Saturday, January 7, 2012

پھر ٹیگے گئے

یہ عرفان احمد شفقت نے گلے میں ٹیگ کا ڈھول ڈال دیا ہے۔ اس لئے بجا رہے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں جتنے سوالات ہیں وہ سب انتہائ مشکل لگتے ہیں۔ کیا پتہ کب دل بدل جائے اور ہم  گوتم بدھ کی طرح سب تیاگ کر کسی مختلف دنیا میں جا نکلیں۔ اس لئے اس ٹیگ کے اکثر سوالات ذرا اوکھے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن سب کے جوابات دینے کی کوشش ضرور کی ہے۔

2012ء میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
 اس سال  لکھنا چاہتی ہوں۔ سنجیدگی سے وہ جو کافی عرصے سے لکھنے کی سوچ میں ہوں۔ لیکن اس سے پہلے کچھ پڑھنا بھی چاہتی ہوں۔ کچھ چیزیں جو پہلے نہیں پڑھیں۔ ایک فہرست ہے جسے عملی رکھنے کے لئے میں نے خاصہ مختصر رکھا ہے۔  ہیمنگوے کے کچھ ناول، مزید جارج آرویل کے دو ناول نائینٹین ایٹی فور، اینیمل فارم۔ کچھ کو پورا کرنا ہے مثلاً ایلڈوس ہکسلے کا بریو نیو ورلڈ، وار اینڈ پیس ۔ کچھ چیزیں جاننا چاہتی ہوں مثلاً یہ کہ گھر بیٹھ کر سٹہ کیسے کھیلتے ہیں۔
:) 

۔ 2012ء میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
کسی خاص واقعے کا انتظار نہیں,  ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔  
۔ 2011ء کی کوئی ایک کام یابی؟
-کامیابی اور ناکامی بالکل نسبتی اصطلاحیں لگتی ہیں۔  سو یہ کامیابی کم نہیں ابھی تک زندہ ہیں اور صحت مند ہیں،  خود کو اور دوسروں کو بم سے نہیں اڑایا، کسی مالیاتی کرپشن کا حصہ نہیں، کسی انسان کا حق نہیں کھایا نہ چھینا، کوئ نئ سیاسی جماعت نہیں بنائ، انقلاب کا نعرہ نہیں لگایا، کینیڈا جا کر غائب نہیں ہوئے۔ حالانکہ اس میں سے بیشتر کاموں کا بڑا دل چاہا۔
۔ 2011ء کی کوئی ایک ناکامی؟
- کوئ ایک وقت ورزش اور چہل قدمی کے لئے مقرر نہ ہو سکا۔
۔ 2011ء کی کوئی ایک ایسی بات جو بہت یادگار یا دل چسپ ہو؟
 - کینیڈا گئے،ایک اردو بلاگر سے ملاقات کی، زندگی میں نئ چیزیں ، نئے لوگ نئ ثقافت دیکھی۔  وہاں کے شہر،  کیوبک سٹی میں چار سو سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑ کے اوپر گئے اور ساڑھے تین سو سیڑھیاں اتر کر نیچے واپس آئے۔ وہ دن بڑا دلچسپ اور یادگار رہا۔
۔ سال کے آغاز پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟
 - ویسا ہی جیسے نئے دن کے آغاز پہ کرتے ہیں۔
تم کو بھی ہم دکھائیں  کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشا کش غم پنہاں سے گر ملے

۔ کوئی چیز یا کام جو 2012ء میں سیکھنا چاہتے ہوں؟
- ایک چھوٹی سی چیز جو آئیندہ دو تین مہینوں میں سیکھنا چاہتی ہوں وہ ہے، اسکرین ریکارڈنگ۔ اسکے علاوہ مہ رخوں سے ملنے کے لئے مصوری سیکھنا ہے۔ مہ رخوں سے میری مراد کچھ دلچسپ اور مزے کے لوگ ہیں۔ مصوری کا مطلب ایسے کام جن میں انہیں دلچسپی ہو۔ اس لئے کہ تقریب ملاقات  ، فیس بکنگ سے زیادہ مزیدار لگتی ہے۔ یہ الگ بات کہ جب دلچسپ اور مزے کے لوگوں کا کردار بنانے لگتی ہوں اس پہ پورا اترنے والے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔
:)
مزید جن افراد کوٹیگنا چاہونگی وہ ہیں ریاض شاہد، راشد کامران، فہد کہر، عدنان مسعود، شاکر عزیز، غلام مصطفی خاور، شعیب صفدر اور نام یاد نہیں آ رہے۔

9 comments:

  1. دو ہزار گیارہ کے آخر میں جو تحقیقی منصوبے چل رہے تھے وہ ابھی آگے نہیں بڑھے۔ اور اب مزید اتنا بوجھ .. اللہ خیر کرے۔
    وار اینڈ پیس کو دو ہزار تیرہ تک ملتوی کردیں کہ اسے پڑھنے کے لئے پورے سال کی فراغت در کار ہے۔
    سٹہ کس پر کھیلنا ہے ؟ .. یہ کہ آپ یہ سب کچھ مکمل کر سکیں گی یا نہیں ؟ چلئے مجھ سے ہی کچھ شرط لگائیں۔
    :)
    ورزش کے لئے کوئی کلاس جوائن کر لیں۔ آسانی رہے گی۔
    کون ذیادہ دلچسپ تھا ؟ اردو بلاگر یا اس سے ملاقات ؟
    :)
    کیوبک سٹی کی باقی پچاس سیڑھیاں کہاں گئیں ؟

    مہ رخوں پر مزید روشنی ڈالیے۔ نیز جن لوگوں کو ٹیگ کیا ہے ان کے نام لنک کی صورت میں رکھیے ورنہ شائد ان تک اطلاع نہ پہنچ سکے۔
    اچھا کیا کہ آپ نے مجھے ٹیگ کرنے سے گریز کیا۔ تو آخر آپ نے مجھے ریٹائرڈ بلاگر تسلیم کر ہی لیا۔
    :)

    ReplyDelete
  2. میرا فارورڈ کیا ہوا ڈھول بجا ڈالنے کا بہت شکریہ۔

    اچھا یہ بتائیے کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ سیارہ پہ بلاگ نہ ہو تو قارئین کی آمد کم ہو جاتی ہے؟
    میرا بلاگ بھی آج کل سیارہ سے اترا ہوا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ سیارہ پر بلاگ نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کو خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ کسی نے کچھ نیا لکھا ہے۔ لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر کبھی سیارہ والوں نے سیارہ بند کر دینے کا فیصلہ کر دیا تو بلاگ تو پھر بھی لکھے ہی جاتے رہے گے نا۔ تب کیسے تحریروں کی اطلاع نشر ہو گی؟
    آپکے خیال میں بلاگ کا کسی اہم ایگریگیٹر پر ہونا کتنا ضروری ہے؟

    ReplyDelete
  3. عثمان، پتہ چل گیا گھر بیٹھے کیسے سٹہ کھیلتے ہیں۔
    دو ہزار گیارہ کے تحقیقی پروجیکٹس اس وقت کچھ رک گئے ہیں نا گذیر صورت حال کی بناء پہ۔ لیکن امید کی جاتی ہے کہ اس ہفتے ان دوبارہ کام شروع ہو گا۔ دراصل ورک فورس ملنے کی وجہ سے میں نے سوچا کہ گھر میں کتابوں کی چھوٹی سی لائبریری کو ترتیب دے لوں۔ اسکے علاوہ بھی کچھ پروجیکٹس بغیر منصوبہ بندی کے نکل آئے۔
    شکر یہ ہے کہ بیشتر کامیابی سے مکمل ہو گئے۔
    پہاڑ کی بلندی دونوں طرف سے یکساں نہ تھی۔ اس لئے پچاس سیڑھیوں کا فرق آیا۔
    کلاس جوائن کرنے کی صورت میں آنے جانے میں بھی وقت لگے گا۔ اور وقت کم ہے مقابلہ سخت۔
    مہ رخ میرے قارئین ہیں ۔
    :)
    آپ نے نہ صرف ریاٹئر منٹ کا نوٹس دیا بلکہ لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ ورنہ آپکا خیال مجھے آیا تو تھا۔
    ان سب لوگوں کے بلاگ پہ جا کر پہلے لنک کاپی پیسٹ کروں تو ڈالوں۔ وقت ملنے پہ کرونگی۔
    شاید آج یا کل.
    :)

    ReplyDelete
  4. احمد عرفان شفقت صاحب، میں آپکو اپنا ذاتی تجربہ ہی بتا سکتی ہوں اور وہ یہ کہ روزانہ کے پیج ویوز پہ کوئ فرق نہیں پڑا۔ البتہ نئ پوسٹ کو توجہ حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ میری پرانی پوسٹس کو بھی آجکل ویوز ملتے ہیں۔ ورنہ پہلے صرف تازہ ترین کو ہی توجہ حاصل ہوتی تھی۔
    اگر بلاگ کسی ایگریگیٹر پہ ہو تو اسے تعارفی مراحل طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اسکے بعد بلاگ کے مواد میں قاری کی دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر قاری آپکے بلاگ میں دلچسپی لیتا ہے تو وہ اس تک پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ اگر نہیں لیتا تو کسی ایگریگیٹر پہ موجود ہونے کے باوجود لوگ اس پہ جانا پسند نہیں کرتے۔
    میں کچھ انگلش بلاگز پہ جاتی ہوں حالانکہ وہ کسی بلاگ ایگریگیٹر پہ نہیں ہیں۔ صرف اس لئے کہ مجھے وہ دلچسپ لگتے ہیں۔ بس ایک بلاگ میں بنیادی خوبی یہی ہونی چاہئیے۔

    ReplyDelete
  5. او جی چالیس کلو کی تو ہیں آپ ... اور کتنا دبلا ہونا ہے ؟ ورزش کی بجائے محض ورزش کا غم ہی کر لیا کریں یا پھر گھر کی سیڑھیاں ہی اوپر نیچے پھلانگ لیں۔ کافی نہیں ؟

    ReplyDelete
  6. آپکے بلاگ پر ٹریفک کے استحکام کی بڑی وجہ اوریجنل کانٹینٹ کا ہونا ہے۔ 33 ماہ میں 411 پوسٹس اوریجنل کانٹینٹ والی، یہ بڑی بات ہے۔ سال کی ڈیڑھ سو پوسٹس تو کاپی پیسٹ والے بلاگر بھی نہیں کر پاتے۔
    ٹریفک مانیٹر کرنے کے لیے آپ بلاگر کے ڈیشبورڈ پر جو سٹیٹس دیکھنے کا سلسلہ ہے وہی استعمال کرتی ہیں یا گوگل اینیلیٹکس وغیرہ بھی ؟

    ReplyDelete
  7. احمد عرفان شفقت صاحب، میں صرف ڈیشبورڈ کو دیکھ کر تسلی کر لیتی ہوں۔
    :)

    ReplyDelete
  8. عثمان، نہیں یہ کافی نہیں۔ اس سے اسٹیمنا نہیں بنتا۔ اسٹیمنا ہونا چاہئیے، جسمانی بھی اور ذہنی بھی۔
    :)

    ReplyDelete
  9. بھائی صاحب ہم کو تو سیارہ کی وجہ سے خبر نہ ہوئی ۔اب آئے ہیں تو پچھلے بلاگ بھی پڑھ رہے ہیں۔
    حالانکہ بلاگ ہم بھی لکھتے ہیں اور اچھا خاصا بے تکا لکھ کر بھی پوسٹوں کی تعداد دو پر مہینہ سے نہیں بڑھا سکے باقی ٹریفک کس بلا کا مار ہے اور لوگوں کو بلاگ پر کیسے لایا جائے یہ ہم کو نہیں پتہ ہم تو خود ہی اپنا کھول کھول کر ٹریفک بڑھائے جا رہے ہیں
    جوابات پڑھ کر اچھا لگا کہ کوئی تو ہے جو زندگی کو لائٹ لے رہا ہے ورنہ تو سیارہ کا نام افلاطون گاہ ہی کر دینی چاہیے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ