Friday, May 11, 2012

جامعہ کراچی کے گدھ

بچے اگر ماں باپ کا نام روشن کریں تو یہ والدین کے لئے قابل فخر بات ہوتی ہے لیکن اگر والدین بھی کوئ قابل فخر کارنامہ انجام دیں تو کیا اولاد کا سر بھی فخر سے بلند نہیں ہو جاتا ہے؟
  یہی تعلق ان جگہوں سے ہوتا ہے جہاں سے ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں سے ہم اپنے ہونے کا مطلب سمجھتے ہیں۔ بقول سکندر اعظم، میرا جسمانی باپ مجھے اس دنیا میں لایا اور استاد یعنی میرا روحانی باپ مجھے واپس آسمانوں پہ لے گیا۔ ہماری مادر علمی اگر ترقی کے زینوں پہ نظر آئے تو ہم بھی فخریہ کہتے  ہیں کہ یہ ہے وہ ادارہ جہاں سے ہم نے تعلیم حاصل کی۔ 

اورمیرا نہیں نجانے کتنے افراد کا یہ احساس اس وقت چکنا چور ہوا جب جامعہ کراچی ایچ ای سی کی ملک کی دس بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں جگہ نہ پا سکی۔
ایک بار پھروہی سوال کیا وہ اسکی حقدار ہے؟
کسی بھی تعلیمی ادارے میں تدریسی عمل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیئت رکھتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں زیادہ تر تعداد ان اساتذہ کی ہے جو نہ صرف پی ایچ ڈی  نہیں ہیں بلکہ جنہیں مستقل ہونے کا اعزاز بھی حاصل نہیں۔ یہ کو آپریٹو ٹیچرز کہلاتے ہیں۔  ایک مستقل استاد کی نسبت انہیں برائے نام  تنخواہ ملتی ہے اور کسی قسم کے  دوسرے فوائد حاصل نہیں ہوتے، مثلاً سالانہ چھٹیاں۔ انہیں جس وقت چاہے نکال کر باہر کیا جا سکتا ہے۔
ان کو آپریٹو اساتذہ کا انتخاب کیسے عمل میں لایا جاتا ہے؟
ضرورت مند ڈپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ پہ ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ اسے وہی جان پاتے ہیں جو روزانہ اس ڈپارٹمنٹ سے گذرتے ہیں۔ ڈپارٹمنٹ سے تعلق نہ رکھنے والے اس سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔ اس طرح اسکی اطلاع بہت محدود لوگوں کو ہوتی ہے اور ان کی بڑی تعداد وہ ہوتے ہیں جو اس وقت ڈپارٹمنٹ میں موجود ہوتے ہیں۔
انتخاب ، ڈپارٹمنٹ کا چیئر مین سینیئر اساتذہ کے مشورے سے کرتا ہے۔ اس طرح کو آپریٹو ٹیچرز کا انتخاب سینیئر اساتذہ کی پسند نا پسند پہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بہر حال ان ٹیچرز کو سینیئر اساتذہ کے ماتحت کام کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات یہ سینیئر اساتذہ کے زیر نگرانی نام نہاد ایم فل یا پی ایچ ڈی کے طالب علم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹس میں کی جانے والی  پی ایچ ڈی کی کوالٹی پہ پھر کبھی بات ہوگی۔
  انکی صورت میں سینیئر اساتذہ کو ایک غلام مل جاتا ہے جو اپنی نوکری پکی کروانے کے چکر میں انکے ہر اشارے پہ ناچتا رہتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بد ترین بات یہ ہوتی ہے کہ ان  کو آپریٹو  ٹیچرز کی تعلیمی استطاعت عموماً ماسٹرز ہوتی ہے۔
اگرڈپارٹمنٹ سے باہر کا کوئ پی ایچ ڈی کو آپریٹو ٹیچر کے طور پہ کام کرنے کے لئے آ بھی جائے تو سینیئر اساتذہ اپنی سازشی ذہانت کے وہ کرشمے دکھاتے ہیں کہ وہ بھاگ لینے میں ہی عافیت جانے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جامعہ میں سینیئر اساتذہ کی زیادہ تر کھیپ اوسط سے نیچے کی صلاحیتوں پہ مبنی اشخاص کی ہے جو ذرا بھی با صلاحیت شخص سے ڈر جاتے ہیں۔
تو ان بےچارے کوآپریٹو اساتذہ یا طالب علموں کو سینیئرٹیچر کے آگے دم مارنے کی بھی مجال نہیں ہوتی کیونکہ اوّل انکی تعلیمی استطاعت ہی نہیں ہوتی  دوئم یہ کہ باہر کی دنیا کا کچھ تجربہ بھی نہیں ہوتا سوئم یہ کہ اپنے استاد کے آگے کوئ کیسے  دم مار سکتا ہے لازماً اسے انکے کرپشن میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
سمسٹر کے شروع میں ہر سینیئرٹیچر اپنی مرضی کا کورس لیتا ہے اور اپنی مرضی کا کو آپریٹو ٹیچر تاکہ اس کارسوخ مضبوط رہے۔  اور وہ ایک ہی رٹے ہوئے کورس کو سالوں پڑھاتا رہے، اپنی کاہلی اور کم علمی کی وجہ سے زیادہ محنت نہ کرے۔  یہ سینیئر اساتذہ جس سیاسی پارٹی کی لابنگ کرتے ہیں کو آپریٹو ٹیچر کو بھی اسکی کرنی پڑتی ہے۔ اوریہی چیز سیاسی پارٹیوں کی مضبوطی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اگر نہ کریں تو ہر برے نتائج کا الزام اس پہ جائے۔  اس لئے اس امر پہ حیرت نہیں ہونی چاہئیے کہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں کو آپریٹو ٹیچرز ، مستقل اساتذہ سے تعداد میں زیادہ رہتے ہیں۔
انہی کو آپریٹو ٹیچرز کی وجہ سے سلیکشن بورڈ میں تاخیر ہوئ چلی جاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح کو آپریٹو ٹیچر کا مدت تجربہ بڑھتا رہتا ہے اور سینیئر اساتذہ چالاک عقابوں کی طرح اس پہ نظر رکھے رہتے ہیں کہ انکے امیدوار کو لانے کے لئے کون سا موقع مناسب ہے اس وقت سلیکشن بورڈ بٹھایا یا یہ کہ اس دوران انکا امیدوار ہر جائز نا جائز طریقے سے ایم فل یا پی ایچ ڈی کر لے تاکہ اس کا سی وی بہتر ہو جائے۔ 
ادھر کو آپریٹو ٹیچر بھی امید کے سہارے دن گذارے جاتا ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی کے قواعد کی رو سے جیسے ہی کسی ٹیچر کی جگہ خالی ہو اس کے لئے سیلیکشن بورڈ ہونا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دس  دس سال تک ایک کو آپریٹو ٹیچر کام کئے جاتا ہے۔
پانچ ، چھ سال تک سلیکشن بورڈ کا نہ بیٹھنا ایک معمول کی کارروائ ہے۔ اس سال جو سلیکشن بورڈ بیٹھا وہ چھ سال کے بعد بیٹھا تھا۔  دلچسپ امر یہ ہے کہ زیادہ تر کو آپریٹو ٹیچرز فیل ہو گئے۔ یہ فیل ہونے والے کو آپریٹو ٹیچرز گذشتہ چھ سال سے پڑھا رہے تھے اور ہم امید کر رہے تھے کہ جامعہ کراچی پاکستان کے دس بہترین تعلیمی اداوں میں آئے گی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیل ہوجانے والے یہ امیدوار پھر بھی کو آپریٹو ٹیچر کے طور پہ اپنا کیریئر جاری رکھتے ہیں۔ 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، تاریکی  کی وجہ ، وہ اجتماعی شعور  ہے جو تمام خود غرض اور مفاد پرست لوگوں کے اتحاد کا نتیجہ ہے اور نظام پہ حاوی ہے۔  

10 comments:

  1. واہ جی جامعہ کراچی کا معیار تو برا بلند ہوا پھر تو
    یہاں بہاالدین زکریا یونورسٹی میں چیرمین خدا ہے جسکو پکڑ کر استاد لگا دے کوئی چیک نہیں کوئی بیلنس نہی
    چیرمین وہی جو وی سی کو خوش کر ے
    باقی جنسی ہراس کرنا اساتذہ کی تعلیمی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
    اور خدا نخواستہ کو ئی کمیٹی بن بھی جائے تو کمیٹی کے رکن بھی تو آخر اسی یونیورسٹی کے ہی رکن ہیں ناں۔
    یاد رہے یہ سیاسی سفارشوں کے علاوہ حال ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. جنسی ہراس، میرا خیال ہے کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیادہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسا کیوں ہے کہ پنجاب کے مرد جتنے زیادہ خواتین کے لباس اور اخلاق کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ اس قسم کے جرائم وہاں ہوتے ہیں۔

      Delete
    2. Aapkay pass koi statistics hain is baat ko prove kernay keh lye?:D

      Delete
  2. This has been the norm in KU for decades now and I guess it just reflects how it has always been and so the 'so called' PhD's from KU have the same standard, even if they have done it 20 yrs ago. Standards dont just change in a day, it takes a while so why the hue and cry now?! Wasnt it the same when you were there too?! how does this this make it any different now?It was good when you were there but turned bad when you are not, AMAZING!!!! It does reflect the moral standards of people from KU, CORRUPT!

    ReplyDelete
  3. سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ میری پی ایچ ڈی بنیادی طور پہ کراچی یونیورسٹی سے نہیں ہوئ، ڈگری پہ البتہ اس کا نام ضرور ہے یعنی میں نے شعبہ ء کیمیاء، جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی نہیں کیا۔ اس وجہ سے جس بنیاد پہ کراچی یونیورسٹی کے کسی شعبے سے پی ایچ ڈی مل جاتی ہے مجھے ان بنیادوں پہ نہیں ملی۔ مثلاً جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے نظریاتی کورسز کے امتحانات نہیں ہوتے۔ جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے کوئ داخلہ امتحان نہیں ہوتا، جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے تھیسس باہر کے ریفریز کے پاس نہیں بھیجے جاتے یہی نہیں جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے کسی قسم کے سیمینار کی سیریز کو پار نہیں کرنا پڑتا۔ حتی کہ بعض اوقات کوئ پبلش پیپر نہیں چاہئیے ہوتا۔
    آپ بیس سال کی بات کر رہے ہیں میرا خیال ہے اس سے بھی پہلے جامعہ کراچی سے معیاری پی ایچ ڈی مشکل سے ہی ہوتا ہوگا۔
    یہ فرق ضرور ہے کہ جب ہم نے پڑھا تو کچھ اساتذہ کی آخری کھیپ کی آخری سانسیں موجود تھیں جو باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ اچھے اساتذہ کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو اساتذہ آئے وہ کسی لائق نہیں تھے۔
    نالائق اساتذہ کی اس کھیپ کو ہم نے بھی سہا ہے جو اب بھی جامعہ کراچی میں موجود ہے۔ ایک دفعہ انکا شاگرد بن کر دوسری بار ان کا کولیگ بن کر۔ اس لئے انہیں ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ اس لئے اب ہمیں واضح اندازہ ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں کرپشن کیسے پھیلائ جاتی ہے۔
    امید ہے کہ اب آپکی غلط فہمی دور ہو گئ ہوگی۔

    ReplyDelete
  4. Thanks for the clarification but it still is difficult to distinguish (being outside of KU) as to what it means to just have KU on your degree or being from KU completely. Even with the corruption and the corrupt standards the KU admin is so proud of, they should atleast provide a distinction between the two, so that people who have actually worked hard for their PhD are not pulled into the same category as all of them! I guess it is corrupted right to the base to have anything changed! Oh, how it hurts to see the talent in Pakistan go to waste or always being considered as having a bad rep! Sadly, no one can do much to change this!!!

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ہاں یہ انتظام موجود ہے کہ ڈگری پہ جامعہ کراچی کے ساتھ اس ادارے کا نام بھی موجود ہو جہاں سے پی ایچ ڈی کی گئ۔
      لیکن مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں جن پہ بعد میں بات ہوگی۔

      Delete
  5. پاکستان میں جامعات کا بنیادی ڈھانچہ تحقیقی سرگرمیوں کے لئے بنایا ہی نہیں گیا۔ سیدھی جو بات ہے۔
    تحقیقی گرانٹ کے لئے مکمل طور پر اپنے امپلائر پر انحصار کرنا ایک انتہائی غیر موافق عمل ہے۔ تحقیقی گرانٹ بیرونی ذرائع سے آنی چاہیے۔ یعنی حکومتی ، نیم حکومتی اور صنعتی سطح پر ایسے ادارے ہوں جن کا جامعات کے ارباب اختیار سے کوئی براہ راست تعلق نہ ہو۔ بلکہ وہ ہر سال ایسے اسکالرز کے لئے تحقیقی گرانٹ جاری کریں جن کا ریسرچ ریکارڈ اچھا ہے۔ ریسرچ ریکارڈ کے لئے بھی لوکل یونیورسٹی یا اسکالر کی امپلائر یونیورسٹی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسکالر کا بین الاقوامی جرائد میں شائع شدہ تحقیق کو معیار اور بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ یعنی تحقیقی گرانٹ جاری کرنے کے معاملے میں اگر امپلائر راستے سے ہٹ جائے ، اور ایک غیر جانبدارانہ خود مختار کمیشن ہو۔ تو اس سے نہ صرف تحقیق کا راستہ کھلے گا بلکہ امپلائر کی خوشامد کرنے اور اس سے بلیک میل ہونے سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اسکالر کو اس کی ملنے والی سالانہ گرانٹ ہی اس کے مقاصد کے لئے کافی ہوگی۔
    کینیڈا سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں غیر جانبدار اور خود مختار گرانٹ کمیشن کا رواج ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جہاں سے پیسہ آرہا ہو وہ ادارہ پاکستان میں خود مختار کیسے ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ہی ایسے ادارے موجود ہیں جو ریسرچ کے لئے بیرون ملک سے گرانٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن وہاں کی کیچڑ کی داستان الگ ہے۔
      جامعہ کراچی میں سینیئر ٹیچرز کی اکثریت ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے کیونکہ انکی اپنی کوئ ریسرچ بنیاد نہیں ہوتی جسکی بناء پہ وہ باہر کسی قسم کی گرانٹ حاصل کر سکیں۔ اس کی وجوہات ہیں مثلاً انکی علمی صلاحیت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ کسی قسم کا ریسرچ پہ اپنا دماغ خرچ کر سکیں، دوئم پاکستانی نظام ایسا ہے کہ اگر کوئ باہر سے گرانٹ اپنے بل بوتے پہ بھی لینا چاہے تو اسے مختلف اداروں کی آشیر باد حاصل کرنی ہوگی جہاں دوسرے گدھ پوری کوشش کریں گے کہ اسے نہ ملے اور صرف ہم ہی اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، سوئم یہ کہ وہ اندرون خانہ اپنی توانائیاں بے کار کی سازشون میں اتنی ضائع کر دیتے ہیں کہ باہر کی جدو جہد کے لئے زور نہیں بچتا۔
      اچھا بالفرض کوئ شخص گرانٹ حاصل کرلیتا ہے تو وہ اسے ریسرچ پہ اتنا نہیں لگاتا جتنا کہ دیگر مقاصد میں۔ یوں کچھ ریسرچرز راتوں رات اتنے مالدار ہو جاتے ہیں کہ آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ اور انکا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ کیونکہ باقی کی دنیا تو زرداری اور گیلانی سے ہی فرصت نہیں پاتی۔

      Delete
  6. صفر درجہ ایمانداری پر تو خیر دنیا کا کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا۔ کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی سطح پر کوئی ایماندارانہ نظام قائم کرنا پڑے گا۔ پھر ہی بات آگے بڑھے گی۔
    بنیادی نقطہ بہرحال یہ ہے کہ ایمپلائر ، ریگولیٹر، آربائٹر اور انویسٹر الگ الگ ہوں۔ تاکہ اختیارات منقسم ہو جائیں اور ایک دوسرے کو پرکھنے کا نظام متوازی رہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ