Tuesday, January 31, 2012

تقدس سے باہر-۱

تغیر کو پسند کرنا انسانی مزاج ہے۔ اسکے باوجود کہ دنیا کی تمام تہذیبیں اپنے زوال تک تغیر کے خلاف جد و جہد کرتی رہیں۔ اس لئے کہ تغیر کے ساتھ ایک ان دیکھا خوف موجود ہوتا ہے جبکہ جمود سے مانوسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جمود کچھ انسانوں کو اتنا چالاک کر دیتا ہے کہ وہ معاشرے پہ قابو پا لیتے ہیں اور اسے جمود سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔
معاشرتی جمود کے خلاف انسان ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ کبھی یہ انبیاء ہوتے ہیں، کبھی اولیاء ، کبھی مصلح اور کبھی انقلابی۔ ایک لا دین شخص کی نظر سے دیکھیں تو ان سب میں کوئ فرق نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی وہ انکی ذہنی قوتوں، مشاہدات اور انکی حکمت عملی کا قائل ہوتا ہے اور ایک دیندار شخص سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا پہ یقین رکھنے والا جس حکمت عملی اور ذہانت کو خدا کی عطا کردہ صفت سمجھتا ہے اوراللہ کے کام اللہ ہی جانے کہہ کر فارغ ہوتا ہے وہاں ایک لادین شخص، اسے اس شخص کے ذاتی وصف میں شمار کرتا ہے اور تجسس میں مبتلا ہوتا ہے کہ ایک اتنا بڑا انقلاب لانا اس کے لئے کیسے ممکن ہوا۔
اگر ہم رسول اللہ کو ایک لادین شخص کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں انکی حکمت اور حکمت عملی دونوں سے متائثر ہونا پڑتا ہے۔ رسول اللہ کے اعلان نبوت سے پہلے اس معاشرے کی حالت دیکھیں جہاں وہ موجود تھے۔
اب ہم اس شخص کے ساتھ چلتے ہیں جو انہیں نبی تسلیم نہیں کرتا اور نہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئ غیبی طاقت انکی مدد کر رہی تھی کیونکہ وہ کسی غیبی طاقت کے وجود پہ یقین ہی نہیں رکھتا۔  پہلے ہمیں اس معاشرتی پس منظر کو دیکھنا پڑے گا جس میں رسول اللہ نے آنکھ کھولی۔
اگرچہ کہ مورخین عرب کا دعوی ہے کہ عرب کے کچھ حصے ایک زمانے میں خاصی ترقی کر گئے تھے اور اسکے آثار بعض آثار قدیمہ سے بھی ملتے ہیں۔ لیکن عرب کے اصلی تمدن و تہذیب میں یہ حالت نہ تھی۔ اسکا ثبوت اسکی زبان سے مل سکتا ہے۔ عربی خاصی وسیع زبان ہے لیکن جن چیزوں کا تعلق تمدن اور اسباب معاشرت سے ہوتا ہے ان کے لئے خالص عربی الفاظ نہیں ہیں۔بلکہ ایران یا روم سے مستعار لئے گئے ہیں۔ مثلاً درہم وہ دینار غیر زبان کے الفاظ ہیں درہم یونانی لفظ ہے جو کہ انگریزی میں ڈرام ہو گیا۔ چراغ جیسی معمول شے کے لئے لفظ چراغ کو سراج بنایا گیا۔ کوزہ کے لئے کوئ لفظ نہیں کوزہ کو کوز کر لیا گیا۔ لوٹے کو ابریق کہتے ہیں جو آب ریز سے بنایا گیا۔ تشت بھی ایک فارسی لفظ تھا جسے عربی میں طست کر لیا گیا۔ پیالہ کو کاسہ کہتے ہیں یہ فارسی سے لیا گیا۔ پائجامہ کو سروال کہتے ہیں جو شلوار کی بگڑی ہوئ شکل ہے۔
جب ایسی ایسی چھوٹی باتوں کے لئے الفاظ نہ تھے تو تمدن کے بڑے سامان کے لئے کہاں سے لفظ آتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب نے کسی زمانے میں جو ترقی کی تھی وہ ارد گرد کے ممالک سے متائثر ہو کر کی تھی سو جو علاقے دور تھے وہ اپنی اصل حالت پہ رہ گئے۔
احادیث صحیححہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے تک عیش و عشرت کے سامان بہت کم تھے۔ اس زمانے میں گھروں میں رفع حاجت کے لئے جائے ضرور تک نہ ہوا کرتی تھی اور خواتین بھِ رفع حاجت کے لئے گھروں سے باہر جایا کرتی تھیں۔ ترمذی باب الفقر میں ہے کہ اس وقت تک چھلنیاں نہ ہوا کرتی تھِ اور بھوسے کو اناج سے الگ کرنے کے لئے پھونکوں سے اڑایا جاتا تھا۔۔ جو بچ جاتا وہی آٹا کہلاتا تھا۔ احادیث سے ہی پتہ چلتا تھا کہ اس وقت رات کو گھروں میں چراغ نہیں جلاتے تھے۔ ابو داءود میں ایک صحابی سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تھا لیکن میں نے کبھی آپ سے حشرات الارض کے حرام ہونے کا نہیں سنا۔ اگرچہ محدثین کہتے ہیں کہ ایک راوی کے نہ سننے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ واقعی میں اسکی حرمت نہیں تھی۔ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب حشرات الارض کھاتے تھے۔ عرب تاریخ اور ادب میں یہ واضح طور پہ موجود ہے کہ عرب کھنکھجورا، گوئے، گرگٹ اور جانوروں کا چمڑا بھی کھاتے تھے۔

جاری ہے۔
نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی سے مدد لی گئ ہے۔ اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب۔

9 comments:

  1. ہیں۔۔۔ یہ کیا کر دیا بلاگ کو؟ سب کچھ تبدیل؟ فونٹ بھی گیا۔ آنکھوں کو جھٹکا سا لگا وہ جانا پہچانا سے سب غائب پا کر۔۔۔

    ReplyDelete
  2. احمد عرفان شفقت صاحب، یہ سب کچھ میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ میری کاہلی تو یہ تھی کہ اگلے پانچ سال بھی وہی چلتا۔ لیکن شاید بلاگ سپاٹ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو گیا تھا پرانی تھیم کے مختلف فونٹس اور فارمیٹنگ ادھر ادھر ہو گئ رھی۔ ادھر میرے کمپیوٹر کے ساتھ بھی کچھ مسائل ہیں سب سے اہم مسئلہ اسکی یاد داشت کا ہو گیا ہے۔
    میری ذرا سی غلطی سے بلاگ کا نقشہ ربدیل ہو گیا اور فونٹ یہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ لیکن اب جیسے جیسے وقت ملے گا اس پہ کام کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے مدد کرنے کی کوشش کی لیکن شاید میرے کمپیوٹر میں مسائل کی وجہ سے ان پہ عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔ بہر حال کوشش جاری ہے کہ کم از کم فونٹ بحال ہو جائے۔

    ReplyDelete
  3. فونٹ کو واپس نستعلیق کرنے اور باقی ٹیمپلیٹ کو بھی راہ راست پر ڈالنے کا ایک فوری نسخہ یہ ہے کہ اس ٹیمپلیٹ کی بجائے کوئی اردوایا ہوا ٹیمپلیٹ استعمال کیا جائے۔
    اگر آپ چاھیں توان دو لنکس سےاپنی پسند کا کوئی ٹیمپلیٹ اپنے ڈیسکٹاپ پر ڈاونلوڈ کر کے اپنے بلاگر میں اپلوڈ کرسکتی ہیں۔ یہ اردوائے ہوئے ٹیمپلیٹس ہیں۔
    اس لنک پر کوئی دس ٹیمپلیٹس کے لنکس ہیں

    http://yasir5260.blogspot.com/2011/12/10-googlo-10-urdu-template.html

    دوسرا لنک یہ ہے

    http://urdutheme.blogspot.com/search/label/Blogger%20Urdu%20Theme

    دیکھا جائے تواردوایا ہوا ٹیمپلیٹ ہی اردو بلاگ کے لیئے موزوں رہتا ہے ۔

    ReplyDelete
  4. یہ کمبخت کچھ لوگ تقدس سے باہر نکل نکل کر کچھ لوگوں کو ٹینشن کیوں دیتے رہتے ہیں؟ فتووں سے نہیں ڈرتے کیا؟

    ReplyDelete
  5. ۔۔۔لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب حشرات الارض کھاتے تھے۔ عرب تاریخ اور ادب میں یہ واضح طور پہ موجود ہے کہ عرب کھنکھجورا، گوئے، گرگٹ اور جانوروں کا چمڑا بھی کھاتے تھے۔۔۔۔۔
    آپ کی سوئی بار بار عربوں پر کیوں رک جاتی ہے اور یہ آخری لائینں آپ کے مضمون کی یہ ان کے لئے آپ نے کسی حڈیث کا حوالہ نہیں دیا؟؟؟اور ایک اور بات رسول اللہ ﷺ کے نام منارک کے ساتھ ﷺ کا اضافہ ضرور کیا کریں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. نہیں میری کئ سوئیاں ہیں ان میں سے صرف ایک پہ آپ نے نظر رکھی ہوئ ہے۔ شکوہ تو مجھے کرنا چاہئیے کہ آپ کی سوئ ایک جگہ کیوں اٹکی ہوئ ہے؟
      آپ نے یہ بات کہاں سے اخذ کی کہ میں حدیثوں کے حوالے دینے کے مرض میں مبتلا ہوں۔ آپ نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ سیرت النبی کچھ اور چیز ہے اور تاریخ عرب بالکل ایک علیحدہ چیز، عربوں کی شان میں کمی سے آپکو کیوں تکلیف ہوئ؟
      میرے اردو کی بورڈ میں ایسی کوئ کی نہیں جس کے دبانے سے پورا صلعم لکھا ہوا آجائے۔ بار بار اتنی تفصیل سے نہیں لکھنا چاہتی۔ وقت کی کمی ہے میرے پاس۔
      ویسے ایسی کوئ حدیث یا قرآنی آیت جس میں یہ فرض قرار دیا گیا ہو کہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور لکھا جائے۔ صحیح بخاری میں جتنی احادیث ملتی ہیں ان میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ انہیں مخاطب کرنے والے انکے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور لگاتے تھے۔ کسی ایک کا حوالہ آپ بھی دیجئیے۔

      Delete
  6. احادیث کا حوالہ دینا آپ کی نظر میں ایک مرض ہے ؟ پہلی بار یہ بات سنی اہل عرب کے خلاف بات پر کسی بھی ضعیف سے ضعیف اہل ایمان کو تکلیف ہی ہو گی۔
    رسول پاکﷺ کے نام مبارک کےساتھ پورا ﷺ لکھنا چاہیئے تا کہ پڑھنے والا بھی اسے پڑھے اور اگر نہ لکھے تو
    ایسی کوتاہ قلمی سخت محرومی ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ہاں جہاں اعمال کم ہوں وہاں حدیثوں کے حوالے ہی رہ جاتے ہیں تاکہ سامنے والا بندہ منہ ڈال کر بیٹھ جائے۔ اس لحاظ سے اسے مرض ہی کہنا چاہئیے۔
      کلمہ ء طیبہ جب کہیں لکھا جاتا ہے تو کیا اس میں محمد کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا جاتا ہے؟ کیا کلمہ پڑھنے والے محروم رہتے ہیں۔ محروم تو انہیں رہنا چاہئیے جو رسول کی بتائے ہوئے اخلاق پہ تو عمل نہ کر سکیں لیکن انکے نام کے بارے میں بحث فرماتے رہیں۔
      لیجئِے عرب ایک عیاش قوم ہے، جنسی برائیوں میں مبتلا ہے، عورت کو جنس کے علاوہ کسی اور نظر سے دیکھنا انکے لئے ناممکن ہے۔ عقل سے اتنے عاری کے خدا نے انکو تیل کی صورت جو خزانہ دیا وہ بھی کفار کے بینکوں میں پہنچا دیا یا انکی عورتوں کے حصول پہ لگا دیا۔ یہی نہیں بلکہ بلا کے شراب نوش۔
      اب فرمائیے کیا اہل ایمان کے ایمان کو انکی ان برائیوں سے تکلیف ہوگی۔
      آپ شاید عربوں کے علاوہ کسی سے تعلق نہیں رکھتے۔

      Delete
    2. دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان ہیں جو عربوں کو پسند نہیں کرتے۔ انکے ایمان کے بارے میں آپکا کیا فتوی ہے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ