Sunday, August 1, 2010

گگا۔۔۔۔۔۔۔گالی

میں منی بس میں بیٹھی محو انتظار کہ کب ڈرائیور صاحب، اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو پیار ہو جائے گا' کے اثر سے باہر نکلتے ہیں۔ میں آدھ گھنٹہ لیٹ ہو چکی ہوں اور یہ بس پچھلے دس منٹ سے اس اسٹاپ پہ کھڑی ہے جب تک اگلی بس نہیں آجائے گی یہ یہاں سے نہیں ہلے گی۔ تو دیر ہونےمیں خطا کس کی ہے۔  میری۔ اس لئے میں ڈرائیور کو دہائ دینے کے بجائے صبر و سکون سے بیٹھی دل ہی دل میں، مستقبل میں اینگر مینجمنٹ کے کورس کروانے کے پلان بنا تی ہوں۔ ڈرائیور کی طرف دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تیسری دفعہ 'اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو' سن رہا ہے۔ اور اس قدر غرق ہے کہ 'کسی ' کے غصے کو بھی اسی نظر سے دیکھے گا، جس سے منع کیا جا رہا ہے۔
یکایک ایک پیلی ٹیکسی منی بس کے سامنے آ کر چر چراتے ہوئے رکتی ہے۔اس میں ایک کھلتے ہوئے رنگ اور درمیانے قد و قامت کا نوجوان کالے رنگ کے کپڑوں میں بجلی کی تیزی سے بر آمد ہوتا ہے۔ اسکے منہ سے دنیا کا ہر وہ لفظ موسلا دھار برس رہا ہے۔ جسے یہاں لکھنے کے لئے مجھے کچھ خلائ زبان استعمال کرنی پڑے گی۔ مثلاً
@*^#~@&$*#?
اسی طوفانی اسٹائل میں وہ آکر ڈرائیور گیٹ پہ بیٹھے ڈرائیور کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے نیچے کھینچ لیتا ہے۔ اور پھر دے دھنا دھن۔ گالی اور تشدد کا ظالم ادغام۔  ڈرائیور صاحب اس حالت میں  کہہ رہے ہیں ارے دیکھومجھے بچاءو، لیکن سب پتھر کے بت بنے بیٹھے ہیں کیونکہ اگر انہیں دیکھا تو آپکو معلوم ہے کیا ہو جائے گا۔
حالانکہ تھوڑی دیر پہلے مسافروں میں سے ہر ایک اسکی یہی درگت بنانا چاہ رہا ہوگا۔ مگر اب سب سکتے میں ہیں۔ کیا یہ سکتہ اس چھبیس ستائیس سال  شخص کی تشدد سے بھر پور اینٹری پہ ہے یا گالیوں کی روانی و فراوانی پہ۔ میں خود بھی سانس روکے بیٹھی رہتی ہوں۔ ماحول خاموش ہے۔  گانوں کی کیسٹ ابھی بھی چلے جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ ڈرائیور موجود نہیں اس لئے نیا گانا آگیا۔ لڑکی  کمال کی نظروں سے گولی مارے۔  ہاتھوں، اور پیروں اور زبان سے پٹنے کے بعد یہ گانا گولی ہی لگ رہا ہوگا۔  اس سارے طوفان کے ذرا ٹھنڈا ہونے پہ پتہ چلا کے پیار ومحبت کے اس پر سکون مگر دل جلے منظر میں ہنگامہ بپا کرنے والے وہ صاحب اس منی بس کے پیچھے پھنس گئے تھے اور اسے ہارن پہ ہارن دئیے جا رہے تھے  مگر یہ تو مجھے، دیگر سواریوں یا اب آپکو پتہ ہے کہ وہ اس وقت کس دنیا میں تھے۔
 گالیوں کے بارے میں تحقیق داں کہتے ہیں کہ غصہ برداشت نہ کر سکنے کی اہلیت کی بناء پہ منہ سے نکلتی ہیں بلکہ لکھی بھی جاتی ہیں۔  غصہ جو انسان کسی اور ذریعے سے  نکال کر تسلی نہیں پا سکتا وہ اس ذریعے سے نکالتا ہے۔ میں اس سے اتنا متفق نہیں کہ اکثر تشدد اور گالی دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھا۔ جتنی زیادہ طاقت سے کوئ دوسرے کو پیٹتا ہے اتنی ہی شدید گالیاں بھی ہوتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ  انسانی شخصیت کی شدت پسندی کا حصہ ہوتی ہیں۔ ورنہ کیوں کچھ لوگوں کی گفتگو کا تکیہ کلام، فل اسٹاپ اور کومہ بھی کوئ گالی ہی ہوتی ہے۔ اور اگر جوش بڑھا ہوا ہو تو تین گالیاں ایک ساتھ۔ ہر ایک میں ٹارگٹ کی قریبی خواتین سے تعلقات پوشیدہ کی کشیدہ خواہش۔
شدت پسندی یہ  ہے کہ جو گالی انتہائ غصے میں دی جاتی ہے وہی انتہائ پیار میں بھی نکلتی ہے۔ ایسوں کے لئے ہی کہا جاتا ہے کہ نہ انکی دوستی اچھی نہ انکی دشمنی اچھی۔
میں اپنی ایک عزیزہ کے رشتے کے سلسلے میں انکے خاندان والوں کے ساتھ لڑکے والوں کے گھر میں موجود تھی۔ وہ پانچ بھائ اور ایک بہن تھے۔ ایک بھائ کا حال ہی میں پہلا بچہ ، ایک بیٹا ہوا تھا جسکی خوشی انکے چہرے سے ہویدا تھی۔ پندرہ دن کے اس بچے کو کوئ لا کر انکے بڑے بھائ کے حوالے کر گیا۔ بڑے ابا، اسے کپڑوں  میں لپیٹتے ہوئے، ایک لاڈ بھری مسکراہٹ سے کہنے لگے۔ خبیث ابھی پندرہ دن کا ہے مگر بڑا تیز ہے۔
گھر آکر میری رائے مانگی گئ۔ میں نے کہا جو پیار میں، پندرہ دن کے بچے کو خبیث کہہ رہے ہیں انکے غصے کا اندازہ کر لیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنی گفتگو میں گالیاں نہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ کیوں بھئ، وہ بھی تو اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ گالی سنے تو گونگا بولے۔ گالی اور اسکے اثر سے واقف، صرف اس لئے گالی استعمال نہ کریں کہ تعلیم یافتہ ہیں۔ بھاڑ میں گئ ایسی تعلیم کہ ایک انسان دوسرے کے خاندان کی زبانی ہی سہی ایسی تیسی نہ کر سکے۔  ایک تعلیم یافتہ شخص، قتل کر سکتا ہے، کسی دوسرے کو پیٹ سکتا ہے، تو گالی کیوں نہیں دے سکتا۔
یہاں تعلیم سے متعلق انتہائ متنازعہ قسم کی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ، تعلیم بنیادی انسانی فطرت کو تبدیل نہیں کرتی۔  یہ صرف آگاہی دیتی ہے اور اسکے اظہار کو سدھا سکتی ہے وہ بھی اگر فرد متعلقہ چاہے تو۔ باقی یہ کہ چاقو کی طرح اسے ہر بری اور اچھی سمت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔   یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، انگریزی لٹریچر سے آشنا، پر وجیہہ شخصیت کے مالک نواب اکبر بگٹی کی سفاکیت کی داستانیں کسی دیو مالائ دنیا کی کہانی لگتی ہیں۔  یہ سفاکیت انکے ماحول، رواج اور تربیت کا حصہ تھے۔ جس سے وہ فرار حاصل نہ کر سکے۔  بھٹو جیسا تعلیم یافتہ شخص اپنی عبادت میں مصروف رہتا ہے۔ بے نظیر جیسی خاتون زرداری سے شادی کرتی ہیں۔  
یہاں پہ دینی اور دنیاوی تعلیم کا فرق چھیڑا جا سکتا ہے۔ مگر  پھر معذرت کے ساتھ جس طرح تشدد کی فطرت کو، دین میں مقدس جنگوں کے نام پہ روا رکھنے والے دینی عالم ہی ہوتے ہیں، اسی طرح اس زبان کو اپنے حریفوں کے لئے استعمال کرنے میں انہیں کوئ عار نہیں ہوتا۔ دین لوگوں کے درمیان کچھ بنیادی چیزوں کو اتحاد کی علامت بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ دیگر انسانی سرگرمیوں پہ یکسو ہو کر توجہ دیں مگر یہ وصف بھی کوئ کوئ ہی حاصل کر پاتا زیادہ تر لوگ  فروعات میں الجھے رہتے ہیں جو دین کا مقصد نہیں۔ یوں دینی تعلیم بھی کوئ اعلی وصف پیدا نہیں کر پاتی۔ ایک نامور مرحوم عالم کے متعلق سنا کہ انہوں نے ایک خاتون صحافی کو نا مناسب لباس میں دیکھ کر کہا، مغرب نے حرامزادی کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ ہمارے ٹی وی کے ایک  عالم جو آن لائن بھی ہوتے ہیں انکے متعلق بھی متعدد لوگوں سے سنا کہ وہ یہ زبان بے دریغ  استعمال کرتے ہیں۔
میں نے پہلی دفعہ اپنے ایک کولیگ کو روانی میں گالی دیتے سنا۔ سوچا، شاید انہیں خود بھی خیال نہیں کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں،  اس وقت میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ اس وقت یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ انہوں نے کراچی سے باہر زیادہ تر ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائ ہے جہاں صرف لڑکے ہوتے تھے۔  اس لئے اس طور سے واقف نہیں ہیں کہ کم از کم خواتین  کی موجودگی میں زبان شستہ رکھنی چاہئیے۔
 گئے زمانوں میں شرفاء کے یہاں یہ اہتمام ہوتا تھا کہ خواتین کے سامنے گالیوں سے اجتناب کیا جائے۔ مگر اب اس بکھیڑے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ دلیل یہ کہ جب مردوں کے شانہ بشانہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بھی سنو۔  یہ تو مردانہ اسٹائل ہے۔
یہ عنصر بالکل نا معلوم ہے کہ شدید گالیوں میں انسان کی جنس اور اسکے جنسی معاملات کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے  فرائڈ  اس بارے میں کچھ اندازے لگاتا ہے اور اسکے مطابق ہر گالی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دوسرے انسان کو جانوریا اس  سے بھی کم ثابت کیا جا سکے۔ چاہے براہ راست اسے اس جانور کا نام دیا جائے یا شدید صورت میں جانوروں کے جنسی افعال سے مماثلت دی جائے۔ اس حساب سے بھی جانوروں کی درجہ بندی ہے اور کسی کو گالی میں الّو یا گدھا کہنا کوئ اوقات نہیں رکھتا جبکہ الو کے پٹھے کی قدرے اہمیت ہے اور کسی کو گدھے کا بچہ کہہ کر تو دیکھیں۔ کتے یا کتے کا بچے کا اثرایک جیسا ہوتا ہے۔
خواتین تشدد کے ذریعے کم ہی دل کی بھڑاس نکال پاتی ہیں اور یوں انہیں گالیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ بھی جب گالیاں دیتی ہیں تو دوسری خواتین کو اسی پس منظر میں گالی دیتی ہیں۔ لیکن جب انکی گالیوں میں شدت آتی ہے تو بد دعا بھی شامل ہوجاتی ہے۔
کچھ گالیاں تفریحاً دی جاتی ہیں۔ اب جو شخص تفریح کے لئے گالی کا استعمال کرے اس سے اسکے ذوق جمالیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  بعض علاقوں میں ذاتی مخاصمتیں اتنی بڑھی ہوئ ہوتی ہیں کہ کچھ لوگ فرصت کے اوقات میں  نئ گالیاں گھڑتے  یا ایجاد کرتے ہیں تاکہ اگلی جھڑپ میں کام آئیں۔ تخلیقی کام چونکہ اپنی زبان میں ہی بہتر ہوتا ہے اس لئے گالیاں بھی اپنی ہی زبان کی مزہ دیتی ہیں اور اس سے وہ آتش لگتی ہے جو بجھائے نہ بجھے۔  
  گالی کو سن کر رد عمل ظاہر ہونا بھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ
دشنام یار طبع حزیں پہ گراں نہیں
اے ہم نفس، نزاکت آواز دیکھنا 
ایسی گالیوں کو گالیاں سہانیاں کہتے ہیں۔ اور انہیں سننے کے لئے لوگ بڑی جدو جہد سے گذرتے ہیں کہ کام اس سے آ پڑا ہے جسکا جہان میں،  لیوے نہ کوئ نام ستم گر کہے بغیر۔
اگر انسانی مقصد ، وقت کی بھیڑ چال کے مخالف سمت میں ہو تو بھی کرنے والے کو ایسی گالیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹھان لینے والے ان گالیوں کی پرواہ نہیں کرتے کہ دینے والے کے پاس اسکے علاوہ ایک خالی پن ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ سر سید احمد خان کی مثال اس سلسلے میں موجود ہے۔ 
لیکن ایک گالی بعض اوقات ایک شخص کو زندگی بھر کے لئے معذور کر دیتی ہے۔ وہ ذلت کے اس  لمحے سے باہر نہیں نکل پاتا اور تمام عمر اسکے کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ شاید گالی کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔
  

22 comments:

  1. گالیوں کے ذکر نے عین عالم شباب کا ایک واقعہ یاد دلا دیا ۔ ماہ رمضان میں والدہ نے کھجوریں پھل لینے بھیجا ۔ موٹر سائیکل پر افطاری سے قبل موٹر سائیکل پر بیٹھا گھر لوٹ رہا تھا ۔ کہ ایک گاڑی نے ایسی کٹ ماری کہ منہ سے بے ساختہ نکلا کہ مرتے مرتے بچے یار ۔اس نوجوان نے آئینہ میں مجھے بڑبڑاتے دیکھا تو گاڑی کچھ دور جا کر میرے آگے کھڑی کر دی ۔ اور لگے دھمکانے اب دے گالی ۔ میں نے صفائی میں کہنا چاہا کہ میں روزے سے ہوں ۔ میں نے گالی نہیں دی ۔ مگر میری جان چھوڑنے پر وہ تیار نہ ہوا ۔کیونکہ دیکھنے میں میں دبلا پتلا تھا مگر جوڈو کراٹے کی وجہ سے اچھا سٹریت فائٹر بھی تھا ۔جب میں نے تیور بدلے اور گاڑی میں سے کھینچ کر اسے باہر نکالا اور دھمکایا کہ اپنے گھر کا پتہ بتا ۔ افطاری کے بعد گالیوں کی انتہا کروں گا ۔ تو پھر جان چھڑانے میں اپنی عافیت جانی ۔ لوگوں کے بیچ بچاؤ پر رفو چکر ہو گیا ۔ میں نے گاڑی کا پیچھا شروع کر دیا اس کا گھر دیکھنے کے لئے ۔ سڑکوں پر اس نے مجھے اتنے چکر دئے کہ افطاری کا وقت سر پر آن پہنچا ۔ اور میں نے گھر کی راہ لی ۔ اور گالی دینے کا ارداہ ملتوی کر دیا ۔

    ReplyDelete
  2. تحریر تو بہت خوبصورت ہے۔ لیکن ایک بات اب بھی وضاحت طلب ہے۔
    خواتین گالیاں مردوں سے کیوں مستعار لیتی ہیں۔ عقل اور آپ کی پوسٹ میں بیان کئے گئے نقاط سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ گالیوں کی کچھ ایجاد اُن کی طرف سے بھی ہونی چاہیے۔
    یا پھر یہ کہ یہ میرا وہم ہے کہ خواتین کی گالیاں۔۔۔گالیاں ہی نہیں ہیں۔
    یا پھر میں نے خواتین سے ذیادہ گالیاں نہیں سنی۔
    عثمان مذتذب ہے۔
    ایک پوسٹ اور چاہیے۔

    ReplyDelete
  3. اپنے علاقے میں میں بڑا چنگا بندھ مشہور هوں اس لیے میرے اندر کا گالیوں کا ابال نکلتا هی نہیں ہے اس لیے میں جب باهر کے ملک میں داء لگے تو خوب گالیاں نکالتا هوں اور نئی بھی ایجاد کرتا هوں

    ReplyDelete
  4. اچھی تحریر ہے ۔ گالی کا سبب کسی کی تحقیر ہے ۔ اور اس جذبے میں تعلیم یا ماحول کچھ نہیں بگاڑتا ، بس الفاظ بدل جاتے ہیں ۔
    وسلام

    ReplyDelete
  5. عثمان، آپ نے خواتین کو گالیاں ایجاد کرتے نہیں دیکھا۔ جو روزانہ کی بنیاد پہ لڑتی ہیں وہ تو اس مشغلے میں خاصی دلچسپی لیتی ہیں اور مختلف لڑائیوں کے اسکرپٹ ان کے ذہن میں الف سے ی تک ہوتے ہیں۔ مگر جنہیں یہ سعادت حاصل نہیں ہو پاتی وہ عین لمحے کی بات بھی بھول جاتی ہیں۔ بعد میں تماشائ کردار یاد دلاتے ہیں کہ ایسا کہنا چاہئیے تھا۔
    کراچی جیسے جاسمو پولیٹن شہر میں رہنے کا فائدہ، میں نے تو خواتین کو بالکل دیسی مردانہ گالیاں نہایت ذوق و شوق سے استعمال کرتے دیکھا ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کس نے کس سے گالیاں مستعار لی ہیں۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی نفسیات ایک جیسی ہوتی ہے۔ اور وہ عوورت اور مرد کی تخصیص نہیں کرتی۔ شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کچھ خواتین کلاسک مشرقی خواتین کے رول سے اکتا جاتی ہیں۔
    ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو ہر روز اپنی شخصی تعمیر کرتے ہیں اور دن بہ دن نکھرتے جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. بہترین تحریر ہے۔
    کچھ دن پہلے یو ٹیوب پہ ایک ویڈیو دیکھی جس میں دہلی کی لڑکیوں کی گالیاں سنوائی گئیں تھیں۔۔۔ کسی ٹی وی پروگرام کیلئے ایک نوجوان لڑکیوں سے سر بازار گالیوں کی فرمائش کر رہا تھا اور پھر جو لڑکیاں سنا رہی تھیں۔۔۔ وہ میں بھی نہیں نکالتا!!۔

    ReplyDelete
  7. عثمان خواتین بہت کم گالیاں مردوں سے مستعار لیتی ہیں۔ انفیکٹ اگر ان کی مدمقابل ایکدوسری عورت ہے تو انہیں ایگزیکٹ آئیڈیا ہوتا ہے کہ کہاں چوٹ مارنی ہے۔ بہت سی خواتین کوستی بھی جاتی ہیں ساتھ اور مدمقابل اگر ایک ماں ہے تو اس کے بچوں کو بددعائیں دینا تو گویا ایسا ہے جیسے خواتین کی گالیوں کا ہائیڈروجن بم۔

    ReplyDelete
  8. عمیر۔۔۔۔ فورا سے پیشتر اس ویڈیو کا لنک مجھے ارسال کیا جائے۔
    شکریہ

    ReplyDelete
  9. نعمان
    آپ تو کافی تجربہ کار معلوم ہوتے ہیں۔ ہاہا۔۔
    مدقابل کے بچوں کو نشانہ بنانے والی بات درست ہے۔ ظاہر ہے ایک ماں کو سب سے ذیادہ چوٹ دینے والا پہلو یہی ہوسکتا ہے۔

    ReplyDelete
  10. ہمارے یہاں اچھے بھلے لوگوں میں بھی گالیاں دینے کا راج بہت عام ہے، ایک ایسا ہی واقعہ پچھلے دنوں ہمارے دفتر میں رونما ہوا،
    امجد جن کی شخصیت دفتر کی تمام خواتین میں انتہائی سنجیدہ، شریف اور پروقار مانی جاتی تھی، اس روز دفتر سے باہر آوٹ ڈور پر تھے،باہر دفتر فون کیا تو ہمارے ایک اور مگر بدنام زمانہ میلے اور تفریح کولیگ وقاص نے فون اٹھایا اور آواز بدل کر باس کے انداز میں ان سے گفتگو کر کر فون ہماری ایک خاتون کولیگ کو شفٹ کردیا. خاتون کولیگ نے اپنی بات ختم کرکے آخر میں بتایا کہ جسے تم باس سمجھ کر جی جی کررہے تھے وہ تو وقاص تھا، امجد صاحب نے کہا فون وقاص کو واپس دو، وقاص صاحب ڈیڑھ ہوشیار ہیں انہوں نے فون لے کر سلام کیا اور اسے واپس خاتون کولیگ کو پکڑا دیا. پھر کیا تھا امجد صاحب کی ایسی مٹی پلیت ہوئی کہ مت پوچھیں اور خواتین میں انکے سارے امیج کا ستیا ناس ہوگیا

    ReplyDelete
  11. عثمان یو ٹیوب پر ایک اور بڑی ہی دلچسپ ویڈیو موجود تھی. آنجہانی پرویز مشرف کے خلاف جب تحریک زوروں پر تھی تو غالبا لاہور میں کچھ جماعتی احتجاج میں مصروف تھے کہ اچانک رکشے سے ایک خاتون اتریں اور پرویز مشرف صاحب کی ایسی تواضع کی مت پوچھیں. یہ ویڈیو آپ یو ٹیو پر سرچ کر سکتے ہیں، مجھے میرے کسی دوست نے یہ ویڈیو ایمیل کی تھی. یو ٹیوب پر ایک اور انتہائی دلچسپ ویڈیو پاکستان کے مشہور سینئر کالم نگار نزیر ناجی کی بھی ہے، نذیر ناجی ناجانے کسی ڈھنگ میں ڈیلی نیوز کے ریپورٹر احمد نورانی میں ایل فول بک رہے ہیں، آپ سنے گے تو سمجھ آجائے گی.

    ReplyDelete
  12. گالی - جین اور ماحول کی دین ہے-- جو صبر کرتے ہین انسے گالی دور رھتی ہے-- جمیل جالیبی کے تعلق سے شاھد دھلوی نے کہا کہ انسے گالی کیا ناراضگی بھی دور رہتی ہے-- سعودی عرب مین مجھے سب سے پہلے گالی سکھائی گئی-- ھندو اردو مین گالی دیتا ہے- حتی سلم کا ھندو کیون نہ ھو-- مین نے کہا بھی کیون ھماری ساری لڑائی تلگو مین اور گالی اردو مین دوست نے کہا اسی بات نہی ھماری زبان مین بھی گالی ھوتی ہے لیکین اردو کی اور بات ہے-- دبئی مین گلداری برادرس (تاجر بھئی) اپس مین اردو مین ہی گالی دیتے ہین (یوسفی)-- جاگیر دارانہ نظام کی دین گالی بھی ہے-- غالب کو کسی نے گالی لیکھی غالب نے نے کہا بچپن مین گالی مان کی، جوانی مین جورو کی اور بڈھاپے مین بیٹی کی گالی پری لگتی ہے -- ایک پنجابی نے (خلیج کا واقعہ ) دوسرے پنجابی کو گالیان دیتا رہا ایسا معلوم ھوتا تھا کہ گدا یا بھنگڑا ڈال رہا ہوم جار جار فٹبال کے میدان کے پراپر، اخر مین اردو مین اگیا-- دونون گتھام گتھہ-- دوسرے دن پوچھا کہ کیون اردو کو خراب کرتے ھو-- کہنے لگا پنجابی گیرے دار ھوتی ہین اردو پستول کی گولی ھوتی ہے-- میرا خیال ہے ھم اردو بولنے والے ہی گالی دیتے تے ہین-- کارٹونون کے خلاب جلوس نکل رھا ہے جناب "اندہ اباد کی جکہ گالی-- ریڈیو کا زمانہ تھا بھٹو آن لائن تقریر نشر ھورہی تھی -- بھٹو نے گالی دی پھر کہنے لگا کٹ کٹ --

    یہاں مارواڑی، سندھی، اٹو والا، ڈرائور، اردو گالی دیتے ہین -- صرف موسیقار نہی دیتے کیون کہ انکا کہنا ہے کہ ھم بھگوان کے بول بولتے ہین-- مشرک کی یہ مجال-- وھابڑے، عود دان، اہلسنت جماعت، اہلحدیث، بغیر گالی کے اپس کی بحث ختم نہی ھوتی

    بی بی اپ اچھی انشاء نگار ھو چکی



    عنیقہ بی بی بھی ھم کو کی وقت گالی دی -- یہ انکا تکیہ کلام ہے-- "بھارت خطہ غربت سے نیچے ہے" تو پلٹ کر

    "بھارت دنیا کا ھر سال پیدا ھونے والا سونے کا چالیس فیصد امپورٹ کرتا ہے"

    ReplyDelete
  13. گالی - جین اور ماحول کی دین ہے-- جو صبر کرتے ہین انسے گالی دور رھتی ہے-- جمیل جالیبی کے تعلق سے شاھد دھلوی نے کہا کہ انسے گالی کیا ناراضگی بھی دور رہتی ہے-- سعودی عرب مین مجھے سب سے پہلے گالی سکھائی گئی-- ھندو اردو مین گالی دیتا ہے- حتی سلم کا ھندو کیون نہ ھو-- مین نے کہا بھی کیون ھماری ساری لڑائی تلگو مین اور گالی اردو مین دوست نے کہا اسی بات نہی ھماری زبان مین بھی گالی ھوتی ہے لیکین اردو کی اور بات ہے-- دبئی مین گلداری برادرس (تاجر بھئی) اپس مین اردو مین ہی گالی دیتے ہین (یوسفی)-- جاگیر دارانہ نظام کی دین گالی بھی ہے-- غالب کو کسی نے گالی لیکھی غالب نے نے کہا بچپن مین گالی مان کی، جوانی مین جورو کی اور بڈھاپے مین بیٹی کی گالی پری لگتی ہے -- ایک پنجابی نے (خلیج کا واقعہ ) دوسرے پنجابی کو گالیان دیتا رہا ایسا معلوم ھوتا تھا کہ گدا یا بھنگڑا ڈال رہا ہوم جار جار فٹبال کے میدان کے پراپر، اخر مین اردو مین اگیا-- دونون گتھام گتھہ-- دوسرے دن پوچھا کہ کیون اردو کو خراب کرتے ھو-- کہنے لگا پنجابی گیرے دار ھوتی ہین اردو پستول کی گولی ھوتی ہے-- میرا خیال ہے ھم اردو بولنے والے ہی گالی دیتے تے ہین-- کارٹونون کے خلاب جلوس نکل رھا ہے جناب "اندہ اباد کی جکہ گالی-- ریڈیو کا زمانہ تھا بھٹو آن لائن تقریر نشر ھورہی تھی -- بھٹو نے گالی دی پھر کہنے لگا کٹ کٹ --

    یہاں مارواڑی، سندھی، اٹو والا، ڈرائور، اردو گالی دیتے ہین -- صرف موسیقار نہی دیتے کیون کہ انکا کہنا ہے کہ ھم بھگوان کے بول بولتے ہین-- مشرک کی یہ مجال-- وھابڑے، عود دان، اہلسنت جماعت، اہلحدیث، بغیر گالی کے اپس کی بحث ختم نہی ھوتی

    بی بی اپ اچھی انشاء نگار ھو چکی



    عنیقہ بی بی بھی ھم کو کی وقت گالی دی -- یہ انکا تکیہ کلام ہے-- "بھارت خطہ غربت سے نیچے ہے" تو پلٹ کر

    "بھارت دنیا کا ھر سال پیدا ھونے والا سونے کا چالیس فیصد امپورٹ کرتا ہے"

    ReplyDelete
  14. گالی اور وہ بھی سمجھانے کیلئے ۔ کیا بات ہے جی ۔

    ReplyDelete
  15. تبصرہ لکھنے والی جگہ پر
    url /name۔
    نام سے تبصرہ کرنے کا آپشن نہیں ھے۔ورڈپریس کے اکاونٹ سے تبصرہ شائع نہیں ھوتا۔
    کیا اس کا کوئی حل ھے؟

    ReplyDelete
  16. یاسر صاحب، نام تو آپکا آرہا ہے۔ آپکی اتنی ٹیکنیکل بات اس نان ٹیکنیکل شخص کی سمجھ میں نہیں آئ۔ حل کیا نکالوں۔
    جاہل اور سنکی صاحب یا صاحبہ، ہمم تو آپکا خیال ہے گالی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ گالی سے معاملات کو ایسی نہج پہ ڈالا جا سکتا ہے جہاں سے اسکی اچھی طرح گالیوں سمیت دھنائ ہو سکے۔ لیکن شبہ ہے آپ کچھ درون خانہ حالات سے واقف ہیں۔

    ReplyDelete
  17. شکریہ زین صاحب۔
    کاشف نصیر صاحب، ٹیلی فون بڑی عجیب چیز ہے۔ ایسے ہی بھانڈے کھول دیتا ہے

    ReplyDelete
  18. ہم نہ آئے آپکے اس دھوکے میں کہ گالی کو سبجیکٹیولی آبجیکٹیو سنس میں ایکسپلین کردیں ۔ فرائڈ کا حشر ہم نے بڑی ہی تفصیل سے پڑھا ہے بھلے ہی اب وہ ہیرو ہی کیوں نہ ہوں ۔

    ReplyDelete
  19. ہم نہ آئے آپکے اس دھوکے میں کہ گالی کو سبجیکٹیولی آبجیکٹیو سنس میں ایکسپلین کردیں ۔ فرائڈ کا حشر ہم نے بڑی ہی تفصیل سے پڑھا ہے بھلے ہی اب وہ ہیرو ہی کیوں نہ ہوں ۔

    ReplyDelete
  20. عنیقہ ایک صاحب فرمارہے تھے،
    عنیقہ میں نے صرف عبداللہ کے تبصرے مٹائے ہیں اب تک اور وہ جو اپنا درست نام نہیں لکھتے!۔
    اور عبداللہ کا کوئی تبصرہ کبھی بھی ہو گا خواہ کچھ بھی ہو میں نے مٹا دینے ہیں!
    ان کو میرا جواب ہے،
    میرا کام تو لوگوں کو آئینہ دکھانا ہے وہ میں کرتا رہوں گا اب اگرشکل ہی بری ہو تو آئینہ بےچارہ کیا کرے!!!
    :razz:

    ReplyDelete
  21. جاہل سنکی صاحب یا صاحبہ، فرائڈ کو چونکہ نفسیات کا باوا کہا جاتا ہے اسی واسطے ہم نے انک ذکر خیر کیا۔ در حقیقت، ہم تو خود چاہ رہے تھے کہ اگر کوئ اس سے مختلف یال رکھتا ہے تو آوے اور اپنے تبصرے میں اسکا ذکر کرے۔ لیکن ابھی ایسے تبصرے وصول نہ ہو پائے۔ جب تک فرائڈ صاحب پہ گذارا کریں۔

    ReplyDelete
  22. ابکے آپنے ہماری انکو تیسری یا چوتھی دفعہ گسہ کرنے موقع دیا ہے جی ۔ کاشف، عثمان، جعفر اور بدتمیز صاحبان، صاحب بننے میں ہماری مدد کریں ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ