Tuesday, June 5, 2012

حتی کہ جانور بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب انسان ، جبر سے گھبرا جاتا ہے تو علامتوں کا سہارا لیتا ہے۔ یہ علامتیں جانوروں سے لے کر مظاہر قدرت، کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان میں معنوں کا ایک جہاں بند ہوتا ہے۔ 
جبر کے زمانے میں یہ عام ہے لیکن آزادی کے زمانے میں یہ علامتیں تخیل کی اڑان بن جاتی ہیں جیسے بچوں کو ایسی کہانیاں سنانا جن میں جانوروں کو کردار بنا کر اخلاقی نصیحتیں منتقل کی جاتی ہے۔ اور بچے  بالکل حیران نہیں ہوتے کہ جانوروں کی مائیں بھی انہیں چیزیں گم کرنے پہ ڈانٹتی ہیں۔ انہیں بھی اسکول جانا پڑتا ہے، ریچھ بھی چوری کر کے شہد کھاتا ہے، کوے کو چڑیا اپنے گھونسلے سے جلتی ہوئ لکڑی مار کر بھگا دیتی ہے، لومڑی کیسے چالاکی سے شیر کو کنوئیں میں گرا دیتی ہے اور کچھوا ، خرگوش سے کیسے جیت جاتا ہے۔ بچوں کو یہ کہانیاں اسی لئے پسند ہوتی ہیں۔ یہ سوچنے کے لئے کہ  حتی کہ جانور بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حتی کہ جانور بھی، یہ جملہ بچپن کی حدوں میں ہی گونجتا نہیں رہ جاتا بڑے بھی بعض اوقات یہ سوچتے ہیں  اور پھر تحقیق بھی کرتے ہیں کہ وہ کیا افعال ہیں جن میں جانور انسانوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔  اس طرح سے وہ انسانوں میں اخلاقیات کا ارتقاء تلاش کرتے ہیں۔
میرے بچپن میں پڑوسن نے مرغیاں پالی ہوئ تھیں اور فرصت میں وہ پوری تفصیل سے بتاتیں کہ ان مرغیوں کا آپس میں کیا تعلق یا رشتہ بنتا ہے۔ کون کس کی پھوپھی اور چاچی ہے۔ اس سے مجھے تسلی رہتی کہ دنیا میں دراصل وہی نظام جاری ساری ہے جو ہم انسانوں میں ہے یہ وحدت کا احساس بچوں کو ماحول سے جڑا رکھنا میں بڑا کار آمد ہوتا۔ اور پھر وقت کے ساتھ کایا کلپ ہوتی ہے اور تمام بنیادی احساسات کی جگہ کس طرح حقیقتیں اپنا حصہ بنا لیتی ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی لگتی ہے۔
 بعض مذاہب جو جنموں کی کہانی سناتے ہیں، ان میں یہ تصور تک بھی ہے کہ انسان اپنے اعمال کی بنیاد پہ اگلے جنم میں کسی جانور کے روپ میں بھی آ سکتا ہے۔ اعمال کو ہم ایک طرف رکھ دیتے ہیں اگر ہم اپنی موجودہ خصوصیات کی بناء پہ کسی جانور سے اپنی مماثلت جاننا چاہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کھیل کھیلیں۔ بس کھیل ہی ہے عقیدے کی جنگ لڑنے نہ بیٹھ جائیے گا۔  

ہم سوچتے ہیں کہ کیا جانوروں کے خاندان ہوتے ہیں؟
جی ہاں بعض جانور اپنا پورا سماجی ڈھانچہ رکھتے ہیں۔ مثلاً ڈولفنز کے بچوں کی دیکھ بھال تین چار مادائیں مل کر کرتی ہیں اور وہ ماں کی مددگار ہوتی ہیں ایسے ہی جیسے انسانوں میں مشترکہ خاندانی نظام میں ہوتا ہے بلکہ نانیاں اور خالائیں بھی اس عمل میں حصہ لیتی ہیں۔ حتی کہ گاءوں دیہاتوں میں محلے دار خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ ہاتھی کے بچوں کو بھی سب ہاتھی مل جل کر سنبھالتے ہیں۔ 
چیونٹی اور شہد کی مکھی تو اس سلسلے میں مثالی منظم معاشرہ رکھتی ہیں کہ ہر ایک کو اپنے فرائض پتہ ہوتے ہیں۔ ان دونوں جنسوں کے معاشرے کی سب سے لاڈلی رکن عام طور پہ  ملکہ ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کی ملکہ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کن انڈوں کو سہے گی۔ فرٹیلائزڈ انڈوں سے مادہ مکھیاں پیدا ہوتی ہیں اور غیر فرٹیلائزڈ انڈوں سے نر پیدا ہوتے ہیں۔ نر کا سوائے ملاپ کرنے کے اور کوئ کام نہیں ہوتا۔  نر مکھیاں ملاپ کے فوراً بعد مر جاتی ہیں۔ ملکہ انڈے دینے کا فرض سنبھالتی ہے اور باقی مادہ مکھیاں شہد بنانے اور چھتے کو محفوظ رکھنے کا کام انجام دیتی ہیں۔ اس طرح چھتے کا کنٹرول مادہ مکھیوں کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ اور یوں یہ ایک مدر سری نظام قرار پاتا ہے۔
جانوروں کو خوش ہوتے تو دیکھا ہی ہوگا۔ جب وہ چہچہاتے ہیں، گاتے ہیں یا اچھلتے کودتے ہیں ایکدوسرے کو کریال کرتے ہیں۔ لیکن کیا جانور اداس بھی ہوتے ہیں۔  جانور بھی اس مشکل سے دوچار ہوتے ہیں بالخصوص جب انکا قریبی ساتھی نہ رہے یا انکا پالنے والا گذر جائے۔  بعض اوقات وہ اتنے اداس ہوتے ہیں کہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ حتی کہ جاں سے گذر جاتے ہیں۔
 پرندوں کا گانا گاتے تو سب ہی نے سنا ہوگا، اپنی مادہ کو لبھانے کے لئے وہ تان سین بن جاتے ہیں۔ حتی کہ سمندر کی تہوں میں ڈولفنز اور سمندر ہی میں دنیا کا سب سے بڑا ممالیہ جانور وہیل بھی گیت گاتا ہے۔ بعض جانور تو حتی کہ انسانوں کی  موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جی ہاں مارمو سیٹ بندر اور پانڈا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی میں تبدیلی کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں۔

انسانی طرز زندگی تیزی سے تبدیل ہو چلا ہے سو اب یوگا کرتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جانور یوگا کرتے ہیں؟ کچھ منچلوں کا خیال ہے کہ جانور بھی یوگا کرتے ہیں اس کے لئے انہوں نے کچھ تصویری ثبوت اکٹھا کئے ہیں۔ میں تو یہ تصاویر دیکھ کر یہ سوچتی ہوں کہ کہیں انسانوں نے جانوروں سے تو یوگا نہیں سیکھا۔ کیونکہ یوگا کی تاریخ خاصی قدیم ہے اتنی ہی جتنی ان مذاہب کی جو الہامی نہیں بلکہ مظاہر قدرت سے مسحور ہونے والے انسانوں نے انہیں جنم دیا۔

 کیا جانوروں میں بھی روشن خیال اور روایت پسند جانور ہوتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ نظریاتی فرق ان میں بھی پیدا ہو چلا ہے مثلاً  گائے، اونٹ اور بکری اب تک انہی روایات پہ قائم ہیں البتہ یہ کہ انہوں نے دوسرے جانوروں کو اس قسم کی تبلیغ نہیں شروع کی کہ کولہو کا بیل بنے رہنا عین منصب حیوانی ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ انکی پہنچ فیس بک تک آسان نہیں۔ انسان انہیں اتنا پسماندہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کمپیوٹر کے پاس انہیں پھٹکنے نہیں دیتے۔ مرغی کی روایت پسندی نیچے دی گئ تصویر سے واضح ہے کہ سرتاج کرسی پہ بیٹھے ہیں اور وہ اپنی محبت کا ثبوت اپنے دئے گئے انڈوں کی صورت پیش کر رہی ہے۔

 انکے مقابلے میں بندروں اور ہاتھیوں میں کچھ روشن خیالی پیدا ہوئ ہے۔ ہاتھی تو اب مصوری تک کرنے لگے ہیں جبکہ بندر  سائینسدانوں کے ساتھ تحقیق میں مصروف  ہے۔ چونکہ پردہ اور خواتین کی تعلیم ان کا مسئلہ کبھی نہیں رہے اور ہم اس سے ناواقف ہیں کہ انکے یہاں مشرق اور مغرب کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں یا نہیں اس لئے انکی روشن خیالی کے بس یہی معیار نکالے جا سکتے ہیں۔


کیا  جانوروں نے کوئ اخلاقی ترقی کی ہے یا بس انسانوں کی طرح سلسلہء روزوشب میں ہی الجھے ہوئے ہیں؟ بعض عیسائ مبلیغین یقین رکھتے ہیں کہ جانوروں کی بھی روحیں ہوتی ہیں اور انکے لئے بھی ایک جنت ہوگی۔  انکے یقین کی بنیاد ان جانوروں پہ قائم ہے جو ذہین ہوتے ہیں اور اپنی ذہانت کو اپنے مالک کے لے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ کتّا۔  ہمارے مبلغین تک شاید  یہ خیال ابھی پہنچا نہیں ہے لیکن پہنچ جائے تو وہ کس جانور کو جنت میں پہنچائیں گے؟
میں اس خیال کے حامیوں میں سے نہیں ہوں۔ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو پھر جناتی مسائل  اٹھ کھڑے ہونگے۔ میرا محتاط خیال ہے کہ اس خیال پہ مجھے بھٹکا ہوا نہیں کہا جائے گا۔ جانوروں کا رد عمل جاننے کی ضرورت نہیں۔ انکا تعلیم کا بجٹ سرے سے رکھا ہی نہیں جاتا۔ 
جانوروں کو احتیاط سے سڑک پار کرتے ہوئے تو اکثر دیکھا ہی ہوگا کہ کیسے پہلے دائیں  دیکھتے ہیں پھر دائیں دیکھتے ہیں  تیزی سے بھاگتے ہوئے روڈ پار کرتے ہیں اور بچ جائیں تو بائیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور پھر منہ اٹھا کر بائیں کو ہی چل دیتے ہیں۔ اللہ تیرا لاکھ شکر ہے لاکھوں جانیاں پائیاں مار سکے نہ کوئ۔ 
کیا جانور ٹیکنالوجی کی ترقی سے متائثر ہوئے ہیں۔ جی ہاں اس کا ثبوت وہ کتیا ہے جو خلاء میں بھیجی گئ یہ جانچنے کے لئے کہ کیا انسان خلاء میں سفر کر سکتا ہے۔  لائیکا نامی یہ کتیا خلاء میں سفر کے آغاز کے چند ہی گھنٹے بعد مر گئ۔ لیکن انسان کے خلاء میں جانے کے لئے راستہ کھول گئ۔ حالانکہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور پھر ہم اس خلاء سے گذر کر ہی آسمانوں تک پہنچیں گے لیکن انسان نجانے کیوں ہوس کا مارا ہے کہ غیب کو غائب ہو کر نہیں دیکھنا چاہتا۔ بہر حال لائیکا اپنے پیچھے  ایک بار پھر یہ سوال چھوڑ گئ کہ کیا جانوروں کے لئے کوئ جنت ہونی چاہئیے؟
  کیا  انٹر نیٹ  ان کے لئے بھی تبدیلی کا باعث بنا ہے؟ جی ہاں حتی کہ جانور بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:) 




نوٹ نمبر ایک: یہ تحریر قطعی بھی ایک علامتی تحریر نہیں ہے۔ اس لئے کوئ انسان کسی بھی قسم کے دل آزار معنی اخذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اپنی دل آزاری کی صورت میں وہ خود ذمہ دار ہونگے۔

نوٹ نمبر دو: اگر اس تحریر سے کسی جانور کی دل آزاری ہوتی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہئیے کہ یہ سب انسانوں کے لئے لکھا گیا ہے اور اسکے پڑھنے کے لئے نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ہی لاحول ولا قوت۔ حتی کہ جانور بھی بلاگ پڑھنے لگے ہیں۔

12 comments:

  1. Aniqa,
    A minor quibble. The beehive 'community' is not matriarchal in the sense that the queen governs or directs the operations of the workers. The queen bee just stands out as being a, sometimes unique, reproductively active member.

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپکی بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن نر مکھیوں کا کام بھی نسل آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور وہ چھتے میں بڑی محدود تعداد میں ہوتی ہیں۔ باقی مکھیان در اصل ملکہ مکھی کی خدمت کرتی ہیں۔ اسی کو رائل جیلی کھلائ جاتی ہے۔ اگر وہ مر جائے تو دوسری ملکہ مکھی کو نامزد ہوتے ہی غذا کی تبدیلی سے گذرنا پڑتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ایک چھتہ اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب ایک ملکہ مکھی موجود ہو۔ اس طرح سے وہ چھتے کی سربراہ ٹہرتی ہے۔

      Delete
    2. I still think that it's a stretch.

      One, you are foisting a complex, anthropological, hierarchical
      construct(matriarchy) on the unassuming bees. There is no hierarchy here. By the way, I guess you also make this point in your post and observe that how easily children seem to accept such category errors.


      Two, just because the queen is waited upon does not mean that queen is the 'governing head'. In many pre-modern human societies some girl-children were chosen, fed, pampered,waited upon etc. just to be sacrificed as they turned into adults, ostensibly to appease some deity. So pampering does not equate with high status, even in humans. Also, the hive 'community' cannot exist without other members too, though the queen may be unique.

      My point was that the queen doesn't govern the workers or the hive. The workers don't serve at the pleasure of the queen. The queen can't even ask the workers to kill the extra queen. The term 'queen' may be misleading here. On the other hand, your general point about matriarchies in the animal kingdom may be valid for more complex animals, especially some
      mammals but not, in my opinion, for bees.

      Delete
    3. عمیر اس موضوع میں آپکی دلچسپی کا بے حد شکریہ۔ کیونکہ آپکی وجہ سے میں نے شہد کی مکھیوں کو غور سے پھر پڑھا۔ تحریر میں آپ کے تبصرے کی وجہ سے تبدیلی کی ہے۔ اسے پڑھ کر ایک دفعہ پھر اپنی رائے سے نوازئیے گا۔ شکریہ

      Delete
    4. I appreciate you taking the time to modify the post to address my concerns. I didn't know that the 'workers' are sterile females.

      Delete
  2. Bahot khoob likha hi janab... shabash

    ReplyDelete
  3. جی ہاں جانور بھی ۔۔۔
    مزید کے لیئے ادھر جائیے۔
    http://networkedblogs.com/yfPbn

    ReplyDelete
  4. اپنے ڈوگی کے بارے میں بھی تو کچھ شئیر کیجیے نا۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. چلیں یہ فرمائش نوٹ کر لی گئ ہے۔ اب ڈوگی سے کہنا پڑے گا تمیز سے رہو تمہارے اوپر کچھ لکھنا ہے۔

      Delete
  5. اوجی ڈوگی کے بارے میں لکھنا ہے۔ ڈوگی کے اوپر نہیں۔
    اور ہاں ، تصویر بھی۔

    ReplyDelete
  6. چلیں ایک مشکل سے نکالا تو دوسری میں ڈال دیا۔ اسے بھوں بھوں کے سوا کچھ کرنا نہیں آتا۔ وہ بھی جن سے ناراض ہو۔ ہمارے سامنے تو وہ بھی نہیں کرتا۔ بس جو کچھ بھی اس کے بارے میں لکھیں گے ہمارا ہی حسن بیاں ہوگا۔ تصویر،، ہاں کیوں نہیں نر کتا ہے، وہ بھی سنگل، اسکی تصویر میں تو کوئ قباحت نہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ