Tuesday, May 29, 2012

عدم کا وجود

بچوں کے سوالات کا سلسلہ جب شروع ہوتا ہے تو وہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ وہ کیسے والدین کے پاس آئے۔ والدین کی اکثریت بچوں کے سادہ ذہن کو ایک سادہ سا جواب دیتی ہے کہ کسطرح کوئ فرشتہ یا پری انہیں ایک تحفے کی صورت پہنچا گیا۔  میری بیٹی نے ایک دن میری معلومات میں یوں اضافہ کیا ، آپ کو پتہ ہے ماما، کچھ بچوں کو نرس بھی لے کر آتی ہیں اور ایسی صورت میں ماما کو ہسپتال میں ہونا پڑتا ہے کیونکہ نرس ہسپتال میں ہی ہوتی ہے۔ جب میں نے اس معلومات کا ذریعہ دریافت کیا تو انہوں نے مجھے ٹی وی کا ایک اشتہار دکھایا۔ جس میں ایک نرس ایک چھوٹا سا بچہ لے کر آتی ہے۔  ٹی وی والدین کی بہت ساری مشکلوں کو اس طرح آسان بھی کرتا ہے۔
میں آپ سے کوئ ایسا مشکل سوال نہیں کرنے جارہی۔ یہ ایک بالکل آسان سا سوال ہے  اور یہ میرے ذہن کی پیداوار بھی نہیں ہے۔ بلکہ اسے میں نے جس ویڈیو سے اٹھایا ہے وہ بھی ساتھ میں موجود ہے۔
سوال یہ تھا کہ درخت کہاں سے اپنا وجود حاصل کرتے ہیں۔ 
ابتداً لوگوں نے کہا زمین سے غذائیت لیتے ہیں، زمین کی مٹی استعمال کرتے ہیں اور اس طرح بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن سوال کرنے والے نے ایک سائینسداں کا حوالہ دیا جس نے ایک ایک بیج لگایا ، مٹی کو تول لیا اور پھر پانچ سال تک اس پودے کی دیکھ بھال کی اس طرح کہ مٹی بالکل بھی ضائع نہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سال بعد مٹی کے وزن میں ساٹھ گرام کی کمی واقع ہوئ جبکہ پودے نے ستر کلو گرام وزن حاصل کیا۔ پس ثابت ہوا کہ مٹی سے پودا جسامت حاصل نہیں کرتا۔
پھر لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ پانی کی وجہ سے ہے۔ محض پانی سے مادہ نہیں بن سکتا۔ اس کے بعد یہ کہا گیا کہ  سورج کی روشنی کی توانائ مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ آکسیجن کا اس سے کوئ تعلق ہے شاید، کچھ نے اس خدشے کا اظہار کیا۔
لیکن نہیں، پودوں کو بڑھنے کے لئے ایک چیز اور بھی چاہئیے ہوتی ہے اور وہ ہے کاربن ڈائ آکسائیڈ۔ پودے سورج کی روشنی کی موجودگی میں  کاربن ڈائ آکسائیڈ سے اپنی غذا تیار کرتے ہیں، یہ عمل فوٹو سنتھیسزیعنی شعاعی ترکیب کہلاتا ہے۔ اس طرح وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جسامت حاصل کرتے ہیں۔ ادھر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم، انسان سانس کے ذریعے کاربن ڈائ آکسائیڈ خارج کرتے ہیں یوں ہمارے اندر جو کمی واقع ہوتی ہے وہ پودے کی بڑھوتری کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
۔
۔
۔
بس ایسے آہستہ آہستہ ہم درخت بن جاتے ہیں۔ ایک پرانا مشاہدہ، الفاظ کے چاک پہ نئ صورت ابھرتا ہے۔
اس خیال پہ مبنی یہ دلچسپ ویڈیو دیکھنا نہ بھولئیے گا۔

6 comments:

  1. اس مضمون میں دیئے گئے بنیادی پیغام سے سخت نااتفاق کرنے کے باوجود بھی میرے خیال میں اس پر مباحثہ کرنا ویسا ہی ہے جیسا کہ اس سوال پر کہ " پہلے مرغی آئی تھی کہ انڈا"، سو آپ خوش رہیئے اپنی فضولیات میں، اور میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں کہ اللہ کے دیئے گئے قطعی علم یعنی قرآن کی واضح تعلیمات کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے انسانوں کے ظنی علم کے نتائج پر مباحثہ کروں۔ وسلام

    ReplyDelete
    Replies
    1. جب خدا کا دیا ہوا قطعی علم آپکے پاس ہے تو پھر وقت کی کیا قلت۔ یہ فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا۔ وقت کی قلت تو اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئ قطعی چیز پلے نہیں ہوتی اور انسان ہٹ اینڈ ٹرائل میں وقت لگاتا ہے۔ میرے خیال سے تو آپکے پاس وقت کی بہتات ہونی چاہئیے اور انسانوں کے ظنی علم کے نتائج کو خوب رگڑا لگانا چاہئیے۔ وعلیکم السلام۔

      Delete
  2. بس جی انہی عناصر کی ترکیب ہے ، جو ہر زندہ مردہ وجود کو ترتیب اور ہیت دے رہی ہے۔
    آپ صرف درخت ہی نہیں ، بلکہ آپ دوسرے انسان بھی ہیں۔
    یہ آواگون کا نظریہ کافی محدود نہیں تھا ؟
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے درست فرمایا ہم دوسرے انسان بھی ہیں۔ مثلاً ہم فرعون بھی ہیں اور ہم موسی بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں ہم عورت بھی ہیں اور مرد بھی۔ ہم کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔ لیکن اس سے بڑے مسائل پیدا ہونگے۔ دوسرا انسان ہونے کے مقابلے میں ایک درخت ہونا کافی دلچسپ لگتا ہے۔
      ہمم، یہ آواگون کا نظریہ تو نہیں لگتا۔
      سائینس کہتی ہے انسان دراصل ان اجزاء سے بنا ہے جنہوں نے ستاروں میں جنم لیا اس طرح ہم ستارے بھی ہیں۔ اور یہ آواگون نہیں ہے حقیقت ہے۔
      اچھا چلیں ایک قانون ہمیں سائینس میں پڑھایا جاتا ہے اس کے تحت مادہ نہ فنا کیا جا سکتا ہے نہ پیدا کیا جا سکتا ہے مادہ صرف اپنی شکل تبدیل کرتا ہے۔ اسے لا آف کنزرویشن آف میٹر کہتے ہیں۔ یہ بھی آواگون نہیں ہے۔
      آواگون میں ایک انسان کسی دوسرے وجود میں جنم لیتا ہے اور اس دوسرے عمل میں انسان دراصل لامحدود وجودوں میں بٹ جاتا ہے۔

      Delete
    2. یہ لنک ڈالنا بھول گئ تھی۔
      http://www.lifeslittlemysteries.com/864-humans-really-made-stars.html

      Delete
  3. جی ہاں ، کل کائنات کا مادہ تخلیق وہ اولین سنگولیرٹی ہی تھی۔ یہ وہی سنگولیرٹی ہے جو ارتقاء اور تغیرت سے گذرتے ہوئے ہرطرف ان مختلف حالتوں میں ہے۔
    اس لحاظ سے مچھر ، مچھلی ، پتا ، پہاڑ ، ستارہ ، سیارہ سب ہمارے کزنز ہی ہیں۔
    آواگون تو محض ایک مذہبی عقیدہ ہے۔ اتنا ہی محدود ہو سکتا تھا جتنا کہ مذہب میں عقل۔ جبکہ ادھر ہر وجود کسی نہ کسی طور دوسرے وجودوں میں ڈھلتا ہے۔
    اوپر آواگون پر فقرہ مذہبی توجیہات کی غربت پہ تھا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ