Friday, July 22, 2011

بلندی سے

محبوب آپکے قدموں میں ہو تو دنیا قدموں کے نیچے لگتی ہے۔ لیکن اس میں کچھ قباحتیں ہیں۔ مثلاً ایک ایسے عامل کامل کی کھوج لگانا جو محبوب کو ان دیکھی بیڑیوں سے باندھ کر آپکے قدموں میں لے آئے۔ لیکن اس سے پہلے یہ کہ خدا نے آپکو اس جگر کے ساتھ پیدا کیا ہوا جس سے رائج الوقت طریقے سے ہٹ کر آپ کسی سیاستداں کے بجائے کسی انسان سے محبت کر سکیں۔
ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ آئینسٹائین کے نظریہ ء اضافیت کی طرح محبت کا بھی ایک نظریہ اضافیت ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کسی سیاستداں کو محبوب بنانے کے سنگین امتحان سے نکل آئیں تو اس بات کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپ خود سیاستداں بن جائیں گے۔ محبت اور سیاست میں کیا تعلق ہے یہ جاننا کچھ مشکل نہیں مگر بتانا آسان نہیں۔
اچھا، میں اس پوسٹ میں نہ محبوب کو قدموں میں لانے کے لئے کوئ وظیفہ بتا رہی ہوں اور نہ سیاست میں جائز اور ناجائز کی حدیں مقرر کر رہی ہوں۔ کیونکہ ہر محبوب کی تسخیر کے لئے ایک علیحدہ وظیفہ چاہئیے ہوتا ہے اور سیاست میں جائز اور ناجائز کی حدیں تو بڑے بڑے مفتی مقرر نہ کر سکے۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔
البتہ دنیا قدموں میں لانے کا ایک آسان طریقہ بتا سکتی ہوں۔ اسکے لئے آپکو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو آنا پڑے گا۔ اور یہاں موجود سی این ٹاور کے ٹکٹ گھر سے صرف تیس ڈالر یعنی مبلغ ڈھائ ہزار پاکستانی روپوں کا ٹکٹ لینا ہوگا۔ اسکے بعد ٹاور کی بلندی پہ لے جانے والی لفٹ کے لئے ڈیڑھ سے دو گھنٹے قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا۔
بس پھر دنیا آپکے قدموں میں ہوگی۔ کم از کم کچھ وقت کے لئے محسوس یہی ہوگا۔
:)
یہ کچھ مہنگا طریقہ ضرور ہے لیکن جان رکھیں کہ ہر آسان طریقہ مہنگا ضرور ہوتا ہے۔ شوق کا تو کوئ مول نہیں ہوتا۔ ہم بھی دو گھنٹے لائن میں کھڑے رہنے کے بعد اس ٹاور کی بلندی پہ پہنچنے کے قابل ہوئے۔ ٹاور اور بلڈنگ میں ایک معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ ٹاور کثیر المنزلہ نہیں ہوتا۔ نہ اس میں آفس ہوتے ہیں نہ اپارٹمنٹس نہ شاپنگ مالز نہ کوئ اور کمرشل سرگرمی۔ تین سال پہلے دنیا کے بلند ترین ٹاور کے عہدے سے ہٹائے جانے والا ٹاور محض چھتیس سال پہلے وجود میں آیا۔
اسکی تعمیر میں تقریباً سوا تین سال لگے۔


اسے ہر سال لاکھوں لوگ اسی طرح قطار میں کھڑے ہو کر اور ٹکٹ لے کر دیکھتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف کینیڈیئن حکومت کو اربوں کی آمدنی ہوتی ہے بلکہ یہ کینیڈا کی ایک پہچان بن گیا ہے۔
کینیڈا کی پہچان بن جانے والے اس ٹاور کو انیس سو پچانوے میں دی امریکن سوسائیٹی آف سول انجینیئرنگ نے جدید دنیا کے سات عجائبات میں شامل کیا۔
کینیڈا کی پہچان بن جانے والے اس ٹاور کی بلندی تقریباً ایک ہزار آٹھ سو پندرہ فیٹ یعنی تقریباً پانچ سو تریپن میٹر ہے۔ یہ ٹاور ریکٹر اسکیل پہ آٹھ اعشاریہ پانچ کے درجے کا زلزلہ برداشت کر سکتا ہے۔ یہ اپنی اصلیت میں ایک ریڈیو ، ٹی وی کمیونیکیشن پلیٹ فارم ٹاور ہے لیکن بنانے والوں نے اسے سیاحت کی نظر سے بھی دیکھا۔ سو، انیس سو چھیئتّرمیں اس پہ آنے والی تعمیری لاگت تریسٹھ ملین کینیڈیئن ڈالر تھی جو کہ اسکی تعمیر کی پندرہ سال کے اندر وصول ہو گئ۔


سیاح اسکی ایک سو سینتالیسویں منزل تک جا سکتے ہیں جو کہ اسکائ پوڈ کہلاتی ہے۔ اوپر جانے کے لئے چھ لفٹس موجود ہیں جن کی بیرونی سطح شیشے کی ہے یوں اوپر جاتے ہوئے باہر کے بدلتے مناظر نظر میں رہتے ہیں۔ لفٹ جب اوپر کی طرف سفر کرتی ہے تو بائیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چند سیکنڈز میں مشاہداتی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ اس دوران اکثر لوگوں کو کانوں سے حلق میں ہلکے ہلکے بلبلے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں یا کان میں ہلکا سا دباءو آتا ہے۔ سب سے پہلے مشاہداتی منزل پہ لیجاتے ہیں۔ یہاں دوربینیں لگی ہوئ ہیں جن سے چیزیں زیادہ صاف دکھتی ہیں۔  اس مقام  سے ارد گرد کی بلند عمارتوں کی چھتیں نظر آتی ہیں۔ گاڑیاں کھلونا اور انسان روبوٹ لگتے ہیں

اس سے اوپر اسکائ پوڈ ہے۔ یہاں بھی دائرے میں شیشے کی دیوار بنی ہوئ ہے۔ یہ مشاہداتی سطح سے تینتیس منزلیں اوپر ہے۔ موسم صاف ہو تو ایک سو ساٹھ کلومیٹر تک کا علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں نیاگرا آبشار سے اٹھنے والا پانی کا دھواں بھی شامل ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر زمین قدموں تلے تھرتھراتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔ اس تھرتھراہٹ میں ایک عجیب سا سرور ہے۔ یوں بلندی پہ پہنچنا آسان سہی لیکن بلندی پہ ٹہرے رہنا آسان نہیں۔
اسکائ پوڈ سے واپس ہوئے تو ایک لفٹ اس سطح پہ لے گئ جسے گلاس فلور کہتے ہیں۔  گلاس فلور زمین سے تین سو بیالیس فیٹ اونچا ہے۔ درحقیقت مجھے اس فرش کو دیکھنے کی خواہش تھی۔

گلاس فلور یعنی شیشے کے فرش سے نظر آنے والا پارک

شیشے کا فرش، اسکا تذکرہ حضرت سلیمان کے قصے میں بھی ملتا ہے۔ جب ملکہ صبا انکے دربار میں داخل ہوتی ہیں تو سمجھتی ہیں کہ فرش پہ پانی پھیلا ہوا ہے اور اپنے لباس کو اوپر اٹھا لیتی ہیں۔ اس وقت انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ فرش شیشے کا بنا ہوا ہے۔ جس سے وہ اس سلطنت کے رعب میں آجاتی ہیں۔ میں بھی اس ملکہ کی اس کیفیت سے گذرنا چاہتی تھی۔
ہزاروں سال پرانے اس قصے کو عملی طور پہ دیکھنے کی خواہش جاگی تو میں نے ایک چیز پہ توجہ نہیں کی اور وہ ٹاور کی بلندی تھی۔ شیشے کا یہ فرش دنیا میں بنائے جانے والے شیشے کے فرشوں میں اس لئے منفرد ہے کہ سب سے زیادہ بلندی پہ ہے۔ یہاں لوگ اس فرش پہ لیٹے ہوئے تصویریں بنا رہے تھے۔ بیٹھے ہوئے کھڑے ہوئے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس زاوئیے سے اسکی تصویر لیں۔  کچھ لوگ اس پہ پیر رکھنے سے بھی گریز کر رہے تھے۔ حالانکہ یہ فرش یہ مکمل شیشے کا فرش نہیں بلکہ اسٹیل کے فریم میںتقریباً چار ضرب تین فیٹ کے ری انفورسڈ شیشے ایک ترتیب میں لگے ہوئے ہیں جو  تقریباً چوبیس اسکوائر میٹر کا رقبہ بناتے ہیں۔ یہ فرش کئ ٹن وزن برداشت کر سکتا ہے۔
 اس فلور گلاس سے زمین کی سطح پہ واقع پارک کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ گلاس فلور کے کمرے سے باہر نکلیں تو دائرے میں دھاتی جالی لگی دیوار سامنے آتی ہے۔ اس سے نہ صرف باہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے
بلکہ ہوا کی شدت سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
جالیوں کے باہر وہ جزیرہ جو ایئر پورٹ کے طور پہ استعمال ہوتا ہے

ٹاور کے نزدیک واقع وہ جزیرہ صاف نظر آتا ہے جہاں صرف ایک ائیر پورٹ قائم ہے۔ اس ائیر پورٹ پہ پہنچنے کے لئے
 کشتی سے آنا پڑتا ہے۔ یہاں سے جہاز ملک کی اندرونی پروازوں کے لئے آتے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی چند جہازوں کو ٹیک آف کرتے اور لینڈ کرتے دیکھا۔ جزیرے کی لمبائ میں رن وے موجود ہے۔ جہاں پانی جزیرے کو چھوتا ہے وہاں سے رن وے شروع ہوتا ہے اور اگلے سرے پہ جہاں ساحل پانی سے ملتا ہے رن وے ختم ہو جاتا ہے۔ اردگرد بادبانی کشتیاں سمندر میں ڈولتی پھر رہی تھیں۔
ٹاور کی زمینی سطح کے ساتھ ہی ایک اسٹیڈیئم ہے جسے روجرز سینٹر کہتے ہیں۔ اس اسٹیڈیئم پہ حرکت کرنے والی چھت موجود ہے جو اسے ڈھک لیتی ہے۔ ہم اتنی دیر وہاں موجود رہے کہ ایک دفعہ کھلی چھت دیکھی اور دوسری دفعہ بند چھت۔
اس سینٹر کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں ٹورنٹو کے مسلمان عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے اسکا کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

اسٹیڈیئم    کی ادھ کھلی چھت

اسٹیڈئم کی بند چھت
واپسی پہ لفٹ ایک شاپنگ سینٹر میں لے جا کر چھوڑتی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ جیب لوٹنے کا ایک شریف بہانہ ہوتا ہے۔ یہاں چار ڈالر میں ملنے والی ٹی شرٹ سترہ ڈالر کی مل رہی تھی۔ اس شرٹ کی خاص بات یہ اس پہ موجود سی این ٹاور کے الفاظ تھے۔ سو اس جگہ اور اس لیبل کی قیمت تیرہ ڈالر میں ادا ہوتی ہے۔ باقی چیزوں کا بھی یہی حال ہے۔
کچھ لوگ زندگی میں آنے والے چیلینجز کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ کچھ آنے والے چیلینجز کا سامنا پامردی سے کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان چیلینجز کو خود تخلیق کرتے ہیں اور پھر دنیا کو حیران کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے اس ٹاور میں بھی چیلینج ڈھونڈھ لیا۔ یہ لوگ اسکائ پوڈ کی بیرونی سطح  کو فتح کرتے ہیں۔ دھیان رہے اس تھرل کے لئے علیحدہ سے ٹکٹ ہے اور اسکی اجازت ہر روز نہیں ہوتی۔
سی این ٹاور اور روجرز سینٹر رات کے وقت

۔
اس بلندی تک جانے کا کیا فائدہ؟
ایک تو گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے سے صبر کی اعلی صفت پیدا ہوتی ہے۔ یقین جانیں محض قطار میں کھڑے رہنے سے برداشت کی صفت پیدا کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ گھنٹوں کھڑے رہنے اور تیس ڈالر خرچ کرنے کے بعد کچھ لوگ جب حیرانی سے پوچھتے ہیں کیا اسی واسطے چھانے تھے بیابان بہت اور آپ صم بکم کھڑے رہیں تو آپ کی قلندری زیادہ واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔
فائدہ یہ بھی ہے کہ بلندی کا رعب دل سے ختم ہو جاتا ہےاور زمین اہم لگتی ہے۔ وہ زمین جو ٹھوکرکھا کر گرے ہوئے انسان کو ایک دفعہ پھر کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یوں دنیا قدموں تلے پڑے رہنے کے بجائے سنگ سنگ چلتے ہوئے بھلی لگتی ہے۔ خیال آرہا ہے کہ قدموں تلے پڑی دنیا دیکھ کر جو عظیم خیالات پیدا ہوتے ہیں کیا وہی خیالات قدموں تلے پڑے محبوب کو دیکھ کر بھی ہوتے ہیں؟
اگر ہاں تو آپ اپنی ذات میں خود ایک سی این ٹاور ہیں۔ اسے دیکھنے کے لئے یہاں آنے کی کوئ ضرورت نہیں۔


9 comments:

  1. کافی دنوں بعد بلاگ کا چکر لگایا ۔ خلاف معمول عنیقہ آپ کی تحریر نے قدم روک لیے ، ہاتھ اور انکھ نے بھی اجازت نہ دی ۔ کہ کچھ لکھے بغیر جانا اچھا نہیں لگتا ۔ ٹاور کی سیر کے ساتھ جو معلومات دی اس کے لیے بہت شکریہ ۔ محبوب تو قدموں میں نہ آ سکا لیکن ٹاور نے بلندی سے نیچے کی سیر کروا کر ٹاور کو قدموں میں کر دیا ۔ خوش رہو

    ReplyDelete
  2. سلام
    ناں جی ،خیال تو بڑا نیک ہے پر ہم سبز پاسپورٹ والوں کے لیے سو روپے والے بابے ہی اچھے۔کیونکہ اس طریقہ کار کے لیے بھی بابے کی خدمت میں حاضر ہونا پڑے گا کہ بابا جی میرا ویزا لگوانے کا کوئی عمل کر دو۔

    ReplyDelete
  3. علامہ کا شعر ہی موڈیفائی کرنا پڑے گا کہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ٹاور پہ چڑھ جائے۔۔۔ ویسے تو ہم ٹاور پر جا نہیں سکتے۔
    اچھی سیر کروائی آپ نے۔

    ReplyDelete
  4. لو جی مینار کینیڈا کی زیارت بھی ہوگئی۔
    یہ لائن میں لگ کر انتظار کرنے والا امتحان اور بھی بہت سی جگہوں پر ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر تو بہت ہی سخت۔ مثلا ونڈر لینڈمیں۔ بعض اوقات ڈیڑھ منٹ پر مشتمل ایک جھولے کے لئے ڈیڑھ گھنٹا انتظار بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن سنسنی خیزی کا ڈیڑھ منٹ آپ کی تشنگی کے لئے کافی ہے۔ سپر گرل کم سن ہیں اس لئے وہاں جانے کا آپ کو فائدہ نہ ہو۔ لیکن پھر بھی وہ دیکھنے کی چیز ہے!

    ReplyDelete
  5. منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

    عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا

    دیوان ِ غالب لے کر آپ چلتی بنیں؟

    ReplyDelete
  6. جناب امر،
    بڑی جلدی پتہ چلا آپکو۔
    :)

    ReplyDelete
  7. مبارک ہو جی
    آپ کا بلاگ واقعی مشہور ہوچکا ہے
    :)

    ReplyDelete
  8. عثمان، ہمم یہ گھڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ورنہ اب تک تو چراغ تلے اندھیرا ہی تھا۔ اسکے لئے غالب کا شکریہ ادا کرنا پڑے گا یا اپنی اداءووں پہ غور۔

    ReplyDelete
  9. غالب نہ ادائیں ،
    بلندی کا اثر ہے یہ
    خود ہی تو آپ نے اوپر تفصیل بتائی ، دنیا قدموں میں لانے کی۔ اتنی جلدی بھول گئیں ؟


    بس پھر دنیا آپکے قدموں میں ہوگی۔ کم از کم کچھ وقت کے لئے محسوس یہی ہوگا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ