Monday, January 16, 2012

تہہ جام

سگنل کی لائٹ سرخ ہوئ تو میں نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے روک دیا۔ یہ کرتے ہوئے میری نظر فٹ پاتھ پہ بیٹھی تین لڑکیوں پہ پڑی۔ سات آٹھ سال کی یہ لڑکیاں اپنے درمیان کوئ چیز رکھے کھارہی تھیں اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی کا چہرہ اور تاثرات مجھے صاف نظر آرہے تھے۔ 
کھانے کے دوران باتیں کرتے ہوئے تھوک نے اسکے گلابی ہونٹوں کو مزید گلابی کر دیا تھا۔ اسکے گال موسم میں خنکی کی وجہ سے لالی لئے ہوئے تھے۔ کسی نے اسکے بالوں کو بلیچ کر دیا تھا اور یہ سنہری کالے بال اسکی نیلاہٹ لئے ہوئ آنکھوں کے ساتھ ایک دل کش منظر تخلیق کر رہے تھے۔ میں بس اسے دیکھتی ہی رہی۔  بہت زور سے ہنستے ہوئے دفعتاً اسکی آنکھیں میری آنکھیں سے چار ہوئیں۔ اب ان میں حیرانی اور شرم بھی گھل گئ تھی۔ اجنبی لوگوں کے دیکھنے پہ بچے اکثر شرما جاتے ہیں۔ میرے ہونٹوں پہ ہنسی ابھر آئ۔ وہ ہنس کر ہاتھ ہلانے لگی۔ میرا ہاتھ بھی اظہار مسرت میں اٹھا اور ہلنے لگا۔
سگنل کھل چکا تھا۔ اسکا ہاتھ اب بھی ہل رہا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں میں مسکراہٹ کے تبادے کے علاوہ کوئ دنیاوی کاروبار نہ ہوا تھا۔ سودو زیاں سے لاپرواہ صرف قدرت ہوتی ہے۔ ڈوبتا ہوا  سورج بغیر کسی خراج کے آسمان پہ دھنک بکھیرتا ہے، آبشار کے گرتے پانی میں روشنی بغیر کسی ستائیش کے قوس و قزح بناتی ہے، چاند ، ستارے آسمان کو سجانے کا کوئ کرایہ نہیں لیتے۔ قدرت فیاض ہے۔ کبھی کبھی انسان بھی ایسا ہی فیاض ہوتا ہے۔ میں بھی ایک فیاض  مسکراہٹ کو لئے آگے بڑھ گئ۔ 
میرے برابر بیٹھی تیرہ سالہ بچی نے جو آسٹریلیا میں پیدا ہوئ اور پلی بڑھی ہے مجھ سے پو چھا یہ لڑکیاں یہاں کیا کر رہی تھیں۔ میں چونک کر اس دنیا میں واپس آئ، جہاں ہر پل کیوں  اور کیسے کے سانپ منہ پھاڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔ 
وہ یا تو بھیک مانگ رہی ہونگیں یا پھر سگنل پہ کھڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتی ہونگیں۔ میں نے ڈرائیونگ کے تمام افعال منعکسہ کو بغیر سوچے سمجھے انجام دیتے ہوئے جواب دیا۔
مجھے یہ جان کر بے حد افسوس ہوا کہ اتنی پیاری بچی یہ کام کرتی ہوگی۔ ایسا کیوں ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں اسے تیسری دنیا کے ایک غریب ملک پاکستان کی معیشت اور اسکے باشندوں پہ اسکے اثرات سمجھانے لگی۔
اس ساری معاشی فلاسفی کے درمیان ایک سوچ ذہن میں رینگ گئ جب خوب صورتی پہ برا وقت پڑتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل  نرم کیوں ہو جاتے ہیں؟

14 comments:

  1. خوبصورتی پہ جب برا وقت آتا ہے تو وہ اور بھی خوبصورت ہو جاتی ہے۔
    تو بس ... لوگوں کے دل اور بھی نرم پڑ جاتے ہیں۔
    کیسا !!

    ReplyDelete
  2. بہت ہی اعلی لکھتی ہیں آپ بسسس؟؟؟ :) ۔۔۔۔۔ ایک بات اور آپ کو بتا دوں کہ آپ کے بلاگ پر جہاں گیس اور رینج روور کا تذکرہ ہے وہاں کمنٹ میں نے نہیں کیا تھا :(

    ReplyDelete
  3. عثمان، نہیں بد صورتی کے مقابلے میں خوبصورتی برے وقت کا زیادہ مقابلہ نہیں کر پاتی۔ ہمم توکیا خوبصورتی کے مقابلے میں بد صورتی زیادہ طاقت اور جذبہ رکھتی ہے۔

    ReplyDelete
  4. Mansoor Ijaz ku dekhain is video main 2:47 onwards. Buhut interesting role hai;

    http://www.youtube.com/watch?v=B0QvR1eP2yg

    ReplyDelete
  5. پہلی بات تو یہ کہ وجود صرف روشنی کا ہوتا ہے۔ اندھیرے کا نہیں۔
    دوسرا یہ کہ وقت اچھا ہو یا برا .. خوبصورتی کبھی بھی دیر پا نہیں ہوتی۔ یہ اپنے جوبن کی طرف بڑھتی ہے۔ کچھ عرصہ جوبن پر اور پھر زوال۔
    اب ٹھیک ہے ؟
    :)

    ReplyDelete
  6. سائینس تو اب ڈارک میٹر کی اصطلاح لے آئ ہے۔ یعنی اندھیرا اپنا وجود رکھتا ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ کائینات میں اندھیرا یعنی ڈارک میٹر کیوں اتنا زیادہ پایا جاتا ہے۔
    ہم یہ بات نہیں کر رہے کہ خوبصورتی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جب کوئ برا وقت آئے تو خوبصورتی زیادہ جلدی ہار مان لیتی ہے۔ مثلا سرسبزی و شادابی ۔ موسم اگر سازگار نہ ہو تو غائیب ہونے میں بہت کم وقت لیتی ہے۔ لیکن ایک بنجر مقام کو سر سبز بنانے میں کڑی محنت اور زیادہ وساءل چاہئیے ہوتے ہیں۔
    اب کیا خیال ہے؟
    :)

    ReplyDelete
  7. خوب صورتی پہ برا وقت پڑتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل نرم کیوں ہو جاتے ہیں؟

    اختلاف ہے اس بات پر مجھے:::::::::: کیوں کہ جس خوبصورتی کی آپ بات کررہی ہیں اس خوبصورتی کو ہمارے معاشرے میں ترس کی نگاہ سے کم اور شیطانیت بھری ہوس زدہ نگاہوں سےزیادہ دیکھا جاتا ہے۔ اس کے لئے ہر جگہ پامالی ہی پامالی ہے اور اس چیز کو منظر عام پر لانے کے لیئے کسی کے پاس ٹائم نہیں ہے۔ اب پتا نہیں یہ بات کس حد تک درست ہے میں نہیں جانتا پر جہاں تک میں نے Observe کیا ہے ایسا ہی دیکھا ہے اور سنا ہے۔

    Thanks,

    ReplyDelete
  8. او جی ڈارک میٹر میں ڈارک کوئی شے نہیں ہے۔ بس اکثر پارٹیکلز بشمول روشنی کے فوٹان اس مادے میں سے نکل جاتے ہیں یعنی آپ اس کے آر پار دیکھ سکتے ہیں۔ نیز اس مادے کے سب اٹامکل پارٹیکلز انیس سو بہتر کے سٹینڈرڈ ماڈل میں سے نہیں۔ اور اب تک شناخت نہیں ہوسکے (بوجہ ہائی انرجی تجربات کی مشکلات کے)۔ بس اتنی سے بات ہے۔ نہ اندھیرا ہے نہ ڈارک۔ محض میڈیا کی چھیڑی اصطلاح ہے۔
    اندھیرا روشنی کے نہ ہونے کا نام ہے۔
    بے ترتیبی ترتیب کے نہ ہونے کا نام ...
    اور اسی طرح بد صورتی خوب صورتی کی معدودیت کا نام۔

    اب پہلے تو آپ بدصورتی کا ازخود وجود ثابت کریں۔ باقی حساب بعد میں چکاؤں گا۔
    :)

    ReplyDelete
  9. عثمان، بھئ سادی سی بات ہے اسے گنجلک نہ بنائیں۔ ایک خوب صورت بچی بیٹھی ہوئ بھیک مانگ رہی ہے گاڑی صاف کر رہی ہے اسکے مقابلے میں ایک ایسی بچی آجائے جس کی رنگت کالی ہو، ناک نقشہ بھدا ہو، چہرے پہ چالاکی یا پکا پن ہو اور وہ یہ کر رہی ہو۔ ہر دو صورت میں ہم دو مختلف انداز سے سوچتے ہیں۔
    یہ تو ایک گداگر لڑکی کی بات ہے ہم ہسپتال کے ایمرجینسی سیکشن میں چلے جائیں اور وہاں کسی حسین و جمیل نوجوان کو جان لیوا حالت میں دیکھیں اور پھر اسکے مقابل کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو حسن و جمال کے مقررہ معیار پہ پورا نہ اترتا ہو تو ہمارا دل حسین نوجوان کے لئے زیادہ غمزدہ ہوجاتا ہے۔ اور ہم اس طرح کے جملے سنتے ہیں کس قدر پیارا لڑکا تھا اسکی حالت دل سے نہیں مٹتی۔
    جہاں تک بد صورتی کا وجود ثابت کرنے کی بات ہے وہ جب آپ شادی کے لئے بیگم تلاش کرنے نکلیں گے تو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ ان سے پوچھیں جو ہزاروں لڑکیوں سے ملنے کے بعد بھی کہتے ہیں کوئ حقیقی خوب صورت لڑکی دکھاءو۔
    تو بھائ صاحب حقیقت، ڈارک میٹر سے زیادہ ڈارک چیز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے لیکن صحیح سے پتہ نہیں چلتا کہ کس نوعیت کی ہے۔

    ReplyDelete
  10. ہاں ناں .. اس بات سے کب اختلاف کیا۔ بھکاری بچی اور بستر مرگ پر پڑا نوجوان حالت بیچارگی میں اور بھی کیوٹ معصوم اور مظلوم لگتے ہیں۔ بندہ کہہ اٹھتا ہے کہ ہائے ہائے یہ تو اس سے بہت بہتر کے مستحق تھے۔ فطرت نے کیا ظلم کیا۔ خوبصورت کو خوب تر حالات میں کیوں نہ رکھا۔ جبکہ جہاں خوبصورتی نہ ہو وہاں دلوں میں یہ جذبات نہیں اٹھتے۔
    باقی خوبصورتی کی جب بد تر حالات میں حفاظت نہ ہوگی تو زوال اور بھی تیز ہوگا۔

    ReplyDelete
  11. لو جی یہ توٹاپک ہی فلسفہ پر ہے اور ہم ٹھہرے کوھڑ مغز۔ سیدھے سادے سے۔ تو بات کچھ یوں ہے، عنیقہ جی آپ کی دوسری مثال سے بات بلکل سمجھ میں آ گئی ہے اور میں متفق ہوں کہ انسانی رویہ بلکل یہی ہے۔ ہم لوگ ایک خوبصورت نوجوان کو زخمی حالت میں دیکھ کر کہیں گے کہ بیچارہ کتنا خوبرو بندہ ہے جبکہ اسی جگہ پر اگر دس بیس اور لوگ بھی ہوں گے تو ان پر کوئی زیادہ توجہ نا دے گا۔ یہ واقع ہی انسانی رویوں کی ایک مثال ہے۔ شکریہ

    ReplyDelete
  12. عثمان، اچھا تو آپ نے فرمایا کہ بد صورتی وجود نہیں رکھتی۔ اگر بد صورتی وجود نہیں رکھتی تو پھر خوب صورتی بھی وجود نہیں رکھتی۔ کیونکہ جب ہم بد صورتی سے آگاہ نہیں ہوتے تو ہم یہ نہیں جان سکتے کہ خوب صورتی کیا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں صرف صورتیں باقی رہ جاتیں اور سب برابر۔ اس لئے ایک دفعہ پھر بد صورتی طاقتور ٹہرتی ہے کہ وہ خوب صورتی کا تعارف دیتی ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  13. ہم زمان و مکان نہ ہونے کی کیفیت محسوس نہیں کرسکتے۔ لیکن کیفیت نہ ہونے سے زمان و مکان کے وجود کا انکار نہیں ہوتا۔ جیسے مچھلی پانی نہ ہونے کی کیفیت سے واقف نہیں۔ تاہم پانی موجود ہے۔
    اگر ہر طرف ہر سُو روشنی ہی روشنی ہوتی۔ تو دیکھنے والے روشنی کے نہ ہونے کی کیفیت سے واقف نہ ہوتے۔ لیکن اس سے روشنی کے وجود پہ قطعی کوئی ضرب نہ پڑتی۔ روشنی موجود ہوتی۔ محض کیفیت معدوم ہوتی۔ تاہم دیکھنے والے تیز اور ہلکی روشنی کی کیفیت سے تب بھی واقف ہوتے۔

    اب آئیے حسن کی طرف .. یہ تہہ جام تو اور بھی گہرا ہے۔
    ہر طرف حُسن ہو تو دیکھنے والوں کی کیفیت محدود رہ جائے گی۔ تاہم وہ تب بھی حسین اور بہت ہی حسین میں فرق کرنے کے لائق ہونگے۔ عین ممکن ہے کہ وہ حسین بھکاری لڑکی کی بجائے بہت ہی حسین بھکاری لڑکی پر ترس کھائیں۔ تو یہ دراصل حسن میں تغیر ہے جو نہ صرف حسن کا وجود ثابت کرتا ہے بلکہ دیکھنے والے میں کیفیت بھی پیدا کرتا ہے۔ ورنہ اگر حسن معدوم ہو جائے تو تمام چہرے ایک جیسے ہو جائینگے اور ساتھ ہی مشاہدہ کرنے والے کی کیفیت بھی معدوم ہوجائے گی۔ بد صورت بھکاریوں سے بھری دنیا میں آپ کو ترس اس لئے نہ آئے گا کہ کیفیت موجود نہیں۔ حسن آپ کی کیفیت بھی لے چلا۔


    ہاں جی .. کیا فرماتی ہیں بیچ اس فلسفہ کے .. مائی ڈئیر استانی جی۔
    :)

    ReplyDelete
  14. اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے اپنی تحریر میں آسٹریلیا ٹیگ کیوں لگایا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ