Monday, June 18, 2012

بد نظر کی نذر

ہم ایک تقریب میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک جوڑا داخل ہوا انکے ساتھ انکی دو مہینے کی بچی بھی موجود تھی۔ میں نے اسے گود میں لیا تو دیکھا کہ اسکے ماتھے پہ کاجل سے گول نشان بنا ہوا ہے۔  مجھے معلوم ہے کہ کاجل کا یہ نشان بری نظر سے بچانے کے لئے لگایا جاتا ہے اور اسے نظر بٹّو بھی کہتے ہیں۔ میں نے حیرانی سے اسلامیات میں ماسٹرز کی ہوئ ماں  سے پوچھا کہ آپ بھی  نظر بٹّو پہ یقین رکھتی ہیں۔ 
میز کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں میں بحث شروع ہوئ اور گفتگو اس طرف مڑ گئ  کہ بری نظر ہوتی ہے بعض نے کچھ احادیث اور روایات کا سہارا لیا۔ کچھ نے واقعات سنانا شروع کئے۔
 میں نے تو صرف ایک ہی بات کہی۔ میری بچی  بچپن سے اکثر لوگوں کو بڑی پسند آتی رہی ہے۔ جب بھی گھر سے باہر نکلتے تو لوگ اسکی حرکتیں دیکھ کر یہ ضرور کہتے کہ گھر جا کر اسکی نظر اتار دیجئیے گا۔   میں نے کبھی نظر نہیں اتاری۔ حتی کہ بیمار بھی پڑی جیسا کہ بچے بیمار ہو ہی جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ وجہ پہ غور کرتی کہ ایسا کیوں ہوا پھر علاج اور احتیاط۔  یعنی نظر میں نے پھر بھی نہیں اتاری۔
 اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ہمشیہ یہی سوچتی رہی کہ گورے جنکی اکثریت مذہب پہ یقین نہیں رکھتی اور انکے بچے بڑے پیارے بھی ہوتے ہیں، بیمار بھی ہوتے ہیں۔  انہیں نظر اتارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تو ہمارے یہاں ہر شخص کو یہ عارضہ کیوں لاحق ہے۔ مجھے بھی دیکھنا چاہئیے کہ کیا نظر اتارے بغیر چارہ نہیں۔ جواب یہ ہے کہ نظر اتارے بغیر بھی  زندگی کم از کم اس طرح گذر سکتی ہے جس طرح اوروں کی گذرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔ لیکن ایک سوکھا ساکھا، سست بچہ جو آثار سے ہی لگتا ہے کہ غذا کی کمی کا شکار ہے اسکے ماں باپ بھی کہتے ہیں کہ اسے نظر لگتی ہے۔ بچے کے گلے میں دو چار تعویذ اگر لوگ تعویذ پہ یقین نہیں رکھتے تو کوئ قرآنی آیت یا اللہ کے نام کا دم درود۔ 
بچے تو بچے بڑے افراد بھی  بد نظری کے تعویذ پہنے ہوتے ہیں یا نظر اترواتے ہیں۔ مثلاً بچے کی پڑھائ پہ نظر لگ گئ ہے۔ جیسا پہلے دل لگاتا تھا ویسا نہیں لگاتا۔ لڑکی پہ نظر ہو گئ ہے  اتنی اچھی شکل کی ہے لیکن کہیں شادی کی بات ہی نہیں ٹہرتی۔ لڑکی نے بھاگ کر شادی کر لی، نظر لگ گئ ورنہ تو بڑی فرماںبردار ہوا کرتی تھی۔ کسی نے نظر لگادی شوہر اتنا چاہتا تھا اب کسی اور عورت کے چکر میں پڑگیا ہے۔ مرد کو نظر لگ گئ کیسا بھاگ دوڑ کر کام کرتا تھا اب تو آئے دن بیمار رہتا ہے۔  حتی کہ ایک بڑی بی نے بتایا کہ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ اب کیا بتائیں، لوگوں کی نظر لگ گئ کہ اس عمر میں بھی کتنا چلتی پھرتی ہیں۔ ورنہ راستے میں پڑا کیلے کا چھلکا کیا ہمیں نظر نہیں آتا۔ چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہو گیا، نظر لگ گئ ہے۔ انسانوں سے ہٹ کر ہر دوسری گاڑی کے پیچھے ایک کالے کپڑے کی لیر لٹکتی نظر آئے گی۔ کس واسطے تاکہ گاڑی بری نظر سے بچی رہے۔ زیر تعمیر عمارات پہ ماشاءاللہ کی تختی پہلی اینٹ کے ساتھ لگ جاتی ہے۔ اکثر کے ساتھ ہمیشہ کے لئے لگ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
نظر کا تصور صرف مسلمانوں میں نہیں دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے اور ہر مذہب میں اس کے لئے کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے۔ اس کی ابتدائ تاریخ مشرق وسطی سے ملتی ہے۔ یونانی فلاسفرز کی تحریروں میں بھی اس حوالے سے تصورات ملتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بد نظری کا یہ نظریہ سکندر اعظم کے ساتھ مشرقی ملکوں کی طرف سفر کر گیا۔ اس طرح سے اس متائثر زیادہ تر علاقے عرب اور ایشیاء سے تعلق رکھتے ہیں۔  یوروپ میں یہ ان علاقوں سے آیا جو میڈیٹیرینیئن علاقوں سے ملے ہوئے تھے جبکہ امریکہ میں یہ یوروپی تسلط کے ساتھ داخل ہوا۔
آخر لوگ نظر بد پہ کیوں یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ انسان ہمیشہ سے ان دیکھے کے خوف میں مبتلا رہا ہے  اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔ اس لئے کسی برے حادثے یا واقعے کے بعد اگر اسکا تجزیہ صحیح طور پہ کرنے سے قاصر ہو تو اسکا ذہن کسی ماورائ تصور کی طرف جاتا ہے۔  اب اگر یہ برا واقعہ بظاہر خدا کی ناراضگی یا قہر نہیں ہے تو اسکی وجہ لازماً کسی کی بری نظر ہی ہو سکتی ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں بری نظر سے بچنے کے مختلف ٹوٹکے ہیں۔ جیسے دروازے پہ گھوڑے کی نعل لٹکانا یا ترکی میں ایول آئ بڑی مشہور چیز ہے۔ جو نیلے شیشے سے بنی آنکھ ہوتی ہے اور ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے، بازار میں خوب بکتی ہے۔ یہ نیلی آنکھ بد نظر کو واپس اس کے دیکھنے والے پہ بھیج دیتی ہے۔


 ادھر افریقہ کے کچھ حصوں میں ایک ہاتھ کی شبیہہ ملتی ہے جسکے درمیان میں بالعموم ایک آنکھ ہوتی ہے۔ یہ ہمسا کہلاتا ہے۔  یہ بھی بد نظر سے تحفظ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مسلمان اسے حضرت فاطمہ کا ہاتھ کہتے ہیں اور عیسائ حضرت مریم کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔

جہاں کچھ خطوں میں نیلی، ہری آنکھوں والے لوگ بد نظر قرار پاتے ہیں وہاں کچھ خطوں میں نیلی یا ہری آنکھوں والے لوگ نظر سے سب سے زیادہ متائثر ہونےوالےجانے جاتے ہیں۔
 ایسے مصائب کا  تعلق خدا یا خداءوں کی بھیجی گئ مصیبت سے نہیں بلکہ ایک انسان کی نظر کی مصیبت سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر خدا کے عذاب اور قہر سے بچ بھی جائیں تو بھی ہمارے ہم جنس کا صرف دیکھ لینا ہی مار ڈالتا ہے۔ اس طرح دراصل ہم ایک انسان کے اندر ایک عجیب سے برائ تلاش کر لیتے ہیں جسکا اسکے ذاتی اخلاق یا خواہش سے کوئ تعلق نہیں ہوتا۔ کوئ مہمان گھر سے آکر گیا اور اسکے بعد اسے بچے کو بخار ہو گیا تو بس مہمان کی نظر میں ہی کوئ خرابی ہوگی۔ جبکہ اسے معلوم تک نہیں ہوتا کہ اسکے متعلق کیا تصور باندھ لیا گیا ہے۔
اب یقیناً لوگ مقدس تاریخ میں سے حوالے نکال کر لائیں گے کہ فلاں حدیث کے مطابق ایسا ہوا اور فلاں روایت میں یہ کہا گیا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس وقت کا عرب معاشرہ جس حد تک انقلاب کو برداشت کرنے کے لئے تیار تھا اتنے ہی انقلابی نظریات پیش کئے گئے۔ اور بہت سے خیالات کو نہیں چھیڑا گیا کہ انکی تفصیلات میں جانا عام لوگوں کو سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اور عوام الناس کو بس انکے توڑ کے لئے کچھ مذہبی حل بتا دئیے گئے۔ اسی میں سے ایک تصور نظر بد کا بھی ہے۔
ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ ایک بچہ کبھی بیمار نہ پڑے اسی طرح یہ ہونا بھی بہت مشکل ہے کہ کوئ شخص اپنی زندگی میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرے۔ انسان جتنا چاہے نیک ہو، واقعات اچھے یا برے پیش آتے ہی ہیں۔ اب رسول اللہ نے گیارہ شادیاں کیں لیکن جو اولاد نرینہ ملی وہ ابتدائ عمر میں ہی دنیا سے گذر گئ۔ اس طرح قریش نے انہیں لا ولد ہونے کا طعنہ دیا۔  تو کیا یہ  نظر بد تھی یا خدا کی ناراضگی۔ یقیناً ایسا نہیں تھا۔
سو کوئ اپنے بچے کو نظر بٹو لگائے، مرچیں سات بار گھما کر جلائے، سل کا بٹہ لے کر سات بار گھمائے، یا سورہ کوثر باری باری پڑھ کر دونوں گالوں پہ پیار کر لے، عمارت یا گاڑی پہ ماشاء اللہ لکھ کر لگائے یا ہر اچھی چیز کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہے۔ سب کے نتائج عموماً ایک جیسے ہی نکلتے ہیں یعنی اگر فلو کا موسم چلا ہوا ہے تو بچے کو فلو ضرور ہوگا۔
بد نظری سے متعلق یہی سوچ جب آگے بڑھتی ہے تو لوگ دم ، دعا، تعویذ کے چکر میں ایسا الجھتے ہیں کہ پھر زندگی میں کرنے اور سوچنے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔ ہاتھوں میں کئ طرح کے پتھر یا اسموں کی انگوٹھیاں ہوتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے رشتے دار کے متعلق اندازے لگائے جاتے ہیں کہ کس کی نظر بری تھی، آخیر میں یہ  بظاہر معمولی نظر آنے والی سوچ انسان کے اندر سے اعتماد ختم کر دیتی ہے۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بات نظر بد سے چلتی ہے اور جادو تک جاتی ہے۔ کہتے ہیں جادو برحق ہے۔ اگر ایسا ہی بر حق ہوتا تو دنیا میں بڑے سے بڑے کام اسی کے زور پہ نکال لئے جاتے اور چند جادوگر اس دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے۔ مگر ستم ظریفی دیکھئیے کہ دنیا کے سیاہ سفید کے مالک وہ بنے جن کے ہاتھوں میں یا تو تلواریں تھیں یا پھر کتابیں۔ 
کیا جادو کوئ حقیقت رکھتا ہے؟

16 comments:

  1. کینیڈا کے آبائی باشندوں نے تو نظر بد ہی نہیں ، بلکہ بدخوابی کے برے اثرات سے بچنے کا بھی انتظام کر رکھا ہے۔ تنکوں اور پروں سے بنا ایک ڈریم کیچر گھر میں لٹکا دیا جاتا ہے۔
    اعتقاد کا اعتقاد ، آرٹ کا آرٹ ۔


    سوچتا ہوں کہ کوئی بلاگ کیچر بھی ہونا چاہیے۔ جو بلاگ پر پڑنے والے برے اثرات سے بلاگ کو بچائے۔ اور کچھ نہیں تو تیکنیکی خرابیاں ہی دور فرمائے۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. ایک بلاگر اگر کمپیوٹر مہارت حاصل کر لے تو بلاگ کیچر کی ضرورت نہ رہے۔ لیکن وہ ایسا ناہنجار ہے کہ نہ ماہر بنے گا نہ کیچر کی سمت کام کرے گا۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ بلاگ شروع کرنے سے پہلے کسی ماہر کمپیوٹر باز سے تعلقات استوار کرنا بے حد ضروری ہے اگر بات استواری ء تعلقات سے نہ چل رہی ہو جیسا کہ بلاگر ان کوئسچن کا مسئلہ ہے تو ایک تنخواہ پہ رکھ لینا چاہئیے۔ کوشش کی تھی جواب ملا کیا آپکو پریمیئر آتا ہے تو آپ ہمارے کوچنگ سینٹر میں پڑھانا شروع کیوں نہیں کر دیتیں۔ اسے قحط الماہرین کہتے ہیں۔

      Delete
  2. ویسے میری نظر بہت مشہور ہے کہ "کالی زبان" کی طرح "بہت کالی" ہے.. سو سوچتا ہوں آپ کے بلاگ کو آج نظر لگا ہی دوں.. :D

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے تو ڈرا ہی دیا۔
      ویسے اسے پہلے سے نظر لگی ہوئ ہے۔
      :)
      کیا ایک چیز کو ایک وقت میں کئ نظریں لگ سکتی ہیں۔
      ویسے حیرت ہے آج تک کسی بلاگ پہ ماشاءاللہ کی تختی لکھی ہوئ نہیں دیکھی۔ لوگ بلاگ کو اتنا حقیر سمجھتے ہیں۔

      Delete
  3. ہر سماج کی اپنی اپنی دیو مالائی کہانیاں ہوتی ہیں۔ کسی زمانے میں یورپ میں چوڑیلوں کے قصے عام تھے، آج بھی ۱۳ کا ہندسہ یورپ میں استعمال کم کیا جاتا ہے۔

    یہ بس سماج سماج کی بات ہے، جیسے جیسے معاشرہ ترقی کرتا ہے، ویسے ویسے یہ ساری باتیں کم ہوتی جاتی ہیں

    ReplyDelete
  4. jadoo koi haqiqat nahi rakhta

    ReplyDelete
  5. ویسے آپ "نظر بد" اور "بد نظری" کو ایک بنا گئیں ...

    پھر وہی غلط معلومات کا انبار لگا دیا ہے آپ نے ...

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی نہیں آپ نے اس میں یہ نکتہ نکالنے کی کوشش کی ہے جبکہ مضمون اپنے متن میں بالکل واضح ہے۔ ہر دفعہ کی طرح آپ اس میں بھی غلط معلومات بتانے سے قاصر رہے۔ غیر علمی رویہ ہے۔

      Delete
  6. اچھی بات ہے۔ ہمارے ہاں تو رکشوں کے پیچھے بھی بچوں کے جوتے لٹکے نظر آتے ہیں۔ ہم لوگ بڑے عجیب ہیں ہر بات کا جب تک کوئی سبب نہ مل جائے چین سے ہی نہیں بیٹھتے۔ بہر حال یہ سب نہ ہوتا تو غالب یہ خوبصورت شعر کبھی نہ کہہ پاتے۔

    نظر لگے نہ کہیں تیرے زورِ بازو کو
    یہ لوگ کیوں میرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

    اور رفیع صاحب کا مشہور گانا بھی نہ ہوتا جس میں وہ اپنے محبوب کو نظرِ بد سے بچانے کے لئے خوبصورت انداز میں نغمہ سرائی کر رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. Lady:
    Very well written and conceived.
    Just one thing I have to mention that evil eye is originated from Pharaohnic Egypt. As the ancient Pharoahnic scripts have a lot of evil eyes, and still in modern Egypt one can see these blue evil eyes in markets, homes, cars, in jewelry items etc.

    P.S. How can I subscribe to your blogs. m totally illiterate in blogging matters :(

    ReplyDelete
    Replies
    1. تبصرہ کرتے ہوئے پبلش کے ساتھ دیکھیں سبسکرائب بائ ای میل لکھا ہوا ملے گا۔ یہاں سے سبسکرائب کر لیں۔
      :)
      جی ایول آئ کے بارے میں آپ کی بات بالکل درست ہے۔ جدید مصر میں بھی اسی رفتار سے یہ ملتی ہیں۔

      Delete
    2. اور آجکل پاکستان میں ونڈ چائمز یا ہوا سے بجنے والی گھنٹیوں کا بہت فیشن ہے، یہ بھی تبت میں اور فار ایسٹ کے ممالک میں بد ارواح کو گھر سے باہر رکھنے کے لئے اتسعمال ہوتی ہیں

      Delete
    3. ونڈ چائمز کے بارے میں چین میں ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ گھروں میں صحت مند توانائ میں اضآفے کا باعث بنتی ہیں۔
      مجھے تو انکی آوا پسند ہے۔ یہاں کراچی میں ہوا اتنی ہوتی ہے کہ ہر وقت ہی بجتی رہتی ہیں بلکہ ہوا کی وجہ سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔

      Delete
  8. استغفراللہ ایک آنکھ تو دجال کی نشانی ہے اسے گھر میں استعمال کرنا کسی طور مناسب نہیں ہاں آیات قرآنی سے کام لے لینا چاہیئے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپکے بیان سے دو نتائج کرنے پڑ گئے ہیں۔ اول یہ کہ ہمیشہ دو آنکھیں بنائ جائِں۔ ایک آنکھ دجال کی نشانی ہوتی ہے۔ دوئم یہ کہ قرآنی آیات کا ایک مصرف یہ بھی ہے کہ گھروں کو نظر بد سے بچانے کے لئے آویزاں کیا جائے۔
      لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان جو کہ بڑا یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایک ان دیکھے خدا پہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ نظر بد سے بچنے کے لئے دکھائ دینے والی چیزیں کیوں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خدا اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ محض اس پہ یقین ہی انسان کو ان دیکھی قوتوں کو زیر کرنے کی صلاحیت دے دے۔ کیا خیال ہے آپکا؟

      Delete
    2. اپ کے دونوں نتائج غلط ہیں میں آیات قرانی کو محض گھر میں آویزاں کرنے کے لئے نہیں کہہ رہی بلک نظر سے بچنے کے لئے ان کا ورد کرنے کے لئے کہہ رہی ہوں ۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ