Monday, May 21, 2012

مائ ڈیئر مولانا صاحب

میں پارلر میں موجود تھی جب وہاں پہ کام کرنے والی ایک خاتون کا فون بجا۔ فون پہ بات کر کے اس نے بند کیا اور اپنی دوست کو بتایا کہ شہر کے فلاں حصے میں جہاں اس کا گھر ہے ہنگامہ ہو گیا ہے اور ان کے شوہرآفس نہیں جا سکتے اس لئے آج چھٹی کر کے گھر میں رہیں گے۔
اب کس نے کیا یہ ہنگامہ؟  کسی نے  پوچھا۔ کراچی میں ہنگامے روز کے معمولات میں شامل ہیں۔
 ہماری  طرف کون کرے گا یہی ملّے۔  اس عورت  نے ایک کراہیت سے جواب دیا۔
 ہنگامے کراچی میں اور لوگ بھی کرتے ہیں کراہیت مولانا صاحب کے حصے میں کیوں آئ؟

آخر خواتین ملّاءوں سے اتنا کیوں چڑتی ہیں؟

اس کے لئے دماغ پہ زور ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایک گھر میں بچے فاقوں سے گذر رہے ہوں، شوہر کی آمدنی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہ ہو اور ان حالات میں اگر کوئ عورت یہ سوچے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کچھ پیسے محنت کر کے کما لے تو اس خیال سے ہی مولانا صاحب کا دین اسی وقت خطرے میں پڑ جائے گا۔  انکے خیال میں ایک عورت ایک حرم سے بس دوسرے حرم کا ہی سفر کر سکتی ہے یہی اس کا مقدر ہے۔ اور وہ فوراً فتوی دیں گے کہ نیک عورت وہ ہے جو گھر کے اندر بند رہے  سوائے مرض الموت کے اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔
جو تھوڑے سے بہتر ہونگے وہ فتوی دیں گے کہ باہر نکلنے کے لئے برقعہ پہننا ضروری ہے لیکن یاد رہے روزی روزگار کی ذمہ داری اسلام نے عورت پہ نہیں ڈالی۔ 
کیوں مولانا صاحب میں کیوں برقعہ پہنوں؟
  چالیس ڈگری سینٹی گریڈ پہ برقعے کے تصور سے مجھے اپنا آپ برا لگتا ہے، مولانا صاحب سے نفرت ہو جاتی ہے اور خدا سے بیر۔ جو انتہائ قدرت رکھنے کے باوجود اتنا بے بس تھا کہ مجھے آزادی سے کھلی فضا میں سانس لینے کے لائق نہیں بنا سکا۔ اگر اسے مجھےکپڑوں کے باوجود کوکون کی طرح برقعہ میں ہی لپیٹ کر رکھنا منظور تھا تو اسے کم سے کم میرا جسمانی نظام ہی اسکے مطابق بنانا چاہئیے تھا۔ وہ قادر مطلق ہے پھر اسے آزمائش کے سارے سخت مرحلوں سے مجھے ہی کیوں گذارنا مقصود تھا اور ان سخت مراحل کے باوجود مزے کی زندگی دنیاوی اور دنیا کے بعد مردوں کے حصے میں۔ خدا کس قدر امتیازی سلوک رکھتا ہے اپنی مخلوقات میں۔
اسلام پہ قائم رہنے کے لئے میں سوچتی ہوں کہ ایسا عقل سے عاری خدا مولانا صاحب کو ہی مبارک ہو۔  مجھے اکیسویں صدی میں ایک جینیئس خدا چاہئیے۔ ساتھ ہی مجھے خیال آتا ہے کہ مولانا صاحب کے بند دماغ سے اپنے خدا کو کیوں دیکھوں۔ میرے خدا کو میرے شایان شاں ہونا چاہئیے۔ اگر میں زمین ہوں تو اسے آسمان ہونا چاہئیے میں جتنی  زبردست ہوں اسے مہا زبردست ہونا چاہئیے۔
اچھا اب آگے بتاتی ہوں کہ دنیا کے واقعات کیسے پیش آتے ہیں۔ جن سے مولانا صاحب کا خدا لا علم معلوم ہوتا ہے۔
 فرض کریں کہ کوئ عورت سات بچوں کی ماں ہے اور اسکے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے۔ لیکن مولانا صاحب کے دین کے مطابق ایک نیک عورت ہے یعنی تمام زندگی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تو صحیح اسلامی حل یہ ہوگا کہ عدت ختم ہونے پہ ایک اور شوہر کرے۔ اس شوہر سے بھی اس کے پانچ بچے ہو جاتے ہیں لیکن وہ شوہر ، پہلے شوہر کے بچوں کو نہ اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہے اور نہ ہی انکی کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سوتیلا باپ انکا ذمہ دار ہے بھی نہیں۔  ان بچوں کے رشتے دار بھی اس قابل نہیں کہ انہیں سپورٹ کر سکیں۔ ان میں سے جو بچیاں ہیں چاہے وہ چھ برس کی ہوں انکی تو فوراً شادی کر دینی چاہئیے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی جو روشنی مولانا صاحب کے طفیل ملتی ہے اس میں ایک عورت کی پیدائش کا مقصد شادی اور بچوں کی پیدائیش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 اب عورت جھلا کر مولانا صاحب سے پوچھ سکتی ہے کہ  آخر ساری زندگی گھر کی چہار دیواری میں بند رہنے اور مسلسل بچے پیدا کرنے کے بعد میرے ہی حصے میں دوزخ کیوں زیادہ آئے گی۔ مولانا صاحب فرمائیں گے بد بخت تیری اسی زبان درازی کی وجہ سے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دوسرا شوہر چند سالوں بعد ایک دن ناراض ہو کر تین دفعہ طلاق کہتا ہے اور اب اس گھر میں اس عورت کے لئے کوئ جگہ نہیں۔ اسکے حصے میں خوش قسمتی سے معمولی سی مہر کی رقم آجائے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔  اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ 
اب ان پانچ بچوں کاکیا ہوگا؟
 ایک دفعہ پھر مولانا صحاب کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو بچیاں ہیں انکی فی الفور شادی کر دی جائے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ چھ سال کی لڑکی کی پچاس سال کے مرد سے کر دیں۔ آپ جانتے ہیں پھر اسلامی تاریخ بیان کی جائے گی جو دراصل عرب ثقافت اور تاریخ ہوگی۔ وہ بھی ڈیڑھ ہزار سالہ پرانی۔
اب یہ عورت تیسرا شوہر تلاش کرے گی۔ لیکن جو کام وہ نہیں کر سکتی، وہ یہ کہ خود کام کرے پیسے کمائے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بنائے تاکہ یہ سب بچے اسکے قریب رہیں اور بہتر اور کار آمد انسان بنیں۔  
کیوں؟
کیونکہ مولانا صاحب کے قائم کردہ معاشرے میں وہ ایک جانور کی طرح نہ کوئ قابلیت رکھتی ہے نہ ہنر،  نہ مرتبہ۔ مولانا صاحب اگر اسے کبھی مثال کے لئے پیش بھی کرتے ہیں تو کھلے ہوئے گوشت کی صورت یا بغیر ریپر کی  وہ ٹافی جس پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہو۔ اس سے زیادہ دیکھنے اور سوچنے کی سکت مولانا صاحب میں نہیں ہے۔ وہ اگر چاہے بھی تو کیا کرے گی۔ مولانا صاحب سے بغاوت کرے گی تو زیادہ سے زیادہ بغیر مذہبی تعلقات کے اپنے آپکو فروخت کے لئے پیش کرے گی۔ ایک بے ہنر اور ان پڑھ عورت اسکے علاوہ کیا کرے گی۔
واضح کر دوں کہ فرض کرنے کے علاوہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔
اس صورت حال پہ مولانا صاحب یا انکے چیلوں کو ذرا شرم نہیں آئے گی۔  دنیا تو ہے ہی آزمائش کی جگہ۔ وہ ایک اور فتوی جاری کرتے وقت فرما دیں گے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ یہ آزمائش واقعی خدا کی طرف سے ہے یا مولانا صاحب کی طرف سے۔ وہ کہتے ہیں قرآن یہ کہتا ہے اور حدیث یہ کہتی ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں مولانا صاحب کہ عہد نبوی میں صحابہ متع کرتے تھے اور عورتیں غربت کی وجہ اناج کے ایک پیالے پہ متع کرتی تھیں۔ یہ نکاح چند دن یا چند مہینے رہتا اور پھر ختم ہوجاتا۔ متع کرنے والی یہ عورتیں نکاح سے پہلے مردوں کو دیکھتیں اور ان سےپورا معاملہ طے کرتیں۔ یقین نہ ہو تو سیرت النبی میں یہ واقعہ پڑھ لیجئیے۔
آج بھی اسلام میں متع کے بارے میں دو مخلف فرقے موجود ہیں ۔ سنیوں کے نزدیک جائز نہیں شیعوں کے نزدیک جائز ہے۔ آج شیعوں کے ایران میں جسم فروشی کی صنعت کو متع کی وجہ سے تحفظ حاصل ہے۔ لیکن آج کے ایران میں خواتین بغیر اسکارف کے نہیں رہ سکتیں۔ ہے نا، مذاق۔
نیک عورت  کے پیمانے بھی کتنے مختلف ہیں۔ وہ اس تصویر سے واضح ہیں۔

 اس تصویر سے  پتہ چلتا ہے کہ سب سے نیک مسلمان عورت وہ ہوگی جو مافوق الفطرت مخلوق کی طرح کسی کو نظر نہیں آئے گی۔ اس سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں۔
 نیک عورت وہ ہے جس کی نہ آواز سنائ دے اور جو اپنے گھر میں ایسے بند رہے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ وہ پیدا بھی ہوئ تھی ایسے گھروں سے شادی کارڈ ملے گا تو اس پہ دلہن کا نام موجود نہیں ہوگا۔ یعنی یہ عورتیں عہد نبوی کی عورتوں بلکہ رسول کی بیویوں سے بھی زیادہ نیک ہوئیں۔ اگر نیکی کے اس ورژن کی مزید تفصیل میں گھسا جائے تو سب سے نیک عورت وہ ہوئ جسے خدا دنیا میں جانے کی نوید دے مگر وہ دنیا میں آنے سے انکار کر دے یعنی پیدا ہونے سے انکاری ہوجائے۔
نیکی کا اگلا ہلکا معیار یہ ہے کہ برقعہ پہن کر گھر سے نکل سکتی ہے وہ بھی محرم کے ساتھ لیکن جسم کا کوئ حصہ نظر نہ آئے۔ ہاتھوں میں دستانے، پیروں میں موزے اور آنکھوں پہ نقاب  میں جالیاں۔ سوچتی ہوں عہد نبوی میں رفع حاجت کے لئے جنگل میں جانا پڑتا تھا۔ اس وقت گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے تھے۔ خواتین پہلے سے برقعہ پہن کر بیٹھ جاتی ہونگیں یا فوری ضرورت پیش آجائے تو برقعے کی طرف بھاگتی ہونگیں۔ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں مقام ضرورت پہ ایک خیمہ گاڑ دیا جاتا ہو گا۔
نیکی کا اگلا معیارچہرہ ،  ہتھیلی اور پیر کھلے رہ سکتے ہیں۔ مردوں سے ضرورت کے لئے بات کی جا سکتی ہے فیس بک پہ تبلیغی چیٹنگ شاید کی جا سکتی ہے کیونکہ جادو صرف آواز میں ہوتا ہے تحریر میں نہیں۔ اور مذہبی گفتگو کے وقت تو شیطان کوسوں دور رہتا ہے۔ حالانکہ جدید تحقیق کہتی ہے کہ خواتین کی تحریر میں بھی راغب ہوجانے والے مردوں کے لئے جادو ہوتا ہے۔  اس لئے بعض خواتین کو دیکھتی ہوں کہ برقعہ پہن کر کلائیوں پہ موزے کی طرح کے ٹائیٹس پہن لیتی ہیں کیوں کہ اگر کسی وجہ سے برقعہ کھسک جائے تو کلائ نہ نظر آ سکے یہ ستر میں شامل ہے۔
عہد نبوی میں جبکہ کپڑا ہی بمشکل ملتا تھا وہ بھی عام لوگ نہیں خرید پاتے تھے اس وجہ سے نبوت سے پہلے غریب لوگ حرم کا طواف ننگے ہو کرکرتے تھے۔  خیر، جب عرب میں کپاس نہیں پیدا ہوتی تھِی تو یہ ٹائیٹس کیسے بنائ جاتی ہونگیں؟
چاہے گھٹنوں تک اسکرٹ پہنیں، شراب پیئیں یا ایک کے بعد ایک  طلاق اور شادیاں کرتی رہیں لیکن سر پہ اسکارف ضرور ہونا چاہئیے۔ عورت کے بال میں جادو ہے۔ بال نہیں نظر آنا چاہئیے۔ اس پہ تو صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ کوئ عورت اگر ساری زندگی گنجا رہنے کا فیصلہ کر لے تو کیا اسکارف کی پابندی اس پہ سے ہٹ جائے گی۔ کیا گنجی عورت بال والی عورت سے زیادہ نیک ہوگی ؟ کیا ایک گنجی عورت، ایک مسلمان عورت کی علامت نہیں بن سکتی؟ کیا خدا عورت کو گنجا نہیں پیدا کر سکتا تھا؟



قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک  میں اگر خواتین کی حالت کا موازنہ کیا جائے تو اسلامی ممالک کی خواتین سب سے زیادہ بد حال نکلیں گی معاشی اور سماجی حساب سے۔  معیشت کے لئے وہ اپنے شوہر یا باپ کی محتاج ہوتی ہیں۔ شوہر علاج کرانے سے انکار کر دے تو معمولی بیماری میں بھی جان دے سکتی ہے۔ اگر شوہر نکال باہر کرے یا باپ کا سایہ نہ رہے تو یہ عورت دربدر ہوجاتی ہے لیکن اپنے آپ کو بچا نہیں سکتی۔  معاشی اور سماجی دباءو ایسا ہے کہ اپنی صحت کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ۔ کیا یہ توقع کی جانی چاہئیے کہ یہ عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر بچوں کی بہترین تربیت کرے گی  ایک لا علم عورت جس طرح کی تربیت کر سکتی ہے وہ ویسی ہی کر پاتی ہے سو آبادی میں نکمے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی غلط تربیت کا الزام بھی اسی پہ ڈالا جاتا ہے۔
 دیکھا جائے تو شاید آئ کیو کی سطح پہ بھی مسلمان عورت دنیا کی دیگر عورتوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہوگی کیونکہ آئ کیو محض خدا کی دین نہیں ماحول اور دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ سب سے بہتر مسلمان عورت وہ ہوتی ہے جو اپنی عقل ہرگز استعمال نہ کرے۔ 
 کہتے ہیں کہ پردہ ایک عورت کو محفوظ کرتا ہے اس کا مذاق پاکستان ہی میں وہ ثقافتیں اڑاتی ہیں جہاں خواتین سب سے زیادہ پردے میں رہتی ہیں اور جہاں سب سے زیادہ جرائم خواتین کے خلاف ہوتے ہیں۔

ادھرپردے کے لئے ایسی مہم چلی ہوئ ہے کہ لوگ ہر آڑی ترچھی دلیل لانے کو بے قرار۔ جیسے ہر عورت اگر حجاب پہن لے تو بس سارے مسائل حل۔ دنیا ایک دم جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ ہر مولوی  لڑکا چند حسین آنکھوں پہ عشقیہ اشعار لکھ کر ایک خوبصرت لڑکی کو پس منظر میں رکھ کر ایک تصویر بناتا ہے اور اسے اپنے اسٹیٹس پہ ڈالتا ہے اور اسکے بعد اگلے اسٹیٹس میں مسلمان بہنوں کو اس قسم کے پغام دیتا ہے۔

  نوبل پرائز ملنے پہ کسی نے توکل کرمان کو جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا ہمارے ملک میں لیکن ہلیری کلنٹن سے ایوارڈ وصول کرتے وقت جب توکل کرمان نے حجاب پہ فخر کیا تو ماشاء اللہ کی صداءووں کے ساتھ انکی تصویر سوشل میڈیا پہ موجود تھی۔

حالانکہ اس سے پہلے یہ ماشاء اللہ ان حسین خواتین کی تصاویر کے ساتھ ہوتا جو میک اپ سے مزین چہرے پہ خوبصورت ریشم کا اسکارف باندھے ہوتیں۔ یعنی بس اسکارف  یا دوپٹہ سر پہ ہونا چاہئیے اسکے بعد مولوی لڑکوں کا دل پھینکنا بالکل جائز اور اسلامی ہوتا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ دین کو کس قدر سطحی طور پہ سمجھتے ہیں۔



 اب اس تفصیل سے گذرنے کے بعد یہ تو یقین ہو جاتا ہے کہ مولانا صاحب بھی جدید ٹییکنالوجی کے دلدادہ ہیں۔  فیس بک پہ اپنی ہم خیال، با حجاب خواتین کے اسٹیٹس پہ ہی جزاک اللہ، ماشاء اللہ نہیں کہتے بلکہ انکی فرینڈز کی لسٹ میں بے شمار نامحرم خواتین کی بے حجاب  تصاویر اور نام محض یاد دہانی کے لئے ہوتے ہیں کہ انکو راہ راست پہ لانا ہے۔ اس طرح آپ صرف انکے فرینڈز کی لسٹ دیکھ کر ہی انکی زندگی کے اعلی مقاصد نہ صرف گن سکتے ہیں بلکہ یوم آخرت میں انکو حاصل ہونے والی نیکیوں کو بھی آڈٹ کر سکتے ہیں اس کو کہتے ہیں چپڑی وہ بھی دو دو۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں عورت اور مرد دو ایک دم الگ دنیاءووں کے باسی ہوں ایسے کہ وہ ایک دوسرے سے کوئ کمیونیکیشن نہ کر سکیں سوائے اپنے محرموں کے؟
 یہاں کراچی میں ایک مینا بازار ہے جہاں خواتین دوکاندار اور خواتین ہی خریدار ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے اس بازار میں زیادہ تر خواتین کے زیر جامہ فروخت ہوتے ہیں۔ اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہ زیر جامے  مرد سیلز مین انہیں سپلائ کرتے ہیں اور وہ اپنی دوکان پہ بیٹھےان سے کاروباری ڈیل کرتی ہیں۔ ایک کلف لگے ہوئے کپڑے پہن کر بنے ٹھنے مولانا صاحب کو وہاں خواتین سے دوکان کا کرایہ وصول کرتے دیکھا۔ جو ان خواتین سے حسب مرتبہ مذاق بھی کرتے جا رہے تھے۔ 
اسکی داستان الگ ہے کہ ان زیر جاموں کو کون مرد سیتے ہیں۔ یعنی مولانا صاحب کے حرم کی خواتین بھی مردوں کے ہاتھ کے سلے ہوئے زیر جامہ پہنتی ہیں۔ اس لئے کہ خواتین  ماہر کاریگر اس مقصد کے لئے اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ پھر کس حجاب کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے، کس حیاء کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور کون سے پردے کا اہتمام ہوتا ہے۔
  
تو مولانا صاحب،کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ پاکستانی عورتوں کی اکثریت کیوں آپ سے نفرت کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ آپ ٹام کروز کی طرح اسمارٹ نہیں یا رانجھے کی طرح بانسری نہیں بجا سکتے یا ہٹلر کی طرح دنیا پہ چھا جانا چاہتے ہیں  اس لئے بھی نہیں کہ آپ انہیں کھلے بازءووں والی قمیض نہیں پہننے دیتے یا آپ انہیں اپنی مرضی کا مرد منتخب نہیں کرنے دیتے، مرضی کی شادی نہیں کرنے دیتے  یا آپ انہیں تعلیم نہیں حاصل کرنے دیتے یا پھر آپ انہیں پیسہ کما کر خوشحال نہیں ہونے دیتے۔
 صرف اس لئے مائ ڈیئر مولانا صاحب کہ آپ انکے کے ہر سنگین سے سنگین مسئلے سے نظر چرا کر ان کے نظر آنے والے بال اور گوشت پہ نظر گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جیسے وہ بس بال اور گوشت کا مجموعہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ آپکی ساری تبلیغ، خدا اور قیامت کے سارے ڈراوے، دوزخ کی آگ اور عذاب کے تمام اعلانات کے باوجود آپکو اشتہاروں میں کھلے گلے پہنے عورتیں نظر آتی ہیں ، اسکول بم سےاڑا دینے کے باوجود آپکو تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ عورتیں نظر آتی ہیں، گھر میں رکے رہنے اور محرم کو ساتھ رکھنے کی ہمہ وقت تلقین کے باوجودعورتیں اکیلے ایک ملک سے دوسرے ملک ، ہوائ جہاز کے سفر کر رہی ہیں۔ عورتیں گاڑیاں چلا رہی ہیں، عورتیں جہاز اڑا رہی ہیں، عورتیں شیمپو کے اشتہاروں میں اپنے جادو بھرے بال اڑارہی ہیں، عورتیں ڈیٹنگ کر رہی ہیں، عورتیں اپنے سینیٹری پیڈز بیچ رہی ہیں وہ بھی ٹی وی پہ۔ 
کیا یہ سب مرتد ہو چکی ہیں یا یہ سب آپکے خلاف بغاوت ہے یا خدا کے خلاف بغاوت ہے؟ کیا جدید طرز زندگی کو تسلیم کئے بغیر آپ انہیں اپنے خدائ فتووں سے روک سکتے ہیں؟ یااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا عورتوں کا خدا کوئ اور ہے اور آپکا کوئ اور؟

98 comments:

  1. سوچ رہا ہوں کہ دن کا وہ کونسا وقت ہوگا کہ ہنگامہ شروع ہونے سے پہلے ہی خواتین تو پارلر میں موجود تھیں جبکہ شوہر صاحب گھر پر، اور انکے آفس کے کیا اوقات ہونگے ؟ خیر ہوسکتا ہے کہ شام کا وقت ہو، کیونکہ اکثر پارلر اسی وقت خواتین سے پر ہوتی ہیں، اور شائد صاحب کی نائٹ ڈیوٹی ہوگی !

    یہ لفظ "ملّے" کیا ہوتا ہے ؟ اور آپ نے اس سے مطلب "مولانا صاحب" کیسے نکال لیا ؟

    ہنگامے کراچی میں اور لوگ بھی کرتے ہیں کراہیت مولانا صاحب کے حصے میں کیوں آئ؟
    اس لیئے کہ بچارے خود تو کوئی ایسا عمل کرتے ہی نہیں ہیں جیسا کہ میڈیا انکے نام پر عوام کو بتاتا ہے، مگر انکے آپ جیسے دشمن ضرور انکا برا تصور بنا کر پیش کرتے ہیں، تو جو کوئی بھی انکو نہیں جانتا ہوگا وہ ان سے کراہیت ہی کرے گا نا، اسکی درست مثال ٩/١١ کے بعد مسلمانوں کے حصے میں آنے والے بین الاقوامی کراہیت ہے۔ اب یہ مت کہیئے گا کہ ٩/١١ مسلمانوں کا کیا دھرا ہے، کیونکہ یہ بات خود امریکہ میں بھی مشہور ہے کہ ٩/١١ کا ڈرامہ انکا خود کا رچایا ہوا تھا تاکہ مسلمانوں پر چڑھائی کی جاسکے۔ اور پھر ایک بات یہ بھی یہ کہ جو لوگ اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں اور مذہب کی پابندیوں کے زیر تحت نہیں رہنا چاہتے ہیں وہ بھی ملا سے دشمنی و کراہیت کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ ملا ہی تو انکو دین کی باتیں بتاتا ہے۔

    آخر خواتین ملّاوں سے اتنا کیوں چڑتی ہیں؟
    کیونکہ انکے مرد مذہب کی آڑ میں ، ملاوں اور انکے فتاوں کے نام پر ان پر حکومت کرتے ہیں اور انکوں انکے وہ جائز حقوق بھی نہیں دیتے ہیں جوکہ دین اور ملا دونوں دیتے ہیں۔

    اس کے لئے دماغ پہ زور ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آپ جیسے قلمکار جو موجود ہیں ہم کو اسپون فیڈنگ کرنے کے لیئے، جیسا کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے مسلمانوں کے ضمن میں بقیہ دنیا کو ایسی ہی اسپون فیڈنگ کرنا اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔

    جاری ہے۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں نے تو ان خاتون کا جملہ دوہرایا اور اپنے طور پہ لفظ ملے ایجاد نہیں کیا۔
      شاید آپ کراچی میں نہیں ہرتے یہاں کاروبار عین دوپہر میں شروع ہوتا ہے اور کسی شخص کو دوکان ہی جانا ہو لیکن اس کے گھر والے کہیں گے آفس گئے ہوئے ہیں۔ اس لئے اس پہ سوچ کر وقت ضائع نہ کریں ہر شہر کی اپنی ثقافت اور زبان ہوتی ہے،
      جی ہاں ملا نے یہ ذمہ داری اپنے طور سے اپنے اوپر لے لی ہے اور ہر وہ شخص جو محض جمعے کی نماز ہی جماعت سے پڑھ لیتا ہو خواتین کے لئے ملا بننے سے نہیں ہچکچاتا۔ آپ نے فرمایا دین اور ملا دونوں دیتے ہیں ذرا صوبہ ء سرحد کا دورہ کر کے آجائیں، تو معلوم ہوگا کہ وہاں آپکے عزیز ملا ہی لوگوں کو اس بات پہ خدا کا عذاب سنا رہے ہیں کہ خبردار لڑکیوں کو اسکول بھیجا، حتی کہ ایک ملا صاحب نے وہاں این جی اوز میں کام کرنے والی لڑکیوں سے زبردستی شادی کو جائز قرار دے دیا ہے۔ کیا دین یہی حق ملا کو دیتا ہے کیا دین اپنی عورتوں کو اس طرح کے حقوق اور پابندیاں دیتا ہے۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور خدا جانے کون کون سپون فیڈنگ کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے اس ملا کی سپون فیڈینگ نہیں کی۔

      Delete
  2. ایک گھر میں بچے فاقوں سے گذر رہے ہوں، شوہر کی آمدنی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہ ہو اور ان حالات میں اگر کوئ عورت یہ سوچے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کچھ پیسے محنت کر کے کما لے تو اس خیال سے ہی مولانا صاحب کا دین اسی وقت خطرے میں پڑ جائے گا۔ انکے خیال میں ایک عورت ایک حرم سے بس دوسرے حرم کا ہی سفر کر سکتی ہے یہی اس کا مقدر ہے۔ اور وہ فوراً فتوی دیں گے کہ نیک عورت وہ ہے جو گھر کے اندر بند رہے سوائے مرض الموت کے اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔
    ہمت ہو تو ذرا ایک بھی درست حوالہ دے دیں جس مین بتایا گیا ہو کہ عورت کو شریعت کی حدود میں رہ کر کمانا ممنوع ہے ؟ اور شائد آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی تجارت جوکہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد بھی جاری تھا، کے بارے میں بھول رہی ہیں، یاد رہے اس بات کا ایک بھی ملا انکار نہیں کرتا ہے۔

    جو تھوڑے سے بہتر ہونگے وہ فتوی دیں گے کہ باہر نکلنے کے لئے برقعہ پہننا ضروری ہے لیکن یاد رہے روزی روزگار کی ذمہ داری اسلام نے عورت پہ نہیں ڈالی۔یہ کسی انسان کا فتوی نہیں بلکہ "پردہ " اللہ کا حکم ہے جوکہ قرآن میں آیا ہے، اب اگر آپ کو (شائد ملا سے ازلی دشمنی کے سبب) مسلمان ہوکر بھی یا تو قرآن کا درست علم نہیں ہے یا پھر قرآن پر عمل کرنا پسند نہیں ہے تو اس میں ملا بچارے کا کیا قصور ہے؟ اور یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے عورت پر روزی و روزگار کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، مگر اسکو شریعت کی حدود میں رہ کر روزگار سے روکا بھی نہیں ہے، یہ بات عورت کے حق میں جاتی ہے، مگر افسوس کہ آج مغرب کی چکاچوند سے متاثرہ خواتین اپنے ان حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے جوکہ اسلام نے انہیں دیئے ہیں ایسے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں جنکی قیمت ادا کرنے کے لیئے انکو اپنی نسوانیت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عورت مرد کے جیسی جسمانی قوت نا رکھنے کے باوجود بھی اسی جیسی سخت محنت کرے اور بدلے میں اپنے ہم منسب مرد سےتنخواہ بھی کم وصول کرے؟ (اعداد و شمار کی تحقیق کرنے کا وقت نہیں ہے میرے پاس، آپ سمیت جیسکا بھی دل کرے کسی بھی ایسی نسوانی حقوق کی NGO کی رپورٹس پڑھ لیں جو کہ مغرب میں اس حوالے سے کام کررہی ہوں۔ کیونکہ مشرق والی ایسی تنظیموں کے اہداف کچھ اور ہی ہیں۔اورویسے بھی ابھی یہ موضوع بحث بھی نہیں ہے۔)

    خدا سے بیر اور اسکی صفات کا جھگڑا:
    مکی کے بلاگ پر آپ سے بھی کچھ گفتگو ہوئی تھی اس موضوع پر اور خوب اچھی طرح سے جان گیا تھا کہ جس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہو کہ آخر مقصد حیات کیا ہے؟، وہ خدا کے بارے اگر ایسے تصوارت نہیں گھڑے گا تو اور کیا کرے گا؟ واضح رہے کہ آپ سے یہ سوال کہ آپ کے خیال سے مقصد حیات کیا ہے؟ آپ کے اس بلاگ پر بھی کیا تھا، مگر جواب ندارد ! ایک بات اور بھی نوٹ فرما لیں کہ یہ ملحد و دھریئے لوگوں کا نظریہ ہے کہ کسی خدا کا کوئی وجود نہیں ہے اور ہر انسان بس اپنی عقل و علم کی بنیاد پر اپنے خدا کا تصور گھڑلیتا ہے، تو اب جس کی جتنی اوقات ہوگی تو اسکا خدا بھی اتنا ہی اعلیٰ و ارفع ہوگا۔ آپ نے بھی کم و بیش یہی بات کی ہے کہ آپ کو اپنے شایان شان خدا درکار ہے !!! جبکہ مسلمان کا دین ہی آمنا و صدقنا ہے !!!

    یہ غلط بات ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک عورت کی پیدائش کا مقصد شادی اور بچوں کی پیدائیش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنے دعویٰ کے حق میں قرآن و حدیث سے دلیل دیں، کیونکہ دینی باتوں میں کسی انسان کا فتویٰ مجھ کو بھی اسوقت تک قابل قبول نہیں ہے، جب تک کہ اسکے حق میں قرآن و حدیث سے دلیل نا دی گئی ہو!

    جاری ہے ۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اپنی ہی بات کو رد کرتے ہیں آپ نے فرمایا
      اور یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے عورت پر روزی و روزگار کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، مگر اسکو شریعت کی حدود میں رہ کر روزگار سے روکا بھی نہیں ہے، یہ بات عورت کے حق میں جاتی ہے، مگر افسوس کہ آج مغرب کی چکاچوند سے متاثرہ خواتین اپنے ان حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے جوکہ اسلام نے انہیں دیئے ہیں ایسے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں جنکی قیمت ادا کرنے کے لیئے انکو اپنی نسوانیت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
      پھر عورت کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
      پورا بہشتی زیور عورتوں کے جن فرائض سے بھرا پڑا ہے وہ سارے کا سارا مرد ، جنس اور بچوں کی پیدائش کے گرد گھومتا ہے۔ یہ بھی ایک مشہور و معروف مولانا کی لکھی ہوئ ہے۔ آپ نے کبھی پڑھی ہے۔ میں نے اسے خاصہ تفصیل سے پڑھا ہے۔
      آپ بتائیے کہ عورت کی زندگی کا مقصد آپکی پڑھی ہوئ احادیث اور آپ کے اخذ کردہ قرآن سے کیا نکلتا ہے۔

      Delete
  3. آپ کی فرضی مثال جوکہ بقول آپ کے ایک سچا واقعہ بھی ہے اسکی حقیقت کچھ ایسی ہے کہ "کہیں کی مٹی ، کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا" کیونکہ اول تو ایسی کسی صورت حال میں سب سے پہلے آپ نے اسلامی حکومت کی ذمہ داری کو نظر انداز کردیا ہے، اگر وہ غیر موجود ہے یا پھر غیر فعال ہے تو پھر تو سب سے پہلے اسکے احیاء کی بات ہونی چاہیئے ناکہ دوسرے کسی مسئلے کی، کیونکہ اگر آپ کو اسلامی حکومت کی ذمہ داری و اہمیت کا ادراک ہوگا تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ آج کے معاشرتی مسائل کے حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی درست اسلامی حکومت کی عدم موجودگی ہے۔ دوئم دو بچیوں کی احسن انداز میں پرورش کرنے پر والدین کو جنت کی بشارت ہے، آپ نے اسکو کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ ظاہر سی بات ہے کسی عورت کی اگر ١٢ بچے ہونگے تو ضروری تو نہیں کہ سب کے سب لڑکے ہی ہوں، کیا خیال ہے؟ پھر یہ کس نے کہا ہے مسلسل درد زہ کو استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کا نتیجہ دوذخ ہے؟ عورت کی بدزبانی اور زبان درازی سے متعلق حدیث کا اسکے ماں بننے کی تکالیف سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اور اگر نبی عربی و انکے صحابہ کی سنتوں کو آپ محض اس بنا پر مسترد کردینا عقلمندی سمجھتی ہیں کہ انکے وقت کی باتیں ڈیڑھ ہزار سال پرانی اور عرب ثقافت و تاریخ ہیں تو پھر اس سلسلے میں آپ کی عقل پر ماتم ہی کرسکتا ہوں۔اسطرح سے آپ نا صرف سنت و اجماع کا انکار کررہی ہیں بلکہ اسلامی تاریخ کوبھی ناقابل قبول قرار دی رہی ہیں۔ اب اگر کوئی آپ پر ارتداد کا فتویٰ جاری کردے تو برائے مہربانی واویلا کرنے کے بجائے خندہ پیشانی سے قبول فرمالیجیئے گا۔ ویسے وضاحت کردوں کہ اماں عائشہ کے نکاح و رخصتی کی الگ الگ عمرمیں ہوئی تھی، ویسے بھی کسی لڑکی کا کم عمری اذواجی تعلق کی قابل ہونا اسکے ماحول، علاقہ اور خوراک کی بنا پر ہوسکتا ہے۔لہذا آج بھی اگر کوئی لڑکی کم عمری میں ہی ازواجی تعلق کی قابل ہوجاتی ہے تو اسکا نکاح و رخصتی کیا جانا عین اسلامی کام ہی ہوگا۔ سوئم آپ نے علم کے حصول کی مرد و عورت دونوں پر یکساں فرضیت والی حدیث بھی نظر انداز کردی ہے! اسی لیئے آپ کے خیال میں مولانا صاحب کے قائم کردہ معاشرے میں وہ (عورت) ایک جانور کی طرح نہ کوئ قابلیت رکھتی ہے نہ ہنر، نہ مرتبہ۔ جبکہ یہ آپ کے خیال فاسد ہیں جوکہ مستشرقین و ملاحدین سے مستعار لیئے گئے ہیں۔ ورنہ آپ کو اپنے بات کو درست ثابت کرنے کے لیئے ایک بھی درست دلیل نہیں ملے گی، اگر ملے تو ہم کو بھی ضرور بتلایئے گا!

    جاری ہے ۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ہاں یہ بات بھِ خاصی دلچسپ لگتی ہے کہ والدین جنت کی لالچ میں لڑکیاں پالیں اور دنیا کی لالچ میں لڑکے اور پھر کہیں کہ آپ اسکا انکار کرتی ہیں اور اسکا انکار کرتی ہیں۔ ڈیڑھہزار سال پرانے عرب کے پسماندہ معاشرے میں لڑکیوں کا تحفظ جنت کی لالچ پہ ہی کیا جا سکتا تھا کیا اس روایت کو آج بھی چلنا چاہئیے۔ آپ نے علم کے حصول کی بات کی ہے اول تو ملا خواتین کی تعلیم کے حق میں نہیں دوئم اگر انہیں کوئ جدید ملا تعلیم دینے پہ راضی ہوتا ہے تو صرف اتنی کہ بنیادی گذارہ ہو جائے۔ یعنی آج کی زبان میں میٹرک بھی کر لے تو بہت ہے۔ یقین نہ ہو تو ایک دفعہ پھر بہشتی زیور پہ نظر ڈالیں۔ عالم اسلام میں خواتین کی تعلیم کا رواج ابھی چند دہائیوں سے شروع ہوا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ سر سید احمد خان جیسے جدت پسند بھی خواتین کی تعلیم کے حق میں نہ تھے چہ جائیکہ مولانا صاحبان۔ تاریخ اور حالات حاضرہ دونوں کو توجہ سے پڑھیں۔
      یہی وجہ ہے کہ بر صغیر میں مسلمان خواتین، باقی قوموں کے مقابکے میں سب سے زیادہ پسماندہ تھیں۔ ان سے زیادہ اہل ہندو، عیسائ اور پارسی خواتین ہوتی تھیں۔ تقسیم پاکستان کے وقت اسکولوں میں مسلمان خواتین اساتذہ انتہائ محدود تعداد میں تھیں بہ نسبت دیگر خواتین کے۔
      اس زمانے میں اگر پڑھی لکھی خواتین ملیں گی بھی تو ان خاندانوں میں جنہیں اس وقت گمراہ سمجھا جاتا تھا۔ کسی مولانا صاحب کے گھر کی کسی قابل خاتون کا پتہ تو بتلا دیں۔ حتی کہ کال ایسا ہے کہ پاکستان میں خاتون مفتیوں کی تعداد بتا دیں۔ یہاں تو خواتین کے انتہائ اندرونی مسائل کا حل بھی مرد مولانا پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فتوے وہی دے سکتے ہہیں۔ پھر یہ حدیث کیا عملی وزن رکھتی ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد عورت پہ فرض ہے۔ صڑف یہی بتا دیں کہ کتنی مایہ ناز خاتون دین عالم موجود ہیں جن کے فتاوی پہ مسلمان مرد بھی عمل کرتے ہوں۔

      Delete
    2. جی ہاں ایسے واقعات پہ یہ بہانہ بنانا آسان ہوتا ہے کہ جی اسلامی حکومت نہیں ہے۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ لیکن مولانا صاحبان جن چیزوں کا پرچار کرتے ہیں وہ تو لوگوں کو تفصیل سے یاد رہتی ہیں خاص طور پہ جب انکا مفاد پورا ہو رہا ہو۔
      مثلاً تمام نکمی مسلمان خواتین یہ کہتی ہیں کہ روزگار کی ذمہ داری عورت پہ نہیں۔ اور یہ کہہ کر گھر بیٹھے اسٹار ٹی وی دیکھتی ہیں۔ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری اسلام میں عورت پہ نہیں ہے حتی کہ اگر وہ چاہے تو دودھ پلانے کے بھی پیسے وصول کر لے بظاہر یہ باتیں بڑی خوش کن لگتی ہیں۔ لہیکن جب ایک عورت کو اپنے بچوں کو دودھ پلانا ضروری نہیں، تربیت کرنا ضروری نہیں، شادی شدہ عورت پہ اپنے والدین کی خدمت ضروری نہیں، شادی کے بعد شوہر کے والدین کی دیکھ بھال اس کے لئے ضروری نہیں، شہر کے لئے کھانا پکانا اس کے لئے ضروری نہیں۔ اگر ضروری ہے تو یہ کہ اس کی موجودگی میں اسکے مال کی اور اپنی عزت کی حفاظت کرے۔ تو پھر ان سب باتوں کے بعد آخر عورت کی پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ یہی ناں کہ وہ ایک اپنے شوہر کی دل پشوری کیا کرے ورنہ اسٹار ٹی وی دیکھے۔

      Delete
    3. ایسے جدت پسند بھی خواتین کی تعلیم کے قائل اس لیے نہیں تھے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد خواتین آپ کی طرح منہ پھت ہوجاتی ہے اور بلا دریغ خدا اور رسول کو کوسنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ ویسے اگر اسلام نہ آیا ہوتا نا اس وقت آپ اتنی آزادی کے ساتھ بلاگنگ نہ کررہی ہوتی۔ تو آپ کا وجود بھی اسی خدا اور رسول کے مرہون منت ہے۔ اگر نہ سمجھ میں آیا ہو تو بتائیں۔

      Delete
  4. کھلے ہوئے گوشت کی صورت یا بغیر ریپر کی وہ ٹافی جس پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہو۔کی مثال بے پردہ خواتین پر تو فٹ ہوتی ہے مگر ہم کو یہ بھی تو سمجھا دیں کہ آخر پردہ دار خواتین پر کیسے فٹ ہوگی یہ مثال؟ اور اگر گوشت کھلا ہویا ٹافی بنا ریپر کے ہو تو کیا مکھیاں ان پر نہیں بھنبھنا رہی ہونگی؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر اسی مثال کے تحت اگر عورت بےپردہ ہوگی تو کیا وہ آوارہ مردوں کی ہوسناک نظروں سے محفوظ ہوگی؟ پھر یہ سلسلہ کافی طویل ہو جاتا ہے، اور پھر ان سب کے نتیجہ میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میں بدنظری، منہ زور و ناآسودہ شہوانی جذبات میں اضافہ، انکی تسکین کےلیئے ہر طرح کے میڈیا میں پورنوگرافی کا پھیلاؤ، عشق و عاشقی، بلا تفریق رشتہ و عمر کے ٤ سالہ سے لیکر ٨٠ سالہ صنف نازک کے ساتھ جبری و غیر جبری زنا، ہم جنس پرستی، کاروکاری، اور تشدد بمعہ تیزاب سے جھلسانے اور قتل کرنے جیسے افعال عام ہوجاتے ہیں۔ پھر ان لعنتوں کی لپیٹ میں کیا مرد اور کیا عورت سب ہی آجاتے ہیں مگر سب سے زیادہ شکار بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو مذہب و مذہب پرستوں سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پھر بھی انکا نزلہ بھی مذہب اور مذہب پرستوں پر ہی گرتا ہے۔اب قانون کی کمزوری کا رونا مت رویئے گا اور نا ہی مغرب کی مثال ادھر کام دے گی، کہ انہوں نے جس طرح اپنے معاشرہ کو خود اپنے ہی ہاتھوں تباہ کیا ہے اسکے آپ سمیت ہم سب ہی گواہ ہیں۔ ناجائز اولادوں کی کم عمر مائیں ہوں یا پھر بچوں کے حلالی باپ کی شناخت کا مسئلہ ہو آپ کو مغرب ایسے معاملوں میں پوری دنیا کی امامت کرتا نظر آئے گا۔ مزید یہ کہ بلا تفریق مذہب و رنگ و نسل کے انکے ہاں ١٨سال اور اس سے بڑی عمر کی کسی بھی خاتون کی پاکدامنی کی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہوتی ہے اور بوڑھے والدین کو اپنے بچوں کی محبت ملنے کے بجائے اولڈ ہاوس کے ملازمین کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا ہے، بیوی ہو یا بچے انکے سربراہوں کو ان پر ملکی قوانین سے زیادہ کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے۔ اب اگرانسان جانوروں سے بھی بدتر ہے اور اسکو کسی نا کسی قانون کے ماتحت ہی رہنا ہے تو پھر وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے قوانین کے ماتحت ، بالفاظ دیگر انکی غلامی میں کیوں جئیے؟ قادر مطلق کے قانون کی غلامی میں کیوں نا اپنی ذندگی احسن انداز میں گذارے؟ کہ جس میں ازواجی تعلقات قائم کرسکنے کے قابل ہونے کی صورت میں کم عمری میں بھی شادی کی اجازت ہے اور ضرورت کے تحت ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی بھی! مگر یاد رہے کہ قوانین کو توڑنے اور اپنی من مانی کرنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، اسی لیئے اسلامی قوانین کے حقیقی نفاذ کے لیئے درست اسلامی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ بلا تخصیص انصاف فوری و مفت ہو، وہ قحط کے زمانے میں اناج کی چوری کرنے والے کی سزا موقوف کردے اور جرم کی صورت میں اپنے بیٹے کوبھی سزا دے، حاکم وقت اپنے آپ کو حاکم کے بجائے خادم تصور کرتا ہو اور ہر شہری کو یہ حق حاصل ہوکہ وہ حاکم وقت کا محاسبہ کرسکتا ہو-جوکہ سود، شراب اور قبحہ خانوں کا دشمن ہو اب آپ اندازہ لگالیں کہ جب مولانا صاحب شریعت محمدی کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو انکی دیکھنے اور سوچنے کی سکت کہاں تک ہوتی ہے اور کیوں محوری و
    استعماری طاقتیں اور انکے طفیلی و حواری ؛ مولانا صاحب کو نیست و نابود کرنے کو بلا تفریق رنگ و نسل وقومیت و مذہب کے متحد ہوجاتے ہیں! اگر آپ بھی ان باتوں کا ادراک کرلیں تو آپ کے مضمون کے بقیہ حصے کا رد آپ خود لکھ دیں گی۔ وسلام

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں آپ سے مغرب کے معاشرے کی بات نہیں کر رہی نہ اس تحریر میں انکا حوالہ ہے اس لئے یہ سارا قصہ بے کار کا ہے۔ میں آپ سے اسلامی معاشرے کی بات کر رہی ہوں جہاں اٹھآنوے فی صد مرد مسلمان ہیں ۔ اسلامی معاشرے میں مرد اتنے ہوسناک کیوں ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ باہر کہ کسی ملک میں ایک عورت ایک مسلمان عورت پارک میں جا کر چادر بچھائے اور لیٹ کر آزادی سے آسمان کے بادل دیکھے کچھ نہیں ہوتا۔ ارد گرد کے لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ ایک عورت مدنی برقعے بھی ہوسناک نظروں سے محفوظ نہیں رہتی۔ اس لئے ڈیئر سر کے مسلمان مرد کو عورت گوشت کی شکجل میں پیش کی جاتی ہے اور اسکی تربیت ایک گوشت خور جانور کی صورت۔ لازمی بات ہے کہ گوشت دیکھ کر جانور کا حال برا ہوگا۔ وہ یہ جانتا ہی نہیں کہ عورت بالکل انسانوں کی طرح سچ سکتی ہے اور محض قصائ کی دوکان میں لٹکا گتوشت نہیں ہے۔
      اگر آپ ان سب چیزوں کا احساس کریں تو آپ بھی میرے ہمنوا ہو جائیں گے۔
      میں نہ گوشت ہوں اور نہ ٹافی۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ سڑک پہ نکلوں، لوگوں سے باتیں کروں چاہے عورت ہوں یا مرد۔ اچھے کپڑے پہنوں، اپنے آپ کو اچھی لگوں۔ اپنے آپک سجا سنوار کر رکھوں لیکن میں اس لئے نہ کروں کہ میرے اردگرد جو مرد بستے ہیں ان کا دماغ خراب ہے۔ اور انکے دماغ خراب کرنے والے مزید لوگ موجود ہیں۔
      راز کی بات یہ ہے کہ مجھے ہی نہیں دیگر عورتوں کو بھی بعض مرد اچھے لگتے تھے یا اب بھی لگتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئ خاتون ہوسناکی کے اس درجے پہ نہیں پہنچتی۔ اسکی وجہ خواتین کی تربیت ہے اگر یہی تربیت مرد کو بھی ملے تو وہ بھی اپنی ہوسناکی کو قابو میں رکھنا سیکھے۔ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ وہ مرد جو ان معاشروں حتی کہ تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں صرف ایک ہی صنف نظر آتی ہے یہ مرد ذرا ذرا سی باتوں سے ترغیب پا جاتے ہیں اور ان میں ہوسناکی زیادہ ہوتی ہے۔ آپ نے محسوس نہیں کیا ہوگا آپ کبھی ایک خاتون جو نہیں رہے۔

      Delete
    2. گوشت کی بات کچھ بے جا ہے کہ بچوں کی پرورش تو اس کی ماں ہی کرتی ہے۔ اب یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے کہ ماں بچے کی تربیت کیوں اس طرح کرتی ہے یا اس سے اس طرح کیوں ہو جاتی ہے۔ بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے :)

      Delete
  5. کہا جاتا ہے کہ علما اور مولوی معاشرے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ خود مین سٹریم میڈیا کے صحافیوں کو تسلیم ہے کہ غیر ملکوں سے ملنے والے بجٹی تحفوں سے چلنے والی بڑی بڑی این جی اوز عام حالات میں تو کیا کسی ڈیزاسٹر میں بھی کچھ نہیں کرتیں ، کچھ دن پہلے میں نے یہ بحث تھوڑی سی دیکھی تھی جس میں ماروی سرمد ، اوریا مقبول جان اور حمید گل شامل ہیں ،
    http://www.youtube.com/watch?v=aMQTIcjEUIk
    اس میں شروع میں ہی اوریا مقبول جان نے ماروی سرمد کو یہ کہہ کر لتاڑ دیا کہ آپ لوگ کسی ایک عورت پر تو بڑا شور مچاتے ہو لیکن جو سندھ میں ہزاروں عورتیں بھوک سے مر رہی ہیں انکا کیا ؟؟؟ پھر اوریا مقبول جان نے سندھ کے علاقوں میں فلاحی کام کرنے والوں کا مولوی ہونا بھی بتایا ہے ۔ جب سیلاب آیا تھا تب مدارس نے ریلیف میں بہت کام کیا تھا اس کے علاوہ جب سوات کا آپریشن ہوا ، تو فوجیوں نے یہ سوچے سمجھے بغیر آپریشن شروع کیا کہ علاقے کے مکین کہاں جائے گے ۔۔۔ وہاں پر بھی یہ مولوی کام آئے اس بارے میں مولانا عدنان کاکا خیل صاحب کی ویڈیوز بھی یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ http://www.youtube.com/watch?v=FzDmunPZxbA
    بلکہ لیں جی میں تو آپکو مناظرہ کرنے والے مولویوں کی ویڈیوز کا لنک بھی دے دیتا ہوں جنہوں نے سیلاب کے وقت ریلیف میں ایسے علاقوں میں جا کر کام کیا جہاں کوئی اور نہیں گیا تھا ۔
    http://alittehaad.org/other-islamic-videos/1455-flood-relief-activities-pakistan
    اس سب کے باوجود بھی اگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ علما اور مولوی معاشرے میں اپنا کردار ادا نہیں کر
    رہے تو ایسے کسی دعویٰ کو کم علمی و کم عقلی ہی کہا جاسکتا ہے۔


    تو بات یہ ہوئی کہ علماء دیگر کام بھی کر رہے ہیں ، جو انکے کرنے کے نہیں مثال کے طور پر سوشل ورک ، یہ این جی اوز اور دیگر حکومتی اداروں کا کام ہے جو کہ علماء کر رہے ہیں ۔ لیکن حکومتی ادراے جو کہ انکا کام ہی وہی ٹھیک سے نہیں کر رہے ، علماء اور مدراس کے طبقے کو مکمل طور پر الگ کر دیا گیا ہے ، جو کچھ انکو کرنا ہے اپنے طور پر ہی کرنا ہے ۔ اسکی واضح مثال وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والی کہانی ہے ۔ کہ کیسے ان لوگوں نے یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے لیکن مدارس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ۔۔۔۔۔۔ ایسا کیوں ؟؟؟ کیا یہ مدارس کو تعلیمی ادارے نہیں سمجھتے ؟؟؟ کیا مدارس میں طالب علم نہیں پڑھتے ؟؟؟
    اگر ان لوگوں کو کچھ کرنا ہوتا تو وفاق المدارس سے معملات طے کر کے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا ۔۔ بات یہ ہی ہے کہ خود یہ لبرل طبقہ مدارس اور مدارس کے طلبہ کو وہ درجہ نہیں دیتا جس کے وہ حقدار ہیں ۔ اُنکو برابری کی بنیادوں پر ٹریٹ نہیں کیا جاتا ۔ اُنکی تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھا جاتا ۔ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو تبدیلی یہیں سے شروع ہو گی ، کہ مدارس کی تعلیم کو تعلیم سمجھنا شروع کیاجائے ، حکومت اس میں انٹرسٹ لے ، جب لیپ ٹاپ بانٹے جائیں تو انکو بھی اُس کوٹے میں شامل کیا جائے ۔ لیکن یہ لوگ کیا کریں گے ، انسے تو اپنے سکول نہیں چلتے ، کبھی صرف لاہور کے ہی گورنمنٹ سکولز میں جا کر دیکھ لیں ، بچے کلاسوں میں بیٹھ کر ڈرتے ہوں گے کہ کہیں چھت ہم پر نہ گر جائے ۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ جب یہ طبقہ مدارس اور مدارس کے طلبہ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ، تو اُنسے کچھ کرنے کی اُمید کیوں رکھتا ہے ؟؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. بات یہ ہے کہ یہ صرف وہ ملا نہیں جو مدارس میں پھلتے پھولتے ہیں یہ وہ ملا ہیں جو ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور اس سارے پروپیگینڈے میں دراصل وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جدید ملا اب یونیورسٹی میں بھی پڑھتا ہے لیکن کہتا وہی بات ہے جو پنجاب کے ایک پسماندہ گاءوں کا ان پرھ ملا کہتا ہے۔ اس لئے اس نے دین کو نہیں روایت کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے انکی باتوں اور روائیتی ان پرھ کی باتوں میں سوت برابر بھی فرق نہیں ہوتا۔

      Delete
    2. تو محترمہ آپ کی اپنی کوالیفیکیشن کیا ہے؟ ذرا یہ تو بتائیں۔ آخر ان پڑھ ملا کا قد ناپنے والی اعلی تعلیم یافتہ ہونا ہی چاہیے۔ ویسے آپ کے تمام بلاگ پوسٹس آپ کی جہالت کے آئینہ دار ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو معاشرتی علوم کا رتی بھر بھی علم نہیں۔

      Delete
    3. :)
      مولانا صاحب کی ہتک کا معاشرتی علوم سے کیا تعلق ہے۔ آپ اپنے اس علم کی وضاحت کر دیتے تو اچھا تھا۔ یہ تو ہمیں واقعی معلوم نہیں۔
      اس جہالت کو آپ نے پڑھ کر اپنا وقت کیوں ضائع کیا۔ کسی کام کے کام میں لگانا چاہئیے تھا۔ آپ نے یہ جہالت کیوں کی؟

      Delete
  6. الله ہی ان سٹوڈنٹ پر رحم فرماۓ جن کے آپ جیسے استاد ہوں ...

    اپنا vision بڑھایے ... تصویر کا دوسرا رخ بھی ہوتا ہے ....

    There's a lot of grey between the black and white



    آپکی دی ہی اکثر معلومات انتہائی غلط ہیں ...انگریزوں کی آمد کے ساتھ کی تاریخ پڑھیے اور پھر آج کل کے مسلمان کے عمل کو دیکھیے...

    صاف پتا چلتا ہے کہ مسلمان .. مسجد اور دینی مدرسه کا اسسیر یعنی قیدی ... انگریزوں کے رددے عمل میں ہوا ....


    اب اس کو سدھارنے کے بجاۓ .. اس پر تنقید کرنے سے کچھ نہیں ہو گا ... اگر آپ اپنے طالبعلموں کو ہی یہ عقل دے دیں کے .. دیں اور دنیا جدا جدا نہیں ہیں ...
    تو یہ بھی بہت بہتر ہو ....
    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    ویسے انسان کو مکھی کی نظر نہیں رکھنی چاہیے .. مکھی جو ساری صاف اور پاکیزہ جگہ چھوڑ کر سیدھی گندگی میں جا کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر ووہی گندگی اس کی دنیا ہوتی ہے ...

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں صڑف عورت اور پردے پہ ہی نظر نہیں رکھنی چاہئیے یہ بھی تو مکھی والی ہی نظر ہے۔ آپ مجھ سے بات کریں لیکن عزت میرے علم کی نہیں اس کپڑے کی کریں جو میرے سر پہ موجود ہے اگر وہ موجود نہیں تو اپنی تمام تر بھلائ کے باوجود میں قابل احترام نہیں اور اگر وہ موجود ہے تو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود میں ماشاءاللہ کی حقدار۔ کیا عورت کی دنیا صرف پردہ ہے؟
      آپ پاکیزگی اور صفائ کو اتنا محدود کیوں جانتے ہیں؟

      Delete
    2. اچھا یہ آپ نے معلومات میں اضافہ کیا ہے کہ ملا کا سیر، مسلمان انگریزوں کے رد عمل میں ہوا ہے۔
      لیجئیے میں جو تاریخ جانتی ہوں اس میں شاہجہاں کے حرم میں آگ لگ گئ۔ اسی سے زائد خواتین جل کر مر گئ کیونکہ انکے لئے پردے والی بگھیوں کا انتظام ہو رہا تھا۔ تاریخ کہتی ہے کہ شاہجہان انگریزوں سے پہلے کا بادشاہ تھا۔ در حقیقت تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو خلفاء راشدین تک پھر خواتین کا تذکرہ ملتا ہے یعنی حضرت عائشہ نے جنگ لڑی اور ان سے صحابہ مختلف معلومات کے حصول کے لئے آیا کرتے تھے۔ اس کے بعد جن چند گنی چنی خواتین کا نام آتا ہے ان میں سے ایک ملکہ زبیدہ ہے، ہارون رشید کی ملکہ۔ کہاں ہیں آپکی مسلم خواتین، جبکہ مسلم سلطنت ایک بڑے حصے میں موجود تھی۔

      Delete
  7. اے لو ، ادھر تو بلاگی ملاؤں نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ موضوع ہی ایسا ہے جتنے زور و شور سے اسکی تبلیغ ہوتی ہے اتنا ہی زوروشور سے ہنگامہ۔

      Delete
  8. Madam waisay punjabi Mard aap ko bade pasand lagte hain.
    Hab ich recht oder?
    Saadi wakhri taur Nawabi,
    saadi qoum a shairaan di,
    sanoo kehnde log "Punjabi".

    Punjab mein stolz Deutschland(punjab mera maan Germany).

    ReplyDelete
  9. ہائیں، یہ رائے بنانے سے پہلے اردو بلاگنگ کی دنیا سے مشورہ تو کر لیا ہوتا۔ وہ آپکو بالکل متضاد رائے دیتے۔ ویسے یہ کہ مجھے پنجابی عورتیں بڑی پسند ہیں۔ بالخصوص سوہنی مہینوال کی داستان میں سوہحنی۔ جتنے بھی مشکل حالات ہوں آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ثقافتی گروہ بندیوں میں پنجاب کی خواتین سب سے بہتر حالات میں ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ‘اج آکھاں وراث شاہ نوں
      کِتوں قبراں وچوں بول
      تے فیر کتابِ عشق دا
      کوئی اگلا ورقا پھول
      اک روئی سی دھی پنجاب دی
      تو لِکھ لِکھ مارے وين
      اج لکھاں دھياں روندياں
      تينوں وارث شاہ نوں کین
      اٹھ دردمنداں دیا درديا
      اٹھ تک اپنا پنجاب
      اج بيلے لاشاں وچھياں
      تے لہو دی بھری چناب
      اج سبھے کيدو بن گئے
      ايتھے حُسن عشق دے چور
      اج کتھوں لياواں لبھ کے
      ميں وارث شاہ جيا ہور‘
      (امرتا پريت
      Ahmad Goraya from Düsseldorf(Germany).

      Delete
  10. محترمہ انیقہ صاحبہ!...آپ کا یہ آرٹیکل وقت کی ضرورت اور ہمارے دل کی آواز ہے ....آپ کے تبصرہ نگاروں نے حسب معمول رولا پایا ہوا ہے....میں یہاں اپنے مضامین میں سے کچھ اقتباس پوسٹ کررہا ہوں، آپ ان کا مطالعہ شاید کرچکی ہوں لیکن میں ان مبصرین کرام کی خدمت میں ان کی اچھل کود کے جواب میں پیش کرنا چاہتا ہوں!


    تاریخ کا گہری نظر سے اور خصوصاً غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنے والے مفکر بیان کر تے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لگ بھگ سات ہزار سال پہلے کے دور میں مادری نظام رائج تھا ........... مادری نظام یا ماتری آرچی دو الفاظ کا مجموعہ ہے ، ماتری '' ماں ''اور آرچی '' حکمرانی '' یعنی ماں کی حکمرانی !.........

    قبل از تاریخ کے عہد میں معاشرے کے سیاسی ، علمی ، معاشی اور فنی شعبوں پر خواتین کی گرفت قائم تھی اور مردوں کی حیثیت ثانوی تھی ....... اس دور میں ملکیت ، وراثت ، نسبت ، حقوق اور فرائض خواتین سے وابستہ تھے ، گھر سے لے کر ریاست تک ہر جگہ عورت کی سربراہی قائم تھی ..............

    آرکیالوجی کے معروف مغربی ماہر ول ڈیورنٹ اپنی کتاب '' انسانی تہذیب کا ارتقاء '' Story of Civilization میں تحریر کرتے ہیں ''ابتدائی معاشرے میں معاشرتی ترقی کا انحصار مرد کے بجائے عورت پر تھا ، صدیوں تک مرد صرف شکار اور غلہ بانی کے قدیم طریقوں سے چمٹا رہا جبکہ عورت نے ایسے علوم کو فروغ دیا جو بعد میں زمانے کی اہم صنعت بن گئے '' ...........

    ReplyDelete
  11. ول ڈیورنٹ مزید لکھتے ہیں '' جہاں تک ہم تاریخ کے دھندلکوں میں دیکھ سکتے ہیں ، ابتداء میں عورت نے ہی زیادہ تر خاندانی وظائف سرانجام دیے چنانچہ ابتدائی خاندان اس نظریے پر منظم ہواجس میں مرد کی حیثیت سطحی اور ضمنی تھی اور عورت کی حیثیت ( اپنے ازلی شرف ''ماں '' کی بنا پر ) بنیادی اور ارفع تھی ............. قبل از تاریخ کے معاشروں میں باپ اور بچوں کے درمیان تعلق اس قدر کم تھا کہ خاندان کی سادہ ترین شکل ماں اور اس کے بچے تھے اور شجرۂ نصب ماں کی طرف سے منتقل ہوتا تھا .......... شکار کے عہد میں عورت شکار کے سوا ہر قسم کا کام کرتی ، مرد شکار کے موسم کے علاوہ سارا سال آرام کیا کرتا .......... جبکہ عورت اس دوران تخلیق کے تکلیف دہ مراحل کو جھیلتی ، اولاد کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ، جنگل اور کھیتوں سے غذا اکھٹی کرتی ، کھانا پکاتی ، صفائی کرتی ، کپڑے سیتی ، جوتے بناتی ، وغیرہ وغیرہ ............... اس دور میں بعض ایسے قبائل کے شواہد بھی ملے ہیں جن کے حاکم مرد تھے ، لیکن انہیں اپنے ہر فیصلے کے لیے قبیلے کی دانشمند خواتین پر مشتمل ایک کونسل کی رضامندی حاصل کرنا لازم تھا ، بلکہ ایسے قبیلوں میں جہاں مرد حاکم ہو ا کرتے تھے ، نئے سردار کا تقرر بھی خواتین کی یہ کونسل ہی کرتی تھی '' .............

    ReplyDelete
  12. ہم کہہ سکتے ہیں کہ قبل از تاریخ کے ان حکمران مردوں کی حیثیت ، گزشتہ پانچ ہزار برس سے لے کر موجودہ عہد تک کی خواتین حکمرانوں کی سی ہے ، ان پانچ ہزار سالوں کے دوران اقتدار حاصل کرنے والی خواتین حکمران اپنے اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے تمام فیصلوں میں مردوں کی محتاج نظر آتی ہیں ..........

    بتایا جاتاہے کہ مادرانہ نظام کے خلاف مردوں کی بغاوت کے پیچھے ان کی جنسی ہوس کار فرما تھی .......... چونکہ مادرانہ نظام کے دوران جنس کا معاملہ فطرت کے تابع تھا ، جس طرح دیگر نوعوں میں نسل کشی کے لیے ملاپ کا ایک خاص موسم ہوا کرتا ہے ، نوع آدم میں بھی ایسا ہی طریقہ کار متعین تھا ............ ماہرین کا خیال ہے کہ جب مردوں نے جنسی تلذّذ کو شعوری طور پر جان لیا تو فطرت کے نظام میں مداخلت شروع کردی ، لیکن چونکہ معاشرتی ، سیاسی اور اخلاقی نظام مکمل طور پر عورتوں کے ہاتھ میں تھا اسی لیے یہ مداخلت کامیاب نہ ہوسکی ، چنانچہ مردوں نے ہزاروں سال سے قائم مادرانہ نظام کے خاتمے کے لیے سازشیں شروع کردیں ،ابتدائی مراحل میں ہی انہیں کامیابی حاصل ہونے لگی ........... قصہ مختصر مذہبی تقدس حاصل کرنے کے بعد مردوں نے مادری نظام کے بخیے ہی ادھیڑ ڈالے .............

    ReplyDelete
  13. مذہب کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے مرد دیوتائوں ، پروہتوں اور حکمرانوں نے جب عورتوں پر غلبہ حاصل کرکے انہیں محکوم اور غلام بنالیا تو اس غیر فطری محکومی اور غلامی کے خلاف احتجاج کرنے والی عورتوں کو بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہنائی گئیں ، مویشیوں کی طرح ان کی ناک میں نکیل اور گلے میں طوق ڈال دیے گئے ، ان کے بالوںکو غیر معمولی طور پر بڑھا کر انہیں رسی کی طرح بل دے کر لگام کے طور پر استعمال کیا گیا ، ان کے پیروں کو بھاری پتھر سے باندھ دیا گیا ........... ظلم وستم اور غلامی کے اس دور کی طوالت کا اندازہ لگ بھگ تین ہزار برس لگایا گیا ہے ............ اس دوران عورتوں کی ایسی برین واشنگ کی گئی کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود آج ترقی یافتہ دور کی باشعور عورت بھی اس غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کرسکی بلکہ ظلم و ستم کی نشانیوں کو آج بھی آرائش و زیبائش کے طور پر اپنائے ہوئے ہے ...........

    ReplyDelete
  14. جی ہاں ! ......... شاید یہ انکشاف اکثر مردوں کے لیے ہی نہیں خواتین کے لیے بھی کسی دھماکے سے کم نہ ہوگا .........

    لیکن حقیقت لاکھ تلخ سہی ، بحرحال حقیقت ہوتی ہے ............

    مثال کے طور پر غلام اور محکوم بنانے کے لیے پہنائی جانے والی ہتھکڑیوں کو چوڑیوں اور کڑوں کی صورت میں باقی رکھا گیا تاکہ یہ یاد رہے کہ عورت مردوں کی غلام ہے !........... کانچ کی چوڑیوں اور صحرائی علاقوں میں کاندھوں تک پہنے جانے والے رنگ برنگے کڑوں کے پس پردہ ماضی کے گھنائونے دور کی یہ حکمت عملی کام کررہی ہے کہ سخت محنت کے ایسے تمام کام جو آج مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں ، خواتین چاہنے کے باوجود نہ کرسکیں...........حالانکہ مادرانہ نظام میں محنت ومشقت کے تمام کام خواتین بخوبی انجام دیا کرتی تھیں ...........
    ٍ آج بھی دنیا کے مختلف معاشروں میں پڑھی لکھی باشعور خواتین فیشن کے طور پر پیروں میں پازیب پہنتی ہیں، جو دراصل محکومی اور غلامی کے سیاہ دور میں پہنائی جانے والی بیڑیوں کی علامتی صورت ہیں .............

    ReplyDelete
  15. آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ چین میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی لوہے کے جوتے پہنادیے جاتے تھے ، تا کہ ان کے پیر اور قد و قامت دونوں چھوٹے رہ جائیں ، شاید اس لیے کہ اس طرح وہ مردوں کے ظلم و تشدد کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکیں ،لیکن اس احمقانہ روایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اگلی نسلیں ہی پستہ قد رہ گئیں .............. حیرت ہے !!! ........ایک سادہ سی بات بھی عورت کو محکوم بنانے والے مردوں کی عقل میں نہ آسکی کہ وہ عورتوں ہی سے تو پیدا ہوتے ہیں ............ مرد عورت سے ہی تو وجود میں آتے ہیں .......... عورت ہی مردوں کو تخلیق کرتی ہے .......... مردوں کا ذہن و جسم عورتوں کا ہی تو مرہون منت ہے .............

    مغرب میں عورتوں پر مردوں کی برتری اور اس کی صلاحیتوں پر قدغن لگانے کے لیے جو جدید طریقہ مروّج ہے ، وہ جوتوں اور سینڈلوں کی اونچی ایڑیاں ہیں !!............ تاکہ ان کی نقل وحرکت کو محدود کیا جاسکے ..............

    برصغیر میں دلہنوں کو پہنائی جانے والی نتھ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی حیثیت اپنے شوہر کے پالتو مویشیوں جیسی ہے اور اس کی ناک میں ڈالی گئی یہ نکیل( نتھ ) اب اس مرد ( شوہر ) کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے ،تاکہ وہ اس کے قابو میں رہے ...........

    ReplyDelete
    Replies
    1. ماشاء اللہ۔ پیروں میں لوہے کے جوتے پہنانے سے قد چھوٹا رہ جانے کا تعلق تو میری سمجھ سے باہر ہے :)

      Delete
  16. عورت کے بالوں کی لمبی چٹیا دراصل ماضیٔ بعید کے اس گھنائونے دور میں عورتوں کو ڈالی جانے والی لگام کی ماڈرن شکل ہے ، جسے اس دور کے مرد وں نے عورتوں کو اپنے بس میں کرنے کے لیے بنوائی تھی ........... اسی طرح عورتوں کی آرائش وزیبائش کی دیگر اشیاء مثلاً بالیاں ، بندے بھی اسی دور کے ظلم وستم کی علامتیں ہیں ، جنہیں عورتوں نے آج بھی بڑے ناز سے اپنایا ہوا ہے ...........

    ہزاروں برس گزرنے کے باوجود یہ ساری نشانیاں اس لیے قائم ہیں کہ اس دوران مذہبی اجارہ داروں ، گدی نشینوں، پروہتوں ، فقیہوں ، فریسیوں اور ان کی مدد سے خود کو آسمانی خدا کا سایہ اور اس کا پرتو قرار دینے والے حکمرانوں اور بادشاہوں نے نبیوں اور غیر جانبدارانہ طرزفکر کے حامل مفکروں کی ان تمام کوششوں کو برباد کر ڈالا ، جو انہوں نے عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے ضمن میں کی تھیں ..........

    مذہبی اجارہ داروں نے انبیاء کی تعلیمات اور صحائف میں اس طرح تحریف کی کہ انہیں عورتوں پر جاری ظلم وستم کو روا رکھنے کے لیے ایک مقدس جواز ہاتھ لگ گیا ......... مثال کے طورپر اہل یہود جس شریعت پر ایمان رکھتے ہیں ، اس کے مطابق اگر مرد وارث موجود ہو تو عورت محروم رہے گی اور بیوہ کو دوسری شادی کرنے کا کوئی حق نہیں ...........

    ReplyDelete
  17. عیسائی مذہب کے فقیہوں نے بھی عورت کے خلاف کئی احکامات اختراع اور استخراج کیے ، مثلاً کتاب مقدس کی یہ روایت ملاحظہ کیجیے ...........'' میںاجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے اور مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ چاپ رہے کیوں کہ پہلے آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھاکر گناہ میں پڑگئی '' ۔ ( انجیل : 1۔ تیمتھیس ، باب 2:2 )

    مذہبی معاشرے مشرق کے ہوں یا مغرب کے ، دونوں ہی جگہ خواتین کے سر کو اسکارف یا چادرسے ڈھانپنے کی روایت موجود ہے مغرب نے چونکہ مذہبی اجارہ داروں کی اجارہ داری کو رد کردیا تھا اس لیے وہاں یہ محض راہبائوں ( نن ) تک محدود ہوچکی ہے ، اس روایت کے پس پردہ بھی عورت کو محکوم اور غلام بنانے کی گھنائونی سوچ کا م کررہی ہے ، اس کا ثبوت یہ ہے ...........'' مرد کو اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہیے کیوں کہ وہ خدا کی مورت اور اس کا جلال ہے ، اس لیے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے اور مرد عورت کے لیے نہیں بلکہ عورت مرد کے لیے پیدا ہوئی ہے ، لہٰذا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت ( اسکارف یا چادر ) اوڑھے رکھے ''۔ ( انجیل :کرنتھیوں، باب 7:3 )

    عورت کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ ماں ہے .......!

    یعنی احسن الخالقین کے تخلیقی نظام کی ایک اہم رکن ہے .......!

    قبل از تاریخ کے عہد میں قائم مادری نظام کے تحت لڑکی چاہے کم سن ہو یا جوان ! ہر حال میں اسے '' ماں '' کے رتبے کی حرمت حاصل ہوتی تھی .......... لیکن مردوں نے اپنی اجارہ دار ی قائم کرکے ''ماں ''کی بے حرمتی کی، اس کی عصمت کو پامال کیا، اسے جانوروں کی طرح منڈیوں میں فروخت کے لیے گھسیٹ لائے ......... اسے اپنی دلبستگی کے سامان کا درجہ دے کرعصمت و عفت کی حفاظت کا تقاضہ بھی خود اسی سے کیا ............. اور یہ روایت مستحکم کردی گئی کہ عصمت و عفت سے محرومی کے نتیجے میں عورت سے ہی جینے کا حق چھین لیا جائے ............

    ReplyDelete
  18. تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں کہ نجانے کتنے معاشروں میں نجانے کتنی صدیوں تک عورت یعنی ماں کی حیثیت مال مویشیوں کی مانند تھی ............. مویشیوں کو ذبح کیا جائے ، فروخت کیا جائے ، ان سے کشی کروائی جائے ، ان کے دودھ کو فروخت کیا جائے ، یا پھر ان کو محنت و مشقت کے کاموں میں لگا کر اپنے لیے آسانیاں نکالی جائیں ............ یہ سب ان کے مالک پر منحصر ہے .........

    اسی طرح عورت کو بھی اپنی زندگی کے بارے میں کوئی اختیار حاصل نہیں ...........

    ماضی کی یہ روایت آج بھی قائم ہے !.............

    اسلام کے دعویدار معاشروں میں '' حلالہ ''کے نام پر عورت ہی کو بکری بنادیا جاتا ہے ،غلطی یا حماقت شوہر ( مرد ) کی ہوتی ہے کہ وہ غصے میںطلاق دے دیتا ہے پھر ہوش میں آنے پر پچھتاتاہے لیکن اس حماقت کا خمیازہ اکثر ( بیوی ) عورت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ، چونکہ بعض مذہبی اجارہ داروں نے قرآنی احکام کے برعکس اس فقہی اختراع کا بہت زیادہ ابلاغ کیا ہے ( حلانکہ بہت سے مذہبی طبقات اس معاملے پر سخت تحفظات رکھتے ہیں ) کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق تین ہی تصور کی جائیں گی اور دوبارہ اس شوہر سے نکاح کسی دوسرے مرد سے شادی اور پھر طلاق کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا ...........ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین تسلیم کرنے کی یہ روایت دورملوکیت کی ایجاد ہے ، جب رعایا سے ا س عہد پر حکمران بیعت لیتے تھے کہ اگر بیعت توڑی گئی یعنی حکمران وقت کے خلاف بغاوت کی گئی تو تمہاری بیویوں کو تین طلاق ! ............

    آج یہ روایت مذہب کے نام پر جاری ہے اور اس شرمناک روایت سے مبینہ طور پر مذہبی اجاروداروں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے ، بعض افراد کا تو کہنا ہے کہ یہ لوگ دوہرا فائدہ اٹھاتے ہیں ، اول اپنی ہوس پوری کرتے ہیں ،دوم بھاری رقم بھی بطور معاوضہ اینٹھ لیتے ہیں ............ حالانکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ''حلالہ کرنے والااور کرانے والا دونوں ملعون ہیں '' ۔ ابودائود ، ترمذی ، ابن ماجہ

    ReplyDelete
  19. ہزاروں سال پہلے کا دور ہو یا موجودہ ترقی یافتہ زمانہ ،جاگیردارانہ یا قبائلی نظام کے حامل معاشروں کا یہ چلن ہے کہ کنواری لڑکی کی عصمت کا مالک اس کا باپ یا سرپرست جبکہ شادی کے بعد اس کا شوہر ہوتا ہے ، وہ جب چاہے اسے چھوڑ دے ، جسے چاہے اسے پیش کردے ، عورت کو ہر صورت میں اس کے ارادوں کی تعمیل کرنی ہے ............. .معروف مؤرخ ابن حنیف نے اپنی کتاب '' دنیا کا قدیم ادب '' میںتحریر کیا ہے کہ ......... '' شادی شدہ عورت کی عصمت کی پامالی کی زد خود اس کی ذات پر نہیں بلکہ اس کے وارث یا خاوند پر پڑتی تھی لیکن کنواری عورت کی عصمت کی پامالی کی زد پورے معاشرے پر پڑتی تھی '' ........... آج بھی دنیا میں ہمارے معاشرے سمیت بہت سے معاشرے ایسے ہیں جہاں غیر متمدن دور سے چلی آرہی اسی روایت کے تحت غیرت کے نام پر عورت قتل کردی جاتی ہے ...........

    اورہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو اس غیر فطری روایت کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے ، چاہے کسی قانون پر عمل ہو یا نہ ہو اس پر ضرور عملدرامد کیا جاتا ہے !!

    صرف یہی نہیں ، بلکہ اجتماعی زیادتی کے معاملے میں بھی مجرم عورت ہی قرار دی جائے گی ، اس قانون کے خلاف بات کرنا بعض لوگوں کے خیال میںگویا قرآن وحدیث کے خلاف بات کرنا ہے ( نعوذباللہ ).............

    ReplyDelete
  20. جی ہاں !........ آپ نے درست سمجھا ، ہم حدود آرڈیننس کی بات کررہے ہیں ، جس کی رو سے ہر صورت میں عورت کو ہی مجرم ٹھہرا یا جاتاہے ،گو کہ جنرل مشرف کے دور میں اس آرڈیننس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس کی بنیاد کو نہیں چھیڑا جاسکا ، اس معاملے کو ہم کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ............ یہاں مناسب ہوگا کہ اس آرڈیننس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں ........... یہاں ان لوگوں سے معذرت جو اس آرڈیننس کو وحی و الہام کا سا تقدس دیتے ہیں .............

    '' مرد مومن مرد حق '' کے '' مومنانہ '' دور میں اس آرڈیننس کا اجرا ہوا ، اسی سیاہ دور میں ( جسے ذہنی طور پر نابینا افراد'' دور ضیاء ''یعنی روشن دور سمجھتے ہیں) ایک تیرہ برس کی نابینا لڑکی کے ساتھ ایک شخص نے اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ اجتماعی زیادتی کی ، یہ 1983 ء کا واقعہ ہے ، کیس عدالت میں گیا ، لڑکی کا طبی معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ لڑکی پر ایک اور قیامت گزررہی ہے ............. وہ حاملہ ہوچکی تھی ............ یہ کیس لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا تھا ، لیکن مذہب کے نام پر بنائے گئے قانون کا استعمال کرتے ہوئے خود مدعی کو ہی الجھا کر رکھ دیا گیا ، عدالت نے اسے زنا کی مجرمہ قرار دیتے ہوئے بالجبر زیادتی کے مرتکب مجرموں کو باعزت بری کردیا ............. اخبار میں تفصیلات شایع ہوئیں تو بہت سے درمندوں نے سخت لعنت ملامت کی ، بہت شور شرابہ اور بہت رسوائی کے بعد اس غریب مظلومہ کی اس عذاب سے جان تو چھوٹ گئی لیکن اصل مجرم آزاد پھرتے رہے اور قانون کی تمام تر توجہ اس کم سن مظلومہ کو مجرم ثابت کرنے پر ہی مبذول رہی ..............

    عقل سر بہ گریباں ہے کہ یہ کون سا اسلام ہے جو مظلوم پر ظالم کے اعمال تھونپ کر اسے سزا بھی سنا دیتا ہے ؟؟ .........

    ہمارے خیال میں اسلام تو کجا یہ انسانیت بھی نہیںہے .............

    ReplyDelete
  21. ارشاد باری تعالیٰ ہے ..........

    ترجمہ : '' وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ عبرتناک طریقے سے قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پیر بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں '' ۔ ( سورہ المائدہ ۔آیت ٣٣ )

    لیکن کیا اس طرز کے انصاف کی توقع ہمارے معاشرے میں کی جانی چاہیے ، جہاں روشن خیالی کا غلغلہ بلند کرنے والے مطلق العنان جنرل مشرف بھی فرسودہ روایتوں کے امینوں ، محافظوں اور پرچارکوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے ..............

    یہ تو بالجبر عصمت کی پامالی کا معاملہ تھا لیکن دوسری صورت میں بھی سراسر عورت کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ..........چاہے عورت نے قحبہ گری کو بطور پیشہ ہی کیوں نہ اختیار کر رکھا ہو تب بھی اس کے پاس آنے والے گاہک جو عموماًمعاشرے کے معزز طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کیا عورت کو اس پستی میں دھکیلنے کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ............ ؟؟؟

    نفسیات اور صنفی حسیات پر ریسرچ کرنے والے ماہرین اس بات کی تصدیق کریں گے کہ عورت اس فعل کے لیے فاعل کی جانب سے ملنے والی تحریک کی محتاج ہے ........... جب اس بات کی تصدیق ہو جائے تو پھر ہمارے اس سوال کا جواب دیجیے کہ فاعل (مرد ) کے فعل کی ذمہ دار ی مفعول ( عورت ) پر کیوں کر ڈالی جاسکتی ہے ......... ؟؟؟

    ReplyDelete
  22. قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کرلیجیے ،کسی بھی آیت سے یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ حواکو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا ،بلکہ جہاں جہاں آدم کی تخلیق کا تذکرہ ہے ، وہاں آدم سے مراد انفرادی شخصیت نہیں بلکہ نوعی تشخص ہے ........باجود اس کے کہ اللہ پاک نے قرآن حکیم کے ذریعہ اس نظریہ کو رد فرما دیا کہ عورت مرد سے تخلیق ہوئی یا مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی اوراپنی آیات میں وہی ضابطہ تخلیق بیان کیا جو لا شمار برسوں سے جاری ہے،لیکن تفسیر کے نام پر دیو مالائی تصورات اور بائبل کی تحریفی روایات کا پیوند لگا کر ان کو قرآنی آیات کا مفہوم قرار دے دیا گیا ............

    دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ خلافت راشدہ کے دوران بھی بہت سی خواتین نے معاشرے کی ترقی کے لیے ہرممکن عملی جدوجہد کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے قبائلی معاشرے کی خواتین کو ایسا اعتماد عطا کیا تھا کہ انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا ، یہاں تک کہ جنگوں میں بھی بعض خواتین نے سپاہیانہ جوہر دکھائے ...........لیکن اسی اسلام کے نام پر اجارہ داری قائم کرنے والے مذہبی رجعت پسندوں کا خیال ہے کہ عورت کے حواس پر پہرے بٹھادیے جائیں اور اس کی عقل وشعور پر تالے ڈال دیے جائیں ...........ان کا کہنا ہے کہ کوئی خاتون گھر سے ضرورتاً بھی باہر نہ نکلے ، کوئی مرد اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے ، یہاں تک کہ اس کاناخن بھی نظر نہ آ سکے ، معاشی جدوجہدکا معاملہ تو چھوڑیے ایسے لوگوں نے عورت کا مسجد میں داخلہ بھی بند کر ڈالا اور اپنے اس عمل کا بہتان حضرت عمر سر ڈالنے کی کوشش کی ( اللہ رحم فرمائے ) ........... جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مدینے کی ایک مضافاتی مسجد میں ایک خاتون حضرت ام ورقہ کو بطور مقتدی نہیں بلکہ بطور امام مسجدمقرر فرمایا تھا اور آپ اپنے یہ فرائض حضرت عمر کے عہد خلافت تک ادا کرتی رہیں .............ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے لکھا ہے کہ اس مسجد میں مرد مؤذن متعین تھا اور ان کی امامت صرف عورتون کے لیے نہیں تھی بلکہ مردوں کے لیے بھی تھی ۔ ملاحظہ کیجیے کتاب '' خطبات بہاولپور '' از ڈاکٹر حمید اللہ ۔ ناشر : ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد ۔ صفحہ 35 اور 420 ) ............

    ReplyDelete
  23. قرآن پاک کی ایک آیت جس کے ذریعے مذہبی اجارہ دار مردوں کی عورتوں پر حاکمیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ ہے الرجال قوامون علی النساء یعنی مرد حاکم ہیں عورتوں پر ...............

    لفظ قوامون قَ وَ مَ سے مشتق ہے ، اسی ماخذ سے قاماً ، قیاماً ، قیوم اور قیامت جیسے الفاظ نکلے ہیں ، ان الفاظ سے کھڑا ہونا اور قائم ہونا مراد ہے ، امام راغب اصفہانی کتاب '' مفردات القرآن '' میں لکھتے ہیں کہ عربی لفظ قائم کا مطلب ہے باقی ہونا ، قوامون سمیت یہ تمام الفاظ َقوَمَ سے ہی ماخوذ ہیں .......... معروف عربی لغت المنجد میں قوام کے معنی '' دارومدار ہونا '' درج ہیں ، دور حاضر کے ایک محقق ریاض آفندی نے قوامون کے معنی '' قائم کیا '' لکھے ہیں ........... سطور بالا میں بیان کی گئی سائنسی حقیقت کو ذہن میں رکھیے اور عربی لفظ '' قوام '' کے لغوی معنی پر تفکر کیجیے ، یہ حقیقت آپ پر بھی منکشف ہوجائے گی کہ مردوں کا قیام ، باقی رہنا یا ان کا دارومدار عورتوں پر ہے ، یعنی عورت نہ ہو تو نہ مرد کا وجود تخلیق پا سکتا ہے اور نہ زمین پر انسانی وجود کا تصور کیا جا سکتا ہے ............

    اسی حقیقت کو سورہ آل عمران کی آیت 36میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ......... لیس الذکر کا لا نثٰی ........... یعنی نہیں ہو سکتا مذکر مونث جیسا ........... !!!!

    گوکہ عقل و خرد کے بہت سے دشمن یہ اور ایسی بے شمار واضح حقیقتوں کوجھٹلانے کے لیے بھی جوازڈھونڈ لاتے ہیں ، بلکہ طالبانی طرز کی شدت پسندی کو ہی اصل اسلام خیال کرتے ہیں .............. ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو بظاہر تو عقل شعور کے حامل دکھائی دیتے ہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ خواتین کے معاملے میں وہ بھی سعودی ماڈل سے آگے نہیں بڑھ پاتے ، جہاںآج بھی خواتین کے تنہا سفر پر پابندی ہے ، اور خواتین کار کی مالک ہونے کے باوجود خود ڈرائیونگ نہیں کرسکتیں ، اکیلے سفر نہیں کرسکتیں ، کسی ایسے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتیں جس میں مردوں سے کام لینا پڑے یا ان کے ساتھ کام کرنا پڑے ، وغیرہ وغیرہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. معذرت کے ساتھ نہایت افسوس سے کہنا پڑ ررہا ہے کہ آپ نے قوام کا جو معنی بیان کیا ہے، آیت کریمہ کا اپنا سیاق و سباق اس کی تردید کر دیتا ہے اور آیت کا یہ ٹکڑا اگلے اور پچھلے جملوں میں بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جو پرویز صاحب نے اختیار کیا تھا کہ ڈکشنری کی مدد سے لفظ کو ایسے معنی پہنائے جائیں جو کبھی اہل زبان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آئے۔

      باقی یہ بات درست ہے کہ ہمارے معاشروں میں خواتین پر جو نامعقول پابندیاں لگائی گئی ہیں، ان کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ عہد رسالت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں خواتین کو بڑی آزادی حاصل تھی۔ وہ مسجد میں آتی تھیں، گھر کے اندر اور باہر کام کرتی تھیں، علمی مشاغل میں حصہ لیتی تھیں اور تجارت تک کیا کرتی تھیں۔ ہمارے ہاں جاگیردارانہ نظام میں یہ تصور پھیل گیا کہ خاتون کو اگر ذرا سی بھی آزادی دی گئی تو یہ بدکاری کروائیں گی۔ اسلام کا نقطہ نظر یہ نہیں ہے۔

      قوام کا درست مطلب یہ ہے کہ خاندان کے ادارے کا CEO خاوند ہے کیونکہ وہی معاش کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے جبکہ اس کا Chief Operating Officer بیوی ہے۔ اسلام کا مزاج شورائی ہے اس وجہ سے کسی ایک فریق کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی ہر معاملے میں ٹھونسے۔ معاملات کو مشورے ہی سے چلانا چاہیے۔

      Delete
    2. جدید طرز معاشرت میں امراء کو چھوڑ کر عام مرد کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ خاندان کے معاش کی ذہمداری مکمل طور پہ اٹھائے رکھے اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو عملی طور پہ یہ صاحب حیثیئت خاندانوں پہ ہی پورا اتر سکتا ہے۔ غریب کی تو اس میں گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ غربت سے نمٹںے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ سب مل کر کام کریں اور اپنی معیشت کو بیتر کریں۔ جبکہ عموماً لوگ جس قسم کی مسلمان خاتون چاہتے ہیں وہ کسی مالدار گھرانے میں ہی رہ سکتی ہے ۔ ایسی خاتون نہ صرف یہ کہ اپنی معاشی بہتری کے لئے کچھ نہیں کر سکتی بلکہ چونکہ اسے یہ افیم پلائ جاتی ہے کہ روزگار اس کی ذ٘ہ داری نہیں تو وہ معیشت کو بہتر بنانے میں بھی دلچسپی نہیں لیتی۔
      قوام کا لفظ اپنے طور پہ خاصہ متضاد ہے۔ اسکے ایک معنی جسمانی طور پہ قوی ہونا بھی ہیں۔ جو کہ اس آیت کے ضمن میں درست معلوم ہوتے ہیں۔

      Delete
  24. برصغیر جسے مغلوں کے عہد میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ، یہاں بھی عالم اسلام کے دیگر خطوں کی طرح عام لوگوں کی حالت ہمیشہ پست ہی رہی ، بادشاہ ، علماء اور صوفیاء کے طبقات نے عوام کو اپنے مقاصد کے لیے تو بے محابا استعمال کیا لیکن ان کی حالت سدھارنے کے لیے مستقل اور ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی ...........

    عوام سے ہمدردی کا اظہار ہمیشہ '' لنگر '' کے ذریعے کیا جاتا تھا ..........

    اسکول ، ہسپتال اور دیگر اقسام کے عوامی فلاحی مراکز کا کوئی تصور بھی موجودنہیںتھا ..............

    لنگر محلات سے تقسیم کیا جاتا یا مزار و خانقاہ سے ، اس کی تقسیم کے وقت سینکڑوں افراد کے کچلے جانے کے واقعات بھی کثرت سے ملتے ہیں .........

    فقہا و علماء تو خواتین پر مردوں کی حاکمیت کے سختی سے قائل تھے اور اسے شریعت کا حصہ ہی خیال کرتے تھے لیکن صوفیاء جنہیں ہندوستان کی عوام نے دیو مالائی تقدس دے رکھا تھا ، نے بھی جاہلانہ روایات کی بیخ کنی کے لیے کو ئی خاص عملی جدوجہد نہیں کی ........... ان کی اپنی ایک الگ سلطنت تھی جس کے وہ سلطان تھے ،جس طرح بادشاہ کے دربار میں حاضری کے وقت اسے سجدہ کیا جاتا تھا ، صوفیاء کے پاس حاضری دینے والے بھی انہیں سجدہ کیا کرتے تھے .............

    ReplyDelete
  25. بادشاہوں کو عیش وعشرت اورلوٹ مار سے کبھی فرصت مل جاتی تو عالیشان عمارتیں بنواتے ......... اپنی اہلیہ ممتاز محل کی محبت کی یادگار اور عجوبہ عالم تاج محل تعمیر کروانے والے بادشاہ شاہجہاں نے ایک روز کسی کنیز کو '' طلب '' کیا تو کنیز کی ماں نے کہلوادیا کہ وہ کنیز بادشاہ کی ہی بیٹی ہے ........... !!!

    بادشاہ کی '' طبع نازک '' پر یہ اطلاع سخت ناگوار گزری اور اس نے فی الفور مذہبی علماء کو طلب کرکے معاملہ پیش کیا .......... اور تکمیل ہوس کے لیے راستہ نکالنے کا حکم دیا ............. دربادی مفتیوں نے فتویٰ دیا کہ ......... جس درخت کو اپنے ہاتھ سے لگایا جائے ، اس کا پھل بھی کھا یا جا سکتا ہے .............

    یہ محبت کی یادگار تعمیر کروانے والے کا کردار ہے ........... اس کی ملکہ کا انتقال ڈلیوری کے دوران ہوا تھا ......... اسی شاہجہاں کے دور میں سوئیڈن کے بادشاہ کی بیوی کا انتقال زچگی کے دوران ہوا تو اس نے پورے ملک میں مڈوائفری کا سسٹم رائج کردیا ............

    بعض مؤرخین نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ شاہجہاں نے تاج محل کے انجینئروں اور تعمیری کارکنوں کو یہ معاوضہ دیا تھا کہ ان کے ہاتھ کٹوادیے تھے ، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اس نے بعد میں سب کو ہلاک کروادیا تھا ............

    ReplyDelete
  26. دنیا میں اجتماعی طور پر ذہنی و فکری تبدیلی کا آغاز اس وقت سے ہو ا جب جاگیردارانہ نظام کے خلاف اجتماعی جدوجہد شروع ہوئی ، مفروضات کو رد کرکے نظریات و عقائد کی بنیاد مشاہدے اور تجربات پررکھی جانے لگی تو ایجادات و اکتشافات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ........ صنعت و حرفت ، مواصلات و ابلاغ کے شعبوں میں ترقی کی ایسی بنیاد رکھی گئی جس نے ہر قسم کی اجارہ داریوں کو ہلا کر رکھ دیا .............چنانچہ معاشرتی قدریں بھی تبدیل ہوئیں اور اخلاقیات کے جو ضابطے بادشاہوں ،جاگیرداروں ، نوابوں اور مذہبی اجارہ داروں کے گٹھ جوڑکے نتیجے میں مروج ہو گئے تھے ، ان میں بھی زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں .............

    برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل کے دور کو بعض دانشور '' اسلامی دور '' لکھتے رہے ہیں ، جس میں پیغمبر اسلام کے تین زرّیں اصول انسانی مساوات ، نا انصافی کا خاتمہ اور معاشی و معاشرتی آزادی کی ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی .......... .اس '' اسلامی دور '' میں عام افراد کے لیے ترقی کے ہی نہیں ، اکثر تو زندگی کے دروازے بھی بند تھے ............

    یہ دروازے اس وقت ہی کھل سکے جب ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم ہوئی ............

    ہمیں یقین ہے کہ بعض افراد یہ جملہ پڑھ کر تمسخرانہ انداز میں مسکرائیں گے یا پھر کچھ ایسے ہوں گے جو غصے سے بے حال ہو کر اپنے '' جذبہ ایمانی '' سے '' حرارت '' حاصل کریں گے ........... یہاں ہم صرف اتنا دریافت کرنا چاہیں گے کہ کیا ٹرین کی پٹریوں کا جال نام نہاد مسلم بادشاہوں نے بچھایا تھا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی فرد بھی جب چاہے سفر کرکے آجا سکے ......... ؟؟؟

    ReplyDelete
  27. مسلم بادشاہوں کے ادوار میں تو جاگیردار وں ، نوابوں اور راجوں مہاراجوں نے ناصرف مال مویشی کی نقل و حرکت پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کررکھی تھیںبلکہ عام افراد کو بھی اجازت نہ تھی کہ وہ اپنے رہائشی مقام کو چھوڑ سکیں ، مزید یہ کہ نواب ، جاگیردار انہیں قرضوں کے جال بھی میں باندھ کر رکھتے تھے...........

    پرنٹنگ مشین مغل بادشاہ بابر کی پیدائش سے بھی 8 سال پہلے ایجاد ہوچکی تھی ، لیکن یہ مشین انگریزی حکومت میں عام ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آسکی ........ہمارے کتنے علماء فقہا اور روحانی بزرگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے مغربی اقوام کے شعوری ارتقاء سے استفادہ کرکے اپنی قوم کی ترقی کا راستہ ہموار کیا ........؟؟؟؟

    ان کی اکثریت تو اس سے یوں گریزاں رہی جس طرح مقنا طیس کے قطبین ایک دوسرے سے گریزاں رہتے ہیں
    برصغیر میں انگریزوں سے آزادی کی تحریکوں کو عوامی تحریکیں قرار دینا مفکرین اور مؤرخین کی ایسی سنگین غلطی ہے جس کا خمیازہ نجانے کتنی نسلوں بھگتنا پڑے ............یہ تو نوابوں ، جاگیرداروں اور راجوں مہاراجوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے شروع کروائی تھیں .......... عوام کوکہیں مذہب کے نام پر اور کہیں بدیسی حکمرانوں سے ڈر ا کر اس میں دھکیل دیا گیا .............

    جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا عام افراد کی حالت اگر انگریزوں سے قبل بہتر ہوتی اور ان کے قبضے کے بعد بدتر ہوگئی ہوتی تو ان کی مزاحمت درست تسلیم کی جاتی لیکن حقائق تو اس کے بالکل برعکس ہیں ............ عام لوگوں کو معاشی آزادی اور انصاف انگریزوں کے قبضے کے بعد ہی مل سکا ، ان مجموعی حالت میں تبدیلی اسی دور میں دیکھنے کو ملتی ہے ..............

    ReplyDelete
  28. گو کہ انگریزی تعلیم کے حصول کے حوالے سے مسلم رائے عامہ کو شدید مخالفتوں کے طوفان کی موجودگی میں تبدیل کردینا سرسید احمد خان کا بے مثل کارنامہ ہے اور مسلمان کبھی بھی ان کا یہ احسان نہیں چکا پائیں گے .............. لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ سرسید کی علمی تحریک یوپی کی اشرافیہ کی بقا اور تحفظ کے لیے تھی ............ سرسید کا احترام اپنی جگہ لیکن وہ جاگیردارانہ روایات میں تبدیلی کے ہرگز قائل نہ تھے ، خصوصاً خواتین کی شعوری وعلمی استعداد میں اضافے اور ان کی صلاحیتوں کو معاشرے کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر دیوبند اور دیگر مذہبی مکاتب جیساہی تھا ، ان کی کوشش یہی رہی کہ عورتوں کی تعلیم کو چند روایتی مضامین تک محدود رکھا جائے ، ان کا خیال تھا کہ جدید علوم اور سائنس خواتین کے لیے قطعی غیر ضروری ہیں ...........

    سرسید ہی کی طرح ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی سوچ بھی یہی تھی کہ عورت کو بنیادی طور پر ایک بہترین خاتون خانہ ہونا چاہیے ، اس کے لیے اسے جسمانی طور پر مستعد ہونا ضروری ہے تاکہ وہ گھر اورخاندان کو مثالی نظم و ضبط کے ساتھ چلا سکے.............

    سقوط ڈھاکہ کے بعد آج جس خطے کو پاکستان کہا جاتا ہے ، یہاں تقسیم سے قبل انفرااسٹرکچر کی تعمیر نہیں ہوسکی اور تھوڑی بہت کچھ تعمیر ہوئی بھی تو اس کا مقصد ترقیاتی اور تجارتی نہیں تھا بلکہ دفاعی تھا .............

    بتایا جاتا ہے کہ تقسیم سے قبل اس خطے میں غیر مسلموں کی تعداد 47 فیصد تھی ، جنہیں ناموافق حالات نے ہندوستان جانے پرمجبور کردیا............. یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت انتہائی پسماندہ تھی ، انفرااسٹرکچر تو تھا ہی نہیں ،غیر مسلم اشرافیہ کے جانے سے پیدا ہونے والے خلاء کو یوپی کے صنعتکاروں اور بیوروکریٹس سے پر کرنے کی کوشش کی گئی ........... لیکن وہ کراچی ، لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں میں محدود رہے ، صنعتی ترقی کے اثرات چھوٹے شہروں اور دیہاتوں تک نہیں پہنچ سکے ، اس کی بنیادی وجہ جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرداروں کا رویہ تھا ،وہ ہر قسم کی ترقی کے شدید مخالف تھے ..........لہٰذا آزادی کے بعد تبدیلی کی جو توقع قائم کی گئی تھی وہ کئی عشروں بعد بھی پوری نہ ہوسکی اور زندگی آج بھی اسی پسماندہ ڈگر پر رواں دواں ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پسماندگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ...............

    ReplyDelete
  29. اس طرز کے خطے میں جہاں صدیوں سے انسانی مساوات ، انصاف اور معاشی و معاشرتی آزادی کا کوئی تصور بھی موجود نہ ہو، وہاں اللہ اور اللہ کے رسول کا واسطہ دے کر اور عذاب و ثواب پر مبنی وعظ و نصیحت کرکے کیا لوگوں کی سوچ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ........... ؟؟؟؟؟؟

    حالات میں تبدیلی کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب غیر روایتی انداز میں سوچنے والے چند افراد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں کود پڑیں ....... لیکن اس طرح سے تو اس وقت بھی نہیں سوچا گیا تھا جب ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے بارے غور وخوض شروع کیا گیا تھا ، اور اس وقت بھی نہیں جب تحریک پاکستان اچانک اپنے اس عروج پر جا پہنچی تھی جس عروج کی توقع شاید اس کے محرکوں نے کبھی کی ہی نہ تھی ...........

    لیکن جو لوگ پس پردو اس کی منصوبہ بندی کررہے تھے ، سب کچھ ان کی توقع کے عین مطابق تھا ...............

    ساٹھ سال گزر گئے ، کیا قیام پاکستان کا فائدہ کبھی بھی کسی بھی صوررت برصغیر کے مسلمانوں کو پہنچ سکا ہے .............. ؟؟؟؟؟

    اس کے قیام کے بعد تو برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں بٹ گئے ..........

    ایک پاکستان ، دوسرا بنگلہ دیش اور تیسرے حصہ میں انڈیا کے مسلمان ..........

    پاکستان کا فائدہ عالمی سامراج نے ہی اٹھایا ، ایک طرف بھارت پر دبائو کی صورت میں دوسری طرف سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پر نرسری قائم کرکے اوراب اسی نرسری کو مہذب دنیا کے سامنے ایک خوفناک عفریت کے طور پر پیش کرکے .............

    ReplyDelete
  30. ہمارے ہاں عورت کی تذلیل ہو یا مردوں کی ، اس کا علاج ناصحوں کی محفل میں نہیں بلکہ معاشی مساوات کی بات کرنے والے حریت پسندوں اور کمزوروں کے حقوق کے لیے زندگی وقف کردینے والے دیوانوں کی دیوانگی سے ہی ممکن ہو سکتا ہے .......... لیکن افسوس تو یہ ہے کہ نہ تو ایسے دیوانے رہے نہ حریت پسند ..............

    اب تو کمرشل نعرہ باز باقی رہ گئے ہیں ، جو زیادہ رقم دیتا ہے ، اسی کا نعرہ لگاتے ہیں ............

    غلامی عورت کی ہو یا مرد کی ، دونوں کو آزادی اسی ماحول میں ملتی ہے جہاں انصاف ہو ............

    عورت کی غلامی پورے معاشرے کی غلامی ہے ............ اس لیے کہ عورت ہی ماں ہے !

    عورت کے جسم میں اگلی نسل کا جسم و دماغ تشکیل پاتا ہے .........!!

    عورت ہی سے اگلی نسل کو اچھی یا بری سوچ منتقل ہوتی ہے .......!!!

    عورت شعوری طور پر پست ہوگی تو یہ پستی ازخود آئندہ نسل میں بھی منتقل ہو جائے گی ............!!!

    اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کے لیے بالعموم اور بالخصوص خواتین کی علمی ، اخلاقی ،معاشرتی اور معاشی ترقی پر توجہ فرمائی ..............

    اس حقیقت کو جس قوم نے جان لیا اس نے ترقی کی راہ پر قدم رکھ دیا ..............

    ReplyDelete
    Replies
    1. محترم جمیل خان صاحب: اگر آپ کا اشارہ میرے تبصرہ کی طرف ہے تو یہ بات میرے لیئے خوشی کا باعث ہے کہ آپ کی کئی باتوں سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود بھی مجھ کو آپ کی باتوں کا نتیجہ میری رائے کی تائید میں ہی ملا ہے : یعنی آپ کی لائن ہوبہو وہی مطالبہ کررہی ہے جوکہ میں نے "اسلامی شریعت کی بالادستی" کے سلسلے میں لکھا تھا:
      "غلامی عورت کی ہو یا مرد کی ، دونوں کو آزادی اسی ماحول میں ملتی ہے جہاں انصاف ہو ..........."
      اور اس بات کی انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انصاف صرف اور صرف اسلامی شریعت کے تحت قائم ہونے والی اسلامی حکومت میں ہی ملتا ہے۔
      لہذا ہمارے تبصروں کے الفاظ و بنیادی موضوع مختلف ہونے
      کے باوجود بھی ہم ایک ہی نتیجہ تک پہنچتے ہیں۔

      نوٹ:

      عنیقہ صاحبہ کے مزید سوالات کے جوابات اس لیئے نہیں دیئے تھے کہ کسی متشدد و متعصب شخص کے محض بحث برائے بحث کے تحت کیئے جانے والے سوالات کے جوابات دینے سے بہتر خاموشی اختیار کرنا ہوتا ہے۔

      Delete
    2. آپ نے میرے سوالوں کے جواب نہیں دئیے بلکہ آپ نے میری ان باتوں کی جو میں نے آپ کے سوالوں کے جواب میں کہے انکی تردید بھی نہیں کی۔ آپ نے خاموشی اختیار کی اچھا کیا۔ کیونکہ آپکے پاس اس کا جواب نہیں کہ بہشتی زیور ایک مولانا صاحب کی ہی لکھی ہوئ ہے اور اس میں بتایا گیا ہے عورت کو کس طرح اپنے شوہر کا تابعدار ہو کر رہنا چاہئیے۔
      آپکے پاس اس سوال کا کوئ جواب نہیں کہ وہ معاشرے مثلاً عرب کا معاشرہ مثلاً ہمارے خیبر پختونخواہ کا معاشرہ جہاں خواتین سات پردوں میں رہتی ہیں وہاں عورتوں کے خلاف اتنے زیادہ جرائم کیوں ہوتے ہیں۔ انکا پردہ وہاں کے مردوں کی ہوس کو کیوں نہیں کم کر سکا۔
      آپ یہ نہیں بتا سکے کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کا کیا مقصد ہے۔ اتنی وسیع کائینات بنا کر۔ ایک ایٹم جیسی حقیر شے میں کوارکس کی کائینات بسا کر خدا صرف مرد سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اسے فتح کرے۔ پھر خدا سے زیادہ ظالم اور نا انصاف کوئ اور نہیں۔ وہ کیسے عدل قائم کر سکتا ہے جب وہ اپنی مخلوقات میں ہی عدل قائم نہیں کر سکا۔
      آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ اگر عورت کے زیر جامے مرد کے لئے سینا جائز ہیں تو پھر کس چیز کا پردہ ہے اور اگر جائز نہیں اور کسی عورت کو سینا چاہئیں تو عورت کے لئے روزگار پہ پابندی کیوں۔
      ایسے سوالات کی ایک لمبی قطار ہے جو آپکا نظریہ مذہب نہیں دے سکتا۔
      آپ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے خدا کی ہر بات پہ آمنا صدقنا کہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کون سا خدا جسے آپ دوسرے انسانوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔ غیروں سے سنا تم نے غروں سے کہا تم نے۔ کبھی خدا نے آپ سے آ کر بہ نفس نفیس کچھ کہا۔
      پھر اس بات پہ کیوں شور کہ ہم خدا کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔ آپ تو دراصل چند اشخاص کی باتوں پہ آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔
      آپکے نظریات کی روشنی میں جب خدا خود انصاف نہیں دے پا رہا تو کوئ اور کیسے انصاف دے گا،
      اس لئے تصور خدا کو بہتر بنانے کی از حد ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان چاند پہ جا بسے اور آپ یہ کہہ رہے ہوں کہ کوئ عورت چاند پہ بغیر برقعے اور محرم کے نہیں جا سکتی۔

      Delete
    3. الحمد اللہ، کم علمی کے باوجود بھی میں آپ کے ان لایعنی سوالات کے شافی جوابات دے سکتا ہوں۔ مگر جیسا کہ پہلے کہہ ہی چکا ہوں کہ آپکا رویہ اور میرا سابقہ تجربہ دونوں ہی میری اس رائے کی دلیل ہے کہ میں جتنے مرضی تسلی بخش جوابات دے دوں مگر آپ نے مان کر نہیں دینا ہے تو کیا فائدہ ایسے کسی سعیء لاحاصل کا؟

      مکی نے تو میرے جوابات کی بھرمار سے تنگ آکر اوچھے ہتکنڈے اختیار کرلیئے تھے اور پھر جھوٹے الزامات لگا کر مجھ کو اپنے بلاگ پر تنصرہ کرنے سے ہی بلاک کردیا تھا مگر ماننا پھر بھی نہیں تھا، آپ شائد بلاک نہیں کریں گیئں مگر مجھ کو خعب انداذہ ہے کہ ماننا تو آپ کی بھی سرشت میں نہیں ہے، اسی لیئے اب میں اپنی بات کہہ کر خاموشی اختیار کرلیتا ہوں کہ آپ کے جوابی ردعمل کا مجھ کو پہلے سے ہی کافی اندازہ ہوتا ہے اور ماشاء اللہ آپ میری امید پر کافی حد تک پوری اترتی بھی ہیں۔

      بحرحال اگر آپ کی نیت محض بحث برائے بحث کی نہیں ہے تو ہم دونوں ملکر آپ کے داغے گئے سوالات کے کچھ با معنی جوابات تلاش کرسکتے ہیں، یقین جانئیے میں قطعی متعصب انسان نہیں ہوں مگر جب آپ کچھ غلط لوگوں کی وجہ سے سبھی علماء اور مذہبی لوگوں کو لتاڑیں گی تو ظاہر سی بات ہے کہ آپ کے نقطہءنظر کے مخالفین خاموش تو نہیں بیٹھیں گے نا۔

      خیر اگر آپ پہلے مجھ کو میرے قدیم سوال "یعنی آپ کے علم و خیال کے مطابق انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے"؟ کا جواب دے دیں تو پھر میں آپ کے تمام سوالات ، چاہے الزامی ہوں یا طنزیہ یا علمی، سب ہی کا خندہ پیشانی سے جواب اپنے ناقص علم کے مطابق دے نے کی کوشش کروں گا۔ اگر آپ میرے سوال کا جواب دینے سے گریز کریں گی تو پھر مجھ سے بھی کوئی امید نا رکھی جاے کہ میں مزید کسی بھی سوال کا جواب دوں گا۔
      وسلام

      Delete
    4. اگر میں آپکے اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تو آپ کا فرض ہے کہ اپنے مءوقف کو واضح کرنے کے لئے اپنے جواب کا آغاز اس سے کریں۔ کیونکہ یہ مجھے پتہ ہے کہ آپ اس کے جواب میں کیا لکھیں گے۔ اور یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہے کہ آپ کیا لکھیں گے۔ اس لئے آپ اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں تاکہ کٹہرے میں مجھے کھڑا کریں۔
      اس تحریر کے حوالے سے میرا بنیادی سوال آپ سے یہی ہے کہ مسلمان عورت کی زندگی کا کیا مقصد ہے۔ چونکہ ہم اس حوالے سے بات کر رہے ہیں اس لئے اسے فی الحال انسان تک لے جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں پہلے تو یہ پتہ ہونا چاہئیے کہ عورت کو انسان بھی تسلیم کیا گیا ہے یا نہیں۔ یعنی عورت کو سردی گرمی لگتی ہے یا نہیں ، عورت اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں ہارمونل تبدیلیوں سے گذرتی ہے یا نہیں کیا یہ تبدیلیاں اسکی صحت پہ اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں۔
      کیا عورت بحیثیئت انسان اپنا وجود رکھتے ہوئے معاشرتی سطح پہ اپنی انسانی صلاحیتیں استعمال کرنے کی حق دار ہے یا نہیں۔
      ان بنیادی سوالوں کے جواب ہمیں آج س دور میں چاہئیں جب دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ انسانی روئیے کچھ بھی ہوں لیکن انسان اب دوسری تہذیبوں کے متعلق بہت بہتر معلومات رکھتا ہے۔ مثلاً یہی کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے عرب کی معاشی اور سماجی حالت کیا تھی۔ اور کیا عرب معاشرے کی ثقافت کو تمام دنیا پہ نافذ کیا جانا ضروری ہے۔
      مجھے آپ سے کوئ امید نہیں۔ مجھے دوسروں سے بھی کوئ امید نہیں۔ جہاں امید نہ ہو وہاں ارتقاء اپنا رستہ بناتا ہے اس لئے عبد الرءوف صاحب دنیا اپنی نہج پہ جارہی ہے اور جا کر رہے گی۔ چاہے لوگ نیکی اور بدی کے جو بھی معیارات سیٹ کرتے رہیں لوگ وہی کرتے ہیں جس میں انہیں آسانی محسوس ہوتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج بھی ہم ڈیڑھ ہزار سال پہلے معاشرے میں رہ رہے ہوتے۔

      Delete
    5. خواتین انسان ہی ہیں، لہذا جو ایک انسان کی زندگی کا مقصد ہے ہوبہو وہی مقصد ایک عورت کی زندگی کا ہے، اب انسانوں میں مرد بھی ہوتے ہیں اور ہیجڑے بھی، تو جو مقصد کسی مرد یا ہیجڑے کی زندگی کا ہوگا وہی مقصد عورت کی زندگی کا بھی ہے۔
      پس ثابت ہوا کہ میرا سوال ، یعنی انسان کی زندگی کا مقصد معلوم کرنا زیادہ جامع سوال ہے کیونکہ میں کل کی بات کررہا ہوں جبکہ آپ جز کی بات کررہی ہیں، اور چونکہ میں نے آپ سے پہلے سوال کیا ہے اس لیئے اصولی طور پر یہ میرا حق ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب پہلے دیں، اور چونکہ ہم اس سلسلے میں اصل جان لیں گے تو پھر فروع کو جاننا چنداں مشکل نہیں رہے گا، لہذا مسئلے کے حل کے لیئے بھی پہلے میرے سوال کا جواب معلوم ہونا چاہیئے۔
      اب اگر آپ یہ سب جاننے کے باوجود بھی جواب دینے سے گریزاں ہیں تو اسکا صاف مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ کو علم ہی نہیں ہے جسکا آپ اعتراف کرنے سے پہلو تہی کررہی ہیں یا پھر آپ کا جواب ایساہے کہ آپ کو قوی یقین ہے کہ اسکا بطلان آسانی سے ثابت ہو جائے گا، اسی لیئے آپ لب کشائی پر خاموشی کو ترجیح دے رہی ہیں، بحرحال حقیقت جو بھی ہے، میں پھر بھی آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا، جب بھی آپ میں اتنی ہمت مجتمع ہو جائے کہ آپ بحثیت انسان اپنی زندگی کا مقصد ہم سب پر آشکار کرسکیں تو ضرور کریئے گا، تب تک اگر زندگی نے وفا کی تو میں بھی بات کو آگے بڑھاؤنگا ورنہ آپ اپنی جگہ اور اپنی زندگی میں خوش رہیئے اور میں اپنی جگہ اور اپنی زندگی سے خوش ہوں۔ وسلام

      Delete
    6. جناب مطلق اصل کوئ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس لئے یہ کہنا کہ ہم اصل جان جائیں گے تو فروع کی اہمیت نہیں رہے گی اپنی دانست میں بات کو گھمانے کا نام ہے۔ مطلق اصل ایک لا مذہب کے لئے الگ ہے عیسائ کے لئے الگ ہندو اور نمسلمان کے لئے الگ ہے۔ اس لئے اس میں جامعیت کی کوئ گنجائش نہیں گنجلکی کی گنجائش ضرور ہے۔ میرا سوال آسان ہے آپ ایک مذہب کے پیروکار ہیں آپ مجھے آپ خدا کی ہر بات پہ جو آپ نے دیگر انسانوں سے سنی آمنا و صدقنا کہتے ہیں پھر آپکو اس ے بیان کرنے میں کیا تامل کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کا مقصد یہ ہے۔ حیرت ہے آپ جس عقیدے کے تحفظ پہ آپ اپنے تئیں کمر بستہ رہتے ہیں اس میں سے عورت کی زندگی کا مقصد نکال کر نہیں بیان کر سکتے تاکہ ہم اس بحث سے باہر نکل آئیں۔ میں آپ سے گھر کے نزدیک بہتی ہوئ نہر کا پتہ پوچھ رہی ہوں آپ مجھ سے سوال کر رہے ہیں کہ آپکو معلوم ہے کہ بحر اوقیانوس کہاں ہیں۔ دراصل آپ بات خٹم نہیں کر سکتے کیونکہ آپ عورت کی زندگی کا مقصد مولاناءووں کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ اس لئے تو آپکو فوراً مغرب کی عورت یاد آتی ہے اور آپ یہ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپکی مسلمان عورت کس پسماندہ حالت میں ۔ آپ اسکی پسماندگی سے صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ اس کی زندگی کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو رہا ہے اس کی سپماندگی نہ آپ کا مسئلہ ہے نہ آپکے اس خدا کا جسے آپ آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔ اگر آپ اسے چھیڑِں گے تو آُ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے آپکے خدا کو زک پہنچیے گی۔ یہ حالت عرب کے ان مشرکین سے قطعی مختلف نہیں جو خانہ ء کعبہ میں اپنے اپنے خداءووں کو بچا رہے تھے۔ اس لئے کہ انکا بھرم قائم رہے۔
      آپ اپنی جگہ ضرور خوش رہئیے لیکن میں اپنی جگہ خواتین کو کہتی رہونگی کہ پردے کو اپنا مسئلہ نہیں بنائیے یہ ایک بالکل ثانوی بات ہے آپکی زندگی بحیثیئت انسان اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ خدا کسی انسان کو دوبارہ زندگی کی نعمت نہیں دے گا اس لئے اپنی صلاحیتوں کو آزمائیے، زندگی میں چیلیجز کو قبول کیجئیے۔ اپنے گھر سے باہر نکلیں خدا نے یہ وسیع کائنات ہر ایک کے لئے یکساں طور پہ بنائ ہے۔ جئیں کھل کر۔

      Delete
  31. Nudrat Farheen

    looks like iam the only female here other than Aniqa... dear aniqa after reading your article i feel that you are a person with limited thinking and limited research. i have not come here to defend any self-proclaimed mulla, or someone for whom the huge weight of knowledge is like a sack of books on a donkey's back....
    what is the place of pakistan in eyes of world? we are one of the most humiliated nations of world, it is a clear sign that our actions are not right. also look at current day muslims, the entire muslim ummah is a thing of joke...we dont know how to live like humans and be at peace with others.... now tell me that who ever is in deep shitty humiliation will you believe what they say as true and worthy of implementation in life??? or will u think that this person is not worth listening too or even being looking at and i better get out of such company before any or their malice rubs upon me too.....
    i cant believe how much time you have spent in researching a pack of fools..... when an intelligent person looks at a stupidity or wrong he will try to think of cause and correct it rather than blame the wrong doers for wrong doings....
    if you are a maths teacher and you have to check maths board papers and you see that a certain school students have all did similar mistakes and thus failed then whose problem is that in your opinion? is it the universally acknowledged maths books, the current teacher+admin, the students or pythagorus or einstein???

    iam sure your answers will start from the fact that first you will compare from other schools who studied same course, and then u will exclude books.then u will say it is established truth that pythagorus was a big mathmatician and he was right . also einstein was a very learned scientist but he is not much concerned into maths so out of question....
    it will end up to be the problem of current teachers n admin whos duty was to ensure a correct education, and it was duty of students who were supposed to do some studies from their book instead of relying on their teachers alone,they could even take help from outside students and teachers of maths.....

    when same situation is for islam u start blaming the book and writer of book.... had your teachers (mullas)even bothered to teach the book correctly there wouldnt have any failures in the first place.. even though ur teachers were wrong your students also didnt bother to read the book them selves.... and u are the headgirl of such a school who has over heard some words of books and mixed them with the fake teachings of current teachers and have totally overlooked the responsibility of ur admin for check and balance....and now u r making a fuss about the book being wrong and also u dont stop and u make an even bigger over hauling about the writer of book....my dear do u even know who the writer is and what are his capabilities???? did u even bother to work on that???
    my dear, get out of your shitty pond...u r not a frog! u r human with eyes,ears and an intelligence....
    first do ur home work then fret about your surroundings....

    and never blame someone for your people's own faults..... Allah didn't put u in this situation. had muslims followed what Allah ordered, Spain golden era wouldn't have been a history, but the first chapter of a glorious future....

    atleast do justice to the book before criticizing it.... atleast understand the attributes of Creator before be-littling Him for something which your brothers and sisters did....

    think before you act!
    it is better for you if u only know!

    ReplyDelete
  32. Assalam alaikum,
    Looks like iam the only female commentor so far… I should assure everyone that neither iam here to defend any “mulla” nor iam here to put cream on sister aniqa’s cake. After reading the whole account of complains of mulla’s attitude towards women, I regret to say that dear aniqa I find your vision lacking in its vastness and your research deficient and not unbiased…. There is a tangible example to support my in-tangible claim…. I hope it makes life easier for everyone.

    My dear sister aniqa, suppose you are appointed as the maths paper checker of current batch of matriculation board exams in sindh province…. You have been given papers in sets. Each school is represented as one set. Now while checking your come across a school whose students’ pattern of mistake is different from the usual ones… usually there would be some excellent students, some failures and mostly average students in every school….some schools had excelled so much that there were almost all above average and few average students….but then there came across a school (school X) whose students neither had any concept of the maths which was taught in books…they invented their own theories to solve the cases and usually ended up in very unusual scenarios which they called answers…. It seemed that almost everyone is a formula inventor and a mathematician in him/herself but none of their formulas would be able o work in long sums, a few hits here and there, but rest of paper was in deep error…. Most of those school students failed and a very few could survive with huge grace marks…..

    continued....

    ReplyDelete
  33. from previous....

    if you were asked to survey on the combined results and their causes of failure of students of school X, then what will be your views that who is responsible for errors:
    1: students
    2: teachers
    3: administration including the principal
    4: books
    5: great mathematicians of past who invented calculus, algebra, trigonometry etc?

    please note that the books and syllabus of study are same in all schools .

    your answer will include 1-3 ie students, teachers and the admin+principal as the cause of failure ….and iam sure you will not put blame on book and the mathematicians

    in causes you may write that its was responsibility of admin and prinicipal to ensure quality education and keep a check and balance. It was responsibility of teacher to make students understand the book thoroughly and clearly tell them rules of maths. It was duty of students that if by hard luck they had bad teachers atleast they ahd the good books they could study from those and take help from other schools brilliant students.

    There are monitors in every class who are also responsible for the class betterment over all. These monitors are talented with rational thinking, multi tasking and problem analyzing n handling capabilities.they can even advise the authorities in few matters.

    Will anyone in correct frame of mind blame the books for error of students of school X? when other school students could do it why didn’t this lot try?
    and a person who blames the mathematicians of past for inventing such difficult chapters in maths book which is causing students to fail……that person is indeed the biggest fool

    continued 2....

    ReplyDelete
  34. from previous 2....

    We muslims are in same situation. We are the generation X who does all sort of things except study and follow the book…. Our teachers (scholars of islam) are least bothered bcz of us all… admin (leadership and authority) are careless and they also don’t want to do anything except sit and relax …. And when we fail and the whole world laugh over us we start blaming the books for unlimited reasons and the mathematicians for putting us all in deep shit bcz of inventing the stupid maths altogether…..

    Had it been better that maths wouldn’t have been on the face of earth and we would have been safe…. (yes u will not be able to get out of stone age but u don’t understand do u?)….

    Is this the fault of the inventor of maths who gave us ease in every thing? (is this the fault of Allah who gave us a system to live in so we can live peacefully with each other like humans)

    Is it the fault of books which are full of wisdom that we fail or is this the cause of abandoning of that book?(is it quran which mislead us and caused our failure or the abandoning of it altogether?)

    You my dear sister are one of the ‘monitors’ in school X. you live in a society of semi-blind students and ur focus is to help them out in real life so they can happily life and happily die… u have totally forgotten that they are also into the exam like everyone else and if they fail they are doomed for atleast an year….dont u think they need extra help in maths rather than going to toilet and eating clothing styles???
    you your own self are stuck in a limited world which keeps on rotating around you…my dear this is not a pond and u r not a frog, so jump out of it and find the real world so that u can help out the others stuck into same shit!

    What stops u from going to other schools where all students passed with excellence? (what stops u from reading the golden era of muslims and how they mad eit possible?)

    What stops u from reading the book unbiased and with refernce….if u find it difficult then there are a world of notes and reference books to consult from, there are also other seniors passout students who can help…. (what stops u from reading the quran and understanding its true essence with the help of hadith and tafseer?)

    And what stops u from knowing and understanding your Creator?how can u blame Him for things which happened bcz ur lot didn’t bother to follow His book in the first place????u do what He forbid and refrain from what He commands, and that’s not all, u think that u know better than ur Creator???can u even imagine what level of unjustice is this???

    Dear aniqa….stop helping people with their toilet issues and start focusing on the big picture….exam is very near….

    ReplyDelete
    Replies
    1. پیاری بہن ندرت، جب ہم بڑے نظریات کی بات کرتے ہیں تو انکے لئے اتنی چھوٹی مثالیں استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی ایک مختصر عرصہ۔ آپ نے مجھَ ریسرچ کرنے کو کہا ہے۔ آپ اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کی رسیرچ کیجئیے۔
      چلیں اگر ہم اسکول اور استاد والی بات لے لیں اور آپ کے نزدیک علمائے اسلام دراصل استاد کی جگہ پہ ہیں اور دراصل خرابی ان میں ہیں۔ تو علمائے اسلام پہ یہ حد آپ کہاں سے لگانا شروع کریں گی۔ آیا پچھلے پچاس سالوں کی، سو سالوں کی یا ڈیڑھ ہزار سالوں کی۔
      اسی طرح آپ لوگ ہمیشہ امتحان کو نزدیک قرار دیتے ہیں حالانکہ درست بات یہ ہے کہ ہم حالت امتحان میں ہمیشہ رہتے ہیں۔ اور جس امتحان کے آپ حوالے دیتے ہیں اس میں میں یا کوئ اور انسان اپنی خود مختاری یا مرضی سے داخل نہیں ہوا اس لئے اس کا ڈر پیدا کرنا ہمیشہ لاحاصل رہتا ہے ۔ اور آپ دیکھ سکتی ہیں کہ امتحان کا یہ ڈر دلانے کے باوجود کسی بھی اسلامی معاشرے میں بدی پہ آمادہ اشخاص ہمیشہ رہتے ہیں اور اسی لئے اسلام میں بھی قوانین ترتیب دئیے گئے۔
      کیا اس تحریر میں میں نے کتاب کا کسی جگہ مذاق اڑایا ہے۔ کتاب میرا موضوع نہیں ہے اس لئے آپ نے اپنی بات کا موضوع غلط منتخب کیا ہے۔
      میری تحریر کا موضوع عورت اور اسکے وہ پردہ ہے جس پہ اہل مذہب زور دیتے ہیں اور جس پہ اتنا زور دیا جاتا ہے کہ عورت کو افسوس ہونا چاہئیے کہ وہ بحیثیئت عورت کیوں پیدا ہوئ۔ کیا اس لئے کہ اس کی پوورش کر کے والدین جنت کمائیں ، کیا اس لئے کہ وہ اپنے شوہر کا دل خوش کرتی رہے اور اپنی ہوسناک مردوں سے اپنی عصمت بچانے کے امتحان کو پاس کرنے کے چکر میں ایک گھر میں پیدا ہو کر دورے گھر میں موت حاصل کرے۔ کیا ہے ایک مسلمان عورت کی زندگی کا مقصد؟
      اگر خدا نے اسے مرد کی دل کی خوشی کے علاوہ کوئ اور ذمہ داری نہیں دی تو پھر کیوں حوالے دئے جاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو بڑا بلند رتبہ دیا ہے۔ جو عورت بحیثیئت انسان زمین اور آسمان نہ دیکھ سکے وہ اشرف المخلوقات تو نہ ہوئ۔ اشرف المخلوقات تو دراصل اس تمام نظرئیے کے تحت مرد ہوا۔کیا سر کے بال چھپانا اتنا ضروری ہے کہ وہ ایک عورت نہ چھپائے تو فرشتے اس پہ لعنت بھیجتے رہیں۔ حیرت ہے اس ویسع کائینات کو بنانے والے خدا کو اتنی فرصت ہے وہ اتنا تنگ نظر ہے کہ وہ ایک عورت کے بالوں کے نظر آنے کا حساب رکھے اور اسے اس پہ سزا دے۔ البتہ ہوسناک مردوں کی سرکوبی کا اس کے پاس کوئ طریقہ نہ ہو۔ اس عالم میں تو یہ دنیا صرف ایک عورت کے لئے امتحان گاہ لگتی ہے اور روز حشر بھی جیسے عورتوں کے لئے قائم کیا جائے گا۔ اگر مردوں سے کوئ پوچھ گچھ ہوگی تو وہ بھی اس سلسلے میں کہ انہوں نے اپنے نکاح میں آئ عورتوں کو قابو میں رکھا یا نہیں۔
      میرا خیال ہے کہ اب آپکو موضوع سمجھ میں آگیا ہوگا۔

      Delete
    2. salam alaikum,
      janab apki batoon ka aik aik ker ke answer deti hun.
      1:bare nazryoon ki misal choti cheez se di ja sakti he aur waqti cheez se bhi kiyun keh maqsad concept samjhana hota he kisi esi misal se jo aram se kisi ko bhi samajh ajaey. aur ye mera invented tariqa nahi he me ne ye recently Quran se seekha he jb Allah ne Nifaaq ki dono qismoon ke liye alag alag example de ker samjhaya he. aap dekh lejye keh sura Al-Baqarah ayat 17 me aqeedah ka nifaaq kese explained he, aur ayaat 19-20 me amaal ka nifaaq explained he... please tafseer bhi dekh lejyega takeh clear hojaey.... (nifaaq ki example dene se ye maqsad nahi ke ye hint ho is bat ki keh ap ke kisi bat me iska isharah he, bat sirf itni he keh mujhe ayat no.abhi filhal yehi yad agai foran se kiunkeh kuch din pehle dekhi thi)

      continued

      Delete
    3. 2: hum sb apni merzi se is imtehaan me daakhil huey hen.Allah ki tamam makhlooqat ne ye zimedari uthani se inkar ker diya tha aik ye hazrat insaan ko hi shoq tha us bat ko apne ser lene ka jisko even mountains bhi nahi utha sakte they.... reference [7:172-173 and 33:72]ehd-e-alst ke liye, aur mountain wali bat dekh lain sura Hashr ayat 21

      3: me sirf current dor ke ghair zimedar aalim-e-deen ki teref ishara ker rhi hun , koi ilzam tarashi nahi ker rhi dunya bher ke aur maazi ke aalimoo per keh is bat ki zarurat parey keh btaun keh kis dor walo se ilzam dena shru ker rhi hun....ap meri positive bat ko negative le ker behs me uljha rhi hen jabkeh ye bat achi terha wazeh he keh agr teacher sahi nahi hota to bhi students extra mehnat aur tutions waghaira perh ker pass hone ki koshish krte hen....aur sirf kuch ghalat teachers ki wajha se sb teachers ko ghalat keh dena zulm he.

      continued...

      Delete
    4. رومن اردو پڑھنا میرے لئے تقریبا نا ممکن ہے۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ خواتین کے پردے پہ کیا کہنا چاہتی ہیں۔
      یہ بھِ جاننا چاہتی ہوں کہ کون سے علماء اسلام ہیں جو اچھے استاد ثابت نہیں ہوئے۔ اگر ہمیں قرآن کو استادوں سے ہی سمجھنا ہے تو کو نے قابل اعتبار استاد ہیں۔ اگر استاد اتنے ہی قابل اعتبار ہیں تو اسلام میں اتنے فرقے کون بن گیا۔ یہ سب باتیں ہمارے موضوع سے ہٹ جائیں گی۔ اس لئے ہمیں اپنے موضوع پہ رہنا چاہئیے اور وہ ہے مسلمان عورت کا پردہ اور جدید مسلمان مرد کا اس پہ اصرار۔

      Delete
    5. 4: insan ke zindagi ka maqsad yeh he keh wo apne Rab ko pehchane aur uski obedience kerey jesa keh Allah ka haq he... aurat aur mard dono is me similar hen...Quran me esi ayaatain bhari hui hen jin me general naseehat he keh taqwa ikhtiyar kerain, Allah ke ehkaam manain etc..
      sura Zariyaat ki ayat 56 dekh lain " اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں"
      arabi text me yahan per lafz "یعبدون" use hua he jiska matlab "ibadat" kiya gaya he urdu me....urdu me ibadat ka hum matlab "RITUALS" le lete hain, yani keh jismani ibadaat jese namaz roza zikr waghaira... lekin ye lafz arabi ka he to iska arabic meaning kafi deep he aur ibadat lafz عبد se he jo keh esa ghulam hota he jo apne aaqa ki complete obedience kerta he mohabbat aur aajizi ke sath... bas ye he insan ka maqsad-e-hayat isi liye insan peda hua he....jo Allah ne keh diya wo kerna he jis se mana kiya us se rukna he...
      apko mehmood aur ayaz yad hungey history me mashhoor rahe hen...ayaaz mehmood badshah ka ghulam tha. derbar ke log ayaz se hasd kerte they keh aik mamooli ghulam he magr mehmood ko buht pasand he...aakhir unhu ne sawal kiya keh esa kiyu he..mehmood ne khazane se aik buht ehm heera mangwaya aur sb ko kaha keh isko destry ker dain magr sb ne is logic per mana ker diya keh itna qeemti heera zaya ho jyga...jabkeh ayaz ne hukm ki tameel ne us heera ko tor diya ...mehmood ne yahi kaha keh is ne meri bat ko heera se ziyada ehm jana jabkeh tum logo ne heera ko ziyada ehm samjha......... ho sakta he me ne alfaz kuch aagey peechey ker diya hun magr maqsad ye he keh apko obedience ka matlab bta sakun....Allah taala ko hum insano aur jinnat se yehi 'will-full'obedience chahye... ye sirf Allah ka haq he....aur apko pata hoga keh kisi bhi makhlooq ki wo bat nahi mani ja skti jo Khaliq(Allah)ke ehkamaat ke khilaf jati ho...
      ibadat ki details dekhni ho to "tafheem-al-quran" me dekh lain...ya kisi bhi tafseer me dekh lain, tafheem-al-quran me isi ayat me tafseel he to apko asani hojygi...

      apko kis aalim-e-soo ne aurat ki zindagi kay ajeeb-o-ghareeb maqasid btaey hen (jese aik haram se dorse me jaey , mard ki dil pashoori kerey,bachey peda kerey aur wahin mer jaey aur bas)...

      Delete
    6. 5: buhishti zewr ki misal le len jiska uper apne hawala diya he iske bare me kuch batain hain jo aaj ke dor me logon ko nahi pata hoti hen...ye bat zehn me rehna chahye ke buhishti zewr likhne wale sahab molana ashraf ali thanvi aik hanfi deobandi sufi aalim aur buzurg shakhsiyt they jin ko unki hikmat (wisdom+doctori) ki wajha se hakeem-al-umat bhi kaha jata he.unhu ne khawateen ki taleem ki zarurat ke pesh-e-nazr us waqt kitaab likhi jis waqt khwateen ki deeni taleem ka koi behtr intezam nahi tha. aur jesa keh aap ne khud eteraaf kiya he keh sir syed ahmed khan jese taraqqi pasand musleh bhi khwateen ki taleem ke mukhalifeen me they to is bat se andaza laga len keh ashraf ali thanvi sahab ke waqt me aurtoon ki ilmi qabliyat ka kiya haal hoga jinhain quran nazirah to perha diya jata tha gheroon per lekin maa'ashirat sikhane ke liye banaa'at-al-ansh aur maraa'at-ul-uroos (deputy nazir ahmed) jesi kitabain hi kafi smjhi jati thi.jin ki afadiyat se inkar nahi lekin behr haal ye kitabain ya in jese romani kahaniyon wale novels kisi bhi muslmaan khatoon ki ikhlaaqi taleem-o-tarbiyat me bigaar ka sabab banti hen. to is liye buhishti zewr jesi kitab ki us dor me ashd zarurat thi lekin choo keh ashraf ali thanvi sahab ne quran hadith fiqh ikhlaqi taalim aur apni hikmat sabhi kuch is aik kitaab me jama ker diya he lehaza quran aur hadith ke bilmuqabil ye kitab nahi rakhi ja skti jesa keh akser pakistani gheraanoon me smjha jata he...lekin behr haal is ki durst baatoon ki wajha se kitaab ko totally reject bhi nahi kiya ja skta...wese bhi aaj kal khawateen ki taleem aur tarbiyat ke liye buht se deegar wasaail (kitabain, school, institutes,madrassa etc)mojood hen is liye koi chahe to buhshti zewr ko chor bhi sakta he...after all its just another book written by a human ....there was a time when buhishti zewr was THE ONLY AVAILABLE INSTITUTE for women education in almost all aspects covering her life but that time is a thing of past now...

      Delete
    7. 6: aisa lagta he keh apki sari bato ki back per aik presumption he keh aurat ki zindagi ka maqsad mard ki khushnoodi he....uper aik point me maqsad-e-hayat per bat hogai he... ap ko shakespaer ki wo line yad he jb us ne dunya ko aik stage se tashbeeh di thi jahan her kisi ko apna role ada kerna hota he aur chale jana hota he... yani jo jb jis role me he wo wohi poora kereyga aur chala jyga. to her kisi ko apna role sahi ada kerna he....jis ke liye instructions de di gai hen quran aur hadith ki shakal me... ap udher se apna role pehchanye aur ada kerye...
      dosri example bhi hazir he...jese aik company he jis me her koi alag alag post per he aur usko sirf apni post ki responsibilities pori kerni hen aur bas...koi mazdoor apne GM ko dekh ker comparison me lag jy to kis ka nuqsan he? mazdoor ki responsibility km he to usko kam bhi sirf kuch hi terha ke kerne hain,GM ko poori company is terha se chalani he keh ander bahr market me her terf set rahe aur profit bhi ho...zahir he usko ziyadah bara kam mila he usko ziyadah support bhi milti he jese usko tea coffee waghaira seat per milti he,uske phone kerne per uska kaha hua kaam hua wa table per ajata he....magr yehi GM ko agr zarurat ho to overseas travel ya late hours meetings ke liye bhi available hona hota he....kiya ye museebat isi terha se mazdoor ki life me he? aik mazdoor na aasake to doosra ajata he.... magr GM na asake to kon ata he????koi nahi....
      aurat ki position society building me GM ki he...je haan mazdoor ki nahi he.... GM ke ilawa sare kaam jo jo log kerte hen wo sb aik mard per lagoo he.... jis trha GM per responsibility ki wajha se kuch restrictions hen wese hi aurat per hen...magr iske badle usko uski zarooryaat waqt per poori milti hain...

      islam ne insano ko zaruratain aur fitri taqazey diye hain jinko 'instincts' kaha jata he. bhook sb ko lagti he magr mard na sirf apni bhook mitane ka zimedar he balkeh apni aurtoon aur bachoon dono ki bhook bhi wohi mitaeyga. isi terha security,home, clothing and other basic needs....mard kiyu kerey ye sab ye to achi khasi museebat he?? to is ke liye zarurat he uski fitrat me aurat ki terf attraction aur stah ki zarurat,gher ke sukoon aur bacho (yani apni nasal chalane) ki zarurat he.... magr aik terf Allah ne mard ko physical strength aur attraction dono de di to aurtoon ki protection kese ho? uske liye phir parda jese hukm ay... ye sb logical explainations hen takeh Allah ke ehkaam zor zabrdasti na lagain...kiyu keh asal me Allah ke ehkaam sirf aur sirf insan ki behtree ke liye hen... uski hastii ko mitaaa ke usko haqeer be-aqal ghulaam bnane ke liye nahi hen...jese hun aram se govenment ke her fuzool qanoon ko mante hen....agr wese hi sirf Allah ke qawaneen man lain to buht asani rahegi sb ko...

      Delete
    8. 7:mard aurat per hakim: ye insani fitrat he keh jb bhi usko kisi bhi terha ki taqat milti he to wo usko misuse kerne ki terf bhi maail hota he...insan ko wese bhi Allah ne free-will de hi rakhi he....to bas apni merzi se her ikhtiyaar wala(physical power, authority, or islamic superiority) apne se neeche walo per apni hukoomat qaim kerna chahta he...aur sirf itna hi nahi...wo phir ye bhi chahta he keh uske dependents uske ghulaam se bhi abter hote chale jain... isi liye wo naey naey qawaneen bnate rehta he....
      jis insaan ko kisi ka khoof na ho usko is mamle me kon roke ga? Allah ne is ka bhi intezaam kiya he...aakhirat ka adl isi ke liye qaim hoga keh jis ne jese kiya he usko wesa sila mile aur kisi ke sath na-insafi na ho....
      agr koi molvi danista ghalat fatwa de ker aik insan ke haq ko km ya ziyada ker de...ya koi mard apni auratoon per apni taqat ki wajha se zulm kerey aur kisi ghalat fatwa ya mard ki hukmiraani ka (ghalat)hawalah de ker is zulm ko jaiz bna de ....to yaad rakhain ese hi koi cheez islam me nahi ajati, balkeh haqeeqat me ye na sirf islam se doori aur islam ka mazaq he balkeh ye Allah ke samne apni taqat ka challenge bhi he jo insan kerte waqt bhool jata he....aur iska jesa azab hoga us se quran ki ayatain bhari hui hen....
      na islam ne aurat ko mard ka ghulam bnaya he aur na hi mard ya molvi ko khudai fojdaar ka muqaam hasil he keh jo merzi islam ke nam per keh de aur wo islam ban jaey....

      please jo ghalat kerte hain un ko dekh ker islam ko ghalat smjna chor den
      wassalam

      Delete
    9. جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ رومن اردو پڑھنا ممکن نہیں یا تو مکمل انگریزی میں آجائیں یا پھر مکمل اردو میں۔ اس لئے میں آپکا یہ تفصیلی متن پڑھنے سے قاصر یہوں۔ چند ایک چیزیں جو میں نے پڑھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں آئیں۔ انسان اور جنوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت سے مراد خدا کی فرماں برداری ہے۔
      یہ کوئ نئ بات نہیں ہم میں سے ہر ایک اپنی پیدائش سے یہ وظیفہ سنتا چلا آرہا ہے۔ اس کے باوجود ہم میں سے ہر ایک یعنی کہ آپ بھی اپنی زندگی کا یہ مقصد نہیں رکھتیں۔
      اس لئے ہکمیں کوشش کر کے عملی زندگی پہ نظر ڈالنی چاہئیے نہ کہ ان نظریاتی باتوں پہ جو ہر ایک نے رٹا لگا کر یاد کر لیں۔ اگر انسانوں اور جنوں کو اسی لئے پیدا کیا گیا کہ وہ خدا کی عبادت کریں تو خدا کے پاس فرشتوں کی کوئ کمی نہیں تھی کہ وہ اس کی عبادت بھی کرتے ہیں اور فرماںبرداری بھی۔ حتی کہ تخلیق انسان سے قبل شیطان سب سے زیادہ عبادت گذار اور فرماں بردار جن تھا۔
      دسوسری بات یہ ہے کہ خدا کے بارے میں ہماری جتنی معلومات ہیں وہ انسانوں ہی کے توسط سے ہیں ہم میں سے کسی سے حتی کہ انبیاء سے بھی خدا نے بہ نفس نفیس ملاقات نہیں کی۔ اس لئے خدا کی عبادت اور اس کی فرماںبرداری آپ کسی ایک انسان کے عقیدے کے طور پہ لے سکتی ہیں ہر انسان کا عقیدہ مختلف ہوگا اور اس طرح سے انسان کی فرماں برداری کی سطح بدل جاتی ہے۔ جسے ائینسٹائین کی زبان میں نظریہ ء اضافیت کہتے ہیں۔
      دنیا میں اس وقت کئ مذاہب رائج ہیں اور سبھی اپنے تئیں اس چیز کا دعوی کرتے ہیں خدا کی عبادت کرنی چاہئیے اور اس کی فرماں برداری کرنی چاہئیے۔ لیکن سبھی کے یہاں ان باتوں میں اختلاف موجود ہے کہ کن باتوں میں فرماںبرداری کرنی چاہئیے۔
      اس طرح فرماںبرداری کرنے والی باتیں وقت اور حالات کے تحت بدل جاتی ہیں۔ اسلام چونکہ ایک جدید مذہب ہے اس لئے اس میں رسول نے تو اجتہاد کا دروازہ رکھنے کی کوشش کی لیکن ہمارے آئنہ اکرام کی جدو کہد سے وہ بند ہو چکا ہے۔
      اس لئے آپکو کہنا پڑا کہ مولنااشرف تھانوی ایک حنفی عالم ہیں۔ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ عہد نبوی میں حنفی فرقہ موجود تھا۔
      آپکی اس سلسلے میں جو بھی دلیلیں ہوں جو میں نے نہیں پڑھیں۔ مولنا صاحب ان قوتوں کے نمائیندہ سمجھے جاتے ہیں جو خواتین کے حوالے سے معاشرتی تبدیلیاں نہیں چاہتے تھے۔ یا بہت مجبور ہو کر جب وہ دیکھ رہے تھے کہ دیگر مذاہب کی خواتین تو بڑھ چڑھ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اسکا مسلمان خواتین پہ اثر نہ پڑے تو انہیں بہشتی زیور لکھنے کی ضرورت پیش آئ۔ تاکہ مسلمان خواتین کے لئے ایک ایسا نصاب موجود رہے جس میں انہیں اتنی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے کہ وہ اپنے شوہروں کو خط لکھ لیں اور گھر کا حساب کتاب کر سکیں لیکن انہیں خوب اچھی طرح پتہ ہو کہ شوہر کے علاوہ انکا کوئ قبلہ نہیں اس لئے مولانا صاحب اس قسم کے مشورے دیتے ہیں کہ اگر عورت کو اپنے والدینکے بیمار ہونے کی اطلاع ملے اور شوہر گھر پہ نہ ہو تو اپنے گھر بیٹھ کر اس کی واپسی کا انتظار کرے۔
      خِر عورتوں کو تابعدار رکھنے کے انہوں نے اس میں لاتعداد نسخے دئے ہیں۔ ایک زمانے تک یہ کتاب خواتین کو جہیز میں دی جاتی رہی لیکن خدا جانے اب کیوں یہ رواج ختم ہو گیا ۔
      حقیقت یہ ہے کہ عملی سطح پہ اس کتاب کے مندرجات پہ اس زمانے میں بھی عمل؛ ممکن نہیں تھا اس لئے کچھ عرصَ بعد یہ اپنی قدر کھو بیٹھی اور اب کوئ اسے پوچھتا بھی نہیں سوائے اس کے کسی کو عورتوں کے بارے میں مولوی نظریات جاننے کی ضرورت ہو۔
      سر سید احمد خان جب انگلستان گئے تو یہ دیکھر کر حیران رہ گئَ کہ انگریز خواتین نے کس قدر دانشمندی کے ساتھ معاشرے میں عملی طور پہ حصہ لیا ہوا ہے۔ اس ک ذکر وہ اپنے خطوط میں بھی کرتے ہیں لیکن اپنی مسلمان خواتین کو وہ یہ حق نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ خواتین کے معاملے میں وہ ایک روایت پسند مرد تھے۔ اس لئے انہوں نے خواتین کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ انکی توجہ کو فوکس صرف مسلمان مرد رہے۔ اس لئے سر سید کو اپنی زندگی میں معاشرتی تبدیلی لانے کے لئے اتنی کامیابی نہیں مل سکی جتنی کہ انہوں نے کوشش کی۔

      Delete
    10. لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ سر سید کا دور اشرف تھانوی کے دور سے پہلے کا دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان عورتیں گھر کی چہار دیواری سے باہر کا کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اس لئے انکے لئے بھی یہ ایک مشکل امر ثابت ہوا۔ لیکن مولنا اصاحب نے یہ کتاب بعد میں لکھی جبکہ مسلمان بڑے کرائسس کے عالم سے گذر رہے تھے لیکن انہیں جب بھی خیال نہ آیا کہ تبدیلی کے لئے خواتین کا جد و جہد میں شامل ہونا ضروری ہے۔ آج کے مولاناءوں کی طرح وہ بھی تبدیلی سے ڈرتے تھے اور انہیں بھی یہی فکر تھی کہ عورتیں کہیں مردوں کے قابو سے باہر نہ نکل جائیں اس لئے مذہب کا ڈنڈا انکے چاروں طرف جتنی سختی سے باندھا جائے اتنا اچھا ہے۔
      آپ نے کہیں لکھا ہے کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورتوں کو مردوں کی دل پشوری کے لئے پیدا کیا گیا ہے میں نہیں تمام عالم اسلام ایسا سمجھتا ہے کیونکہ آپ کے مذہبی علماء نے صدیون تک اسی بات کی تبلیغ کی ہے۔ کیا وہ غلط تبلیغ کرتے رہے۔ تبلیغ ہی نہیں بلکہ عملی سطح پہ انہوں نے اسے قائم رکھنے کی کوشش کی۔
      کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں کتنی جید عالم مسلمان خواتین گذری ہیں۔ کتنی زبردست مسلمان خواتین سائینسداں گذری ہیں، کتنی مسلمان خواتین نے سوشل ویلفیئر کام کئے ہیں، کتنی مسلمان خواتین نے اپنے ارد گرد رہنے والوں کی معاشرتی و معاشی زندگی بدل ڈالی ہے۔ اگر مسلمان خواتین کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ایک لمبے عرسَ تک تاریلی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کچھ نام نظر بھی آئیں گے تو اس صدی کے اخیر میں جب مسلمانوں کو دنیا کے دباءو کے تحت اپنے اندر تبدیلی لانی ہی پڑی۔
      مذہبی نظریات ہر مذہب کے بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن سچائ یہ ہے کہ وہ عملی سطح پہ آپکو کیا دے رہے ہیں۔ ہر شخص بڑی شاندار باتیں کر سکتا ہے محض چند منٹ کے لئے فیس بک دیکھ لیں تو دنیا جنت سے کم نہ لگے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی احادیث پھیلانے والے قرآنی آیات کے حوالے دینے والے، تفسیر قرآن کو پڑھنےب کے دعوے کرنے والے، انسان کی زندگی کے اعلی مقصد سے آگاہ رہنے والے، عملی سطح پہ ناکام کیوں ہیں۔
      کیا یہ استادوں کی خرابی ہے، کیا یہ کتاب کے الجھاوے ہیں، کیا یہ طالب علموں کی نا اہلی ہے، کیا یہ نصاب کا موجود ضروریات سے تعلق نہ رکھنا ہے یا یہ استاد کی ساش ہے کہ اسے نئے سرے سے نصاب پہ کام نہ کرنا پڑے جو پچھلے اساتذہ نوٹس بنا گئے ہیں انہی سے وہ بھی کام چلا لے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم طالب علموں کو صدیوں تک ایک ہی نوٹص سے پڑھاتے رہے جب کہ اس زمانے میں چاند گرہن سے ڈرنے والا شخص یہ جان کر کے چاند گرہن کیا ہوتا ہے اس کا ڈر اپنے اندر سے نکال چکا ہو، کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک طالب علم کو آپ ہمیشہ پہلی جماعت کا نصاب پڑھاتے رہیں جبکہ اسکی شعوری سطح نہ صرف اس سے کہیں بلند ہو چکی ہو بلکہ وہ اس قابل ہو چکا ہو کہ آاپنے قدیم استاد کو اس سے کہیں زیادہ منطقیں پڑھا سکے، کیا استاد ایسے طالب علم کو غیب کا بیان کر کے ڈرا کر دھمکا کر اپنے قابو میں رکھ سکتا ہے جو یہ جان چکا ہو کہ غیب کیا ہے، کیا استاد صرف امتحان کا خوف یاد دلا دلا کر طالب علم کو سیدھی راہ پہ رکغھ سکتا ہے جبکہ طالب علم سمجھتا ہو کہ استاد غلط نصاب پڑھا رہا ہے؟
      سوچئیے، سوچئیے۔ جب تک زمانہ کیں اور آگے بڑھ رہاہوگا۔

      Delete
    11. salam alaikum,

      thankyou for you long reply but alas! it is not a bit different from what you have written in your article. everywhere full of complains,angery on islamic laws bcz of those who exaggerated them and not wanting to follow Allah's commands...
      you will definitely meet Allah on day of judgement whether you believe on this or not. whether u like Allah or not He is a reality....had u been willing to discuss the difficulties faced bcz of following some command i would have discussed more...
      Allah hafiz
      may Allah guide us all ameen

      Delete
    12. جب میں نے آپکی دی ہوئ مثال کو چھوٹا کہا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ بھی ایسی مثالیں دیتا ہے اب جب اسی مثال کو استعمال کرتی ہوں تو آپ نے یوم آخرت کا قصہ چھیڑ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان خدا نہیں بن سکتا۔
      اس لئے میں نے کہا تھا کہ بڑے نظریات پہ چھوٹی مثالیں نہ لائیں۔
      پردہ یا برقعہ میری ذاتی پریشانی نہیں ہے کیونکہ میں پردہ نہیں کرتی۔ نہ محض کسی کے پردے سے متائثر ہوتی ہوں۔ کرنے والے پردے میں بھی ہر گناہ کرتے ہیں نہیں کرنے والے بغیر پردے کے بھی اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں۔ کرنے والے زیادہ مصائب کا شکار ہوتے ہیں نہیں کرنے والے کم کا۔
      لیکن اس کی وجہ سے جو مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں وہ بیان کئے ہیں۔ ان کو آپ نے جھٹلایا نہیں۔ نہ ہی آپ نے یہ بتایا کہ اگر کسی ایک گروہ کی طرف سے ہی یہ شدت پسندی ہے اور باقی ایسا کچھ نہیں تو پھر مسلمان خواتین کیوں انسانی معاشرے میں کوئ تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں۔
      اس لئے کہ محض تفسیر قرآن پڑھ کر ان سوالوں کے جواب آپ کو نہیں مل سکتے۔ خدا کو جاننے کے لئے اس کی تخلیق انسان کو پڑھنا بے حد ضروری ہے۔

      Delete
  35. تحریر سےیوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس زمانے کے عرب جنگل میں رہ رہے تھے، جن کے پاس نہ کپڑا تھا، اور نہ ہی ان کے پاس بیت الخلا جیسی بنیادی انسانی ضرورت موجود تھی،

    میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مولویوں کہ خلاف بات کرنا کفر ہے، ضرور لکھا جائے، لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کہاں بات مولوی کی توہین سے نکل کر حدیث کی توہین پر جا رہی ہے . اس میں بہت سی باتیں احادیث میں موجود ہیں، یہ بک بک ایک حد تک ہوتی تو اچھی لگتی۔

    ویسے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ مغرب زدہ لوگ ہماری خواتین کے حجاب کو ہی زیادتی کیوں سمجھتے ہیں، ان کو لاہور کی ہیرا منڈی اور سوات کا بھنڈ بازار کیوں نظر نہیں آتا، ان کو یورپ کے ہر گلی میں طوائفوں کے ڈیرے کیوں نہیں نظر آتے، اوہ،، وہ کام تو وہ خواتین اپنی مرضی سے کر رہی ہیں، تو وہ تو خواتین کی آزادی ہے،
    ہمارے ملک بھی خواتین حجاب اپنی مرضی سے کرتی ہیں، جن کو نہیں کرنا ہوتا وہ نہیں کرتیں، اور وہ بھی اپنے اس فعل میں آزاد ہیں، خدارا ہمیں بھی اپنی مرضی سے جینے کا حق دیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. تاریخ عرب اور حدیث میں آپ کے نزدیک ہی نہیں بہت سوں کے نزدیک کچھ فرق نہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سارے مذہبی احکامات کو ان کے اصل تناظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
      یہ تو ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی بات ہے قدرت الل شہاب کی شہاب نامہ پڑھ کر دیکھ لیں کہ جب پچاس سال پہلے قدرت اللہ حج کرنے گئے تو وہاں کتنے بیت الخلاء تھے۔ آج بھی پاکستان کے بڑے حصے میں لوگ جنگل استرمال کرتے ہیں جی ہاں اکیسویں صدی میں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاصے حد تک شہری رہے ہیں۔
      ہر وہ شخص جو پردے کے خلاف لکھے اس کا مغرب زدہ ہونا کیوں ضروری ٹہرتا ہے جن مقامات پہ ُواتین کے لئے پردہ لازمی ہے کیا وہاں کے مرد طواءفوں سے مستفید نہیں ہوتے۔
      یہ آپ نے بڑی ظالمانہ بات کی ہے کہ خواتین اپنی مرضی سے جسم فروشی کرتی ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق صرف دو فی صد خواتین اپنی مرضی سے یہ کام کرتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معلومات کی ضمن میں آپ نہایت کمزور بھی ہیں۔
      جی ہاں میں بھی اس بات کے حق میں ہوں کہ جو چاہے کرے اور جو نہ چاہے وہ نہ کرے لیکن اگر اسے اچھائ اور نیکی کا ذریعہ بتایا جائے یا اسکے نام نہاد فوائد گنوائے جائیں تو افسوس کہ اس سے زیادہ خواتین کے لئے اس کے نقصانات ہیں۔
      کبھی ان خواتین سے پوچھا ہے جو حالت حمل کی پیچیدگیوں سے گذر رہی ہوتی ہیں اور انتہائ گرمی میں بھی برقعہ پہننے پہ مجبور ہوتی ہے یا وہ خواتین جو سن یاس کی مصیبتوں سے گذر رہی ہوتی ہیں لیکن برقعہ پہننا لازمی ہے۔ انکی کیا حالت ہوتی ہے۔ محض اس لئے کہ کچھ لوگوں خاص طور پہ مردوں کی انا برقعے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ اگر ان مردوں کو اسی حالت میں کچھ وقت برقعہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جائے تو لاحول پڑھ کر بھاگیں۔ دنیا کو خواتین کے مقام عبرت بنانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔
      آپکی یہ بات انتہائ سے زیادہ غلط مشاہدے پہ مشتمل ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت اپنی مرضی سے پردہ کرتی ہے۔ ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت نہ اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کر سکتی ہے، نہ شادی کر سکتی ہے نہ کپڑے پہن سکتی ہے نہ گھر سے باہر نکل سکتی ہے حتی کہ اپنے علاج کے لئے اپنی مرضی سے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتی۔ اپنے گھر سے باہر نکل کر دیکھیں۔ کتنے فی صد خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں جو کرتی ہیں انکی اکثریت کو بچپن سے ہی برین واشڈ کیا جاتا ہے کہ یہ کتنا عظیم کام ہے جو ایک عورت کرتی ہے اور دراصل عورت کے لئے نیکی اور تقی یہی ہے کہ وہ موجود ہوتے ہوئے بھی اپنی نفی کرے۔ اس طرح سے وہ اپنے ارد گرد کے مردوں کا دل جیتنے کے لئے یہ کرتی اور در حقیقت اس میں اور اس عورت میں کوئ فرق نہیں جو مردوں کا دل جیتنے کے لئے کپڑے اتار دیتی ہے۔
      چونکہ ان خواتین کی اپنی کوئ حیثیئت نہیں ہوتی اس لئے وہ معاشرے پہ کوئ بھی اذر نہیں ڈال پاتیں۔ اور عموماً وہی بات دوہرا رہی ہوتی ہیں جو انکے مرد کہتے ہیں۔
      درست اپروچ کیا ہونی چاہئیے اسکا آپ کو خود اندازہ لگانا چاہئیے۔ مرضی اور آزادی کیا چیز ہوتی ہے اسکی تعریف معلوم ہونا چاہئیے۔

      Delete
    2. جب دلیل کا جواب دلیل سے نہ دیا جا سکے تو پھر دھمکی اور دھونس ہی چلتی ہے نا :)

      Delete
  36. محترمہ انیقہ یہ میں نے کب کہا کہ تاریخ عرب اور حدیث میں کوئی فرق نہیں ?

    پاکستان کے بڑے حصے میں لوگ جنگل استعمال کرتے ہیں ?? پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ ہے ہی کتنا کہ لوگ رفع حاجت کے لیے جنگل جاتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معلومات کی ضمن میں آپ نہایت کمزور بھی ہیں یا شائد آپ کا گاوں کانگو میں ہے۔ (کچھ حذف نہ کیجیے گا، آپ ہی کے الفاظ دہرا رہا ہوں )

    صرف 2 فیصد خواتیں اپنی مرضی سے جسم فروشی کا دھندا کرتی ہیں پھر مغرب کی عورت نہایت طلم کی زندگی گذار رہی ہے ،

    اس سے تو ہمارے مسلمان ہی اچھے ہوئے، کہ صرف پردے پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔ بلکہ اس معاشرے سے تو ہزار درجہ بہتر ہوئے


    میں نہ تو خواتین کی تعلیم کے خلاف ہوں نہ ہی انکی نوکریوں کے، میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں خواتین کو گھر بیٹھے عزت دی جاتی ہے اور گھروں میں ہماری خواتین کسی ملکہ سے کم نہیں ہوتیں ، جن کا ہر حکم چلتا ہے، اور شوہر انکے آگے بات بھی نہیں کر سکتے، ایسے لوگ آپ نے کیوں نہیں دیکھے جو اپنی تنخواہ لا کر اپنی بیگم کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں،

    اور بیٹیوں کو شہزادیوں کی طرح رکھا جاتا ہے، کم ازکم ایک صحیح مسمان گھر میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ پردے کا حکم ہمیں ہمارا مذہب دیتا ہے، اگر آپ اسے برین واش سمجھتی ہیں تو یہ آپ کا اپنا مسلہ ہے۔ میں تو اسے تربیت کہوں گا۔

    ReplyDelete
  37. آپ اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھیں اور کراچی سے گوادر کار کے ذریعے چلے جائیں یا پھر کراچی سے تھر پارکر کار سے چلے جائیں اور چند گھنٹوں میں اس خیالی دنیا سے واپس آجائیں گے جہاں آپ رہتے ہیں۔ دراصل یہ آپ جیسے لوگوں ککے لئے بہت ضروری ہے کہ صعرف اپنا ملک ہی اپنے طور پہ دیکھ لیں۔ بلوچستان میں جنگل نہیں ہیں ایک دم ریگستانی دشت ہے اور وہاں لوگ ٹیلوں کی اوٹ میں کام کرتے ہیں۔ عرب میں جنگل سرے سے تھے ہی نہیں بلکہ عرب ایک ریگستان ہے اس لئے جب آپ نے عرب کے لئے جنگل کا الفاظ استعمال کئے تو میں نے اسے آپکی طرف سے محاورتاً لیا۔ لیکن آپ استاد بننے کے چکر میں اپنی بات سے مبحرف ہو گئے۔ یہی فرق ہوتا ہے کسی آرام دہ کمرے میں بیٹھ کر تبصرےب لکھنے میں اور زندگی کے حقائق کا براہ راست تجربہ حاصل کرنے میں۔
    ہمارے ملک میں کتنے فی صد لوگ تنخواہ دار ہیں ذرا اس کا بھی حساب لگا کر بتا دیں۔ یہاں میں پاکستان اور امت مسلمہ کی خواتین کی عمومی حالت کی بات کر رہی ہوں آپ کے گھر کی خواتین کی نہیں۔ ورنہ مجھ سے زیادہ مزے میں آپکی خواتین نہیں ہونگیں۔
    آپ نے ان گھروں کو دیکھنا کبھی گوارہ نہیں کیا جہاں پردے کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔ عزت کیا ہوتی ہے آپکے ہاتھ پیر توڑ کر گھر بٹھآ دیں آپکو گھر والوں کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی آزادی نہ ہو، آپ انکی مرضی کے خلاف ڈاکٹر کے پاس بھی نہ جا سکیں اور آپ سے کہا جائے کہ ایسا اس لئے کہا جا رہا ہے کہ آپکی ہم عزت کرتے ہیں۔ تو یہ عزت آپکو راس آئے گی؟
    ہر بات پہ مغرب کی عورت کی مثال نہ لائیں۔ انہیں اتنی آزادی ہے کہ اپنی مرضی سے جنسی تعلقات بناتی ہیں جس دن تنگ آجاتی ہیں اس دن اس مرد کو دھکے دے کر ایک طرف کر دیتی ہیں۔ مغرب کی عورت کا تذکرہ کر کر کے منہ خشک کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں آج انکی زندگی میں جتنی سہولیات ہیں وہ مغرب کے طفیل ہیں۔ اسکے باوجود اشرم تم کو نہیں آتی۔
    مغرب نے لا تعداد ایسی خواتین پیدا کی ہیں جنکے انسانیت پہ بے شمار احسانات ہیں اور پوری امت مسلمہ ایک ایسی خاتون نہیں پیدا کرسکا کیونکہ وہ خواتین کی عزت میں مصروف ہے ایسی عزت جس میں بازار میں یہ تک چیک کیا جاتا ہے کہ عورت نے دوپٹہ کیسے اوڑھا ہوا ہے اور نیل پالش کیسے لگائ ہوئ ہے۔ عورتوں کے معاملے میں سب سے زیادہ خراب مرد تو مسلم ممالک میں پائے جاتے ہیں اس لئے دنیا بھر کی مہنگی طوائفوں کا مرکز دبئ ایک مسلم ملک ہے۔
    چونکہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ اس طرح کے پردے کا مذہب کا حکم دیتا ہے ایسے پردے کا حکم مذہب کیسے دے سکتا ہے جبکہ اس زمانے میں گھروں میں بیت الخلاء ہی نہیں ہوتے تھے اور اسکے لئے گھروں سے باہر جانا پڑتا تھا۔ یہ بھِ دھیان رہے کہ اس زمانے میں بجلی کا تصور تک بھی نہ تھا۔ عرب میں اس وقت تک تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ آپ سمجھتے ہوں کہ بجلی اس وقت موجود تھی اور عرب میں تیل کی دولت ہمیشہ سے استعمال میں رہی ہے۔
    عرب محض آج سے سو سال پہلے تک اتنا غریب تھا کہ حج کے قافلوں پہ ڈاکوءووں کے حملے ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پہ مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے خاص حاجیوں کی حفاظت کے لئے حفاظتی دستے ساتھ ہوتے تھے۔
    بہر حال آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس دنیا سے ناواقف ہی ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. Salam alaikum,
      Whats the use of speaking against a direct command of Allah?haven't you read the shariah laws regarding the obligatory part of 'pardah'? there are two direct verses about it. you cant deny a command of Allah if you are muslim. u can't argue against its logic if you dont feel like doing it. by pardah i mean only the physical covering (i don't mean making woman a prisoner in home) Allah clearly tells the men who are mehram and all others are not.... the situation in villages may be forceful or exagerated...but there are many females in educated families who choose to cover (without any kind of pressure, infact they have to face pressure bcz of their pardah still they want to do it just for sake of Allah). why dont u ask them why they want to pick up a thing which will make them bound???

      i choose to do parda bcz of my own choice and at age of 21 ... by parda i mean only the obligatory part ... iam a doctor (from DOW) and i did it during my OT duties as well without breaching the scrub rules... after marriage i have chosen not to work and alhamdulillah my husband is good muslim and sane enough to understand that there is no pressure upon me to work in islam ... which non-muslim or liberal person will give this liberty to an educated lady with experience and education in a serving field like medical....even u will say that i wasted a seat and someone else would have done wonders if they had it instead of me!!!

      the point is not that men force women to do parda....many women do it because of their own will and desire just because they wish to follow a command of Allah...and yes its not easy sometimes in hot weather with sweat all over, but its better than both the shameful x-ray-like stares of men and the heat of hellfire.... if u have walked on roadsides at arambagh , jama cloth or even urdu bazar u would know what i mean (btw these are not notorius areas these are ones which i have experience bcz of DOW)...

      about those men who force parda upon women without educating them, these women do all kinds of mischief when their men are not arround. and this is with every person....islam has nothing to do with it...if u force an order bcz of authority then it will only be followed as long as ur authority prevail,not afterwords.....

      many people complain about the muftis and maulvis about what ever fatwas they have given. the question is that why don't they look up the matter from better sources before that? all that which usually come up in our live is present in the quran,hadith and previous ijtehad...parda is not a new issue. so why do u ask the maulvi for it?

      if the whole media is advertising fast food and soft drinks and cigarettes do u still take it up as ur 'norm'? u know that fast food and soft drinks have harm so u keep it at less, and u know that cigarette will cause irreversible damage so u don't smoke. isn't it true? why don't u say that its cool to smoke etc....u know for sure that its bad so u avoid ...thats not all, if u find someone in ur close circle talking in its favor u will definately write or speak against it and tell ur proof..similarly we know that what ever Allah has commanded (farz=obligatory) is a thing which is for our own betterment in this world and in hereafter so we follow it whether we like it or not.....for acts which are optional deeds we have choice of doing or droping (eg nafl ibadah)... so if any muslim is not understanding the position of farz and she/he is letting me speak over the matter i will definately want to try to convey the harms of not following it just out of sincerity..... i will focus on person and Allah...not on what others do and dont do....bcz i know thats not gonna work....

      Delete
    2. dear sister. internet is a place where we can spread our words over long distances and huge audiences without much effort. what we read affects us in some way or other....same as what we see affects us thats why we are influenced by media....social networking sites and blogs are like free media.... what u write will definately affect others...be careful in spreading a wrong concept or wrong agenda....be very careful about writting anythng against Islam just because of the wrong-doers who put a bad picture of islam...try searching from the book of Allah and sayings of Mohammad SAWW before speaking out anything on islam....Allah wants us to be responsible in our acts....not careless....i am saying it all out of pure sincerity.... i dont intend to earn any benefit or fame. i only intend to point out the wrong so that u know how to save urself....and advise about the right politely...
      Allah hafiz

      Delete
    3. ڈیئر ندرت یہ تو آپ پہ واضح ہوجانا چاہئیے کہ میں اسے ایک واضھ حکم اس سلسلے میں نہیں سمجھتی جس سلسلے میں آُ اسے لیتی ہیں۔
      تاریخ میں یہ پردہ جس کی اب تبلیغ کی جانے لگی ہے ہمیشہ امیر عورتوں کو غریب عورتوں سے الگ کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔
      آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کسی متعہ کرنے والی عورت کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کسی صحابی کو دیکھے اور اس بنیاد پہ کہ ان میں کون زیادہ جوان مرد ہے اسکے ساتھ متعہ کا فیصلہ کرے۔ اسکا آپکے پاس کوئ جواب نہیں ہوگا۔
      جس طرح آپ نے اپنے لئے پردہ کرنا منتخب کیا اور اپنی جاب کو چھوڑنا پسند کیا اسی طح خواتین کی کثیر تعداد پردہ نہ کرنا اور ٘عاشی طور پہ خود کفیل ہونا چاہے گی اسے بھی اسکا حق ملنا چاہئیے۔ آپ ایک مثالی عورت نہیں ہیں۔ کیونکہ آپکے شوہر میں اتنی سکت ہے کہ آپ جاب نہ بھِ کریں تو بھی وہ آپکو اور اپنے خاندان کو سپورٹ کرے۔ اس لئے آپ ے یہ عیاشی اپنے لئے کر لی۔ ہمارے ملک میں ہی نہیں اسلامی ممالک کی اکثریت خواتین کی یہ عیاشی نہیں کر سکتی۔ انکی راہ میں آُ مذہب کی خودساختہ دیوار کیوں کھڑی کرنا چاہتی ہیں محض اس لئے کہ آپکو خدا کا یہی پیغام سمجھ میں آتا ہے۔
      آپ ایک ایسا شوہر لینے میں اس لئے کامیاب ہوئیں کہ آپ ایک ڈاکٹر ہیں اگر آپ پانچویں پاس ہوتیں اور کسی کے گھر میں آپکی ماں جھاڑو پونچھے کا کام کرتی تو آپ کو ایسا شوہر بھین نہ ملتا۔ اس لئے آپ ایک مثالی عورت نہیں ہیں۔
      جی ہاں میں دیکھتی ہوں کہ پردہ کرنےط والی خواتین کے کتنے نخرے یا مصائب ہوتے ہیں آپ او پی ڈی میں کام کرتی ہونگیں تو بھی آپ کا دماغ اس چیز میں لگا رہتا ہوگا کہ کہیں آپکا ستر یعنی اسلامی ستر کسی کو نظر نہ آجائے اور اس طرح آپ مریضوں کو وہ توجہ دینے سے قاصر رہتی ہونگیں جو اس کا تقاضہ ہے۔ درحقیقت پاکستان میں خواتین کے ساتھ صحت کے اتنے سنگین مسائل ہیں کہ اگر کوئ مذہبی خاتون یہ کہے کہ اس نے میڈیکل پڑھ کر پریکٹس کرنا چھوڑ دی تو اس سے زیادہ گنہاگار کوئ اور شخص نہیں ہو سکتا۔
      آپ نے سیٹ نہیں ضآئع کی بلکہ آُ نے تمام عورتوں کو جو محض ایک عورت ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کرواسکتیں انکے مصائب میں اضآفہ کیا۔
      اگر یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں میڈیءکل کی پڑھائ صرف اچھی جگہ شادی کے لئے کرتی ہیں تو اس میں کافی وزن ہے۔
      جی ہاں مجھے اندازہ ہے کہ آپ اپنے شوہر کے اوپر کس قدر اپنے مذہبی طور پہ بلند ہونے کا دباءو ڈال کر رکھتی ہونگیں کہ اسے اس چیز کو سوچنے کی فرصٹ ہی نہیں ملے گی کہ دراصل ایک بیوی ہونے کے علاوہ بضی آپ پہ معاشرتی فرائض ہیں۔
      آپ نے فرمایا کہ پردے میں عورت مرد کی ایکسرے جیسی نگاہوں سے محفوظ رہتی ہے۔ حیرت ہے کیا آپ نہیں جانتیں کہ عرب کے خطے میں جہاں پردہ حد سے زیادہ رائج ہے وہاں کے مرد ایک کے بعد نجانے کتنی شادیاں کرتے ہیں انکے حرم میں کڈا جانے کتنی کنیزیں ہوتی ہیں دنیا کی مہنگی ترین طوائفیں عرب ممالک کا رخ کرتی ہیں۔ یہی نہیں اب ی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں مردوں میں ہم جنسیت بھی اسی حساب سے یہاں پائ جاتی ہے۔

      Delete
    4. یہی نہیں ہمارے ملک میں جن جن علاقوں سے خواتین کو سر بازار برہنہ پھرائے جانے کی سزائیں آتی ہیں وہاں بھی خواتین سب سے زیادہ پردے میں ہوتی ہیں۔ خیبر ُختونخواہ پردے کے حوالے سے سخت صوبہ۔ یہاں بھی لہواطت بری طرح پھیلی ہوئ ہے اور یہاں کے مرد اتنا ہی جنسی برائیوں میں ملوث ہیں۔ افغانستان کے ایک خطے کے بارے میں یہ خبر آئ کہ وہاں مرد سوتے ہیں کہ خواتین کی پیدائش کا آخر مقصد کیا ہے اسکی بنیادی وجہ وہاں پھیلی ہوئ لواطت ہے۔ کیا یہ سب خواتین کے پردے کی برکات ہیں۔ آ
      آپ شاید یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ ان موضوعات پہ لکھنے سے اسلام کی غلط امیج سامنے آتی ہے۔ آپکے خیال میں یہ سب کچھ جو آُکے معاشرے میں اور مسلم دنیا میں ہوتا ہے وہ کیا اسلام کی ستھری شکل پیش کرتا ہے۔ اس بات میں کوئ سچائ نہیں کہ پردہ کرنے سےمرد عوت کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ محض سو سال پہلےتک برصغیر میں عورتیں شدید پردے میں رہتی تھیں۔ اور مردوں کا عورتوںن کیطرف رغبت کا یہ عالم تھا کہ ہر صاحب حیثیئت شخس کے پاس ایک داشتہ ضرور ہوتی تھی۔ کیا آُ نے کبھی نہیںض سنا کہ کسی برقعہ پوش لڑکی کا برقعہ سر بازار چند شیطان لڑکے کھینچ رہت تھےیا یہ کہ کسی برقع پیش لڑکی پہ تیزاب پھینک دیا گیا۔
      حقیقت یہ ہے محترمہ کہ اگر دنیا کی تمام عورتیں اپنے گھروں میں بند ہوجائیں تو مرد ان گھروں کے باہر کی ہوا سونگھنے کے لئے ہی کھڑَ رہیں گے۔
      کیونکہ مرد اور عوت کی دو دنیائیں قدرتی طور پہ ممکن نہیں۔
      اب آپ سے زیادہ تلخ سوالات کرتی ہوں کیا آپ اپنے زیر جامے خود سیتی ہیں، کیا آپ بحیثیئت عورت اپنے استعمال میں آںے والی مخصوص اشیاء خود تیار کرتی ہیں۔ اسکا جواب نہیں میں ہوگا۔ کیونکہ ایسا ہونا ایک سات ارب آبادی والی دنیا میں ممکن نہیں۔
      آپ نے میڈیکل کی تعلیم حاص کرنے کے بعد یہ سب فیصلے کئے۔ اگر آپ محض میڈیکل میں جانے سے پہلے یہ فیصلہ کرتیں کہ میں اب نہیں پڑھونگی کیونکہ بحیثیئت ایک مسلمان عورت مجھ پہ علم کا اتنا حصول عائد نہیں ہوتا تو بھی آپ یہی رہتیں لیکن ہو سکتا ہے کہ دنیا کو کوئ اور بہتر عورت مل جاتی جو یہ سوچتی کہ انسان ایک سماج سے جڑا یہوتا ہے اور محض اپنی کوششوں سے سب چیزیں حاصل نہیں کرتا اس لئے یہ اس پہ فرض ہے کہ جب وہ اس حالت میں پہنچے کہ اسے لوٹا سکے تو اسے یہ کام بہتر طور پہ کرنا چاہئیے۔
      یہ نہیں کہ آپکے شوہر صاحب سارا دن سخت محنت کرنے کمیں گذاریں اور آپ اپنی ہم جنس خواتین کو یہ نصیحت کرتے ہوئے گذاریں کہ پردہ کرو عوتوں پردہ کرو اس لئے کہ میں کرتی ہوں۔
      آپکی بات کی وزن پہ، میں پردہ نہیں کرتی۔ اپنے سارے کام خود کرتی ہوں۔ میری وہ دوست جو پردہ کرتی تھی اسے بھی مردوں کلے چھچھورے فقرے اسی رفتار سے سننا پڑتے تھے جس رفتار سے مجھے۔ جب ہم ایک ایک سماجی حیثیئت کے حامل جگہوں پہ رہتے تھے تو وہاں مرد زیادہ گھورت تھے لیکن جب ہم بہتر جگہ پہ آگئے تو یہ بھی کم ہو گیا۔ وہ لڑکے زیادہ گھورت تھے جو مخلوط اداروں میں نہیں پڑھے تھے بہ نسبت ابکے جو مخلوط اداروں میں پڑھے ہوئے تھے۔ وہ مرد زیادہ گھورتے تھے جو کراچی سے باہر کی یونیورسٹیز سے آئے ہوئے تھے بہ نسبت کراچی کے تعلیمی اداروں۔
      اور آپکو صدمہ ہوگا کہ یہ سب مشاہدات، آپکے مشاہدات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کیوں؟

      Delete
    5. thankyou for everything which you presumed about me and said.

      Delete
  38. anika ! I have been really impressed with your depth and determination to fight these mental dwarfs.I followed your Blog and comments and can only say that women like you are an asset to any family and any nation.

    ReplyDelete
  39. بات صرف اتنی سی ہے کے عنیقہ صاحبہ نے کچھ ایسی باتیں ڈھونڈ لی ہیں .. جس کے جواب راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لئے دینا مشکل ہیں ...

    اور اگر وہ جواب دے بھی دیں تو .. عنیقہ میں نہ مانوں پہ اتر آتی ہیں ....

    وہ ایک پرانی تک بندی ہے

    حرکت میں ہی برکت ہے نہ مانے تو کر کے دیکھ
    جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے . نہ مانے تو مر کے دیکھ

    ساری دنیا کسی نہ کسی قانون کے تحت چل رہی ہے ....

    کہیں اسے مذہب کا لبادہ پہنایہ گیا ہے اور کہیں نہیں ....

    ویسے مورخ حضرات کہتے ہیں .. آپ خود بھی پڑھ سکتی ہیں .... دنیا کو ایک نظام ، قانون اور عدل باہمی کچھ ایسے ہی لوگوں نے دیا جو خود کا کسی کا فرستادہ بتلاتے تھے .....
    لہذا انبیا یعنی الله کے پیام بروں اور انکے ماننے والوں یعنی اس تعلیمات کو ہٹا دو .. دنیا ایک جنگل بن جاۓ گی جہاں .. جس کی لاٹھی اسکی بھینس ہوتی ہے ....

    ویسے آپ الله کے قانون کو برا بولنے سے بہتر ہے ... اسکے کلام کو سمجھیں ...

    اور اس بات کو ذہن سے نکال دیں کے آپ بہت پڑھی لکھی ہیں اور آپ کو سب معلوم ہے .....
    آپ کی دی ہی غلط معلومات کی بات ہی کیا کی جاۓ .... آپ کا علم تو اتنا بھی نہیں ہے جو غلط باتیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں اسکو چھان پھٹک سکھیں...
    آپ کی آدھے سے زیادہ تحریر اغلاط العوام سے بھری ہوتی ہے ... جسے مجھ جیسا معمولی سمجھ والا بندہ بھی پڑھ کے ہنس دیتا ہے ....

    ReplyDelete
    Replies
    1. نعمان، آپ کی اس بات سے مجھے اردو محفل پر کی گئی آپ کی ایک "صاف ستھری" فرمائش یاد آ گئی :)

      Delete
  40. انکے جوابات دینا ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے مشکل نہیں ہیں بلکہ آپ جیسے مسلمین کے لئے مشکل ہیں جو تقلید کے مزاج پہ رہتے ہیں۔ آپ نے اپنے تئیں میری معلومات کو غلط قرار دیا۔ ایک ایماندار راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پہ آپ کا بنیادی فرض ہے کہ آپ ان غلط معلومات کو سب سے پہلے نشان زد کریں۔
    آپ نہیں کر سکتے۔ اس طرح ہنسنے کی باری میری زیادہ رہتی ہے۔۔
    چیونٹیاں اور شہد مکھیان خدا کے رسولوں جیسی نعمت سے بہرہ مند نہیں لیکن ان کا ایک نظام ہے جسے وہ بخوبی چلاتی ہیں۔
    انبیاء کے لائے نظاموں کے علاوہ بھی دنیا کو جنگل نہ بننے دینے کے لئے لا تعداد نظام انسانی تہذیب میں انسانوں کے ہاتھوں متعارف کرائے گئے ہیں۔ لیکن آپ شاید ان سے واقفیت نہیں رکھتے۔
    جب بھی کوئ انسان نظام متعارف کراتا ہے تو ایک عرصے کے بعد یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ یہ نظام وہ انسان اور وہ معاشرہ پیدا کر سکا جس کا اس نے دعوی کیا تھا اس سے بھی زیادہ اہم سوال کچھ عرصے بعد یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا یہ نظام کی وہی شکل ہے جو اصل میں متعارف کرائ گئ تھی یا اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دنیا میں ہر نظام کے ساتھ چاہے وہ کتنے ہہی انقلاب کے ساتھ آیا ہو یہ بحران رہا ہے کہ اس پہ چند لوگوں نے قبضہ کر لیا اور اپنی ملکیت برقرار رکھنے کے لئے اس کی شکل کو بگاڑ دیا۔
    مذہب پہ قبضہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ اسکے لئے نہ کسی ایجاد کی ضرورت ہوتی ہے نہ ذہانت کی ۔ اس لئے کہ اسکے مخالف بات سن کر یہی کہیں گے ہم تو ہنس دیتے ہیں۔
    آپ میں حوصلہ ہے، بیان سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس صحیح معلومات بھی ہیں تو اس صفحے پہ اس کا رد لکھ دیں۔ کیا مشکل ہے؟ کسی کو جھوٹا کہنا، چھوٹا کہنا یہ تو زبان ہلانے کی بات ہے میں بھی جواباً آپکو یہی لکھ دیتی ہوں۔ اس سے میری اور آپکی حیثیئت میں کیا فرق پڑتا ہے۔
    مزہ تو جب آتا جب آپ اپنی بات کو اپنے نفس کی پیروی سے ہٹ کر کھلی دلیلوں سے ثابت کر سکیں۔

    ReplyDelete
  41. آپ کی غلط فہم کی طرف نشاندہی کرتی ایک فاش غلطی ...


    ""عہد نبوی میں جبکہ کپڑا ہی بمشکل ملتا تھا وہ بھی عام لوگ نہیں خرید پاتے تھے اس وجہ سے نبوت سے پہلے غریب لوگ حرم کا طواف ننگے ہو کرکرتے تھے۔""

    محترمہ یہ سب عہد نبوی میں نہیں بلکہ آپ سے پہلے یہاں تک کے آپ سے جڑے ہوئے عہد میں ہوتا تھا ...
    اور وجہ اس کے کپڑے کا نہ ہونا نہیں تھی ...
    بلکہ اصل وجہ مشرکین مکّہ یعنی قریش کی بدمعاشی تھی ... کہ ہم سے کپڑے لے کر پہنو اور اگر استطاعت نہیں ہے تو ننگے ہو کر طواف کرو ... اور قبل از اسلام کے مشرکین کعبہ تک کپڑے پہن کر آتے تھے لیکن طواف قریش کی وجہ سے بغیر کپڑوں کے کرتے تھے .... ملاحظه کیجیے الرحیق المختوم

    اچھی بات تو یہ ہے کے آپ نے تبصرہ حذف نہیں کیا ...

    کیوں کے آپ کے ٹیچنگ کے مسلۂ پر جو تحریر ہے اس پر سے آپ نے تبصرہ ہی اڑا دیا تھا ...

    بقول اقبال :

    بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے
    ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

    وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے
    طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے

    سرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے
    تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

    جہاں میں بندہ حر کے مشاہدات ہیں کیا
    تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

    ReplyDelete
    Replies
    1. محترم میں نے آپکا کوئ تبصرہ کبھی ڈیلیٹ نہیں کیا۔ اگر آپ نے اس سے پہلے بھی اسی نام سے کیا تھا اور یہاں تک پہنچا تو ضرور آیا ہوگا۔ نہیں پہنچنے کی صورت میں نہیں آیا ہوگا۔
      آپ نے جو بات لکھی ہے میں اپنی ایک تحریر میں یہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں تفصیلات کے لئے دیکھئیے سرت النبی شبلی نعمانی۔
      اگر کسی شخص میں استطاعت نہ ہو تو اسے غریب ہی کہا جاتا ہے۔ نہ کہ امیر۔ قریش اس لئے بد معاشی دکھاتے تھے کہ لوگ وہ کپڑا خرید نہیں سکتے تھے۔
      عرب میں محض سو سال پہلے تک خواتین نیم برہنہ پھرتی تھیں جسکا میں نے ایک تحریر میں تذکرہ کیا ہے اس کا لنک یہ رہا۔
      http://anqasha.blogspot.com/2011/01/blog-post_09.html
      اور یہ جو میں نے ایک پیالہ اناج پہ متعہ کا واقعہ لکھا ہے اسے بھی سیرت النبی شبلی نعمانی میں پڑھ سکتے ہیں۔ اسلامی تحریک کی اتنی جلد مقبولیت کی بنیادی وجہ عرب معاشرے میں غربت اور افلاس کا حد سے زیادہ بڑھ جانا تھا۔ ورنہ توحید کا فلسفہ وہاں پہلے سے موجود تھا۔ حوالے کے لئے ایک دفعہ پھر سیرت النبی مولانا شبلی نعمانی ہے۔ پڑھ ڈالیں۔

      Delete
  42. محترمہ بجا فرمایا آپ نے ...
    کے عرب سو سال پہلے تک آدھے ننگے گھومتے ہوں گے .. یا ایک پیالہ پر muta یا کچھ اور واقعات ...

    لیکن جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ .. کیا یہ سب اسلامی تعلیمات ہیں ..یا انکا اثر ہے ...

    آپ بھی کہیں گی کہ نہیں ... تو پھر علما کے نام پر اسلام پر تبرّا بھیجنا بند کریں ....


    دنیا بدل رہی ہے .. اور یہ پہلے دفعہ نہیں ہو رہا یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ...
    لہذا انسان بھی بدل رہا ہے .. جن کی تبدیلی کی رفتار تیز ہے یا وہ اس تبدیلی کے قائد ہیں وہ فائدہ میں ہیں ...

    جو تبدیلی کے اس عمل میں پیچھے رہ گے وہ ناکام ...

    لیکن جو لوگ پیچھے رہ گے وہ کیا کریں ..؟
    سادہ سا جواب ہے .. انکی تقلید جو تبدیلی کے عمل کے قائد ہیں .....

    لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کے کس چیز کی تقلید کریں ...؟
    ظاہر سی بات ہے اس بات کی جس میں وہ آگے ہیں ...

    یہاں پرابلم یہ آتی ہیں کہ جو لوگ کم نظر ہیں یا ظاہر کو دیکھتے ہیں اصل روح کو بھول جاتے ہیں ...
    وہ کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ جیسے لوگوں کا رہن سہن اپنا لو ترققی کر لو گے ...

    کیا جن لوگوں نے ترقی کی انہوں نے اس لئے ترقی کی کہ وہ جینز پہنتے تھے .. یا انکی عورتیں سکرٹ ...
    جی نہیں ترقی لباس کی محتاج نہیں ہے ...

    حل کیا ہے ؟

    حل سادہ سا ہے کہ

    وہ علم سیکھو ترقی یافتہ اقوام سے جس کی وجہ سے وہ آگے ہیں ...

    اب اگر کوئی یہ سمجھے کے حجاب اتار دینے سے مسلمان ترقی کر لے گا ... یا جینز پہن لینے سے تو یہ اس کی کم فہمی ہے ..
    مغرب کا ہمیں کلچر نہیں بلکہ انکا وہ علم سیکھنا چاہیے جس میں وہ آگے ہیں یعنی ٹیکنالوجی ...

    اور اس معاملہ میں لبرل (نام نہاد لبرل ) اور تنگ نظر (جن کو آپ نے مللے فرمایا ) برابر ہیں ....
    لبرل کے نزدیک سب سے بڑا پرابلم عورت کا پردہ ہے اور اسلام ہے
    تنگ نظر کے نزدیک وہ علم اسکا حل ہیں جو انکے پرانے وقتوں کے لوگوں نے بناے (جن پر درس نظامی مبنی ہے )

    اور اس معاملے میں دونوں ہی برابر کے غلط ہیں ...نہ کپڑے اتار دینے سے کوئی ترقی کرتاہے

    اور نہ ہی زیادہ کپڑے پہن لینے سے ...

    ReplyDelete
  43. ہم بس یہ کہہ رہے ہیں کہ حجاب یا پردے کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے وہ قطعاً وہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر وہ ہوتی تو اسلامی تعلیمات کا کوئ بھی اثر نہ ہوا۔ یعنی کہ عہد نبوی میں ہی یہ اثر سے خالی تھیں۔ یہ خیال تو درست نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اگر ایسا ہی حجاب ہے تو یہ امراء کے لئے ہوا اور غرباء کے لئے نہیں۔ کیا اسلام لباس کے ذریعے یہی تفریق چاہتا تھا۔ تاکہ امیر اور غریب عورتیں الگ ہو جائیں؟ کیا اسلمی تعلیمات پہ عمل کرنے سے معاشرے سے غربت بالکل ختم ہوجائے گی؟
    اسلام جیسے آفاقی مذہب کے قوانین آفاقی ہونے چایہئیں کہ نہیں؟
    میرے جیسے لبرل کے نزدیک پردہ مسئلہ نہیں ہے لبرل کے نزدیک پردے کو فرض عین قرار دینا مسئلہ ہے جس کے بعد خواتین سے آہستہ آہستہ انکے انسان ہونے کا حق چھینا جاتا ہے اور اس طرح اس کائیننات کو صرف مردوں کے لئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اسلام تو میانہ روی کا داعی ہے لیکن لباس کےمعاملے میں کُچھ عورتوں نے دو انتہاہوں کو اپنا یا ہُوا ہے ۔۔۔ممکن ہے ایک انتہا (پردہ) معاشرتی دباؤ کا نتیجہ ہو، لیکن دوسری انتہا (ننگا پن) تو عورت نے خود اپنی مرضی سے اپنایا ہے ۔۔۔
      خواتین کو اس بات کا خود خیال رکھنا چاہئیے کہ نہ خود ایسا لباس پہنیں نہ بیٹیوں کو ایسا لباس پہنے دیں کہ گھر کے محرم مردوں کو اپنی نگاہیں اِدھر اُدھر کرنی پڑیں۔۔۔۔۔
      یہ مشورہ کسی مولوی / مولانا کا نہیں بلکہ آپ ہی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک روشن خیال شخص کا ہے : حوالہ کے لیئے ملاحظہ ہو : http://universe-zeeno.blogspot.com/2012/06/blog-post.html
      ویسے آپ کی کیا رائے ہے ہندوستان سے آنے والی اس خبر کے متعلق : http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2012/05/120509_haryana_women_ka.shtml

      Delete
    2. پاکستان میں کتنے فی صد خواتین ننگی نظر آتی ہیں؟
      اسکی تعداد کوئ بتانا پسند کرے گا اسکے بر عکس مغرب میں اقیک بڑی تعداد میں خواتین نیم برہنہ حالت میں گھومتی پھرتی ہیں۔
      مجھے اپنے قبیلے کے روشن خیال فرد کی ہاں میں ہاں ملانے کا شوق نہیں۔
      ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کے اوپر لازمی ہو کہ وہ گھر میں بھِ دوپٹہ سر پہ جما کر رکھیں وہاں محرم مرد سر سے دوپٹہ ہٹنے سے ہی بے اپنی نگاہیں ادھر ادھر کرنے لگتا ہے۔ جبکہ یہاں بیشتر گھر ایسے ہیں جہاں خواتین گھروں میں دوپٹہ نہیں پہنتیں اس میں مجھے بھے شامل کر لیں۔ اور محرم مردوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس وقت اوڑھا اور کس وقت نہیں کیونکہ وہ اسکے عادی ہیں۔
      آپ نے جس خبر کا حوالہ دیا ہے وہ مغربی لباس سے بےزاری کے متعلق ہے اس میں خواتین کو ساڑھی پہن کر آنے کا حکم ہے، ساڑھی انڈیئبن روائیتی لباس ہے۔
      ادھر بلوچستان میں ایک عورت نے بتایا کہ انکے مرد انہیں شلوار قمیض نہیں پہننے دیت وہ کہتے ہیں کہ بلوچی لباس پہنو یہ زیادہ اچھا ہے۔ خواتین کے لباس پہ مرد اور معاشرے کی اتنی اجارہ داری ہے۔ آپکے خیال میں کیا بلوچی لباس زیادہ حیادار ہے اور شلوار قمیض بے حیا لباس ہے۔

      Delete
    3. جسم کو ڈھانپنے کا حکم اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ آپ اپنے ارد گرد سے الگ نہ دکھائی دیں۔ اب اگر مغرب میں آپ پورا برقعہ پہن کر پھریں گے تو ہر بندے نے آپ کو گھور گھور کر دیکھنا ہے۔ اگر آپ نارمل کپڑے پہن کر اپنا جسم ڈھک دیں تو شاید ہی کوئی نظر ڈالے۔ مشرق میں الگ لباس ہے اور مغرب میں الگ۔ لیکن جہاں جسم کو ڈھکنا مقصود ہو تو وہ بہتر ہے اور جہاں جسم کی یا بندے کی نمائش مقصود ہو تو وہ غلط :) باقی کسی بھی جمعے کے روز جمعہ کے خطبہ سے قبل مولوی صاحب کی تقریر سن لیں تو اسلام سے توبہ کرنے کا خیال ایک سے زیادہ بار آ ئے گا کہ یہ مولوی نامحرم عورتوں کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے

      Delete
  44. تو محترمہ یہی تو پرابلم ہے ...
    آپ اپنی سمجھ سے یہ نہیں کہ رہیں .. بلکہ یہ الفاظ آپکے منہ میں کوئی اور ڈال رہا ہے ...

    جسے آپ دہرا رہی ہیں ...
    اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے یا خاص طور پر پاکستانیوں کو ترقی کرنی ہے ...
    تو یہ وہ وجوہات نہیں ہیں جو اسکو ترقی کرنے سے روک رہی ہیں ...

    یہ صرف وہ مسائل ہیں جن میں ہمارے دشمن ہمیں الجھا تے ہیں .. صحیح راہ سے ہٹانے کے لئے ...(کم از کم یہ بنیادی وجوہات نہیں ہیں .. بلکہ فروعات ہیں )

    سری لنکا میں حجاب نہیں ہے .. آپ یا آپکے لبرل فاشسٹ دانشور بتائیں وہ کیوں ترقی نہیں کر رہے ....

    آپ جیسے لوگ ہیں جو مرض کی صحیح تشخیص نہیں کرنے دیتے ... تاکہ مریض صحیح نہ ہو جاۓ...

    آپ کو شاید خود نہیں پتا کے آپ آلہ کار بن رہی ہیں .. صحیح مرض کی تشخیص نہ ہونے دی جاۓ بلکہ فروعات میں الجھا دیا جاۓ ...

    حجاب ہمارا اولین پرابلم نہیں ہیں بلکہ کچھ اور ہیں ... جس میں غیر منصفانہ نظام سے لے کر .. غیر مساوات ... اور تعلیمی نظام سب شامل ہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. اچھا تو آپ پہ کشف بھی ہوتا ہے کہ کس مکے منہ میں کون الفاظ ڈال رہا ہے۔ مجھے بھِ ہوتا ہے مجھے بھی معلوم ہے کہ آپکے منہ میں یہ الفاظ کس نے ڈالے ہیں۔
      آپ نے سری لنکا کی تعلیمی شرح دیکھی ہے یا آپ یہ جانتے ہیں کہ سری لنکا جیسا چھوٹا سا ملک بیس سال تک اندرونی خانہ جنگی کا شکار رہا پھر بھی بقاء کے مرحلے سے گذرا ہے۔
      ایک اہم نکتہ جو آُ بھول رہے ہیں وہ یہ کہ یہ ایک ملک کی داستان نہیں ہے یہ پوری اسلامی دنیا کی داستان ہے۔ اور صرف پچھلے بیس تیس سال کی نہیں ڈیڑھ ہزار سال کی داستان ہے جس میں مسلمان خواتین کو حجاب کے نام ایک دم ختم کر دیا گیا ہے اور یوں پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں مسلمان جو کہ دنیا کی آبادی کا ایک برا حصہ ہیں اور عیسائیت کے بعد اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب قرار پاتا ہے اسکی خواتین اس دنیا میں اپنا کوئ عملی کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ یہی نہیں مسلمان من حیث القیوم ایک تنزلی کی جانب گامزن قوم رہی ہے۔
      اس لئے اسکی وجوہات وہ نہیں جو آُکے منہ میں کوئ ڈال رہا ہے۔
      حقیقت یہ ہے کہ قومیں ماءوں سے بنتی ہیں۔ جب ماں کو شرم کے نام پہ بزدل، حیاء کے نام پہ کند ذہن اور حجاب کے نام پہ قیدی بنائیں گے تو قومیں بھی بزدل، کند ذہن اور قیدی بنیں گی۔ قومیں عورت کی گود میں وجود پاتی ہیں۔
      محض حجاب نہیں بلکہ اس کی وجہ سے ایک کاتون کو دیگر فروعات میں الجھا دیا جاتا ہے جسکا اصل مسائل سے تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن حجاب کے فلسفے کو غلط طور اختیار کرنے کی وجہ سے ایک خاتون ڈاکٹر ہو کر پریکٹس نہیں کرتی اور اس پہ فخر کرتی ہے۔ جبکہ ایک حجاب نہ کرنے والی عورت ایسا کرے تو لوگ لازماً اسے احساس دلائیں گے اور وہ ذہنی طور پہ اسے برا سمجھنے پہ مجبور ہوتی ہے۔ ایک بغیر حجاب کی ایسی لڑکی کو ہم کہیں گے کہ اچھا تو میڈیکل اسی لئے پڑھا تھا کہ اچھی جگہ شادی ہوجائے تو وہ کھسیا کر ہنس دے گی لیکن ایک حجاب والی خاتون کو کہئیے اور پھر وہ گنوانا شروع کرے دی کہ یہ کس قدر نیکی کا کام ہے جو اس نے کیا اور کیسے ایک مسلمان عورت کی سب سے پہلی ذمہ داری حجاب میں رہنا اور گھر میں رہنا ہے۔ مخاطب کے اوپر مذہب کا وہ ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ میڈیکل کالجز میں کوٹے پہ نشستیں کر کے لڑکوں کی نشستیں زیادہ کی جائیں۔
      کیا آپکو میری باتیں سمجھ میں آرہی ہے۔
      سو یہ حجاب کسی عورت کے لئے ضروری نہیں، جو اپنےمخصوص مردوں کو خوش رکھنا چاہتی ہوں کریں جس میں ہمت ہے کہ اسے بدل ڈالے وہ نہ کرے۔ حجاب کسی عورت کی نیکی اور بدی کا کوئ پیمانہ نہیں۔ حجاب کسی معاشرے کی ترقی کا باعث نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہاں کی اخلاقی حالت میں کوئ سدھار لا سکتا ہے۔ حجاب ایک مذہبی علامت ضرور ہو سکتا ہے لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اٹھانوے فی صد مسلمان ہو اسکی ضرورت بھی نہیں رہتی۔
      اس لئے مسلمان مرد اور عورت کو اس کی تبلیغ میں وقت گذارنے کے بجائے معاشرے میں تعلیم اور آگہی کو پھیلانے میں وقت صرف کرنا چاہئیے۔

      Delete
  45. آپ کا انداز تحریر اچھا ہے لیکن اس طرح کے موضوعات پر گفتگو ریت پر پانی بہانا ہے۔ اگر مولوی سچ مچ میں "مولبی" ہوا تو اس نے نیٹ پر آنا نہیں۔ اگر وہ مولوی ہے تو بھی اس تحریر کو اس نے مذہب کے انکار کے ضمن میں لینا ہے اور کچھ بھی نہیں کیونکہ جس بحث کا آغاز ان کے خیال میں ان کے خلاف ہو رہا ہے تو اسے انہوں نے جاری رکھ کر ہار تو نہیں ماننی۔ آپ مسائل کی نشاندہی کے علاوہ اگر ان کے حل کے سلسلے میں بھی کچھ بتاتی جایا کریں تو عام فہم لوگ کم از کم عام روٹین کی باتیں پوچھنے کے لئے مولوی کا سہارا لینے سے بچیں گے

    ReplyDelete
  46. آپ کی تحاریر پڑھ کر بس اتنا انداذہ ہوتا ہے کہ اسلام کے حوالے سے آپ کی معلومات انتہائی ناقص ہیں۔آپ نے پر بات میں اپنی مرضی کا مطلب اخذ کیا ہے ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ الزام لگانے والے مقام ناقص معلومات کی نشاندہی کرنے سے کیوں قاصر رہتے ہیں؟
      یہ بات تو میں آپ جیسے مذہب پرستوں کے لئے بھی کہہ سکتی ہوں کہ آپ ہر بات میں اپنی مرضی کا مطلب اخذ کرتے ہیں۔

      Delete
  47. جب قرآن و حدیث میں عورتوں کے لئے حجاب کاحکم ہے تو بس ہے اس میں کسی قسم کی بحث کی ضرورت نہیں ہے محترمہ انیقہ اہ حجاب نہیں لیتیں نہ لیں مگر اس کا مزاق مت اڈائی؎ں جو کہ اپ کی تحاریر کا خاصہ ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. قرآن میں کس جگہ اس پردے کا حکم ہے جو آجکل بیان کیا جاتا ہے۔ابھی ایک دو روز پہلے ہی جامعہ االازہر کے ایک عالم نے نے سر ڈھکنے کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔
      http://www.al-monitor.com/pulse/culture/2012/07/al-azhar-islam-did-not-impose-th.html
      محترم اس میں بحث کی ضرورت ہے جبھی یونیورسٹی نے ان کا یہ موضوع تحقیق کے لئے منظور کیا اور اس پہ انہیں ڈگری عنایت فرمائ ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ