Wednesday, June 13, 2012

اعلی میں گھٹالا


یہ واقعہ مشہورطبیعیات داں نیلز بوہر سے منسلک کیا جاتا ہے۔ نیلز بوہر پچھلی صدی کے عظیم سائینسدانوں میں سے ایک تھا۔ اپنی سائینسی خدمات کے سلسلے میں انہیں فزکس کے میدان میں نوبل پرائز بھی ملا۔ قسمت کا ایسا دھنی نکلا کہ اسکے چھ بیٹوں میں سے ایک کو نوبل پرائز ملا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس کے بیٹے کے نوبل پرائز کا اسکی قسمت سے کیا تعلق۔ مجھے بھی نہیں معلوم، میں نے تو اپنے معاشرتی چلن میں یہ لکھا ہے۔
قصہ خواں کہتے ہیں کہ  فزکس کا پرچہ تھا اور ممتحن نے سوال پوچھا کہ ایک بیرو میٹر کی مدد سے کیسے ایک بلند عمارت کی اونچائ ناپی جا سکتی ہے۔ ممتحن نے جس جواب کے لئے سوال پوچھا تھا، وہ یہ تھا کہ بیرو میٹر سے زمین کی سطح پہ دباوء معلوم کیا جائے پھر اس عمارت کی چھت پہ دباءو معلوم کیا جائے اور ان دونوں کے فرق کو ایک فارمولے میں رکھ کر عمارت کی بلندی پتہ چلا لی جائے۔
شاید نیلز بوہر نے اس مہم پسند طالب علم کی طرح سوچا جو اپنی مہم جوئ کا شوق اپنے استاد پہ نکالتا ہے، کیوں نہ ممتحن کو تپایا جائے اور جواب لکھ مارا کہ ایک رسی لے کر اس میں بیرو میٹر باندھ لیا جائے۔ عمارت کی چھت سے اس بیرو میٹر کا زمین تک چھوڑا جائے زمین کی سطح سے چھت تک اس رسی کی لمبائ ناپ لی جائے اور اس میں بیرومیٹر کی اونچائ شامل کر لی جائے۔
ممتحن اتنا بھنایا کہ طالب علم کو فیل کر دیا۔  طالب علم نے احتجاج کیا کہ یہ اسکے ساتھ زیادتی ہے۔ کسی غیر جانب دار شخص سے اسکی تحقیقات کرائ جائے۔ ایک  کمیٹی معاملے کی تحقیقات کے لئے بیٹھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جواب تو درست ہے لیکن اس میں فزکس کہیں نہیں ہے۔ لہذا طالب علم کو ایک موقع اور دیا جائے تاکہ وہ فزکس میں اپنی مہارت ثابت کر سکے۔
 طالب علم سے کہا گیا کہ اسکے پاس چھ منٹ ہیں۔ اگر وہ اس کا فزکس کے مطابق جواب دے دے تو اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ ہر حال میں ڈرامہ پیدا کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔  شاید نیلز بوہر کی فطرت میں کچھ ڈرامہ بھی تھا۔ یا شاید ہر سائنسداں تھوڑا بہت ڈرامہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ طالب علم خاموش ہو گیا۔ لیکن گھڑی کی سوئیاں نہیں۔ اس لئے ایک دفعہ پھر اسے یاد کرایا گیا کہ اسکے پاس اب بہت کم وقت ہے۔
 نیلز بوہر نے جواب دیا کہ دراصل اسکے ذہن میں کئ ممکنہ جواب ہیں اور وہ طے کر رہا ہے کہ کسے پہلے بیان کرے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خالی ذہن ہی نہیں بھرا ہوا ذہن بھی شیطان کا چرخہ ہوتا ہے۔ اس چرخے کی مضبوطی دیکھ کر وہ یوں گویا ہوا۔
بیرو میٹر کو عمارت کی چھت پہ لے جا کر وہاں سے نیچے پھینکا جائے۔ چھت سے زمین تک فاصلہ طے کرنے میں جو وقت لگا ہو اسے نوٹ کر کے فارمولہ لگایا جائے تو بلندی معلوم ہو جائے گی۔ البتہ بیرومیٹر کے بچنے کی امید نہیں۔
ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ اگر سورج نکا ہوا ہو تو بیرو میٹر کی اونچائ نوٹ کر کے اسکے سائے کی لمبائ لے لیجئیے پھر عمارت کے سائے کی لمبائ نوٹ کر لیں اسکے بعد تو ایک بالکل سادہ نسبت کے ذریعے عمارت کی اونچائ معلوم کی جا سکتی ہے۔
پھر اس نے اپنا داہنا گال کھجایا، شاید مسکراہٹ چھپانے کے لئے اور بولا
لیکن اگر آپ ایک دم درست لمبائ جاننا چاہتے ہوں تو بیرو میٹر کو ایک رسی کے ذریعے ٹانگ کر اس کا پینڈولم بنا لیں۔ پھر زمین  اور عمارت پہ الگ الگ اسے جھلائیے۔ اور دونوں جگہوں پہ ریسٹورنگ فورس معلوم کر کے فارمولا لگا دیں۔ لیجئیے جناب بلندی معلوم ہو جائے گی۔ 
تمام کمیٹیوں کے ارکان میں ایک بات مشترک ہوتی ہے سب سکون سے ہر ناروا کو بھی روا سمجھ کر سنتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں فیصلے کا اختیار انکے پاس ہے۔ یہ سوچ کرنیلز بوہر نے کہا اگر عمارت میں چھت تک جانے کے لئے ایمرجنسی سیڑھیاں موجود ہیں تو بیرو میٹر لے کر سیڑھیوں پہ چڑھ جائیے۔ اور ہر منزل پہ بیرو میٹر کی بلندی ناپتے جائِے اور آخیر میں اسے جمع کر لیں۔ عمارت کی بلندی پتہ چل جائے گی۔
پھر اس نے ذرا رک کرسانس لی اور چہرہ سنجیدہ کیا جیسے ایک مقدس بات کہنے جا رہا ہو۔ اگر کسی روائیتی اور بور طریقے کو اپنانا چاہتے ہیں تو زمین پہ  بیرو میٹر رکھ کر دباءو معلوم کریں اور اسی بیرو میٹر سے عمارت کی چھت دباءو معلوم کریں  اور دونوں کے فرق کو ملی بار سے فٹ میں تبدیل کر لیں۔ عمارت کی بلندی علم میں آجائے گی۔
آخر میں اس نے فیصلہ کن پینترا بدلا۔ لیکن چونکہ ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ کھلے ذہن سے سائینسی طریقہ ء کار کو سوچو تو میں عمارت کے نگراں کے پاس جاءونگا اور کہونگا کہ کیا وہ مجھے عمارت کی بلندی بتا سکتا ہے اگر ہاں تو میرے پاس ایک نیا بیرو میٹر ہے وہ اسکا ہوگا۔
قصہ خواں اسکے بعد خاموش ہوتا ہے۔ کیا کمیٹی کے حواس یکجا رہے؟ کیا کمیٹی نے متفقہ طور پہ اسے پاس کر دیا؟ کیا واقعی پوت کے پیر پالنے میں نظر آتے ہیں؟
اس قصے کے بارے میں دو خبریں ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ سب سے پہلے انیس سو پچپن میں ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوا اور دوسرا یہ کہ اس کا نیلز بوہر سے کوئ تعلق نہیں۔
۔
۔
۔
۔
۔

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
اب آپ جان چکے ہونگے کہ یہ معاملہ محبت تک ہی محدود نہیں کئ اور معاملات میں بھی ہوتا ہے مثلاً عظمت۔ کچھ تو لوگ بڑے کارنامے انجام دے کر عظیم ہو ہی جاتے  ہیں اور کچھ داستانیں ان میں مزید شامل ہو جاتی ہیں۔ ایسے کے سچ نکالنا مشکل ہی نہیں غیر دلچسپ اور گناہ کے برابر  ہو جاتا ہے۔

4 comments:

  1. اوجی آپ بس ایک منزل کی اونچائی ناپیں۔ اور اسے کل منازل سے ضرب دے لیں۔
    عمارت جتنی مرضی بلند ہو۔ جواب نکل آئے گا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ اسی صورت ممکن ہے جب تمام منزلوں کی انچائ برابر ہو۔
      :)

      Delete
    2. پھنس گیا بوہر بیچارہ۔
      میرا خیال تھا کہ امتحان میں اسے کچھ رعایت تو ملی ہوگی۔ لیکن آپ بھی سدا کی استانی نکلیں۔
      :)

      Delete
  2. یہ مزیدار تھا.. ایک بھولا بسرا قصہ یاد آگیا..

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ