Monday, November 14, 2011

دس ڈالر میں

ابھی ڈھونڈھ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری
کہ تم آگئے اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی میں محبوب سے لے کر بس تک پہ یہ بات صادق آسکتی ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ یوں ہوا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹہریں پہلے یہ بتادوں کہ قصہ کیا چل رہا تھا۔
ہم گوادر ہی میں تھےرات کو واپسی کے سامان کو صبح کے سفر کے لئے پیک کر کے نادر بلوچ کے یہاں پہنچ گئے کہ ان  کی بھاوج کے یہاں اس دن صبح ایک نئے بچے کی آمد ہوئ تھی۔ خیال تھا کہ انہیں مبارکباد دے کر ، کراچی واپسی کے لئے خدا حافظ کہہ دیں۔
نادر کی بیوی ،خدیجہ بڑے تپاک سے ملی۔  میں نے اسے بتایا کہ اسکا بیٹا بڑا شیطان ہے پچھلی دفعہ اس نے مجھے کیکڑوں کی لڑائ دکھائ تھی۔ اور کیکڑے کے بچے کندھے پہ رکھ کر پھر رہا تھا۔ 'ہاں یہ بہت شیطان ہے۔ اب اسکو گوادر کے سب سے مہنگے اسکول میں داخل کرا دیا ہے۔ فیس اسکا بہت زیادہ ہے۔  نادر کی آمدنی تو زیادہ نہیں کبھی کام ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ میرے بھائ نے کہا کہ وہ اسکا اسکول کا خرچہ اٹھائے گا'۔ 
بڑا اسکول کہتے وقت اسکے چہرے پہ بڑا فخر تھا۔  اسکا بیٹا اویس، دوڑا دوڑا گیا اور اپنی کتابیں کاپیاں اٹھا لایا مجھے دکھانے کے لئے۔ میں نے انہیں بڑے شوق سے دیکھا۔ وہ مونٹیسوری کی لگ رہی تھیں۔  اسے تھوڑا بہت لکھنا آگیا تھا۔ میں نے پوچھا کون سی کلاس میں پڑھتے ہو۔ اپنے ٹوٹے پھوٹے دانتوں والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ 'ایڈوانس میں، ایڈوانس میں'، اسکی مراد شاید مونٹیسوری کا آخری سال تھا۔
اس لمحے اچانک مجھے خیال آیا کہ میری ایک  نو عمر پاکستانی نژاد کینیڈیئن دوست نے چند ماہ پہلے مجھ سے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک بچے کا تعلیمی خرچہ اٹھانا چاہتی ہے ، کیا میں کسی مستحق بچے کی تلاش میں مدد کر سکتی ہوں۔ میں اس وقت سے ایک بچے کو ڈھونڈھ رہی تھی جو پڑھنے لکھنے میں واقعی دلچسپی رکھتا ہو۔ اور اسکی تعلیم کی راہ میں صرف پیسے کی کمی حائل ہو۔
گھر میں آنے والی ماسیوں کے بچوں کو میں نے اس لسٹ سے نکال دیا تھا کہ ان میں سے کچھ مقامی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ انکے والدین مار مار کر بھیجتے ہیں مگر یہ پڑھ کر نہیں دیتے۔
سو، میں نے خدیجہ سے پوچھا کہ اسکی بیٹی کون سے اسکول میں پڑھتی ہے۔ کہنے لگی یہیں سُر بندر کے گورنمنٹ اسکول میں۔ اس اسکول کے متعلق مجھے اندازہ تھا کہ انتہائ بے کار ہے ۔ متعدد لڑکیاں یہاں سے دوسری تیسری پڑھ کر چھوڑ چکی ہیں۔ اور انہیں دس تک گنتی بھی نہیں آتی۔اس لئے میں نے اس سے کہا تم عائیشہ کو بھی کیوں نہیں بحریہ ماڈل اسکول میں داخل کرا دیتیں۔
'عنیقہ، اسکی فیس بہت زیادہ ہے، چار ہزار داخلہ فیس ہے'۔ اس نے ذرا منہ پھیلا کر کہا تاکہ مجھے اندازہ ہو کہ کتنی زیادہ ہے۔ چھ سو روپے مہینے کے ہیں' اس دفعہ اس نے چھ سو پہ زور دیا اور  مزید کہا صرف وردی آٹھ سو روپے کی ہے'۔ نادر تو اتنا نہیں کر سکتا'۔  میں خاموش بیٹھی رہی۔ 
یہاں کراچی میں ایسے اسکول ہیں جنکی ماہانہ فیس پچیس ہزار روپے ہے۔ اور ایسے اسکول تو عام ہیں جہاں داخلہ فیس پچاس ہزار سے زائد ہے۔ کیا خدیجہ جیسوں کو معلوم ہے کہ جتنی انکی ماہانہ آمدنی نہیں پاکستان کے کچھ علاقوں میں اتنی ایک بچے کے اسکول کی فیس ہوتی ہے۔
ویسے اچھا ہی ہے اسے معلوم نہیں۔ ورنہ یہ صدمہ شاید اسے زندگی کے سکھ سے دور  کر دے۔
چلو عائشہ کی فیس کا بند و بست ہم کر دیتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا۔ 'نئیں نئیں، عنیقہ، تکلیف نہ کرو۔'۔ 'مجھے کوئ تکلیف نہیں ، مجھ سے کسی نے کراچی میں کہا تھا کہ وہ ایک بچے کو پڑھانا چاہتا ہے۔  پیسے وہ دے گا۔ میں نہیں۔  اس لئے مجھے کوئ تکلیف نہیں پہنچ رہی۔ ' نئیں پھر بھی تم ایسا نہ کرو'۔ دیکھو اگر تم نہیں لوگی تو کوئ اور لے لے گا۔ تم چاہتی ہو کہ تمہاری بیٹی ایک اچھے اسکول میں  پڑھے تو موقعے سے فائدہ اٹھا لو۔ یقین رکھو، نہ یہ پیسے میرے ہیں ، نہ میں یہ کسی سے مانگ رہی ہوں اور نہ مجھے اس میں کوئ تکلیف ہے'۔ تھوڑی پس و پیش  کے بعد وہ خاموش ہو گئ۔ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔ اٹھتے وقت میں نے نادر سے بات کی کہ وہ عائشہ کو بھی اسی اسکول میں داخل کرا دے۔ داخلہ فیس اور تین مہینے کی فیس اسکے ہاتھ میں رکھی اور نصیحت کی کہ اسکول کارڈ اور ٹیسٹ رپورٹس سنبھال کر رکھے کہ جو شخص پیسے دے گا وہ انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔
میں چلنے لگی تو نادر نے ہاتھ مصافحے کے لئے آگے بڑھا دیا۔ اسکے انداز میں تشکر نمایاں تھا۔ میں جو غیر مردوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کرتی ہوں۔ اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتی ہوں۔ میرے اندر احساس ندامت تھا کہ اس سارے سلسلے میں میرا عملی حصہ نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی انہیں اپنا احسان مند بنا رہی ہوں۔
گھر واپس آکر میں نے سوچا کہ ڈالرز میں داخلہ فیس تقریباً پچاس ڈالر بنتی ہے اور ماہانہ فیس میں  اگر دیگر خرچے بھی ڈال لیں تو دس ڈالر بنتے ہیں۔ میری دوست نے کہا تھا کہ وہ پچاس ڈالرتک مہینے کے اس مد میں دے سکتی ہے۔ اتنے پیسوں میں تو ایک اور بچے کا خرچ نکل سکتا ہے۔ کیونکہ مجھے نادر کی بھانجی کا بھی خیال آیا جو عائشہ کی ہم عمر ہے۔ اسکا باپ اسکی ماں کو بھائ کے پاس چھوڑ گیا ہے نہ طلاق نہ خرچہ۔
کراچی آکر میں نے اپنی دوست کو ای میل کی۔ وہ فوراً تیار ہو گئ۔ اس طرح دو بچیوں کے لئے ایک بہتر اسکول کا بند و بست ہو گیا۔ 
آپ میں سے بیشتر نہیں جانتے ہونگے کہ کینیڈا میں ایک وقت کا اوسط معیار کا کھانا  دس ڈالر میں مل جاتا ہے۔  درحقیقت کراچی کے بہترین ہوٹل میں بھی ایک وقت کا اچھا کھانا اتنے پیسوں میں مل جاتا ہے۔ صرف دس ڈالر میں، میں محسن کی قطار میں اور اگلا احسان مندی کی قطار میں۔
کسی  کے ایک وقت کا کھانا ، کسی دوسرے کے پورے مہینے کے اسکول کا خرچہ۔ قدرت کا مذاق ہے یا انسانوں کا؟

4 comments:

  1. کل "ایک دن جیو کے ساتھ" نامی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ سہیل وڑائچ سٹیج ڈراموں کی رقاصہ دیدار کا انٹرویو لے رہا تھا۔ انٹرویو کے دوران ایک منظر دیکھ کر میں تو اچھل پڑا۔ موصوفہ لیموزین میں سوار تھیں۔ میٹرک پاس، معمولی شکل ، معمولی پس منظر کی عورت، نہ بات کرنے کا سلیقہ نہ کوئی جاذب شخصیت۔ کسی میدان میں علم و قابلیت تو درکنار ... رقص کے اسرار رموز سے کوئی آشنائی نہ ہو، لیکن ایک عالی شان محل سے لیموزین میں سواری تو ششدر کردینے لائق تھی۔
    ابھی تک تو میں اسی سوچ میں گم ہوں کہ کامیابی کیا ہے؟ اس کے لئے کیا ضروری ہے ؟ کس سطح پر کس سے موازنہ کرنا چاہیے ؟ کیا یہ موازنہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔

    ReplyDelete
  2. عثمان، آپکے ان سوالوں کا جواب ایک طرف۔ کامیابی حاصل کرنا کوئ مشکل کام نہیں۔ اگر کوئ یہ طے کر لے کہ وہ اسکے لئے ہر قیمت ادا کرے گا۔ یہ اندازہ تو آپکو ہو گیا ناں کہ لیموزین میں گھومنا مشکل نہیں۔

    ReplyDelete
  3. ظاہر ہے انسانوں کا،
    قدرت تو بس تماشہ دیکھ رہی ہے اور وقت آنے پر حساب لے گی،
    ایک ایک کھانے کا!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ