Tuesday, January 24, 2012

میڈیا کے عقاب

سنتے ہیں کہ ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں ساحل سمندر پہ جانے والے جوڑوں سے نکاح نامہ طلب کرنے کے لئے وہاں پولیس والے عقاب کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ عقاب ناپید ہو جاتا ہے اور روح فنا رہتی ہے۔ مولوی صاحب کے مزے رہتے ہیں کہ دے دھڑا دھڑ نکاح پڑھا رہے ہیں کہ عورت اور مرد کا ایک ساتھ تفریح کے لئے نکاح نامہ ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں میاں بیوی کے علاوہ کوئ رشتہ اور تعلق باقی نہیں رہتا اور جنسیات کے علاوہ کوئ انسانی مسئلہ وجود نہیں رکھتا۔
جب ہم نے جامعہ کراچی میں قدم رکھا تو سنا کہ یہ کام وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمے تھا۔ کہنے والے کہتے کہ وہ تو بھلا ہو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن  کا جمعیت کے بھائ بندوں کے منہ سے نہ صرف یہ نوالہ چھین لیا بلکہ وہ جو ہر مرد کو مخاطب کرنے سے پہلے بھائ کا لاحقہ یا سابقہ اور خاتون کے نام سے پہلے بہن کہنا فرض عین  ہوا کرتا تھا وہ بھی لغت سے نکل گیا۔  ورنہ عالم یہ تھا کہ ہماری رشتے دار خاتون  اپنے ماموں کے ساتھ یونیورسٹی آنرز میں داخلے کے لئے پہنچیں تو انہیں جمعیت کے اسکواڈ کے سامنے حلفیہ بیان دینا پڑا کہ وہ جس مرد کے ساتھ ہیں وہ انکے ماموں ہیں۔
جماعتی روح جب بیدار ہوتی ہے سینوں میں تو عقابی روح والی کیفیات کیوں طاری ہو جاتی ہیں یہ مجھے نہیں معلوم؟
شاعر کہتا ہے کہ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔ شاعر کی اس بات کو میں دماغ کا خلل نہیں سمجھتی۔ پوری طرح سے یقین رکھتی ہوں۔
ضیائ پولیس سے جمعیت میں یہ روح پہنچی، پنجاب یونیورسٹی میں اب تک قائم ہے۔ لیکن جامعہ کراچی سے  جمعیت کا کنٹرول  ختم ہوا۔   اہل ایمان انکے جھنڈے تلے سے نکل کر میڈیا میں آگئے۔ اور شکل کچھ یوں بنی کہ ہرچینل سے عقاب نکلے گا تم کتنے عقاب مارو گے یا خدا جانے تم جتنے عقاب ماروگے۔
مایا خان ان عقابوں میں ایک ہیں۔ ڈیڑھ دو مہینے پہلے میں جیسمین منظور کا ایک شو دیکھ رہی تھیں وہ پولیس لاک اپ میں موجود ایک شخص پہ سخت ناراض ہو رہی تھیں اور غصے میں کہہ رہی تھیں کہ عدالت تمہیں بعد میں سزا دے گی میں تمہیں مار مار کر درست کر دونگی۔ اور میرے جیسا ناظر حیران بیٹھا کہ ایک اینکر پرسن کس طرح ایک پولیس کسٹڈی میں موجود ایک ملزم تک بآسانی رسائ حاصل کر کے اسے درست کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
ہمارا ملک کسی حیرت کدے سے کم نہیں۔ اس لئے ہر تھوڑے دنوں بعد حیرانی کے نئے تجربے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دفعہ اس ریس میں مایا خان جیت گئیں۔ مجھے انکا شو دیکھنےسے بالکل دلچسپی نہیں۔ فیس بک کی وجہ سے دیکھنا پڑا کہ کیا ہو گیا ہے بھئ۔ 
کیا دیکھتی ہوں کہ دو خواتین ہنستی مسکراتی ایک بینچ پہ بیٹھی ہوئ ہیں۔ ویڈیو کے لنک کو کلک کیا تومیڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ٹولہ جن میں سے کچھ مغربی لباس میں  اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ پارک میں تفریح کے لئے آئے ہوئے جوڑوں کے تعاقب میں یوں سرگرداں  جیسے ہم سانگھڑ کی جھیلوں کے پاس ایک دفعہ مگر مچھ تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ کراچی کے پارکس میں اب تک مگرمچھ نہیں چھوڑے گئے یہ شاید پہلا تجربہ کیا تھا میڈیا کے مگرمچھ چھوڑنے کا۔ وقت انتہائ مناسب، مگرمچھ سرد دنوں میں صبح صبح سرد پانی سے نکل کر ساحل پہ  دھوپ  سے اپنے آپکو سینکتے ہیں۔ ہمارا یہ ٹولہ ملک بے حیائ کی دھوپ میں سنِکنے واے جوڑوں کی تلاش میں تھا۔
پارک میں موجود لوگ ایسے سراسمیہ  کہ جیسے وہ سوئس بینکوں سے اپنا روپیہ نکال کر پارک میں بیٹھے گن رہے تھے۔ یا ایکدوسرے کو خود کش جیکٹس پہنا رہے تھے۔ اسی پہ بس نہیں ہماری اینکر نے ایک نقاب پوش خاتون کو ایسے پکڑ لیا جیسے وہ ان کا پرس چھین کر بھاگی ہو۔
   
پارکس میں اکثر ایسے جوڑے نظر آتے ہیں۔ انکی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کو حجاب پہن کر اپنے آپکو چھپانے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ انکے لئے زیادہ پر تعیش جگہیں موجود ہیں۔ وہ ان عوامی پارکس میں کیا کریں گے۔ مڈل کلاس بچے زیادہ تر مخلوط اداروں میں پڑھتے ہیں انہیں میل ملاقات کے لئے پارکس میں وقت ضائع کرنے کی فرصت نہیں۔ لے دے کر لوئر مڈل کلاس بچ جاتی ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ میڈیا کے ان شکاریوں کو اسی وجہ سےاتنی ہمت ہوئ۔ ورنہ یہ سب خواتین و مرد اپنے سے بڑے لوگوں کے جائز اور ناجائز لو افیئرز سے خوب اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر انکے سامنے انکی وہی حالت ہوتی ہے جس کے لئے مناسب لفظ استعمال کرنے کے لئے منا بھائ ایم بی بی ایس والے کی ٹپوری لغت کی مدد لینی پڑے گی۔
خیر، اس ٹولے میں اگر کسی شخص کی کمی مجھے محسوس ہوئ تو ایک مولوی صاحب کی تھی۔ اگر وہ ساتھ ہوتے اور گپ شپ لگاتے جوڑوں کو وہیں پکڑ کر  نکاح پڑھا دیتے تو یہ منظر نہ صرف ڈرامے کے کلائمیکس پہ پہنچ جاتا بلکہ  والدین خود ہی آئیندہ کے لئے حفاظتی اقدامات اٹھا لیتے۔  یوں کہ پسند کی شادی ہمارے والدین کے لئے ایک تازیانے سے کم نہیں ہوتی۔ چاہے اپنے بچوں کی شادی اپنی  پسند سے کروانے کے لئے وہ ایک مرد کو چالیس سال کا کر دیں۔ یا لڑکی کی شادی اسکی عمر سے دگنے، جاہل مرد سے کر دیں۔
شادی ہمارے یہاں ایک رومانی تعلق نہیں بلکہ ایک  جسمانی  اور کاروباری تعلق کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے اصل فریق شادی کرنے والے مرد عورت نہیں والدین ہوتے ہیں۔
ادھر خدائ نظام میں بڑی خرابیاں ہیں، مثلاً خدا ایک بے حس اور عاقبت نا اندیش کاریگر کی طرح اپنے کوزے پہ انسان تخلیق کئے جا رہا ہے وہ یہ تک خیال نہیں کرتا کہ اماں کو کترینہ کیف اور مادھوری جیسی بہو چاہئیے۔ آنے والے انسان کے بچے خوبصورت ہونے چاہئیے۔ وہ خود جمیل ہے لیکن جمال کو محفوظ کرنے کے منصوبے نہیں بناتا۔  سو جو لڑکیاں حسن کے اس معیار پہ پوری نہیں اترتیں لیکن انسانی تقاضوں کی وجہ سے چاہتی ہیں کہ انہیں بھی صنف مخالف کا ساتھ نصیب ہو وہ کیا کریں۔ وہ لڑکیاں کیا کریں؟ جنکے والدین کے پاس دینے کے لئے لمبا چوڑا جہیز نہیں ہے، وہ لڑکیاں کیا کریں؟ وہ لڑکے کیا کریں جو اپنے جبلی تقاضوں سے مجبور صنف مخالف کے پیچھے بھاگتے پھر رہے ہیں مگر والدین کو ابھی انکا صحیح بھاءو نہیں مل پا رہا۔  معاشرتی سطح پہ اتنے بڑے انسانی مسئلے کو اس وقت کوئ سمجھنا نہیں چاہتا۔
سو اگر اس غیر فطری ماحول میں نوجوان یہ نہ کریں تو کیا کریں؟
 میری یادداشت میں ایک ذاتی واقعہ ہے جس میں ایک باپ کو جب اسکے لڑکے کی شکایت کی گئ کہ وہ کس طرح ہماری بیٹی کو آتے جاتے چھیڑتا ہے اور اس سے اس لڑکی کی ریپوٹیشن خراب ہو رہی ہے اور اسکی شادی میں مسئلہ ہو جائے گا تو اسی شام کو لڑکے کے ابا اپنے لڑکے اور قاضی کو لے کر انکے گھر پہنچے۔ اور اپنے بیٹے سے آٹھ سال بڑی لڑکی کو گھر کے کپڑوں میں شادی کر کے اپنے گھر لے آئے۔ انکا بیٹا اس وقت بی کام کر رہا تھا۔ آج اس خوشحال  جوڑے کے تین بچے ہیں۔
والدین جو خود اپنے آپکو کسی بھی اخلاقی سدھار سے ماوراء سمجھتے ہیں وہ کس بل بوتے پہ اپنی اولاد کو سدھار سکتے ہیں۔  وہ کیسے یہ نعرہ بلند کر سکتے ہیں کہ والدین کو دھوکا نہ دو۔ آپ اپنی اولادوں کو، اپنی نسلوں کو دھوکا دے رہے ہیں جناب آپ کو بھی دھوکا ہی ملے گا۔
ادھر، میڈیا جو خود کسی اخلاقی پابندی کا اپنے آپکو ذمہ دار نہیں سمجھتا اور پروگرام کی ریٹنگ کے لئے ہر گری ہوئ حرکت کرنے کو تیار ہے۔ اگر اسکے نمائیندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو درست کرنے کا ٹھیکا لے کر خدائ فوجدار بن جائیں تو عوام تو ان سے کہیں زیادہ مضبوط اور تعداد میں زیادہ ہیں وہ کیوں نہ انہیں درست کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ 
اگر کیمرہ کریو کے ساتھ موجود اس ٹولے کے آگے چند نوجوان آ کر کھڑے ہوجاتے کہ یہ کیا بے حیائ ہے کہ خواتین ٹی شرٹ اور ٹراءوژرز جیسے مغربی لباس میں پارک میں مردوں کے ساتھ  سر عام بھاگتی پھر رہی ہیں تو کیا ہوتا؟ مجھے تو مزہ آتا، اگرچہ کہ مجھے انکے اس لباس سے کوئ تکلیف نہیں ہوتی۔ لیکن ایسے دو رُخے لوگوں کے ساتھ یہی ہونا چاہئیے۔ آپکے لئے ہر چیز جائز اور صحیح لیکن اپنے آپ سے کمزور شخص کو دبانے کا کوئ موقع آپ ضائع نہ جانے دیں اور بنیں بڑے کردار والے مبلغ اور مصلح۔
وقتی فائدہ اور دور اندیشی میں یہی فرق ہے۔ دور اندیشی کہتی ہے کہ کوئ بھی ایسا قدم کیوں اٹھاءو جو خود پہ پڑے تو سہا نہ جائے۔ وقتی فائدہ کہتا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو کل کی کل دیکھی جائے گی۔
لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے کل کو آنے سے روک دیا ہے، یہاں ہر گذرا ہوا دن، ہر آنے والا دن ہر چیز آج بن گئ ہے۔آج سے نکل پائیں گے تو کل دیکھیں گے۔ پچیس سال پہلے کی ضیائ پولیس، اب میڈیا پہ آ گئ ہے۔ نگاہ منتظر ہے کہ جمیل اور جمیلہ اب کیا راستہ چنیں گے؟

14 comments:

  1. نفسِ مضمون سے قطعِ نظر سیارے پر واپسی مبارک ہو

    ReplyDelete
  2. مبارک ہو جی۔۔۔آپ کا بلاگ سیارہ پر دوبارہ آ گیا ہے

    ReplyDelete
  3. ماضی سے حال میں فرق صرف یہ پرا ہے کہ چھاپہ مار کے ہاتھ میں ڈنڈے کی بجائے مائیک اور کیمرہ ہے ۔
    میرا خیال ہے ایک اس شو کو دیکھ کر کوئی نۃ کوئی مایا خان کی نجی زندگی میں جھانکنے کے لیئے اپنا کیمرہ اٹھا لے گا تاکہ ناظرین یہ جان سکیں کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کب کیا اور کہاں کہاں کرتی ہیں

    ReplyDelete
  4. ہم سمجھتے تھے ایک ہم ہی پاغل ہیں اس زمانے میں پر اللہ بھلا کرے مایا خان کا اب لگتا ہے اور بھی ہیں ہم سے

    ReplyDelete
  5. hahah lol... what a bunch of morons!!

    Look how happy they are in the end and talking about how successful they were in scaring away the couples ...funny ... they seems like some
    typical bitter Nands and saas ... who are enjoying after teasing their not so beloved bahooo ... lol

    Words cant express the irony in this stupid video. Media is selling dating culture and glamor but concerned abt ordinary ppl dating. The host infact acted in a drama with Ahmed Jehanzib and you all know the story..
    leila majnooo something.. But now she is all modest and promoting no date culture lol

    A lot can be written on this but its not worth the ink. This country is full of filth and at all levels hypocrisy prevails. losers!!!!!

    The very last interview of a man was only sane thing in this vdo. :)

    A lesson we all need to remember;
    "He who has committed no sin should throw the first stone"

    ReplyDelete
  6. گمان ہے کہ مایا خان ان حرکتوں کے ذریعہ اپنی ادھوری حسرتوں کی تسکین کر رہی ہیں۔

    ReplyDelete
  7. thts y i hate morning shows and thr hosts...all crap..bogus and rubbish...and to sell their shows..they can lean down to any level possible...this is a fine example of getting cheap publicity..!

    now maya khan...

    wht a b***ch...100 chohay khaa kar billi hajj ko chalee..

    she doesnt have the balls (actually she cant) but i mean...doenst have the guts to go to an elite dating place in zamzama...cz apparently THAT dating is fine...since they are elite and burgers..so they can do it..but fr the middle class ppl...they dont have the right to date...in hijab..in parks..so they have to leave this crapp fr ppl like maya khan...who looks good in doing this...you know...dating and then all that sh**...but middle class ppl...oh no..sorry sir...you have to wait fr atleast 50 years or so...whn we have equality and respect culture.......this dating sh** is only fr ppl like maya khan...THEY can not only date...THEY can have se*...THEY can have abortions...and THEY can afterwards hire a psychiatrist to treat them...cz they are THEY...!!

    i use to hate roznama UMMAT fr doing this sort of crap when they go to safari park and hit innocent dating couples by taking thr pictures....but...this is pakistan my friends...!!..yeh paisay lay kr apnee maa ko bhee baych saktay hain..to maya khan aisa program karnay say kyun mana karay gee..!

    to hell with hypocrites...shame on you maya...infact i dont feel the taste in giving disgrace in english...so here is a line fr you maya khan..

    ku&&y ki maut mar jaa gas**tee..!

    aaaaaahhh...i m kool now..!

    ReplyDelete
  8. مانا کہ یہ سب غلط ہے کیونکہ بعض مرتبہ ایسی حرکتوں کی وجہ سے کچھ ناقابل تلافی نقصان اٹھانے پڑ جاتے ہیں ۔۔ اور اگر مایا جی کو اتنا ہی احساس ہے ان غلطیوں کا تو پھر کیون نا اسٹارٹ کریں کراچی میں ایریا 51 سے جہاں انکے لئے بہت کچھ موجود ہے ۔۔ مگر افسوس وہاں انکی “کلاس“ کے لوگ جو ہوتے ہیں جنکی نظر میں یہ “آزاد“ معاشرے کے مادر پدر آزاد بچے اپنی آزادی کو انجوائے کرتے ہیں۔ اور اگر انہوں نے وہاں ایسا کچھ کیا تو مایا جی مائع مائع ہو جائیں گی

    ReplyDelete
  9. پرانے وقتوں میں سنگر کپڑے سینے والی مشین کا پی ٹی وی پہ اشتہا ر آتا تھا۔۔۔جس میں ایک آنٹی بھاگتی ہوئی آتی تھیں بغیر دوپٹے کے۔۔۔۔۔۔۔نئے نئے نوجوان بالغ وہ اشتہار دیکھنے کیلئے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔یہ آنٹیاں تو پارکوں میں دوڑتی پھر رہی ہیں۔۔نئے نئے بالغوں کے دلوں پہ کیا گذرتی ہوگی۔۔۔۔ضیا کی بقایاجات تو خیر یہ نہیں ہیں۔۔اور نا ہی جمیعت یا جماعت اسلامی قسم کی جنس یہ روشن خیال ذہنی مریض ہیں ۔کمزوروں پہ چڑھ دوڑنے والے۔۔۔۔انہی کے طبقہ میں سر عام تعارف کرایا جاتا ہے۔۔جی یہ میرے بوائے فرینڈ ہیں۔

    ReplyDelete
  10. گمنام ، آپکو نہ لگے یہ ضیاء کی باقیات کا پیسے سے اختلاط کے بعد کا نمونہ ہے۔ اک طرف اسکا گھر اک طرف میکدہ۔ دونوں ہی کشتیوں کے سوار ہیں۔ صرف میکدے کے ہو نہیں سکتے کہیں مسجد میں نقصان نہ ہوجائے۔ صرف مسجد میں نہیں رہ سکتے، دنیا تو دیکھ لیں۔ اپنے بوائے فرینڈ کا تعارف کرانے کے بعد پارکس میں ہونے والی اس بے حیائ پہ افسوس بھی کرتے ہونگے۔
    آج کے نئے بالغ انٹر نیٹ سے دل بھر لیں تو انکو دیکھیں۔ شاید آپکو نہیں معلوم کہ فحش سائیٹص دیکھنے میں پاکستان کا کون سا نمبر ہے۔ معلومات اپ ڈیٹ کریں۔ سنگر مشین والے بھی بہت سے ماڈل لے آئے ہیں اسکے بعد۔

    ReplyDelete
  11. منطقی مغالطوں پر مبنی اس تحریر کی 'ٹرین آف تھاٹ' کا بین السطور کلیہ، ہمارے ناقص فہم کے مطابق یہ ہے کہ چونکہ ذرائع ابلاغ کی فلاں محترمہ کا طرز عمل غلط ہے لہذا امر بالمعروف و نہی عن النکر کا عمومی فریضہ بھی کسی کام کا نہیں۔ کیونکہ فحش سایٹس دیکھنے کا رجحان عام ہو رہا ہے لہذااس کے فطری ہونے میں کیا کلام ہے، اس امر کی بھی مکمل آزادی ہونے چاہیے۔ چونکہ جہیز کی لعنت اور اسراف معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں، اس کے رد و ٹکراو سے اچھا ہے کہ کہ جبلی خواہشات کی تسکین کے لیے مردوزن کے بلاروک ٹوک باہمی اختلاط کو قدرتی بات سمجھا جاے اور اسکی جائز ذرائع سے تکمیل کے لئے مذہب نے جوطریقہ بتایا ہے اس کا تمسخر اڑایا جاے۔ ساتھ ہی ضیا الحق اور ملا مخالفت تڑکا لگا لیا جاے تو کیا ہی بات ہے، واہ واہ کے ڈونگرے برسے اور لبرلازم کی جے جے کار ہو،لیکن ہمیں یہ فارمولا پلاٹ جسے حسب مراتب جدیدیت کا ہر علمبردار استعمال کرتا نظر آتا ہے، بقول پطرسی میبل "زرا ڈھیلا لگتا ہے"۔

    جامعہ کراچی میں بفضل تعالی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کا اکثر و بیشتر موقع ملا۔کبھی فَلیُغَیرہُ بیَدِہ کا وقت نا آیا، احسن طریقے سے اپنا مدعا پیش کیا کہ یہ قبیح عمل مادر علمی کے تقدس و مذہبی روایات کے منافی ہے،افراد نے ہمیشہ تعاون کیا۔ لبرلزم کی تحریک کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ کسی نا کسی بہانے شعائر دین کو "گلٹ بای ایسوسیشن" کا نشانہ بناءیں تاکہ اسی بہانے مذہب پر سب و شتم کاموقع ہاتھ آے۔ آج یہ محترمہ اینکر پرسن بہانہ ہیں، کل کوئ اور ہوگا۔

    ReplyDelete
  12. عدنان مسعود صاحب، انسان نے فکر کا بھی ارتقائ سفر طے کیا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ہم میسر حقائق پہ بات کریں۔ مذہب اس وقت کچھ نہیں کر سکتا جب تک حقائق کو اصل بنیادوں پہ تسلیم نہیں کر لیا جائے۔
    امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حدیں ہیں اور ہر شخص اسکا اہل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہر شخص اسے کرے گا تو سوائے منافقین کی جماعت تیار ہونے کے کچھ نہیں ہوگا۔ اس میں ہم ماشاءاللہ اسی وجہ سے خود کفیل ہیں۔ اور عالم یہ ہے کہ جو شخص ساری ساری رات کسی نامحرم خاتون سے فون پہ گفتگو فرماتا رہتا ہے وہ بھی سارا دن امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں دوسرے نوجوانوں کو۔ اسکا تو میرا خاصۃ مشاہدہ ہے جامعہ کراچی میں ایک طویل عرصہ گذارا ہے۔
    اس صورت میں آپکو یہ دین کا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مذاق نہیں لگتا۔
    اس لئے میں تو اسکے قائلین میں سے نہیں کہ خود کچھ بھی کریں لیکن امر بالمعروف وہ نہی عن المنکر کی ٹیم کا حصہ بنے رہیں۔ اس لئے کہ اس سے فاشسٹ روح کی نہ صرف تسکین ہوتی ہے بلکہ روحانی مدارج بھی بلند ہوتے ہیں۔
    اسی طرح عملی زندگی کے حقائق اور تقاضوں سے صرف نظر کر کے افریقہ کے کسی پسماندہ علاقے میں رائج کسی قبائلی مذۃب کی طرح جدید دنیا پہ صرف مذہبہ نظریات کیسے نافذ کر سکتے ہیں اس دین کے جو اپنے آپکو جدید کہتا ہو۔ کیا آپکو نہیں لگتا کہ جب اس طرح کی باتیں کہی جائیں تو دراصل یہ گفتگو اسلام کے متعلق نہیں بلکہ عہد قدیم کے مظاہر قدرت سے خوفزدہ انسان کے مذہب کی بات زیادہ لگتی ہے۔
    اگر انسان اور اسکی فطرت کا مطالعہ اور مشاہدہ اب مذہب کی رو سے خلاف قانون قرار پا جائے تو ضرور ایسا کریں لیکن ایسا کر کے محض مذہب سے انسان کو دور کیا جائے گا۔ کیونکہ ایسے مذہب کا کیا فائدہ جو حل نہیں دیتا، اگر وہ کوئ حل دیتا ہے تو وہ جدید دنیا کے ہم آہنگ نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ دین ہے جو ڈیڑھ ہزار سال قبل فریز کر دیا گیا ہے۔ جو لوگوں کو اخلاقی طور پہ بہتر ہونے پہ مجبور نہیں کرتا، جو معاشرے کے طاقتور لوگوں کو مزید طاقت دیتا ہے، جو والدین کے اعلی حقوق متعین کرتا ہے اور انہیں جو فرائض دیتا ہے اس میں بھی اولاد کو اپنے فائدے کے لئے قابو رکھنے کے گُر ہوتے ہیں، جو محترم لوگوں کو مزید محترم بناتا ہے جو کمزوروں کو مزید دباتا ہے، اور جب وہ کمزور کو کوئ حق دیتا بھی ہے تو اسکے بدلے میں ان سے مزید عاجزی چاہتا ہے، جو انسانی فطرت اور اسکے تقاضوں کو تسلیم کرنے سے بالکل انکاری ہے۔ اس مذہب پہ تو بس طالبان ہی عمل کروا سکتے ہیں۔
    ہر عقل اور شعور رکھنے والا انسان اس سے بغاوت کرے گا اور اسے لبرل قرار دیا جائے گا۔ مجھَ لگتا ہے انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا۔

    ReplyDelete
  13. ’’ضیائ پولیس سے جمعیت میں یہ روح پہنچی، پنجاب یونیورسٹی میں اب تک قائم ہے۔ لیکن جامعہ کراچی سے جمعیت کا کنٹرول ختم ہوا۔‘‘

    یہ آپ کو کس نے کہہ دیا؟ پہلے جیسا کنٹرول تو شاید اب قائم نہیں لیکن یہ چھاپے مارنے کا کام اب بھی جاری ہے۔ ہمیں تو جامعہ کراچی میں اکثر ایسے واقعات پتا چلتے ہیں۔

    ReplyDelete
  14. boring and to long to be read

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ