ بائبل جابجا انبیاۓ کرام کی نسبت ناقابلِ بیاں فحش اور توہین آمیز مواد سے پُر ہے۔ جبکہ قرآن کریم ہر طرح کی فحش گوئی سے پاک کلامِ الٰہی ہے۔ وہ ان انبیاۓ کرام کا ذکرنہایت اچھے لفظوں میں کرتا ہے اور ہمیں ان کی تقلید کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ پھر عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں واضح طور پر بتاتا ہےکہ یہودی انھیں قتل کرنے یا مصلوب کرنے میں ناکام رہے ۔ ہاں انھیں اس کا شبہ ضرور ہوا۔
    میرے خیال میں فہمیدہ کے افسانےکا ٹیپ کا بند یہ پیراگراف ہے
    ۔۔۔۔" عورت پڑھتی جارہی تھی۔ عجب سنسنی کے احساس کے ساتھ جیسے اس کی جاگتی آنکھوں کے سامنے پرت در پرت زمین کی تہیں ہٹائی جارہی تھیں اور وہ ان بنیادی قدیم استخوانی پتھروں کا دیدار کرتی تھی جس پرخود اس کے دین کا پورا ڈھانچا کھڑا تھا۔
    محترمہ ! حدیث پاک کا تذکرہ ذراتھوڑی دیر کے لیے رکھیے ایک طرف۔ ازراہِ کرم مجھے قرآن پاک میں موجود ان قدیم بائبلی استخوانی پتھروں کا کوئی حوالہ دیجیے جن پر ہمارے دین کا پورا ڈھانچا کھڑا ہے۔
    عیسائیت کی بنیاد تثلیث کے عقیدے پر ہے، خود یہودیوں کا ایک فرقہ حضرت عزیر علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کا قائل رہا ہے۔ جبکہ دینِ اسلام کا سب سے بنیادی پتھرہر طرح کے شرک کی نفی اور توحید ِ الہیٰہ کا اثبات ہے۔
    یہودیت ایک نسلی مذہب ہے۔ خود تحریف شدہ بائبل میں عیسائیوں نے نبی عفت ور حمت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ الفاظ منسوب کر دیے ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کی بھولی بھٹکی بھیڑوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اور بچوں کی روٹی (نورِ ہدایت) کتوں( دیگر اقوام) کے آگے نہیں ڈال سکتے۔ اس کے مقابلے میں دینِ اسلام کی بنیاد ہی عالمگیر اخوت انسانی پر رکھی گئی ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر شعوب و قبائل کی حقیقت محض پہچان تک محدود رکھی گئی ہے اور اللہ تعالٰی کے نزدیک عزت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ بیان فرمایا گیا ہے۔ حجتہ الوداع کے خطبے کو تمام منکرینِ حدیث بھی مانتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے اس جامع ترین خلاصے میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب و عجم اور اسود و احمر کے تمام امتیازات کی مکمل نفی فرما کر تقویٰ کی اہمیت پر زور دیا۔
    ادب کو عموما ایمانیات کی کسوٹی پر پرکھا نہیں جاتا ۔لیکن اگرکسی ادبی تحریر میں ایمانیاتی حوالے دے کر مطلب براری کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر ہمیں اس تحریر کو لازما اصل اور مستند دینی ماخذ کی روشنی میں دیکھ کر قبول یا مسترد کر نا ہو گا۔ مذکورہ افسانے میں مصنفہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دین اسلام قدیم تحریف شدہ آسمانی ادیان ہی کی ایک شاخ ہے۔ جو کہ سرا سرغلط ہے۔
    میں نہیں سمجھتا کہ اگر آپ قرآنی حقائق کی روشنی میں اس افسانے کے مندرجات کا تنقیدی جائزہ لیتیں تو اس پوسٹ کی کوئی گنجائش نکال پاتیں ۔ بہر حال اب قرآن میں موجود ان مبینہ قدیم استخوانی پتھروں اور فحش گوئی وغیرہ کا ہمیں بھی دیدار کروانا آپ پر قرض ہے۔

    غلام مرتضیٰ علی

    ReplyDelete
  3. او جی کھنڈالہ کی سیر کرائیں ، آپ کھنڈالہ چھوڑ کر اللہ میاں کے دوالے ہوگئیں۔
    نیکسٹ پوسٹ پلیز

    ReplyDelete
  4. کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ
    فہمیدہ ریاض
    یہ کون ہے
    اگر اسے اختلاف ہے تو
    پھر؟

    ReplyDelete
  5. محترمہ ! حدیث پاک کا تذکرہ ذرا تھوڑی دیر کے لیے رکھیے ایک طرف۔

    مرتضیٰ صاحب ایسا آپنے کیوں لکھا ہے ؟اسکی وضاحت ہونا ضروری ہے۔ کیا آپ حدیثوں کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں
    جو آپنے ایسا لکھا ہے ؟ امید ہے وضاحت فرمائیں گے ۔
    اسلام الدین

    ReplyDelete
  6. غلام مرتضی صاحب
    الہامی ادیان اپنی بنیاد میں ایک ہیں ۔ اس سے آپکو اختلاف ہو تو ہو۔ اس سے کسی اور عالم شخص کو ذرا برابر بھی اختلاف نہیں۔ اسی طرح قرآن کی تفاسیر کو بیان کرنے کے لئے یہودی اور عیسائ ذرائع کو مسلمان عالم چاہے وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں ، بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بھی دین اسلام کا مطالعہ کرنے والے انکار نہیں کر سکتے۔
    کیا اس افسانے میں قرآن کے بارے میں بات ہے؟ مجھے تو نہیں نظر آئ۔ آپ اسے قرآن سے متعلق کیوں سمجھتے ہیں۔
    اسلام اپنے بنیادی عقائد میں دیگر الہامی عقائد سے الگ ضرور ہے لیکن اکثر واقعات کو ان سب کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ ان سے آپ جان کیسے چھڑا سکتے ہیں۔
    شاذل صاحب، پدی کون ہے وہ جسکا حوالہ وکیپیڈیا میں موجود ہے یا وہ جو یہ تبصرہ لکھ رہا ہے۔ فہمیدہ ریاض کون ہے؟ میں نے اس کا لنک دیا ہے۔ اگر انسان علم نکھے تو یہ سوال بھی کر سکتا ہے کہ علامہ اقبال کون ہے۔ آپکی بات واضح نہیں ہے۔
    ایف ایم صاحب، آپ کا دماغ نہیں ہلا، یہ ایک مثبت بات ہے۔ میرا خیال ہے اس کہانی میں اسکے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

    ReplyDelete
  7. عثمان، کھنڈالہ کے بارے میں ہی صرف کیسے لکھ سکتی ہوں۔ یہ سب تحاریر پچھلے دنون مصروفیات کی وجہ سے نہیں ڈال سکی۔ زیادہ عرصے نہیں رکھی جا سکتیں۔ ادھر کراچی کے حالات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس پہ ایک تحریر لکھنی ہے۔ پھر کھنڈالہ کی باری آئے گی۔

    ReplyDelete
  8. يہ بھی پڑھ ليں
    http://talkhaba.com/2011/07/dr-bari-hoodbhoy-silent-over-sexual-harassment-in-qau.html

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ