Monday, May 14, 2012

ملغوبہ

نسیمہ کی عمر اسکی ماں کے بقول چودہ پندرہ سال ہے۔ دبلی پتلی، زرد رو نسیمہ پہلے کبھی کبھی اسکول کی چھٹی والے دن صفائ کے کاموں میں اپنی ماں کی مدد کے لئے ساتھ آیا کرتی تھی۔ لیکن جب اسکی تائ نے زور ڈالا کہ بس اب چھ مہینے میں وہ اسکی شادی کرا کے لے جائے گی تو ماں نے اسکا اسکول چھڑایا اور شادی کی تیاری کے لئے زیادہ گھروں میں زیادہ کام کر کے زیادہ پیسے جمع کرنے کے لئے روز ہی اسے اپنے ساتھ لانے لگی۔
نسیمہ کی چھوڑی ہوئ تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے میری ساس نے اسے پڑھانا شروع کر دیا۔ اور اب بعض ناگذیر وجوہات کی بناء پہ آج کل نسیمہ مجھ سے پڑھ رہی ہے۔ یوں چھٹی کلاس کی اردو کی کتاب میرے ہاتھ لگی۔ اپنی والی تو میں چند ایک کے علاوہ بھول گئ کہ اس میں کیا کیا تھا لیکن چھٹی کلاس کی اردو کی اس کتاب کو دیکھ کر مجھے جھٹکا ضرور لگا۔
تینیتیس اسباق میں سے آٹھ مذہبی معلومات یا شخصیات کے بارے میں ہیں جنہیں بآسانی اسلامیات کی کتاب میں تاریخ اسلام کے ضمن میں ڈالا جا سکتا تھا۔
آٹھ اسباق ، وطن سے متعلق ہیں جنہیں بآسانی سوشل اسٹڈیز میں ڈالا جا سکتا تھا۔ دھیان میں رہے کہ چھٹی کلاس میں سوشل اسٹڈیز اور اسلامیات کے مضامین الگ سے موجود ہیں۔
 ایک سبق اخلاقیات پہ بھی ہے جو مہمان نوازی کے متعلق ہے اور یہ بھی دراصل عہد نبوی کا ایک واقعہ ہے۔ 
ایک سبق اقوال زریں پہ ہے جسکے سولہ میں سے، سب سے پہلا قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ ہے اور دس اقوال دراصل احادیث ہیں، تین صحابہ اکرام کے اقوال ہیں، ایک شیخ سعدی کا اور ایک یحیی برمکی کا۔ یعنی مذہب اور ملک  سے باہر نہ کوئ دنیا بستی ہے اور نہ کوئ شخصیات ہیں اور انکے اقوال۔
کیا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں زبان اسی طرح سکھائ جاتی ہے؟
اردو کی کتاب جسے دراصل صرف اردو زبان اور ادب کے متعلق ہونا چاہئیے تھا وہ آدھی سے زیادہ مذہب اور حب الوطنی کے ملغوبے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صرف ایک ادبی شخصیت کا تذکرہ ہے اور وہ ہیں ڈپٹی نذیر احمد، شاید انہیں یہ مقام توبۃ النصوح کی وجہ سے ملا ہو۔ نصاب بنانے والوں سے صرف یہ پوچھنا چاہونگی کہ اردو کے لئے ایک علیحدہ نصاب کی کیا واقعی ضرورت ہے؟
کیا زبان سکھانے کے یہی طرائق ہوتے ہیں؟ اور کچھ نہیں تو انگریزی زبان کے زبان سکھانے کے طریقوں کو ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس میں ہماری کلاسک کہانیوں کے کچھ حصے ڈالے جا سکتے تھے۔ سعدی کی حکائیتیں ڈالی جا سکتی تھی۔ اردو میں ذخیرہ ء ادب اتنا محدود نہیں کہ اردو کی کتاب کا پیٹ بھرنے کے لئے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے موضوعات ڈالے جائیں۔ دنیا کی دیگر تہذیبوں کی کہانیوں کے ترجمے ڈالے جا سکتے تھے۔ مزید ڈرامے ڈالے جا سکتے تھے۔ سفر نامے ڈالے جا سکتے تھے، دنیا کی مشہور شخصیات کی سوانح عمری کے حصے ڈالے جا سکتے تھے۔ پاکستان سے باہر، مذہب سے باہر لوگوں کے بارے میں جاننا کچھ گناہ نہیں۔ بلکہ پاکستان بننے سے پہلے اس زمین پہ کئ عظیم شخصیات گذری ہیں انکے متعلق ڈالا جا سکتا ہے۔
یہ سب باتیں انہیں بھی پتہ ہونگیں، لیکن نیت یہ ہوگی کہ ثواب اور حب الوطنی زیادہ سے زیادہ کمایا جائے۔ 
یہی نہیں، یہ وہ سطح ہے جہاں پہ بچے محاوروں اور کہاوتوں کے استعمال سے آشنا ہوتے ہیں اس لئے اسباق کی زبان اس سے کہیں بہتر اور دلچسپ بنائ جا سکتی تھی۔
بہر حال، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں سوچتی ہوں، کہ اگر اسلامیات، سوشل اسٹڈیز اور اردو کو ملا کر ایک مضمون بنا دیا جائے تو نہ صرف کم اساتذہ درکار ہونگے بلکہ اسکول ٹائم بھی کم ہوجائے گا۔ ایک گھنٹے کا فرق تو آئے گا ہی۔ اس طرح سے بجلی بچے گی ،لوگ چھوٹی موٹی صنعتیںچلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور کچھ نہیں تو بچے کسی درزی یا مکینک کے پاس چھوٹے بن کر اپنے فالتو وقت میں کچھ آمدنی حاصل کریں گے۔ بچیاں اپنی ماءووں کے ساتھ زیادہ گھروں میں جھاڑو پونچھا کریں گی۔ جو اس ملغوبہ نسل سے تو زیادہ عملی ثابت ہوگی۔  کیا یہ خیال غلط ہے؟

9 comments:

  1. کونسے تعلیمی بورڈ کی کتاب ہے یہ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. کراچی کے گورنمنٹ اسکولز میں تو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں چلتی ہیں۔

      بالکل صحیح جواب جاننے کے لئے کل تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کتاب میرے پاس اس وقت نہیں ہے۔

      Delete
  2. مذہب کا تڑکہ ریاضی کے سوا باقی تمام کتب میں شامل ہوتا ہے۔ کیمیا اور طبعیات کی کتب کے ابتدائی ابواب بھی مذہبی پہلو پر مشتمل ہیں۔ میٹرک کی بیالوجی کی کتاب میں تو یہ یقینی بنایا گیا تھا کہ طلبا حیاتیاتی ارتقاء کو سنجیدہ نہ لینا پائیں۔
    نہ جانے ریاضی ان کے ہاتھ سے کیسے بچ گیا۔

    ReplyDelete
  3. آجکل آپ کا بلاگ سیارہ پر نظر نہیں آرہا ہے کیا وجہ ہے اور آپ نے بلاگ کا ای ۔ میل لنک بھی نہیں دیا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بس پتہ نہیں کیوں یہ مسئلہ ہورہا ہے۔ میں جب بھِ اس پہ سرچ کرنے کا سوچتی ہوں یہی خیال آتا ہے کتنا وقت اس میں ضائع ہوگا۔ کہاں سے لاءوں اتنا وقت۔ ای میل سبسکرپشن ڈال دیا ہے۔ چیک کر لیں یہ بھی کام کرہا ہے یا نہیں۔

      Delete
  4. نیکسٹ پوسٹ ، پلیز

    ReplyDelete
  5. جسے آپ نفرت کی کہانی کہتی ہیں یہ ہماری تاریخ ہے، تاریخ کے حقائق پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے نہ تاریخ بدلی جا سکتی ہے نہ ان حقائق سے دامن چھڑایا جا سکتا ہے کیونکہ اقبال وحی کے بعد تاریخ کو علم کا اصلی ماخذ قرار دیتا ہے ۔ تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے اور ہمارا تو جغرافیہ ہی ہماری تاریخ کی پیداوار ہے ۔ بہت سی قوموں نے تاریخی مخاصمت کے باوجود دوستی کی منزلیں طے کیں اور اپنی تاریخ کو بدلے بغیر دوستی کے رشتے استوار کئے ۔ پاکستان ہندوستان بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن اسکی بنیادی شرط بنیادی مسائل کا حل ہے جن میں کشمیر سرفہرست ہے اور پانی کا مسئلہ بھی ہمارے لئے زندگی و موت کا مسئلہ بن چکا ہے ۔ اگر بنیادی شرط بنیادی مسائل کا حل ہے جن میں کشمیر سرفہرست ہے اور پانی کا مسئلہ بھی ہمارے لئے زندگی و موت کا مسئلہ بن چکا ہے ۔اگر بنیادی مسائل حل ہو جائیں تو یقین رکھیئے کہ تاریخ اس دوستی کی راہ میں حائل نہیں ہو گی۔ براہ کرم تاریخ کو نفرت سے پاک کرنے کی بجائے ہندوستان پر مسائل کے حل کے لئے زور دیجئے کیونکہ جسے آپ نفرت کی داستان کہتی ہیں وہ ہماری تاریخ ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے تبصرہ کرتے وقت غلطی سے اسے یہاں لکھ دیا ہے شاید۔ کیونکہ اس پوری پوسٹ میں تو کہیں نفرت کی داستان نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے کورس کی ایک کتاب کا تجزیہ ہے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ